محمداحمد بھائی ایک تحریر ملی ہے مفصل اور حوالہ جات سے مزیں ہے دیکھئے ذرا
پٹھاں کہاں سے آئے تھے۔
پٹھان قوم پر یہ کالم دو سال پہلے لکھا تھا مگر اس دوران متعدد قارئین نے پٹھان کی تاریخ جاننے کے لیے میری جان کھائی ھوئی تھی۔ اس لیے یہ کالم پھر لکھ رھا ھوں۔ اور آیندہ آنے والے دنوں میں پٹھانوں کے علاوہ پاکستان میں بسنے والے دوسرے قبائل کی تاریخ پر بھی قلم آزمائی کروں گا۔ انتظارکریں۔ ایک تو مِہر اپ کو سب سے پہلے یہ بات بتاتا جائے کہ پٹھانوں کی تاریخ پر کوئی مستند کتاب پچھلی چند صدیوں میں نھیں لکھی گئی۔
دور حاضر میں یا پچھلے پچاس سال میں اگر کچھ کتابیں لکھی گئی ھیں تو ان قلم کاروں نے اپنی ذاتی راے یا ڈھکوسلے اور سنی سنائی بات پر اکتفا کیا ھے ۔کسی تاریخی کتب کا حوالہ نھیں دیا۔
میں ذاتی طور پر افغانستان، روس، آرمینیا، ایران کے ملکوں میں جا کر ان کے مشہور کتب خانے کھنگال بیٹھا ھوں مگر کوئی کتاب ایسی نھیں ملی جوشواھدات ء پٹھان کا پتہ دیتی ھو۔اسی دوران مِیرا لندن کی برٹش لائبریری میں جانے کا اتفاق ھوا۔ وہاں پر میں نے کافی محنت کے بعد برنارڈ ڈورن کی ایک کتاب ڈھونڈ نکالی۔ ۔نعمت اللہ الھراوی ایک اففان نے پٹھانوں پر تاریخِ افغانہ کے نام سے کتاب لکھی تھی اور برنارڈ جو کہ جرمن تاریخ دان تھا اس نے اس کتاب کا سنہ 1829 میں ترجمہ کیا تھا۔اس کے علاوہ ایک اور کتاب مجھے پڑھنے کا موقع ملا سنہ 1770 میں محمد زدیق نے تاریخِ حافظ رحمت خانی کے نام سے لکھی تھی جس کا ترجمہ خان روشن خان نے کیا تھا۔یہ دونوں کتابیں صرف یوسفزئی قبائل کی تاریخ بیان کرتی ھیں اور اس بات پر متفق ھیں کہ اس یوسف زئی قبیلے کا تعقلق بنی اسرائیل کے نبی حضرت یوسف علیہ سلام سے ھے اور ان کی اولاد میں سے ھیں۔ یہ بتاتے ھیں کہ ان کا یوسف زئی پٹھان قبیلہ بنی اسرائیل کے دس گمشدہ قبائل میں سے ھیں جو بنی اسرائیل سے بچھڑ گئے تھے کچھ یہودی مذھب پر رھے اور کچھ مسلمان ھو کر نبی پاکﷺ کے امتی بن گئے۔یہ تاریخ صرف ان یوسف زئی قبائل کا ذکر کرتی ھے جو کابل، باجوڑ، سوات پشاور اور چارسدہ کے ضلع تک اپنے قبیلہ تک آ کر چپ ھو جاتی ھے۔ برصغیر پاک و ھند میں رھنے والے باقی پٹھان قبائل پر یہ کتابیں یکسر خاموش ھیں۔میں نے اس کے علاوہ چند اور بھی غیر مستند کتابیں پڑھی ھیں جن میں ہر کتاب دوسری کتاب کے موقف کی نفی کرتی ھے۔کچھ مصنف لکھتے ھیں کہ پٹھان صدیوں پرانے بادشاہ شاہ سعول کی اولاد ھیں۔
