عمار ابن ضیا
محفلین
میں معافی چاہوں گا اگر آپ امریکہ مخالف ہیں اور عنوان دیکھ کر یہ سوچ آئے ہیں کہ آپ کے مطلب کی بات لکھی ہوگی۔ میں تب بھی معافی چاہوں گا اگر آپ امریکہ کے حامی ہیں اور عنوان سے یہ سوچ کر آئے ہیں کہ مجھے منفی پوائنٹس دینے کا بہانہ ہاتھ آئے گا۔
میرے ذہن میں کچھ دن سے ایک ہی خیال گردش کررہا ہے کہ ہماری قوم، ہمارے لوگ خود اپنے آپ کو کتنے آرام سے دھوکا دیتے ہیں۔۔۔ ہم نے اپنی زندگی کے ہر دائرے کے لیے ایک قصور وار کردار ٹھہرالیا ہے اور اس دائرے میں ہونے والی تمام خرابی کا ذمہ دار اسی کردار کے سر تھوپ کر سمجھتے ہیں کہ ہمارا فرض پورا ہوا۔ سر سے بلا ٹالنے والی بات۔
ملکی یا شہری معاملات میں مسائل ہوں، غلطیاں ہو تو حکومت ذمہ دار۔۔۔ انتظامیہ قصور وار۔۔۔ کبھی یہ نہیں سوچتے کہ اجتماعی کردار کو مارو گولی، معاشرہ کی بہتری میں ہمارا انفرادی کردار کیا ہے؟
قومی یا عالمی مسائل میں کچھ ہماری مرضی کے خلاف ہو تو الزام امریکہ کے سر۔۔۔ ہم حقائق کو دیکھنا نہیں چاہتے، بلکہ حقائق کو اپنی مرضی اور اپنی سوچ کے حساب سے ڈھال کر پیش کرتے ہیں۔ دہشت گردی ہورہی ہے تو امریکہ کا ہاتھ ہے، ملک ٹوٹ رہا ہے تو امریکہ کا ہاتھ ہے، جنگ چھڑ گئی تو امریکہ قصور وار، طالبان بڑھ رہے ہیں تو امریکہ ذمہ دار۔ اور اگر کوئی ہمارا پاکستانی دوست حقائق واضح کرنے کی کوشش کرے تو وہ وطن فروش، ننگِ ملت و قوم۔ دلچسپ رویہ ہے۔
کبھی کبھی مجھے ترس بھی آتا ہے اس طرح کی سوچ رکھنے والوں پر اور کبھی میں سوچتا ہوں کہ بے چاروں کا قصور نہیں۔ ہمارے ہاں بچے کے ذہن میں شروع سے چند باتیں ڈال دی جاتی ہیں اور بچپن سے ذہن نشین کیا جانے والا سبق، کم ہی بھولتا ہے۔ جذباتی قوم کو جذباتی باتیں اور جذباتی خبریں سننے ہی میں مزا آتا ہے۔ سیاست میں جذباتیت، مذہب میں جذباتیت، رویوں میں جذباتیت، اور خبروں میں بھی۔۔۔
مجھے تو لگتا ہے، کچھ لوگوں کا دل دھڑکتا ہوگا تو بھی یہی نعرہ مارتا ہوگا کہ امریکہ مردہ باد۔ امریکہ مسلمانوں کا دشمن ہے، امریکہ مسلمانوں کے خلاف ہے، امریکہ مسلمانوں کو دیکھنا نہیں چاہتا، امریکہ مسلم ممالک کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ یہ چاہتا ہے، امریکہ وہ چاہتا ہے۔۔۔ یہ کرتا ہے، وہ کرتا ہے۔۔۔ بس۔۔۔ ساری سوئیاں یہیں آکر اٹک جاتی ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ ہم کیا کرتے ہیں؟
