لکھاری،ادبی شخصیات کے متعلق اپ ڈیٹس

ساقی۔

محفلین
لکھاری،ادبی شخصیات کے متعلق اپ ڈیٹس یہاں پیش کی جا سکتی ہیں ۔
در اصل کل میں نے اپنے فیورٹ ناول نگار طاہر جاوید مغل کی تصویر دیکھی اور ایک کہانی کار کاشف زیبر کے متعلق کچھ حقائق کے متعلق پڑھا تو یہ موضوع بنانے کا خیال آیا ۔​
 

ساقی۔

محفلین
طاہر جاوید مغل۔"للکار" ان کا ایک مشہور ناول ہے۔
ان کے مزید ناول اور کہانیاں۔
کرب آشنائی۔پرواز،دیوی،شہر محبت۔فیصلہ۔فاصلوں کا زہر۔قلمی محبت۔تابان۔سچ کی سولی۔پرستش۔درندہ۔تاوان۔سزا۔پہلی۔نامہ بے نام۔تاخیر پسند۔ہمسفر۔اقابلا۔آفت زادہ ۔

طاہر جاوید مغل
72359_152161061612305_2058990281_n.jpg


فیس بک پر ان کا پیج
مزید کوئی ان کے متعلق معلومات رکھتا ہو تو شیئر کر دے۔
ان کے پیج سے لی گئی ایک نعت، جو انہوں نے لکھی ہے۔
10511170_659122200846053_4165576668572086206_n.jpg

 
آخری تدوین:

ساقی۔

محفلین
کاشف زبیر ڈائجسٹ کے ایک مقبول لکھاری ہیں ۔ عامر خاکوانی صاحب کا ایک کالم ان کے متعلق چند حقائق کو ظاہر کرتا ہے ۔ اس لیے شیئر کر رہا ہوں ۔

جنہوں نے ہتھیار نہیں ڈالے
عامر خاکوانی

ہر روز اخبار میں کسی نہ کسی جگہ دو چار نوجوانوں کی خود کشی کی خبر موجود ہوتی ہے۔ کسی نے بے روزگاری سے تنگ آ کر اپنی زندگی ختم کی تو کسی سے محبت کا زخم نہ سہا گیا، کوئی شادی شدہ گھریلو زندگی کا دبائو برداشت نہ کر پایا تو کسی بدنصیب نے سوچے سمجھے بغیر اتنے زیادہ قرضے لے لیے کہ یہ بوجھ اتارنا ممکن نظر نہ آیا۔

فطری طور پر ان اموات کی تفصیل پڑھتے ہوئے مجھے افسوس تو ہوتا ہے مگر اس کے ساتھ ایک عجیب سی جھنجھلاہٹ بھی پیدا ہوتی ہے۔ مجھے غصہ آتا ہے ان پست ہمت اور بزدل لوگوں پر جو زندگی سے لڑنے، اس سے ٹکرانے اور اسے شکست دینے کے بجائے ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ ہمارے چینلز پر جب خود کشی کی ایسی خبریں چلتی ہیں تو اینکر شدید غصے میں حکومت پر برس پڑتے ہیں۔ ہر خود کشی کی ذمے داری صرف اور صرف حکومت پر ڈال دی جاتی ہے، چیخ چیخ کر کہا جاتا ہے کہ ایک اور نوجوان نے اپنی زندگی ختم کر لی مگر حکومت کب جاگے گی… وغیرہ وغیرہ۔

مجھے ہمیشہ یوں لگا کہ ہم اس طریقے سے خود کشی کو گلیمرائز کر رہے ہیں، اسے رومانٹسائز کر رہے ہیں۔ سیدھی سادی، بے رحم حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے لڑنے کے بجائے ہتھیار ڈال دیے، جنگی اصطلاح میں یہ بھگوڑے ثابت ہوئے۔ اللہ ان کی روحوں پر رحم کرے مگر وہ اپنے بعد والوں کے لیے کوئی اچھی مثال چھوڑ کر نہیں گئے۔

