خاور بلال
محفلین
لشکری زبان اور مسخری زبان
شاہ نواز فاروقی (روزنامہ جسارت)
انگریزی کے مقابلے پر اردو کا مذاق اڑانے والوں کی بڑی تعداد اردو کو امر واقع کے طور پر نہیں طنزاً "لشکری زبان" کہتی ہے۔ اس سلسلے میں وضاحتاً کہا جاتا ہے کہ اردو بھی کوئ زبان ہے؟ اس کی تو جڑ بنیاد ہی نہیں۔ اس کی اپنی لغت ہی نہیں، جو ہے فارسی، عربی اور ہندی سے لیا ہوا ہے۔ اور اس میں شک نہیں کہ اردو ان زبانوں کی مرہونِ احسان ہے۔ لیکن خود انگریزی کی "پوزیشن" اس حوالےسے کیا ہے؟
ہماری اب تک کی معلومات یہ تھیں کہ انگریزی کا نصف سے زائد سرمایہ لاطینی، یونانی، فرانسیسی اور ہسپانوی زبانون سے آیا ہے۔ لیکن تازہ ترین تحقیق ہوش ربا ہے جس کے مطابق انگریزی دوچار نہیں، دس بیس نہیں، سو پچاس نہیں 350 زبانوں کی مرہونِ احسان ہے۔ یعنی انگریزی کا ذخیرہ الفاظ ساڑھے تین سو زبانوں سے آیا ہے۔ خدا معلوم جو لوگ تین زبانوں کی وجہ سے اردو کو لشکری کہتے ہیں وہ انگریزی کو کیا کہیں گے؟ شاید مسخری زبان؟ اس سلسلے میں یہ امر بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ اردو کی عمر عزیز تین سوسال کے لگ بھگ ہے۔ جبکہ انگریزی کی عمر ڈیڑھ ہزار سال بتائ جاتی ہے۔
زبانوں کی تاریخ میں بے زبانی کی تاریخ نہیں ہوتی لیکن اردو کی تاریخ میں بے زبانی کی تاریخ زبان کی تاریخ پر غالب آگئ۔ یعنی اردو کو ڈیڑھ دومثالوں کے سوا اپنا مقدمہ لڑتے ہوئے مشکل ہی سے دیکھا گیا ہے۔
اردو کے ساتھ صرف لشکری زبان کا پھندنا ساتھ نہیں لگا ہوا۔ کہنے والوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ زبان انگریزوں نے پیدا کی جو فارسی کی روایت کو ختم کرنے کے لیے اردو کو فروغ دیتے رہے لیکن یہ لوگ اتنی سی بات نہیں جانتے کہ حکومت اور ریاست زبان کو فروغ دینے کے لیے ادارے کھول سکتے ہیں لیکن ریاست اور حکومت میر، غالب، اقبال کیا کوشش کرکے مومن اور داغ بھی پیدا نہیں کرسکتی۔ اتنے بڑے تخلیقی کارنامے زبان اور اس کی روایت کی قوت ہی سے وجود میں آتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے اردو کو انگریزوں کی زبان قراردیا اور خود انگریزوں نے ہندوؤں میں اس احساس کو پروان چڑھایا کہ اردو تو مسلمانوں کی زبان ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اردو کو مقامی زبانوں کے مقابل لاکھڑا کیا گیا۔ حالانکہ اردو اور مقامی زبانوں کےلسانی رشتے اتنے گہرے ہیں کہ ان کی وضاحت غیر ضروری محسوس ہوتی ہے۔
اردو نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا اور کامیاب مقدمہ جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن کی صورت میں لڑا جہاں طب کی تدریس بھی اردو میں ہوتی تھی اور جامعہ سے فارغ التحصیل کئ اہم شخصیات کا بیان ہے کہ مسلمانوں کے کسی جدید تعلیمی ادارے نے اتنے ذہین، صاحب علم اور تخلیقی ذہن کے حامل افراد پیدا نہیں کیے جتنے کہ جامعہ عثمانیہ نے کیے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں تفہیم کے لیے کسی اجنبی زبان میں جھک نہیں مارنی پڑتی تھی۔ جامعہ عثمانیہ نے اردو پر اتنا اعتماد کیا کہ اس کا بس چلتا تو اپنے طلبہ کو انگریزی بھی اردو میں پڑھادیتی۔
اردو کی عمر کو دیکھا جائے اور اس کے تخلیقی و علمی سرمائے پر نظر کی جائے تو ایک معجزے کا احساس ہوتا ہے۔ انگریزی بڑی زبان ہے مگر اس کی عمر ڈیڑھ ہزارسال ہے۔ اس کے مقابلے پر اردو کی عمر تین سو سال کے آس پاس ہے۔ زبانوں کے اعتبار سے 300 سال تو شیر خواری کا زمانہ ہے۔ اتنی عمر میں تو زبانیں بیٹھنا بھی نہیں سیکھتیں مگر اردو اتنی سی عمر میں بزرگ بن کر کھڑی ہوگئ۔ سفید بالوں کے حوالے سے نہیں دانش و بینش کے حوالے سے ۔ لیکن اس کے باوجود آج بھی اردو کا کوئ مستقبل نظر نہیں آتا۔ حالانکہ اردو کے بغیر خود ہمارا کوئ تخلیقی مستقبل نہیں ہوسکتا۔ اپنے مستقبل کے ساتھ ایسا مسخرہ پن شاید ہی دنیا میں کہیں ہوا ہو۔
