پاکستان ميں امريکہ مخالف جذبات کے حوالے سے ميرا نقطہ يہ تھا کہ بعض سياسی جماعتوں اور قائدين کی سياسی قوت کا پيمانہ انکی پاليسياں اور ملک کی تعمير وترقی اور بہتر مستقبل کے ضمن ميں انکے منصوبے نہيں ہوتے بلکہ محض فقرے بازی اور جذباتی نعرے ہوتے ہيں۔
آپ نے صدر مشرف کی مثال دی ہے۔ کيا صدر مشرف پاکستان کی تاريخ کے واحد قائد تھے جنھيں "امريکی غلام" قرار دے کر امريکہ مخالف جذبات کو استعمال کيا گيا؟
حقائق ثابت کرتے ہيں کہ پاکستان کی تاريخ کی قريب تمام حکومتوں کو "امريکی کٹھ پتلی" قرار دے کر ان کی سياسی مخالفت کی گئ۔ سياسی مخالفين کی جانب سے اپنی حکومتوں کو امريکہ نواز قرار دے کر سياست کرنے کی حکمت عملی سادہ اور ثابت شدہ ہے۔ کيا آپ نے ان سياسی مخالفين کو تعليم، صحت اور دفاع کے ضمن ميں اپنی پاليسيوں کی تشہير کرتے ديکھا ہے؟ سياسی مخالفت کا تو بنيادی اصول ہی يہ ہے کہ اگر آپ حکومت کی پاليسيوں سے اختلاف رکھتے ہيں تو انھيں اعداد وشمار اور دلائل سے غلط ثابت کريں اور ايسے متبادل منصوبے عوام کے سامنے پيش کريں جو آپ کے نزديک زيادہ بہتر مقاصد حاصل کر سکتے ہيں، بجائے اس کے کہ آپ محض جذباتی نعرہ بازی کو اپنی سياست کا محور بنا ليں۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ خارجہ پاليسی کے حوالے سے کيے گئے فيصلے کسی بھی حکومت کے مستقبل يا اسکی تاريخ پر اثر انداز ہوتے ہيں ليکن بعض سياسی قوتيں ان تمام عوامل کو پس پشت ڈال کر محض "امريکہ نواز" يا "امريکہ کے کٹھ پتلی" جيسے نعروں تک ہی محدود رہتی ہيں۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ دوررس، جديد اور موثر اقتصادی اور تعليمی منصوبوں کے بارے ميں تفصيلی گفتگو کرنے کے مقابلے ميں يہ طريقہ زيادہ آسان ہے جو کچھ سياست دان استعمال کرتے ہيں۔
جہاں تک صدر مشرف کا تعلق ہے تو پاکستان ميں اکثر سياسی ليڈروں کی جانب سے متفقہ طور پر يہ تاثر ديا جاتا رہا کہ امريکہ پاکستان ميں 16 کروڑ عوام کی خواہشات کے برعکس ايک آمر کی پشت پناہی کرتا رہا ہے اور دہشت گردی سميت ملک ميں تمام تر مسائل کا ذمہ دار صرف امريکہ ہے۔ اگر امريکہ اپنے مذموم ارادوں کی تکميل کے ليےملک کے جمہوری اداروں اور سياسی قوتوں کی بجائے ايک آمر کو سپورٹ نہيں کرتا تو ملک آج ان بے شمار مسائل ميں گھرا ہوا نہيں ہوتا۔
سياسی جماعتوں کا يہ موقف پچھلے کئ سالوں سے ميڈيا کے ذريعے عوام تک پہنچتا رہا ہے۔
عوام کے سامنے بہتر منصوبوں اور پاليسيوں کے ذريعے حکومت پر تنقيد کرنے کی بجائے تمام تر زور اس بات پر ديا جاتا رہا کہ امريکہ مشرف اور اس کے "حواريوں" کی حمايت کر کے پاکستان کے اندرونی معاملات ميں مداخلت کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ يہ بات بھی بڑے زور و شور سے کی جاتی رہی کہ پاکستان کے تمام تر مسائل کی وجہ امريکہ ہے جس کی پشت پناہی کے سبب ايک آمر ايسے قوانين بنا رہا ہے جس سے ملک کا مستقبل داؤ پر لگ گيا ہے۔
