و علیکم السلام
رسول ﷺ کے دور کا یہ واقعہ اپنے اندر اس سوال کا جواب سمیٹے ہوئے ہے۔۔۔ سنن ابو داود میں وارد ہے:
۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ أُقَيْشٍ، كَانَ لَهُ رِبًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَكَرِهَ أَنْ يُسْلِمَ حَتَّى يَأْخُذَهُ فَجَاءَ يَوْمَ أُحُدٍ . فَقَالَ : أَيْنَ بَنُو عَمِّي قَالُوا : بِأُحُدٍ . قَالَ : أَيْنَ فُلاَنٌ قَالُوا : بِأُحُدٍ . قَالَ : أَيْنَ فُلاَنٌ قَالُوا : بِأُحُدٍ . فَلَبِسَ لأْمَتَهُ وَرَكِبَ فَرَسَهُ ثُمَّ تَوَجَّهَ قِبَلَهُمْ، فَلَمَّا رَآهُ الْمُسْلِمُونَ قَالُوا : إِلَيْكَ عَنَّا يَا عَمْرُو . قَالَ : إِنِّي قَدْ آمَنْتُ . فَقَاتَلَ حَتَّى جُرِحَ، فَحُمِلَ إِلَى أَهْلِهِ جَرِيحًا، فَجَاءَهُ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فَقَالَ لأُخْتِهِ : سَلِيهِ حَمِيَّةً لِقَوْمِكَ أَوْ غَضَبًا لَهُمْ أَمْ غَضَبًا لِلَّهِ فَقَالَ : بَلْ غَضَبًا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ فَمَاتَ . فَدَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَا صَلَّى لِلَّهِ صَلاَةً .
ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ عمرو بن أقیش نے زمانۂ جاہلیت میں سود پر قرض دے رکھا تھا اور وہ اسے وصول کرنے سے پہلے اسلام قبول کرنے سے گریزاں تھے۔وہ یومِ اُحُد پر آئے اور پوچھا:’میرے عمزاد کہاں ہیں؟‘لوگوں نے جواب دیا:’اُحُد پر۔‘ انہوں نے پوچھا:’ فلاں کہاں ہے؟‘لوگوں نے جواب دیا: ’اُحُد پر۔‘ پھر انہوں نے اپنی زرّہ پہنی اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ان کی جانب روانہ ہو گئے۔جب مسلمانوں نے انہیں دیکھا تو کہا:’ ہم سے دور رہو عمرو۔‘انہوں نے کہا:’میں ایمان لا چکا ہوں۔‘وہ لڑتے رہے حتی کہ زخمی ہو گئے اور زخمی حالت میں ہی اپنے خاندان والوں کے پاس پہنچا دیئے گئے۔سعد بن معاذ ان کی بہن کے پاس گئے اور ان سے کہا:’اس سے پوچھو کہ یہ قوم کی حمیّت کی خاطر یا ان کے لئے غصّے کی خاطریا اللہ کے لئے غصّے کی خاطر لڑے۔‘انہوں نے جواب دیا:’اللہ اور اس کے رسول کی خاطر غصّے کی وجہ سے۔ ‘پھر وہ وفات پا گئے اور جنّت میں داخل ہو گئے۔انہوں نے اللہ کی خاطر کوئی نماز تک ادا نہیں کی ہوئی تھی۔)
سنن ابو داود، کتاب14