لڑکیوں کا جزیرہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سارہ خان

محفلین
"شرافت کے دائرے سے باہر نہ نکلو!..."اسی آدمی نے غصیلے لہجے میں کہا!

"میں ازلی کمینہ ہوں!" عمران نے سنجیدگی سے کہا!"افسانہ نگار ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ میری اصلیت بدل جائے!... اگر لڑنے بھڑنے کا ارادہ ہو تو اس کیلئے بھی تیار ہوں!"

"اچھا نکلو باہر...! ہم دیکھتے ہیں تمہیں!"

اتنے میں بیرے نے چائے لا کر میز پر رکھ دی! جانے کے لئے مڑا ہی تھا کہ عمران نے اسے روک کر کہا!"میرا بل لاؤ اس چائے کے دام یہی لوگ ادا کریں گے!"

وہ تینوں پیچ و تاب کھا کر رہ گئے! لیکن کچھ بولے نہیں!... ویٹر چلا گیا!...

"اچھا پھر کبھی سمجھیں گے تم سے!" ان میں سے ایک آنکھیں نکال کر بولا!

"الجبرا اور جومیٹری سمجھا سکتا ہوں! ارتھمیٹک کمزور ہے!... وہ کسی اور سے سمجھ لینا! ہاں!" عمران بالکل اسی طرح بولا جیسے کوئی استاد اپنے شاگردوں سے ہمکلام ہو!

ویٹر بل لایا اور عمران نے اس کی قیمت ادا کی پھر تینوں کی طرف ایک چڑا دینے والی مسکراہٹ اچھالتا ہوا اٹھ گیا!.

وہ سمجھا تھا کہ شاید وہ لڑکی فٹ پاتھ ہی پر مل جائے گی... مگر اسے مایوسی ہوئی!... وہ دراصل اس لڑکی کے متعلق الجھن میں پڑ گیا تھا!... حالانکہ بظاہر کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی جس کی بناء پر اسے اس لڑکی کی طرف سے کوئی تشویش ہوتی!... ویسے اس نے "کمر لچکدار" کے دفتر میں اس سے بڑا مضحکہ خیز برتاؤ کیا تھا!

الجھن اس کی بھی نہیں تھی!... فی الوقت وہ خود بھی اس الجھن کو نہیں سمجھ سکا!... کبھی کبھی اس کے ساتھ ایسا بھی ہوتا تھا! وہ چند لمحے رک کر ایک طرف چل پڑا.

ابھی اسے پوسٹ بکس نمبر دو سو تیرہ کے متعلق مکمل معلومات نہیں حاصل ہوئی تھیں!... اسے یقین تھا کہ وہ کوئی کلیو نہیں ہو سکتا... مگر اس کے متعلق اسے ایک ایسی عورت نے بتایا تھا جس کے سر پر شاید موت ہی سوار تھی! اس لئے وہ اسے نظر انداز بھی نہیں کر سکتا تھا!... عمران خیالات میں اس طرح کھویا ہوا تھا کہ پیدل ہی چلتا رہا!... دن بھر کی تھکی ہوئی بھیڑ کارخانوں اور دفتروں سے نکل آئی تھی!... اور فٹ پاتھ پر گذرتے وقت لوگ ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے. عمران کو اس بھیڑ کا احساس بھی نہیں تھا!... وہ شانوں سے شانے رگڑتا... رکتا... رکاتا چلتا رہا! وہ سوچ رہا تھا کہ اسے محکمہ سراغرسانی کے سپرنٹنڈنٹ کیپٹن فیاض سے اس لڑکی کے متعلق کچھ اور معلومات بھی فراہم کرنی چاہیئے جس کی لاش ڈیڑھ ہفتہ پہلے شارع عام پر پائی گئی تھی. وہ ایک پبلک کال بوتھ میں گھس کر فیاض کے نمبر ڈائیل کرنے لگا. مگر یہاں بھی اسے ناکامی ہوئی. فیاض گھر پر موجود نہیں تھا اور اس وقت آفس میں اس کی موجودگی ممکن تھی!... عمران بوتھ سے باہر آ گیا! فی الحال اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اسے تفتیش کا آغاز کہاں سے کرنا چاہئے اسے شیلا یاد آئی. مگر وہ اسے کہاں تلاش کرتا! ویسے وہ بری طرح ذہن سے چپک گئی تھی!

عمران پھر چلنے لگا!... ماہنامہ "کمر لچکدار" کے آفس میں یا اس کے سامنے والے ریستوران میں اس نے وقت نہیں برباد کیا تھا!... کم از کم وہاں کے ماحول سے اس نے یہی


اندازہ لگایا تھا کہ اگر وہ پوسٹ بکس نمبر وہیں کا ہے تو اسے کچھ نہ کچھ اہمیت ضرور دی جا سکتی ہے!

