روایتی طور پر ہندوستان میں لڑکیوں کو کم تر اور بوجھ سمجھاجاتا ہے
ہندوستان میں لڑکیوں کی پیدائیش اور نوزائیدہ لڑکیوں کے زندہ رہنے کی شرح لڑکوں کے مقابلے سب سے کم سطح پر پہنچ گئی ہے۔
برطانیہ کی ایک خیراتی تنظیم ایکشن ایڈ کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں بڑی تعداد میں مادہ جننین کا اسقاط کیا گيا ہے اور لڑکیوں کو دانستہ طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے اور انہیں مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے صوبے پنجاب میں ایک جگہ پر اعلٰی ذات کے خاندان میں 1000 لڑکوں پر محض 300 لڑکیاں ہیں۔
ایکشن ایڈ کا کہنا ہے کہ اگر ثقافتی طور پر لڑکوں کو فوقیت دینے کا عمل بند نہیں کیا جاتا ہے تو ہندوستان کا مستقبل ’تاریک‘ ہو سکتا ہے۔
ایکشن ایڈ نے یہ رپورٹ کنیڈا انٹر نیشنل ریسرچ سنٹر کے ساتھ مل کر تیار کی ہے۔
ان تنظیموں نے پانچ شمال مغربی صوبوں میں 6000 سے زیادہ خاندان سے انٹرویو کیا اور اپنےاعداد و شمار کا مقابلہ 2001 کی قومی مردم شماری سے کیا۔ مطالعے کے مطابق عام حالات میں 1000 لڑکوں پر 950 لڑکیاں ہونی چاہیے لیکن پانچ میں سے تین صوبوں میں لڑکیوں کی تعداد 800 سے کم تھی۔
رپورٹ کے مطابق پانچ میں سے چار صوبوں میں 2001 کی قومی مردم شماری کے بعد لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں کی شرح میں کمی درج کی گئی ہے۔ ریسرچ کے مطابق لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں کی تعداد میں کمی کی شرح متمول شہری علاقوں میں زیادہ رہی ہیں۔
ایکشن ایڈ کا کہنا ہے کہ الٹراساؤنڈ کی تکنیک کا زدیادہ استعمال ممکنہ طور پر اس رجحان کے لیے ذمہ ادار ہے۔
دستاویز کے مطابق ہندوستان میں عورتوں پر لڑکے کو پیدا کرنے کا دباؤ بہت زیادہ ہوتاہے اور ثقافتی طور پر لڑکیوں کو غنیمت کے بجائے ایک بوجھ تصور کرنے کا خیال غالب ہے۔
ایکشن ایڈ کے مطابق متعدد خاندان اب الٹراساؤنڈ تکنیک کا استعمال کرتے ہيں اور مادہ جننین کا اسقاط کرواتے ہیں جبکہ 1994 میں ماں کے سکم میں جنس کی تشخیص اور اسقاط پر پابندی لگادی گئي تھی۔
رضاکار تنظیم نے مزيد غیر قانونی عمل کا الزام لگایا ہے۔ جیسے دانستہ طور پر امبلکل کارڈ کو انفیکٹیڈ ہونے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ایکشن ایڈ کے ایک اہلکار لورا ٹرکیوٹ کا کہنا ہے کہ’ اس حالات کے لیے سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ عورتوں کے لیے لڑکیوں کو درکنار کرنا ایک منطقی انتخاب ہے۔ لیکن معاشرے کے لیے یہ ایک مشکل اور تکلیف دہ امر بنتا جارہا ہے۔‘
وہ مزید کہتی ہيں کہ’طویل مدت میں ثقافتی تصورات کی تبدیلی ناگزیر ہے۔ ہندوستان کو یقینی طور پر اقتصادی، سماجی سمیت شادی، جہیز اور پیدائش سے پہلے لڑکیوں کے ساتھ ہونے والے نازیبا سکوک کو بند کرنا چاہیے۔‘
’اگر ہم نے ابھی قدم نہيں اٹھایا تو مستقبل تاریک ہو سکتا ہے۔‘
ایک طبی برطانوی جرنل کے مطابق ہندوستان میں گزشتہ بیس برسوں میں تقریبا ایک کروڑ مادہ جننین کا اسقط کیاگيا ہے۔
