عمر سیف
محفلین
پانچ گھنٹے سے لائٹ غائب تھی‘ شدید گرمی سے تنگ آ کرمیں نے واپڈا کے دفتر فون کیا اور پوچھا کہ’’ حضور یہ غیر علانیہ لوڈشیڈنگ کیوں ؟ ‘‘۔۔۔جواب ملا’’بڑی معذرت‘ لیکن اب علانیہ سن لیجئے کہ یہ اکثر ہوتی رہے گی‘‘۔ ساتھ ہی فون بند ہوگیا ۔ مجھے بڑا مان تھا کہ میں نے لوڈشیڈنگ سے نمٹنے کے تمام انتظامات مکمل کرلیے ہیں‘ یو پی ایس کی بیٹریاں بھی بدلوا لی ہیں‘ چارجنگ فین بھی لے لیا ہے‘ جنریٹر بھی پٹرول سے فل کروا لیا ہے ‘ یہ ساری تیاریاں ایک ایسی لوڈشیڈنگ کے لیے تھیں جس میں لائٹ لمبی چلی جاتی ہے ۔اُس روز بھی ایسا ہی ہوا‘ لائٹ جاتے ہی یو پی ایس آن ہوگیا‘ دو گھنٹے بعد یو پی ایس ختم ہوا تو چارجنگ فین نے کام شروع کر دیا‘ ایک گھنٹے بعد وہ بھی نڈھال ہوگیاتو میں نے جلدی سے اٹھ کر جنریٹر سٹارٹ کیا‘ الحمدللہ پنکھا پھر سے چلنے لگا‘ لیکن دو گھنٹے مزید گزرگئے اور جنریٹر کا پٹرول بھی ختم ہونے لگا تو مجھے یقین ہوگیا کہ میں واپڈا سے شکست کھا گیا ہوں۔۔۔تاہم اس موقع پر ہمیشہ کی طرح میرا اخبار’’نئی بات‘‘ میرے کام آیا اور جب تک بجلی نہیں آگئی‘ میں اسی سے پنکھا جھلتا رہا۔
گرمی اور لوڈشیڈنگ نے لوگوں کی مت مار کے رکھ دی ہے‘ سوال کچھ پوچھیں‘ جواب کچھ ملتاہے۔میں نے کل اپنے ہمسائے سے پوچھا ’’گرمی کچھ زیادہ نہیں ہوگئی؟‘‘ اطمینان سے بولا’’ہاں۔۔۔لیکن قیمے والا نان زیادہ اچھا ہوتاہے‘‘۔ میں نے بوکھلا کر بارش اور قیمے والے نان کے درمیان جائز و ناجائز تعلق تلاش کرنے کی کوشش کی اور دوبارہ پوچھا’’بھائی جی! قیمے والے نان کا گرمی سے کیا تعلق؟‘‘ گھور کر بولا’’مجھے کیا پتا۔۔۔کسی ترکھان سے پوچھو‘‘۔۔۔میں سمجھ گیا کہ موصوف کو اندرونی و بیرونی گرمی مار گئی ہے لہٰذا بڑے ادب کے ساتھ ان کا ہاتھ پکڑ کر دکان پر لے گیا اور ایک عددصابن مع ایک عدد بوتل روح افزاء گفٹ کر دی۔
لاہور کی اکلوتی نہر اس وقت غریبوں کا سوئمنگ پول بنی ہوئی ہے‘ اس نہر میں نہانے والے اپنے بیشتر ’’معاملات زندگی‘‘ نہاتے نہاتے ہی سرانجام دے ڈالتے ہیں‘ شاید یہی وجہ ہے کہ جو اس نہر میں ایک بار نہا لیتا ہے ‘ پھر ساری زندگی نہاتا ہی رہتا ہے۔میرے ایک دوست کو اس نہر میں نہانے کا بہت شوق تھا لیکن دو سال پہلے اسے نہر سے سخت نفرت ہوچکی ہے۔موصوف نہر میں بھی ایسے نہاتے تھے جیسے گھر میں نہاتے ہیں۔ایک دفعہ نہا کر نکلے تو پیروں تلے زمین نکل گئی‘ نہر کے کنارے رکھے ہوئے کپڑے غائب تھے۔وہ فوری طور پر گہرے پانی میں کھڑے ہوگئے اور باہر کھڑے لوگوں سے مدد کی اپیل کرنے لگے۔کسی رحمدل انسان کو ترس آگیا اور اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا’’اخبار‘‘ ان کی طرف اچھال دیا۔سنا ہے گرتے پڑتے گھر تو پہنچ گئے تھے لیکن جہاں جہاں سے بھی گزرے‘ عوام نے ’’ہر خبر پرنظر‘‘ رکھی۔
