مغرب میں تو خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر چکا ہے اور اب ہم پر یہ ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ ہم ثابت کریں کہ ہمارا نظامِ اخلاق ان کے ٹوٹ پھوٹ کے شکار نظام سے بدرجہا بہتر ہے۔یورپ میں طلاق کی شرح 1/3 ہے۔ اور زمانہ قریب میں 2/3 ہونے کا امکان ہے۔نفسا نفسی اور خود غرضی کے عالم میں ایک اچھی شادی شدہ زندگی کے خواب دیکھنا نہ چاہیے۔ مجھے امید ہے آپکی شادی یقینا کامیاب ہے۔ لیکن جو لوگ مسائل کا شکار ہیں وہ ’’کامیاب‘‘ لوگوں سے کہیں زیادہ ہیں!
اب مغرب کی نقالی میں ہمارے خاندانی نظام میں بھی دراڑیں پڑ رہی ہيں لیکن اس کے باوجود ابھی ہمارے ہاں طلاق اور ناجائز بچوں کے مسائل اس حد تک نہیں ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کو مزید بکھرنے سے بچایا جائے۔
مغرب بے ایمانی نہیں کرتا ، ہم مکہ المکرمہ میں بھی حج کے موقع پر اشیاء کی دس دس گنا زیادہ قیمت وصول کرنے سے باز نہیں آتے ، مغرب ہڈ حرام نہیں کام چور نہیں ، ہمارے دفتروں میں جسے دیکھو بھاگنے کی فکر ، جب موقع ملا غائب ، سرکاری دفتروں کی حالت زار انتہائی بری ، مغرب میں کسی کا حق نہیں مارا جاتا ، کسی کا استحصال آسانی سے نہیں کیا جا سکتا ، ہمارے یہاں عدالتوں میں چلے جائیں بڑا بھائی چھوٹے کا حق مار رہا ہے ، اور حکومت کے گماشتوں سے لے کر معمولی ٹھیکدار تک مزدور کا بری طرح استحصال کر رہے ہیں ۔۔
ایسی سیکنڑوں چیزیں ہیں جن کی مثال دی جا سکتی کہ جن میں ہمیں مغرب کی نقالی کرنا چاہیے ۔۔
وسلام
، کسی کا استحصال آسانی سے نہیں کیا جا سکتا۔۔
اردو کا ہی جملہ ہے اور مکمل بھی ۔۔جناب یہاں مغرب بھی کوئی جنت کا باغ نہیں ہے۔ یہاں بھی کام چوری ، ٹیکس سے فرار اور کرپشن سب چلتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ انکا نظام اتنا پیچیدہ ہے کہ مشرقی لوگ اس سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔ ذرا اسکی گہرائی میں جاکر دیکھیے کہ کس طرح بڑے بڑے سرمایہ دار متوسط طبقے کا خون کر رہے ہیں۔ کس طرح عوام کو بیوقوف بنا کر قرض لینے ہر مجبور کیا جاتا ہے اور انہیں سود کے نہ ختم ہونے والے چکر میں جکڑ دیا جاتا ہے۔کس طرح مادی خواہشات کو ہوا دی جاتی ہے۔ جسکے نتیجے میں لوگوں کو مادی نفسا نفسی اور خدا سے دوری پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہاں بھی بڑی کمپنیاں چھوٹے اداروں کا حق مارتی ہیں اور اپنی مرضیاںکرتی ہیں۔ اسلئے براہ کرم اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں۔ اور مغرب کی کاپی کو اپنی کامیابی نہ سمجھیں۔
جن کاموں میں مغرب کی نقالی کرنے کو کہہ رہا ہوں اس میں سے کوئی برا کام بتا دیں تو میں توبہ تائب کر لوں
اپنا دیس اور اپنی زبان اپنی ہی ہوتی ہی۔ دوسروں کی راہ پر چلیں گے تو اپنی بھی بھول جائیں گے!
اب موجودہ دور میں مغربی مملکتیں تمام تر خرابیوں کے باوجود برحال دنیا بھر میں عوام الناس کے لیے ایک مثال ہیں ۔۔ تو اسی کی نقالی کی مثال دی جائے گی نا کہ ان کے پاس کم از کم کوئی نظام تو ہے چاہے لولا لنگڑا ہی سہی ہے تو ۔۔
ہمارے پاس موجودہ دور میں کونسا نظام ہے جس کی مثال ہم دے سکیں کہ دیکھو فلاں اسلامی ملک میں ایسے ایسے چل رہا ہے تم بھی چلاؤ ؟
وسلام
کیا ہم مسلمان چودہ سو سال پرانے نظام اور موجودہ مغربی نظام کی نقالی کرنے کیلئے ہی رہ گئے ہیں؟ کیا ہم اتنا گئے گزرے ہیں کہ کوئی نیا نظام ترتیب نہیں دے سکتے ؟ کیا غلامی اور نقل ہمارے خون میں اتنا سرایت کر چکی ہے کہ متبادل سوچ سے ہی ہمیں ہارٹ اٹیک ہو جاتا ہے؟
تو پھر کونسا نیا نظام ترتیب دیا جا رہا ہے ؟ کہیں کام ہوتا تو نظر نہیں آتا ۔۔ اچھی چیز تو کسی سے بھی لی جا سکتی ہے مگر ہمیں صرف بری چیزیں لینے کا شوق ہے ۔۔ یا برائیاں کرنے کا
ارے ہاں ایک بات بتا دوں ہم سب ملکر کوئی نظام ترتیب نہیں دے سکتے کوئی ایک شخص ڈنڈے کے زور پر ایسا ضرور کر سکتا یا پھر زیادہ نہیں دو چار سو برس مزید انتظار
: