شمشاد
لائبریرین
لُنڈا بازار کراچی ایک برطانوی خاتون کے نام پر مشہور ہوئی ہے، لینڈا (Linda) نام کی خاتون ایک عام خاتون تھیں جو کراچی میں متعین ایک انگریز افسر کی بیوی تھیں مگر بہت رحم دل، غریبوں سے ہمدردی کے سبب انہوں نے کم وسائل کے باوجود خدمتِ خلق کے میدان میں قدم رکھا اور اپنے دوستوں کو قائل کیا کہ وہ گھر میں رکھے ایسے کپڑے جو پرانے ہونے یا نظر سے اتر جانے کے سبب قابل استعمال نہ ہوں وہ غریبوں کو بلا قیمت پیش کرنے کے لئے انہیں دے دیں، اس طرح سے ملے کپڑے ایک اسٹال پر سجائے گئے، جو انکے نام کی مناسبت سے ” لینڈا اسٹال ” کہلایا۔ تجربہ کامیاب رہا آور پذیرائی کا سبب بنا، اسطرح اور لوگ اور گروپ میدان میں آئے مگر کام لینڈا اسٹال کے نام سے کیا، آگے چل کر استعمال شدہ کپڑوں کی مارکیٹ کاروباری رنگ میں آگئی مگر نام لینڈا مارکیٹ ہی رہا -
پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور پنجاب کے میدانی علاقوں کی شدید سردی میں غریبوں کو تحفظ دینے کے لئے حکومت نے پرانے گرم کپڑوں کی درآمد پر کبھی پابندی نہیں رکھی، پڑوسی ملک ہندوستان میں درآمدات پر مکمل پابندی کی پالیسی کے سبب ہندوستان سے رشتہ داروں سے ملنے پاکستان آئے ہندوستانی شہری پرانے گرم کپڑے شوق سے خریدتے تھے۔ لاہور میں قائم اسطرح کی مارکیٹ مسز لینڈا کے نام سے ہی قائم ہوئی اور لنڈا بازار کہلائی۔ اس نام کو مزید شہرت اسد بخاری کی فلم لنڈا بازار سے ملی، پی ٹی وی نے اپنے قیام کے بعد سینما فلمیں دکھانے کی پالیسی بنائی تو سب سے پہلی فلم لنڈا بازار ہی دکھائی گئی تھی۔ مگر مسز لنڈا کا خیرات کا خواب اب مکمل طور پر کمرشلائزڈ ہوگیا ہے کیونکہ ہر برس برطانیہ کے طول و عرض میں ہزاروں لوگ اپنے استعمال شدہ کپڑے خیرات میں ہی دے دیتے ہیں اور اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ یہ کپڑے ان لوگوں کو دیے جائیں گے جنھیں ان کی ضرورت ہے یا ان کپڑوں کو برطانیہ کے بازاروں میں خیراتی اداروں کی دکانوں میں فروخت کر کے ان اداروں کے لیے رقم اکٹھی کی جائے گی۔
کراچی میں پرانے کپڑوں کی مارکیٹ لائٹ سینما کے ساتھ ایک گلی میں تقسیم سے قبل سے قائم تھی، اس بازار سے منسلک بڑی تعداد کچھی میمن برادری کی تھی جنکی اکثریت مارکیٹ کے سامنے ہی گاڑی کھاتے میں رہائش پزیر تھی۔ پرانے گرم ملبوسات کے بڑے خریدار شمالی علاقہ جات کےلوگ تھے جو آہستہ آہستہ اس مارکیٹ کو سمجھنے لگے اور صدر ایوب کے دورمیں پٹھانوں نے اس مارکیٹ میں قدم رکھا اور آہستہ آہستہ اس مارکیٹ پر چھاتے گئے، میمن برادری میں اس مارکیٹ نے کبھی بھی لنڈا بازار کا نام نہیں پایا بلکہ پٹھانوں کی نسبت سے "لالہ گلی" کہلاتی تھی ۔۔۔ لیکن یہ گَلی بھی اب لنڈا بازار ہی کہلاتی ہے۔
(بشکریہ - اقبال رحمن)