پاکستان ميں امريکہ مخالف جذبات کے حوالے سے ميرا نقطہ يہ تھا کہ بعض سياسی جماعتوں اور قائدين کی سياسی قوت کا پيمانہ انکی پاليسياں اور ملک کی تعمير وترقی اور بہتر مستقبل کے ضمن ميں انکے منصوبے نہيں ہوتے بلکہ محض فقرے بازی اور جذباتی نعرے ہوتے ہيں۔
آپ نے صدر مشرف کی مثال دی ہے۔ کيا صدر مشرف پاکستان کی تاريخ کے واحد قائد تھے جنھيں "امريکی غلام" قرار دے کر امريکہ مخالف جذبات کو استعمال کيا گيا؟
حقائق ثابت کرتے ہيں کہ پاکستان کی تاريخ کی قريب تمام حکومتوں کو "امريکی کٹھ پتلی" قرار دے کر ان کی سياسی مخالفت کی گئ۔ سياسی مخالفين کی جانب سے اپنی حکومتوں کو امريکہ نواز قرار دے کر سياست کرنے کی حکمت عملی سادہ اور ثابت شدہ ہے۔ کيا آپ نے ان سياسی مخالفين کو تعليم، صحت اور دفاع کے ضمن ميں اپنی پاليسيوں کی تشہير کرتے ديکھا ہے؟ سياسی مخالفت کا تو بنيادی اصول ہی يہ ہے کہ اگر آپ حکومت کی پاليسيوں سے اختلاف رکھتے ہيں تو انھيں اعداد وشمار اور دلائل سے غلط ثابت کريں اور ايسے متبادل منصوبے عوام کے سامنے پيش کريں جو آپ کے نزديک زيادہ بہتر مقاصد حاصل کر سکتے ہيں، بجائے اس کے کہ آپ محض جذباتی نعرہ بازی کو اپنی سياست کا محور بنا ليں۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ خارجہ پاليسی کے حوالے سے کيے گئے فيصلے کسی بھی حکومت کے مستقبل يا اسکی تاريخ پر اثر انداز ہوتے ہيں ليکن بعض سياسی قوتيں ان تمام عوامل کو پس پشت ڈال کر محض "امريکہ نواز" يا "امريکہ کے کٹھ پتلی" جيسے نعروں تک ہی محدود رہتی ہيں۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ دوررس، جديد اور موثر اقتصادی اور تعليمی منصوبوں کے بارے ميں تفصيلی گفتگو کرنے کے مقابلے ميں يہ طريقہ زيادہ آسان ہے جو کچھ سياست دان استعمال کرتے ہيں۔
جہاں تک صدر مشرف کا تعلق ہے تو پاکستان ميں اکثر سياسی ليڈروں کی جانب سے متفقہ طور پر يہ تاثر ديا جاتا رہا کہ امريکہ پاکستان ميں 16 کروڑ عوام کی خواہشات کے برعکس ايک آمر کی پشت پناہی کرتا رہا ہے اور دہشت گردی سميت ملک ميں تمام تر مسائل کا ذمہ دار صرف امريکہ ہے۔ اگر امريکہ اپنے مذموم ارادوں کی تکميل کے ليےملک کے جمہوری اداروں اور سياسی قوتوں کی بجائے ايک آمر کو سپورٹ نہيں کرتا تو ملک آج ان بے شمار مسائل ميں گھرا ہوا نہيں ہوتا۔
سياسی جماعتوں کا يہ موقف پچھلے کئ سالوں سے ميڈيا کے ذريعے عوام تک پہنچتا رہا ہے۔
عوام کے سامنے بہتر منصوبوں اور پاليسيوں کے ذريعے حکومت پر تنقيد کرنے کی بجائے تمام تر زور اس بات پر ديا جاتا رہا کہ امريکہ مشرف اور اس کے "حواريوں" کی حمايت کر کے پاکستان کے اندرونی معاملات ميں مداخلت کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ يہ بات بھی بڑے زور و شور سے کی جاتی رہی کہ پاکستان کے تمام تر مسائل کی وجہ امريکہ ہے جس کی پشت پناہی کے سبب ايک آمر ايسے قوانين بنا رہا ہے جس سے ملک کا مستقبل داؤ پر لگ گيا ہے۔
پاکستان ميں يہ تاثر اتنا مقبول ہو گيا کہ ميڈيا يا اخبارات ميں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کسی دليل يا توجيہ کی ضرورت بھی محسوس نہيں کی گئ گويا کہ يہ مفروضہ بحث ومب۔احثے کے مراحل سے گزر کر ايک تصديق شدہ حقيقت بن چکا تھا کہ صدر مشرف کا دور اقتدار (اس بات سے قطعہ نظر کہ وہ پاکستان کے ليے فائدہ مند ہے يا نقصان دہ) صرف اور صرف امريکہ کی مرہون منت ہے۔