گرمی سے نمٹنے کے لیے لوگوں نے عجیب و غریب نسخے استعمال کرنا شروع کیے ہوئے ہیں‘ میرے محلے میں ایک صاحب ’’ستو ‘‘ والے پانی سے تاری لگاتے ہیں اور رات کو ائیر کولر میں پانی کی بجائے کچی لسی بھرکے چلاتے ہیں۔اُنہوں نے چھت والے پنکھے کے ساتھ ایلفی سے فالسے چپکائے ہوئے ہیں‘ دلیل یہ دیتے ہیں کہ فالسہ ٹھنڈا ہوتاہے۔اپنا نام انہوں نے سلطان جابر کی بجائے ’’سلطان تربوز‘‘ رکھ لیا ہے ۔روزدوپہرایک ڈیڑھ بجے چھٹی کے وقت گرلز کالج کے باہر کھڑے ہوجاتے ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہوتی ہے۔لباس کے معاملے میں بھی انہوں نے گرمی کا بہترین توڑ نکالا ہے‘ فریج کا نیچے والا خانہ خالی کروا کے اس میں اپنے استری کیے ہوئے کپڑے رکھ دیے ہیں‘ یوں ہر وقت ٹھنڈا لباس پہنتے ہیں۔چائے میں برف ڈال کے پیتے ہیں اوردوپہر کو جسم پر برف کے گولے کی مالش کرواتے ہیں۔ اُن کے گھر والے ٹھنڈے پانی کو ترس گئے ہیں کیونکہ موصوف نے فریج کے دروازے کے سامنے چارپائی لگوا لی ہے اور سارا سارا دن فریج کا دروازہ کھول کر ٹھنڈی ہوا لیتے ہیں ۔انہوں نے ہر گرم چیز سے سخت پرہیز شروع کر دی ہے‘ مثلاً آم نہیں کھاتے‘ چکن سے دور ہوگئے ہیں اور بیگم کو میکے بھجوا دیا ہے۔۔۔!!!
بدترین لوڈشیڈنگ اور گرمی سے تنگ آکر میں نے سوچ لیا ہے کہ اس ملک میں رہنا ہے تو اپنی بجلی خود پیدا کرنی ہوگی‘ یقین کریں بجلی کی بندش کی وجہ سے پسینے کا یہ عالم ہوتا ہے کہ دفتر سے واپسی پر نہانے کی بجائے سروس کرانے کو جی چاہتا ہے۔ میں نے بجلی سے نمٹنے کے لیے کچھ طریقے سوچے ہیں‘ آپ بھی اِن سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ایک نہایت سستا اور آسان طریقہ تو یہ ہے کہ مری‘ کاغان یا گلگت شفٹ ہوجائیں‘ اگر اس میں پرابلم ہو تو لوکل نسخہ یہ ہے کہ سائیکل کی پرانی ٹیوبیں اکٹھی کریں‘ سب کو پنکچر لگوا کے ہوا بھروا لیں اوربیڈ کے نیچے سٹور کر لیں۔ جب بھی لائٹ لمبی جائے اور گرمی لگے تو ٹیوب کا وال کھول کر چہرے کے قریب کرلیں ‘ زندگی آسان ہوجائے گی۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ململ کی دھوتیاں سلوا لیں‘ دھوتی وہ واحد لباس ہے جس میں سخت گرمی میں بھی ’’ہولے ہولے سے ہوا لگتی ہے‘‘۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ کسی اے ٹی ایم مشین کے باہر Not Working کا کاغذ چپکا کر خوداندر آرام سے ٹانگیں پسار کے سو جائیں ‘ ایمان سے بڑا ٹھنڈا ماحول ہوتاہے۔