یہ درست ہے کہ اس قسم کی اموات کی کسی حد تک ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ ریاست کا کردار ماں کا سا ہوتا ہے اور ان کیسز میں ماں نے اپنی ذمے داری پوری نہیں کی ہوتی۔ معاشرہ بھی کہیں نہ کہیں اس کا ذمے دار ہے، ان لوگوں کے اہل خانہ، دوست، اعزا، محلے دار سبھی ایک حد تک ذمے دار ہیں۔ سچ مگر یہ ہے کہ اپنے اس انجام کے یہ لوگ خود ہی ذمے دار ہیں۔ مصائب ہر کسی پر وارد ہوتے ہیں، ان کی نوعیت اور صورت مختلف ہوتی ہے، کسی پر پہلے اور کسی پر دیر سے۔ بظاہر خوش اور مطمئن نظر آنے والے لوگ بھی اندر سے زخم خوردہ ہوتے ہیں۔

اپنے زخموں سے رستے لہو کو وہ دوسروں سے چھپائے مصنوعی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے زندگی بسر کرتے رہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ زندگی پھولوں کا بستر نہیں، اس میں قدم قدم پر کٹھنائیاں اور پریشانیاں آتی ہیں۔ زندگی کے منہ زور سرکش سانڈ کو سینگوں سے پکڑ کر لڑنا پڑتا ہے۔ یہ لڑائی تاحیات جاری رہتی ہے، اکھاڑے بدلتے رہتے ہیں۔

اس دلیل سے بھی میں کبھی زیادہ مطمئن نہیں ہو سکا کہ ان خود کشی کرنے والوں کے سامنے اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ راستے ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ مجھے کراچی کا وہ مقبول لکھاری کاشف زبیر یاد آتا ہے جو حادثاتی معذوری کے باوجود زندگی سے نبرد آزما ہوا۔ شیروں سی جرات اور دلیری سے لڑا اور اپنے حصے کی جگہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ کاشف ڈائجسٹوں کا پاپولر رائٹر ہے۔ سسپنس، جاسوسی اور سرگزشت ڈائجسٹ میں ہر ماہ اس کی کئی کہانیاں چھپی ہوتی ہیں، ایک مقبول سلسلہ وار کہانی لکھ رہا ہے، اس کی ایک مشہور کہانی کفارہ کتابی شکل میں شایع ہو چکی ہے، ٹی وی کے لیے ڈرامے لکھنے کا موقع مل چکا ہے۔

مگر یہ سب تو آج کا منظر ہے، اصل کہانی تو بیس پچیس سال پہلے شروع ہوئی جب پانچویں جماعت کے طالب علم گیارہ سالہ کاشف زبیر پر کھیلتے ہوئے پتھر کی سلیب ایسے زاویے سے گری کہ ریڑھ کی ہڈی متاثر ہو گئی۔ اس کا پورا جسم مفلوج ہو گیا، اگلے ایک سال تک وہ بستر پر رہا۔ پھر ایک دن اس کی باہمت والدہ اسے اٹھا کر محلے میں مقیم ایک ہومیوپیتھ ڈاکٹر کے پاس لے گئی جس کا اپنا تمام جسم مفلوج تھا مگر اس ڈاکٹر نے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے بجائے ہومیوپیتھی کے ذریعے اپنے اہل خانہ کے لیے رزق کمانے کو ترجیح دی۔

نوعمر کاشف اس ڈاکٹر سے متاثر ہوا۔ آہستہ آہستہ اس نے اٹھ بیٹھنے کی جدوجہد شروع کی۔ اپنی ہمت، کمٹمنٹ اور کوشش کے ذریعے وہ وہیل چیئر پر آ گیا۔ اس نے تعلیم کا سلسلہ دوبارہ سے شروع کیا۔ وہ یونیورسٹی تک پہنچا۔ اس نے بی کام کیا، پرائیویٹ ایم اے کیا۔ سفر جاری رہا۔

