شمشاد
لائبریرین
آج ایک واقعہ سُنا جوحقیقت پر مبنی ہے۔ آپ بھی سنیے اور اندازہ لگائیے کہ لوگ کتنے بے ایمان ہیں۔
پاکستان کی جیلوں میں مولوی حضرات بھی ہوتے ہیں جو وقتاً فوقتاً قیدیوں کو اچھی زندگی گزارنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی کسی جیل میں ایک قیدی نے مولوی صاحب سے شکوہ کیا کہ لوگ بہت بے ایمان ہیں۔ پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ ایک دفعہ ہم نے آتشیں اسلحہ کے زور پر ایک بس کے مسافروں کو لُوٹا۔ بجائے تلاشی لینے کے ہم نے بس سے باہر دروازے کے پاس ایک چادر بچھا دی اور مسافروں سےکہا کہ وہ باری باری اُترتے جائیں اور جو کچھ ان کے پاس نقدی اور قیمتی اشیاء ہیں وہ اس چادر پر ڈالتے جائیں۔ نتیجے کے طور پر اچھی خاصی رقم اور قیمتی اشیاء اکٹھی ہو گئیں۔ اس دوران ہمیں خیال آیا کہ ان مسافروں نے بسوں کے اڈے پر اُتر کر آگے بھی کہیں جانا ہو گا اور ان کے پاس تو کرائے کے پیسے بھی ہم نے نہیں چھوڑے، توازراہے ہمدردی ہم نے ان مسافروں سے کہا کہ ایک ایک مسافر واپس بس میں جاتے ہوئے پچاس پچاس روپے لیتا جائے۔تو مولوی صاحب لوگ اتنے بے ایمان ہیں کہ جنہوں نے کچھ بھی نہیں دیا تھا،وہ بھی پچاس پچاس روپے لے گئے۔
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔
پاکستان کی جیلوں میں مولوی حضرات بھی ہوتے ہیں جو وقتاً فوقتاً قیدیوں کو اچھی زندگی گزارنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی کسی جیل میں ایک قیدی نے مولوی صاحب سے شکوہ کیا کہ لوگ بہت بے ایمان ہیں۔ پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ ایک دفعہ ہم نے آتشیں اسلحہ کے زور پر ایک بس کے مسافروں کو لُوٹا۔ بجائے تلاشی لینے کے ہم نے بس سے باہر دروازے کے پاس ایک چادر بچھا دی اور مسافروں سےکہا کہ وہ باری باری اُترتے جائیں اور جو کچھ ان کے پاس نقدی اور قیمتی اشیاء ہیں وہ اس چادر پر ڈالتے جائیں۔ نتیجے کے طور پر اچھی خاصی رقم اور قیمتی اشیاء اکٹھی ہو گئیں۔ اس دوران ہمیں خیال آیا کہ ان مسافروں نے بسوں کے اڈے پر اُتر کر آگے بھی کہیں جانا ہو گا اور ان کے پاس تو کرائے کے پیسے بھی ہم نے نہیں چھوڑے، توازراہے ہمدردی ہم نے ان مسافروں سے کہا کہ ایک ایک مسافر واپس بس میں جاتے ہوئے پچاس پچاس روپے لیتا جائے۔تو مولوی صاحب لوگ اتنے بے ایمان ہیں کہ جنہوں نے کچھ بھی نہیں دیا تھا،وہ بھی پچاس پچاس روپے لے گئے۔
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