چوتھا طریقہ ہے کہ ٹنڈ کروا لیں‘ لیکن ٹنڈ کی بجائے waxکروا لیں تو زیادہ مناسب رہے گا ‘ اس سے گرمی بھی نہیں لگتی اور سر پر بار بار ہاتھ پھیرنے کو بھی دل کرتاہے۔پانچواں طریقہ یہ ہے کہ روز رات کوکسی بس کی چھت پر بیٹھ کر اپنے شہر سے پانچ سو کلومیٹر دور نکل جایا کریں ۔۔۔ہوا بھی لگے گی ‘ جھولے بھی آتے رہیں گے اور نیند بھی نہیں ٹوٹے گی۔چھٹا طریقہ یہ ہے کہ اپنے کمرے میں بیس کبوتر چھوڑ کر کمرہ بند کردیں اور ہاتھ میں ایک چھڑی لے کر سوجائیں‘ جب بھی گرمی لگے‘ چھڑی زور سے دیوار پر ماریں‘ کبوتر گھبرا کر پھڑپھڑائیں گے اور یوں مفت کی ہوا ملے گی‘ لیکن یاد رہے کہ اس طریقے پر عمل کرنے سے پہلے کبوتروں کو بھوکا رکھنا بہت ضروری ہے ورنہ ایک ہی رات میں ٹشو کا سارا ڈبہ ختم ہوسکتا ہے۔۔۔!!!ساتواں طریقہ ذرا مشکل ہے‘ کمزور دل والے حضرات اس پر بالکل عمل نہ کریں۔ طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی سرکاری ہسپتال کے مردہ خانے کے انچارج کو چار پیسے لگائیں ‘ ایک بیڈ حاصل کریں اور Chill کریں ۔ یہاں نہ ٹی وی کی آواز آئے گی‘ نہ خراٹوں کی ۔۔۔لیکن اخلاق کا تقاضا ہے کہ آپ بھی اپنی آوازوں پر کنٹرول رکھیں۔اسی سے ملتا جلتا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ محلے میں جہاں بھی کوئی فوتیدگی ہوجائے وہاں فوراً پہنچیں‘ آج کل میت کے سرہانے برف رکھ کر پنکھا چلا دیا جاتاہے‘ آپ نے صرف یہ کرنا ہے کہ پنکھے کے عین سامنے آکر دھاڑیں مار مار کر رونا ہے اور کوشش کرنی ہے کہ جنازہ زیادہ سے زیادہ لیٹ ہوجائے‘ اگر میت کے لواحقین تدفین کے لیے جلدی پر زور دے رہے ہوں تو انہیں باور کرائیں کہ یہ ٹھیک طریقہ نہیں ‘ پہلے پاکستان کے تمام شہروں سے مرحوم کے رشتہ داروں کو آلینے دیں۔۔۔!!! کاش کبھی ایسا بھی ہو کہ گرمیاں ‘ سردیوں میں آئیں‘ یقین کریں جون جولائی کا لطف دوبالا ہوجائے گا۔
گلِ نوخیز اختر
بشکریہ فیسبک ۔۔۔
گرمی اور لوڈشیڈنگ نے لوگوں کی مت مار کے رکھ دی ہے‘ سوال کچھ پوچھیں‘ جواب کچھ ملتاہے۔میں نے کل اپنے ہمسائے سے پوچھا ’’گرمی کچھ زیادہ نہیں ہوگئی؟‘‘ اطمینان سے بولا’’ہاں۔۔۔لیکن قیمے والا نان زیادہ اچھا ہوتاہے‘‘۔ میں نے بوکھلا کر بارش اور قیمے والے نان کے درمیان جائز و ناجائز تعلق تلاش کرنے کی کوشش کی اور دوبارہ پوچھا’’بھائی جی! قیمے والے نان کا گرمی سے کیا تعلق؟‘‘ گھور کر بولا’’مجھے کیا پتا۔۔۔کسی ترکھان سے پوچھو‘‘۔۔۔میں سمجھ گیا کہ موصوف کو اندرونی و بیرونی گرمی مار گئی ہے لہٰذا بڑے ادب کے ساتھ ان کا ہاتھ پکڑ کر دکان پر لے گیا اور ایک عددصابن مع ایک عدد بوتل روح افزاء گفٹ کر دی۔