اس دوران اسے لٹریچر کے مطالعے کا شوق پیدا ہو چکا تھا۔ پھر ڈائجسٹ کی کہانیوں سے ملک گیر شہرت حاصل کرنے والے نامور لکھاری علیم الحق حقی کی ایک کہانی نے کاشف زبیر کے اندر کے رائٹر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس نے اپنی پہلی کہانی لکھی اور اسے جاسوسی ڈائجسٹ پبلی کیشنز بھجوا دیا۔ وہ کہانی شایع ہو گئی تو اس نے تواتر سے لکھنا شروع کر دیا۔ پھر اس ادارے نے اسے باقاعدہ معاوضے پر لکھنے کی پیشکش کی۔ یوں وہیل چیئر پر زندگی گزارنے والے کاشف زبیر کے لیے ایک آبرومندانہ کیریئر کا آغاز ہو گیا۔

پچھلے دس پندرہ برسوں سے وہ متواتر لکھ رہا ہے، اپنے نام کے علاوہ اپنی والدہ پروین زبیر اور اہلیہ مریم کے خان کے قلمی ناموں سے اس کی تحریریں ہر ماہ چھپتی ہیں۔ اپنے گھر میں کمپیوٹر پر کہانی لکھی، تراجم کیے اور ای میل کر دیے، معاوضہ چیک کے ذریعے موصول ہو گیا۔


کاشف زبیر کی عزم و ہمت سے معمور کہانی مجھے زندگی کے کٹھن مرحلوں میں ہمیشہ نیا حوصلہ دیتی ہے۔ پچھلے دنوں ایک اور شاندار کتاب پڑھنے کو ملی۔ اس کے مصنف معروف صحافی اور سماجی کارکن خالد ارشاد صوفی ہیں۔ خالد کاروان علم فائونڈیشن کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ضرورت مند طلبہ کی مدد کے لیے یہ سماجی تنظیم اردو ڈائجسٹ کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی نے بنائی ہے، پچھلے چند برسوں میں یہ تنظیم ہزاروں طلبہ کی مالی معاونت کر چکی ہے۔

خالد ارشاد صوفی نے ان میں سے چند طلبہ کی پُرعزم کہانیاں تحریر کی ہیں۔ ’’جوہر قابل‘‘ کے نام سے شایع ہونے والی اس کتاب میں 14 سچی کہانیاں شامل ہیں۔ جھنجھوڑ دینے والی اس کتاب کو میں نے ایک ہی نشست میں پڑھا۔ ہر کہانی دل کو چھو لینے والی ہے۔ مجھے کراچی کے عبدالرشید نے بڑا انسپائر کیا۔ چلتا پھرتا یہ صحت مند نوجوان ایک حادثے میں مفلوج ہو گیا، ڈاکٹروں نے کہا کہ باقی زندگی چلنا شاید ممکن نہ ہو پائے۔

اس کی معمولی تعلیم یافتہ مگر پُرعزم بیوی نے اسے حوصلہ دیا اور ہمت دلائی۔ عبدالرشید نے ایسا کرنے کی ٹھان لی۔ اس کے جنون نے اسے پیروں پر لا کھڑا کیا۔ اس نے بیساکھیوں کے ذریعے زندگی کا سفر شروع کیا اور یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ قدرت کو اس پر ترس آیا اور کارواں علم کے تعاون سے اسے تین پہیوں والی موٹر سائیکل مل گئی۔ آج عبدالرشید ایم ایس سی (فوڈ اینڈ سائنسز) کی ڈگری حاصل کر چکا ہے۔

علامہ اقبال میڈیکل کالج کے ایک طالب علم کی کہانی پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ دنیا اہل خیر سے خالی نہیں۔ وہ نوجوان اس وقت سال چہارم کا طالب علم ہے۔ شجاع آباد جیسے چھوٹے قصبے کا رہائشی، پولیو کا شکار یہ نوجوان بچپن ہی سے معذور تھا، اپنی زندگی کے کئی برس اس نے رینگ کر گزارے، پھر چند نیک لوگوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی، اسے سپورٹ کیا۔ نشتر میڈیکل کالج کے نیک دل پروفیسر ڈاکٹر کامران سالک نے اس کے چھ مفت آپریشن کیے اور اسے بیساکھیوں پر کھڑا کر دیا۔

آج یہ نوجوان سال چہارم کا طالب علم ہے۔ دونوں ہاتھوں سے معذور اسد علی سلطان کی روداد پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ چھ سال کی عمر میں اس نے غلطی سے چھت سے گزرنے والی بجلی کی تاریں پکڑ لیں، اس کے دونوں بازو کہنیوں تک کاٹنے پڑ گئے۔ اس دلیر لڑکے نے دونوں کٹے ہوئے ہاتھوں سے قلم پکڑ کر لکھنا سیکھا، تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور گورنمنٹ کالج لاہور تک جا پہنچا۔

اسد علی سلطان بی کام کرنے کے بعد آج کل حافظ آباد کے ایک نجی کالج سے ایم کام کی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ راولا کوٹ میں سات ہزار فٹ کی بلندی پر ایک گائوں کے رہائشی معذور اعجاز احمد نے اپنی معذوری کے باوجود بورڈ میں پوزیشن حاصل کی اور آج اس کی محنت اسے زندگی میں باعزت مقام دلا چکی ہے۔

یہ سب وہ لوگ ہیں جن پر زندگی مہربان نہیں رہی، مصائب ان پر قطار اندر قطار حملہ آور ہوئے۔ ان کے سامنے آسان آپشن تھا کہ ہمت ہار کر زندگی کا خاتمہ کر لیں مگر انھوں نے اس کے بجائے زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور ثابت کر دیا کہ اگر ہمت اور جذبے سے کام لیا جائے تو سب کچھ ممکن ہو سکتا ہے۔
آج یہ سب لوگ کسی بھی دوسرے کامیاب فرد سے کم زندگی نہیں گزار رہے۔ ان کے پاس وسائل نہیں تھے، بعض کیسز میں معذوری بھی تھی، ان تمام کمزوریوں کے باوجود یہ لڑتے رہے۔ پھر اسی لڑائی کے فیصلہ کن مراحل میں اللہ کی مدد بھی انھیں حاصل ہوئی… جو کہ ہمیشہ حاصل ہوتی ہے، شرط صرف ہمت نہ ہارنے اور اپنے رب کو پکارتے رہنے کی ہے۔ جنہوں نے یہ شرط پوری کی وہ فتح یاب ہوئے، آج ہم سب کو ان پر فخر ہے۔ رہی بات بزدلی دکھانے والے، ہمت ہارنے والوں کی … تو ان بدنصیبوں کے حصے میں صرف اخبار کی دو کالمی خبر یا چند سکینڈ کی بریکنگ نیوز ہی آ پاتی ہے۔​
 

ساقی۔

محفلین
دیوتا" تو آپ کو یاد ہوگا۔فرہاد علی تیمور ، ٹیلی پیتھی کا ماہر۔ وہ محی الدین نواب صاحب کا لازوال ناول ہے۔ اور دنیا کا سب سے لمبا ناول بھی ۔ نواب صاحب اسے گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شال کرانا چاہتے تھے مگر اس میں یہودیوں کا منفی کردار پیش کیئے جانے کی بنا پر اس گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل نہیں کیا گیا ۔

mohi-u-din-nawab1-300x336.jpg


س:اپنی اولین زندگی کے بارے کچھ بتائیے؟

ج: میں ۴ ستمبر ۱۹۳۰ء کو بنگال کے شہر کھڑگ پور میں پیدا ہوا۔ نسلی طور پر ہم بنگالی ہیں، مگر اُردو بولنے والے بنگالی۔ میرے دادا مصور تھے اور والد ریلوے میں انٹیریئر ڈیکوریٹر ۔ وہ بھی کمال کے فن کار تھے۔ ریل میں جب کسی راجا، مہاراجا، وائسرائے گورنر یا اور بڑی شخصیت وغیرہ نے سفر کرنا ہوتا تو انھیں مامور کر دیا جاتا۔ وہ ریل کا ایک ڈبا سجاتے اوراُسے متعدد ایسی سفری سہولیات سے مزین کرتے جو ریل میں میسر نہ ہوتیں۔ میرے والد نے ایک بار ریل کا نام ’’انڈین ریلوے‘‘ دو شفاف شیشوں کے اندر نقش کر کے انھیں آپس میں یوں جوڑا کہ ایک ہی شیشہ بن گیا۔ یہ شیشہ پھر ایک اے کلاس ڈبے کی کھڑکی میں جوڑا گیا۔ اس شیشے کا بڑا ڈنکا بجا ،مگر کوشش کے باوجود میں کوئی اور ایسا شیشہ تیار نہ کر سکا۔

س:گویا مصوری اور ہنر مندی آپ کو میراث میں ملی، ایسی میراث کے حامل انسان کا بچپن کیسا رہا؟

ج:معصوم رہا۔ تعلیم حاصل کرنا، کھیلنا کودنا، کھانا پینا اور پھر لمبی تان کے سو جانا۔ میں شرارتی ہرگز نہیں تھا بلکہ دوسرے بچوں کی شرارتوں کا نشانہ بنتا۔ وہ بڑا سنہرا دور تھا،نہ جانے کہاں جا چھپا؟ تب ہم چھوٹی چھوٹی باتوں میں بڑی بڑی خوشیاں پاتے تھے۔ ایک بار میں شام کو گھر پہ تھا کہ میرے سنگی ساتھی مجھے کھیل کے لیے بلانے آئے۔ انھوں نے آواز دی ’’نواب!‘‘ میری والدہ ناراض ہوئی، انھوں نے بچوں سے کہا کہ آپ اسے’’ نواب صاحب‘‘ کہہ کر کیوں نہیں پکارتے؟

س: لڑکپن میں تو سنا ہے کہ آپ کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے تھے؟

ج: روس میں انقلاب برپا ہو چکا تھا اور کمیونزم برصغیر میں سخت یلغار کر رہا تھا۔ میں بھی کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو گیا کہ وسائل کی مساوی تقسیم اور سرمایہ داری کی بیخ کنی ہی میںانسان کی بقا ہے۔ تاہم میری واپسی جلد ہو گئی کہ میری تعلیمات میں دینِ اسلام بہت راسخ ہے۔ اسلام نے جب آجر اور اجیر، مالک اور ملازم کے رشتوں کے حقوق و فرائض بیان کیے تو صاف ظاہر ہے کہ وسائل کی ناہمواری بھی سماجی بقا کا حصہ ہے۔

س: آپ کے دوستوں میں دیگر مذاہب کے لوگ شامل تھے؟

ج: بالکل تھے۔ وہاں مسلم، ہندو، عیسائی اور بدھ مت کی کھچڑی پکی ہوئی تھی۔ غیر مسلم ہمارے ساتھ نماز عید ادا کرتے۔ میں ان کے مندروں ،گرجا گھروں میں جاتا رہا۔ فرق صرف یہ تھا کہ وہ ہمارے ساتھ رکوع و سجود کرتے تھے مگر میں ان کی عبادت گاہ میں خاموش کھڑا ہو کر لوٹ آتا۔ پھر میں نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا۔ تب تقسیمِ ہند ہو گئی اور بنگال کا وہ حصہ جس میں ہم مقیم تھے، بھارت کے حصے میں آیا۔ سو ہمیں وہاں سے بے سروسامانی کے عالم میں نکلنا پڑا۔ ہم آگ اور خون کے دریا میں تیر کر مشرقی پاکستان چلے گئے۔ میں ۲۰ سال کا تھا کہ میری پیاری والدہ انتقال کر گئیں۔ میری شادی بھی جلد ہو گئی تھی۔ اب تو اکثر نوجوان ۳۰ سال یا اس سے زیادہ عمر میں بیاہے جاتے ہیں۔میرے وہ جگری یار اسی بنگال میں کھو گئے، مجھے ان کے بارے کچھ معلوم نہیں۔

س: قلم کب اور کیوں کر سنبھالا؟

ج: قلم سنبھالنے کی وجہ ایک تو بنگالی خون تھا۔ بنگال بڑا فن پرور علاقہ ہے۔ بنگالی نسل بڑی ذہین اور آرٹ کی عاشق ہے۔ دوسری وجہ ہمارے آباء میں فن ایک میراث تھا۔ تیسری وجہ ادب سے میری دل چسپی تھی۔ میں کئی زبانیں جانتا ہوں۔ اُردو میں نے گھر سے سیکھی، فارسی اور عربی مسجد سے، پھر سکول گیا تو ہندی اور انگریزی سے آشنا ہوا۔ تقسیمِ ہند کے بعد خالص بنگالی علاقے میں جا کر بنگلا بھاشا بھی سیکھی۔ یوں میں بھانت بھانت کا ادب پڑھتا رہا۔ کرشن چندر، منٹو، پریم چند اور اگاتھا کرسٹی پھر… ٹیگور، قاسمی، اقبال اور غالب… تب عمر خیام، ایچ جی ویلز اور اوہنری۔ ادب نے مجھے لکھنے کی طرف راغب کیا۔

س: پہلی تحریر کا معاوضہ کتنا ملا تھا اور اب کتنا ہے؟

ج: کراچی کے بڑے رسالے ’’رومان‘‘میں چھپنے والی پہلی تحریر تھی: ’’ایک دیوار، ایک شگاف‘‘۔ افسوس یہ میرے پاس موجود نہیں۔ اگر کسی کے پاس ہو تومیں معاوضہ دے کر بھی خریدنے کو تیار ہوں۔ اس کا معاوضہ ۶۰ روپے تھا۔ اس دور میں بکرے کا اچھا گوشت چار آنے کلو تھا۔ اب بکرے کا اچھا گوشت ۶۰۰ روپے کلو ہے۔گویا آج کے ۲۰ ہزار روپے ادا کیے گئے تھے۔ اس وقت میں ۲۳ برس کا تھا۔ اب میں ناول کا فی قسط معاوضہ ۴۰ ہزار روپے اور داستان کا ۵۰ ہزار روپے وصول کرتا ہوں۔ پھر یہ کتابی شکل میں چھپتے ہیں تو ناشر سے ۱۰ سالہ معاہدہ مزید کرتا ہوں۔

س: آپ نے کرشن چندر کو بہت پڑھا؟

ج:کرشن چندر کے فن میں گہرائی بہت ہے۔ زرگائوں کی رانی، شکست، کالو بھنگی، جوتا، کارا سورج، اُلٹا درخت…کرشن کو میں کئی ناول اور افسانہ نگاروں پر فوقیت دیتا ہوں۔ نمبر ون اور ٹو والا معاملہ فلمی لڑکیوں جیسا ہے، اسے چھوڑ دیں۔

