لڑکی،بیٹی،ماں،خاتون،بہن،بیوی، عورت،

سید عاطف علی

لائبریرین
جشنِ بےچارگی ۔ احسان دانش۔

ہے داغِ دل اک شام سیہ پوش کا منظر
تھا ظلمتِ خاموش میں شہزادۂ خاور

عالم میں مچلنے ہی کو تھے رات کے گیسو
انوار کے شانوں پہ تھے انوار کے گیسو

یہ وقت اور اک دخترِ مزدور کی رخصت
واللہ قیامت تھی قیامت تھی قیامت

نوشاہ کہ جو سر پہ تھا باندھے ہوئے سہرا
بھرپور جوانی میں تھا اترا ہوا چہرا

اندوہ ٹپکتا تھا بشاشت کی نظر سے
مرجھائے سے رخسار تھے فاقوں کے اثر سے

کرتا بھی پرانا سا تھا پگڑی بھی پرانی
مجبور تھی قسمت کے شکنجوں میں جوانی

نوشاہ کے جو ساتھ آئے تھے دو چار براتی
ہر اک کی جبیں سے تھی عیاں نیک صفاتی

توقیر کے، الفت کے، شرافت کے مرقعے
ایثار کے، ایمان کے، غیرت کے مرقعے

ہمراہ نفیری تھی نہ باجا تھا نہ تاشا
آنکھوں میں تھا بے مہریِ عالم کا تماشا

مجمع تھا یہ جس خستہ و افسردہ مکاں پر
تھا بھیس میں شادی کے وہاں عالمِ محشر

دالان تھا گونجا ہوا رونے کی صدا سے
اک درد ٹپکتا تھا عرقناک ہوا سے

اماں کی تھی بیٹی کی جدائی سے یہ حالت
چیخوں میں ڈھلے جاتے تھے جذباتِ محبت

تھا باپ کا یہ حال کہ اندوہ کا مارا
اٹھتا تھا تو دیوار کا لیتا تھا سہارا

وہ آپ کہیں اور تھا اور جان کہیں تھی
سینے میں کوئی شے تھی جو قابو میں نہیں تھی

افلاس کے آرے جو جگر کاٹ رہے تھے
ارمان سب اپنا ہی لہو چاٹ رہے تھے

لڑکی کا یہ عالم تھا کہ آپے کو سمیٹے
گڑیا سی بنی بیٹھی تھی چادر کو سمیٹے

تھی پاؤں میں پازیب نہ پیشانی میں ٹیکا
اس خاکۂ افلاس کا ہر رنگ تھا پھیکا

انصافِ زمانہ تھا یا تقدیر کا چکر
ماں باپ کو آیا نہ تھا جوڑا بھی میسر

یوں کہنے کو دلہن تھی یہ مزدور کی دختر
اماں کا دوپٹہ تھا تو ابا کی تھی چادر

آخر نہ رہا باپ کو جذبات پہ قابو
تھرانے لگے ہونٹ ٹپکنے لگے آنسو

کہنے لگا نوشاہ سے اے جانِ پدر سن
اے وجہِ سکوں، لختِ جگر، نورِ نظر سن

گرچہ مری نظروں میں ہے تاریک خدائی
حاضر ہے مری عمر کی معصوم کمائی

کی لاکھ مگر ایک بھی کام آئی نہ تدبیر
مجبور ہوں مجبور یہ تقدیر ہے تقدیر

اس سانولے چہرے میں تقدس کی ضیا ہے
یہ پیکرِ عفت ہے یہ فانوسِ حیا ہے

اس کے لئے چکی بھی نئی چیز نہیں ہے
بیٹی ہے مری دخترِ پرویز نہیں ہے

غربت میں یہ پیدا ہوئی غربت میں پلی ہے
خود داری و تہذیب کے سانچے میں ڈھلی ہے

زنہار یہ زیور کی تمنا نہ کرے گی
ایسا نہ کرے گی کبھی ایسا نہ کرے گی

شکوہ اسے تقدیر کا کرنا نہیں آتا
ادراک کی سرحد سے گزرنا نہیں آتا

ہے صبر کی خوگر اسے فاقوں کی ہے عادت
ماں باپ سے پائی ہے وراثت میں قناعت

اسکی بھی خوشی ہو گی تمہاری جو رضا ہو
تم اس کے لئے دوسرے درجے پہ خدا ہو

پھر آ کے کہا بیٹی سے یہ نرم زباں سے
بچی مری رخصت ہے تو اب باپ سے ماں سے

اے جانِ پدر دیکھ وفادار ہی رہنا
آئے جو قیامت بھی تو ہنس کھیل کے سہنا

دل توڑ نہ دینا کہ خدا ساتھ ہے بیٹی
لاج اس مری داڑھی کی ترے ہاتھ ہے بیٹی

آیا جو نظر مجھ کو یہ جانکاہ نظارہ
احسان نہ آنکھوں کو رہا ضبط کا یارا

تپنے لگی ہر سانس مری سوزِ نہاں سے
اتنا ہے مجھے یاد کہ نکلا یہ زباں سے

اے خالقِ کونین یہ تو نے بھی سنا ہے
دنیا کا گماں ہے کہ غریبوں کا خدا ہے

تو جن کا خدا ان کا ہو گردش میں ستارہ
کیا تیرے کرم کو یہ ستم بھی ہے گوارا؟

کس طرح نہ ہو دل کو بھلا رنج و محن دیکھ
مزدور کے اس زندہ جنازے کا کفن دیکھ

احساس کبھی دل سے جدا ہو نہیں سکتا
انسان ہے انسان، خدا ہو نہیں سکتا

احسان دانش۔​
 

جاسمن

لائبریرین
صبح کا جھرنا ہمیشہ ہنسنے والی عورتیں
جھٹپٹے کی ندیاں خاموش گہری عورتیں

معتدل کر دیتی ہیں یہ سرد موسم کا مزاج
برف کے ٹیلوں پہ چڑھتی دھوپ جیسی عورتیں
بشیر بدر
 

جاسمن

لائبریرین
جہالت کے زمانوں میں
سنا ہے باپ بیٹی کو
وہ پیدائش پہ بیٹی کی
گھروں سے دور لے جا کر
کہیں پر کاٹ دیتے تھے
یا پھر وہ دور بستی سے
وہ لے کر ساتھ بیٹی کو
زمیں میں گاڑ دیتے تھے
رسول اللہ نے پھر آ کر
دیا اکرام بیٹی کو
بتا کر شان بیٹی کی
بنا کر آن بیٹی کو
دیا انعام بیٹی کو
مری بستی میں اب لوگو
سنا ہے لوگ کہتے ہیں
جہالت کا زمانہ وہ
کہیں بہتر تھا اس دن سے
یہاں تو بیچ بستی میں
کوئی بھی بھیڑیا آ کر
اٹھا کر گھر سے بیٹی کو
وہ جا کر نوچ کھاتا ہے
جہالت کے زمانوں میں
فقط وہ جسم کھوتی تھی
مگر اس دور میں بیٹی
جگر سے روح سے چھلنی
سجائے خواب آنکھوں میں
ہوس کے ہاتھوں مرتی ہے
جہالت کے زمانوں میں
پکڑ کر ہاتھ میں گڑیا
وہ بابا سنگ جاتی تھی
زمیں میں گاڑی جاتی تھی
مگر جدت پہ لعنت ہو
کوئی بھی بھیڑیا اٹھ کر
وہ لالچ دے کے ٹافی کا
اسے پھر نوچ کھاتا ہے
اگر وہ جان سے مارے
تو پھر بھی صبر آ جائے
مگر وہ جہل کا وارث
بدن سے روح کو نوچے
حیا کو بے ردا کر دے
ہوس کی آگ کا بندہ
وفا کو ہی تبا کر دے
سنو اے منصفو تم بھی
مرے اے حاکموں تم بھی
تمہارے عہد میں گر یہ
درندے اس طرح آ کر
مری کلیاں اجاڑیں گے
ہوس کے زہر کو پھر یہ
رگ و پے میں اتاریں گے
تو پھر یہ جان لو تم بھی
تمہارے اقتداروں کو
کوئی بھی معجزہ آ کر
وہ دائم رکھ نہیں سکتا
تمہارے کھیت کا خوشہ
کوئی بھی پک نہیں سکتا
کوئی بھی دور تنگی کو
کبھی بھی رکھ نہیں سکتا
سنو جس دور میں بیٹی
سرِ بازار لٹ جائے
سنو اس قوم کے منصف
پہ لازم ہے کہ مر جائے..!
 

جاسمن

لائبریرین
پھول خوشبو ان پہ اڑتی تتلیوں کی خیر ہو
سب کے آنگن میں چہکتی بیٹیوں کی خیر ہو

چنریوں میں خواب لے کر چل پڑی ہیں بیٹیاں
ان پرائے دیس جاتی ڈولیوں کی خیر ہو

احمد سجاد بابر
 

فاخر رضا

محفلین
بہت اچھا ہو اگر بیٹیاں پیدا نہ ہوں
اگر اسی طرح ان کے ساتھ ہونا ہے
کبھی سسکنا ہے کبھی رونا ہے
کسی کی مار سہنا ہے
کسی کی گھورتی نظریں
کسی ماں کے ماتھے پر
یہ ہیں فکر کی شکنیں
اس سے تو بہتر ہے
کہ بیٹیاں پیدا نہ ہوں
 

جاسمن

لائبریرین
خدائے ارض! میں بیٹی کے خواب کات سکوں
تو میرے کھیت میں اتنی کپاس رہنے دے
 

جاسمن

لائبریرین
ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا
میں گھر سے جب نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے

منور رانا
 

جاسمن

لائبریرین
بھوکے بچوں کی تسلی کے لیے
ماں نے پھر پانی پکایا دیر تک
نواز دیوبندی
 

جاسمن

لائبریرین
دعا کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں
کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے

افتخار عارف
 

جاسمن

لائبریرین
جب بھی کشتی مری سیلاب میں آ جاتی ہے
ماں دعا کرتی ہوئی خواب میں آ جاتی ہے

منور رانا
 

جاسمن

لائبریرین
دور رہتی ہیں سدا ان سے بلائیں ساحل
اپنے ماں باپ کی جو روز دعا لیتے ہیں

محمد علی ساحل
 

جاسمن

لائبریرین
اس لیے چل نہ سکا کوئی بھی خنجر مجھ پر
میری شہ رگ پہ مری ماں کی دعا رکھی تھی

نظیر باقری
 

جاسمن

لائبریرین
بہن کی التجا ماں کی محبت ساتھ چلتی ہے
وفائے دوستاں بہر مشقت ساتھ چلتی ہے
ضمیر جعفری
 

جاسمن

لائبریرین
حدت، خنکی، شدت، خوشبو ،چاند ستارہ عورت ہے
جوش، جوانی، رقص، رعنائی، روپ سہانا عورت ہے

نکہت، بادل، موسم، فطرت ، جھیل، گلاب، نشیلی دھوپ
تتلی، پھول، سنہری چڑیا، ہرن شاہانا عورت ہے

بیتِ مومن، نظمِ فیض ، نغمہِ اختر ، سوزِ میر
غزل، قصیدہ، مطلع، مقطع، شعر دو گانا عورت ہے

بحرِ آتش، معنیِ غالب، حسنِ ولی، رنگِ ذوق
حرف، حکایت، لفظ، کرشمہ، نثر ٹھکانا عورت ہے

شاہدِ عصمت، پردہ نشینی ، مونسِ ہجراں، عجزِ ولی
عفت، حرمت، نور، شرافت ، شرم کمانا عورت ہے

حورِ گلستاں ، حورِ تبسم، حورِ زمانہ، حورِ جہاں
حورِ مجسم، حورِ خیالاں، حور بتانا عورت ہے

رنگِ غازہ ، رنگِ حنا ، شغلِ سرمہ، انگشت حنا
کنگھی، کنگن، چوڑی، گجرا سجنا سجانا عورت ہے

ادا خطائی، وفا سیمابی، ناز قیامت، شوخیِ جاں
عشوہ ،نخرہ، چنچل شکوہ ، مکر بہانا عورت ہے

رازِ الفت، سازِ راحت ، سوزِ چاہت، نالہِ دل
عشق، محبت، پیار، فسانہ نظر لڑانا عورت ہے

بدن سریلا، چال قیامت ، فتنہ دوراں ، فتنہِ جاں
چشمِ غزالہ، قامتِ موزوں، دکھنا دکھانا عورت ہے

باغِ بہاراں، بادِ بہاراں، صبح بہاراں، چشمِ بہار
بادل، بارش، ابر مہینہ، راگ پرانا عورت ہے

دستِ رنگیں ، سینہِ بسمل، خندہ شرارہ، حیرتِ حسن
شوخیِ قاتل، چشم پریشاں، ڈرنا ڈرانا عورت ہے

معنی خیزی، حیرت شکنی، سحر بیانی، رازِ غم
بلنا ، کڑھنا، رعب، جلاپا ، جلنا جلانا عورت ہے