پاکستان ميں يہ تاثر اتنا مقبول ہو گيا کہ ميڈيا يا اخبارات ميں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کسی دليل يا توجيہ کی ضرورت بھی محسوس نہيں کی گئ گويا کہ يہ مفروضہ بحث ومب۔احثے کے مراحل سے گزر کر ايک تصديق شدہ حقيقت بن چکا تھا کہ صدر مشرف کا دور اقتدار (اس بات سے قطعہ نظر کہ وہ پاکستان کے ليے فائدہ مند ہے يا نقصان دہ) صرف اور صرف امريکہ کی مرہون منت ہے۔
آپ کے ليے يہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ امريکی حکومتی حلقوں ميں اس تاثر پر انتہاہی حيرت کا اظہار کيا جاتا ہے۔ اس کی وجہ يہ ہے کہ نہ ہی پرويز مشرف کو آرمی چيف کے عہدے پر ترقی ميں امريکہ کا کوئ کردار تھا، نہ ہی انھيں ملک کا صدر امريکہ نے بنايا اور نہ ہی ان کے دور اقتدار ميں توسيع امريکہ نے کروائ۔
اس حوالے سے کچھ تاريخی حقائق پيش خدمت ہيں۔
سات (7) اکتوبر 1998کو اس وقت کے وزيراعظم نوازشريف نے آرمی چيف جرنل جہانگير کرامت کے استعفے کے بعد پرويز مشرف کو دو سينير جرنيلز کی موجودگی ميں ترقی دے کر آرمی چيف کے عہدے پر ترقی دی۔
اپنے ايک حاليہ انٹرويو ميں نواز شريف نے پرويز مشرف کو آرمی چيف کے عہدے پر تقرری کو اپنے سياسی کيرئير کی ايک "بڑی غلطی" تسليم کيا۔
بارہ اکتوبر 1999 کو جب نواز شريف کو اقتدار سے ہٹايا گيا تو ملک کی تمام بڑی سياسی جماعتوں نے اس کا خيرمقدم کيا۔ اگر آپ انٹرنيٹ پر اس دور کے اخبارات نکال کر ان کی سرخيوں پر نظر ڈاليں تو آپ ديکھيں گے کہ پاکستان پيپلزپارٹی اور تحريک انصاف سميت تمام سياسی جماعتوں نے پرويز مشرف کو ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ ميں لينے کے قدم کو ملک کے مفاد ميں قرار ديا۔
دو ہزار دو (2002) ميں تحريک انصاف کے قائد عمران خان نے پرويز مشرف کی حمايت کو ايک "بڑی غلطی"قرار ديا۔
دو ہزارچار (2004) ميں ايم – ايم –اے کے توسط سےقومی اسمبلی ميں 17ويں ترميم پاس کی گئ جس کے ذريعے پرويز مشرف کے اقتدار کو مضبوط کر کے اس ميں مزيد توثيق کر دی گئ۔
دو ہزار پانچ (2005) ميں قاضی حسين احمد نے ايم – ايم – اے کے اس قدم کو "بڑی غلطی" قرار ديا۔
دو ہزار سات (2007) ميں پاکستان کی چاروں صوبائ اسمبليوں اور قومی اسمبلی ميں عوام کے منتخب نمايندوں نے پرويز مشرف کو57 فيصد ووٹوں کے ذريعے اگلے پانچ سالوں کے ليے ملک کا صدر منتخب کر ليا۔
اليکشن کے بعد پيپلز پارٹی کی قيادت نے قومی اسمبلی سے مستعفی نہ ہونے کے فيصلے کو بڑی "سياسی غلطی" قرار ديا۔
آپ خود جائزہ لے سکتے ہيں کہ پرويز مشرف کو آرمی چيف مقرر کرنے سے لے کر صدر بنانے تک اور صدر کی حيثيت سے ان کے اختيارات کی توثيق تک پاکستان کی تمام سياسی پارٹيوں اور ان کی قيادت نے اپنا بھرپور کردار ادا کيا ہے۔ اسکے باوجود تمام سياسی جماعتوں کا يہ الزام کہ پرويزمشرف امريکہ کی پشت پناہی کی وجہ سے برسراقتدار رہے، ايک جذباتی بحث کا موجب تو بن سکتا ہے ليکن يہ حقيقت کے منافی ہے۔ اگر صدر مشرف ملک کے ليے "نقصان دہ" تھے تو ان کو طاقت کے اس مرتبے پرپہنچانے کا قصوروار کون تھا؟ کيا آپ کے خيال ميں جو حقائق ميں نے پيش کيے ہيں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان ميں مشرف کے حوالے سے پائے جانے والے امريکہ مخالف جذبات جائز ہیں؟