لاہور کی اکلوتی نہر اس وقت غریبوں کا سوئمنگ پول بنی ہوئی ہے‘ اس نہر میں نہانے والے اپنے بیشتر ’’معاملات زندگی‘‘ نہاتے نہاتے ہی سرانجام دے ڈالتے ہیں‘ شاید یہی وجہ ہے کہ جو اس نہر میں ایک بار نہا لیتا ہے ‘ پھر ساری زندگی نہاتا ہی رہتا ہے۔میرے ایک دوست کو اس نہر میں نہانے کا بہت شوق تھا لیکن دو سال پہلے اسے نہر سے سخت نفرت ہوچکی ہے۔موصوف نہر میں بھی ایسے نہاتے تھے جیسے گھر میں نہاتے ہیں۔ایک دفعہ نہا کر نکلے تو پیروں تلے زمین نکل گئی‘ نہر کے کنارے رکھے ہوئے کپڑے غائب تھے۔وہ فوری طور پر گہرے پانی میں کھڑے ہوگئے اور باہر کھڑے لوگوں سے مدد کی اپیل کرنے لگے۔کسی رحمدل انسان کو ترس آگیا اور اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا’’اخبار‘‘ ان کی طرف اچھال دیا۔سنا ہے گرتے پڑتے گھر تو پہنچ گئے تھے لیکن جہاں جہاں سے بھی گزرے‘ عوام نے ’’ہر خبر پرنظر‘‘ رکھی۔
گرمی سے نمٹنے کے لیے لوگوں نے عجیب و غریب نسخے استعمال کرنا شروع کیے ہوئے ہیں‘ میرے محلے میں ایک صاحب ’’ستو ‘‘ والے پانی سے تاری لگاتے ہیں اور رات کو ائیر کولر میں پانی کی بجائے کچی لسی بھرکے چلاتے ہیں۔اُنہوں نے چھت والے پنکھے کے ساتھ ایلفی سے فالسے چپکائے ہوئے ہیں‘ دلیل یہ دیتے ہیں کہ فالسہ ٹھنڈا ہوتاہے۔اپنا نام انہوں نے سلطان جابر کی بجائے ’’سلطان تربوز‘‘ رکھ لیا ہے ۔روزدوپہرایک ڈیڑھ بجے چھٹی کے وقت گرلز کالج کے باہر کھڑے ہوجاتے ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہوتی ہے۔لباس کے معاملے میں بھی انہوں نے گرمی کا بہترین توڑ نکالا ہے‘ فریج کا نیچے والا خانہ خالی کروا کے اس میں اپنے استری کیے ہوئے کپڑے رکھ دیے ہیں‘ یوں ہر وقت ٹھنڈا لباس پہنتے ہیں۔چائے میں برف ڈال کے پیتے ہیں اوردوپہر کو جسم پر برف کے گولے کی مالش کرواتے ہیں۔ اُن کے گھر والے ٹھنڈے پانی کو ترس گئے ہیں کیونکہ موصوف نے فریج کے دروازے کے سامنے چارپائی لگوا لی ہے اور سارا سارا دن فریج کا دروازہ کھول کر ٹھنڈی ہوا لیتے ہیں ۔انہوں نے ہر گرم چیز سے سخت پرہیز شروع کر دی ہے‘ مثلاً آم نہیں کھاتے‘ چکن سے دور ہوگئے ہیں اور بیگم کو میکے بھجوا دیا ہے۔۔۔!!!
