لشکری زبان: اردو زبان کا آغاز و ارتقا

زیف سید

محفلین
یہ مضمون انہی صفحات پر انگریزی زبان میں پیش کیا جاچکا ہے۔ لیکن دوستوں کا اصرار تھا کہ مضمون کی زبان اردو ہونی چاہیے۔ ترجمے کے لیے کافی وقت درکار تھا، کیوں کہ میرا ارادہ مضمون کو نئے سرے سے لکھنا تھا، نہ کہ حرف بہ حرف ترجمہ۔ لیکن ہوا کیا کہ کوشش کے باوجود بھی میں اصل مضمون سے بہت دور جانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ خیر، مضمون حاضر ہے: میں اردو ان پیج میں لکھی تھی، ہوسکتا ہے یونی کوڈ میں منتقلی کے دوران فارمیٹنگ کے اغلاط در آئے ہوں۔ ہو سکے تو ان سے صرفِ نظر کر دیجیئے گا:

لشکری زبان:
تیرہویں صدی عیسوی کے آغازمیں وسطی ایشیا کی چراگاہوں سے ایک ایسا طوفان اٹھا جس نے معلوم دنیا کی بنیادوں کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ چنگیز خان کی سفاک دانش کی رتھ پر سوار منگول موت اور تباہی کا پیغام ثابت ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر کے بعد شہر،علاقے کے بعد علاقہ اور ملک کے بعد ملک سرنگوں ہوتے چلے گئے۔ محض چند عشروں کے اندر اندر خون کی ہولی کھیلتے، کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کرتے،سنگین قلعوں اور عا لی شان محلوں کی راکھ اڑاتے منگول بیجنگ سے ماسکو تک پھیلی دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی متصل سلطنت کے مالک بن گئے۔

اس سے پہلے کہ آپ سوچیں کہ اس سب قصے کا اردو سے کیا تعلق ہے، میں جلدی سے اضافہ کردوں کہ یہی وہ اتھل پتھل تھی جس نے لفظ ’اردو ‘کو معلوم دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلا دیا۔ اس سے پہلے کہ ہم اس بات کی تفصیل میں جائیں، پہلے کچھ لفظ’اردو‘کے اشتقاق کی بات ہو جائے۔

ہر کوئی یہ سمجھتاہے کہ اردو ترکی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب لشکرہے۔ اور اسے لشکر اس لیے کہا جاتا ہے کہ چوں کہ مغلوں کی افواج میں کئی زبانیں بولنے والے سپاہی تھے، ان کے اختلاط سے ایک نئی زبان وجود میں آگئی۔ اس بات پر بحث آگے آئے گی لیکن پہلے میں ایک قیاس پیش کرتا چلوں کہ ہو سکتا ہے اردو ترکی کا نہیں بل کہ اصل میں سنسکرت زبان کا لفظ ہو!
اور وہ یوں کہ پرانی ترکی میں ایک لفظ پایا جاتا ہے، ’اُرتا‘ ، جس کے معنی ہیں، مرکز۔ یہ لفظ بعدمیں تبدیل ہو کر ’اوردُو‘ ہو گیا اور محل یا دارالحکومت کے معنی میں استعمال ہونے لگا )اس سے ملتا جلتا استعمال عربی لفظ ’صدر‘ کے ضمن میں سامنے آتا ہے۔ صدر ویسے تو چھاتی کو کہتے ہیں لیکن دیکھئے کہ پاکستان کے کئی شہروں کے مرکزی علاقے کو صدر کہا جاتا ہے۔مزید یہ کہ ’صدر مقام‘ دارالحکومت کو کہا جاتا ہے(۔ اب ملاحظہ ہو کہ سنسکرت کا لفظ ’ہردے‘ (دل) نہ صرف صوتی بلکہ معنیاتی اعتبار سے بھی ترکی ’اُرتا‘ اور ’اوردو‘سے مشابہ ہے۔ چوں کہ سنسکرت ترکی سے زیادہ قدیم زبان ہے، اس لیے ممکن ہے التائی کی چراگاہوں کے خانہ بدوشوں نے یہ لفظ سنسکرت سے اخذ کیا ہو ۔ اگر قاری کے ذہن میں یہ سوال اٹھے کہ کہاں ہندوستان اور کہاں وسطی ایشیا کی چراگاہیں، توعرض ہے کہ ترکی زبان کی تمام قبل از اسلام مذہبی تحریریں بدھ مت سے متعلق ہیں(ارکان ترکمان، 1987ء)۔ اس پہ مستزاد، سنسکرت زبان کا ایک مادہ ’اُر‘ بھی ہے جس کا مطب بھی دل ہے(برج موہن کیفی، 1966ء)۔