دلچسپ امر يہ ہے کہ موجودہ حکومت پر بھی بعض سياسی قوتوں کی جانب سے جو تنقيد کی جا رہی ہے اس کا محور بھی وہی پرانا اور استعمال شدہ نعرہ ہے کہ موجودہ حکومت پچھلی حکومت کا تسلسل ہے اور موجودہ حکمران امريکی اشاروں کے غلام ہيں۔
کيا موجودہ حکمرانوں کو برسراقتدار لانے کا ذمہ دار امريکہ ہے يا پاکستان کے عوام جنھوں نے انھيں ووٹ ديے۔ اگر امريکہ اس کا ذمہ دار نہيں تو کيا ميں يہ کہنے ميں حق بجانب نہيں کہ پاکستان ميں امريکہ مخالفت جذبات کی وجہ حقائق نہيں بلکہ وہ جذباتی نعرے ہيں جنھيں سياست دان اپنی سياسی کمزوريوں پر پردہ ڈالنے کے ليے دانستہ استعمال کرتے ہيں؟
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
http://usinfo.state.gov
جہاں تک مجھے یاد ہے یہ قول ابراہام لنکن کا ہے
.you Can Fool Some Of The People All The Time And All The People Some Of The Time; But You Can't Fool All The People All The Time
اور یہ قول ہی فواد آپ کی بیان کردہ تمام منطق کی نفی کرنے کے لیے کافی ہے۔
تاہم میں اس مسئلے کو دو حصوں میں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں
پہلا حصۃ ہماری اپنی کوتاہیاں
اس بات میں بڑی حد تک حقیقت ہے کہ ہمارے کمزور اور بے ضمیر و بے کردار سیاستدان ، اقتدا کی خواہش مند فوج ، منافقت کا لبادہ اوڑھی ہوئی مذہبی سیاسی جماعتوں نے اس قوم کو مسائل اور ہولناکیوں کے جنگل میں لا کھڑا کیا ہے اور ایشو پر ایشو ہے مسائل پر مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔خود ہماری قوم کا سب سے بڑا مسئلہ بحیثیت قوم ایک اجماعتی شعور و شناخت کی کمی ہے ہم لوگ فرقوں میں جماعتوں میں اور لسانی و دیگر تعصبی گرہوں میں منقسم ہیں اور یہ فروعی شناختیںہماری قومی شناخت سے کہیں زیادہ دیرپا اور نمایاں وجود رکھتی ہیںاور سونے پر سہاگہ یہ کہ ان سارے مسائل سے نبر آزما ہونے کے لیے نہ کوئی رہنما ہمارے پاس ہے اور نہ رستہ۔ اسلام جو کہ اس قوم کی سب سے بڑی شناخت ہو سکتا تھا اس کی اپنی شناخت مسخ کرنی کو کوشش اغیار اور خود ہمارے اپنوں کی جانب سے پے بہ پے ہورہی ہیں تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے ان کوششوں کے باوجود اسلام آج بھی اس قوم کے درمیاں سب سے بڑی قدر واحد ہے۔
دسرا حصۃ امریکا کے حوالے سے
دیکھیے اس وقت ہمارے ملک میں جو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں اور جن کا ایک مضبوط ووٹ بینک بھی وہ گنتی کی چند ایک ہی ہیں مثلا پی پی پی، مسلم لیگ ن اور ق ، ایم کیو ایم وغیرہ اب بتائے کے یہ جماعتیں کب امریکا مخالف نعرے لگاتی ہیں ؟ یہ تو ہمیشہ ہی امریکا کی حامی رہی ہیں (مسلم لیگ ن کا رویہ اب قدرے تبدیل ہوا ہے(
امریکا مخالف نعرے البتہ وہ جماعتیں لگاتی رہی ہیں جو ماضی میںایم ایم اے کے نام سے متحد تھیں اور ماضی میں ہونت والی الیکشن میں ان کو صرف صوبہ سرحد میں بھر پور کامیابی ملی تھی جو کہ اب تحلیل ہو چکی ہے۔
