محمداحمد
لائبریرین
لوگ ہیں اور ہے افسانہ ہمارا
آپ اُنہیں جانتے تو ہوں گے۔
یوں تو اُن کے بارے میں جاننے کے لئے استخارہ تجویز کیا گیا ہے لیکن استخارے میں عموماً ہاں یا نہ کے اشارے ملا کرتے ہیں سو اگر آپ اُن کے حوالے سے کسی تامل، تذبذب، تردد، تکلف وغیرہ وغیرہ کا شکار ہیں اور ایک چھوٹی سی ہاں یا نہ آپ کے ذہن کو فیصل کرنے میں مدد دے سکتی ہے تو ضرور کیجے۔ ورنہ محض ہاں یا نہ سے تو آپ کو اُن سے اجمالی تعارف بھی حاصل نہیں ہو سکے گا۔
موصوف دولتِ بے خودی سے غنی ہیں اور کوچے کوچے کی خاک چھان چکے ہیں، تاہم کوچہء آلکساں میں کبھی نظر نہیں آئے۔ البتہ دوستوں سے ہی سہی کچھ اثرات ان میں بھی نظر آتے ہیں جبھی تو اکثر و بیش تر سر اٹھانا اور لبوں کو جنبش دینا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں اور ای سی جی کے پیپر کی پشت پر غزل لکھ کر ارسال فرما دیتے ہیں۔ سر اُٹھانے سے یوں بھی گریز کرتے ہیں کہ کہیں کوئی نظر آگیا تو نئی غزل لکھنے کا کشٹ کرنا پڑے گا۔
جناب کو لوگوں سے دیوانہ سمجھنے کی توقع تو ضرور رہی لیکن کسی کسی کو استثنیٰ بھی حاصل ہے، یعنی آزمائش شرط ہے۔ ویسے توقع تو غالب کے ہاں ہی اُٹھ گئی تھی سو لوگ دیوانے کو فرزانہ بھی سمجھیں تو دیوانے کو کیا فرق پڑتاہے کہ دیوانے کی بے نیازی یوں بھی عروج پر ہے اور اُسے نہ تو وصل کی فکر ہے اور نہ ہی دعوائے محبت ہے (پڑوس والی فرزانہ کی بات اور ہے)۔ سچی بات تو یہ ہے کہ سچے لوگ محبت کے دعوے کرتے بھی کہاں ہے۔ بس محبت کیے جاتے ہیں نتائج کی پرواہ کیے بغیر۔
سو ایسے شخص کو کوئی کیا سمجھائےکہ موصوف سمجھتے بھی تب ہی ہیں جب عشق کا کوڑا حرکت میں آتا ہے، اب ہم نہ تو قاضی ہیں نہ طالبان کہ حد جاری کرکے کوڑا لہراتے ہوئے حدیں کراس کرجائیں! اتنا بھی کوئی عقل کا اندھا نہیں ہوتا۔
رہے ہم! سو ہم تو ویسے بھی کسی گنتی شمار میں نہیں ہیں کہ موصوف کی غزلیں نازنین پڑھتے ہیں اور پڑھتے ہی رہتے ہیں مزید براں ہر پیر و جواں داد بھی دیتا ہے۔ اب ہم نہ تو پیر ہیں نہ جواں! سو موصوف کو داد دینے کے بجائے ان کے اشعار پڑھ پڑھ کر آہیں بھرتے رہتے ہیں۔
ارے جناب آپ کس تذبذب و تردد میں پڑ گئے۔ کیا آپ موصوف کو نہیں جانتے؟ پہچان ہی لیں آپ سے اتنا نہیں ہوتا! حیرت ہے۔ خیر نام لوں گا تو پہچان ہی لیں گے۔
اسے جاننے والے پہچانتے ہیں
ستم گر کا ہے نام اس کا تعارف
ستم گر کا ہے نام اس کا تعارف
---
نوٹ:
یہ تحریر اپنے مزاج میں ذکرِ محفلین سے تعلق رکھتی ہے سو ہم اسے یہاں نقل کر رہے ہیں (نقلِ خود، نقل نہ باشد )۔ یوں بھی اس ذمرے میں ہماری کوئی تحریر نہیں ہے (غالباً)۔