گُلِ یاسمیں
لائبریرین
انسان کی زندگی کا سارا حسن اس سے جڑے رشتوں سے ہے۔ ہر رشتہ اپنے اندر مٹھاس لئیے ہوئےہے۔ بچپن میں ماں باپ۔بہن بھائی۔ دادا دادی۔ نانا نانی خالہ ماموں چچا پھوپھی سب کی محبتیں سمیٹتے بچہ پروان چڑھتا ہے۔ پھر زندگی میں نئے رشتے شامل ہوتے ہیں جیسے نند بھابی، ساس بہو وغیرہ کا رشتہ۔ یہ رشتے اپنی جگہ اہمیت اور خوبصورتی سے مزین ہیں لیکن اکثر ان کے بارے بیزاری یا ناپسندیدگی کا تاثر ہی ملتا ہے۔جب ان رشتوں کو روایتی طور پر لیتے ہوئے اختلاف کرنا فرض سمجھ لیا جاتا ہے اور مخالفتوں کو ہوا دی جاتی ہے تو اس کی لپیٹ میں باقی خوبصورت رشتے بھی آ جاتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ باہمی محبت اور پسندیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حسد و بیزاری کو دور ہٹا دیا جائے تو باقی خونی رشتوں کی طرح یہ رشتے بھی بہت خوبصورت لگنے لگیں۔
ہماری امی جان جیسی مامتا اپنے دل میں ہمارے اور بھائیوں کے لئے رکھتی تھیں، ویسی ہی پُر شفیق اور محبت کرنے والی ساس وہ ہماری بھابیوں کے لئے بھی تھیں۔ اسی طرح ہم نے نند اور بھابی کا جو رشتہ دیکھا ہے، وہ روایتی نند اور بھاوج سے بہت ہٹ کر ہے۔ الحمد للہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں اچھی بھابیاں ملیں اور وہ بھی خوش ہیں کہ ہمارے جیسی سادہ مزاج نند ان کے پلّے پڑی۔سادہ مزاج اس لئے نا کہ بے جا فرمائشی پروگرام جاری کرنے کی عادت نہیں رہی کبھی۔ اور جب تک خود ڈٹ کر باورچی خانہ نہ سنبھالیں ، کھانا حلق سے اتارنا اچھا نہیں لگتا۔ اب خود ہی سوچئیے نا کہ ایسی کام کرنے والی نند جو بھابی کو کھانا ٹرے میں رکھ کر پیش کرے، کیسے اچھی نہ لگے گی۔ دوسری طرف سے بھی ایسا ہی برتاؤ ملتا ہے۔ اللہ پاک ان محبتوں اور عزتوں کو سلامت رکھیں آمین۔
گھر میں کبھی کبھار نوک جھونک کا ایسا سماں بندھتا ہے کہ ایک بھابی جو کہ ہماری خالہ کی بیٹی بھی ہیں اپنی سادگی کی بدولت خوب لپیٹ میں آ جاتی ہیں۔لیکن موقعہ ملنے پر بدلہ لینے سے بھی باز نہیں آتیں۔ ایسا موقعہ انھیں بس اسی وقت مل پاتا ہے جب ہماری قسمت ساتھ نہ دے رہی ہو۔ جیسا کہ آج کل ہم اپنے سر اور بازو کی وجہ سے بہت سارے کام نہیں کر پا رہے۔ باقی تو جیسے تیسے گزارا ہو جاتا ہے لیکن بال سلجھانا حقیقتاً ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔ کل ہاسپٹل سے واپسی پر ان کے اصرارکے باوجود ہم گھر پران کے پاس نہ رکے اور راجو ، انار کلی وغیرہ کے پاس آنے پہ بضد رہے تو بھائی کو ہمیں گھر چھوڑنے آنا پڑا۔
آج دن میں خیرخیریت دریافت کرنے کے لئے بھابی کو میسج کیا۔ سلام دعا کے بعد عرضی پیش کی
" لٹ الجھی سلجھا جا ری ظالم میں نہ لگاؤں گی ہاتھ ری"
جھٹ سے جواب آیا
"ٹنڈ کروا لو، ویسے بھی گرمیاں آ رہی ہیں "
اندازہ ہو گیا کہ یقیناً اس بار عید کی شاپنگ نہیں ہو پائی بوجہ کرونا۔ ابھی تھوڑا سا تپانا باقی تھا ، سو ہم نے ان کی ٹنڈ والی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے پھر سے لکھا
"چاند سے مکھڑے کو ناگن زلفیں چاہے ڈسیں ساری رات ری
لٹ الجھی سلجھا جا ری ظالم میں نہ لگاؤں گی ہاتھ ری"
کافی دیر تک جواب نہ آیا۔ ہمیں معلوم تھا کہ جب تک انھیں اپنا غصہ نکالنے کے لئے کوئی مناسب جواب نہ مل جائے گا، تب تک ہمارے موبائل پہ کوئی میسیج وصولی کی رنگ نہیں ہوگی، ایک تو سوچنے میں اتنا ٹائم لیتی ہیں کہ اگلا بیزار ہی ہو جائے، کم سے کم ہماری صحبت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تولے بغیر بول دینے والی عادت اپنائیں بے شک نہ لیکن کوشش تو کر سکتی ہیں۔ خیر سوچنے کے بعد جو جواب دیا بڑا زہریلا سا تھا۔ فرمایا رہی تھیں
"سنا ہے ناگن کا ڈسا پانی بھی نہیں مانگتا"
ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ ہمارے تلوؤں سے لگتی اور سر پہ بجھتی لیکن ہنستے ہنستے ہم نے پاس پڑی پانی والی بوتل کی تصویر بنا کر بھیجی اور لکھا
پانی مانگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ، پاس ہی رکھا ہے۔"
اس کے بعد والے جواب نے خبردار کر دیا کہ ایسے ویسے کسی مشورے پر کبھی عمل مت کرنا گُلِ یاسمیں
انھوں نے لکھا تھا
"اس میں سے چُلو بھر بچا کر رکھنا۔"
معلوم نہیں کس کے لئے رکھوانا چاہ رہی تھیں؟ اپنے لئے؟ ہمارے لئے؟
آپ کا کیا خیال ہے؟
بس ایسی ہی چھوٹی چھوٹی نوک جھونک چلتی رہتی ہے اور بہت مزہ دیتی ہے۔ بتانے کا مقصد یہ کہ دوستانہ ماحول قائم کرنا اور محبت سے ان رشتوں کی آبیاری کرنا بالکل بھی مشکل نہیں ہے۔ اگر ہم یہ خیال دل سے نکال دیں کہ آنے والی نے بھائی یا بیٹے پر قبضہ کر لیا ہے۔ ہر رشتہ اور ہر رشتے کی مانگ اپنی جگہ پر ہے۔ جب بھی کوئی رشتہ اپنی اہمیت گنواتا ہے اسکی وجہ زیادہ تر وہ خود ہی ہوتا ہے۔
دعا کیجئے گا کہ اللہ پاک ان رشتوں کو سلامت رکھے اور ایسے ہی اتفاق اور پیار سے سب چلتا رہے۔ آمین
ہماری امی جان جیسی مامتا اپنے دل میں ہمارے اور بھائیوں کے لئے رکھتی تھیں، ویسی ہی پُر شفیق اور محبت کرنے والی ساس وہ ہماری بھابیوں کے لئے بھی تھیں۔ اسی طرح ہم نے نند اور بھابی کا جو رشتہ دیکھا ہے، وہ روایتی نند اور بھاوج سے بہت ہٹ کر ہے۔ الحمد للہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں اچھی بھابیاں ملیں اور وہ بھی خوش ہیں کہ ہمارے جیسی سادہ مزاج نند ان کے پلّے پڑی۔سادہ مزاج اس لئے نا کہ بے جا فرمائشی پروگرام جاری کرنے کی عادت نہیں رہی کبھی۔ اور جب تک خود ڈٹ کر باورچی خانہ نہ سنبھالیں ، کھانا حلق سے اتارنا اچھا نہیں لگتا۔ اب خود ہی سوچئیے نا کہ ایسی کام کرنے والی نند جو بھابی کو کھانا ٹرے میں رکھ کر پیش کرے، کیسے اچھی نہ لگے گی۔ دوسری طرف سے بھی ایسا ہی برتاؤ ملتا ہے۔ اللہ پاک ان محبتوں اور عزتوں کو سلامت رکھیں آمین۔