س: بنگال میں اپنی سرگرمیوں کے متعلق کچھ بتائیں۔ کیاکِیا؟

ج: میں وہاں لکھتا بھی رہا اور فلمی صنعت میں ملازم بھی رہا۔ یوں مجھے لکھنے اور فلم ڈائریکشن سیکھنے کا موقع ملا۔ میںنے وہاں دو فلمیں لکھی تھیں:’’جنم جنم کی پیاسی‘‘ اور ’’باون پتے‘‘۔ بنگال میں حالات بگڑ رہے تھے وہاں، اُردو جرم بن رہی تھی۔ میں نے آخر کار لاہور آنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں ۱۹۷۰ء میں فلم سٹار دیبا کی مدد سے، ہوائی جہاز میں ڈھاکے سے لاہور آ گیا۔ وہاں اس وقت ۱۹۴۷ء سے بھی بدتر حالات تھے۔ دیبا نے مجھے بہت دلاسا دیا۔ میں دیباخانم کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے میری دامے، درمے قدمے، سُخنے بہت مدد کی۔ ۱۹۷۱ء میں سقوطِ بنگال کے وقت میں اپنے اہلِ خانہ کے لیے بہت پریشان تھا۔ میں لاہور میں تھا اور وہ بنگال میں تھے، میں روز گار کی وجہ سے مجبور تھا۔ اہلِ خانہ بھی آخر کار لاہور آ گئے۔ میں نے بڑا کڑا وقت گزارا۔ بڑے رسالے نئے ادیب کو کس طرح قبول کرتے ہیں، سب لوگ جانتے ہیں۔ تب میں نے ’’دیبا خانم‘‘ کے نام سے بہت سے ناول لکھے اور بہت مقبول ہوئے۔ ابنِ صفی کے کرداروں پر ’’عمران بٹا عمران‘‘ بھی لکھا جو اچھا رہا۔ -

اردو دائجسٹ

نواب صاحب کے متعلق مزید اس موضوع کو پڑھا جا سکتا ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
طاہر جاوید مغل۔"للکار" ان کا ایک مشہور ناول ہے۔
ان کے مزید ناول اور کہانیاں۔
کرب آشنائی۔پرواز،دیوی،شہر محبت۔فیصلہ۔فاصلوں کا زہر۔قلمی محبت۔تابان۔سچ کی سولی۔پرستش۔درندہ۔تاوان۔سزا۔پہلی۔نامہ بے نام۔تاخیر پسند۔ہمسفر۔اقابلا۔آفت زادہ ۔

طاہر جاوید مغل
72359_152161061612305_2058990281_n.jpg


فیس بک پر ان کا پیج
مزید کوئی ان کے متعلق معلومات رکھتا ہو تو شیئر کر دے۔
ان کے پیج سے لی گئی ایک نعت، جو انہوں نے لکھی ہے۔
10511170_659122200846053_4165576668572086206_n.jpg

اباقہ کا تذکرہ رہ گیا؟ میرا خیال ہے کہ طاہر جاوید مغل کے شاہکار تخلیقات میں سے ایک ہے :)
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ دونوں مصنفین یعنی طاہر جاوید مغل اور محی الدین نواب، میرے پسندیدہ ترین لکھاریوں میں سے ایک ہیں۔ اگرچہ دونوں کا زور فکشن اور ہسٹری کی طرف ہے :)
 

ساقی۔

محفلین
یہاں تو ہاتھ ہی ہلانے تک بات محدود رہ گئی، ورنہ اباقہ تو کافی "ہتھ چھٹ" تھا :LOL:
کیسا ناول ہے یہ؟ میں نے نہیں پڑھا ابھی تک۔ کہانی پر تھوڑی سی روشنی ڈالیں۔کیا خودنوشت کی طرز پر ہے؟(مجھے آپ بیتی جیسے ناول بہت پسند آتے ہیں)
 

