لمحہ بہ لمحہ ٹوٹتی ریاست اور فرقہ پرست جنگجو

قبائلی پٹی اور سوات میںطالبان نے بالادستی حاصل کرنے کے بعدبالآخر پنجاب کو اپنی کارروائیوں کے لیے منتخب کیا ہے جہاں آئے روزاِن کے خودکش حملہ آوردرجنوں افراد کو موت کے گھاٹ اُتار رہے ہیں جبکہ بیت اللہ محسود کا کہنا ہے کہ وہ ہفتہ وار دھماکے کرئے گا۔افغان سرحد سے جڑئے ہوئے قبائلی علاقوں میں خود اِس کی اپنی مسلح قوت کو برتری حاصل ہے جبکہ سوات میں مولوی فضل اللہ اور مولانا صوفی محمد کے حمایتی اِسے تعاون فراہم کرتے ہیں اور پاکستان کے زیرانتظام دیگر علاقوں میںیہ طالبان جنگجو پاکستانی فوج،پولیس اور شیعہ مسلک کے ماننے والوں کے خلاف متحد ہوکر لڑرہے ہیں۔ جہاں شورش زدہ علاقوں میں قابض طالبان نیٹو افواج،پاکستانی سیکورٹی فورسز کے خلاف برسر پیکار ہیں وہاں یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلکی مخالفین دیگر مسلح افواج کی طرح مزاحمت نہیں کرسکتے اور اِنہیں پارہ چنار سے لے کر واہگہ بارڈر تک بغیر کسی بڑی کارروائی کے نقصان پہنچایا جاسکتا ہے۔بدقسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ اِن کی یہ پالیسی زیادہ کارگر اور مہلک ہے جس نے پاکستان کی ریاست کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔اس سے پہلے عام خیال یہی تھا کہ دشوار پہاڑی علاقوں میں چھپ کر وار کرنے میں ماہر یہ سخت جان جنگجو میدانی علاقوں کا رخ نہیں کریں گے لیکن یہ خیال غلط ثابت ہوا ہے اور وہ زیادہ موثر حملوں کی منصوبہ بندی اور اِس پر عمل درآمد کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

دوسری طرف تجزیے کے ذمہ دار اذہان بالکل مفلوج ہوکر رہ گئے ہیں اور اِنہیں طالبان کے ہاتھوں شیعہ مسلک کے افراد کی ہلاکتوں کی وضاحت کرنے میں دشواری کا سامنا ہے، کیونکہ ابھی تک پاکستانی عوام کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے کی اہلیت رکھنے والے یہ افراد سیکورٹی فورسز اور پولیس کے خلاف ہونے والے خودکش حملوں کا جواز قبائلی علاقوں میں جاسوس امریکی طیاروں کی بمباری میں تلاش کررہے تھے اور اِن کا مشترکہ دعوی یہ تھا کہ اگر پاکستانی حکومت اپنے سرحدی علاقوں میں جاسوس طیاروں کی بمباری بند کروادئے تو طالبان جنگجو سیکورٹی فورسز پر خودکش حملے بند کردیں گے۔چونکہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جاسوس طیاروں کی بمباری میں شیعہ مسلک کے لوگوں کا کوئی ہاتھ نہیں اس لیے طالبان کے ہاتھوں اہل تشیع افراد کی ہلاکتوں کا جواز پیش کرنا مشکل ہے۔

یہ ایک تکلیف دہ بات ہے کہ اس کے باوجود پاکستانی میڈیا میں طالبان جنگجوئوں کی وکالت جاری ہے اور ٹی وی مذاکروں سے لے کر اخبارات کے ادارتی صفحات تک طالبان جنگجوئوں کے ہاتھوں معصوم شہریوں کے قتل عام کی مذمت نہ ہونے کے برابر ہے ۔دوسری طرف مہلک حملوں کے بعدمعمول کے تعزیتی بیانات اور سرکاری وغیرسرکاری ردعمل تقریباً ایک جیسا ہے۔علماء کا مشترکہ خیال یہ ہے کہ کوئی تیسری قوت پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کروانا چاہتی ہے اِس لیے مساجد اور امام بارگاہوں پر حملے کیے جارہے ہیں۔مشیرداخلہ جن کے بیان کو ایسے مواقع پر خصوصی اہمیت کا حامل قرار دیا جاتا ہے اب وہ ایسے مواقع پر بیانات کی حد تک ''یکسانیت'' کا شکار ہورہے ہیں جبکہ صدر مملکت اور وزیراعظم ''قومی موقف'' کی لکیر پیٹ رہے ہیں۔عمران خان اور حمید گل کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ امریکی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے کے نتیجے میں ہورہا ہے، باقی مذہبی لیڈر سانحات پر تاسف کے اظہار سے آگے کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ اِن کی اکثریت ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے پھیلائو میں اپنا کردار ادا کرتی آئی ہے اور دوسرئے مسالک کے لیے اِن کے ہاں معافی کی گنجائش مفقود ہے۔

