سید عاطف علی
لائبریرین
لیکن اس لحاظ سے بھی افعی تو ہونا تو لازم نہیں ٹھہرتا ۔اس معاملے میں جناب طباطبائی کی رائے نقل کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں
لیکن اس لحاظ سے بھی افعی تو ہونا تو لازم نہیں ٹھہرتا ۔اس معاملے میں جناب طباطبائی کی رائے نقل کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں
طبا طبائی کی رائے قابل قدر ضرور ہو گی لیکن حرف آخر نہیں ۔"قافیہ تقویٰ میں فارسی والوں کا اتباع کیا ہے کہ وہ لوگ عربی کے جس جس کلمہ میں ی دیکھتے ہیں اُس کو کبھی ’ الف ‘ اور کبھی ’ ی ‘ کے ساتھ نظم کرتے ہیں ۔ ’’ تمنی و تمنا ، تجلی و تجلیٰ وتسلی و تسلیٰ و ہیولی و ہیولیٰ و دینی و دُنیا ‘‘ بکثرت اُن کے کلام میں موجود ہے۔"
لیکن اس لحاظ سے بھی افعی تو ہونا تو لازم نہیں ٹھہرتا ۔
طبا طبائی کی رائے قابل قدر ضرور ہو گی لیکن حرف آخر نہیں ۔
ایک دوسری بات یہ بھی کہ اہل عرب کی قدیم قرائتوں اور روایتوں میں اور جدید لہجات میں بھی الف ، یا اور ان کہ بین بین کئی قسم کے لہجات کا تغیراور تفاوت پایا جاتا ہے ۔
اس سے تو بالکل کوئی انکار ہی نہیں بھائی ۔بجا ارشاد حفص کی قرأت اور لہجہ ورش کی قرأت اور لہجے سے مختلف ہے۔
آپ کا فرمان خاکسار کے موقف کی تائید کرتا ہے۔ جب ایک لفظ کی ایک ہی زبان میں قرأت اور لہجہ میں اختلاف ہے تو اسی لفظ کا ایک دوسری زبان میں تلفظ مختلف ہونا باعثِ حیرت نہیں۔
رضوان راز صاحب نے بالکل درست کہا کہ اس کا تلفظ " اَف ۔ عی" ہے یعنی یہ جس طرح لکھا ہوا ہے بالکل اُسی طرح پڑھا جائے گا ۔برائے کرم رہنمائی فرما دیں کہ لفظ " افعی" کا درست تلفظ کیا ہے ۔
ویسے ظہیر بھائی ! میں بھی اس لفظ کو نوجوانی ہی سے افعی ہی پڑھتا آیا تھا اب تک کہ "اصل" لفظ کا ادراک نہیں تھا ۔لیکن یہاں عربی زبان سے کچھ حد تک واقفیت سے الفاظ کا اندازہ ہوا کہ ان کی اصل کچھ اور ہے اور یہ بحث یقین پیچیدہ ہے ان سے نمٹنا یقینا ماہرین کا کام ہے ۔ اور ماہرین میں اختلاف کوئی غیر معمولی بات ہے ۔اس سلسلے میں ہمارے ایک عربی زبان کے استاد کی ایک بات انتہائی دلچسپ لگی کہ لسانیات میں اختلاف فقہ کے اختلاف کی طرح ہے کسی رائے کو مطلق غلط نہیں کہنا چاہیئے اگر اس کے پیچھے کوئی بھی بنیاد ہو ۔ اردو میں تو یقینا جو زبان نے قبول کیا اور اہل زبان میں رائج ہوا وہی چلنا چاہیئے ۔ ہم نے کیوں کہ اس لفظ کو کبھی کسی سے سنا ہی نہیں سو افعی ہی سمجھے جو درست بھی نکلا (فہد بھائی کی لغت میں ثبوت بھی آگیا) لیکن وہ بھی کتابت ہی میں کیوں کہ گفتگو میں یہ لفظ ہی مستعمل نہیں ۔رضوان راز صاحب نے بالکل درست کہا کہ اس کا تلفظ " اَف ۔ عی" ہے یعنی یہ جس طرح لکھا ہوا ہے بالکل اُسی طرح پڑھا جائے گا ۔
اس اصول پر اردو کے تمام علمائے لسانیات متفق ہیں کہ جب کوئی لفظ عربی ، فارسی یا کسی اور زبان سے اردو میں داخل ہوکر مستعمل ہوگیا تو اب اس لفظ پر اصل زبان کا تلفظ ، ہجے یا گرامر لاگو نہیں ہونگے بلکہ جس طرح اردو والے اسے برتتے ہیں وہی طریق معتبر کہلائے گا ۔ اردو میں اس کی ان گنت مثالیں ہیں ۔
ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ عربی کے اکثر الفاظ جو اردو میں مستعمل ہیں وہ براہِ راست عربی سے اردو میں نہیں آئے بلکہ فارسی کے ذریعے داخل ہوئے ہیں ۔ یعنی وہ عربی الفاظ پہلے تفریس کے عمل سے گزرے اور پھر جس طرح اہلِ فارس انہیں برتتے تھے اردو والوں نے بھی اُسی طرح ان سے لے لیا ۔ چنانچہ لفظ مذکور عربی میں تو "افعیٰ" ہی ہوتا ہے لیکن فارسیوں نے اسے افعی بنادیا اور وہیں سے اردو میں داخل ہوا ۔ چنانچہ اردو کی تمام معتبر لغات نے اسے افعی ہی لکھا ہے ۔ سو یہی املا اور تلفظ درست ہے ۔ املا کے لفظ سے یاد آیا کہ املا بھی عربی میں " املاء" ہوتا ہے لیکن فارسیوں نے اسے املا کردیا اور وہیں سے یہ اردو میں آیا۔ چنانچہ اردو کی تمام معتبر لغات میں "املا" لکھا ہے ۔ سو "املاء" لکھنا درست نہیں ہے ۔ یہ لفظ اب اردو کا ہے عربی کا نہیں ۔ چنانچہ اس کے عربی ہجے پر قائم رہنا ٹھیک نہیں ۔ املا کمیٹی نے ان معاملات پر کماحقہ تحقیق اور بحث و مباحثے کے بعدتفصیلی سفارشات جاری کر رکھی ہیں ۔ اردو املا کی "اسٹینڈرڈائزیشن " کرنے کے لئے یا اسے ایک غیر متنازعہ واحد معیار دینے کی خاطر ضروری ہے کہ جہاں تک ہوسکے ہم سب ان سفارشات پر عمل کریں ۔
اس صورت میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غالب نے اس سانپ کو راضی یا تسلی کے مقابل استعمال کیا یا عیسی و تقوی کے ؟
کیا فارسی میں عیسی اور تقوی یائے معروف کے ساتھ مستعمل ہے؟خاکسار کی رائے میں زیرِ نظر غزل کے تمام تر قوافی شعرائے فارس کے تتبع میں باندھے گئے ہیں اور کسی ایک قافیہ میں بھی ہائے معروف (ی) پر کھڑی زبر نہیں ہے۔
کتابتی یا بصارتی قافیوں کی حد تک ہی شاید مستعمل رہا ہو ۔ وہ بھی محدود ۔ واللہ اعلم ۔کیا فارسی میں عیسی اور تقوی یائے معروف کے ساتھ مستعمل ہے؟
میرے خیال سے صرف شعرا نے ضرورت شعری کے بنا پر اسے روا رکھا ہے ورنہ رائج تلفظ وہی ہے جو قرآن مجید میں ہے کیونکہ یہ الفاظ بذریعہ قرآن ہی رائج ہوئے ہیں۔کیا فارسی میں عیسی اور تقوی یائے معروف کے ساتھ مستعمل ہے؟
اور یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ شبلی اور فارسی شعر و شاعری کا "کیا تعلق ہے آپس میں" ۔شبلی نعمانی نے بھی عی سی کا قافیہ استعمال کیا ہے۔
جورِ گردوں سے جو مرنے کی بھی فرصت مل جائے
امتحانِ دمِ جاں پرورِ عیسی کر لوں
تیس دن کے لئے ترک مے و ساقی کر لوں ۔ شبلی نعمانی
جی ہاں درست فہد اشرف بھائی ۔میرے خیال سے صرف شعرا نے ضرورت شعری کے بنا پر اسے روا رکھا ہے ورنہ رائج تلفظ وہی ہے جو قرآن مجید میں ہے کیونکہ یہ الفاظ بذریعہ قرآن ہی رائج ہوئے ہیں۔
لغت میں بھی ہر جگہ تلفظ عیسی (سا) ہی درج ہے۔
ویسے ظہیر بھائی ! میں بھی اس لفظ کو نوجوانی ہی سے افعی ہی پڑھتا آیا تھا اب تک کہ "اصل" لفظ کا ادراک نہیں تھا ۔لیکن یہاں عربی زبان سے کچھ حد تک واقفیت سے الفاظ کا اندازہ ہوا کہ ان کی اصل کچھ اور ہے اور یہ بحث یقین پیچیدہ ہے ان سے نمٹنا یقینا ماہرین کا کام ہے ۔ اور ماہرین میں اختلاف کوئی غیر معمولی بات ہے ۔اس سلسلے میں ہمارے ایک عربی زبان کے استاد کی ایک بات انتہائی دلچسپ لگی کہ لسانیات میں اختلاف فقہ کے اختلاف کی طرح ہے کسی رائے کو مطلق غلط نہیں کہنا چاہیئے اگر اس کے پیچھے کوئی بھی بنیاد ہو ۔ اردو میں تو یقینا جو زبان نے قبول کیا اور اہل زبان میں رائج ہوا وہی چلنا چاہیئے ۔ ہم نے کیوں کہ اس لفظ کو کبھی کسی سے سنا ہی نہیں سو افعی ہی سمجھے جو درست بھی نکلا (فہد بھائی کی لغت میں ثبوت بھی آگیا) لیکن وہ بھی کتابت ہی میں کیوں کہ گفتگو میں یہ لفظ ہی مستعمل نہیں ۔اس صورت میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غالب نے اس سانپ کو راضی یا تسلی کے مقابل استعمال کیا یا عیسی و تقوی کے ؟