ٹائپنگ مکمل لفظ از صبا اکبر آبادی

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بند، روباہوں کو جب شیر خدا نے کر دیا
ظلم نے پھر اک رگِ اسلام پر نشتر دیا
دین حق کے واسطے سینوں میں کینہ بھر دیا
گمرہی کو ابن ملجم کا نیا پیکر دیا
اور رقت بڑھ گئی سوز و گداز فجر میں
شیر خدا پر ہو گیا حملہ نماز فجر میں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اب امامت اور خلافت تھی حسن کے واسطے
چھ مہینے تک ستم سب قلبِ شبّر نے سہے
ہر قدم پر تھی بغاوت ہر قدم پر مرحلے
یہ انہیں منظور کب تھا خون امت کا بہے
خُلق کے پانی سے دھو ڈالا دلوں کے میل کو
صلح کے پُشتے سے روکا پھر لہو کی سیل کو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
زہر سے پھر جب حسن کا بھی کلیجہ کٹ گیا
ظلم نے سمجھا کہ اب رستے کا پتھر ہٹ گیا
پھر ہوس کیشوں میں بیت المال سارا بٹ گیا
اب کیا محسوس زور اسلام کا سب گھٹ گیا
یہ نہ سمجھا واقف سرِّ علی موجود ہے
دین کا وارث حسین ابن علی موجود ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
روحِ قرآں نے دُہائی دی بچاؤ اے حُسین
شرعِ پیغمبر نے دی آواز آؤ اے حُسین
آگ مذہب میں لگاتے ہیں بجھاؤ اے حُسین
پھر نئے بُت سر اٹھاتے ہیں گراؤ اے حُسین
صفحہ ہستی سے پیغامِ خدا مٹ جائے گا
تم نہ آؤ گے تو دینِ مصطفٰی مٹ جائے گا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یہ فغاں کوفے سے اٹھی تا مدینہ آ گئی
شدّتِ تاثیر سے ساری فضا تھرّا گئی
ایک بجلی کی طرح اذہان پہ لہرا گئی
آنے والی جانبِ سبطِ شہ بطحا گئی
شورش طوفاں میں کشتی کا کنارا کون تھا
جُز حُسین ابنِ علی دیں کا سہارا کون تھا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جب سُنی شبیر نے امت کی آوازِ فغاں
دل پکارا، آ گیا نزدیک وقتِ امتحاں
اب مدینے میں ٹھہرنے کی بھلا مہلت کہاں
ایک دشتِ بے اماں میں جا کے دینا ہے اذاں
حق ہو ضو افشاں کسی کے قلب حق آگاہ پر
شاید آ جائے بھٹکتا کارواں پھر راہ پر
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تربت جد پر یہ آ کر عرض کی اے شاہِ دیں
آپ نے جو کام سونپا تھا وہ ہے شاید قریں
امتحاں لینے پہ آمادہ ہوئے ہیں اہلِ کیں
فرض کی تکمیل میں سرکار ہم کو ڈر نہیں
غم نہیں کوئی کہ ہم مر جائیں یا زندہ رہیں
ہاں مگر ایسا نہ ہو محشر میں شرمندہ رہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السّلام اے آفتابِ بزمِ امکاں السّلام
السّلام اے منزل تنزیلِ قرآں السّلام
السّلام اے جدِّ عالی قدر و ذی شاں السّلام
آپ کا خادم چلا سُوئے بیاباں السّلام
ماں سے مل کر، بھائی کو کر کے سلام اب جائیں گے
خود منظم کرنے ملّت کا نظام اب جائیں گے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
قبرِ زہراء پر گئے آنسو بہانے کے لیے
مَرقدِ شبّر پہ حالِ دل سنانے کے لیے
یُوں کہا، جاتے ہیں اب واپس نہ آنے کے لیے
دشتِ ویراں میں نئی دُنیا بسانے کے لیے
قصرِ ملّت گرنے والا ہے سنبھالا چاہیے
شام کی ظُلمت میں قرآنی اُجالا چاہیے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پھر کہا عباس سے، کیجیے سفر کا اہتمام
صُبحِ طیبہ کا ذرا رُخ پھیر دیجیے سُوئے شام
منتظم ہیں آپ ہو جائے کچھ ایسا نظام
حشر تک زندہ رہے دینِ رسولِ حق کا نام
خاندانِ حیدری میں جتنے ہیں وہ سب چلیں
