لکھا جو خط تجھے وہ عمران ۔۔

الف نظامی

لائبریرین
وارث بھائی مکہ مدینہ کی حرمت کی وجہ سے سعودی حکومت کو احترام کا موجب بنانا درست نہیں( جوئے خانہ کی اجازت اور باقی اقدامات اس کی حالیہ مثالیں ہیں) وہ بھی مفاد کی سیاست کرتے ہیں انہیں بھی ایک پٹھو چاہیے اور پراکسی چینل نواز کے دور میں دھڑا دھڑ امداد دینا اس بات کا غماز ہے کہ وہ ان کی پالیسیسز پر من و عن عمل درآمد کروانے میں پیش پیش رہتے ہیں جبکہ عمران کے دور میں یہ ممکن نہ ہو سکا بلکہ ایک کھنچاؤ سا دیکھنے میں آیا اور کوئی خاطر خواہ پیکج نہیں مل سکا جس سے ڈالر نے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی۔
باقی رہا چین وہ ایک سٹریٹجک پارٹنر ہے محسن اور مخلص کہنا کچھ موزوں نہیں لگ رہا باقی امریکہ کے بارے میں درست فرمایا آپ نے ۔۔۔

ایران پر پابندی کی وجہ سے ہم اس سے تجارت نہیں کر سکتے
افغانستان کے حالات ویسے خراب ہیں
ہندوستان سے تجارت کسی کو پسند نہیں
آپ چاہتے ہیں کہ ہم سعودی عرب سے بھی بگاڑ لیں
ہم نے دنیا میں رہنا بھی ہے یا سب سے لڑائی ہی کرنی ہے؟
 

علی وقار

محفلین
طاقت ور ریاستوں کا مزاج عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ امریکا کا ہے۔ مقابلہ کرنے کے لیے، یا چین، روس (چلیے ہندوستان ہی سہی) تک کی پوزیشن پر بھی جانے کے لیے معیشت کا قدرے مضبوط ہونا ضروری ہے تاکہ دنیا کو باور کروایا جا سکے کہ ہم بھی اس قابل ہیں کہ اسٹینڈ لے سکیں۔ اس وقت ہماری حالت یہ ہے کہ ہم نے ہاتھ میں کشکول تھام رکھا ہے، اور بڑی مضبوطی سے تھام رکھا ہے، گزشتہ حکومت نے بھی ایسا ہی کیا، اور اس عالم میں، ہم امریکا سے ٹکر لینا چاہتے ہیں، اسے آنکھیں دکھانا چاہتے ہیں۔ یہی خان صاحب تھے جو ٹرمپ کے ساتھ راہ و رسم بڑھانے پر آمادہ تھے مگر جب ان کی پوزیشن ملک میں بوجوہ کمزور ہو ئی تو سارا الزام امریکا پر دھر دیا۔ اگر وہ جزوی طور پر بھی یہ الزام لگاتے تو بات سمجھ میں آ سکتی تھی یعنی کہ وہ کہہ سکتے تھے کہ امریکا بھی اس معاملے میں ملوث ہے مگر انہوں نے تو یہ مقدمہ بنا لیا ہے کہ امریکا نے سازش کی، تمام تر منصوبہ بندی کی اور میرے تمام مخالفین، (مجھے ڈر ہے کہ وہ جلد کھلے لفظوں میں فوج اور عدلیہ کا نام بھی لے سکتے ہیں) ان کی اس منصوبہ بندی میں باقاعدہ طور پر شامل ہیں۔اس سے یہ ہوا کہ دیگر تمام سیاست دان غدار ٹھہرے اور اس تصادم کو حق و باطل کا معرکہ قرار دے دیا گیا اور پورے ملک کو ہیجانی کیفیت میں دھکیل دیا گیا۔ امریکا مخالف جذبات پاکستان میں موجود ہیں اور ان کا استعمال کر کے سیاست چمکائی جاتی ہے۔ چلیے خان صاحب کو اس لیے بھی مارجن دیا جا سکتا ہے کہ ان کا ماضی میں بھی اس سے ملتا جلتا موقف رہا ہے مگر ان کے ساتھ شریک دیگر سیاست دانوں کے متعلق واضح طور پر تحفظات ظاہر کیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، فواد چودھری کو دیکھ لیجیے کہ وہ کس دھڑلے سے پرو امریکا رہے مگر اب کس ڈھٹائی سے موقف بدل چکے ہیں۔ یہی حال ان کے ساتھ موجود دیگر سیاست دانوں کا ہے۔ میرے خیال میں امریکا نے بھی خان حکومت کو گرانے کے لیے مقدور بھر حصہ ڈالا ہو گا مگر غلطیاں تو موصوف سے بھی ہوئی ہو ں گی اور ملک کی معاشی و سیاسی صورت حال کی خرابی میں گزشتہ حکومت کا کلیدی کردار رہا۔ امریکا کا کیا ہے، وہ تو ہر ملک میں چودھراہٹ دکھانا چاہتا ہے، قوت کا اظہار چاہتا ہے، وہ ترکی سے لے کر وینزویلا تک کئی ممالک کی قیادتوں کو ہٹانا چاہتا ہے مگر ہر ملک میں اسے کامیابی نہیں ملتی ہے، اس متعلق بھی ہمیں سوچنا چاہیے۔ امریکا پر براہ راست الزام لگا کر اور ملکی اداروں کو مفلوج کر کے خفیہ مراسلے کی بنیاد پر سیاست بازی درست نہیں اور ملکی مفاد میں نہیں۔اگر اس معاملے کو نپٹانا مقصود ہےتو اپوزیشن کے مطالبے پر جوڈیشل کمیشن وغیرہ کے قیام اور ان کیمرا کارروائی کے ذریعے اس معاملے کو نپٹایا جا سکتا ہے۔ حکومت کو اپوزیشن کے اس مطالبے پر توجہ دینی چاہیے۔ عمران خان اینڈ کمپنی کا یہ مطالبہ ناجائز نہیں۔
 

زیک

مسافر
جنرل مشرف نے بھی کئی بار کہا کہ وار آن ٹیرر میں شامل ہونے سے انکار پر پاکستان کو اسٹون ایج میں بھیجنے کی دھمکی دی گئی تھی۔
مشرف کو دھمکی اپنی دوغلی پالیسی کی وجہ سے ملی تھی۔ دوسرے یہ کہ دھمکی اور حکومت گرانے کی سازش میں کافی فرق ہوتا ہے۔
 

زیک

مسافر
عمران خان کے بقول یہ خط مارچ کے پہلے ہفتہ میں ملا۔ لیکن اس کے نتیجہ میں پاکستانی حکومت نے کیا کیا اس کا کوئی ذکر نہیں۔ ڈونلڈ لو سے سفارتکار کی اچھی ملاقاتوں کا ٹویٹر پر بھی ذکر موجود ہے۔ نہ وزارت خارجہ میں اور نہ کابینہ یا نیشنل سیکورٹی کمیٹی میں اس خط پر ڈسکشن کا کوئی سراغ ملتا ہے۔ نہ ہی امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو دیمارشے دینے کا کوئی حوالہ۔ پہلی بار عمران ایک سیاسی تقریر میں اس کا ذکر کرتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ وہ اقدامات ہوتے ہیں جو کیبل کے فوراً بعد ہونے چاہیئے تھے اگر یہ سنجیدہ بات تھی۔

پاکستان بنانا ریپبلک ہے اس لئے کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن امریکا میں ایسی بات کانگریس اور خاص طور پر انٹیلجنس کمیٹی کے سامنے ضرور آتی۔
 

زیک

مسافر
کیبل میں کیا تھا؟ اس بارے میں پاکستانی موقف اس آرٹیکل میں بہتر انداز میں بیان کیا گیا ہے