اب ہم لفظ اردو کی ترسیل کی طرف آتے ہیں۔ تحریری ترکی کی سب سے پرانی مثال منگولیا کی ایک لاٹھ پر کندہ ملتی ہے، جسے کُل تگین تحریر کہا جاتاہے۔ یہ یادگار 732ء میں اس نام کے ایک بادشاہ کی یاد میں اس کے بھائی نے تعمیرکرائی تھی۔ تحریر کا رسم الخط گوک ترک ہے اور اس میں کل چھیاسٹھ سطور ہیں۔

اس لاٹھ کی موضوعِ زیرِ بحث سے متعلق بات یہ ہے کہ اس میں الفاظ ’اورتو ‘ اور ’اوردو‘ کئی بارآئے ہیں۔ انٹر نیٹ پر اس لاٹھ کی زبان کی فرہنگ موجود ہے جس میں ان الفاظ کے معنی کچھ یوں دیے گئے ہیں:

اورتو: کاغان (مفرس شکل خاقان ،یعنی بادشاہ) کی رہائش گاہ، دارالحکومت

اوردو: درمیان، مرکز
زمانہ کے اوراق تیزی سے پلٹ کر ہم ساڑھے تین صدیوں بعد یوسف خاص حاجب کی سیاسی جوڑ توڑ پر مبنی کتاب ’مقدس دانش‘ (1072ء) میں لفظ اردو کو دومختلف معانی میں استعمال ہوتا دیکھتے ہیں:

1 ’ہر شہر ، ملک ، اور ’اردو‘ میں اس کتاب کانام مختلف تھا (سلجوق یونیورسٹی، ترکی ، کے ڈاکٹر ارکان ترکمان نے لکھا ہے کہ یہاں ’اردو‘ کا مطلب محل ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کا مطلب دارا لحکومتبھی ہو سکتا ہے)۔
2 (وہ) ایک الگ’اُردو‘ کے رہنے والے تھے (شہر)
3 دنیا قید خانہ ہے، اس کی محبت میں مت گرفتار ہونا۔ بلکہ ایک بڑے ’اردو‘ اور ملک کی جستجو کرناتاکہ چین سے رہ سکو (محل، شہر، دارالحکومت)
4 موت نے بڑے بڑے ’اُردو‘ اور ملک اجاڑ دیے (شہر)

شایدبہت سے لوگوں کے لیے’ مقدس دانش ‘میں اردو لفظ کاشہر کے معنی میں استعمال نیا ہولیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ ترکی میں ’اوردو‘کے نام سے ایک صوبہ ہے اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ اس صوبے کے دارالحکومت کا نام بھی ’اوردو‘ ہے۔ بحیرہٴ روم کے ساحل پر سرسبز وشاداب جنگلوں سے گھراہوایہ چھوٹا سا شہرقا بلِ دید مقام ہے۔

لیکن یہ گمان نہ رہے کہ کسی شہر کے نام کی مندرجہ بالا مثال انوکھی ہے۔ اس نام کے کئی اور شہر بھی گزر چکے ہیں۔ پاکستان کی سرحد کے قریب واقع چینی شہر کاشغر کا منگول نام ’اردو قند‘ تھا۔ اسی طرح ایک اور شہر ’اردو بالیغ‘ کے نام سے تھا،جسے بعدمیں قراقرم کہاجانے لگا (حافظ محمودشیرانی، 1929ء)۔


سنہرا کیمپ
چوں کہ پہلے ہزاریے میں خانہ بہ دوش ترکوں اور منگولوں کے درمیان کافی ربط و اختلاط رہا ہے (جس کا اندازہ کل تگین لاٹھ کے منگولیا میں تعمیر کیے جانے سے لگایا جاسکتا ہے)، منگولوں نے لفظ اردو ترکی زبان سے مستعار لے لیا اور اسے محل کے معنوں میں برتنے لگے(خیال رہے کہ ترکی اور منگولیائی زبانوں کے التائی گروہ سے تعلق رکھتی ہیں اور ان میں آپسی رشتہ موجود ہے)۔ جدید منگولیائی لغات اب بھی اس لفظ کے معنی محل ہی بتاتی ہیں۔ منگولوں کا مقدس ترین مقام وہ جگہ ہے جہاں چنگیز خان کی باقیات محفوظ کی گئی تھیں۔ اسے ’اردوس‘ کہا جاتا ہے (اویون بیلگ، 1997)۔

