لوگ تو ہیں سب کے سب بے باک سے (اصلاح)

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
آپ کے نام میں بہت کشش ہے فارقلیط رحمانی۔
درخواست ہے کہ ’’فارقلیط‘‘ کا علمی اور تہذیبی پس منظر احباب کو بتائیے۔
اردو محفل میں شامل ہوتے ہی احباب کے اِصرار پر اس کے معانی پر تو روشنی ڈال چکا ہوں۔ البتہ موقع ملا تو ایک مبسوط مضمون قلم بند کر کے تعمیل ارشاد کی سعی کر و ں گا۔ ان شاء اللہ۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین

واہ! جناب! اس شعر کی فنی خوبیاں تو عالی جناب الف عین صاحب اور محترم یعقوب آسی صاحب جیسے ارباب فن جانیں۔ ہمیں تو پڑھ کر مزہ آگیا۔کوزہ گر کے ہاتھوں میں بے بس اور بے کس مٹی کے لوندے، زیرِ تخلیق کوزے کوزہ گر کے چاک کی رفتار اور اس کے ہنر اورہاتھوں کی فن کاری کے منتظر ہوتے ہیں کہ دیکھیں ہمیں کون سا روپ نصیب ہوتاہے، ہم تشنگانِ عالم کو سیراب کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں،یا کچھ اور؟؟؟ لیکن آپ نے تو کمال کر دِیا ایک بے بس و بے کس مٹی کے لوندے کو جو شاید ابھی کسی کوزے میں تبدیل بھی نہیں ہوا ہوگا، کوزہ، مٹکا، صنم کچھ بھی نہ بنا ہوگا۔ کہ آپ نے اُ سے ایسا اِختیار عطا فرما دِیا کہ ایک ہونے والی مخلوق اپنے خالِق سے بغاوت پر اُتر آئے اور اپنی ہی تخلیق کے خلاف بغاوت کردے۔عقلی اور منطقی طور پر یہ قطعی ممکن نہیں۔ آپ کا یہ شعر اگرعقل اور منطق کی کسوٹی پر کسا گیا تو شاید کھرا نہ اُترے۔
البتہ ادب میں ایک رجحان سر ریلزم کا بھی رہا ہے۔ جو حضرات سر ریلزم کی اصطلاح سے واقف ہیں وہ اس شعر کی داد دیے بنا نہ رہ سکیں گے۔​
انتباہ: اپنے دِل میں جھانک کر ایک سوال دِل سے پوچھ لیجیے گا کہ یہ شعر کہیں خالقِ حقیقی کی شان میں تو نہیں، اگر ایسا ہوا تو یہ کفر ہوگا۔ خدا کرے ایسا نہ ہو۔
اصل میں پوری غزل اس ایک شعر کی وجہ سے ہی ہوئی اور یہ شعر لکھتے وقت میرے ذہن میں یہ بات بالکل نہیں آئی جو آپ نے کوٹ کی ہے۔ اب تو مجھے اس شعر سے ڈر لگنے لگا ہے۔
اصل شعر کا سبب احمد خیال صاحب کا یہ شعر بنا ہے

کوزہ گر اب ترے ہاتھوں میں تھکن لگتی ہے
ہم کسی روز ترے چاک سے اٹھ جائیں گے

جو مجھے پسند آیا اور میں نے اپنی عقل کے مطابق اس شعر کا مطلب بھی کوزہ گر سے مراد ، کوزہ گر ہی لیا تھا اللہ معاف کرے خدا نہیں لیا تھا اور اسی شعر کی وجہ سے میرے ذہن میں یہ شعر آیا