شاہ نواز فاروقی (روزنامہ جسارت)
انگریزی کے مقابلے پر اردو کا مذاق اڑانے والوں کی بڑی تعداد اردو کو امر واقع کے طور پر نہیں طنزاً "لشکری زبان" کہتی ہے۔ اس سلسلے میں وضاحتاً کہا جاتا ہے کہ اردو بھی کوئ زبان ہے؟ اس کی تو جڑ بنیاد ہی نہیں۔ اس کی اپنی لغت ہی نہیں، جو ہے فارسی، عربی اور ہندی سے لیا ہوا ہے۔ اور اس میں شک نہیں کہ اردو ان زبانوں کی مرہونِ احسان ہے۔ لیکن خود انگریزی کی "پوزیشن" اس حوالےسے کیا ہے؟
ہماری اب تک کی معلومات یہ تھیں کہ انگریزی کا نصف سے زائد سرمایہ لاطینی، یونانی، فرانسیسی اور ہسپانوی زبانون سے آیا ہے۔ لیکن تازہ ترین تحقیق ہوش ربا ہے جس کے مطابق انگریزی دوچار نہیں، دس بیس نہیں، سو پچاس نہیں 350 زبانوں کی مرہونِ احسان ہے۔ یعنی انگریزی کا ذخیرہ الفاظ ساڑھے تین سو زبانوں سے آیا ہے۔ خدا معلوم جو لوگ تین زبانوں کی وجہ سے اردو کو لشکری کہتے ہیں وہ انگریزی کو کیا کہیں گے؟ شاید مسخری زبان؟ اس سلسلے میں یہ امر بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ اردو کی عمر عزیز تین سوسال کے لگ بھگ ہے۔ جبکہ انگریزی کی عمر ڈیڑھ ہزار سال بتائ جاتی ہے۔
زبانوں کی تاریخ میں بے زبانی کی تاریخ نہیں ہوتی لیکن اردو کی تاریخ میں بے زبانی کی تاریخ زبان کی تاریخ پر غالب آگئ۔ یعنی اردو کو ڈیڑھ دومثالوں کے سوا اپنا مقدمہ لڑتے ہوئے مشکل ہی سے دیکھا گیا ہے۔
اردو کے ساتھ صرف لشکری زبان کا پھندنا ساتھ نہیں لگا ہوا۔ کہنے والوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ زبان انگریزوں نے پیدا کی جو فارسی کی روایت کو ختم کرنے کے لیے اردو کو فروغ دیتے رہے لیکن یہ لوگ اتنی سی بات نہیں جانتے کہ حکومت اور ریاست زبان کو فروغ دینے کے لیے ادارے کھول سکتے ہیں لیکن ریاست اور حکومت میر، غالب، اقبال کیا کوشش کرکے مومن اور داغ بھی پیدا نہیں کرسکتی۔ اتنے بڑے تخلیقی کارنامے زبان اور اس کی روایت کی قوت ہی سے وجود میں آتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے اردو کو انگریزوں کی زبان قراردیا اور خود انگریزوں نے ہندوؤں میں اس احساس کو پروان چڑھایا کہ اردو تو مسلمانوں کی زبان ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اردو کو مقامی زبانوں کے مقابل لاکھڑا کیا گیا۔ حالانکہ اردو اور مقامی زبانوں کےلسانی رشتے اتنے گہرے ہیں کہ ان کی وضاحت غیر ضروری محسوس ہوتی ہے۔
اردو نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا اور کامیاب مقدمہ جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن کی صورت میں لڑا جہاں طب کی تدریس بھی اردو میں ہوتی تھی اور جامعہ سے فارغ التحصیل کئ اہم شخصیات کا بیان ہے کہ مسلمانوں کے کسی جدید تعلیمی ادارے نے اتنے ذہین، صاحب علم اور تخلیقی ذہن کے حامل افراد پیدا نہیں کیے جتنے کہ جامعہ عثمانیہ نے کیے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں تفہیم کے لیے کسی اجنبی زبان میں جھک نہیں مارنی پڑتی تھی۔ جامعہ عثمانیہ نے اردو پر اتنا اعتماد کیا کہ اس کا بس چلتا تو اپنے طلبہ کو انگریزی بھی اردو میں پڑھادیتی۔
اردو کی عمر کو دیکھا جائے اور اس کے تخلیقی و علمی سرمائے پر نظر کی جائے تو ایک معجزے کا احساس ہوتا ہے۔ انگریزی بڑی زبان ہے مگر اس کی عمر ڈیڑھ ہزارسال ہے۔ اس کے مقابلے پر اردو کی عمر تین سو سال کے آس پاس ہے۔ زبانوں کے اعتبار سے 300 سال تو شیر خواری کا زمانہ ہے۔ اتنی عمر میں تو زبانیں بیٹھنا بھی نہیں سیکھتیں مگر اردو اتنی سی عمر میں بزرگ بن کر کھڑی ہوگئ۔ سفید بالوں کے حوالے سے نہیں دانش و بینش کے حوالے سے ۔ لیکن اس کے باوجود آج بھی اردو کا کوئ مستقبل نظر نہیں آتا۔ حالانکہ اردو کے بغیر خود ہمارا کوئ تخلیقی مستقبل نہیں ہوسکتا۔ اپنے مستقبل کے ساتھ ایسا مسخرہ پن شاید ہی دنیا میں کہیں ہوا ہو۔