جماعت اسلامی کے نئے امیر کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کو پسند کرتے ہیں۔ وہ یہ بات صرف مغرب دشمنی کی بناء پر نہیں کہہ رہے بلکہ اُن کے اس قول میں اُن کی جماعت کی سیاسی برتری کی خواہش پوشیدہ ہے جو اُنہیں طالبان کی مدد سے کراچی جیسے شہر میں دوبارہ حاصل ہوسکتی ہے چاہے اس کے حصول کے لیے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجانا پڑئے۔اس کے علاوہ وہ اپنے پیش رو قاضی حسین احمدکے ماضی کے اتحاد بین المسلمین کے تصور کی نفی کررہے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ مستقبل کے پاکستان میں سیاسی و عسکری برتری حاصل کرنے کے لیے کن عناصر پر تکیہ کرنا ہوگا۔اس کے علاوہ اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ جماعت اسلامی کے نئے امیر جماعت کو پھر سے افغان جہاد والے''سنہری دور'' میں واپس لیجانا چاہتے ہیں اور پاکستان میں متشدد اسلامی انقلاب کے سابق فوجی داعیان کی حمایت بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں جو ماضی میں جماعت اسلامی کو سیاسی فوائد بہم پہنچانے میں پیش پیش رہے۔

ایک مقبول عام'' فیصلہ'' یہ ہے کہ کوئی مسلمان ایسی واردات نہیں کرسکتا جس میں دوسرئے مسلمانوں کو نقصان پہنچے۔ لیکن حکومتی دعوئے کے مطابق مسلمان فرقہ پرستوں نے ہی چکوال میں امام بارگاہ کو خودکش حملے کے لیے منتخب کیا جہاں درجنوں افراد کو ہلاک کردیا گیا ہے۔حکومت اِنہیں اندرونی جہادی قرار دئے رہی ہے جو ریاست کو مفلوج کرکے اس کے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔صدر مملکت کا یہ بیان حقیقت کی مکمل عکاسی کرتا ہے کہ انتہاپسند پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔دوسری طرف پاکستانی مذہبی جماعتیں یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ اِس طرح کے حملوں میں مقامی جہادی ملوث ہیں ۔اِن کا واضح اشارہ بھارت کی طرف ہے جو پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرکے نہ صرف ممبئی حملوں کا بدلہ چکانا چاہتا ہے بلکہ کشمیر میں پاکستان کے کردار کی بھی سزا دینا چاہتا ہے۔لیکن یہ ایک ''ایمانی'' دعوی ہے اور اگر اس میں تھوڑی سی بھی صداقت ہوتی تو ممبئی حملوں کے بعدپاکستان کی بین الاقوامی سطح پر ہونے والی سبکی کا ازالہ کرنے کے لیے پاکستان کے لیے یہ ایک سنہری موقع تھا۔چونکہ پاکستان کے پاس اِن حملوں میں فی الحال بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت نہیں اس لیے مذہبی جماعتوں اور عسکریت پسندوں کی خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔

میڈیا پر بیانات کی حد تک پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو نظر انداز کرنے کی روایت بہت پرانی ہے اور عموماً ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ اس میں ملوث افراد کے ساتھ یا تو ہمدردی کا عنصر شامل ہوتا ہے یا پھر محض ''بیانات'' کی حد تک جھوٹی رواداری کی فضا قائم کرنے کی خواہش کے زیر اثر ایسا کیا جاتا ہے۔جبکہ زمینی حقائق قطعی مختلف اور نمایاں ہوتے ہیں۔اگر پاکستان میں فرقہ وارایت کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے محرکین جہاں پاکستان کی سرحدوں کے باہر بیٹھے ہوئے تھے وہاں پاکستان کے اندر بھی سیاسی مفادات کے لیے فرقہ واریت کے عنصر کو استعمال کرنے والے سرگرم تھے۔اِن اندرونی و بیرونی محرکین نے پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو تشدد کی راہ دکھائی اور اپنی اپنی''جنگ'' لڑنے میں مصروف ہوگئے۔جب اس جنگ میں شدت پیدا ہوگئی تو اِس سے فوائد حاصل کرنے والوں کی

