لفظ "نفرت" پر اشعار

عمر سیف

محفلین
محبت کے یر جذبے سے وہ انکار کرتا ہے
وہ خود نفرت ہے اور نفرت کا کاروبار کرتا ہے
اسے اگر موت پیاری ہے تو مر کیوں نہیں جاتا
وہ سارے شہر کو جینے سے کیوں بےزار کرتا ہے ۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
جن باتوں نے پیار تمہارا نفرت میں بدلا
ڈر لگتا ہے وہ باتیں بھی بھول نہ جائیں تمہیں
(ظہور نظر)
 
نفرت سے اب نفرت کرنا ہم سیکھیں گے
چاہت کی چاہت میں رہنا ہم سیکھیں گے
دل شاد رہو اور ضبط کے آنسو پی جاؤ تم
دنیا کے طالوت کو سہنا ہم سی۔ک۔ھیں گے


فیصل
 

شمشاد

لائبریرین
محبّتیں بھی عجب اُس کی نفرتیں بھی کمال
مری ہی طرح کا مجھ میں سما گیا اِک شخص
(عبد اللہ علیم)
 
نف۔۔رت ک۔۔۔۔تنی اچھی ہے
جینے کا مق۔۔۔صد بنتی ہے
نفرت کرنے وال۔۔ے اچھے
نفرت جن سے وہ بھی اچھے
ایسی نفرت کیسی نفرت
ن۔۔۔۔فرت تو اک جذبہ ہے
جذبوں سے نفرت کا کیا
جب تک نفرت کو نہ جانو
چاہت میں ڈوبو گے ک۔یا
نفر ت چاہت کا سایہ ہے
سائے سے نفرت کا ک۔۔۔۔یا
 

شمشاد

لائبریرین
یہ نفرتوں کی فصیلیں جہالتوں کے حصار
نہ رہ سکیں گے ہماری صدا کے رستےمیں
(حبیب جالب)
 

ماوراء

محفلین
بنجارے ہیں رشتوں کی تجارت نہیں کرتے
ہم لوگ دکھاوے کی محبت نہیں کرتے

کیوں بوجھ لیے بیٹھے ہو تم ذہن پہ اپنے
ہم لوگ تو دشمن سے بھی نفرت نہیں کرتے
 

شمشاد

لائبریرین
نفرت کی آگ لگائے ہوئے ہیں لوگ
مہرو وفا کا درس بُھلا ئے ہوئے ہیں لوگ
(جمیل عظیم آبادی)
 

طالوت

محفلین
مجھے تیری یاد سے نفرت ہے
مجھے تیری ہر بات سے نفرت ہے

مجھے زندگی نے یوں چنا دیوار میں
مجھے ہر آس سے نفرت ہے

میں کھیلتا ہوں رات بھر خیالوں سے
مجھے تیرے ہر خیال سے نفرت ہے

کوشش تو کر رہا ہوں جینے کی مگر
مجھے ہر ملاقات سے نفرت ہے

میں نے سوچا زہر ہی پ جاوں مگر
مجھے ہر مٹھاس سے نفرت ہے

ترے کوچے میں جب صدا بلند ہوتی ہے
مجھے یاد آتا ہے مجھے ہر آواز سے نفرت ہے

محبتوں کو نفرتوں میں بدل دے تو بھی
مجھے اسیری کی ہر شب فراق سے نفرت ہے

اب تو کچھ بھی ہنر باقی نہیں بچا
کہ مجھے میری ذات سے نفرت ہے

(اس سے زیادہ نفرت میں نہیں کر سکتا۔۔۔۔)
 

شمشاد

لائبریرین
کس طرح رکھے ہوئے ہیں چاند سورج اک جگہ
نفرتیں بھی پل رہی ہیں چاہتوں کے ساتھ ساتھ
(عاطف سعید)
 

شمشاد

لائبریرین
مری سوچ میں ت۔و ن۔۔ہ آسکیں ، ت۔ری نفرتوں کی وہ شدتیں
ترے دھیان میں نہ سما سکیں مری خواہشیں مری چاہتیں
(نزھت عباسی)
 

جیا راؤ

محفلین
تجھے اظہارِ محبت سے اگر نفرت تھی
تو نے ہونٹوں کو لرزنے سے تو روکا ہوتا

بے نیازی سے مگر کانپتی آواز کے ساتھ
تو نے گھبرا کے مرا نام نہ پوچھا ہوتا
 

مغزل

محفلین
نفرت کی ہر فصیل گرانے کے واسطے
تم اس طرف سے ہاتھ بڑھاؤ ، ادھر سے ہم
اختر علی انجم
( پاک ہند مشاعرے میں‌ پڑھا گیا شعر)
 
Top