جہاں تک امریکا کی پاکستان میں مداخلت کی بات ہے تو یہ تو ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کسی طرح جھٹلایا نہیں جا سکتا ہے دیکھیے اگر امریکا مخالفت محض ایک جذباتی نعرہ ہو تا تو اتنے لمبے عرصہ تک اس کا اتنا موثر رہنا ممکن نہ تھا پھر یقینا بہت سارے ایسے امور ہیں جن کی بنا پر پاکستانی عوام کا ایک عمومی رویہ امریکا مخالف ہے
امریکا پاکستان میں الیکشن میں گڑ بگڑ کراتا ہے یا نہیںیا اس طرح کے دیگر معاملات میںاس کا کیا رویہ ہےاس کے متعلق کچھ کہنا میرے لیے ممکن نہیں تاہم اگر ہم پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات کا تاریخی تناظر میں جائزہ لیں تو یہ بات ضرور کھل جاتی ہیے کہ پاکستان کو امریکا نے ہمیشہ استعال کرنے کی کوشش کی ہے۔پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات امریکا کی اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے پاکستانی عوام کے لیے کبھی قابل قبول نہیں ہو سکے۔
یہاں میں صرف پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے حوالے سے پاکستان اور امریکا تعلقات کی چند جھلکیاں پیش کرنا چاہوں گا ۔
یہ ضرور ہے 1951 سے لے کر اب تک پاکستانی حکمران مسلسل امریکا سے بہتر سے بہتر تعلقات کے خواہش مند رہیں ہیں یہ تقریبا یقنی بات ہے کہ ان تعلقات کے ابتدائی مراحل میں پاکستانی حکمرانوں کی ایک بڑی دلچسپی امریکی ڈالروں میں تھی جو کہ امریکی امداد کی صورت میں وارد ہوتے تھے تاہم بعد ازاں ہندوستانی جنگی جنون نے آہستہ آہستہ فوجی امداد کے لیے بھی پاکستان کو صرف امریکا کی طرف ہی دیکھنے پر مجبور کردیا جو کہ اس عرصہ میںپا کستان کا ایک بڑا حلیف بن چکا تھا اور پاکستان اس زمانے میں بقول صدر ایوب کے پاکستان ایشیا میں امریکا کا "سب سے زیادہ متحد اتحادی" تھا لیکن اس کے صلہ میں پاکستان کو کیا ملا اور کس طرح امریکی پالیسی اچانک مکمل طور سے بھارت نواز ہوتی چلی گئی اس روداد بڑی عبرت انگیز ہے اس سلسلے میں خود صدر ایوب کی سونح حیات "جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی" کا وہ باب جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں لکھا گیا ہے پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے یہ پورا باب میرے لیے نقل کرنا آسان نہیں تاہم اس باب میں امریکا کے حوالے سے صدر ایوب نے نہ صرف پاکستان امریکا روابط کا تفصیلی جائزہ لیا ہے بلکہ وہ اس بات کا مسلسل رونا روتے رہیں ہیںکہ امریکا آستہ آہستہ پاکستان سے بے وفائی کا مرتکب ہوتا چلا گیا اور وہ ہندوستان جو اروس کی جھولی میں بیٹھ کر امریکا کو ٹھینگا دکھاتا تھا وہ امریکا کا محبوب بن گیا کچھ الفاظ خود صدر ایوب کی زبانی سنیئے
یہ ایک پاکستانی صدر کے الفاظ ہیں تو بتائیے عوام جو زیادہ جذباتی ہوتے ہیں وہ کیا گمان رکھیں گئے امریکا کے بارے میںیقنا منفی تو اس میں کس کا قصور ہے پاکستانی سیاستدانوں کا؟ یا امریکا کا؟اب تو پاکستان ہی نہیں ، کوریا سے لے کر ترکی تک کے عوام نے اس بات پ تعجب کرنا شروع کر دیا ہے کہ کیا امریکا "دوستوں اور "غیروں " میں تمیز نہیں کر سکتا
یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکا نے اس پاکستان کی اس سلسلے میں ناقدری کی جو 1955 میں بغداد پیکٹ میںشامل ہوا اور دنیائے عرب کی ناراضگی مول لی پھر یہ معاہدہ سینٹو کی جب شکل اختیار کر گیا تو بھی پاکستان اس کا رکن رہا جس کا بڑا نقصان روس کی شدید ناراضگی کی صورت میں برآمد ہوا اور وہ روس جو اب تک مسئلہ کشمیر پر غیر جانبدار رہتا تھا اب اس مسئلہ پر بھارت کا حامی بن گیا اور اس مسئلہ کو ویٹو کرنے لگا اس کے صلہ میں پاکستان کو کیا ملا بھیک کی صورت میں دیئے ہوئے چند ڈالر؟
جب 1962 میں بھارت کی چین کے ساتھ جھڑپ ہو ئی تو یہی امریکا جس کا سب سے بڑا اتحادی پاکستان تھا پاکستان کے سب سے بڑے دشمن کو جھولی بھر بھر کر امداد دینے لگا حالانکہ اسی زمانے میں نہرو نے یہ اعلان کیا تھا کہ امریکی اسلحہ وہ پاکستان کے خلاف بھی استعمال کر سکتے ہیں یہ کچھ چین کے ساتھ ہی مشروط نہیں،اور ساتھ ہی مزے کی بات یہ ہے کہ اس زمانے میں امریکا کے ذریعے ہی پاکستان سے یہ یقین دہانی حاصل کی گئی تھی کہ پاکستان چین بھارت جنگ کے دوران بھارت پر حملہ نہیں کرے گا، اور وہ وقت ہے آج کا وقت بھارت روس اور امریکا دونوں کا منظور نظر ہے ابھی حال ہی میں جو ایٹمی معاہدہ بھارت کے ساتھ کیا گیا ہے وہ اسی جاری امداد کی ایک مثال ہے
اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ 1959 میں پاکستان اور امریکا کے درمیان ایک دو طرفہ معاہدہ ہوا تھا جس کی روسے امریکا کے لیے بعض حالات میں لازمی ہو گیا تھا کہ اگر پاکستان کسی حملے کا شکا ر ہو تو امریکا اس کی مدد کرے اس پر بھارت نے بہت واویلا مچایا تاہم ہوا کیا اس کا ذکر پاک بھار ت وار سے پہلے ہی صور ایوب کرتے ہیں ان کے تاثرات پڑھیئے
اس وقت ہم پر یہ بات کھلتی جارہی تھی کہ اگر ہندوستان ہم پر حملہ کر دے تو اس کا امکان بہت کم ہے کہ امریکا اپنا وعدہ پورا کرے گا اور ہماری امداد کو پہنچے گا" ص255
اور بعد میں یہ بات وقت نے ثابت بھی کی کہ امریکا کبھی پاکستان کا اس پاکستان کا جس نے ہمیشہ امریکی دوستی کو باقی پوری دنیا پر ترجیح دی کبھی وفادار دوست ثابت نہ ہوا۔
بھارت کو دھڑا دھڑ امداد پر امداد ملتی گئی اور پاکستان محض اس وقت تک امریکی امداد کا دار پایا جب تک روس افغانستان میں رہا اور روس کی مخالفت میں امریکا پاکستان کو نوازتا رہا ادھر روس افغانستان سے نکلا ادھر پریسلر ترمیم کے ذریعے پاکستان تمام فوجی امریکی امداد سے محروم کر دیا گیا تیار شدہ وہ ایف سولہ جن کی قیمت پاکستان چکا چکا تھا وہ بھی پاکستان کو دینے سے انکار کر دیا گیا۔اور مزے کی بات ہے کہ بہانا یہ بنایا گیا کہ پاکستان ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے اور وہ بھارت جو 1974 میں ہی ایٹمی دھماکہ کر چکا تھا وہ ہر طرح کی پابندیوں سے محفوظ رہا۔
