1 - حرفِ چند از جناب مشفق خواجہ
2 - آنکھ رکھتا ہے تو پہچان مجھے
3 - اردو الفاظ میں چھوت چھات
4 - زبان کے معیار کا مسئلہ
5 - رسم الخط کی الجھن
6 - اختلافِ لسانی اور ادبی تراجم کے مسائل
7 - خس و خاشاک کی لغوی اہمیت
8 - اردو کے حدودِ اربعہ
9 - اردو اور سنسکرت
10 - زبان وسیلہء آشتی
11 - زبان اور تعلیمِ زبان
12 - اردو کی گنتی کے چند پہلو
13 - دو چشمی ھ کی کرشمہ کاریاں
14 - ہمزہ --------- ایک مظلوم حرف
15 - ہمارا ایک کارآمد حرف “ ڑ “
16 - حرف “ ن “ کا تعارف
17 - لفظ “ شہدا “ کی اصل
18 - جوتے کی اصل
19 - منا اور منی کی لغوی اصل
20 - اردو کے دو محاورے
21 - ایک لفظِ درد جو دردِ سر بن گیا
22 - کرخنداری اردو
23 - مکرر کہے بغیر
24 - اجنبی بولی
“ چچا جان! درد لڑکی ہوتی ہے یا لڑکا؟“ میری چھوٹی سی بھتیجی تہمینہ نے سوال کیا۔
میں نے کہا، “لڑکا۔“
وہ بولی “ کیوں؟“
میں نے کہا “ درد اٹھتی نہیں، اٹھتا ہے اور اچھی ہوتی نہیں، اچھا ہوتا ہے۔“
اُس نے حجت کی کہ درد کو لڑکا کیوں کہتے ہیں۔ وہ شاید کہیں درد کو مؤنث کہتے سن آئی تھی۔ میں نے کہا،
“ اس لیے کہتے ہیں کہ وہ شریر ہوتا ہے، تنگ کرتا ہے۔ لڑکیاں تو شریر نہیں ہوتیں نا! وہ تکلیف تو نہیں پہنچاتیں، آرام پہنچاتی ہیں۔“
“ مگر، مگر ۔۔۔۔“ وہ بولی، “ تکلیف تو لڑکی ہوتی ہے اور آرام لڑکا۔“
اِس پر میں ذرا چکرایا۔ بات بنانے کو کہا،
“ بھئی بعض لڑکیاں بھی تو شریر ہوتیں ہیں نا آخر! بس تو تکلیف ایک ایسی ہی شریر لڑکی ہے، مگر دیکھو! خوشی لڑکی ہے اور رنج لڑکا۔ اکثر اچھی اچھی چیزوں کو لڑکی ہی بنایا گیا ہے۔“
اِس پر وہ کچھ سوچ میں پڑ گئی۔ پھر بولی،
“ اچھا تو ان چیزوں کو لڑکا لڑکی بناتا کون ہے؟“ میں نے کہا،
“ بولنے والوں نے بنایا ہے۔ جیسے اللہ میاں کسی کو لڑکی، کسی کو لڑکا بنا کر بھیج دیتے ہیں۔“ اس نے کہا،
“ وہ تو اس لیے بناتے ہیں کہ بڑے ہوں گے تو ان کا بیاہ ہو جائے گا۔ کیا درد اور تکلیف کا بھی بیاہ ہوسکتا ہے؟“
اس کی منطق میرے لیے خاصی ٹیڑھی کھیر بن گئی تھی۔ میں پہلے تو فقط ہنس دیا، ذرا مُہلت لینے کے لیے کہ کوئی نکتہ سوجھے تو اس کی بات کا جواب دوں۔ کچھ نہ کچھ تو کہنا ہی تھا۔ میں نے کہا،
“ ہاں! ہوسکتا ہے بلکہ ہوتا ہے۔ جسمانی درد کا دِلی تکلیف کے ساتھ جوڑ لگتا ہی رہتا ہے۔ دونوں ایک ذات کے ہیں۔“
“ پھر کیا ان کے بچے بھی ہوتے ہیں؟“ تہمینہ آسانی سے پیچھا چھوڑنے والی نہ تھی۔ میں نے کہا،
“ ہاں! ہوتے ہیں، ضرور ہوتے ہیں۔ آہیں، آنسو، کراہیں، سِسکی، سُبکی، اُف، ہائے، توبہ ۔۔۔۔ اِنہی کے بچے تو ہیں۔ آنسو کو شاعر لوگ شریر لڑکا ہی بتاتے رہے ہیں، ٹھہرتا نہیں گھر سے نکل پڑتا ہے۔“ وہ بولی،
“ٹھہریے ٹھہریے! ایک آنسو کو چھوڑ کر یہ سب تو لڑکیاں ہی لڑکیاں ہیں۔ آہیں کراہیں، اف، ہائے، توبہ ۔۔۔۔“ میں نے کہا،