کوزہ گر اب تُو نہیں ہے پہلے سا
سب اترنے جا رہے ہیں چاک سے
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
واہ! جناب! اس شعر کی فنی خوبیاں تو عالی جناب الف عین صاحب اور محترم یعقوب آسی صاحب جیسے ارباب فن جانیں۔ ہمیں تو پڑھ کر مزہ آگیا۔کوزہ گر کے ہاتھوں میں بے بس اور بے کس مٹی کے لوندے، زیرِ تخلیق کوزے کوزہ گر کے چاک کی رفتار اور اس کے ہنر اورہاتھوں کی فن کاری کے منتظر ہوتے ہیں کہ دیکھیں ہمیں کون سا روپ نصیب ہوتاہے، ہم تشنگانِ عالم کو سیراب کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں،یا کچھ اور؟؟؟ لیکن آپ نے تو کمال کر دِیا ایک بے بس و بے کس مٹی کے لوندے کو جو شاید ابھی کسی کوزے میں تبدیل بھی نہیں ہوا ہوگا، کوزہ، مٹکا، صنم کچھ بھی نہ بنا ہوگا۔ کہ آپ نے اُ سے ایسا اِختیار عطا فرما دِیا کہ ایک ہونے والی مخلوق اپنے خالِق سے بغاوت پر اُتر آئے اور اپنی ہی تخلیق کے خلاف بغاوت کردے۔عقلی اور منطقی طور پر یہ قطعی ممکن نہیں۔ آپ کا یہ شعر اگرعقل اور منطق کی کسوٹی پر کسا گیا تو شاید کھرا نہ اُترے۔
البتہ ادب میں ایک رجحان سر ریلزم کا بھی رہا ہے۔ جو حضرات سر ریلزم کی اصطلاح سے واقف ہیں وہ اس شعر کی داد دیے بنا نہ رہ سکیں گے۔
انتباہ: اپنے دِل میں جھانک کر ایک سوال دِل سے پوچھ لیجیے گا کہ یہ شعر کہیں خالقِ حقیقی کی شان میں تو نہیں، اگر ایسا ہوا تو یہ کفر ہوگا۔ خدا کرے ایسا نہ ہو۔
یہ سر ریلزم کیا ہے؟
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
یہ سر ریلزم کیا ہے؟

surrealism سر ریلزم ایک ثقافتی تحریک ہے جو 1920 کی دہائی کے اوائل میں شروع ہوئی تھی۔اور وہ اپنی بہترین بصری فنکاری اور تحریروں کے لیے جانی جاتی ہے۔اس تحریک کے تحت فن کار کچھ ایسی تصویریں بناتے تھے جو عقلی اور منطقی لحاظ سے نا ممکن معلوم ہوتی ہوں، وہ محض فن کار کے اپنے دماغ کی اپج ہوتی تھیں۔سرریلزم کا آرٹ ورک اگر آپ دیکھنا چاہیں تو گوگل کے سرچ انجن میں امیجز کا آپشن سلیکٹ کر کے surrealism art لکھیے اور پھر جوآرٹ ورک آپ کو نظر آئے گا بس اُسی کا نام سرریلزم ہے۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
اصل میں پوری غزل اس ایک شعر کی وجہ سے ہی ہوئی اور یہ شعر لکھتے وقت میرے ذہن میں یہ بات بالکل نہیں آئی جو آپ نے کوٹ کی ہے۔ اب تو مجھے اس شعر سے ڈر لگنے لگا ہے۔اصل شعر کا سبب احمد خیال صاحب کا یہ شعر بنا ہے۔

کوزہ گر اب ترے ہاتھوں میں تھکن لگتی ہے
ہم کسی روز ترے چاک سے اٹھ جائیں گے

جو مجھے پسند آیا اور میں نے اپنی عقل کے مطابق اس شعر کا مطلب بھی کوزہ گر سے مراد ، کوزہ گر ہی لیا تھا اللہ معاف کرے خدا نہیں لیا تھا اور اسی شعر کی وجہ سے میرے ذہن میں یہ شعر آیا


