محمد وارث
لائبریرین
آج فرخ صاحب (سخنور) نے حکم دیا تھا کہ اگر ہو سکے تو داغ کی یہ غزل پوسٹ کردوں، مکمل غزل تو نہیں ملی لیکن نورجہاں کی گائی ہوئی غزل اور دیوانِ داغ کے انتخاب سے جتنے اشعار ملے ہیں وہ لکھ رہا ہوں، ہو سکتا ہے کہ غزل میں اتنے ہی اشعار ہوں، بہرحال اگر کوئی دوست کنفرم کر سکیں یا اس غزل کے مزید اشعار ارسال کر سکیں تو عین نوازش ہوگی۔
لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے
سادگی، بانکپن، اغماز، شرارت، شوخی
تُو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
مسکراتے ہوئے وہ مجمعِ اغیار کے ساتھ
آج یوں بزم میں آئے ہیں کہ جی جانتا ہے
انہی قدموں نے تمھارے انہی قدموں کی قسم
خاک میں اتنے ملائے ہیں کہ جی جانتا ہے
تم نہیں جانتے اب تک یہ تمھارے انداز
وہ مرے دل میں سمائے ہیں کہ جی جانتا ہے
داغِ وارفتہ کو ہم آج ترے کوچے سے
اس طرح کھینچ کہ لائے ہیں کہ جی جانتا ہے
(فصیح الملک نواب مرزا خان داغ دہلوی)
لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے
سادگی، بانکپن، اغماز، شرارت، شوخی
تُو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
مسکراتے ہوئے وہ مجمعِ اغیار کے ساتھ
آج یوں بزم میں آئے ہیں کہ جی جانتا ہے
انہی قدموں نے تمھارے انہی قدموں کی قسم
خاک میں اتنے ملائے ہیں کہ جی جانتا ہے
تم نہیں جانتے اب تک یہ تمھارے انداز
وہ مرے دل میں سمائے ہیں کہ جی جانتا ہے
داغِ وارفتہ کو ہم آج ترے کوچے سے
اس طرح کھینچ کہ لائے ہیں کہ جی جانتا ہے
(فصیح الملک نواب مرزا خان داغ دہلوی)