کیا وہ ایک بار پھر اس جزیرے کا رخ کرے؟`اس نے سوچا! ساتھ ہی اسے یہ بات بھی یاد آئی کہ وہ وہاں گیا ہی کیوں تھا؟... اسے مقتولہ کے باپ سے ملنا تھا! لیکن اس سے ملاقات نہیں ہوئی تھی! اس کے پاس اس کی شہری جائے رہائش کا پتہ بھی موجود تھا!...

وہ چلتے چلتے ایک گلی میں مڑ گیا! دراصل وہ ایک ٹیکسی چاہتا تھا اور خالی ٹیکسی اسے دوسری سڑک پر مل سکتی تھی!.

ٹیکسی کے لئے اسے بہت زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا. تھوڑی دیر بعد وہ مقتولہ کے باپ کا پتہ ٹیکسی والے کو بتا رہا تھا.

لیکن تھوڑی ہی دور چلنے کے بعد اسے ٹیکسی رکوا دینی پڑی کیونکہ ایک دوکان میں اسے وہی لڑکی نظر آئی تھی جس نے ماہنامے کے دفتر میں اسے گرا دیا تھا! وہ بڑی جلدی میں ٹیکسی ڈرائیور کے ہاتھ میں کچھ رقم دیتا ہوا نیچے اتر گیا.

مگر وہ کہیں رکا نہیں سیدھا اسی دوکان میں گھستا چلا گیا! یہ ایک جنرل سٹور تھا! عمران لڑکی کے پیچھے کھڑا ہو کر شوکیسوں پر نظر ڈالنے لگا! پھر کچھ ہی دیر بعد آہستہ سے بولا "آپ کی چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے!"

لڑکی یکلخت اس کی طرف مڑی اس کی آنکھوں سے حیرت جھانک رہی تھی اس نے دوکان دار سے کہا. "میں پھر آؤں گی." اور باہر نکل گئی! لیکن عمران نےا س کا پیچھا نہیں چھوڑا. فٹ پاتھ پر پہنچ کر وہ رک گئی.

"کیا ارادے ہیں!" اس نے عمران کو گھورتے ہوئے کہا!

"تمہیں چائے پلاؤں گا!"

"تم مجھے وہ نہیں معلوم ہوتے جو نظر آتے ہو!"

"میں حقیقتاً چمگادڑ ہوں! مگر عام طور پر لوگ مجھے طوطا کہتے ہیں!"

"کس چکر میں ہو!"

"تمہارے چکر میں! اب میں اتنا گاؤدی بھی نہیں ہوںکہ حاتم طائی کو لیلٰی مجنوں کی طرح جوڑا بنا دوں!"

"پھر؟" لڑکی کے ہونٹ بھنچ گئے! اس کی آنکھوں میں ایک خونخوار سی چمک لہرا رہی تھی!

"میں دراصل تم تک پہنچنا چاہتا تھا!" عمران نے سر جھکا کر شرمیلے لہجے میں کہا.

"کیوں؟"

"پتہ نہیں کیوں؟ جب سے تمہیں دیکھا ہے!"

"شٹ اپ... کیا شامت آئی ہے!"

"مجھے یہی توقع تھی!" عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا اور مغموم انداز میں سر ہلانے لگا! پھر بولا "تم اس نابکار ایڈیٹر کومجھ سے قابل سمجھتی ہو."

"ہوش میں ہو یا نہیں! ہم پہلی بار ملے ہیں!"

"نہیں ہم میں تو بہت پرانی بے تکلفی ہے! اگر یہ بات نہ ہوتی تو تم ٹانگ مار کر گراتی کیوں!"

"میں یہاں اس جگہ بھی تمہارے ساتھ یہی سلوک کر سکتی ہوں!"

"ارے جاؤ. جاؤ! میں کیا تم سے کمزور ہوں. اب کے گرا کر دیکھو چٹنی بنا کر رکھ دوں گا! یہ تو تمہیں شادی کے بعد ہی معلوم ہوگا کہ میں کیسا آدمی ہوں!"

"تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے! اگر اب میرے پیچھے آئے تو خیریت نہیں."

"خیریت کی ایسی کی تیسی! وہ انگوٹھی کہاںہے؟"

"کیسی انگوٹھی؟"

"منگنی کی انگوٹھی! جو پچھلے سال میں نے تمہاری انگلی میں ڈالی تھی! اس کے بعد تم غائب ہو گئی تھیں. آج ملی ہو! میں کہتا ہوں کہ یہ رشتہ ضرور ہوگا. تمہارے والدین کو اب بھی منظور ہے!"

"میں کہتی ہوں دفع ہو جاؤ یہاں سے ورنہ بہت برا ہوگا.!"

