محمد بلال اعظم
لائبریرین
لَبِ گویا
اک شاعرِ درویش و قدح خوار خدا مَست
میں کون، جو لکھوں ، تری عظمت کے قصیدے
جبریل کے پر ہوں تو وہاں تک نہ پہنچ پاؤں
آواز جہاں سے ترا سازِ ابدی دے
تو وہ ہے کہ الہام ترے حرف کو ترسے
میں وہ کہ مجھے طعن مری بے ہُنری دے
تو جبرِ شہی میں بھی علمدارِ جنوں تھا
میں نالہ بہ دل ہوں کہ کوئی ہونٹ نہ سی دے
دہلیز نشیں ہوں میں ترے کاخِ سخن کا
میں کون، مگر تو شرفِ ہم سخنی دے
دے اِذن کہ میں تجھ کو بتاؤں کہ ترے بعد
جو حال ہوا ہے ترے خوابوں کے چمن کا
اغیار کے ہر وار کو ہم جھیل گئے تھے
ہر چند کہ چرچا تھا بہت دار و رسن کا
تو برششِ شمشیرِ حریفاں سے تھا بسمل
ہم کو ہے گلہ دشنۂ اربابِ وطن کا
"ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات"
شیوہ ہے وہی گردشِ افلاکِ کہن کا
ناوک ہی رہا قسمتِ ہر دیدۂ بینا
نیزہ ہی مقدر رہا بے باک دہن کا
اے ہاتفِ اسرارِ بشر سُن کے ترے بعد
کس طرح ترے درس کی توہین ہوئی ہے
معنوں سے تہی کر کے ترے حرفِ خودی کو
شعروں سے فقط وعظ کی تزئین ہوئی ہے
تھی فقر و توکل کی مغنّی تری ہستی
یاں کِذب و تصوّف ہی کی تلقین ہوئی ہے
جو مشقِ ستم مشغلۂ اہلِ جفا تھا
وہ رسمِ ستم شہر کا آئین ہوئی ہے
دربار سے وہ رشتہ رہا مفتئ دیں کا
منبر سے ہر ارشاد پہ آمین ہوئی ہے
ہیں اب بھی وہی بندۂ مزدور کے اوقات
گو دولتِ اربابِ امارت ہوئی دہ چند
ہے اوج پہ سرمایہ پرستی کا نصیبہ
دریوزہ گرِ نانِ شبینہ ہے ہنر مند
پیغامِ مساوات کہ دنیا کے لئے تھا
واعظ نے کیا کوزہ و تسبیح کا پابند
مسجد میں تو محتاج و غنی ایک ہیں لیکن
منعم کی قبا میں ہے مرے جسم کا پیوند
شاہد ہیں منگورہ کی چٹانیں کہ ہے بڑھ کر
خونِ رگِ انساں سے زمرد کا گلو بند
یہ مہتر و نواب و خوانین و موالی
ہر جا پہ قدامت کے صنم اب بھی وہی ہیں
ہے رزقِ زمیں آج بھی دہقاں کا پسینہ
اندازِ قدح خوارئ جم اب بھی وہی ہیں
اک تو ہی نہ تھا جس پہ لگی کفر کی تہمت
ہم جیسے شہیدانِ ستم اب بھی وہی ہیں
اب بھی ہیں وہی اہلِ ہوس صاحبِ محفل
ہم دل زدگانِ شبِ غم اب بھی وہی ہیں
یہ فتویٰ فروش و تہی آغوش و عبا پوش
پیران و فقیہانِ حرم اب بھی وہی ہیں
جو حرفِ جنوں تو نے سکھایا وہ کہوں گا
اے حق کی علامت، مجھے توفیقِ نوا دے
دے بازوئے فرہاد کو وہ تابِ جسارت
جو طرۂ دستارِ رقیباں کو جھکا دے
اب قافلۂ شوق نئی دھن سے رواں ہے
اب پیشِ نظر ہے، نئی منزل نئے جادے
اب کجکلہی سَر بگریباں نظر آئے
اب چاک ہوں ذرّوں سے ستاروں کے لبادے
ہر عہد کا نخچیر رہا ہے لبِ گویا
یہ عہد بھی منصور کو سولی پہ چڑھا دے