آپ کے ليے يہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ امريکی حکومتی حلقوں ميں اس تاثر پر انتہاہی حيرت کا اظہار کيا جاتا ہے۔ اس کی وجہ يہ ہے کہ نہ ہی پرويز مشرف کو آرمی چيف کے عہدے پر ترقی ميں امريکہ کا کوئ کردار تھا، نہ ہی انھيں ملک کا صدر امريکہ نے بنايا اور نہ ہی ان کے دور اقتدار ميں توسيع امريکہ نے کروائ۔
اس حوالے سے کچھ تاريخی حقائق پيش خدمت ہيں۔
سات (7) اکتوبر 1998کو اس وقت کے وزيراعظم نوازشريف نے آرمی چيف جرنل جہانگير کرامت کے استعفے کے بعد پرويز مشرف کو دو سينير جرنيلز کی موجودگی ميں ترقی دے کر آرمی چيف کے عہدے پر ترقی دی۔
اپنے ايک حاليہ انٹرويو ميں نواز شريف نے پرويز مشرف کو آرمی چيف کے عہدے پر تقرری کو اپنے سياسی کيرئير کی ايک "بڑی غلطی" تسليم کيا۔
بارہ اکتوبر 1999 کو جب نواز شريف کو اقتدار سے ہٹايا گيا تو ملک کی تمام بڑی سياسی جماعتوں نے اس کا خيرمقدم کيا۔ اگر آپ انٹرنيٹ پر اس دور کے اخبارات نکال کر ان کی سرخيوں پر نظر ڈاليں تو آپ ديکھيں گے کہ پاکستان پيپلزپارٹی اور تحريک انصاف سميت تمام سياسی جماعتوں نے پرويز مشرف کو ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ ميں لينے کے قدم کو ملک کے مفاد ميں قرار ديا۔
دو ہزار دو (2002) ميں تحريک انصاف کے قائد عمران خان نے پرويز مشرف کی حمايت کو ايک "بڑی غلطی"قرار ديا۔
دو ہزارچار (2004) ميں ايم – ايم –اے کے توسط سےقومی اسمبلی ميں 17ويں ترميم پاس کی گئ جس کے ذريعے پرويز مشرف کے اقتدار کو مضبوط کر کے اس ميں مزيد توثيق کر دی گئ۔
دو ہزار پانچ (2005) ميں قاضی حسين احمد نے ايم – ايم – اے کے اس قدم کو "بڑی غلطی" قرار ديا۔
دو ہزار سات (2007) ميں پاکستان کی چاروں صوبائ اسمبليوں اور قومی اسمبلی ميں عوام کے منتخب نمايندوں نے پرويز مشرف کو57 فيصد ووٹوں کے ذريعے اگلے پانچ سالوں کے ليے ملک کا صدر منتخب کر ليا۔
اليکشن کے بعد پيپلز پارٹی کی قيادت نے قومی اسمبلی سے مستعفی نہ ہونے کے فيصلے کو بڑی "سياسی غلطی" قرار ديا۔
آپ خود جائزہ لے سکتے ہيں کہ پرويز مشرف کو آرمی چيف مقرر کرنے سے لے کر صدر بنانے تک اور صدر کی حيثيت سے ان کے اختيارات کی توثيق تک پاکستان کی تمام سياسی پارٹيوں اور ان کی قيادت نے اپنا بھرپور کردار ادا کيا ہے۔ اسکے باوجود تمام سياسی جماعتوں کا يہ الزام کہ پرويزمشرف امريکہ کی پشت پناہی کی وجہ سے برسراقتدار رہے، ايک جذباتی بحث کا موجب تو بن سکتا ہے ليکن يہ حقيقت کے منافی ہے۔ اگر صدر مشرف ملک کے ليے "نقصان دہ" تھے تو ان کو طاقت کے اس مرتبے پرپہنچانے کا قصوروار کون تھا؟ کيا آپ کے خيال ميں جو حقائق ميں نے پيش کيے ہيں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان ميں مشرف کے حوالے سے پائے جانے والے امريکہ مخالف جذبات جائز ہیں؟
دلچسپ امر يہ ہے کہ موجودہ حکومت پر بھی بعض سياسی قوتوں کی جانب سے جو تنقيد کی جا رہی ہے اس کا محور بھی وہی پرانا اور استعمال شدہ نعرہ ہے کہ موجودہ حکومت پچھلی حکومت کا تسلسل ہے اور موجودہ حکمران امريکی اشاروں کے غلام ہيں۔
کيا موجودہ حکمرانوں کو برسراقتدار لانے کا ذمہ دار امريکہ ہے يا پاکستان کے عوام جنھوں نے انھيں ووٹ ديے۔ اگر امريکہ اس کا ذمہ دار نہيں تو کيا ميں يہ کہنے ميں حق بجانب نہيں کہ پاکستان ميں امريکہ مخالفت جذبات کی وجہ حقائق نہيں بلکہ وہ جذباتی نعرے ہيں جنھيں سياست دان اپنی سياسی کمزوريوں پر پردہ ڈالنے کے ليے دانستہ استعمال کرتے ہيں؟
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
http://usinfo.state.gov