کچھ لکھتے ھیں کہ پٹھان موسیٰ علیہ سلام کی بنی اسرائیل کے اس ٹولے سے ھیں جو ان کی نافرمان ھو گئی تھی اور دربدر بھٹکتی رھی۔کچھ انھیں حضرت ابراھیم علیہ سلام اور حضرت خضر علیہ سلام کی اولاد سے لکھتے ھیں۔کچھ انھیں سکندر اعظم کی فوج میں شامل فوجیوں سے جوڑتے ھیں جو سکندر کے واپس جانے کے بعد برصغیر میں سکونت اختیار کر گئے۔کچھ انھیں آریا نسل کی اولاد کہتے ھیں جو انڈو یورپین قبائل تھے۔مگر اس کے بعد انیسویں صدی میں پٹھانوں کے مختلف النسل قبائل کے مرے ھوئے لوگوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا گیا۔اس کے بعدان کی نسل کے بارے کیا نتیجہ اخذ کیا گیا
وہ میں آپ کو بتا رھا ھوں۔اس لیے میں ذیلی آرٹیکل میں زیادہ سے زیادہ اپنی ذاتی مطالعہ شدہ کتابوں کے ملتے جلتے حقائق کا نچوڑ لکھ رھا ھوں جو ایک صدی کے وقفہ سے اوپر نیچے لکھی گئیں اور ایک دوسرے کے موقف کی توثیق کرتی ھیں۔آپ لوگ سوشل میڈیا پر موجود اوٹ پٹانگ من گھڑت کہانیوں پر توجہ نہ دیا کرییں ۔جو پٹھانوں کے بارے تاریخ دانی کا رعب جھاڑتے رھتے ھیں۔نبی پاکﷺ کے زمانہ میں ایران کا ایک ظالم بادشاہ بخت نصر گزرا ھے۔بنی اسرائیل کے کچھ یہودی قبائل اس کے ظلم سے تنگ آ کر ھندوستان، کشمیر ، تبّت اور چین کی طرف چلے آئے تھےتواریخ سے اس بات کا بھی پتہ ملتا ہے کہ بعض یہودی اس ملک میں آ کر اپنی قدیم عادت کے موافق بدھ مذہب میں بھی داخل ہو گئے تھے۔اسرائیل میں بارہ قبائل آباد تھے جنہیں بنی اسرائیل کے اجتماعی نام سے پکارا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ صرف دو قبائل (آج کے یہودی) توریت پر عمل کرتے تھے جبکہ باقی دس قبائل توریت کو تسلیم نہیں کرتے تھے لیکن بنی اسرائیل کا حصہ تھے۔ آج کا شمالی اسرائیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے تقریباً آٹھ سو سال پہلے نینوا کی اشوریہ قوم نے فتح کرلیا تھا جبکہ جوڈا کے نام سے موسوم جنوبی علاقہ پر صدیوں بعد بابل سے آنے والے حملہ آوروں نے قبضہ کیا۔جب بابل کے فرماں روا بخت نصر نے یروشلم (موجودہ فلسطین )پر قبضہ کرکے اسرائیلی بادشاہت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تو بنی اسرائیل کے بہت سے قبیلے بھاگ کر ایران (فارس) کے قریب غور کے پہاڑوں میں جا بسے اور پھر یہاں سے دیگر خطوں تک پھیل گئے۔ہزاروں سال سے دنیا میں زمانہ قدیم کے گمشدہ یہودی قبائل کے بارے میں گردش کرنے والی داستانوں کے مطابق ایتھوپیا میں آباد فلاشا یہودیوں اور افغانستان، مشرقی ایران اور پاکستان کے پشتون قبائل کو ان یہودیوں کی نسل سمجھا جاتا ہے۔پشتون افغانستان میں سب سے بڑا نسلی گروپ اور پاکستان میں دوسرا بڑا نسلی گروہ ہے۔ خود بعض افغانوں کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ ان کے آباﺅ اجداد کا تعلق قدیم زمانہ کے یہودیوں سے تھاجبکہ افغانستان کے آخری بادشاۃ ظاہر شاہ مرحوم یہ اقرار کرتے رہے کہ ان کا تعلق بنی اسرائیل کے بن یامین قبیلے سے ہے۔اس طرح پاکستان اور افغانستان کی نصف آبادی یہودی قبیلے کے بچھڑے بہن بھائیوں پر مشتمل ہے۔عرب مسلمان حضرت اسماعیل علیہ السلام اور یہودی حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد ہیں جبکہ دونوں کے دادا حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک ہی ہیں۔