(نابینا شہر میں آئینہ سے انتخاب)
اک شاعرِ درویش و قدح خوار خدا مَست
میں کون، جو لکھوں ، تری عظمت کے قصیدے
جبریل کے پر ہوں تو وہاں تک نہ پہنچ پاؤں
آواز جہاں سے ترا سازِ ابدی دے
تو وہ ہے کہ الہام ترے حرف کو ترسے
میں وہ کہ مجھے طعن مری بے ہُنری دے
تو جبرِ شہی میں بھی علمدارِ جنوں تھا
میں نالہ بہ دل ہوں کہ کوئی ہونٹ نہ سی دے
دہلیز نشیں ہوں میں ترے کاخِ سخن کا
میں کون، مگر تو شرفِ ہم سخنی دے
دے اِذن کہ میں تجھ کو بتاؤں کہ ترے بعد
جو حال ہوا ہے ترے خوابوں کے چمن کا
اغیار کے ہر وار کو ہم جھیل گئے تھے
ہر چند کہ چرچا تھا بہت دار و رسن کا
تو برششِ شمشیرِ حریفاں سے تھا بسمل
ہم کو ہے گلہ دشنۂ اربابِ وطن کا
"ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات"
شیوہ ہے وہی گردشِ افلاکِ کہن کا
ناوک ہی رہا قسمتِ ہر دیدۂ بینا
نیزہ ہی مقدر رہا بے باک دہن کا
اے ہاتفِ اسرارِ بشر سُن کے ترے بعد
کس طرح ترے درس کی توہین ہوئی ہے
معنوں سے تہی کر کے ترے حرفِ خودی کو
شعروں سے فقط وعظ کی تزئین ہوئی ہے
تھی فقر و توکل کی مغنّی تری ہستی
یاں کِذب و تصوّف ہی کی تلقین ہوئی ہے
جو مشقِ ستم مشغلۂ اہلِ جفا تھا
وہ رسمِ ستم شہر کا آئین ہوئی ہے
دربار سے وہ رشتہ رہا مفتئ دیں کا
منبر سے ہر ارشاد پہ آمین ہوئی ہے
ہیں اب بھی وہی بندۂ مزدور کے اوقات
گو دولتِ اربابِ امارت ہوئی دہ چند
ہے اوج پہ سرمایہ پرستی کا نصیبہ
دریوزہ گرِ نانِ شبینہ ہے ہنر مند
پیغامِ مساوات کہ دنیا کے لئے تھا
واعظ نے کیا کوزہ و تسبیح کا پابند
مسجد میں تو محتاج و غنی ایک ہیں لیکن
منعم کی قبا میں ہے مرے جسم کا پیوند
شاہد ہیں منگورہ کی چٹانیں کہ ہے بڑھ کر
خونِ رگِ انساں سے زمرد کا گلو بند
یہ مہتر و نواب و خوانین و موالی
ہر جا پہ قدامت کے صنم اب بھی وہی ہیں
ہے رزقِ زمیں آج بھی دہقاں کا پسینہ
اندازِ قدح خوارئ جم اب بھی وہی ہیں
اک تو ہی نہ تھا جس پہ لگی کفر کی تہمت
ہم جیسے شہیدانِ ستم اب بھی وہی ہیں
اب بھی ہیں وہی اہلِ ہوس صاحبِ محفل
ہم دل زدگانِ شبِ غم اب بھی وہی ہیں
یہ فتویٰ فروش و تہی آغوش و عبا پوش
پیران و فقیہانِ حرم اب بھی وہی ہیں
جو حرفِ جنوں تو نے سکھایا وہ کہوں گا
اے حق کی علامت، مجھے توفیقِ نوا دے
دے بازوئے فرہاد کو وہ تابِ جسارت
جو طرۂ دستارِ رقیباں کو جھکا دے
اب قافلۂ شوق نئی دھن سے رواں ہے
اب پیشِ نظر ہے، نئی منزل نئے جادے
اب کجکلہی سَر بگریباں نظر آئے
اب چاک ہوں ذرّوں سے ستاروں کے لبادے
ہر عہد کا نخچیر رہا ہے لبِ گویا
یہ عہد بھی منصور کو سولی پہ چڑھا دے
(نابینا شہر میں آئینہ سے انتخاب)