لندن سے اوکاڑہ-رؤف کلاسرہ

ساجداقبال

محفلین
شجن لوگوں نے شہباز شریف کو جیو ٹی وی پر ترنم کے ساتھ حبیب جالب کی یہ نظم ”میں نہیں مانتا“ پڑھتے سناوہ یقینا بہت حیران ہوئے ہوں گے، لیکن میں نہیں ہوا۔
پچھلے برس لندن کی سرد اداس شاموں میں، میں نے شہباز شریف کو اپنے کان پر ہاتھ رکھ کر اس نظم کو پاکستانیوں کے چھوٹے موٹے اجلاسوں سے خطاب کے دوران گاتے ہوئے سنا ہے۔ لاہور میں تو انہوں نے ایک مہربانی کی کہ اس نظم کے آخر میں انہوں نے اپنے سامنے رکھے مائیک کو ذوالفقار علی بھٹو کے اسٹائل کی کاپی کرتے ہوئے مکہ مار کر نہیں گرایا وگرنہ لندن میں تو اپنے اوپر ایک جذباتی کیفیت طاری کر کے مائیک کو باقاعدہ ایک مکہ رسید کرتے تھے جو اچھل کر سامنے بیٹھے کسی خوفزدہ سامع کے قریب جا گرتا۔ ان دنوں پاکستان سے کوئی بھی صحافی لندن جاتا تو اس کی پہلی ترجیح شریف برادران کے آکسفورڈ اسٹریٹ میں واقع گھر میں حاضری دینا ہوتی تھی۔ لامحالہ مجھے بھی ان کے ساتھ جانا پڑتا جہاں مجھے بار بار ایک ہی طرح کے رٹے رٹائے فقرے اور دعوے سننے کو ملتے۔ میں خاموش رہتا کیونکہ میرا ایمان ہے کہ انسان اپنی مصیبت کے دنوں میں بہت کچھ سیکھتا ہے لہذا یہ ممکن تھا کہ نواز اور شہباز نے بھی اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھا ہوگا۔ نواز شریف ہر وقت ایک ہی بات کہتے رہتے کہ جناب کچھ بھی ہو جائے وہ اپنی پارٹی کے لوٹوں کو کبھی واپس نہیں لیں گے۔ تاہم لندن سے پاکستان آنے کے بعد جو پہلا کام انہوں نے کیا، وہ جنرل مشرف دور کے وزیر زاہد حامد کو سیالکوٹ سے اپنی پارٹی کا ٹکٹ دیا اور دو درجن سے زیادہ پی ایم ایل کیو کے لوگوں کو اپنی پارٹی میں شامل کر لیا۔
دوسری طرف شہباز شریف اپنے آپ کو ایک انقلابی کے طور پر پیش کرتے جنہیں لندن کے معاشرے نے بدل کر رکھ دیا تھا۔ وہ بڑے جذباتی انداز میں لندن کے معاشرے کی مختلف مثالیں دیکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ اگر انہیں کبھی موقع ملا تو وہ پاکستان میں چاہے کچھ بھی ہو انصاف اور میرٹ پر کبھی بھی کمپرومائز نہیں کریں گے۔ بعض دفعہ تو وہ اپنے آپ کو اتنا جذباتی کر لیتے کہ میرے جیسے سامعین پریشان ہو جاتے کہ میاں صاحب کی آنکھ سے آنسو کیسے پونچھے جائیں۔
شاید اس طرح کے بڑے دعوؤں کا یہ کمال تھا کہ جب شہباز شریف وزیر اعلیٰ بنے تو پورے ملک اور میڈیا کو ایسے لگا کہ اب صوبے بھر میں دودھ کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی اور لوگوں کو انصاف ملے گا۔ شہباز شریف نے بھی میڈیا سے کھیلنا شروع کر دیا۔ جذباتی اعلانات ہونے لگے۔ فیصل آباد کے مظلوم دو بچوں کی ماں کے کیس کی دوبارہ انکوائری کا حکم کر دیا۔ تین ماہ پہلے آرڈر ہونے والی اس انکوائری کو اٹھا کر ان کے ایک مشیر نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ شہباز شریف نے بھی دوبارہ پوچھنے کی زحمت نہ کی کہ اس انکوائری کا کیا بنا کیونکہ اتنی دیر میں موصوف چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھے اور اگر انکوائری شروع ہو جاتی تو شاید یہ اتحاد مشکل میں پڑجاتا۔ یوں اس کیس کو چپکے سے سیاسی مصلحتوں کے حوالے کر دیا گیا اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی۔
شہباز شریف کو درپیش سب سے بڑا چیلنج صوبے میں بگڑتی ہوئی لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کا تھا۔ ان کے میرٹ اور انصاف کے دعوے سن کر بہت سارے ایماندار افسران جو مایوس ہو کر ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک میں ڈیپوٹیشن پر نوکریاں کرنے چلے گئے تھے وہ اپنی قوم کی بہتری کے نام پر پنجاب میں دور دراز اضلاع میں نوکریاں کرنے پر تیار ہو گئے۔ احسان صاحب بھی انہی میں سے ایک تھے جنہوں نے دو لاکھ روپے کی نوکری، اسلام آباد میں اپنی بیمار ماں اور اسکول میں پڑھتے بچوں کو چھوڑ کر ایک ڈسٹرکٹ میں ڈی پی او لگنے کا فیصلہ کیا۔
بہت سارے لوگوں کی طرح ان کا بھی یہ خیال تھا کہ اب یہ موقع آ گیا تھا کہ پولیس کے افسران شہباز شریف کی مدد سے پاکستان میں انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کی طرف پہلا قدم بڑھایا جائے۔ افسر شاہی اور عوام میں اعتماد کا رشتہ ختم ہونے کے بعد جو باہمی نفرت پیدا ہو چکی تھی اسے کم کرنے کی کوشش کی جائے۔ وہاں پہنچ کر انہیں یہ احساس ہوا کہ یہ کام اتنا آسان بھی نہیں تھا جتنا انہوں نے سمجھ لیا تھا کیونکہ اب ہر شخص کے ہاتھ میں قانونی یا غیر قانونی گن آ چکی تھی۔ چھوٹی موٹی بات پر گولی مارنا معمولی سی بات تھی۔ تاہم اس نوجوان آفیسر نے تہیہ کیا کہ وہ نہ صرف پولیس فورس کا اعتماد بحال کرے گا بلکہ عوام پر بھی یہ ثابت کرے گا کہ آج کے دور میں بھی علاقے کے وزیروں، ایم این ایز اور ایم پی ایز کے دباؤ کو خاطر میں نہ لا کر، عوام کی خدمت کی جا سکتی تھی۔ بہت جلد اس افسر نے یہ بات ثابت کر دکھائی کہ عزت ہمیشہ کمائی جاتی ہے خریدی نہیں جاسکتی۔ پولیس فورس اور عوام نے اس کی عزت کرنا شروع کر دی جس کے دروازے تمام لوگوں کیلئے کھلے تھے۔ چار ماہ کے اندر اندر ضلع میں کرائم ریٹ 70% کم ہو گیا۔ لوگوں کو احساس ہوا کہ اب وہ کوئی غلط کام کر کے کسی بڑے کی سفارش لگوا کر نہیں بچ سکیں گے۔
تاہم علاقے کے سیاستدانوں نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں تھیں۔ وہ بھلا کب تک ایک ایسے ڈی پی او کو برداشت کرتے جو ان کے کہنے پر نہ کسی کے خلاف پرچہ دیتا تھا اور نہ ہی رہا کرتا۔ تمام ایم پی ایز حضرات جن کا تعلق پی ایم ایل کیو سے تھا وہ شہباز شریف کے دربار میں حاضر ہوئے۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے۔ آگے بڑھ کر گلے لگایا۔ بات چیت شروع ہوئی۔ معاملہ طے ہو گیا۔ پی ایم ایل کیو کے ان حضرات نے پاکستان مسلم لیگ نواز کو سپورٹ کرنے کا اعلان کیا۔ جواباً شہباز شریف نے پورا ڈسٹرکٹ ان کے حوالے کرنے کے احکامات جاری کیے۔ جب وہ حبیب جالب کی مشہور نظم ”میں نہیں مانتا“ کو عوام کے سامنے ترنم سے گانے کیلئے اپنے دفتر سے روانہ ہونے لگے تو ان کے سامنے اس ایماندار آفیسر کو وہاں سے تبدیل کر کے کھڈے لائن لگانے کی فائل لائی گئی۔ وزیر اعلیٰ جو اس وقت حبیب جالب کی اس نظم کی ریہرسل میں مصروف تھے، تھوڑی دیر کیلئے رکے اور بڑی بے نیازی سے اس پر دستخط کیے اور مسکراتے ہوئے قوم کو یہ پیغام دینے کیلئے نکل گئے کہ وہ لوگوں کو انصاف دینے کیلئے کس حد تک جانے کو تیار تھے۔
میں نے فون اٹھا کر مذکورہ افسر کو جان بوجھ کر چھیڑا کہ جناب آپ بھی تھوڑا سا اپنا چال چلن درست کر لیتے تو آج یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ آپ کو آٹھ سال بعد پہلی دفعہ کوئی فیلڈ پوسٹنگ ملی تھی وہ بھی آپ نے عوام کو انصاف دینے کے رومانس میں گنوا دی۔ وہ تھوڑی دیر کیلئے خاموش ہوئے۔ شاید وہ مجھ سے اس طرح کی بات کی توقع نہیں کرتے تھے۔ پھر بولے، ہمارے اس دم توڑتے اور انصاف سے محروم معاشرے کے لوگوں میں تھوڑا سا یہ احساس ابھی رہنے دیں کہ ابھی بھی چند سر پھرے افسران موجود تھے جو اپنی ٹرانسفر پوسٹنگ، اپنے ذاتی فوائد اور سیاستدانوں کی انگلیوں پر ناچنے کے بجائے عوام کو انصاف دینے پر یقین رکھتے ہیں۔
ان کا فون بند ہو گیا ہے ۔ میں اداس بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ ہمارے یہ سیاستدان کس طرح کا معاشرہ چاہتے ہیں۔ شہباز شریف اور ان کی پارٹی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو یہ کہہ کر بحال کرانے نکلی تھی کہ وہ پورے ملک میں انصاف کا بول بالا کرائیں گے۔ یہاں تک بڑھکیں ماری گئیں کہ اگر انہیں پنجاب میں اپنی حکومت کی قربانی بھی دینا پڑی تو عوام کو انصاف دینے کے نام پر وہ اس سے بھی نہیں کترائیں گے۔ جو لوگ چیف جسٹس کو بحال کرنے کی بات کرتے تھے ان سے تو ایک ڈسٹرکٹ کا افسر برداشت نہ ہوا جس نے لوگوں کو انصاف دینے کی کوشش کی۔ ایک طرف ہمارے یہ لیڈر حبیب جالب کی انقلابی نظم ”میں نہیں مانتا“ بڑے ترنم سے گاتے ہیں اور دوسری طرف جب کوئی اچھاافسر لوگوں پر ہونے والے ظلم روکنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے اٹھا کر کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے۔
جنرل مشرف کو بھی چیف جسٹس افتخار چوہدری سے یہی شکایت پیدا ہو گئی تھی کہ وہ عوام کو انصاف دینے کی راہ پر چل نکلے تھے۔ یہی شکایت اس افسر سے ہوئی۔ افتخار چوہدری کو نکالنے کے خلاف تو پورا ملک ، میڈیا اور وکلاء اٹھ کھڑے ہو ئے لیکن اس ایماندار افسر کے لیے کسی نے بات نہ کی۔
داد دینی چاہیے ان کو جنہوں نے ایک ایماندار افسر کو جنرل مشرف والے اسٹائل میں سزا دی ہے۔ ان میں ابھی بھی اتنا حوصلہ ہے کہ وہ پوری عوام کے سامنے ٹیلی ویژن پر آ کر حبیب جالب کی نظمیں ترنم سے سنائیں۔ جنرل مشرف حبیب جالب کی نظمیں تو نہیں پڑھتے تھے۔ پہلے ہم آکسفورڈ اسٹریٹ میں شہباز شریف کے انقلابی دعوے سنتے تھے ۔ آجکل ان کی انقلابی نظمیں سن رہے ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ لندن سے لیکر اوکاڑہ تک کچھ بھی نہیں بدلا!!۔
اصل کالم یہاں پڑھیں۔ خادم اعلٰی آخر کو سیاستدان ہیں۔:(
 

محسن حجازی

محفلین
ساجد بہت بہت شکریہ! میں بس ابھی کے ابھی یہی کالم لگانے کو تھا کہ آپ نے لگا دیا۔
ایک تو اس کا عنوان لندن سے اوکاڑہ تک ہی کر دیجئے اور روف کلاسرہ کا نام دے دیجئے
دوسرا کالم پورے کا پورا پیسٹ کر دیجئے اس کے بعد ربط بھی دے دیجئے۔

باقی رہی خادم اعلی کی بات تو یہ نہایت شرمناک حرکت ہے۔ نون لیگ کے مصلحت کوشوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ اب نوے کی دہائي نہیں ہے، 70 ٹی وی چینل ان کے کرتوت کھول کر دکھا دیں گے۔ سو اگر کھوکھلے نعروں پر عوام سے کھلواڑ کی کوشش کی تو اب کے اٹک جیل نہیں بلکہ سیدھا پھانسی گھاٹ ہی مقدر ہو گا۔
 
Top