اس کے مطابق یہاں کوئی سازش نہ تھی۔ ہاں روس یوکرائن سے متعلق پالیسی پر دباؤ تھا جو ایک عام سی بات ہے۔ یہ صرف پاکستان کے ساتھ نہ تھا بلکہ انڈیا اور دیگر ممالک کے ساتھ بھی۔ ابھی انڈیا نے اسی چکر میں روسی ہیلی کاپٹر خریدنے کا ارادہ ترک کیا ہے۔

ڈان کا یہ آرٹیکل پاکستان کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے اور اس میں کچھ باتیں غلط معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً کوئی امریکی جو متعدد زبانیں جانتا ہو اور جنوبی ایشیا کا ایکسپرٹ ہو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ روس والی پالیسی عمران خان نے خود ہی بنائی تھی۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کہاں بنتی ہے۔

اسی طرح یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ عدم اعتماد کا ذکر کس پیرائے میں ہوا۔
 

علی وقار

محفلین
کیبل میں کیا تھا؟ اس بارے میں پاکستانی موقف اس آرٹیکل میں بہتر انداز میں بیان کیا گیا ہے


اس کے مطابق یہاں کوئی سازش نہ تھی۔ ہاں روس یوکرائن سے متعلق پالیسی پر دباؤ تھا جو ایک عام سی بات ہے۔ یہ صرف پاکستان کے ساتھ نہ تھا بلکہ انڈیا اور دیگر ممالک کے ساتھ بھی۔ ابھی انڈیا نے اسی چکر میں روسی ہیلی کاپٹر خریدنے کا ارادہ ترک کیا ہے۔

ڈان کا یہ آرٹیکل پاکستان کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے اور اس میں کچھ باتیں غلط معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً کوئی امریکی جو متعدد زبانیں جانتا ہو اور جنوبی ایشیا کا ایکسپرٹ ہو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ روس والی پالیسی عمران خان نے خود ہی بنائی تھی۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کہاں بنتی ہے۔

اسی طرح یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ عدم اعتماد کا ذکر کس پیرائے میں ہوا۔

اگر تو معاملہ اسی طرح سے ہی ہے جیسا کہ اس آرٹیکل میں بیان ہوا ہے تو یہ آئی ایس پی آر کے ترجمان کے بیان کی توثیق ہے اور عمران خان کے بیان کردہ موقف کی بڑی حد تک نفی ہے۔ امریکیوں نے حد سے حد مداخلت کی اور اس وقت کی حکومت نے اسے سازش کا رنگ دیا اور اپوزیشن رہنماؤں کو غدار قرار دے دیا تاکہ حکومتی نا اہلی سے توجہ ہٹا کر امریکا مخالف جذبات کو اپنے حق میں استعمال کیا جا سکے۔ اس بات کی داد تو دینا پڑے گی کہ پی ٹی آئی میں یہ غیر معمولی صلاحیت ہے کہ وہ نت نئے بیانیے تشکیل دینے اور اس کا پراپیگنڈا کرنے میں ماہر ہے۔ دیگر پارٹیاں ابھی تک ان کی اس غیر معمولی صلاحیت کے سامنے پانی بھرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس وقت خان صاحب بڑے بڑے جلسے کرتے پھر رہے ہیں اور حکومتی نااہلی اور بزدار کی بری کارکردگی کو لوگ بھلا چکے ہیں اور ملک میں یہ فضا ہے کہ اگر آج الیکشن ہوں تو تحریک انصاف شاید سادہ اکثریت لینے میں کامیاب ہو جائے گی۔
 

زیک

مسافر
امریکہ تو اپنی خفیہ دستاویزات ظاہر کرتا ہی رہتا ہے تو کیا ہی اچھا ہو کہ جس میٹنگ کی بات ہو رہی ہے امریکی اس میٹنگ کے جو منٹس انہوں نے لیے ہونگے وہ ظاہر کر دیں!
کہانی ساری پاکستان کی ہے امریکا کو کیا پڑی ہے ایسا کرنے کی
 