کیا مضائقہ ہے۔ ان کے لیے کوئی دان دہیز کا انتظام تو کرنا ہی نہیں پڑتا۔“ اب اس نے پوچھا،
“انہیں پہچانتے کیسے ہیں کہ کون لڑکی ہے کون لڑکا؟“
میں نے کہا، “ ایسے ہی جیسے انسانوں کو پہچانتے ہیں، یعنی نام سے اب کسی کا نام شاہدہ ہو تو وہ لڑکی ہے اور شاہد ہو تو لڑکا۔ شاِہد کی طرح قاصد، زاہد، والد، قائد، مرشد۔۔۔۔ سب لڑکے شمار ہوں گے۔“
یہاں میں نے اپنے آپ کو خود ہی پھندے میں پھنسا لیا۔ وہ جھٹ بولی،
“ مگر قائدہ تو لڑکا ہے۔ جب شاہدہ لڑکی ہے تو قائدہ اور فائدہ لڑکے کیسے ہوگئے؟ شاہدہ تو آتی ہے اور قائدہ پڑھا جاتا ہے اور فائدہ بھی ہوتی نہیں ہوتا ہے۔“ میں پھر کھسیانی ہنسی ہنسا اور کہا،
“ ہاں! یہ ذرا سی زیادتی ہوئی، مگر دیکھو اس کے بدلے قائدے کی جمع قوائد کو مؤنث بنادیا ہے۔ پولیس لائن میں روز صبح قوائد ہوتی ہے اور یہ جو ہم بات کر رہے ہیں، یہ بھی قوائد کا مسئلہ ہے۔ مذکر مؤنث کا معاملہ۔ اپنی زبان کی قوائد سیکھنی نہیں پڑتی، خود بخود آجاتی ہے۔ دوسرے لوگ چونکتے ہیں کہ کوئی لفظ مذکر اور کوئی مؤنث کیوں ہے۔“
میں خفت مٹانے اور بھرم رکھنے کے لیے اونچی باتیں کرنے لگا، علمیت بگھارنے لگا اور قوائدِزبان پر تقریر شروع کردی کہ سب زبانوں میں سب کے اتفاق سے کچھ ایسے قوائد بن جاتے ہیں جنھیں منطقی طور پر سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔۔۔۔۔“ مگر پہلے ہی قدم پر پاؤں پھِسلا۔ وہ فوراً بولی،
“ قوائد بن جاتے ہیں کہ بن جاتی ہے؟ ابھی تو آپ نے کہا کہ قوائد کو قائدے کی جگہ لڑکی بنایا ہے، قوائد کی جاتی ہے اور پڑھی جاتی ہے، پھر فوائد کو کیوں لڑکی نہیں بنایا؟“
تہمینہ پٹڑی بدلنے کو تیار نہ تھی۔ اپنی ہی اصطلاحوں میں بات کرتی رہی اور ایک ہی جملے میں مجھے کئی پھندوں میں کس دیا۔
میں نے ذرا سنبھل کر استادی کا دم بھرتے ہوئے کہا،
“ دیکھو! یہ تذکیر تانیث کا مسئلہ ہے۔ ہمارے یہاں یہ سماعی نوعیت کی واقع ہوئی ہے ، یعنی ہمارے کان بتاتے ہیں کہ کون سا لفظ مذکر ہے اور کون سا مؤنث۔“
“ لیکن اگر لفظ لکھ ہوا ہو تو کان کیسے بتائیں گے؟“ یہ تہمینہ کی کٹ حُجتّی تھی۔ بولی،
“ کان ہوں یا آنکھیں، کیا یہ آپ ہی آپ کسی لفظ کو لڑکا اور کسی کو لڑکی بناسکتے ہیں؟“ میں نے سنجیدگی قائم رکھتے ہوئے کہا،
“ مطلب یہ کہ سن کر یا دیکھ کر محسوس ہو جاتا ہے کہ لفظ مؤنث ہے یا مذکر۔“
“ مگر مجھے تو درد لڑکی لگتی ہے۔“ اس نے اپنی چلائی۔
میں نے پیچھا چھڑانے کو کہا،
چلو! یونہی سہی۔ تم یونہی بولا کرو اور بھی لوگ بولتے ہیں۔ تم اکیلی نہیں ہو:
ایک بیدادِ رنج فزا اور سہی