اہتمامِ خانہ داری کے لیے زینب چلیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ علی کی شیر دل بیٹی، وہ ثانئ بتول
صفحہ ہستی پر نقش غیر فانئ بتول
بھائیوں کی لاڈلی، زندہ نشانئ بتول
یاد تھا قرآن سب جس کو زبانئ بتول
چھوٹ جاتی وہ بہن کیسے بھلا شبیر سے
پرورش پائی تھی جس نے فاطمہ کے شِیر سے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دوستوں نے آ کے سمجھایا یہ کیا کرتے ہیں آپ
موت کے رستے پہ دانستہ قدم دھرتے ہیں آپ
ہیں جری ابن جری، مانا نہیں ڈرتے ہیں آپ
زندگی ارزاں نہیں بے فائدہ مرتے ہیں آپ
آپ کیا عُہدہ براہوں گے اُن اہلِ شر کے ساتھ
کُوفیوں نے کیا کیا تھا حیدر و شبّر کے ساتھ
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مشورے کچھ اور تھے منشائے قدرت اور تھا
فکرِ دنیا اور تھی پاسِ رسالت اور تھا
اس عبادت کے سوا طرزِ عبادت اور تھا
یہ جماعت اور تھی فرضِ امامت اور تھا
چاہنے والے کفِ افسوس ملتے ہی رہے
چلنے والے کربلا کی سمت چلتے ہی رہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یوں چلے جیسے چلے ابر رواں صحرا کی سمت
جو قدم اٹھا وہ اٹھا مرضئ مولا کی سمت
دیکھتے ہی رہ گئے سب سید والا کی سمت
جانے والوں نے نہ دیکھا مُڑ کے بھی دنیا کی سمت
صبر کی جو حدِّ آخر تھی وہ تھی حد سامنے
اب فقط تھی آبروئے دینِ احمد سامنے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
منزلوں پر منزلیں طے کر رہا ہے قافلہ
ختم ہوتا جا رہا ہے قُربِ حق کا فاصلہ
کِس ثبات و شکر سے گزرا ہے ہر اِک مرحلہ
مرضئ معبود کی دُھن ذکرِ حق کا مشغلہ
اپنے سینوں میں لیے سب دولتیں ایمان کی
ہر نفس کے ساتھ لب پر آیتیں قرآن کی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جس بیاباں میں قدم پہنچے گلستاں ہو گیا
دشتِ ویراں روکش گلزارِ رضواں ہو گیا
نکہتِ ایماں سے جنگل عنبر افشاں ہو گیا
پڑ گئی اِک رُوح ہر تنکا رگِ جاں ہو گیا
جی اٹھے مُردے عجب اعجاز تھے پیغام کے
قسم باذن اللہ لب پر عیسٰئ اسلام کے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کاروانِ نور ہے دشتِ بلا میں خیمہ زن
رحمتِ یزداں ہر ایک کے سر پر ہے سایہ فگن
سب عماموں کی جگہ باندھے ہوئے سر سے کفن
ہم زباں و ہم نوا و ہم خیال و ہم سخن
لفظ بکھرے تھے مگر جُملے میں مل کر ساتھ ہیں
اک شمع حق ہے پروانے بہتّر ساتھ ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جاں نثاری پر کمر باندھے ہوئے انصارِ شاہ
موت کا غم تھا کسی کو اور نہ جینے پر نگاہ
یہ وہ غازی تھے کہ جن سے ظلم نے مانگی پناہ
صبر کے عنوانِ روشن، دعوتِ حق کے گواہ
بَر ملا باطل کو کہتے تھے بُرا ، جی کھول کر
لفظ کو پہلے پرکھتے تھے لبوں پر تول کر
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ایک طرف صبحِ سعادت، ایک طرف افواجِ شام
ایک جانب نورِ پیکر، ایک جانب تِیرہ نام
ایک سمت آزاد فطرت، ایک سُو زر کے غلام
ایک طرف مطلق اُجالا، اِک طرف ظُلمت تمام
تھا اُدھر کوفے کا لشکر کثرتِ تعداد تھی
اِس طرف حق تھا رسول اللہ کی اولاد تھی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
عصر تک دسویں محرم کو رہی جنگ و جَدال
ناصرانِ شاہ نے دادِ شجاعت دی کمال
ہو گئے قربان عزیزانِ گرامی خوش خصال
توڑ ڈالے ظلم و استبداد کے ہمت سے جال
منہدم کر دِیں خیالی جنّتیں شدّاد کی
صبر نے جڑ کھود ڈالی منزلِ بیداد کی
 
Top