ریستوراں کے فرش پہ لرزاں سائے رقاصاؤں کے
ذھن میں جیسے گڈ مڈ ہو کر ناچيں راز خداؤں کے
چھنن چھنن چھن ! اے رقاصہ ! فن پہ یہ آوازے کیوں؟
جس کی لؤ سے پھول لجائيں، اس چہرے پہ غازے کیوں
یوں تک جیسے چاند کی کرنیں ، یوں سن جیسے ربّ قدیر
وقت کے اس لمحے کا تاثرّ عالم گیر ہے عالم گیر
(2)
راوی کی لہروں پہ رواں ہیں قاشیں چاند ستاروں کی
کس منزل کو لپکی یہ نورانی فوج سواروں کی
چپ شپ !۔ جھکتے تنتے مانجھی! تجھ کو سبک ڈانڈوں کی قسم
دھیرے دھیرے ہو لے ہولے، کاٹ یہ ابرو کا سا خم
یوں مڑ جیسے پھول کی پتی، یوں چل جیسے سر گوشی
وقت کے اس لمحے کا تقاضا مدہوشی ہے مد ہوشی
(3)
کھیتوں کی ہر یاول پر یہ دھبے ہیں دہکانوں کے
یا گیتی نے اگلے بو سیدہ تابوت انسانوں کے
سر سر ! دھپ دھپ! اے محنت کش!چھوڑ درانتی توڑ کدال
چاک ہوئ دھرتی کی چھاتی مجھ کو اس محشر سے نکال
چار طرف سے گھیر چکے ہیں جلتی سانسوں کے پیچاک
وقت کے اس لمحے کی حقیقت، آتش ناک ہے آتش ناک
ذھن میں جیسے گڈ مڈ ہو کر ناچيں راز خداؤں کے
چھنن چھنن چھن ! اے رقاصہ ! فن پہ یہ آوازے کیوں؟
جس کی لؤ سے پھول لجائيں، اس چہرے پہ غازے کیوں
یوں تک جیسے چاند کی کرنیں ، یوں سن جیسے ربّ قدیر
وقت کے اس لمحے کا تاثرّ عالم گیر ہے عالم گیر
(2)
راوی کی لہروں پہ رواں ہیں قاشیں چاند ستاروں کی
کس منزل کو لپکی یہ نورانی فوج سواروں کی
چپ شپ !۔ جھکتے تنتے مانجھی! تجھ کو سبک ڈانڈوں کی قسم
دھیرے دھیرے ہو لے ہولے، کاٹ یہ ابرو کا سا خم
یوں مڑ جیسے پھول کی پتی، یوں چل جیسے سر گوشی
وقت کے اس لمحے کا تقاضا مدہوشی ہے مد ہوشی
(3)
کھیتوں کی ہر یاول پر یہ دھبے ہیں دہکانوں کے
یا گیتی نے اگلے بو سیدہ تابوت انسانوں کے
سر سر ! دھپ دھپ! اے محنت کش!چھوڑ درانتی توڑ کدال
چاک ہوئ دھرتی کی چھاتی مجھ کو اس محشر سے نکال
چار طرف سے گھیر چکے ہیں جلتی سانسوں کے پیچاک
وقت کے اس لمحے کی حقیقت، آتش ناک ہے آتش ناک