فاروق احمد بھٹی
محفلین
اساتذہ کرام جناب الف عین صاحب اور جناب محمد یعقوب آسی صاحب اور دیگر اہل زبان اور اہل علم سے لفظ قدر کے متعلق راہنمائی کی ضرورت ہے۔
گردشِ دوراں مجھے یوں آزمانا چھوڑ دے
اس قدر تو مشکلیں میری بڑھانا چھوڑ دے
اوپر بیان کردہ میرے شعر پر ایک مہربان نے یہ (نیلے رنگ میں لکھی ہوئی) رائے دی جو کہ کافی صائب معلوم ہوتی ہے
قدر، اس لفظ کے دو تلفظ ہیں۔ ایک میں ”د“ مفتوح ہے (قضا و قدر والا قدر)، اور ایک میں ساکن جس کا یہاں مقام ہے۔ دالِ ساکن کے ساتھ جو قدر ہے اس کے دو معانی ہیں۔ ایک جو مقدار کو واضح کرتا ہے جیسا کہ یہاں کر رہا ہے، اور دوسرا کسی کی شوکت کو ظاہر کرتا ہے، قدر و منزلت والا۔ آپ نے قدر کی دال کو مفتوح باندھا ہے جب کے یہاں مقام ثانی الذکر قدر کا ہے۔
مگر میں چونکہ مبتدی ہوں۔ اور زبان کی باریکیوں سے نا بلد تو مجھے اس بارے میں مزید راہنمائی کی ضرورت ہے۔ میرے خیال دونوں تلفظ والے قدر سے مقدار والا معنی لیا جا سکتا ہے۔ اور میری ناقص رائے میں (شاید غلط ہی ہو) جس،اس اور کس کے ساتھ قَدَر ہی آتا ہے۔جو مقدار کو ہی ظاہر کرتا ہے۔ ذیل میں غالب کے چند اشعار پیش کرتا ہوں اور آپ احباب کی تفصیلی رائے کی تمنا کرتا ہوں۔
دشمنی نے میری کھویا غیر کو
کس قدر دشمن ہے ؟ دیکھا چاہیے
گردش محیطِ ظلم رہا جس قدر، فلک
میں پائمالِ غمزۂ چشمِ کبود تھا
حالِ دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بارہا ڈھونڈا، تم نے بارہا پایا
جس قدر جگر خوں ہو، کوچہ دادنِ دل ہے
زخمِ تیغِ قاتل کو طرفہ دلکشا پایا
اور بہ کے ساتھ غالب نے اسکو (قد+ر، دال سکون کے ساتھ) باندھا ہے۔
دلِ حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ درد
کام یاروں کا بہ قدرٕ لب و دنداں نکلا
بہ قدرِ ظرف ہے ساقی خمارِ تشنہ کامی بھی
جو تو دریائے مے ہے تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا
گردشِ دوراں مجھے یوں آزمانا چھوڑ دے
اس قدر تو مشکلیں میری بڑھانا چھوڑ دے
اوپر بیان کردہ میرے شعر پر ایک مہربان نے یہ (نیلے رنگ میں لکھی ہوئی) رائے دی جو کہ کافی صائب معلوم ہوتی ہے
قدر، اس لفظ کے دو تلفظ ہیں۔ ایک میں ”د“ مفتوح ہے (قضا و قدر والا قدر)، اور ایک میں ساکن جس کا یہاں مقام ہے۔ دالِ ساکن کے ساتھ جو قدر ہے اس کے دو معانی ہیں۔ ایک جو مقدار کو واضح کرتا ہے جیسا کہ یہاں کر رہا ہے، اور دوسرا کسی کی شوکت کو ظاہر کرتا ہے، قدر و منزلت والا۔ آپ نے قدر کی دال کو مفتوح باندھا ہے جب کے یہاں مقام ثانی الذکر قدر کا ہے۔
مگر میں چونکہ مبتدی ہوں۔ اور زبان کی باریکیوں سے نا بلد تو مجھے اس بارے میں مزید راہنمائی کی ضرورت ہے۔ میرے خیال دونوں تلفظ والے قدر سے مقدار والا معنی لیا جا سکتا ہے۔ اور میری ناقص رائے میں (شاید غلط ہی ہو) جس،اس اور کس کے ساتھ قَدَر ہی آتا ہے۔جو مقدار کو ہی ظاہر کرتا ہے۔ ذیل میں غالب کے چند اشعار پیش کرتا ہوں اور آپ احباب کی تفصیلی رائے کی تمنا کرتا ہوں۔
دشمنی نے میری کھویا غیر کو
کس قدر دشمن ہے ؟ دیکھا چاہیے
گردش محیطِ ظلم رہا جس قدر، فلک
میں پائمالِ غمزۂ چشمِ کبود تھا
حالِ دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بارہا ڈھونڈا، تم نے بارہا پایا
جس قدر جگر خوں ہو، کوچہ دادنِ دل ہے
زخمِ تیغِ قاتل کو طرفہ دلکشا پایا
اور بہ کے ساتھ غالب نے اسکو (قد+ر، دال سکون کے ساتھ) باندھا ہے۔
دلِ حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ درد
کام یاروں کا بہ قدرٕ لب و دنداں نکلا
بہ قدرِ ظرف ہے ساقی خمارِ تشنہ کامی بھی
جو تو دریائے مے ہے تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا
آخری تدوین: