لمحہ فکریہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
پتہ نہیں کہاں سے شروع کرو لیکن دو تین دن سے بار بار ایک سوال ذہن میں آرہا ہے اسی فورم پر ایک ٹاپک ڈنمارک میں نبی السیف ولملاحم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے شائع کئے اب ہماری کیا ذمہ داری ہے اور کیا کرنا چاہیے دنیا کی ایک مثال لیں ایک ذمہ دار شخص کی موجودگی میں کسی ادارے کا نقصان ہو جائے تو وہ جواب دے گا یا گھریلوں معاملات میں بیٹے کی موجودگی میں خاندانی بے عزتی ہو جائے تو ۔۔۔ وہ تو ہم مانتے ہیں کہ" اب ت " تم موجود تھے اور یہ کام ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن میرے ذہن میں یہ سوال اس تھریڈ پر حرام اولاد کی پیدائش سے ہے
آیا اسلامی معاشرے میں بھی اس طرح ہوتا ہے؟
ان شاء اللہ یہ بحث آہستہ آہستہ آگے جائے گا اور اس میں سخت سے سخت شرائط بھی آئینگے اور اختلافی شرائط بھی
مثلا
ایک مسلمان مرتد ہو جاتا ہے تو اس کی بیوی اس پر طلاق اور اس کے بعد وہ اپنی ہی بیوی سے زنا کرتا ہے
شعائر اسلام کا مذاق اڑانا اس سے اس بندے کا نکاح ختم ہو جاتی ہے اور اس کے بعد اکا پیدا ہونے والا نسل ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک مسلمان قسم کھاتا ہے کہ اگر میں نے یہ کام کیا تو میری بیوی مجھ پر طلاق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک مولانا سے سن رہا تھا کہ لفظ طلاق کی مثال بندوق جیسی ہے تم سے چل جائے چاہے مذاق یا سنجیدگی ۔
جیسے ماضی قریب میں ایک "ڈم" اور" ڈمہ " جو کہ حقیقی میاں بیوی تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیرزادہ گروپ
اب دوستوں سے گذارش ہے کہ اس موضع پر صحت مندانہ دلائل دین کی روشنی میں پیش کریں


امید ہے کہ دوست اس پوسٹ کا مثبت پہلو لیں گے
 
طلاق کی تفصیل قرآن سے الگ ہے اور ملا سے الگ۔
بقول ملا، طلاق، ایک بندوق ہے، جو چل گئی تو بیوی کا حلالہ کروانا لازمی ہے۔ یعنی ایک دن کی شادی اور پھر دوبارہ شوہر سے شادی۔ عموماً اس "حلالی خدمت "‌کے لئے ملا خود اپنے آپ کو پیش کرتا ہے۔

بحساب قرآن ۔۔ اس بارے میں انشاء اللہ لکھوں گا۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
طلاق ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے ۔۔
فاروق صاحب انتظار رہے گا ۔۔
اور میری درخواست ہو گی کہ ارتداد کے حوالے سے بھی کچھ لکھیں ۔۔ قرآن مجید کے حوالے سے کہ مرتدین کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ۔۔ فقہاء نے جو باتیں کی ہیں ان کی ان کے ان کے پاس کیا دلائل ہیں ۔۔ وغیرہ ۔۔
 
فقہ اور شریعیہ ، دونوں قران ( اور سنت)‌ کی مدد سے قانون سازی کا نام ہے۔ پچھلے 1400 سالوں میں مختلف ممالک میں مختلف قسم کی قانون سازی ہوتی رہی ہے۔ اس قانون سازی کو فقہ اور شریعیہ کے لیبل دیے گئے اور کوشش یہ کی گئی کہ جو "فقہ " یا " شریعیہ" کو نا مانے اسے اسلام سے منکر کہا جائے۔

اس سے پہلے کہ ہم کسی بھی طرف نکلیں ، اللہ تعالی کے احکامات کی طرف جو نبیِ اکرم نے پیش کئے یا ان " شرعی اور فقہی " احکامات کی طرف جو مختلف محترم قانون سازوں نے قرآن سے بنائے، ہم کو کم از کم دو تعریفوں پر متفق ہونا پڑے گا۔

1۔ اسلام کیا ہے؟
2۔ مسلم کون ہے؟

2۔ مسلم کا مطلب ہے " تسلیم کرنے والا یا ایمان لانے والا یا ماننے والا " ۔
کیا " تسلیم کرنے والا یا ایمان لانے والا یا ماننے والا " ؟؟؟؟
اللہ تعالی کے احکامات ماننے والا، جو اللہ تعالی نے قرآن میں لکھے اور نبی اکرم نے اعمال و اقوال نبوی کی صورت میں پیش کئے۔

ممکن ہے یہ ایک ہر طرح سے مکمل تعریف نہ ہو اور مختلف لوگ اس میں مختلف اضافہ کرنا چاہیں۔ کیا ایسا کوئی اضافہ احکام الہی یعنی قرآن و سنت رسول سے باہر ہو سکتا ہے۔ میں اس مقام کے بعد عمومی طور پر لفظ قرآن " احکام الہی یعنی قرآن اور قرآن پر سنت رسول کے قول و عمل " کے معنوں میں استعمال کروں گا۔ اس سے قرآن و حدیث کی روایتی جنگ شروع کرنا مقصد نہیں بلکہ ہم سب کی آسانی ہے۔

تو اسلام کیا ہے، " احکام الہی یعنی قرآن اور قرآن پر سنت رسول کے قول و عمل " کو ماننے والوں کا مذہب ہے ، گویا قرآن کو مکمل طور پر ماننا، " اور قرآن پر سنت رسول اکرم کے قول و عمل کو مکمل طور پر قبول کرنا ہی اسلام ۔ نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ۔

نہ اس سے کم :
قرآن کی ہر آیت پر آپ ایمان رکھیں۔ یہی کتاب رسول اللہ نے پیش کی اور اسی کے مطابق قول و عمل کیا۔ اس میں کمی نہیں لائی جاسکتی۔

نہ اس سے زیادہ :
یہ درست ہے کہ قرآن کے اصولوں کی مدد سے بہت سی قانونی، فقہی، دیوانی، فوجداری اور شرعی کتب لکھی گئی ہیں۔ یہ کتب یقیناً قرآن کا درجہ نہیں رکھتی ہیں۔ قابل عزت اور علم و فلسفہ کا سرچشمہ ہونے کے باوجود یہ کتب قابل تنقید و تائید ہیں۔

اسی طرح اقوال و سنت رسول کی مدد سے بہت سی کتب لکھی گئی ہیں، یہ کتب بھی قابل عزت اور علم و فلسفہ کا سرچشمہ ہونے کے ساتھ ساتھ قابل تنقید و تائید ہیں۔ خود علماء ان میں صحیح، غیر صحیح، ضعیف وغیرہ کی تمیز کرتے ہیں۔

یہ وہ بنیادی فلسفہ ہے جو میں آپنی آئندہ تحریر میں استعمال کروں گا۔ میری کوشش یہ ہوگی کہ کم سے کم الفاظ میرے اپنے ہوں اور زیادہ سے زیادہ آیات قرآن سے ہوں۔

احباب سے گذارش ہے کہ اس پیغام پر مناسب تنقید فرمائیے تاکہ ہم باہمی مشورے سے اس میں کاٹ‌چھانٹ کرسکیں تاکہ درست پیغام مناسب الفاظ کے ساتھ سامنے ہو۔

یہ سوال کیوں ضروری ہیں؟
اس لئے کہ اگر ہم اسلام اور مسلم کی تعریف ہی نہیں کریں گے تو پھر اس کی تردید یعنی ارتداد کی تعریف کیسے کریں گے اور پھر جب تک ارتداد کی تعریف نہیں ہوگی ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کے ایک شخص ارتداد کا مرتکب ہوا؟

مجھے آپ کی ترمیمات کا انتظار رہے گا۔

جب تک جماعت اسلامی کا طلاق پر مضمون دیکھئے اور اندازہ کیجئے کہ کیا یہ مکمل ہے؟
http://www.jamaat.org/islam/divorce.html
ہمارے تبصرات، تائید و تنقید، خود ہمارے خوف میں کمی کا باعث اور ہمارے مطالعہ و علم میں اضافہ کا باعث بنیں گے۔
والسلام۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
قرآن کی ہر آیت پر آپ ایمان رکھیں۔ یہی کتاب رسول اللہ نے پیش کی اور اسی کے مطابق قول و عمل کیا۔ اس میں کمی نہیں لائی جاسکتی۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام تراشی کے بارے میں بھی ہم کو اپنی خیالات سے اگاہ کریں جو کہ قرآن کریم کی صریح آیات اس پر موجود ہے ؟
آپ کے مطالعے سے کچھ نہ کچھ مستفید ہو جائیں گے


اللہ اکبر کبیرا
 
بہت شکریہ واجد صاحب۔

یہاں‌ہم انسانی معاشرہ کے چار بڑے معاملات کے بارے میں بات کررہے ہیں۔ 1۔ ایمان ، 2۔ ایمان کی تردید یا ارتداد، 3۔ شادی یعنی عقد الزواج یا نکاح اور 4۔ طلاق یا تنسیخ نکاح

یہ چاروں معاملات بہت ہی بڑے ہیں اور ان پر کتب کی کتب لکھی گئی ہیں۔ اگر ایمان کا وجود نہ ہو تو ارتداد کا ہونا ناممکن ہے۔ اور اگر شادی کا وجود نہ ہو تو طلاق یا تنسیخ نکاح کا ہونا ناممکن ہے۔ یہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ شادی ایک واحد نظریہ ہے جو تقریباً‌ تمام مذاہب اور معاشروں میں مذہب کے فرق کے باوجود قابل احترام سمجھا جاتا ہے اور دنیا کے بیشتر مذاہب، قوانین کسی نہ کسی طوع تنسیخ نکاح کا تصور رکھتے ہیں۔ مثال کی طور پر ایک فریق کے پاگل ہوجانے کی صورت میں دوسرا فریق شادی کے مقدس بندھن سے آزاد قراد دیا جاسکتا ہے۔

آئیے مختصراً دیکھتے ہیں کے قرآن شادی کی ضمن میں‌کیا بنیادی شرائط رکھتا ہے۔ تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ زواج (‌زوج و زوجہ، میاں و بیوی ) کے درمیان عقد النکاح جسے عرف عام میں شادی کہا جاتا ہے، اس سے اللہ تعالی کا مقصد کیا ہے۔

کہ اللہ تعالی نے انسان کا جوڑا بنایا اور اس سے بہت سارے مرد و عورت پھیلائے۔
[ayah]4:1[/ayah] اے انسانو! ڈرو اپنے رب سے جس نے پیدا کیا تم کو ایک جان سے اور پیدا کیا اسی میں سے جوڑا اس کا اور پھیلائے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں اور ڈرتے رہو اس اللہ سے کہ سوال کرتے ہو تم ایک دوسرے سے جس کا واسطہ دے کر اور ڈرتے رہو رشتوں (کی نزاکت) سے بھی۔ بے شک اللہ ہے تم پر ہر وقت نگران۔

اللہ تعالی نے اس مقصد کے حصول کے لئے کچھ شرائط رکھیں۔ - اس معاہدہ کو ‌"‌میثاق الغلیظا"‌ یعنی بہت ہی بھاری معاہدہ کا نام دیا اور سارے قرآن میں اس علامتی الفاظ کو تین جگہ استعمال کیا۔ 1۔ عورت و مرد کے درمیان شادی کے معاہدہ کے لئے اور 2۔ اللہ اور اپنے رسولوں کے درمیان پیغمبر کے معاہدے کے لئے۔ 3۔ [AYAH]4:154[/AYAH] جب حضرت موسی کی قوم سے پختہ عہد لیا تھا کہ ہفتے کے دن مچھلی نہ پکڑنا، گیا علامتی طور پر میرا حکم ماننا۔

[ayah]4:21[/ayah] بھلا کیسے لے سکتے ہو تم اسے (واپس) جبکہ یکجان ہوچُکے تھے تم ایک دوسرے کے ساتھ اور لے چُکی ہیں وہ تم سے پختہ عہد ۔[arabic] (مِّيثَاقًا غَلِيظًا )[/arabic]
[AYAH]33:7[/AYAH] اور جب لیا تھا ہم نے نبیوں سے پختہ عہد اور تم سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور موسیٰ سے اور عیسیٰ بن مریم سے اور لیا تھا ہم نے ان سے خوب پختہ عہد۔ ۔[arabic] (مِّيثَاقًا غَلِيظًا )[/arabic]


یہ آیت [AYAH]33:7[/AYAH] بہت واضح طور پر ۔[arabic] (مِّيثَاقًا غَلِيظًا )[/arabic] کی تعریف کرتی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عقد الزواج (شادی یا نکاح کے معاہدہ ) کے معاہدہ کی کیا اہمیت ہے کہ اس معاہدہ کے لئے جو الفاظ خدائے عز و جل نے استعمال کئے ہیں وہی الفاظ اللہ تعالی اپنے رسولوں کے تقرر کے وقت کے معاہدہ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

مختلف روایات کے مطابق عقد الزواج کے وقت درج ذیل آیات پڑھی جاتی ہیں۔تاحیات ایمان کی شرط، اللہ تعالی کا خوف، اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کی اہمیت:
[AYAH]3:102[/AYAH] اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہاری موت صرف اسی حال پر آئے کہ تم مسلمان ہو
[AYAH]33:70[/AYAH] اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو اور صحیح اور سیدھی بات کہا کرو
[AYAH]33:71[/AYAH] وہ تمہارے لئے تمہارے (سارے) اعمال درست فرما دے گا اور تمہارے گناہ تمہارے لئے بخش دے گا، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتا ہے تو بیشک وہ بڑی کامیابی سے سرفراز ہوا


ایجاب و قبول:
بھاری معاہدہ پیش کیا جائے اور قبول کیا جائے۔

مہر، شادی کا تحفہ:
[AYAH] 4:4[/AYAH] اور ادا کرو عورتوں کو اُن کے مہر، خوش دلی کے ساتھ۔ پھر اگر (چھوڑدیں) وہ اپنی خوشی سے تمہارے لیے کچھ حصّہ مہر کا از خود تو کھاؤ اُسے خوشگوار سمجھ کر بے کھٹکے۔

کسی زبردستی سے عورتوں کو میراث نہ بناؤ:
[AYAH]4:19[/AYAH] اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، نہیں ہے جائز تمہارے لیے کہ میراث بنا لو تم عورتوں کو زبردستی۔ اور نہ دباؤ ڈالو اُن پر اس غرض سے کہ ہڑپ کر جاؤ تم کچھ حصّہ اس کا جو دیا ہے تم نے ہی اُنہیں (بصورتِ مہر و میراث) الاّیہ کہ وہ ارتکاب کریں صریح بدکاری کا اور برتاؤ کرو عورتوں کے ساتھ اچھّا۔ پھر اگر ناپسند ہوں وہ تم کو تو عجب نہیں کہ ناپسند کرو تم ایک چیز کو اور رکھی ہو اللہ نے اس میں خیرِ کثیر۔
نیت و مقصد شریک حیات بنانے کا نہ کہ وقت گزاری کا :
[AYAH]4:24[/AYAH] اور (حرام کی گئی ہیں تم پر) شوہر والی عورتیں مگر وہ جو (جنگ میں قید ہوکر) ہاتھ آئیں تمہارے یہ قانون ہے اللہ کا (لازم ہے جس کی پابندی) تم پر۔ اور حلال ہیں تمہارے لیے وہ (عورتیں جو علاوہ ہیں ان کے اس طرح کہ حاصل کرو تم اُن کو اپنے مال خرچ کرکے، قید (نکاح) میں لانے کے لیے نہ کہ بدکاری کی خاطر۔ پھر جو لطف اُٹھاؤ تم ان عورتوں میں کسی سے تو ادا کرو انہیں ان کے مہر بطور فرض اور نہیں ہے کچھ گناہ تم پر کسی (سمجھوتے) میں جو باہمی رضا مندی سے طے پاجائے، بعد مہر مقّرر کرنے کے۔ بے شک اللہ ہے ہر بات جاننے والا، بڑی حکمت والا
کنیزوں سے شادی، اجازت کے ساتھ :
[AYAH]4:25[/AYAH] اور جو نہ رکھتا ہو تم میں سے قدرت اس بات کی کہ نکاح کرسکے آزاد مومن عورتوں سے تو (وہ نکاح کرے) ان سے جو تمہاری مِلک میں ہوں، کنیزیں ایمان والی اور اللہ خُوب جانتا ہے تمہارے ایمان کا حال، تم سب ایک دوسرے میں سے ہو، سو نکاح کرو ان کنیزوں سے، اجازت سے ان کے مالکوں کی۔ اور ادا کرو انہیں ان کے مہر دستور کے مطابق (تاکہ وہ) قیدِ نکاح میں محفوظ رہنے والیاں ہوں۔ نہ بدکاری کرنے والیاں اور نہ چوری چھُپے یارانہ گانٹھنے والیاں۔ پھر جب وہ قیدِ نکاح میں محفوظ ہوجائیں تو اگر ارتکاب کریں بدکاری کا تو ان کے لیے ہے نصف اس سزا کا جو ہے آزاد عورتوں کے لیے مقّرر ہ سزا۔ یہ (کنیز سے نکاح کی سہولت) اس کے لیے ہے۔ جسے ڈر ہو بد کاری میں مُبتلا ہونے کا تم میں سے اور یہ کہ صبر سے کام لو تم۔ یہ بہتر ہے تمہارے لیے۔ اور اللہ بہت بخشنے والا، رحم فرمانے والا ہے۔

مہر کی تلقین اور ایمان والی عورت سے یا اہل کتاب سے شادی، چوری چھپے آشنائی کی ممانعت، یعنی اس عقد الزواج کا سب کو پتہ ہو، شریک حیات بنانا مقصد ہو نہ کہ وقت گذاری:
[AYAH]5:5[/AYAH] (حلال ہیں) پاکدامن عورتیں مسلمانوں میں سے اور پاکدامن عورتیں ان لوگوں میں سے جنہیں دی گئی کتاب تم سے پہلے۔ جب ادا کردو تم اُن کو اُن کے مہر قیدِ نکاح میں لانے کے لیے نہ شہوت رانی کے لیے اور نہ چوری چُھپےآشنائی کرنے کو اور جس نے انکار کیا ایمان (کی روش پر چلنے) سے تو اکارت گئے اس کے اعمال اور وہ (ہوگا)آخرت میں خسارہ اُٹھانے والوں میں سے۔

کنواروں کی شادی کی ہمت افزائی:
[AYAH]24:32[/AYAH] اور نکاح کر دیا کرو (ان مردوں اور عورتوں کا) جو مجّرد ہوں تم میں سے اور اپنے ان غلاموں اور لونڈیوں کا جو صلاحیّت رکھتے ہوں۔ اگر ہوں گے یہ مفلس تو غنی کردے گا اُن کو اللہ اپنے فضل سے۔ اور اللہ ہے بڑی وسعتوں کا مالک، سب کچھ جاننے والا
مشرک مرد و عورت سے ایمان لے آنے والے مرد و عورت کی شادی کی ممانعت :
[AYAH]2:221[/AYAH] اور نہ نکاح کرنا تم مشرک عورتوں سے جب تک کہ نہ ایمان لے آئیں وہ۔ اور البتّہ ایک مومن لونڈی کہیں بہتر ہے مشرک عورت سے اگرچہ وہ بہت پسند ہو تمہیں اور نہ نکاح کرنا تم (اپنی عورتوں کا) مشرک مردوں سے جب تک کہ نہ ایمان لے آئیں وہ۔ اور البتّہ ایک مومن غلام کہیں بہتر ہے مشرک مرد سے اگرچہ وہ بہت پسند ہو تمہیں۔ یہ (مشرک) بلاتے ہیں دوزخ کی طرف اور اللہ بلاتا ہے جنّت اور مغفرت کی طرف اپنے اذن سے اور کھول کھول کر بیان کرتا ہے اپنے احکام لوگوں کے لیے تاکہ وہ نصیحت قبول کریں۔

اس کے علاوہ شادی کے ضمن میں‌بہت سی آیات ہیں۔ میں ان کے صرف نمبر ہی یہاں لکھ رہا ہوں۔
اختصار کی خاطر شادی سے متعلق تمام تر آیات میں یہاں پیش نہیں کرسکتا ہوں‌۔ لہذا، صرف متعلقہ آیات ہی پیش کی ہیں۔ البتہ اگر کوئی صاحب یہ سمجھتے ہوں کہ کوئی اہم آیت اس سلسلے میں پیش کرنے سے رہ گئی ہے تو نشندہی فرمائیں۔ میں‌ اس آیت کو بالضرور شامل کردوں گا۔

میں نے، عہد و معاہدہ، ایجاب و قبول، مہر آزاد اور دوسرے کی باندی کے لئے یکساں ، غلام مرد و عورت سے شادی کا حکم، زبردستی میراث نہ بنانے کا حکم، ایمان کی تا حیات ضرورت، شادی کو نہ چھپانے کی ہدایت اور ایمان والے مرد و عورت سے شادی کی اہمیت اور مشرک و مشرکہ سے شادی کی ممانعت پر مبنی آیات یہاں لکھ دی ہیں۔ تاکہ اسلامی شادی کا مکمل نطریہ سامنے آجائے۔

براہ کرم مزید یہ آیات بھی دیکھئے۔
شادی کی اہمیت و ہدایت:
[AYAH]24:32[/AYAH] ، [AYAH]24:33[/AYAH] ،

شادی کی اجازت ممانعت کی کیٹیگریز۔
[AYAH]4:25[/AYAH] ، [AYAH]5:5[/AYAH] ، [AYAH]33:37[/AYAH]، [AYAH]33:50[/AYAH] ، [AYAH]60:10[/AYAH] ، [AYAH]60:11[/AYAH] ، [AYAH]60:12[/AYAH]
[AYAH]2:221[/AYAH] ، [AYAH]4:22[/AYAH] ، [AYAH]4:23[/AYAH]، [AYAH]4:24 [/AYAH]، [AYAH]24:3[/AYAH] ، [AYAH]33:52[/AYAH]

خالہ زاد، ماموں زاد، چچا زاد ، پھوپھی زاد سے شادی کے بارے میں:
[AYAH]33:50[/AYAH]

یتیموں کے بارے میں مہر کا حکم
[AYAH]4:127[/AYAH] ، [AYAH]28:27[/AYAH]،

مہر کی ادائیگی :
[AYAH]2:236[/AYAH] ، [AYAH]4:4[/AYAH] ، [AYAH]2:237[/AYAH]

شادی و انگیجمنٹ‌، منگنی یعنی پیغام نکاح کو عام کرنے کے بارے میں:
[AYAH]2:235[/AYAH]

والدین کی عزت کے بارے میں :
[AYAH]29:8[/AYAH] ، [AYAH]31:14[/AYAH] ، [AYAH]31:15[/AYAH]

اپنی پسند کے بارے میں :
[AYAH]4:3[/AYAH]

رسول اللہ کی سنت کے بارے میں:
[AYAH]33:21[/AYAH] یقینا ہے تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں بہترین نمونہ ہر اس شخص کے لیے جو امیدوار ہو اللہ کا اور یومِ آخرت کا اور ذکر کرتا رہتا ہو اللہ کا بہت زیادہ۔

یہ مختصر ریفرنس فراہم کرنے کے بعد ہم یہ اندازہ کرچکے ہیں‌کہ شادی کا نظریہ قرآن کی رو سے کیا ہے۔ اب آئیندہ پیغام میں انشاء اللہ ہم دیکھیں گے طلاق قرآن کی رو سے کیا ہے۔ اور پھر اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کریں گے کہ ارتداد یعنی مکمل طور پر قران کی تکفیر کی صورت میں اور جو لوگ قرآن کے احکام کا مضحکہ اڑاتے ہیں ان سے تعلق رکھنے کے بارے میں قرآن کیا کہتا ہے۔

[AYAH]4:140[/AYAH] اور البتّہ نازل کر چُکا ہے اللہ تم پر اسی کتاب میں یہ (حکم) کہ جب سُنو تم اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کیا جارہا ہے اور ہنسی اُڑائی جارہی ہے اُن کی تو نہ بیٹھو ایسے لوگوں کے ساتھ جب تک نہ مشغول ہوجائیں وہ کسی اور بات میں، اس کے علاوہ بے شک تم بھی، اگر ایسا کرو گے تو انہی جیسے ہوجاؤ گے۔ یقیناً اللہ جمع کرنے والا ہے منافقوں اور کافروں کو جنہم میں ایک جگہ اکٹھا۔

والسلام۔
 
Top