کوزہ گر اب تُو نہیں ہے پہلے سا
سب اترنے جا رہے ہیں چاک سے
اِن۔۔ما الاعمال باالنیات اعمال کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے۔ الحمد للہ! ثم الحمد للہ !! کہ کوزہ گر سے آپ کی مراد خالقِ حقیقی کی ذات نہیں تھی۔ محض کو زہ گر ہی تھا۔تو صاحب! مبارک ہو۔ آپ کا ایمان تو سلامت رہا۔ایمان بچ گیا، گویا آپ بچ گئے۔ لیکن صاحب ! شعر تو غارت ہو گیا۔اب جو سر ریلزم کی اصطلاح سے واقف نہیں، ایسے کسی عام قاری کے کام کی چیز نہیں رہا۔ نہ رہے ٹھینگے سے، ایمان تو بچا۔ آپ ٹینشن مت لیجیے۔ شاعری کیجیے۔ اوربزرگانِ اردومحفل کےمشورے کے مطابق اپنی شاعری کے ساتھ کچھ لمحات گزاریے۔ اسے گنگنائیے، اس کے معانی و مطالب پر غور کیجیے۔ جب آپ مطمئن ہو جائیں تبھی اس کی رونمائی کی رسم ادا کیجیے۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اِن۔۔ما الاعمال باالنیات اعمال کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے۔ الحمد للہ! ثم الحمد للہ !! کہ کوزہ گر سے آپ کی مراد خالقِ حقیقی کی ذات نہیں تھی۔ محض کو زہ گر ہی تھا۔تو صاحب! مبارک ہو۔ آپ کا ایمان تو سلامت رہا۔ایمان بچ گیا، گویا آپ بچ گئے۔ لیکن صاحب ! شعر تو غارت ہو گیا۔اب جو سر ریلزم کی اصطلاح سے واقف نہیں، ایسے کسی عام قاری کے کام کی چیز نہیں رہا۔ نہ رہے ٹھینگے سے، ایمان تو بچا۔ آپ ٹینشن مت لیجیے۔ شاعری کیجیے۔ اور اردو بزرگانِ اردومحفل کےمشورے کے مطابق اپنی شاعری کے ساتھ کچھ لمحات گزاریے۔ اسے گنگنائیے، اس کے معانی و مطالب پر غور کیجیے۔ جب آپ مطمئن ہو جائیں تبھی اس کی رونمائی کی رسم ادا کیجیے۔
اصل میں، میں کوئی شاعر تو ہوں نہیں۔ کبھی کبھی لکھ لیتا ہوں آج سے چار سال پہلے باقاعدہ شاعری کی تھی لیکن بعد میں ایسا کام میں مصروف ہوا تو شاعری وہی کی وہی رہ گی۔ اب پھر فری ہوا ہوں تو کچھ نا کچھ لکھ لیتا ہوں۔ کرنا تو یہی ہے کہ اس غزل کو پھر سے چیک کرتے ہیں اور کچھ وقت گزار کر ہی اس کو دیکھتے ہیں۔ جزاک اللہ
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
یہ سر ریلزم کیا ہے؟​
یہ سر ریلزم کیا ہے؟سرریلزم آرٹ کا نمونہ ملاحظہ فرمائیے۔ جو ہم نے گوگل پر سے لیاہے۔
images
 
انتباہ​
: اپنے دِل میں جھانک کر ایک سوال دِل سے پوچھ لیجیے گا کہ یہ شعر کہیں خالقِ حقیقی کی شان میں تو نہیں، اگر ایسا ہوا تو یہ کفر ہوگا۔ خدا کرے ایسا نہ ہو۔​

جناب فارقلیط رحمانی صاحب۔
انتہائی دکھ کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ مجھے ایک سے زائد بار ایسے شعر سننے پڑے، اور میں نے ٹوکا بھی! نتیجہ؟ کچھ بھی نہیں!! اور پھر یوں ہوا کہ میں نے ایسے ’’شاعروں‘‘ سے ملنا ترک کر دیا جو اللہ اور بندے کے مقام کا احترام کرنے سے عاری ہیں۔
 
یہ سر ریلزم کیا ہے؟سرریلزم آرٹ کا نمونہ ملاحظہ فرمائیے۔ جو ہم نے گوگل پر سے لیاہے۔​
images