۲۳ نومبر ۱۸۹۸ء میں ایک انگریز تاریخ دان نے سول ملٹری گزٹ چھاپا تھا۔ انگریز نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ بعض جماعتیں یہودیوں کی اس ملک میں آئی تھیں اور اس ملک میں سکونت پذیر ہو گئی تھیں اور اسی پرچہ سول میں لکھا ہے کہ ’’ دراصل افغان بھی بنی اسرائیل میں سے ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نھیں کہپٹھان ایک بھادر، نڈر، دلیر، امن پسند اور مذھب سے محبت رکھنے والی قوم هے..بعض تاریخ دانوں نے انھیں بنی اسراییل کا گمشده قبیله قرار دیا تو بعض نے ان کا رشته یونانیوں سے جوڑ دیا.خان روشن خان نے اپنی کتاب َ” تزکرہ پٹھانوں کی اصلیت اور انکی تاریخ” میں پختونوں کی اصلیت اور ان کی تاریخ کو از سر نو مرتب تو کیا ھے مگرتاریخی مستند حوالے نھیں دے سکے۔سلطنت غوریہ 552ھ تا 603ھ تک قائم رھی۔۔ غوری خاندان کی اس حکومت کو تاریخ میں ”آل شنسب“ کی حکومت بھی کہا جاتا ہے ۔غوری خاندان کی حکومت سلطنت غزنویہ کے خاتمے کے بعد قائم ہوئی اس کے زمانے میں شمالی ہند اور بنگال میں پہلی مرتبہ اسلامی حکومت کی بنیادیں پڑیں۔غوری خاندان شروع میں خاندان غزنی کی حکومت کا باجگذار تھا اور کابل اور ہرات کے درمیان غور کے پہاڑی علاقے پر اس کی حکومت تھی۔اس علاقے کا مرکز فیروز کوہ تھا۔غور کے باشندے نسلاً پٹھان تھے ۔اس وقت تک اسلامی تاریخ میں جن قوموں نے نمایاں کردار ادا کیا تھا وہ عرب، ایرانی، ترک اور بربر تھے ۔غوریوں کے دور حکومت میں پٹھان پہلی مرتبہ اسلامی تاریخ کی ایک عظیم قوم کی حیثیت سے نمایاں ہوئےمیں نے تہران میں کچھ فارسی کتابوں کا مطالعہ کیا ھے۔اہل ایران پٹھانوں کو افغان کہتے ہیں ان کے مطابق جب بخت نصر نے ان لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا تو یہ لوگ اس ظلم سے تنگ آ کر موجودہ برصغیر میں ھجرت کر ائے تھے۔شاہ دول کے پوتے کا نام افغان تھا یہی افغانوں کا مورث اعلیٰ ہے۔ہندوستان والے انہیں پٹھان کہتے ہیں قندہار اور قزن کے باشندے خود کو پشتون کہتے ہیں۔خوست، وادی کرم اور باجوڑ والے بھی خود کو پشتون کہتے ہیں۔یہ سب الفاظ ایک ہی لفظ کی مختلف شکلیں ہیں۔یعنی افغان، اوغان ، پشتان، پٹھان۔خراسان میں ایک شہر پاشت ہے پشتان نیشا پور میں ایک مقام کا نام ہےافغان متعدد قبائل کا مجموعہ ہے جن کا جد امجد اعلیٰ ایک ہے۔