(یہ رپورٹ بی بی سی اردو کی 21۔جون کی اشاعت سے لی گئی)
ہندوستان میں لڑکیوں کی پیدائیش اور نوزائیدہ لڑکیوں کے زندہ رہنے کی شرح لڑکوں کے مقابلے سب سے کم سطح پر پہنچ گئی ہے۔
برطانیہ کی ایک خیراتی تنظیم ایکشن ایڈ کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں بڑی تعداد میں مادہ جننین کا اسقاط کیا گيا ہے اور لڑکیوں کو دانستہ طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے اور انہیں مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے صوبے پنجاب میں ایک جگہ پر اعلٰی ذات کے خاندان میں 1000 لڑکوں پر محض 300 لڑکیاں ہیں۔
ایکشن ایڈ کا کہنا ہے کہ اگر ثقافتی طور پر لڑکوں کو فوقیت دینے کا عمل بند نہیں کیا جاتا ہے تو ہندوستان کا مستقبل ’تاریک‘ ہو سکتا ہے۔
ایکشن ایڈ نے یہ رپورٹ کنیڈا انٹر نیشنل ریسرچ سنٹر کے ساتھ مل کر تیار کی ہے۔
ان تنظیموں نے پانچ شمال مغربی صوبوں میں 6000 سے زیادہ خاندان سے انٹرویو کیا اور اپنےاعداد و شمار کا مقابلہ 2001 کی قومی مردم شماری سے کیا۔ مطالعے کے مطابق عام حالات میں 1000 لڑکوں پر 950 لڑکیاں ہونی چاہیے لیکن پانچ میں سے تین صوبوں میں لڑکیوں کی تعداد 800 سے کم تھی۔
رپورٹ کے مطابق پانچ میں سے چار صوبوں میں 2001 کی قومی مردم شماری کے بعد لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں کی شرح میں کمی درج کی گئی ہے۔ ریسرچ کے مطابق لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں کی تعداد میں کمی کی شرح متمول شہری علاقوں میں زیادہ رہی ہیں۔
ایکشن ایڈ کا کہنا ہے کہ الٹراساؤنڈ کی تکنیک کا زدیادہ استعمال ممکنہ طور پر اس رجحان کے لیے ذمہ ادار ہے۔
دستاویز کے مطابق ہندوستان میں عورتوں پر لڑکے کو پیدا کرنے کا دباؤ بہت زیادہ ہوتاہے اور ثقافتی طور پر لڑکیوں کو غنیمت کے بجائے ایک بوجھ تصور کرنے کا خیال غالب ہے۔
ایکشن ایڈ کے مطابق متعدد خاندان اب الٹراساؤنڈ تکنیک کا استعمال کرتے ہيں اور مادہ جننین کا اسقاط کرواتے ہیں جبکہ 1994 میں ماں کے سکم میں جنس کی تشخیص اور اسقاط پر پابندی لگادی گئي تھی۔
رضاکار تنظیم نے مزيد غیر قانونی عمل کا الزام لگایا ہے۔ جیسے دانستہ طور پر امبلکل کارڈ کو انفیکٹیڈ ہونے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ایکشن ایڈ کے ایک اہلکار لورا ٹرکیوٹ کا کہنا ہے کہ’ اس حالات کے لیے سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ عورتوں کے لیے لڑکیوں کو درکنار کرنا ایک منطقی انتخاب ہے۔ لیکن معاشرے کے لیے یہ ایک مشکل اور تکلیف دہ امر بنتا جارہا ہے۔‘
وہ مزید کہتی ہيں کہ’طویل مدت میں ثقافتی تصورات کی تبدیلی ناگزیر ہے۔ ہندوستان کو یقینی طور پر اقتصادی، سماجی سمیت شادی، جہیز اور پیدائش سے پہلے لڑکیوں کے ساتھ ہونے والے نازیبا سکوک کو بند کرنا چاہیے۔‘
’اگر ہم نے ابھی قدم نہيں اٹھایا تو مستقبل تاریک ہو سکتا ہے۔‘
ایک طبی برطانوی جرنل کے مطابق ہندوستان میں گزشتہ بیس برسوں میں تقریبا ایک کروڑ مادہ جننین کا اسقط کیاگيا ہے۔
(یہ رپورٹ بی بی سی اردو کی 21۔جون کی اشاعت سے لی گئی)