تفصیل کے لیے شکریہ محترم، یہاں مطلع کے اعلان کے مطابق روی کےلیے میرا قیاس الف کی بجائے نون ہے۔ اس لیے یہ اشکال ہوا۔
مزمل شیخ بسمل صاحب آپ کی کیا رائے ہے روی کے بارے میں
مزمل بھائی تو شاید مصروف ہیں۔ میں جہاں تک آپ کے سوال کو سمجھا ہوں، کچھ عرض کرتا ہوں۔
لوگوں سے توقع تھی کہ دیوانہ سمجھتے
سرکار مگر آپ تو ایسا نہ سمجھتے!
اگر آپ مطلع کے مصرعِ اولیٰ کی بنیاد پر روی کا فیصلہ کریں گے تو بھی ن نہیں بلکہ ہائے مختفی روی ہو گی۔ روی فی الاصل وہ آخری حرف ہے جس پر قافیے کی بنا ہو۔ یعنی کسی حرف کے روی ہونے کے لیے دو شرائط ہیں:
- وہ حرف قافیہ کی آخری حدود سے نزدیک ترین واقع ہوا ہو۔
- اس کے حذف کرنے پر قافیہ قائم نہ رہے۔
ن دوسری شرط پر تو پورا اترتا ہے مگر پہلی شرط پر نہیں۔ دیوانہ کا آخری حرف یعنی ہائے مختفی دونوں شرائط پر پورا اترتا ہے۔ یہ قافیے کا بالکل آخری حرف ہے اور اس کی تحذیف پر ہمارے پاس دیوان بچتا ہے جو موجودہ تناظر میں بے معنیٰ ہے۔ یہی معاملہ دو اور قوافی افسانہ اور صنم خانہ کا بھی ہے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس قافیے کی بنیاد ہائے مختفی پر ہے لہٰذا یہی روی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس غزل میں جا بجا قافیۂِ معمولہ استعمال میں لایا گیا ہے۔ اس کی کثرتِ وقوع کو دیکھتے ہوئے میرے خیال میں یہ فیصلہ صوابدیدی ہے کہ اسے معمولۂِ ترکیبی سمجھا جائے یا تحلیلی۔ بہرحال، ہر دو صورت کی بابت مولوی نجم الغنی مرزا قتیل کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ "معمول میں بنا قافیے کی تلفظ پر ہوتی ہے۔ لہٰذا کمی و بیشی حروف کی کتابت کی رو سے قابلِ اعتبار نہیں۔۔۔"
قافیۂِ تحلیلی کی مثالوں میں آتشؔ کا یہ شعر بھی موجود ہے:
ہاتھ سے تیرے لکھی ہے جو کوئی قاتل قضا
زندگی سے تنگ ہیں ہم بھی، رضینا بالقضا!
باقی غزل کے قوافی، سائل، محفل، داخل، منزل وغیرہ ہیں۔
اب یہاں بھی غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ روی لام کو ہونا چاہیے۔ مگر مصرعِ ثانی کے قافیے میں کیا لام سے پہلے موجود الف کو آپ ردف قرار دے سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ وجہ اس کی وہی ہے کہ عروض و قافیہ کا مدار علیٰ العموم کتابت کی بجائے تلفظ پر ہے۔
خوبصورت۔ اپنانہ سمجھتے۔ کیا بات ہے راحیل بھائی۔
شکریہ، بھیا۔
نیازمندی کی وجوہات کیا کیا گنائیں اب؟
عنایت، پیارے بھائی!