مثلاً ابدالی، غوری، یوسفزی، ہنی منگل، کاکڑ، وزیری، محسود، بنویان، آفریدی،تنولی, خٹک ، بنگش، مہمند، غورغشت، نیازی وغیرہ وغیرہ۔ان قبائل کی ہزار ہا شاخیں ہیں اور پھران شاخوں کی ذیلی متعدد شاخیں جو اشخاص یا علاقے سے منسوب کی گئی ہیں۔مقام کے بارے میں ارباب تاریخ مختلف آرا پیش کرتے ہیں کہ وہ بحیرہ خضر کے باشندے ہیں جو سواحل کیسپین میں آباد تھےاور بلاد ایران میں غارت گری کیا کرتے تھے پھر بلاد خراسان میں آباد ہوئےبعض دریائے اٹک سے خراسان تک کے کوہستانی علاقے میں آباد لوگوں کو افغان کہتے ہیں۔بعض انہیں قطبیوں کی اولاد بتاتے ہیں جو بعد میں ہندوستان آئے تھے۔بعض انہیں بنی اسرائیل سمجھتے ہیں کہ بخت نصر نے ان کی اولاد اورخود انہیں قتل کر ڈالا اور بقایا جان بچا کر ان پہاڑوں میں جابسے۔جسے کوہستان غور کہتے ہیں ان لوگوں نے اپنے قدیم نام مسکن وادی غور میں واقع شام کے نام پر اس جدید مسکن کا نام بھی غور رکھا اور زبان کو بخت نصر کی طرف نسبت کرکے پختو کہا جو بعد میں پشتو ہوگیا۔عرب کے یہودیوں کے ساتھ مراسلات کا سلسلہ جاری رہا۔جب عرب یہودی مشرف با اسلام ہوئے تو انہوں نےخالد نامی شخص کو دعوت اسلام کے لیے ان افغانوں کے پاس بھیجا۔بعد میں افغانوں نے اپنے سرداروں کی ایک جماعت کو عرب میں بھیجا۔ان میں ایک شخص کا نام قیس تھا۔جس کا نسب نامہ 47 واسطوں سے اولاد بنی اسرائیل سے اور 55 واسطوں سے حضرت ابراہیم سے ملتا تھا۔خالد نے اس جماعت کو حضورﷺ کے پاس حاضر کیا۔
حضورﷺ نے قیس کا نام عبدالرشید رکھا افغانوں کی یہ جماعت فتح مکہ میں بھی شریک رہی تھی قیس کی وفات 47ھ میں ہوئی عمر 87 سال تھی۔عرب کے علاقے خیبر کی طرح یہاں سرحد میں بھی ایک مقام خیبر نام موجود ہے۔جمال الدین افغانی پشتونوں کو ایرانی الاصل کہتے ہیں ان کی زبان فارس کی قدیم زبان ژند اور سستا سے ماخوز ہے جو مروجہ فارسی سے مشابہ ہے۔چونکہ افغانوں کی نشونما سخت کوشی ، جفاکشی اور مہم پسندی پر ہوئی اس لیے یہ لوگ جنگ و جدل کرنےوالے لوگ رہے ہیں۔وہ کسی غیر کی حکومت کو آسانی سے قبول نہیں کرتے مزاج باغیانہ رکھتے ہیں مگر ساتھ مذہبی رجحانات بھی رکھتے ہیں۔جتنی پرانی تاریخ پشتونون کی ہے اتنی ہی پرانی تاریخ پشتو زبان کی ہیں۔جتنی پشتو پرانی زبان ہے اتنی ہی پرانی تاریخ پشتونوں کی ہے۔پشتو یا پختو ایک مشرقی ایرانی زبان ہے جو پٹھانی یا افعانی بھی کہلاتی ہے۔یہ افغانستان اور پاکستان میں بولی اور پڑھی جاتی ہیں۔ یہ افغانستان کی سرکاری اور قومی زبان بھی ہے۔ اسی وجہ سے اسے بین الاقوامی حیثیت حاصل ہے۔میں آپ کو بتاتا چلوں کہ میرا ایک دفعہ جیروشلم اسرائل چوری چھپے جانا ھوا تا کہ بیت المقدس کی زیارت کر سکوں۔