قیصرانی

لائبریرین
کیسا ناول ہے یہ؟ میں نے نہیں پڑھا ابھی تک۔ کہانی پر تھوڑی سی روشنی ڈالیں۔کیا خودنوشت کی طرز پر ہے؟(مجھے آپ بیتی جیسے ناول بہت پسند آتے ہیں)
جب منگولوں نے حملہ کیا تو اباقہ کی ماں بھی اسی حملے میں ماری گئی تھی اور اس کا لکڑہارا باپ اسے لے کر پہاڑوں میں چلا گیا جہاں اس کی پرورش نیم وحشی انسان کے طور پر ہوئی جو باقاعدہ جنگی تربیت کے بناء بھی بہت عمدہ فوجی نکلا۔ پھر اس نے منگولوں پر حملے شروع کر دیئے، منگول بادشاہ یعنی خاقانِ اعظم کی بیوی مارینا کے عشق میں گرفتار ہوا (پہلی بار شہد کے رنگ والی زلفیں کی اصطلاح یہیں سنی جو ابھی تک نہیں بھولی :) )، ساری زندگی منگولوں سے آنکھ مچولی کھیلتا رہا اور آخرکار منگول بادشاہ کے مرنے پر اس کی بیوی سے شادی کر لی، اس سے قبل بھی ایک شادی نبیلہ نامی خاتون سے کر چکا تھا۔ منگولوں میں سے سردار یورق (شاید پانچ ہزاری) اور ایک مسلمان اسد اللہ اس کے ساتھ مل گئے تھے۔ جلال الدین خوارزم کے ساتھ بھی منگولوں کے خلاف جنگ کرتا رہا۔ 1990 کی دہائی کی عشق، جنگ اور یوں سمجھ لیں کہ سلطان راہی ٹائپ کی داستان تھی :)
 

موجو

لائبریرین
اچھے موضوع پر دھاگہ باندھا ہے۔
محی الدین نواب صاحب کو تو پڑھا میرے پسندیدہ مصنف ہیں مگر طاہر صاحب کا اب یاد نہیں کہ کوئی کتاب پڑھی ہے یا نہیں۔
طاہر صاحب نے عمران سیریز یا پرمود سیریز بھی لکھی ہے؟
 

ساقی۔

محفلین
اچھے موضوع پر دھاگہ باندھا ہے۔
محی الدین نواب صاحب کو تو پڑھا میرے پسندیدہ مصنف ہیں مگر طاہر صاحب کا اب یاد نہیں کہ کوئی کتاب پڑھی ہے یا نہیں۔
طاہر صاحب نے عمران سیریز یا پرمود سیریز بھی لکھی ہے؟
محی الدین نواب صاحب کے اسلوب کا تو میں بھی شکار ہوں ۔
میری معلومات کی حد تک طاہر جاوید مغل صاحب نے ایسی کوئی سیریز نہیں لکھی ۔ اگر آپ کو معلوم ہو تو بتایئےگا
 

قیصرانی

لائبریرین
اچھے موضوع پر دھاگہ باندھا ہے۔
محی الدین نواب صاحب کو تو پڑھا میرے پسندیدہ مصنف ہیں مگر طاہر صاحب کا اب یاد نہیں کہ کوئی کتاب پڑھی ہے یا نہیں۔
طاہر صاحب نے عمران سیریز یا پرمود سیریز بھی لکھی ہے؟
دھاگہ باندھا نہیں بلکہ کھولا ہے :)
میرا خیال ہے کہ نہیں :)
 

ساقی۔

محفلین
کافی عرصہ پہلے جاسوسی ڈائجسٹ میں ایک مقبول سلسلے وار کہانی ‘‘مجاہد’’ کے نام سے شائع ہوتی رہی ہے کہانی کار کا نام ‘‘علی یار خان’’ لکھا ہوا ہے اور کہانی کا ہیرو بھی وہی ہے ۔
کیا کسی کو معلوم ہے کہ اس ناول کو لکھنے والے کا اصل نام کیا ہے ؟
 

قیصرانی

لائبریرین
کافی عرصہ پہلے جاسوسی ڈائجسٹ میں ایک مقبول سلسلے وار کہانی ‘‘مجاہد’’ کے نام سے شائع ہوتی رہی ہے کہانی کار کا نام ‘‘علی یار خان’’ لکھا ہوا ہے اور کہانی کا ہیرو بھی وہی ہے ۔
کیا کسی کو معلوم ہے کہ اس ناول کو لکھنے والے کا اصل نام کیا ہے ؟
نہیں :(
 
Top