مان لیں کہ امریکہ سب چیزوں کا ذمہ دار ہے لیکن یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ امریکہ اور امریکی اپنا وجود رکھتے ہیں، جبھی کچھ کررہے ہیں نا؟ ہم کیا کررہے ہیں؟ صرف مرثیہ خوانی؟ تماشا دیکھے جارہے ہیں اور ماتم کررہے ہیں؟
ہمارے فرسودہ نصاب اور من گھڑت تاریخ نے یہی حال کرنا تھا ہمارا۔ کسی زمانے میں ہماری تباہی کا ذمہ دار ہلاکو خان، چنگیز خان ہوتے ہیں تو کبھی ایسٹ انڈیا کمپنی۔ کبھی یہودی تو کبھی عیسائی، کبھی برطانوی تو کبھی امریکی۔۔۔! اور ہم کس چیز کے ذمہ دار ہیں؟؟؟
ہمارا کام صرف یہی رہ گیا ہے کہ کتابیں اٹھائیں اور اپنے بچوں کو بتائیں کہ ہمارے اسلاف نے اتنے کارنامے انجام دیے تھے اور فلاں فلاں چیزیں ایجاد کی تھیں۔۔۔ اس وقت جب یورپ جہالت کے اندھیرے میں تھا۔۔۔ سہانا وقت یاد کرکے بہت خوش ہوتے ہیں، دل کو تسلی دیتے ہیں۔۔۔ پھر موجودہ وقت کا رونا روتے ہیں، ملک دشمن، اسلام دشمن عناصر کو برا کہتے ہیں، لعن طعن کرتے ہیں، ان کے نیست و نابود اور ملیا میٹ ہوجانے کی دعائیں مانگتے ہیں۔۔۔ پر، سبق نہیں سیکھتے۔۔۔!
ٹھیک ہے جی، نہ سیکھیں سبق۔۔۔ اس سے پہلے کہ آپ مجھے بھی وطن فروش یا ننگِ ملت کا خطاب عطا کریں، یا الزام دیں کہ چند "عناصر" کی ایماء پر یہ تحریر لکھی ہے، میں آپ کے ساتھ بھی ایک نعرہ مار دیتا ہوں۔
امریکہ مردہ باد
اور
لعنۃ اللہ علی الامریکیۃ
خوش ؟؟؟؟
میرے ذہن میں کچھ دن سے ایک ہی خیال گردش کررہا ہے کہ ہماری قوم، ہمارے لوگ خود اپنے آپ کو کتنے آرام سے دھوکا دیتے ہیں۔۔۔ ہم نے اپنی زندگی کے ہر دائرے کے لیے ایک قصور وار کردار ٹھہرالیا ہے اور اس دائرے میں ہونے والی تمام خرابی کا ذمہ دار اسی کردار کے سر تھوپ کر سمجھتے ہیں کہ ہمارا فرض پورا ہوا۔ سر سے بلا ٹالنے والی بات۔
ملکی یا شہری معاملات میں مسائل ہوں، غلطیاں ہو تو حکومت ذمہ دار۔۔۔ انتظامیہ قصور وار۔۔۔ کبھی یہ نہیں سوچتے کہ اجتماعی کردار کو مارو گولی، معاشرہ کی بہتری میں ہمارا انفرادی کردار کیا ہے؟
قومی یا عالمی مسائل میں کچھ ہماری مرضی کے خلاف ہو تو الزام امریکہ کے سر۔۔۔ ہم حقائق کو دیکھنا نہیں چاہتے، بلکہ حقائق کو اپنی مرضی اور اپنی سوچ کے حساب سے ڈھال کر پیش کرتے ہیں۔ دہشت گردی ہورہی ہے تو امریکہ کا ہاتھ ہے، ملک ٹوٹ رہا ہے تو امریکہ کا ہاتھ ہے، جنگ چھڑ گئی تو امریکہ قصور وار، طالبان بڑھ رہے ہیں تو امریکہ ذمہ دار۔ اور اگر کوئی ہمارا پاکستانی دوست حقائق واضح کرنے کی کوشش کرے تو وہ وطن فروش، ننگِ ملت و قوم۔ دلچسپ رویہ ہے۔
کبھی کبھی مجھے ترس بھی آتا ہے اس طرح کی سوچ رکھنے والوں پر اور کبھی میں سوچتا ہوں کہ بے چاروں کا قصور نہیں۔ ہمارے ہاں بچے کے ذہن میں شروع سے چند باتیں ڈال دی جاتی ہیں اور بچپن سے ذہن نشین کیا جانے والا سبق، کم ہی بھولتا ہے۔ جذباتی قوم کو جذباتی باتیں اور جذباتی خبریں سننے ہی میں مزا آتا ہے۔ سیاست میں جذباتیت، مذہب میں جذباتیت، رویوں میں جذباتیت، اور خبروں میں بھی۔۔۔
مجھے تو لگتا ہے، کچھ لوگوں کا دل دھڑکتا ہوگا تو بھی یہی نعرہ مارتا ہوگا کہ امریکہ مردہ باد۔ امریکہ مسلمانوں کا دشمن ہے، امریکہ مسلمانوں کے خلاف ہے، امریکہ مسلمانوں کو دیکھنا نہیں چاہتا، امریکہ مسلم ممالک کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ یہ چاہتا ہے، امریکہ وہ چاہتا ہے۔۔۔ یہ کرتا ہے، وہ کرتا ہے۔۔۔ بس۔۔۔ ساری سوئیاں یہیں آکر اٹک جاتی ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ ہم کیا کرتے ہیں؟
مان لیں کہ امریکہ سب چیزوں کا ذمہ دار ہے لیکن یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ امریکہ اور امریکی اپنا وجود رکھتے ہیں، جبھی کچھ کررہے ہیں نا؟ ہم کیا کررہے ہیں؟ صرف مرثیہ خوانی؟ تماشا دیکھے جارہے ہیں اور ماتم کررہے ہیں؟
ہمارے فرسودہ نصاب اور من گھڑت تاریخ نے یہی حال کرنا تھا ہمارا۔ کسی زمانے میں ہماری تباہی کا ذمہ دار ہلاکو خان، چنگیز خان ہوتے ہیں تو کبھی ایسٹ انڈیا کمپنی۔ کبھی یہودی تو کبھی عیسائی، کبھی برطانوی تو کبھی امریکی۔۔۔! اور ہم کس چیز کے ذمہ دار ہیں؟؟؟
ہمارا کام صرف یہی رہ گیا ہے کہ کتابیں اٹھائیں اور اپنے بچوں کو بتائیں کہ ہمارے اسلاف نے اتنے کارنامے انجام دیے تھے اور فلاں فلاں چیزیں ایجاد کی تھیں۔۔۔ اس وقت جب یورپ جہالت کے اندھیرے میں تھا۔۔۔ سہانا وقت یاد کرکے بہت خوش ہوتے ہیں، دل کو تسلی دیتے ہیں۔۔۔ پھر موجودہ وقت کا رونا روتے ہیں، ملک دشمن، اسلام دشمن عناصر کو برا کہتے ہیں، لعن طعن کرتے ہیں، ان کے نیست و نابود اور ملیا میٹ ہوجانے کی دعائیں مانگتے ہیں۔۔۔ پر، سبق نہیں سیکھتے۔۔۔!
ٹھیک ہے جی، نہ سیکھیں سبق۔۔۔ اس سے پہلے کہ آپ مجھے بھی وطن فروش یا ننگِ ملت کا خطاب عطا کریں، یا الزام دیں کہ چند "عناصر" کی ایماء پر یہ تحریر لکھی ہے، میں آپ کے ساتھ بھی ایک نعرہ مار دیتا ہوں۔
امریکہ مردہ باد
اور
لعنۃ اللہ علی الامریکیۃ
خوش ؟؟؟؟