مہ جبین
محفلین
لحد میں عشقِ رخِ شہ کا داغ لے کے چلے
اندھیری رات سنی تھی چراغ لے کے چلے
ترے غلاموں کا نقشِ قدم ہے راہِ خدا
وہ کیا بہک سکے جو یہ سراغ لے کے چلے
جناں بنے گی محبانِ چار یار کی قبر
جو اپنے سینے میں یہ چار باغ لے کے چلے
گئے ، زیارتِ در کی ، صد آہ واپس آئے
نظر کے اشک پچھے دل کا داغ لے کے چلے
مدینہ جانِ جنان و جہاں ہے وہ سن لیں
جنہیں جنونِ جناں سوئے زاغ لے کے چلے
حضور طیبہ سے بھی کوئی کام بڑھ کر ہے
کہ جھوٹے حیلہ مکر و فراغ لے کے چلے
تمہارے وصفِ جمال و کمال میں جبریل
محال ہے کہ مجال و مساغ لے کے چلے
گِلہ نہیں ہے مریدِ رشیدِ شیطاں سے
کہ اس کے وسعتِ علمی کا لاغ لے کے چلے
پڑی ہے اندھے کو عادت کہ شوربے ہی سے کھائے
بٹیر ہاتھ نہ آئی تو زاغ لے کے چلے
جو دِین کوؤں کو دے بیٹھے انکو یکساں ہے
کلاغ لے کے چلے یا الاغ لے کے چلے
رضا کسی سگِ طیبہ کے پاؤں بھی چومے
تم اور آہ کہ اتنا دماغ لے کے چلے
اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رحمۃاللہ علیہ