لفظ "نفرت" پر اشعار

قبلہ یہ شعر یوں ہے ۔
رنجش ھی سہی دل ھی دکھانے کیلیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کیلیے

معذرت دلی طور پر کہ اس وقت نیند میں تھا پتہ نہیں کیا کیا لکھتا رہا ۔ واقعی بہت بڑی غلطی کر دی تھی ۔ تصیح کا شکریہ۔
 

مغزل

محفلین
نفرت کی ہر فصیل گرانے کے واسطے
تم اس طر ف سے ہاتھ بڑھاؤ ادھر سے ہم

اختر علی انجم
 

شمشاد

لائبریرین
مجھ سے تمہیں نفرت سہی، نیر سے لڑائی
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور
(چچا)
 

راجہ صاحب

محفلین
مجھ سے تمہیں نفرت سہی، نیر سے لڑائی
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور

گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش
کرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئی دن اور

ناداں ہو جو کہتے ہو کہ ’کیوں جیتے ہیں غالب
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور


چچا غالب
 

راجہ صاحب

محفلین
اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوں میں
اپنے گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے

اپنی بے کار تمناؤں پہ شرمندہ ہوں
اپنی بے سود امیدوں پہ ندامت ہے مجھے


ساحر
 

راجہ صاحب

محفلین
اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوں میں
اپنے گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے
اپنی بے کار تمناؤں پہ شرمندہ ہوں
اپنی بے سود امیدوں پہ ندامت ہے مجھے


ساحر
 

شمشاد

لائبریرین
مجھ سے تمہیں نفرت سہی، نیر سے لڑائی
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور
(چچا)
 

شمشاد

لائبریرین
اور میں وہ ہوں کہ ، گر جی میں کبھی غور کروں
غیر کیا ، خود مجھے نفرت میری اوقات سے ہے
(چچا)
 

جٹ صاحب

محفلین
کچھ خود بھی تھے افسردہ سے
کچھ تم بھی ہم سے روٹھ گئے

کچھ ہم زخم کے عادی تھے
کچھ شیشےہاتھ سے چھوٹ گئے

کچھ ہم بھی تھے حساس بہت
کچھ اپنے مقدر پھوٹ گئے

کچھ تم کو سچ سے نفرت تھی
کچھ ہم سے نہ بولےجھوٹ گئے

کچھ ہم بھی نہ تھے محتاط بہت
کچھ لوگ بھی ہم کو لوٹ گئے
 
Top