جوش للہ الحمد! کہ دل شعلہ فشاں ہے اب تک

حسان خان

لائبریرین
للہ الحمد! کہ دل شعلہ فشاں ہے اب تک
جسم ہے پیر مگر فکر جواں ہے اب تک
پائے حالات میں ہے رشتۂ آہ و شیون
شعر میں زمزمۂ آبِ رواں ہے اب تک
کب سے ہوں راہِ تشکک پہ خراماں پھر بھی
دل پہ جبریل کی دستک کا گماں ہے اب تک
شامِ عاشور کی پرہول صدا پر بھاری
صبحِ عاشور کی گلبانگِ اذاں ہے اب تک
مقتلِ شاہِ شہیداں کے خنک جھونکوں سے
بوئے انفاسِ مسیحا نفساں ہے اب تک
ابنِ حیدر نے جہاں نصب کیے تھے خیمے
وہ زمیں قبلۂ رندانِ جہاں ہے اب تک
للہ الحمد کہ نقشِ کفِ پائے شبیر
مرکزِ سجدۂ صاحب نظراں ہے اب تک
دیکھ اے تشنگیِ یک نفسِ لشکرِ حق
منہ سے نکلی ہوئی باطل کی زباں ہے اب تک
ایک پل خیمۂ سوزاں پہ جو چھایا تھا کبھی
قصرِ شاہی پہ مسلط وہ دھواں ہے اب تک
جس نے چھیدا تھا علی اصغرِ بے شیر کا دل
سینۂ جور پہ وہ نوکِ سناں ہے اب تک
فقر اک آن میں کوثر کے کنارے پہنچا
خسروی، خشک لب و تشنہ دہاں ہے اب تک
دو گھڑی سیدِ سجاد نے پہنا تھا جسے
پائے دولت میں وہ زنجیرِ گراں ہے اب تک
جوش کب سے ہوں یقیں سوز فضا میں پھر بھی
چشمِ یزداں مری جانب نگراں ہے اب تک

(جوش ملیح آبادی)
 

سید زبیر

محفلین
بہت خوب
فقر اک آن میں کوثر کے کنارے پہنچا
خسروی، خشک لب و تشنہ دہاں ہے اب تک
نہائت اعلیٰ انتخاب جزاک اللہ
 
Top