وہاں ایک یہودی نے عبرانی زبان میں لکھی کتاب دی جو اسرائیل کی تاریخ پر تھی۔اس کا ترجمہ میں نے انگلش میں کروایا۔ اس میں لکھا تھا کہ پشتو سات ہزار سال پرانی زبان ہے۔“رگ وید” میں پشتوکا ذکرکیا گیا ہے۔ یہ کتاب 1400 قبل مسیح میں لکھی گئی ھے۔۔ اس لحاظ سے تقریباً 1400 سال پرانی زبان ھے۔ھیروڈوٹس یونانی مورخ نے سال ( 484-425 ) قبل مسیح میں پشتون وطن پکتیکا کا ذکر کیا ہے۔اس لحاظ سے یہ زبان تقریبا ( 2400 ) سال پرانی ہے۔کچھ اور تاریخی کتابوں میں میں پشتو زبان کی تاریخ کا ذکر کیا ہے۔ جن میں البحرسکائی ، بطلیموس بھی شامل ہے۔جاپان کے شہنشاہ میکاڈو کے کتب خانے میں مھاتما بدھ کے مذھب کی ایک کتاب تھی ۔اس کا رسم الخط پالی یعنی خروشتی ہے اور زبان پشتوہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے۔کہ پشتو رسم الخط اسلام سے پہلے پالی زبان یعنی خروشی زبان میں لکھی جاتی تھی۔ اس لحاظ سے پشتو ادب کی تاریخ ( 2500 ) سال پرانی ہے۔
ایران کی بادشاہ “داریوش” جس نے (522 سے 486 ق م) تک حکوت کی ہے۔اس نے پشتو زبان کے تین مصرعے لکھے ہیں جو میخی رسم الخط میں لکے گئے ھیں۔ اس لحاظ سے پشتو ادب (7500) سال پرانا ہے۔محمد ھوتک “پٹی خزانہ” پشتو کتاب میں لکھا گیا ھے کہ پشتو تیسری صدئ ھجرئ میں لکھی گئی۔
سنسکرت زبان پشتو سے کافی ملتی جلتی ھے۔اوستا سنسکرت پشتو اردو معنی گرم گھرمہ غرمہ دوپہر
جینی جینئ جینئ لڑکی
زیم جماکہ زمکہ زمین
حشب شپ شپہ رات
ون ون ونہ درخت
پشتو، سنسکرت اور اوستا زبان کی کئی سو الفاظ ملتے جلتے ہیں اور معنوی لحاظ سے بھی مشابھت رکھتے ہیں۔برصغیر میں انگریزوں کی آمد کے بعد انگریزوں نے پشتوکی تاریخ اور ادب سے لگاو کے بعد انکی تھذیب و تمدن پر معلومات حاصل کرنے کے لیے پشتو زبان سیکھی اور ان پر کتابیں لکھیں جس میں انکے مقاصد تھے۔یہ تصانیف اور تالیفات تین قسم کی ہیں۔
۱۔ وہ کتابیں جوپشتو گریمر کی ہیں جو زبان بولنے کہ لیے لکھی گئی ہیں
۔ ۲۔ وہ کتابیں جو پشتو ادب اور تاریخ کی تھی
۔ ۳۔ وہ کتابیں جو پشتونوں کی تھذیب و تمدن پر لکھی گئی ہیں۔
ان کے مصنفوں کے نام اور کتابوں کے نام درج ذیل ہیں۔
میجر راورٹی۔ .1
۔ انگریزی پشتوڈیکشنری۔ 1856ء
2۔ پشتو گرائمر 1856ء
3۔
۔ گلشن روہ جو 1860ء میں ھرٹ فورڈ میں چھاپی گئی۔
4۔ انجیل پشتو ترجمہ 1867ء
۔ ھنر والٹر بیلیو5
۱۔ تاریخ افغانستان ۲۔ پشتو ڈیکشنری ۳۔ پشتون گرائمر کتاب گرائمر آف دی پختوآر پشتولنگویج ۴۔ انجیل پشتو ترجمہ
. 6 برنرڈ ڈورن
۱۔ پشتو تاریخ ۲۔ پشتو روسی لغات کریستو مالتی اف دی پشتو
.7
پدری ھیوز اور ایک پادری تھامس پیٹرک ھیوز)
۔ کلید افغانی 1872ء ۲۔ انجیل پشتو تریجمہ