بدترین لوڈشیڈنگ اور گرمی سے تنگ آکر میں نے سوچ لیا ہے کہ اس ملک میں رہنا ہے تو اپنی بجلی خود پیدا کرنی ہوگی‘ یقین کریں بجلی کی بندش کی وجہ سے پسینے کا یہ عالم ہوتا ہے کہ دفتر سے واپسی پر نہانے کی بجائے سروس کرانے کو جی چاہتا ہے۔ میں نے بجلی سے نمٹنے کے لیے کچھ طریقے سوچے ہیں‘ آپ بھی اِن سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ایک نہایت سستا اور آسان طریقہ تو یہ ہے کہ مری‘ کاغان یا گلگت شفٹ ہوجائیں‘ اگر اس میں پرابلم ہو تو لوکل نسخہ یہ ہے کہ سائیکل کی پرانی ٹیوبیں اکٹھی کریں‘ سب کو پنکچر لگوا کے ہوا بھروا لیں اوربیڈ کے نیچے سٹور کر لیں۔ جب بھی لائٹ لمبی جائے اور گرمی لگے تو ٹیوب کا وال کھول کر چہرے کے قریب کرلیں ‘ زندگی آسان ہوجائے گی۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ململ کی دھوتیاں سلوا لیں‘ دھوتی وہ واحد لباس ہے جس میں سخت گرمی میں بھی ’’ہولے ہولے سے ہوا لگتی ہے‘‘۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ کسی اے ٹی ایم مشین کے باہر Not Working کا کاغذ چپکا کر خوداندر آرام سے ٹانگیں پسار کے سو جائیں ‘ ایمان سے بڑا ٹھنڈا ماحول ہوتاہے۔
چوتھا طریقہ ہے کہ ٹنڈ کروا لیں‘ لیکن ٹنڈ کی بجائے waxکروا لیں تو زیادہ مناسب رہے گا ‘ اس سے گرمی بھی نہیں لگتی اور سر پر بار بار ہاتھ پھیرنے کو بھی دل کرتاہے۔پانچواں طریقہ یہ ہے کہ روز رات کوکسی بس کی چھت پر بیٹھ کر اپنے شہر سے پانچ سو کلومیٹر دور نکل جایا کریں ۔۔۔ہوا بھی لگے گی ‘ جھولے بھی آتے رہیں گے اور نیند بھی نہیں ٹوٹے گی۔چھٹا طریقہ یہ ہے کہ اپنے کمرے میں بیس کبوتر چھوڑ کر کمرہ بند کردیں اور ہاتھ میں ایک چھڑی لے کر سوجائیں‘ جب بھی گرمی لگے‘ چھڑی زور سے دیوار پر ماریں‘ کبوتر گھبرا کر پھڑپھڑائیں گے اور یوں مفت کی ہوا ملے گی‘ لیکن یاد رہے کہ اس طریقے پر عمل کرنے سے پہلے کبوتروں کو بھوکا رکھنا بہت ضروری ہے ورنہ ایک ہی رات میں ٹشو کا سارا ڈبہ ختم ہوسکتا ہے۔۔۔!!!ساتواں طریقہ ذرا مشکل ہے‘ کمزور دل والے حضرات اس پر بالکل عمل نہ کریں۔ طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی سرکاری ہسپتال کے مردہ خانے کے انچارج کو چار پیسے لگائیں ‘ ایک بیڈ حاصل کریں اور Chill کریں ۔ یہاں نہ ٹی وی کی آواز آئے گی‘ نہ خراٹوں کی ۔۔۔لیکن اخلاق کا تقاضا ہے کہ آپ بھی اپنی آوازوں پر کنٹرول رکھیں۔اسی سے ملتا جلتا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ محلے میں جہاں بھی کوئی فوتیدگی ہوجائے وہاں فوراً پہنچیں‘ آج کل میت کے سرہانے برف رکھ کر پنکھا چلا دیا جاتاہے‘ آپ نے صرف یہ کرنا ہے کہ پنکھے کے عین سامنے آکر دھاڑیں مار مار کر رونا ہے اور کوشش کرنی ہے کہ جنازہ زیادہ سے زیادہ لیٹ ہوجائے‘ اگر میت کے لواحقین تدفین کے لیے جلدی پر زور دے رہے ہوں تو انہیں باور کرائیں کہ یہ ٹھیک طریقہ نہیں ‘ پہلے پاکستان کے تمام شہروں سے مرحوم کے رشتہ داروں کو آلینے دیں۔۔۔!!! کاش کبھی ایسا بھی ہو کہ گرمیاں ‘ سردیوں میں آئیں‘ یقین کریں جون جولائی کا لطف دوبالا ہوجائے گا۔
گلِ نوخیز اختر
بشکریہ فیسبک ۔۔۔