"کیا برا ہوگا؟ ذرا ٹھہرو! میں اس ڈیوٹی کانسٹیبل کو بھی اطلاع دے دوںکہ تم میری منگیتر ہو. دیکھو بڑا بکھیڑا ہو جائے گا! بھیڑ لگ جائے گی یہاں! میں بڑا بے حیا آدمی ہوں. میرا کچھ نہ بگڑے گا. میں انسلٹ پروف ہوں."

"تم کیا چاہتے ہو!" لڑکی نے اکتائے ہوئے لہجے میں پوچھا.

"وہ تمہارے گھر کا پتہ تاک مجھے بار بار دفتر کے چکر نہ لگانے پڑیں!"

لڑکی چند لمحے کچھ سوچتی رہی. پھر اپنے پرس سے ایک وزیٹنگ کارڈ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا.

"میں کل ضرور آؤں گا... شکریہ!"

"ٹھہرو!..." لڑکی ہاتھ اٹھا کر بولی!"مقصد کیا ہے!"

"جب تک تم پتلون پہننا نہ چھوڑو گی! میں تمہارا پیچھا نہ چھوڑوں گا. جس دن میں نے تمہیں غرارے، شلوار یا سکرٹ میں دیکھ لیا اسی دن سے تم میری شکل بھی نہ دیکھو گی!"

"تم سے مطلب میں جو چاہے پہنوں! تم کون ہوتے ہو!"... لڑکی پھر جھنجھلا گئی.

"میں تمہارا منگیتر ہوتا ہوں! اور اس وقت تک رہوں گا جب تک پتلون!... تم مجھے نہیں جانتیں! مجھے ایک عورت کے چلنے کا انداز ناپسند تھا!... لہٰذا میں نے اس کے شوہر سے اسے طلاق دلوا دی!... حالانکہ میرے پانچ ہزار روپے ضرور خرچ ہو گئے!... لیکن!... شہر میں وہ چیز تو نہ رہی جو مجھے ناپسند تھی! تم پر بھی دو چار ہزار خرچ کروں گا. پھر تمہیں یا تو شہر چھوڑنا پڑے گا یا پتلون!"

"ارے تم خدائی فوجدار ہو!" لڑکی دانت پیس کر بولی!

"خدائی فوج کا حوالدار میجر!..." عمران نے سنجیدگی سے سر ہلا کر کہا!

لڑکی چند لمحے کچھ سوچتی رہی پھر بولی "اگر میں شور مچا دوں کہ تم مجھ سے بدتمیزی کر رہے ہو تو؟"

"ارے خدا کے لئے شور مچاؤ بھی! میں یہی چاہتا ہوں کہ تم شور مچاؤ! اتنی دیر سے جھک کیوں مار رہا ہوں! مقصد یہی ہے. کہ تم شور مچاؤ!..."

"کیا کرو گے تم...!"

"دنوں کا کام گھنٹوں میں ہو جائے گا! تم کل ہی پتلون پہننا چھوڑ دو گی!... کہو تو پوری اسکیم بتا دوں!... تم شور مچاؤ گی تو لوگ اکٹھا ہوں گے! میں کہوں گا کہ یہ میری بیوی ہے. دو سال گزرے اپنے دادا زاد بھائی کے ساتھ بھاگ گئی تھی. کارڈ پر تمہارا نام زیبا تحریر ہے. میں جنت بی بی بتاؤں گا! کہوں گا کہ یہ اسی لئے پتلون ڈالے پھرتی ہے کہ اسے کوئی پہنچان نہ سکے... چلو شور مچاؤ... ہاہا!"
وہ کلکلا کر زیر لب کچھ بڑبڑائی.!

"میں صرف دو منٹ تک اور تمہارے شور مچانے کا انتظار کروں گا!"

لڑکی یکلخت دوسری طرف مڑ کر چل پڑی. عمران نے بھی وہی حرکت کی. وہ مخالف سمت میں مڑا تھا... پھر چلتے چلتے دونوں نے ایک ساتھ مڑ کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر چل پڑے.

بظاہر عمران کی یہ حرکت احمقانہ تھی!... لیکن حقیقتاً اس کی تہہ میں بہت کچھ تھا... زیبا کی بجائے اگر کوئی اور لڑکی ہوتی تو عمران کی اس حرکت پر ہلڑ مچائے بغیر ہرگز نہ مانتی... مگر وہ صرف جھنجھلا کر رہ گئی تھی! ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ بڑی مشکل سے ضبط کر رہی ہے. عمران نے اس سے ایک ہی نتیجہ نکالا کہ اس کے ہاتھ ضرور ملوث ہیں اسی لئے وہ اپنی تشہیر سے ڈرتی ہے. اس وقت اس کا کسی قسم کا اقدام بھی پولیس کیس بن سکتا تھا. لیکن وہ پولیس کی نظر میں آنے سے کتراتی ہے. کیونکہ خود اس کا ضمیر بھی احساسِ جرم کا شکار ہے.
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top