بشیر بدر لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں

عمر سیف

محفلین
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں

اور جام ٹوٹیں گے اس شراب خانے میں
موسموں کے آنے میں، موسموں کے جانے میں

ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں
عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں

فاختہ کی مجبوری یہ بھی کہہ نہیں سکتی
کون سانپ رکھتا ہے اس کے آشیانے میں

دوسری کوئی لڑکی زندگی میں آئے گی
کتنی دیر لگتی ہے اس کو بھول جانے میں

بشیر بدر
 

نایاب

لائبریرین
ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں
عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں
واہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ
کیا خوب غزل ہے ۔۔۔۔۔۔۔
دوسری کوئی لڑکی زندگی میں آئے گی
کتنی دیر لگتی ہے اس کو بھول جانے میں
 
مزمل شیخ بسمل بھائی! ذرا مندرجہ بالا شعر کو دیکھیے اور ہمیں بتلائیے کہ کیا دوسرے مصرعے میں تَرَس یعنی تَ رَ س صحیح باندھا گیا ہے ۔

ترَس تو درست باندھا ہے۔
البتہ ترس کا تلفظ میرے علم میں (بحوالہ فیروز الغات) ر ساکن کے ساتھ ہے۔ اس لحاظ سے وہ تلفظ غلط ہوا جو بشیر بھائی نے باندھا ہے۔ فرہنگ آسفیہ میں ر متحرک سے لکھا ہے۔ :)
 
آخری تدوین:

ظفری

لائبریرین
دوسری کوئی لڑکی زندگی میں آئے گی
کتنی دیر لگتی ہے اس کو بھول جانے میں

واہ بہت خوب ۔ کیا بات ہے جناب ۔
 
مزمل شیخ بسمل بھائی! ذرا مندرجہ بالا شعر کو دیکھیے اور ہمیں بتلائیے کہ کیا دوسرے مصرعے میں تَرَس یعنی تَ رَ س صحیح باندھا گیا ہے ۔
خلیل بھائی! میرے خیال میں تو یہ درست ہی باندھا ہے، کیونکہ ترس ایک تو فارسی زبان کا ہے بمعنی خوف جیسے ”خداترس“ اللہ سے ڈرنے والا، اس معنی کے لحاظ سے تو ”ترس“ فاع کے وزن پر ہے ، مگر ”ترسنا“ اور ”ترس کھانا“ والے ”ترس“ میں ”ر“ مفتوح ہے۔ واللہ اعلم۔
مزمل شیخ بسمل
 
Top