عشرت علی خان داؤدزئ نے بھی ایک کتاب پٹھان نامہ میں کچھ ھلکی پھلکی تاریخ لکھی ھے جو اکتوبر 2012 می شائع ھوئی۔دوستو۔آخر میں مِہر آپ کو بتاتا چلے کہ ” اللہ تعالی نےقران پاک میں فرمایا ھے۔” ہم نے تمہیں قبیلوں میں اس لیئے تقسیم کیا تا کہ تم پہچانے جا سکو”گویا قوم قبیلے خاندان ، پاڑے، خیل، تمن، گوت اور شاخیں اس لیئے وجود میں آئیں، کہ باہمی پہچان یا شناخت قائم رہ سکے۔مگر یہ یاد دلاتا جاوں کہ صرف پہچان یا شناخت۔
یہ نہ ہو کہ اس شناخت کو فخروغرور اور کِبرو نَخوت کا ذریعہ بنا لیا جائے۔سماج میں زندہ رہنے اور اپنی پہچان کرانے کے لیئے انسان بہت سی باتوں کا سہارا لیتا ہے۔کبھی وو نسلی اتحاد میں پناہ تلاش کرتا ہے تو کبھی لسانی، کبھی علاقائی تو کبھی مذہبیگویا آپس میں جڑے رہنے اور میل جول رکھنےکے کافی طریقے اس نے ایجاد کر لیئے ہیں تاکہ پہچانا جاسکے۔”۔یہ بات قابل ذکر ھے کہ پٹھان نسبتاً جوشیلا اور جزباتی ثابت ھوا ھے۔ایوب خان کے دور میں اندرا گاندھی نے پاکستان کو دھمکی لگائی کا پاکستان انڈیا پر حملے کو سوچے بھی نھیں کیونکہ انڈیا کے پاس سکھ موجود ھیں جن کے دن کو بارہ بجے سوئی پھنس جاتی ھے۔
جواب میں دوسرے دن ایوب خان نے جواب دیا تھا کہ انڈیا کسی مغالطے میں نہ رھے ۔ پاکستان کے پاس پورا سرحد پٹھانوں کا موجود ھیے جن کی ھمیشہ چوبیس گھنٹے سوئی بارہ بجے پر اٹکی رھتی ھے۔اس کے ساتھ ھیں یہ بھی حقیقت ھے کہ پٹھان سادگی میں بھی مشہور ھے۔جہاں طالبان نے عربوں ،پنجابیوں کے برین واش کر کے اپنی تنظیم میں شامل کیا وھاں پٹھانوں کی اکثریت بھی سادہ دلی میں ان درندوں کے ھتھے چڑھ گئی جو انھیں جنت میں جانے کے ٹکٹ الاٹ کرنے کی یقین دہانی پر اپنے آلہ کار بناتے رھیے ھیں۔آخر میں میرا پٹھانوں سے ایک ذاتی گلہ بھی ھے۔پچھلے سال میرے ایک کاکڑ پٹھان دوست نے مجھے اپنے پاس مہمان بلا کر بلوچستان میں تاوان کے لیے اغوا کیا اور میں نے جس طرح سے اس کے چنگل سے خلاصی پائی یہ آپ کو کسی دن سچی داستان سناوں گا۔مگر شائد اچھے برے انسان ھر نسل و قبیلہ میں ھوتے ھیں۔کسی کے انفرادی فعل سے اجتماعی طور پر سب کو قصور وار نھیں ٹھہرایا جا سکتا۔دنیا میں پٹھان ہی واحد قوم ہے جس میں اسلام کے بغیر کوئی مذہب نہیں اگر پٹھان سے پوچھا جائے کہ آپ پہلے مسلمان ہیں یا
پٹھان ؟تو جواب ہوگا کہ میں پانچ ہزار سال سے پٹھان ہوں اور چودہ سو سال پہلے کا مسلمان ہوں.پٹھان دوستوں سے التجا ھے کہ زیر زبر یا آرٹیکل میں کوئی اونچ نیچ ھو گئی ھو تو مِہر کو معاف کر دیں کیوں کہ میں دانستہ قلم میں ڈنڈی مارنے کو گناہ کبیرہ سمجھتا ھوں۔ میرے پاس جو امانت تھی آپ تک من و عن پہنچا دی
از مِہر لیاقت گنپال