قطار لگ گئی جن کے اپنے اپنے ایجنڈئے تھے اور اِن میں سے کئی تو اہم ترین اداروں میں طاقتور عہدوں پر تعینات تھے جبکہ پاکستانی ریاست کی شروع کردہ کئی بیرونی''مہمات'' میں چارئے کے طور پر استعمال ہونے والوں کو بھی اجازت دی گئی کہ وہ اندرون ملک اپنے مسلکی دشمنوں کی ''صفائی'' کا کام بھی کرسکتے ہیں۔

پاکستانی ریاست کے انتظامی ڈھانچے میں مذہبی تشدد اور فرقہ وارایت کا زہر اس طرح بھرا گیا کہ فرقہ پرستوں اور تشدد پسندوں کی جماعتیں بننے لگیں ۔اِنہیں اسلحہ اور جدید جنگی تربیت ملنا شروع ہوئی ۔فرقہ پرستی کے پھیلائو کے لیے باقاعدہ سُدھائے ہوئے خطیب اور مقرر اپنے اپنے علاقوں میں پھیل گئے اور اس کام میں جُت گئے۔صرف اَسی کے عشرئے کے اختتام تک پاکستان میں تین سو سے زائد ایسی

کتب اور رسائل دستیاب تھے جن میں ایک دوسرئے کو کافر،ملحد،بے دین اور مشرک تک قرار دیا گیا تھا۔پاکستان بھر کی دیواروں،سرکاری پیشاب خانوں،بسوں،ویگنوں حتی کہ تفریحی پارکوں میں اُگے درختوں پر مخالف مسالک کی تکفیر کے نعروں کو کندہ کردیا گیا۔

پھر نوئے کا خونی عشرہ شروع ہوا تو فرقہ پرست چھوٹے بڑئے ہتھیاروں،دستی بموں اور راکٹ لانچروں کی مدد سے ایک دوسرئے پر پل پڑئے۔مذہبی تقریبات سے لے کر مساجد ،امام بارگاہوں اور قبرستانوں تک ایک دوسرئے کا پیچھا کیا گیا اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔کمشنر،ڈپٹی کمشنر،پولیس افسران،ضلعی انتظامیہ کے عہدیداران،ممبران صوبائی و قومی اسمبلی،سیاستدان،جاگیردار،غیر ملکی سفیر،طالب علم حتی کہ شاعر اور استاد بھی فرقہ وارانہ جنگ میں مارئے جانے لگے۔کراچی میں فرقہ پرستوں نے مخالف مسلک کے دوسو سے زائد ڈاکٹروں اور انجینئروں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔اس فرقہ وارانہ جنگ میں قتل وغارت گری کا بازار گرم کرنے والوں کی اکثریت نے بعض طاقتور اداروں کی مدد حاصل کی اور افغانستان اور کشمیر میں ''سرکاری جہاد'' میں شامل ہوگئے۔اِن میں سے کئی ایسے بھی تھے کہ جب اِنہیں موقع ملتا وہ پاکستان کے مختلف شہروں میں مخالف مسلک کے اہم افراد کو نشانہ بناتے اور واپس اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں چلے جاتے۔اِن کو میسر پناہ گاہوں کے محفوظ ہونے کا اندازہ لگانے کے ایک سابق وفاقی وزیر مذہبی اُمور کا یہ بیان کافی ہے کہ فرقہ پرست قاتلوں کی ایک بڑی تعداد وارداتیں کرنے کے بعداسلام آباد کی لال مسجد میںپناہ حاصل کرتی تھی۔ ظاہر ہے دارلحکومت میں واقع اس اہم مسجد میں اِنہیں پناہ دینے والے کمزور لوگ نہیں تھے۔یہ بھی سب لوگ جانتے ہیں کہ اس مسجد کے کرتا دھرتا کون لوگ تھے اور اِن کی ہمدردیاں کس قسم کے جہادیوں اور فرقہ پرستوں کے ساتھ تھیںاور کون سا طاقتور ادارہ اِن کی پشت پناہی کرتا آرہا تھا۔

