لبوں کی جنبش !

جیا راؤ

محفلین
لیجئے جی اک اور غزل حاضرِ خدمت ہے۔ (آج ہی لکھوائی ہے:grin:)


سزائے ہجراں سنا گئی ہے لبوں کی جنبش
سراپا حسرت بنا گئی ہے لبوں کی جنبش

کسی کی دنیا اندھیر کر دی تمہاری "نہ" نے
کسی کو اپنا بنا گئی ہے لبوں کی جنبش

وہ ہونٹ کھلنا، وہ کپکپانا، صدا نہ دینا
ہماری جاں پر بنا گئی ہے لبوں کی جنبش

وہ شیریں لہجہ سنا ہے جب سے حواس کھوئے
ہمیں تماشہ بنا گئی ہے لبوں کی جنبش

بھلاؤں کیسے بچھڑتے دم اسکی دھیمی سسکی
شبوں میں اکثر رُلا گئی ہے لبوں کی جنبش
 
خوب لکھوایا ہے۔
سردی کے اس موسم ہیں اکثر
خوں رلا گئ ہے لبوں کی جنبش

معذرت کے ساتھ ۔ ۔ آج کل ہمارے ہونٹوں پہ سردی کے اثرات زیادہ ہیں۔ ۔ ساری چپ اسٹک ناکام ہو گئیں تو اس زمین میں اظہار کا یہ طریقہ ہاتھ آیا۔ ۔ ۔ ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوب، ماشاءاللہ بہت اچھا کلام ہے، اور اس غزل کی بحر بھی خوب منتخب کی ہے آپ نے، لا جواب۔ سبھی اشعار بہت اچھے ہیں مگر یہ اشعار تو خاص طور پر بہت اچھے لگے مجھے:


سزائے ہجراں سنا گئی ہے لبوں کی جنبش
سراپا حسرت بنا گئی ہے لبوں کی جنبش

وہ ہونٹ کھلنا، وہ کپکپانا، صدا نہ دینا
ہماری جاں پر بنا گئی ہے لبوں کی جنبش


اور آخر میں ایک چھوٹی سی گزارش اور وہ یہ کہ گو قافیے کی تکرار کوئی عیبِ سخن نہیں ہے اور سبھی شعرا کے ہاں قافیے کی تکرار ملتی ہے لیکن عموماً شعرا کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ قافیے کی تکرار نہ ہو اور اگر ہو بھی تو ایک سے زائد بار نہ ہو اور وہ بھی طویل غزلوں میں، لیکن آپ کی اس غزل کے پانچ اشعار میں ایک ہی قافیہ 'بنا' چار بار آیا ہے، امید ہے اس طرف بھی توجہ دیں گی۔

والسلام۔
 

حسن علوی

محفلین
بہت اچھی کوشش ھے جیا اور امید ھے اساتذہ کی نصیحت بھی ضرور پکڑیں گی اور مزید اچھا لکھیں گی۔
اچھی غزل ھے۔
 

الف عین

لائبریرین
غزلمیں خیالات واقعی اچھے ہیں اور نہ اس کے ’اوزان خطا‘ ہوئے ہیں۔ اس کی مبارک باد تو دے ہی دوں پہلے۔
فن کی بات بعد میں کروں۔
وارث نے محض قافئے کی بات کی ہے، جو درست ہے۔ البتہ کچھ اشعار اور ہو جائیں مختلف قافیوں میں تو ’بنا‘ قافئے کو درمیان میں ڈالا جا سکتا ہے اس طرح کہ اس قافئے کے اشعار میں کچھ فصل رہے۔
مطلع میں ایطائے جلی کھٹک رہا ہے۔ اس کے قافئے بنا اور سنا، دونوں میں ’ن‘ مشترک ہے۔ اور کیوں کہ محض بَ اور سُ قوافی نہیں ہوتے، اس لئے یہ قوافی غلط مانے جاتے ہیں اور اس غلطی کو ایطا کہتے ہیں۔ اب قوافی کو بدلنے کی سوچیں جویریہ۔
 

جیا راؤ

محفلین
بہت خوب، ماشاءاللہ بہت اچھا کلام ہے، اور اس غزل کی بحر بھی خوب منتخب کی ہے آپ نے، لا جواب۔ سبھی اشعار بہت اچھے ہیں مگر یہ اشعار تو خاص طور پر بہت اچھے لگے مجھے:





اور آخر میں ایک چھوٹی سی گزارش اور وہ یہ کہ گو قافیے کی تکرار کوئی عیبِ سخن نہیں ہے اور سبھی شعرا کے ہاں قافیے کی تکرار ملتی ہے لیکن عموماً شعرا کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ قافیے کی تکرار نہ ہو اور اگر ہو بھی تو ایک سے زائد بار نہ ہو اور وہ بھی طویل غزلوں میں، لیکن آپ کی اس غزل کے پانچ اشعار میں ایک ہی قافیہ 'بنا' چار بار آیا ہے، امید ہے اس طرف بھی توجہ دیں گی۔

والسلام۔

شکریہ وارث صاحب۔
آئیندہ ان باتوں کا بھ خیال رکھا جائے گا۔ انشاءاللہ۔:)
 

جیا راؤ

محفلین
غزلمیں خیالات واقعی اچھے ہیں اور نہ اس کے ’اوزان خطا‘ ہوئے ہیں۔ اس کی مبارک باد تو دے ہی دوں پہلے۔
فن کی بات بعد میں کروں۔
وارث نے محض قافئے کی بات کی ہے، جو درست ہے۔ البتہ کچھ اشعار اور ہو جائیں مختلف قافیوں میں تو ’بنا‘ قافئے کو درمیان میں ڈالا جا سکتا ہے اس طرح کہ اس قافئے کے اشعار میں کچھ فصل رہے۔
مطلع میں ایطائے جلی کھٹک رہا ہے۔ اس کے قافئے بنا اور سنا، دونوں میں ’ن‘ مشترک ہے۔ اور کیوں کہ محض بَ اور سُ قوافی نہیں ہوتے، اس لئے یہ قوافی غلط مانے جاتے ہیں اور اس غلطی کو ایطا کہتے ہیں۔ اب قوافی کو بدلنے کی سوچیں جویریہ۔

اتنے مشکل اصول و قواعد:eek:
یہ یقینًا ایک نئی بات پتہ چلی ہے ہمیں جس کے بارے میں ہم پہلے نہ جانتے تھے۔
شکریہ "الف عین" جی اک چیز سکھانے کے لئے :)
اگلی کاوشوں میں اس بات کا بھی مکمل خیال رکھا جائے گا انشاءاللہ۔
 
بات درست ہے

اتنے مشکل اصول و قواعد:eek:
یہ یقینًا ایک نئی بات پتہ چلی ہے ہمیں جس کے بارے میں ہم پہلے نہ جانتے تھے۔
شکریہ "الف عین" جی اک چیز سکھانے کے لئے :)
اگلی کاوشوں میں اس بات کا بھی مکمل خیال رکھا جائے گا انشاءاللہ۔


لہو نہ ہو تو کلام ترجمہ نہیں ہوتا
ہمارے دور میں آنسو زباں نہیں ہوتا
جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا
کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا
یہ کس مقام پہ لے آئی ہے میرے تنہائی
کہ مجہ سے آج کوئی بدگماں نہیں ہوتا
میں اسکو بھول گیا ہوں یہ کون مانے گا
کیسی چراغ کے بس میں دھواں نہیں ہوتا
 
لیجئے جی اک اور غزل حاضرِ خدمت ہے۔ (آج ہی لکھوائی ہے:grin:)


سزائے ہجراں سنا گئی ہے لبوں کی جنبش
سراپا حسرت بنا گئی ہے لبوں کی جنبش

کسی کی دنیا اندھیر کر دی تمہاری "نہ" نے
کسی کو اپنا بنا گئی ہے لبوں کی جنبش

وہ ہونٹ کھلنا، وہ کپکپانا، صدا نہ دینا
ہماری جاں پر بنا گئی ہے لبوں کی جنبش

وہ شیریں لہجہ سنا ہے جب سے حواس کھوئے
ہمیں تماشہ بنا گئی ہے لبوں کی جنبش

بھلاؤں کیسے بچھڑتے دم اسکی دھیمی سسکی
شبوں میں اکثر رُلا گئی ہے لبوں کی جنبش

بہت خوب جیا راؤ آپ تو بہت عمدہ غزلیں لکھوا رہی ہیں
کسی کی دنیا اندھیر کر دی تمہاری "نہ" نے
کسی کو اپنا بنا گئی ہے لبوں کی جنبش

بہت خوبصورت خیال ہے اور جس کی دنیا اندھیر کروائی ہے آپ نے وہ باوصف اس ظلم کے بیان پر آپ کو داد ضرور دے گا۔

ویسے کیا ریٹ‌ ہے آجکل غزل لکھوانے کا میں بھی سوچ رہا ہوں کہ جس طرح تھوک کے حساب سے غزلیں مارکیٹ‌ میں ‌ آ‌ رہی ہیں میں بھی ایک دو شاعروں کے ماہانہ وظائف مقرر کرکے ان سے آدھ درجن شاعری کی کتابیں لکھوا ہی لوں :)

یہ نہ ہو کہ گرانی کے باعث شاعروں کا معاوضہ بڑھ جائے اور ہم منہ تکتے ہی رہ جائے بنا کسی دیوان کے۔
 

جیا راؤ

محفلین
بہت خوب جیا راؤ آپ تو بہت عمدہ غزلیں لکھوا رہی ہیں


بہت خوبصورت خیال ہے اور جس کی دنیا اندھیر کروائی ہے آپ نے وہ باوصف اس ظلم کے بیان پر آپ کو داد ضرور دے گا۔

ویسے کیا ریٹ‌ ہے آجکل غزل لکھوانے کا میں بھی سوچ رہا ہوں کہ جس طرح تھوک کے حساب سے غزلیں مارکیٹ‌ میں ‌ آ‌ رہی ہیں میں بھی ایک دو شاعروں کے ماہانہ وظائف مقرر کرکے ان سے آدھ درجن شاعری کی کتابیں لکھوا ہی لوں :)

یہ نہ ہو کہ گرانی کے باعث شاعروں کا معاوضہ بڑھ جائے اور ہم منہ تکتے ہی رہ جائے بنا کسی دیوان کے۔

شکریہ محب جی۔
یہ راز کی باتیں ہم سب کو تھوڑا ہی بتاتے ہیں۔
:cool:
 
بہت خوب یونس صاحب، بس آخری مصرعے کے پہلے لفظ " کیسی " کو " کسی " میں بدل دیں۔

قسم سے وہ "کسی " ہی ہے ۔ ۔ مگر کیا کریں املا کی غلطیاں ہمارا مقدر ہیں۔

ورنہ ہمیں تو یہ لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

مان لوں کیسے کہ میں عیب سراپہ ہوں فقط
میرے احباب کا یہ حسن نظر لگتا ہے
 
Top