عدم لطف خدا نہیں ہے تو جور بتاں رہے

لطف خدا نہیں ہے تو جور بتاں رہے
مقصد یہ ہے حیات کا چشمہ رواں رہے

آغوش یار تھا کہ خرابات کی ہوا
اب کیا بتائیں ہوش سے باہر کہاں رہے

فطرت کو جب ہماری خوشی کا نہیں لحاظ
گلشن میں پھر بہار رہے یا خزاں رہے

ساقی بڑا سکون ملا ہے حواس کو
ساقی ترے خلوص کا چشمہ رواں رہے

بہتر تھا آپ بات کو دیتے کچھ اختصار
اب بات بڑھ گئی ہے تو پھر داستاں رہے

بجھتا ہے آفتاب کی صحبت میں بھی کوئی
جب تک پری وشوں میں رہے ہم جواں رہے

دامن پہ ہے یہ گرد سی کیسی لگی ہوئی
سرکار آپ ہم سے بچھڑ کر کہاں رہے

اے دل یہ بد دعا ہی بہت ہے ترے لئے
تو شادماں رہے ، ترا غم شادماں رہے

گرتی رہیں حواس پہ بوندیں شراب کی !
جب تک وہ نرم ہونٹ عدم گلفشاں رہے
 
Top