یہیں سوال اٹھا تھا، اور میں نے اس اصطلاح کو انٹرنیٹ پر ہی کسی قدر تفصیل سے دیکھا۔
اس کا بنیادی تعلق تو مصوری سے ہے، وہاں سے یہ چیز ادب میں بھی در آئی۔ میں جو کچھ سمجھ پایا وہ یہ تھا کہ: مروجہ معانی اور لغات اور روایات سے قطع نظر ۔۔۔۔ جو کچھ لکھنے والے کے ذہن میں ہے وہی سچ ہے اور وہی درست ہے۔

اور اب؟ ادھر ایک سرگرفتنی ہے یا سر گرفتگی ہے؟ کیا ہے۔
 

بنت یاسین

محفلین
سب سے پہلے تو جناب الف عین سے معذرت کے ساتھ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
’’درستگی‘‘ یا ’’درستی‘‘ ۔۔۔ ۔۔۔ ؟
میرے علم کے مطابق قاعدہ یہ ہے کہ جس اسم واحد کا آخری حرف ’’ہ‘‘ ہو، اُس کو گاف سے بدلتے ہیں۔
بچہ بچگان، زچہ زچگی، بے قاعدہ بے قاعدگی، عمدہ عمدگی، خانہ خانگی، تشنہ تشنگی تشنگان، تِیرہ تِیرگی ۔۔۔

اور جہاں آخری حرف کچھ اور ہو وہاں گاف اضافی نہیں لگاتے۔
جوان جوانی جوانان، عالم سے عالمان اور اس سے عالمانہ، مرد سے مردان اور اس سے مردانہ اور آگے اس سے مردانگی۔

روان سے روانی اور روانہ سے روانگی

تشفی کا منتظر ہوں۔
مگر
دُرُسْتَگی {دُرُس + تَگی} (فارسی)
دُرُسْت، دُرُسْتَگی
فارسی زبان سے ماخوذ اسم درست کے ساتھ گی بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے درستگی بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً 1968ء سے "اطلاقی شماریات" میں مستعمل ملتا ہے۔
متغیّرات

دُرُسْتی {دُرُس + تی}

اسم نکرہ (مؤنث - واحد)
جمع: دُرُسْتَگِیاں {دُرُس + تَگِیاں}
جمع غیر ندائی: دُرُسْتَگِیوں {دُرُس + تَگِیوں (و مجہول)}
دیکھیے:
http://www.urduencyclopedia.org/urdudictionary/index.php?title=درستگی
 
معذرت خواہ ہوں محترمہ بنت یاسین ۔
وہاں درست نہیں لکھا ہوا۔ ایک موٹی سی بات دیکھ لیجئے۔ بنیادی لفظ ہے ’’درست‘‘ ہم اس کو توڑ کر ’’درس + ت‘‘ نہیں کر سکتے۔

توجہ کے لئے ممنون ہوں۔ دعاؤں میں بھی یاد رکھئے گا۔
 

بنت یاسین

محفلین
معذرت خواہ ہوں محترمہ بنت یاسین ۔
وہاں درست نہیں لکھا ہوا۔ ایک موٹی سی بات دیکھ لیجئے۔ بنیادی لفظ ہے ’’درست‘‘ ہم اس کو توڑ کر ’’درس + ت‘‘ نہیں کر سکتے۔

توجہ کے لئے ممنون ہوں۔ دعاؤں میں بھی یاد رکھئے گا۔
اللہ تعالیٰ آپ کو صحت والی لمبی زندگی عطا فرمائے۔آمین۔
 
معذرت خواہ ہوں محترمہ بنت یاسین ۔
وہاں درست نہیں لکھا ہوا۔ ایک موٹی سی بات دیکھ لیجئے۔ بنیادی لفظ ہے ’’درست‘‘ ہم اس کو توڑ کر ’’درس + ت‘‘ نہیں کر سکتے۔