گھر میں کبھی کبھار نوک جھونک کا ایسا سماں بندھتا ہے کہ ایک بھابی جو کہ ہماری خالہ کی بیٹی بھی ہیں اپنی سادگی کی بدولت خوب لپیٹ میں آ جاتی ہیں۔لیکن موقعہ ملنے پر بدلہ لینے سے بھی باز نہیں آتیں۔ ایسا موقعہ انھیں بس اسی وقت مل پاتا ہے جب ہماری قسمت ساتھ نہ دے رہی ہو۔ جیسا کہ آج کل ہم اپنے سر اور بازو کی وجہ سے بہت سارے کام نہیں کر پا رہے۔ باقی تو جیسے تیسے گزارا ہو جاتا ہے لیکن بال سلجھانا حقیقتاً ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔ کل ہاسپٹل سے واپسی پر ان کے اصرارکے باوجود ہم گھر پران کے پاس نہ رکے اور راجو ، انار کلی وغیرہ کے پاس آنے پہ بضد رہے تو بھائی کو ہمیں گھر چھوڑنے آنا پڑا۔
آج دن میں خیرخیریت دریافت کرنے کے لئے بھابی کو میسج کیا۔ سلام دعا کے بعد عرضی پیش کی
" لٹ الجھی سلجھا جا ری ظالم میں نہ لگاؤں گی ہاتھ ری"
جھٹ سے جواب آیا
"ٹنڈ کروا لو، ویسے بھی گرمیاں آ رہی ہیں "
اندازہ ہو گیا کہ یقیناً اس بار عید کی شاپنگ نہیں ہو پائی بوجہ کرونا۔ ابھی تھوڑا سا تپانا باقی تھا ، سو ہم نے ان کی ٹنڈ والی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے پھر سے لکھا
"چاند سے مکھڑے کو ناگن زلفیں چاہے ڈسیں ساری رات ری
لٹ الجھی سلجھا جا ری ظالم میں نہ لگاؤں گی ہاتھ ری"
کافی دیر تک جواب نہ آیا۔ ہمیں معلوم تھا کہ جب تک انھیں اپنا غصہ نکالنے کے لئے کوئی مناسب جواب نہ مل جائے گا، تب تک ہمارے موبائل پہ کوئی میسیج وصولی کی رنگ نہیں ہوگی، ایک تو سوچنے میں اتنا ٹائم لیتی ہیں کہ اگلا بیزار ہی ہو جائے، کم سے کم ہماری صحبت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تولے بغیر بول دینے والی عادت اپنائیں بے شک نہ لیکن کوشش تو کر سکتی ہیں۔ خیر سوچنے کے بعد جو جواب دیا بڑا زہریلا سا تھا۔ فرمایا رہی تھیں
"سنا ہے ناگن کا ڈسا پانی بھی نہیں مانگتا"
ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ ہمارے تلوؤں سے لگتی اور سر پہ بجھتی لیکن ہنستے ہنستے ہم نے پاس پڑی پانی والی بوتل کی تصویر بنا کر بھیجی اور لکھا
پانی مانگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ، پاس ہی رکھا ہے۔"
اس کے بعد والے جواب نے خبردار کر دیا کہ ایسے ویسے کسی مشورے پر کبھی عمل مت کرنا گُلِ یاسمیں
انھوں نے لکھا تھا
"اس میں سے چُلو بھر بچا کر رکھنا۔"
معلوم نہیں کس کے لئے رکھوانا چاہ رہی تھیں؟ اپنے لئے؟ ہمارے لئے؟
آپ کا کیا خیال ہے؟
بس ایسی ہی چھوٹی چھوٹی نوک جھونک چلتی رہتی ہے اور بہت مزہ دیتی ہے۔ بتانے کا مقصد یہ کہ دوستانہ ماحول قائم کرنا اور محبت سے ان رشتوں کی آبیاری کرنا بالکل بھی مشکل نہیں ہے۔ اگر ہم یہ خیال دل سے نکال دیں کہ آنے والی نے بھائی یا بیٹے پر قبضہ کر لیا ہے۔ ہر رشتہ اور ہر رشتے کی مانگ اپنی جگہ پر ہے۔ جب بھی کوئی رشتہ اپنی اہمیت گنواتا ہے اسکی وجہ زیادہ تر وہ خود ہی ہوتا ہے۔
دعا کیجئے گا کہ اللہ پاک ان رشتوں کو سلامت رکھے اور ایسے ہی اتفاق اور پیار سے سب چلتا رہے۔ آمین