لیکن چوں کہ منگول خانہ بہ دوش تھے اور اپنی زندگیوں کا بیش تر حصہ خیموں میں گزارا کرتے تھے، لفظ اردو خیمہ یا کیمپ کے معنی میں استعمال کیاجانے لگا۔

1235ء میں چنگیز خان کے جانشین اوغدائی خان نے باتو خان کی قیادت میں ایک لشکر یورپ کی سمت روانہ کیا۔ چند سالوں کے اندر اندر اس لشکر نے روس، پولینڈ اور ہنگری کو روند کے رکھ دیا۔ اس تمام مہم کے دوران ایک منقش طلائی خیمہ باتو خان کے زیرِ استعمال رہا، جس کی وجہ سے تمام لشکری خیمہ گاہ کو ’التون اوردو‘ یا سنہرا کیمپ کہا جانے لگا۔ باتوخان نے 1242ء میں مشرقی یورپ میں منگول سلطنت کی داغ بیلڈالی جو پندرھویں صدی تک قائم رہی۔ اسی اثنا میں لفظ اردو بھی یورپ کی زبانوں میں داخل ہونے لگا۔ اطالوی اور پرانی یوکرینی میں یہ ’اُردا‘ کے روپ میں ڈھلا، پولش اور ہسپانوی میں ’ہوردا‘ بن گیا، سوئس میں ’ہورد‘ کہلایا اور بالآخر مغرب کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے 1555ء میں انگریزی اور 1559 ء میں ’ہورڈ‘بن کر فرانسیسی میں داخل ہو گیا۔ رچرڈ ایڈن کی کتاب ’نئی دنیا کے عشرے‘ انگریزی زبان کی وہ کتاب ہے جس میں یہ لفظ پہلی بار استعمال ہوا ہے۔

اس قسم کے خیمے اب بھی منگولیا میں عام ہیں اور انہیں آج کل ’گَر‘ کہا جاتا ہے۔نیشنل جیوگرافک رسالے سے اقتباس:

کہیں نہ کہیں آپ کو ایک گول خیمہ نظر آجائے گاجسے منگول گَر کہتے ہیں۔ ہم ایسے ہی ایک خیمے کے باہر رکے اور چائے کے لیے گرم پانی مانگا۔ گنگا نامی ایک عورت نے کمال مہمان نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیتلی چولہے پر رکھ دی۔

میں نے اس سے پوچھا کہ آپ لوگ گھروں میں کیوں نہیں رہتے؟ ”گھر کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہیں کیا جاسکتا۔“ اس نے یوں جواب دیا جیسے اس سے بڑھ کر کسی اور بات کی اہمیت ہی نہ ہو۔ ”آپ اسے یہاں سے وہاں، یا وہاں ، یا وہاں نہیں لے جا سکتے،“وہ ہاتھوں سے اشارہ کرتے ہوئے بولی۔ مجھے تو گنگا کا گھر اچھا خاصا پائدار معلوم ہوا۔ اس میں چارپائیاں تھیں، الماریاں تھیں، حتیٰ کہ دیواروں پر تصویریں تک ٹنگی ہوئی تھیں۔ لیکن اس نے بتایا کہ اس کا خاندان اپنے جانوروں کے لیے بہترچراگاہوں کی کھوج میں اس سال تین بار نقل مکانی کر چکاہے۔ ایک گر کو تہکرنے میں صرف ایک گھنٹا لگتا ہے (مائیک ایڈورڈز، 1996)

جب منگول ایران میں آبسے تو لفظ اردو بھی ان کے ساتھ ہی چلاآیا۔ علاؤالدین عطا کی کتاب ’جہاں کشا‘ فارسی کی قدیم ترین کتاب ہے جس میں اس لفظ کو برتا گیا ہے (شیرانی، 1929ء)

چلتا پھرتا شہر
ہر چند کہ ہندوستان میں لفظ اردو کے استعمال کی چند قبل از مغل دور مثالیں مل جاتی ہیں، لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ بعد میں اضافہ کیا گیا ہے (شیرانی 1928ء)۔ تاہم ظہیر الدین بابر کے وقت یقینا لفظ اردو کا استعمال عام ہو چکاتھا ، حتیٰ کہ خود بابر نے اسے اپنی تزک میں لکھا ہے۔ اکبر کے دور میں اس لفظ کے مرکبات عام استعمال کیے جاتے تھے، مثال کے طور پر ’اردوے معلیٰ‘، ’اردوئے علیا‘، ’اردوے بزرگ‘، حتیٰ کہ’ اردوے لشکر‘۔تمام مرکبات میں اردو کا مطلب شاہی کیمپ ہے (شیرانی، 1929ء)۔ اکبر کے درباری وقیعہ نویس ابوالفضل نے اپنی مشہور کتاب ’آئینِ اکبری‘ میں ایسی ہی ایک خیمہ گاہ ’اردوئے ظفر قریں‘کا ذکر تفصیل سے کیا ہے:

شاہی خیمے اور حرم کے لیے ایک 1530 گزلمبا میدان منتخب کیا گیا۔ ان میں سب سے بڑا اور اہم خیمہ گلال باڑ ہے جو ایک قلعہ نما، تہ ہو جانے والاچوبی خیمہ ہے جس کی لمبائی اور چوڑائی سو سو گز ہے۔ اس کے جنوبی حصے میں دربارہے جس کے 45 حصے ہیں، ہر حصہ 24 ضرب 24 گز ہے ۔ مرکز میں دو منزلہ چوبی شاہی محل ہے جہاں بادشاہ صبح عبادت کرتا ہے۔ بیگمات اس حصے میں بغیر اجازت داخل نہیں ہو سکتیں۔ اس سے ملحق 24 چوبی راوٹیاں (چوکور خیمے) ہیں ، ہر ایک 10 ضرب 10 گز ہے جہاں بیگمات رہائش پذیر ہوتی ہیں۔ ۔۔ وسط میں بڑا چوبی دربار ہے ۔ ایک ہزار ملازم اسے نصب کرنے پر مامور ہیں۔ اس کے 72 دروازے ہیں اور اس میں دس ہزار لوگوں کی نشست کی گنجائش ہے۔ (شیرانی، 1929ء)

آپ نے دیکھا کہ خیمہ گاہ کیا ہے، چلتا پھرتا شہر ہے۔ جرمن مورخ فریڈرک آگسٹس نے بھی اپنی کتاب ’شہنشاہ اکبر‘ میں ایک خیمہ گاہ کا ذکر کیا ہے:
ایسے ہر خیمے کی ترسیل کے لیے 1000 ہاتھی، 500 اونٹ، 100 بیل گاڑیاں اور 100 قلی استعمال کیے جاتے تھے۔(آگسٹس 1885ء)

’اردوے ظفر قریں‘ میں ایک سفری ٹکسال بھی تھی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے بھی اردوے ظفر قریں کہا جاتا تھا۔ یہ ٹکسال جہانگیر اور شاہجہاں کے وقت بھی زیرِ استعمال تھی اور بعد میں صرف اردوکہلانے لگی (شیرانی، 1929ء)۔ اس ٹکسال کے کئی سکے اب بھی پائے جاتے ہیں جن پر ’ضربِ اردوے ظفر قریں ‘ کندہ ہے۔ ان میں سے کچھ سکوں کی تصاویر انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہیں۔

دلّی جو ایک شہر تھا
بابر کے جانشین دہلی کے کچھ زیادہ دل دادہ نہیں تھے اور اس پر آگرے یا لاہور کو ترجیح دیتے تھے۔ اکبر نے تو خیر کبھی دہلی کی سرزمین پر قدم ہی نہیں رکھا ۔ تاہم فنِ تعمیر کے شوقین شاہجہان نے جب اپنے لیے ایک نیا شہر بسانا چاہا تو اس کے مہندسوں نے جو جگہ منتخب کی وہ دریاے جمنا کے کنارے دہلی شہر کے قریب واقع تھی۔ دس برس کی تعمیرات کے بعد 18 اپریل 1648ء کو ہندوستان کے نئے دارالسلطنت کا افتتاح ہوا اور اسے شاہجہان آباد کا نام دیا گیا۔ اس شہر کی چند اہم عمارات میں لال قلعہ، جامع مسجد ، باغِ حیات بخش ، امتیاز محل اور ایک دو منزلہ ڈھکا ہوابازار شامل تھے (شاہجہان نامہ، 1660ء)

نئے شہر کے بسنے کے کچھ ہی عرصے بعد پہلے لال قلعے اور پھر پورے شاہجہان آباد کو ’اردوئے معلی ‘ اور بعض اوقات صرف ’اردو‘ کہا جانے لگا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ مغل بادشاہ اکثرسفر میں رہتے تھے اور اس لیے ان کی قیام گاہ اردوے معلی یعنی شاہی کیمپ کہلانے لگی تھی۔ قدیم ترکی زبان کا ذکر پہلے ہی گزر چکا ہے جس میں لفظ اردو ”خاقان کی رہائش گاہ“ کے معنی میں استعمال ہوتا تھا۔( دلچسپ بات یہ ہے کہ بھوٹان کی قومی زبان کا نام زونگ کھا‘ ہے ،جس کا لفظی مطلب ’قلعے کی زبان ‘ہے۔)