توجہ کے لئے ممنون ہوں۔ دعاؤں میں بھی یاد رکھئے گا۔

اصول تو یہ ہے کے ایسے اسم صفت جو ہائے مختفی پر ختم ہوتے ہیں ان کو اسم کیفیت بنانے میں ہائے مختفی ہٹا کر "گی" لگا دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ باقی سب جگہ صرف "ی" کا اضافہ ہوتا ہے۔
مگر اس کے برعکس اساتذہ و تلامذہ اور دیگر عوام بلکہ اکثر اردو کی کتابوں تک میں لفظ "درستگی" کا استعمال پایا جاتا ہے۔ اگر اس لفظ کے بارے میں "غلط العامِ فصیح" کہا جائے تو درست ہے؟آپ کی رائے کا طالب۔
 
جی مزمل شیخ بسمل صاحب۔
میرا خیال ہے ’’غلط العام‘‘ یا ’’غلط العوام‘‘ کہنا کافی ہو گا۔ مجھے اس ’’درستگی‘‘ کو فصیح تسلیم کرنے میں تامل ہے۔ لفظ ’’غلط العوام‘‘ ڈاکٹر شان الحق حقی کی ’’فرہنگِ تلفظ‘‘ سے لیا گیا ہے۔

بہت آداب۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اس دھاگے میں لفظ درستگی کی بحث بہت دلچسپ معلوم ہوئی۔اور کچھ قاعدوں کا تذکرہ بھی بہت خوشگوار لگا۔تاہم تھوڑا سا اضافہ اپنی رائے سے کرنا چاہا۔
اردو لاحقہ "گی" کے استعمال کا عمومی طریقہ تو بالکل وہی ہے جو بیان کیا گیا ہاے نہائی پر لاگو کیا جاتا ہے اور اسما ء و صفات ( زچگی۔ تشنگی۔ گرسنگی۔برہنگی ) اور مصادرو افعال کی کثیر تعداد( مثلا" ۔خواندگی۔ وا ماندگی۔ وارفتگی ۔ ) پر محیط ہے جیسے محترم آسی صاحباور بسمل کی طرف سے بہترین مثالیں دی گئیں ہیں۔۔۔ ان میں اصلا" فارسی الاصل کلمات کی اکثریت پائی جاتی ہے جبکہ استثناء میں غیر فارسی الفاظ بھی موجود ہیں (جیسے الیکشن کمیشن کے نظام کی بے قاعدگی ) ۔

یہاں جس امر کی طرف اشارہ مقٖصود ہے وہ یہ ہے کہ یہ فاعدہ اتنا ہمہ جہت اور جامداور سخت گیر نہیں بلکہ اس میں دیگر متعدد قواعد کی طرح کچھ لچک اور استثنائی حالتیں بھی موجود ہیں جن ہیں زبان اور اہل زبان نے ان کی مستثنٰی شکلوں میں ہی قبول کیا ہے اور انہیں اسی حال میں افصح سمجھا جاے گا ۔۔۔۔۔۔ مثلا" لفظ بچہ پر ہم پاگل پن کی طرح "پن" کا لاحقہ لگاتے ہیں اور بچگی ایک مہمل کلمہ ہو جاتا ہے جبکہ بچگانہ صحیح لفظ ٹہرتا ہے۔جیسے زنانہ و بچگانہ کپڑے ۔
اسی طرح ۔ ۔ناراض سے ناراضگی صحیح جبکہ ناراضی غیر فصیٰح ہو گا ۔ خفا سے خفگی ۔۔ پیش سے پیشگی (مبارکباد یا ضمانت ) وغیر ہ ۔۔۔۔ درست سے درستگی کو بھی اسی طرح سمجھا جائے گا۔
ایک مرتبہ پھر وضاحت کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض میری ذاتی رائے ہے اس سے بھر پور اختلاف تنقید اور تصحیح کی گنجائش موجود ہو گی اور احباب کا حق ہوگا ۔
 