ناصحِ عالم،واعظِ دھرتی، فتح یقینی ، رازِ دوست
ہمت، طاقت، جرات، غیرت ، عزم توانا عورت ہے

رازِ ہستی ، رازِ فطرت، رازِ مسرت، شادیِ مرگ
قہقہ، چیخ ، خوشی کا نعرہ، ہنسنا ہنسانا عورت ہے

نازک جسمی، نرم مزاجی، لچک حیائی، فتنہِ انگ
نرمی، نزاکت، لوچ، ملاحت، رنگ جمانا عورت ہے

لذت خیزی ، شدت خیزی، شریں بیانی، میٹھا پن
لطف، شرینی، شہد، حلاوت اپنا بنانا عورت ہے

دخترِ عالی، روپ سہاگن، رازِ جنت ، باپ کی پگ
اماں ، بہن ، بیوی، بیٹی سب نکھرا گھرانا عورت ہے
آفتاب شاہ
 

فاخر رضا

محفلین
حدت، خنکی، شدت، خوشبو ،چاند ستارہ عورت ہے
جوش، جوانی، رقص، رعنائی، روپ سہانا عورت ہے

نکہت، بادل، موسم، فطرت ، جھیل، گلاب، نشیلی دھوپ
تتلی، پھول، سنہری چڑیا، ہرن شاہانا عورت ہے

بیتِ مومن، نظمِ فیض ، نغمہِ اختر ، سوزِ میر
غزل، قصیدہ، مطلع، مقطع، شعر دو گانا عورت ہے

بحرِ آتش، معنیِ غالب، حسنِ ولی، رنگِ ذوق
حرف، حکایت، لفظ، کرشمہ، نثر ٹھکانا عورت ہے

شاہدِ عصمت، پردہ نشینی ، مونسِ ہجراں، عجزِ ولی
عفت، حرمت، نور، شرافت ، شرم کمانا عورت ہے

حورِ گلستاں ، حورِ تبسم، حورِ زمانہ، حورِ جہاں
حورِ مجسم، حورِ خیالاں، حور بتانا عورت ہے

رنگِ غازہ ، رنگِ حنا ، شغلِ سرمہ، انگشت حنا
کنگھی، کنگن، چوڑی، گجرا سجنا سجانا عورت ہے

ادا خطائی، وفا سیمابی، ناز قیامت، شوخیِ جاں
عشوہ ،نخرہ، چنچل شکوہ ، مکر بہانا عورت ہے

رازِ الفت، سازِ راحت ، سوزِ چاہت، نالہِ دل
عشق، محبت، پیار، فسانہ نظر لڑانا عورت ہے

بدن سریلا، چال قیامت ، فتنہ دوراں ، فتنہِ جاں
چشمِ غزالہ، قامتِ موزوں، دکھنا دکھانا عورت ہے

باغِ بہاراں، بادِ بہاراں، صبح بہاراں، چشمِ بہار
بادل، بارش، ابر مہینہ، راگ پرانا عورت ہے

دستِ رنگیں ، سینہِ بسمل، خندہ شرارہ، حیرتِ حسن
شوخیِ قاتل، چشم پریشاں، ڈرنا ڈرانا عورت ہے

معنی خیزی، حیرت شکنی، سحر بیانی، رازِ غم
بلنا ، کڑھنا، رعب، جلاپا ، جلنا جلانا عورت ہے

ناصحِ عالم،واعظِ دھرتی، فتح یقینی ، رازِ دوست
ہمت، طاقت، جرات، غیرت ، عزم توانا عورت ہے

رازِ ہستی ، رازِ فطرت، رازِ مسرت، شادیِ مرگ
قہقہ، چیخ ، خوشی کا نعرہ، ہنسنا ہنسانا عورت ہے

نازک جسمی، نرم مزاجی، لچک حیائی، فتنہِ انگ
نرمی، نزاکت، لوچ، ملاحت، رنگ جمانا عورت ہے

لذت خیزی ، شدت خیزی، شریں بیانی، میٹھا پن
لطف، شرینی، شہد، حلاوت اپنا بنانا عورت ہے

دخترِ عالی، روپ سہاگن، رازِ جنت ، باپ کی پگ
اماں ، بہن ، بیوی، بیٹی سب نکھرا گھرانا عورت ہے
آفتاب شاہ
یہ نظم کیوں لکھی ہے
 
Top