پہلے لکھنؤ والے تذکیر و تانیث کی گڑبڑ ڈالتے تھے اور دلّی والوں کی چھاتی پر مونگ دلتے تھے۔ اب اور بھی افراتفری مچ گئی ہے۔ مگر یاد رکھو! تذکیر تانیث کی کچھ واضح علامتیں بھی ہیں۔ مثلاً “ ی “ پر ختم ہونے والے لفظ تم دیکھو گی کہ مؤنث ہوں گے اور الف پر ختم ہونے والے لفظ مذکر۔ جیسے : امی اور ابا، نانی اور نانا، مرغی اور مرغا، بکری اور بکرا، کنگھی اور کنگھا،لڑکی اور لڑکا، بیوی اور۔۔۔۔۔ خیر! تمہاری چچی اور میں چچا۔
تہمینہ سوچ میں پڑگئی۔ بیحد حجتی واقع ہوئی ہے۔ بولی،
تو بھائی کو بھائی کہنا غلط ہے، بھا کہا کروں گی یا بھیا اور آپا کو آپی لیکن یہ تو بڑی گڑبڑ کی بات ہے۔ کیا دھوبن کو دھوبی لکھوں اور دھوبی کو دھوبا؟ آدمی تو خیر عورتیں بھی ہوتیں ہیں اور شاید کچھ زیادہ ہی آدمیت ہوتی ہے ان میں کہ آدمی کے آخر میں لڑکیوں والی “ ی “ آتی ہے، مگر ہاتھی کو کیا کہوں، لڑکی یا لڑکا؟ ہتھنی تو خیر ٹھیک ہے۔“
میں نے بات کا رخ بدلتے ہوئے کہا،
“ ہتھنی میں جو “ نی “ ہے ، وہ تانیث کا ہے۔ “ نی “ بھی ایک علامتِ تانیث ہے ۔“ تہمینہ جھٹ بولی،
“ جیسے پانی اور وہ آپ نے اس دن کیا لفظ بولا تھا شعر میں۔۔۔ بَندھانی؟“
میں نے خعد کو داد دیتے ہوئے مزہ لے کر شعر پڑھا:
کہا یہ لوگ بندھانی کو جوتے خور کہتے ہیں
تو فرمایا کہ لگتا ہے مجھے تو بھی اِسی جوگا
اور اسے سمجھایا،
“ دیکھو! پانی میں “ نی “ کوئی الگ سے لگا ہوا لاحقہ نہیں، لفظ کا لازمی جزو ہے اور بندھانی میں جو ی ہے وہ پیشے کو ظاہر کرنے والی “ ی “ ہے ۔ جیسے : درزی، دھوبی، موچی، نائی، قصائی، بڑھئی، بساطی، کبابی۔“ وہ بولی،
تو یہ سب ، کیا کہتے ہیں اسے مؤنث ہیں اور دایا، انا، ماما، آیا۔۔۔۔۔ کیا کہتے ہیں، مذکر؟ آیا آئی کہ آیا آیا؟“
وہ پھندے پر پھندا ڈالتی جارہی تھی۔ بھلے کو مجھے ایک ضروری کام یاد آگیا اور میں نے یہ کہتے ہوئے پیچھا چھڑایا،
“ ابھی تو تم کو سمجھانا مشکل ہے، بڑی ہوجاؤگی تو سمجھ سکو گی کہ اردو نے کئی زبانوں سے اثرات قبول کیے ہیں، کہیں سنسکرت سے تانیث کا الف لیا ہے، کہیں پراکرت سے تذکیر و تکبیر یا تحقیر کا الف۔ اسی طرح “ ی “ کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ یہ صفت کے لیے بھی آتی ہے، نسبت کے لیے بھی۔“ اس نے کہا،
“ نسبت کے لیے تو انگوٹھی آتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم آپ کیا کہہ رہے ہیں۔“
اگر میں کہوں کہ جوتے کی اصل بیلوں کی جوڑی ہے تو شاید آپ مسکرائیں اور پوچھیں کہ آخر جوڑی ہی کیوں جب ایک ہی بیل کے چمڑے سے کئی جوتے بن سکتے ہیں ۔ تو عرض ہے کہ میری مراد جوتے کی جنس سے نہیں بلکہ لفظ “ جوتا“ کی اصل سے ہے۔ جسے اصطلاح میں اشتقاق کہتے ہیں، یعنی لفظ کی اصل اور اس سے بننے والی مختلف شکلوں کا کھوج لگانا۔ اب آپ شاید پھر مسکرائیں اور کہیں کہ کہاں جوتا، کہاں بیل۔ اگر جوتے کے نام کی جگہ جنس ، یعنی پاپوش سے مراد ہوتی تب بھی بات سمجھ میں آتی ۔ بیل اور جوتے کے ناموں میں تو کوئی بھی چیز ایک حرف بھی مشترک نہیں ۔ تو عرض کروں گا کہ حقیقت یہی ہے جو ماہرینِ لسانیات نے دریافت کی ہے اور غور کرنے سے سمجھ میں بھی آتی ہے، یعنی لفظ “ جوتا “ سنسکرت لفظ “ یُکت“ سے مشتق ہے یا یہ دونوں لفظ “ جوتا “ اور “ یُکت “ کسی اور مشترکہ لفظ سے نکلے ہیں اور “ یُکتہ “ کے اصلی معنی تھے بیلوں کی جتی ہوئی جوڑی اور “ یوگم “ وہ جُوا جو دونوں کے کاندھوں پر دھرا ہوتا تھا۔ پھر یہ لفظ صرف جوڑی کے لیے استعمال ہونے لگا اور جوڑی بیل کی ہو یا جوتے کی بہرحال ہے تو جوڑی۔
“ نہیں صاحب ہم نہیں مانتے۔“ میرے ایک دوست کہنے لگے، “ یہ کوری زبردستی ہے۔ “
میں نے کہا ، ٹھہریے! ، فارسی میں جوتے کو کیا کہتے ہیں،؟“
بولے ، “ جُفت ۔ “
میں نے کہا، “ اس کے بھی معنی یہی ہیں “ جوڑی “ اور مان لیجیے کہ جُفت اور یُکت اور جُوتا ، سب ایک اصل کے آریائی الفاظ ہیں۔ “ ہمارے یہاں“ یکت “ رفتہ رفتہ “ جکت “ بنا، پھر “ جوت “ پھر جوتا، یعنی ہمارے جوتے نے سنسکرت کے “ یُکت “ سے زیادہ لمبا سفر طے کیا ہے۔ یہ زیادہ تراشیدہ ہے اور اس نے ایک مستقل جنس کے معنی اختیار کر لیے ہیں۔ ، چنانچہ آپ یہ بھول کر کہ جَتّا اور جُوتا کے اصل معنی جوڑی تھے، بلا تکلف جوتے کی جوڑی بولتے ہیں، یعنی جوڑی کی جوڑی نہیں بلکہ ایک خاص چیز کی جوڑی۔ پنجابی میں آج بھی جوڑی سے مراد “ جوتا لی جاتی ہے۔
آریائی زبانوں کا سلسلہ یہاں سے یورپ تک پھیلا ہوا ہے، چنانچہ انگریزی لفظ “ Yoke “ بھی دراصل یوگ، یوگم اور یکت کا ہم اصل اور ہم معنی ہے اور اس لحاظ سے ہمارے جوتے ، جوت، جوتی وغیرہ کا بھی رشتہ دار ہے۔ اگرچہ وہاں اس نے وہ معنی پیدا نہیں کیے ۔ نیز انگریزی لفظ Join جوڑنا بھی اسی اصل سے ہے۔
زبانیں یونہی بنتی ہیں ۔ لفظ میں سے لفظ نکلتا ہے بشرطیکہ زبانیں استعمال میں رہیں۔ اگر کسی زبان کو ترک کردیں تو پھر اس کی نشونما رک جاتی ہے، لفظ بننے بند ہوجاتے ہیں۔ مصنوعی طور پر جو لفظ یا اصطلاحیں بنائیں جاتی ہیں اور بن بن کے فرہنگوں میں بند ہوجاتی ہیں، ان مین وہ بات ، وہ بیساختگی نہیں ہوتی۔ ضرورت کے تحت عوامی جینیس الفاظ سازی میں بڑا کمال دکھاتا ہے۔
اب دیکھیے کہ اصطلاح ساز تو ٹامک ٹوئیاں ہی مارتے رہتے ، شاید عربی لفظ “ جدرین “ کو اپنانے کی صلاح دیتے ۔ عوام نے Vaccination کے لیے ہلکا پھلکا سا لفظ بنا لیا “ ٹیکا “ ۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ جس طرح جوتے کی اصل بیلوں کی جوڑی تھی Vaccination کی اصل “ گائے “ ہے ! لاطینی میں Vaccinus کے معنی “ گائے کے متعلق “ ۔ ٹیکے دراصل پہلے پہل اس مرض کے لیے لگائے گئے تھے جسے Cow pox کہتے ہیں ۔ لاطینی لفظ Vacca بمعنی گائے کا سلسلہ بھی سنسکرت لفظ “ گاوکا “ اور ہماری گائے سے ملتا ہے۔ لیجیے! بات بیل سے چل کر گائے تک پہنچی۔