لال مسجد کی پناہ گاہ کی حیثیت کے خاتمے کے بعد اسلام آباد اور راولپنڈی کے کئی دوسرے مدارس میں آج بھی فرقہ پرست قاتلوں کی ایک بڑی تعداد پناہ گزین ہے جبکہ کئی مطلوب افراد پشاور اور پارہ چنار منتقل ہوچکے ہیں جہاں وہ اپنے''سابقہ اور اصل پیشے'' کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔سوات میں طالبان کے غلبے کے بعد اِن فرقہ پرستوں کو ایک مضبوط اور ہمدرد مذہبی جماعت کی مدد بھی حاصل ہے جو ڈیرہ اسماعیل خان اور جنوبی پنجاب کے کئی اضلاع میں فرقہ وارانہ قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔انتہائی باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں پنجاب اور کراچی میں فرقہ وارانہ قتل و غارت میں تیزی آئے گی اور مخالف فرقے کی عبادتگاہوں اور تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا جائے گا۔اس کے علاوہ سیکورٹی فورسز اور پولیس کے مراکز کو بھی نشانہ بنایا جائے گا کیونکہ اسلام آباد کی سرحدوں تک رسائی حاصل کر لینے والے مذہبی عسکریت پسندوں کو یقین ہے کہ پاکستانی حکومت اعلی امریکی و نیٹو عہدیداروں کو اس بات کی اجازت دئے چکی ہے کہ وہ قبائلی علاقوں کے علاوہ بھی عسکریت پسندوں کو ڈرون حملوں کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔

اپریل کے پہلے ہفتے میںپے در پے خودکش حملوں نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے اگر یہ کہا جائے کہ بوکھلاہٹ کا شکار حکومت آنے والے دنوں میں مزید بوکھلاہٹ کا شکار ہوگی تو غلط نہ ہوگا کیونکہ طالبان کے ساتھ''امن معاہدئے'' کے وقت حکومت اِن کے سامنے سوائے سیز فائر کے کوئی دوسرا مطالبہ رکھنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔اگرچہ طالبان نے اس معاہدئے کو عملی طور پر توڑ دیا ہے لیکن حکومت اِس معاہدئے کو توڑنا نہیں چاہتی کیونکہ جو کچھ طالبان کو اس معاہدئے میں پیش کیا گیا تھا وہ اس پر رکنا نہیں چاہتے اور حکومت مزید کچھ دینے کی پوزیشن میں نہیں۔سوات میں ایک نوجوان لڑکی کو کوڑئے مارئے جانے کی ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد حکومت معذرت خواہانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے اوریہ تاثر قائم کرنے میں ملکی مذہبی جماعتوں کی ہم زبان ہے کہ کچھ بیرونی ہاتھ سوات میں ہوئے امن معاہدئے کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔

بیرونی دنیاپاکستان کی سلامتی کے بارئے میںخدشات کا شکار ہوچکی ہے اور ایسا محسوس کیا جانے لگا ہے کہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر عراق اور افغانستان کی طرح کا خطرناک ملک قرار دیدیا جائے گا۔ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ یورپی یونین کے رکن ممالک پاکستان

سے اپنے سفارتی مشن دبئی یا کسی دوسرئے محفوظ ملک میں منتقل کرنا چاہتے ہیں اور یورپی پارلیمنٹ میں ایسی ایک قرارداد لانے کی تیاریاں مکمل ہیں۔میریٹ بم دھماکے کے بعد پاکستان مکمل طور پر بیرونی سرمایہ کاری سے محروم چلا آرہا ہے اور سوائے امدادی رقوم کے پاکستان کی طرف سرمائے کی ترسیل نہ ہونے کے برابر ہے۔پچھلے دنوں اٹلی کے شہر میلان میں پاکستان اور افغانستان کی صورتحال پر منعقدہ ایک مذاکرئے میں اکثر شرکاء کا خیال تھا کہ آج دنیا میں ایسی ریاستیں بھی موجود ہیں جن کی سرحدیں تو قائم ہیں لیکن وہ اپنی سرحدوں کے اندر ہی ٹوٹ چکی ہیں اور پاکستان بھی تیزی کے ساتھ ایک ایسی ہی ریاست کی شکل اختیار کررہا ہے۔

ریاستی اداروں کے ساتھ ساتھ دوسرئے مسالک کے ماننے والوں پر مہلک حملوں کی حکمت عملی کو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھانے کے ذمہ دار طالبان اور اُن کے ساتھی عسکریت پسندوں کو روک دینے میں ریاست کی ناکامی آنے والے دنوں میں پاکستان کا جو نقشہ کھینچ رہی ہے اس کے تمام خدوخال نہایت حوصلہ شکن ہیں۔یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں یا سول سوسائٹی کسی ایسی تحریک کا آغاز کرسکیں گی جو انتہاپسندوں کو عوامی سطح پر علیحدہ اور کمزور کرسکے۔اس کی سب سے بڑی وجہ سیاسی جماعتوں اور ملکی میڈیامیں عسکریت پسندوں کے حمایتی طاقتور افراد کی موجودگی ہے جو سیکولر جماعتوں اور افراد کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔اِن کی سب سے بڑی خواہش برسر اقتدار جماعت کو نکال باہر کرنا ہے۔بنیادی طور پر ریاست کی بقاء ے لیے لڑی جانے والی جنگوں میں یہ ایک فیصلہ کن جنگ ہے جو ریاست کے آیندہ خدوخال اور مستقبل کا تعین کرئے گی۔
مجاھد حسین
بشکریہ القمر
 

