محمد مجیب صفدر
محفلین
کچھ لوگوں کے لکھنے کا انداز اتنا تلخ ہوتا ہے کہ ان کے ہر حرف سے نفرت ایسے جھلک رہی ہوتی ہے جیسے ابلتا ہوا پانی ہو،چاہے وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو لیکن جب ابل رہا ہو تو وہ گرنا شروع ہوجاتا ہے ،،،،
یہ لوگ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اندر نفرت نے ایسے ڈیرے ڈالے ہوتے ہیں جیسے کوئی خانہ بدوش کسی کی زمین پہ ایک بار ڈیرا ڈال لے تو اسے ہجرت کے لیے راضی کرنا کافی مشکل ہو جاتا ہے ،
یہ لوگ وہ لوگ ہوتے ہیں جو زمانے کی تلخیاں جھیل چکے ہوتے ہیں اور ان کا ظرف اتنا کمزور ہوتا ہے کہ یہ ان تلخیوں کے اپنے اندر سمیٹ نہیں سکتے بلکہ گاہے بگاہے ان کی تلخیاں ظاہر ہوتی رہتی ہیں اور ایک دن وہ اس کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ ان کے پاس تلخیوں کے سوا کچھ نہیں بچتا چاہے بعد میں ان تلخیوں میں انکو پیار کی خوشبو بھی کیوں نہ آنی شروع ہو جائے پھر بھی انکے قلم ہمیشہ زہر اگلتے ہیں ،
اور کچھ لوگوں کے لکھنے کا انداز اتنا دلفریب ہوتا ہے کہ ہر لفظ سے محبت کی ایک نئی جھلک نظر آتی ہے ،،،ایسے لگتا ہے جیسے ان کی زندگی میں محبت کے سوا کچھ ہے ہی نہیں ،بے شک وہ اندر سے اس قدر ٹوٹے ہوں کہ چھونے سے بھی بکھرجانے کا اندیشہ ہو،لیکن وہ لوگ صرف محبت بانٹتے ہیں نفرت صرف اپنے لیے سمیٹ کے رکھتے ہیں جیسے ان کو وراثت میں ملی ہو کسی کو آگے نہیں دیتے ،ان لوگوں کا ظرف کا پیمانہ اتنا وسیع ہوتا ہے کہ اس میں زمانے بھر کی مصائب و الام بھرتے ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے پیمانے سے اسے گرنے نہیں دیتے ہاں اگر ان کا ظرف اور قلم کچھ اگلتا ہے تو وہ ہے صرف محبت یہ لوگ دوسرے کے درد میں تو شریک ہوتے ہیں لیکن ان کے درد کا حصہ اور وجہ نہیں ہوتے ،البتہ یہ دیکھنے میں ضرور آیا ہے کہ یہ لوگ دوسرے کے لیے محبت اور پیار میں شریک نہ بھی ہوں لیکن اس پیار اور محبت میں ان کا حصہ ضرور ہوتا ہے ،
اگر ایسے لوگ آپ کو ملیں تو ان کی قدر کریں کیوں کہ یہ لوگ قسمت سے ملتے ہیں ،،،،،
باقی تلخیاں اور نفرتیں بانٹے والوں سے اور ان کے قلم سے اتنا ضرور کہوں گا کہ
راہنماؤں سے بس اتنی سی گزارش ہے کہ
لفظوں کی ناموس کو بیچا نہ کریں
#متجسس
یہ لوگ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اندر نفرت نے ایسے ڈیرے ڈالے ہوتے ہیں جیسے کوئی خانہ بدوش کسی کی زمین پہ ایک بار ڈیرا ڈال لے تو اسے ہجرت کے لیے راضی کرنا کافی مشکل ہو جاتا ہے ،
یہ لوگ وہ لوگ ہوتے ہیں جو زمانے کی تلخیاں جھیل چکے ہوتے ہیں اور ان کا ظرف اتنا کمزور ہوتا ہے کہ یہ ان تلخیوں کے اپنے اندر سمیٹ نہیں سکتے بلکہ گاہے بگاہے ان کی تلخیاں ظاہر ہوتی رہتی ہیں اور ایک دن وہ اس کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ ان کے پاس تلخیوں کے سوا کچھ نہیں بچتا چاہے بعد میں ان تلخیوں میں انکو پیار کی خوشبو بھی کیوں نہ آنی شروع ہو جائے پھر بھی انکے قلم ہمیشہ زہر اگلتے ہیں ،
اور کچھ لوگوں کے لکھنے کا انداز اتنا دلفریب ہوتا ہے کہ ہر لفظ سے محبت کی ایک نئی جھلک نظر آتی ہے ،،،ایسے لگتا ہے جیسے ان کی زندگی میں محبت کے سوا کچھ ہے ہی نہیں ،بے شک وہ اندر سے اس قدر ٹوٹے ہوں کہ چھونے سے بھی بکھرجانے کا اندیشہ ہو،لیکن وہ لوگ صرف محبت بانٹتے ہیں نفرت صرف اپنے لیے سمیٹ کے رکھتے ہیں جیسے ان کو وراثت میں ملی ہو کسی کو آگے نہیں دیتے ،ان لوگوں کا ظرف کا پیمانہ اتنا وسیع ہوتا ہے کہ اس میں زمانے بھر کی مصائب و الام بھرتے ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے پیمانے سے اسے گرنے نہیں دیتے ہاں اگر ان کا ظرف اور قلم کچھ اگلتا ہے تو وہ ہے صرف محبت یہ لوگ دوسرے کے درد میں تو شریک ہوتے ہیں لیکن ان کے درد کا حصہ اور وجہ نہیں ہوتے ،البتہ یہ دیکھنے میں ضرور آیا ہے کہ یہ لوگ دوسرے کے لیے محبت اور پیار میں شریک نہ بھی ہوں لیکن اس پیار اور محبت میں ان کا حصہ ضرور ہوتا ہے ،
اگر ایسے لوگ آپ کو ملیں تو ان کی قدر کریں کیوں کہ یہ لوگ قسمت سے ملتے ہیں ،،،،،
باقی تلخیاں اور نفرتیں بانٹے والوں سے اور ان کے قلم سے اتنا ضرور کہوں گا کہ
راہنماؤں سے بس اتنی سی گزارش ہے کہ
لفظوں کی ناموس کو بیچا نہ کریں
#متجسس