اس دھاگے میں لفظ درستگی کی بحث بہت دلچسپ معلوم ہوئی۔اور کچھ قاعدوں کا تذکرہ بھی بہت خوشگوار لگا۔تاہم تھوڑا سا اضافہ اپنی رائے سے کرنا چاہا۔
اردو لاحقہ "گی" کے استعمال کا عمومی طریقہ تو بالکل وہی ہے جو بیان کیا گیا ہاے نہائی پر لاگو کیا جاتا ہے اور اسما ء و صفات ( زچگی۔ تشنگی۔ گرسنگی۔برہنگی ) اور مصادرو افعال کی کثیر تعداد( مثلا" ۔خواندگی۔ وا ماندگی۔ وارفتگی ۔ ) پر محیط ہے جیسے محترم آسی صاحباور بسمل کی طرف سے بہترین مثالیں دی گئیں ہیں۔۔۔ ان میں اصلا" فارسی الاصل کلمات کی اکثریت پائی جاتی ہے جبکہ استثناء میں غیر فارسی الفاظ بھی موجود ہیں (جیسے الیکشن کمیشن کے نظام کی بے قاعدگی ) ۔

یہاں جس امر کی طرف اشارہ مقٖصود ہے وہ یہ ہے کہ یہ فاعدہ اتنا ہمہ جہت اور جامداور سخت گیر نہیں بلکہ اس میں دیگر متعدد قواعد کی طرح کچھ لچک اور استثنائی حالتیں بھی موجود ہیں جن ہیں زبان اور اہل زبان نے ان کی مستثنٰی شکلوں میں ہی قبول کیا ہے اور انہیں اسی حال میں افصح سمجھا جاے گا ۔۔۔ ۔۔۔ مثلا" لفظ بچہ پر ہم پاگل پن کی طرح "پن" کا لاحقہ لگاتے ہیں اور بچگی ایک مہمل کلمہ ہو جاتا ہے جبکہ بچگانہ صحیح لفظ ٹہرتا ہے۔جیسے زنانہ و بچگانہ کپڑے ۔
اسی طرح ۔ ۔ناراض سے ناراضگی صحیح جبکہ ناراضی غیر فصیٰح ہو گا ۔ خفا سے خفگی ۔۔ پیش سے پیشگی (مبارکباد یا ضمانت ) وغیر ہ ۔۔۔ ۔ درست سے درستگی کو بھی اسی طرح سمجھا جائے گا۔
ایک مرتبہ پھر وضاحت کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض میری ذاتی رائے ہے اس سے بھر پور اختلاف تنقید اور تصحیح کی گنجائش موجود ہو گی اور احباب کا حق ہوگا ۔
ماشاءاللہ! بڑی عمدگی اور شائستگی سے آپ نے اہل حل و عقد کی باقاعدگی کے ساتھ نمائندگی فرمائی ہے۔
آپ کی تحقیق پڑھ کر یہ شعر یاد آرہا ہے:
بندہ آمد از برائے بندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی

(از راہ مذاق)
ایک استثنائی صورت اور بھی ہے، جس کی یہ مثالیں ہیں:
تنگی ، کنگی ، بھیگی ، سگی ، ڈگڈگی۔:)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ماشاءاللہ! بڑی عمدگی اور شائستگی سے آپ نے اہل حل و عقد کی باقاعدگی کے ساتھ نمائندگی فرمائی ہے۔
آپ کی تحقیق پڑھ کر یہ شعر یاد آرہا ہے:

(از راہ مذاق)
ایک استثنائی صورت اور بھی ہے، جس کی یہ مثالیں ہیں:
تنگی ، کنگی ، بھیگی ، سگی ، ڈگڈگی۔:)
سررسری صاحب۔توجہ کے لیے شکریہ مگر معذرت اور احترام کے ساتھ عرض یہ ہے کہ آپ کی قوسین میں پیش کردہ وضاحت یہاں انتہائی بے ڈھنگی :lol: معلوم ہو رہی ہے۔
اور ہاں میں اس شعر کو اس طرح سنتا اور پڑھتا آیا ہوں ۔

زندگی آمد ۔ برائے بندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی
 
Top