لمبی ترین ڈرائیو

اسلام آباد میں تھے کہ لاہور آفس میں ایک پانچ روزہ کورس کا انعقاد کیا گیا۔ ایک ماہ کی بچی ، بیوی اور بھائی اور کمپنے کے ایک ساتھی کو ساتھ لیا اور جی ٹی روڈ پر سارادن سفر کیا راستے میں گجرانوالہ ایک دوست کے گھر چائے کے لیے رکے۔گھر ڈھونڈنے میں بھی کچھ وقت لگا۔ اسی اثناء میں بارش شروع ہوگئی۔ رات ہوگئی لاہور پہنچتے پہنچتے۔ بھائی کو اپنے دوست کے ساتھ ریلوے اسٹیشن کے قریب ہی ایک ہوٹل میں چھوڑا اور خود کمپنی کی جانب سے مہیا کردہ انٹرنیشنل ہوٹل پہنچے۔

یاد گار سفر تھا۔ پانچ دن کورس اٹینڈ کیا، لاہور گھومے اور پھر اسی طرح واپسی۔ موٹروے ابھی نہیں بنی تھی اور جی ٹی روڈ کا برا حال تھا۔

حضرات و خواتین ! ہم نے تو زیک بھائی کی منچلی طبیعت کے برعکس اپنے تمام سفر اپنی کمپنی کی خاطر کیے ہیں لیکن لگتا یوں ہے گویا ہمارے بھی تلوے میں تل ہے۔ طبیعت کو قرار ہی نہیں۔

ہم دہری اذیت کے گرفتار مسافر
پاؤں بھی ہیں شل، شوقِ سفر بھی نہیں جاتا​
 

زیک

مسافر
سفر تو یہی کوئی 300 کلومیٹر بنا ہوگا لیکن گاڑی میں نے کوئی تیرہ چودہ گھنٹے مسلسل چلائی۔

بیوی کی پرانی خواہش تھی کہ اُس کو لاہور اُس کی والدہ کی قبر پر لے کر جاؤں، صبح آٹھ بجے کے قریب سیالکوٹ سے نکلا، بیوی کو قبرستان لے گیا (سالے کے گھر، جو پاس ہی تھا نہیں گیا کہ یہ فرمائش کا حصہ نہیں تھا، اِس بات کا وہ آج تک شکوہ کرتا ہے، میری بلا سے :) )۔ اُس کے بعد بچے لاہور میں مجھے گھماتے رہے، کھانے کا وقفہ کیا۔ اور شام کے قریب واپسی، میرا ارادہ تھا کہ شام سات بجے تک سیالکوٹ پہنچ جاؤنگا، لیکن گوجرانوالہ میں رستہ بھول گیا، وہاں سڑکیں ادھڑی پڑیں تھیں اور ٹریفک کی لمبی قطاریں، دو تین گھنٹے وہیں گھومتا رہا، برا حال ہو گیا۔ دس بجے سیالکوٹ پہنچا۔

قدرت کے ہر کام میں کوئی بہتری ہوتی ہے، اب بیوی بچے جب بھی لاہور کا کہتے ہیں تو میرا بہانہ کہ میں تو رستہ بھول جاتا ہوں، میرا خوب ساتھ نبھاتا ہے :)
سیالکوٹ چد بار ڈرائیو کر کے گیا ہوں مگر یہ بیس تیس سال پرانی بات ہے۔ ایک بار کسی شارٹ کٹ کے چکر میں دوسرا راستہ لیا شاید نارووال کی طرف تو وہ کافی لمبا ہو گیا۔ امی سے ڈانٹ پڑی کہ کدھر سے لیجا رہا ہوں۔
 

زیک

مسافر
اسلام آباد میں تھے کہ لاہور آفس میں ایک پانچ روزہ کورس کا انعقاد کیا گیا۔ ایک ماہ کی بچی ، بیوی اور بھائی اور کمپنے کے ایک ساتھی کو ساتھ لیا اور جی ٹی روڈ پر سارادن سفر کیا راستے میں گجرانوالہ ایک دوست کے گھر چائے کے لیے رکے۔گھر ڈھونڈنے میں بھی کچھ وقت لگا۔ اسی اثناء میں بارش شروع ہوگئی۔ رات ہوگئی لاہور پہنچتے پہنچتے۔ بھائی کو اپنے دوست کے ساتھ ریلوے اسٹیشن کے قریب ہی ایک ہوٹل میں چھوڑا اور خود کمپنی کی جانب سے مہیا کردہ انٹرنیشنل ہوٹل پہنچے۔
جب میری بیٹی دو ماہ کی تھی تو ہمیں نیو جرسی سے اٹلانٹا منتقل ہونا پڑا۔ دو دن میں 850 میل (1370 کلومیٹر) کا سفر ایک بےبی کے ساتھ خوب مزے دیتا ہے۔ یہی سفر بہت بار ایک ہی دن میں طے کیا ہوا تھا مگر بےبی کے ساتھ دو دن میں بھی مشکل لگا۔
 
گوگل کہتا ہے 1439 کلومیٹر ہے۔
اس سفر میں میرے ہمراہی ایک اور صاحب بھی تھے، ان کی نظر کافی کمزور تھی اور خاصے موٹے شیشے کا چشمہ لگاتے تھے۔ شام چار بجے کے قریب مقام بدر سے چلے تو چار ساڑھے سو کلومیٹر بعد میں نے انھیں ڈرائیونگ دینی چاہی لیکن انھوں نے بتایا کہ رات میں مجھے صاف نظر نہیں آتا اس لیے ڈرائیو نا کر سکوں گا۔ پھر ہم نے پلان بنایا کہ رات کسی ہائی وے ہوٹل پر گزار کر صبح نکلتے ہیں، ایک جگہ رک بھی گئے لیکن ہوٹل انتظامیہ نے ایک رات ٹھہرنے کا کرایہ اتنا مانگ لیا کہ ہم نے سفر جاری رکھنا زیادہ بہتر جانا۔

ہوٹل سے باہر نکل کر کافی پی، آدھا درجن انرجی ڈرنکز اور سگریٹ کے دو پیکٹ لیے اور اللہ کا نام لیکر چل پڑے۔ صبح طلوع ہونے سے کافی پہلے ریاض تک کا لگ بھگ ہزار کلومیٹر کراس کر چکے تھے کہ ریاض سے پہلے ہائی وے پر کوئی سپیڈ چیک سسٹم نہیں تھا۔ آگے البتہ قانون کی پاسداری کرنے میں ہی عافیت جانی کہ جگہ جگہ سپیڈ چیک والی گاڑیاں کھڑی دکھائی دے جاتی تھیں اور 10 سے 25 کلومیٹر اوور سپیڈ ہونے پر جرمانہ تین سو ریال اور اس کے بعد ہر 10 یا 15 کلومیٹر پر ڈبل ہوتا جاتا تھا۔
 

یاز

محفلین
ایک دفعہ ہم نے مسلسل 16 گھنٹے کی ڈرائیو کر کے گلگت سے راولپنڈی کا سفر براستہ چلاس، بابوسر، ناران، بالاکوٹ، ایبٹ آباد کیا۔ کہنے کو فاصلہ صرف 600 کلومیٹر کے قریب ہی تھا۔
اس کے علاوہ راولپنڈی سے بہاولپور کا سفر بہت دفعہ کیا۔ ایک دفعہ براستہ لاہور بہاولپور جانا ہوا۔ کل فاصلہ 730 کلومیٹر کے قریب ہو گا۔ فاصلے کے لحاظ سے یہ ہماری طویل ترین ڈرائیو ہو گی شاید۔
 
Top