خرم

محفلین
بالکل درست فرمایا ظہور بھیا۔ اور میں اس تمام صورتحال میں جن ممالک کو ذمہ دار گردانتا ہوں ان کا نام لے کر کافی سارے ذہنوں میں ہل چل مچا دوں گا لیکن میرا تجزیہ ہے کہ اس سب تماشے کے پیچھے امریکہ نہیں، بھارت نہیں بلکہ "سعودی عرب" ہے اور اس کے بعد "ایران"۔ سلفی اسلام کی تبلیغ کا جو معاہدہ محمد بن عبدالوہاب کے درمیان آج سے تین سو چند برس قبل طے پایا تھا، اس کی اگلی تجربہ گاہ پاکستان ہے۔ اسی طرح "خمینی" انقلاب کی اگلی تجربہ گاہ بھی پاکستان بنتی ہے اور نوے کی ہی طرح کوئی دن جاتا ہے کہ یہ دونوں ممالک اپنی جنگ پاکستان میں لڑا چاہتے ہیں۔ لیکن میں ایران سے زیادہ سعودی عرب کو قصور وار گرادنتا ہوں۔ "جہادی" عناصر کی زیادہ تعداد بھی ان علاقوں میں ہے جہاں کے لوگ زیادہ تعداد میں عرب ممالک میں موجود ہیں۔ ایک چھوٹے سے ملک کے ہاتھوں دو دفعہ عبرتناک شکست کھانے والے یہ "مجاہدین"‌اسلام اب پاکستان کو فتح کرنے نکلے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی قوم "عرب بالادستی" کے خواب کے آگے گھٹنے ٹیکتی ہے یا اسے قبر میں دفن کر دیتی ہے۔
 

خرم

محفلین
نہیں بھائی ابھی تک ایسا نہیں ہے۔ لیکن شائد جلد ہی یہ منظر نامہ بھی بدل جائے۔ آخر کب تک ایران چُپ بیٹھے گا اور شیعہ برادری کب تک صرف لاشیں اٹھاتی رہے گی؟ اگر سعودی "مجاہدین"‌پاکستان آسکتے ہیں تو حزب اللہ کو پاکستان کا بارڈر پار کرنے میں کتنی دیر لگے گی؟ مفت تیل کی خیرات لینے والی پاکستانی حکومتوں کو اب ان عرب شیوخ کو ان کی اوقات میں لانا ہوگا وگرنہ حالات بہت اچھے نہیں۔
 
نہیں بھائی ابھی تک ایسا نہیں ہے۔ لیکن شائد جلد ہی یہ منظر نامہ بھی بدل جائے۔ آخر کب تک ایران چُپ بیٹھے گا اور شیعہ برادری کب تک صرف لاشیں اٹھاتی رہے گی؟ اگر سعودی "مجاہدین"‌پاکستان آسکتے ہیں تو حزب اللہ کو پاکستان کا بارڈر پار کرنے میں کتنی دیر لگے گی؟ مفت تیل کی خیرات لینے والی پاکستانی حکومتوں کو اب ان عرب شیوخ کو ان کی اوقات میں لانا ہوگا وگرنہ حالات بہت اچھے نہیں۔
معذرت کے ساتھ نہ حزب اللہ کا ایسا ایجنڈہ ہے اور نہ ایران کا اور نہ پاکستانی تشیع کا۔
 

جوش

محفلین
۔

جماعت اسلامی کے نئے امیر کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کو پسند کرتے ہیں۔ وہ یہ بات صرف مغرب دشمنی کی بناء پر نہیں کہہ رہے بلکہ اُن کے اس قول میں اُن کی جماعت کی سیاسی برتری کی خواہش پوشیدہ ہے جو اُنہیں طالبان کی مدد سے کراچی جیسے شہر میں دوبارہ حاصل ہوسکتی ہے
مجاھد حسین
بشکریہ القمر

۔ ۔ ۔ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے بہت نکلےٹوپی امیرکے ارمان مگر پھر بھی کم نکلے۔

جماعت تو سانپ کے گلے میں چھچوندر ہے، نہ نگلی جاے، نہ اگلی جاے
 
Top