مزمل شیخ بسمل
محفلین
جلوہ فرماں دیر تک دلبر رہا
اپنی کہہ لی سب نے میں شسدر رہا
گو مرا دشمن زمانہ بھر رہا
مجھ پہ فضلِ خالقِ اکبر رہا
گو مرے در پے عدو اکثر رہا
جو مری قسمت کا تھا مل کر رہا
تاجِ زر شاہوں کے زیرِ سر رہا
سر مرا خود زینتِ افسر رہا
جسم بے حس بے شکن بستر رہا
میں نئے انداز سے مضطر رہا
میں وہاں گو بے زباں بن کر رہا
دل میں اک ہنگامہء محشر رہا
باغِ عالم دشت سے بڑھ کر رہا
سر میں سودا پاؤں میں چکر رہا
گو وہ گل پیشِ نظر دم بھر رہا
دل میں برسوں اک عجب منظر رہا
میں خرابِ بادہ و ساغر رہا
دل فدائے ساقئ کوثر رہا
قول جو حق تھا وہی لب پر رہا
حلق میرا گو تہہِ خنجر رہا
میں رہا رو باغِ ہستی میں مگر
بے نوا، بے آشیاں، بے پر رہا
سب چمن والوں نے تو لوٹی بہار
اور مجھے صیاد ہی کا ڈر رہا
یاد کر بلبل کبھی وہ دن بھی تھے
میں بھی تیرا ہمنوا اکثر رہا
کوئی سمجھا رند ، کوئی متقی
لب پہ توبہ ہاتھ میں ساغر رہا
تھم رہے آنسو، رہی دل جلن
نم رہیں آنکھیں کلیجہ تر رہا
عمر بھر پھرتا رہا ہوں دربدر
مر کے بھی چرچا مرا گھر گھر رہا
سب پڑھا لکھا میں بھولا یک قلم
اک سبق ہاں عشق کا ازبر رہا
سینکڑوں فکریں ہیں کو عاقلوں
تم سے تو مجذوؔب ہی بہتر رہا