کلنٹن کے دور میں کچھ آثار تھے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات شاید دوبارہ استوار ہو جائیں اور اس سلسلے میں کچھ ابتدائی اشارے حوصلہ افزا بھی تھے تاہم بعد میں کلنٹن اتنے پاکستان سے دور ہو گئے کہ وہ پاکستان آنے کے لیے تیار نہ تھے اور اہل پاکستان 2000 کا کلنٹن کا دورہ بھلائے نہیں بھولتا ہے جب انڈیا کے دورے کے بعد کلنٹن پاکستانی حکمرانوں کی انتہائی منت سماجت کے بعد تیوریاں چڑھائے ،منہ بنائے اور ماتھے پر بل ڈالے کچھ دیر کے لیے پاکستان آئے تھے اور جلد ہی واپس لوٹ گئے اس وقت بھی بھارت کے ساتھ امریکا نے بڑے اہم نوعیت کے معاہدے کیے
پاکستان امریکا کہ یہ تعلقات امریکا کے اس کرادار کا پتہ دیتے ہیں کہ امریکا دوست نہیں بنا تا بلکہ وہ اپنے ،مفادات کے پیش نظر دوستیاں خریدتا ہے چنانچہ امریکی امداد کی بارش ایک بار پھر اس وقت پاکستان پر شروع ہوئی ہے اب جب امریکا کو پاکستان کی ایک بار پھر ضرورت ہے اور ایک آمر نے بغیر پارلیمنٹ کی منظور کےا ور بغیر مکمل طور پر پاک فوج کو اعتماد میں لیئے ایک ایسی جنگ پاکستان پر مسلط کر دی ہے جو کسی طرح پاکستان کے حق میں نہیں۔
افغان وار سے قبل جو کچھ امریکا پاکستان کے ساتھ کرتا رہا اس کی کافی تفصیلات میرے پاس موجود ہیں تاہم اس سلسلے میں ایک بات قابل غور ہے کہ ہماری عوام اتنی احمق نہیں جتنا کہ اس کو سمجھا جاتا ہے افغان وار سے پہلے پہلے جب امریکا کی پاکستان میں مداخلت بڑی حد تک خفیہ تھی اس وقت محض عالمی سطح پر کی جانے والی یہی دھاندلیاں پاکستانی عوام کو امریکا سے متنفر کرنے کا باعث تھیں مگر اب جب اس خطے میں امریکی دہشت گردی ایک کھلی کتاب بن چکی ہے آئے دن پاکستان عوام امریکی مزائل کا تحفہ اور اپنے عزیزوں کی لاشیں وصول کر رہے ہیں تو کیا اب بھی آپ یہی کپہیں گئے کہ امریکی مخالفت ایک جذباتی نعرہ ہے جو پاکستانی سیاستدانوں نے عوام کو دیا ہے؟
آخر میں کچھ باتیںاور پہلی تو یہ کہ انتہائی مختصر تجزیہ صرف پاکستان اور امریکی تعلقات کی ایک جھلک ہے اور باتیں ابھی کہنے کو باقی بہت ہیں صرف پاکستان ہی نہیںبلکہ پوری عالم اسلام کی جانب سے لیکن پھر کچھ یاروں کو گلا ہوتا ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ ان کو نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر والے جوابات نہیں چاہیں حالا نکہ بطور مسلم مسلم دنیا کے حالات سے کم از کم ہم کو باخبر تو ہونا چاہیے لیکن اس پر موضوع پر گفتگو بعد میں
دوسری بات یہ کہ امریکا کے پاکستان سے تعلقات دو پاکستانی صدور کے زمانے میں بڑے عروج پر رہے ہیں ایک صدر ایوب دوسرے صدر مشرف اور ان دونوں کی خودنوشت عام دستیاب ہیںاگر کوئی اللہ کابندہ ہمت کر ے ان کتب کے وہ ابواب جو امریکا سے متعلق ہیںان کو یہاں ٹائپ کر دے تو بھی کم از کم بہت سارے لوگوں پر یہ بات کھل جائے گی کہ ہم نے امریکا کو کیا دیا ہے اور بدلے میں امریکا نے ہم کو کیا دیا ہے۔
اور فواد ایک بات آپ سے کہ براہ کرم اپنی باتوں کو دہرانے سے اور مختلف پیرائے میں دہرانے سے پرہیز کریں آپ کی پچھلی پوسٹ اور اس پوسٹ میں کم از کم مجھے کوئی فرق محسوس نہیں ہوا اور دوسری بات یہ کہ جو نکات اٹھائے جاتے ہیں ان کا جواب دینے کی کوشش کیا کیجئے اور ان کو بالکل نظر انداز مت کر دیا کیجئے