عہد ساز ماہرِ لسانیات، شاعر اور اور اردو شاعر ی میں استادی شاگردی کے ادارے کے بانی خانِ آرزواپنی لغت ’نوادرِ الفاظ‘ (1747 تا 1752ء) میں لفظ ’چھنیل‘ کے تحت لکھتے ہیں:

ہم جو ہند کے باسی ہیں اور ’اردوے معلی ‘ میں رہتے ہیں، اس لفظ سے آشنا نہیں ہیں۔

خانِ آرزو اپنی ایک اور کتاب ’مثمر‘ (1752ء) میں رقم طراز ہیں:

پس ثابت ہوا کہ ’اردو‘ کی زبان ہی معیاری زبان ہے۔ یہیں کی فارسی مستند ہے۔ ہر ملک کے مختلف شہروں کے شاعر مستند زبان میں شاعری کرتے ہیں، جیسے شروان کا خاقانی، گنجہ کا نظامی، غزنی کا سنائی اور دہلی کا خسرو۔ اور یہ زبان اردو کی زبان کے سوا کچھ اور نہیں۔

اس اقتباس سے دو باتیں واضح ہوئیں: اول یہ کہ لفظ ’اردو‘ زبان کے لیے نہیں بلکہ شاہجہان آباد شہر کے لیے استعمال ہو اہے۔دوم یہ کہ خانِ آرزو کہہ رہے ہیں کہ شاہجہان آباد (دہلی) کی زبان فارسی ہے۔ اور اس میں تعجب کی کوئی بات اس لیے نہیں کہ مغلوں کے دور میں فارسی ہندوستان کی سرکاری اور دفتری زبان تھی۔

ایک اور مثال دیکھئے جو انیسویں صدی کے آغاز سے لی گئی ہے۔ دریاے لطافت (1807ء) میں انشا اللہ خان انشا اور مرزا قتیل لکھتے ہیں:

مرشد آباد اور عظیم آباد کے باسی اپنے تئیں اہل ِ زبان سمجھتے ہیں اور اپنے شہر کو ’اردو‘ گردانتے ہیں(فاروقی، 1999ء)

ظاہر ہے دریاے لطافت کے فاضل مصنفین اردو سے مراد شاہجہان آباد لے رہے ہیں نہ کہ زبان۔ زبان تو خیر ان دنوں ہندی کہلاتی تھی۔

××××××××××××××××××
‌ باقی آئندہ‌‌‌‌
 
زیف بھائی ، لفظ‌اردو کے بارے میں‌آپ کی تحقیق لا جواب ہے ۔۔ آپ نے اس لفظ‌کو اس کے ماخز سے جا نکالا ہے ۔ ۔ ۔ لیکن یہ تو لفظ‌کی بحث‌ہے ناکہ زبان کی ۔۔۔خود بقول آپ کے ( ظاہر ہے دریاے لطافت کے فاضل مصنفین اردو سے مراد شاہجہان آباد لے رہے ہیں نہ کہ زبان۔ زبان تو خیر ان دنوں ہندی کہلاتی تھی۔ )

تو اس زبان کو اردو کیوں‌، کب اور کس نے کہا ۔۔ ظاہر ہے کہ یہ واقعہ دریائے لطافت کے بہت بعد ہی پیش آیا ہوگا ۔۔ ایک اور بات اس عام بولی سمجھی جانےو الی زبان جس کو اس وقت تک ہندی کہا جا تا تھا اسے اردو کا نام دینے کی ضرورت ہی کیوں‌محسوس کی گئی ۔۔ یہ کوئی لسانی معاملہ ہے یا سیاسی ۔۔۔ جو بھی معاملہ ہے ،، ہے دلچسپ اور قابل غور ۔۔ کیا خیال ہے آپ کا ۔۔۔۔۔
 

مغزل

محفلین
شاہد احمد خان صاحب کا سوال تشنہ ہے ۔۔
اب چونکہ یہ مراسلات پرانے ہیں۔۔ پھر بھی ممکن ہے الف عین صاحب کرم فرماویں گے۔:)
 
یہ درست ہے کہ اردو یا ہندی دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانی والی زبان ہے
مگر اب یہ مردہ ہوتی جارہی ہے اور زمانہ جدید کے تقاضے پوری کرنے سے عاری ہورہی ہے۔ اس وقت کوئی میعاری رسالہ اردو میں نہیں جو جدید سائنسی تحقیقات پبلش کرتا ہو
 
Top