زیک

مسافر
آخری بات یہ کہ پاکستانی آج بھی اس گمان میں ہیں کہ پاکستان انتہائی اہم ملک ہے اور دنیا کے تمام بڑے ممالک اس کے آ آگے پیچھے پھرتے ہیں۔ وقت بدل چکا ہے۔ اب پاکستان کو کوئی توجہ نہیں دیتا۔ واحد اہمیت پاکستان کے پاس ایٹم بم ہونا ہے۔ پاکستان کی معیشت کی یہ حالت ہے کہ میری ایک کروڑ آبادی کی چھوٹی سی ریاست جارجیا کا جی ڈی پی پاکستان کے جی ڈی پی سے کئی گنا ہے۔ سرد جنگ اور افغانستان جنگ کے خاتمے کے بعد جنگی حیثیت سے بھی پاکستان کسی قابل نہیں۔ پاکستان کے لئے پالیسی کا یہ فرق سالوں سے شروع ہے۔ اب تک پاکستانیوں کو اس کا اندازہ کر لینا چاہیئے تھا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آخری بات یہ کہ پاکستانی آج بھی اس گمان میں ہیں کہ پاکستان انتہائی اہم ملک ہے اور دنیا کے تمام بڑے ممالک اس کے آ آگے پیچھے پھرتے ہیں۔ وقت بدل چکا ہے۔ اب پاکستان کو کوئی توجہ نہیں دیتا۔ واحد اہمیت پاکستان کے پاس ایٹم بم ہونا ہے۔ پاکستان کی معیشت کی یہ حالت ہے کہ میری ایک کروڑ آبادی کی چھوٹی سی ریاست جارجیا کا جی ڈی پی پاکستان کے جی ڈی پی سے کئی گنا ہے۔ سرد جنگ اور افغانستان جنگ کے خاتمے کے بعد جنگی حیثیت سے بھی پاکستان کسی قابل نہیں۔ پاکستان کے لئے پالیسی کا یہ فرق سالوں سے شروع ہے۔ اب تک پاکستانیوں کو اس کا اندازہ کر لینا چاہیئے تھا۔
لیکن یہ بھی تو دیکھیں کہ اگر یہ بات ہے تو پھر امریکہ کو کیا پڑی کہ پاکستان کی حکومتوں کا تختہ الٹنے کی فکر کرے یا دھمکائے کہ چین یا روس یا کسی اور بڑی طاقتوں سے تعلقات استوار بہتر نہ کر ے جبکہ وہ ایک غریب ملک ہے ۔ ۔ ۔
پاکستان کی ایٹمی طاقت سے بھلاامریکہ کو کیا نقصان کا اندیشہ ہے ۔
 

علی وقار

محفلین
پاکستان کی ایٹمی طاقت سے بھلاامریکہ کو کیا نقصان کا اندیشہ ہے ۔
ہم اتفاق کریں یا اختلاف، امریکا کی نظر میں پاکستان کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔ انہوں نے اپنا ذہن بنا لیا ہے کہ پاکستان نیوکلئر ٹیکنالوجی کسی اور ملک کو منتقل کر سکتا ہے یا اس قوت کا کوئی اور غلط استعمال کر سکتا ہے۔ ایک اور ایشو پاکستان کی سرزمین پر فوجی اڈے قائم کرنے کی اجازت لینا ہے۔ مزید یہ کہ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں دراڑ ڈالنا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم معاملہ یہ ہے کہ پاکستان میں مبینہ طور پر قائم دہشت گردی کے مراکز کو ختم کرنا ہے جن کے وجود سے ہماری حکومت مسلسل انکار کرتی چلی آئی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی ایشوز ہیں، جیسا کہ انتہا پسندانہ رویوں کا خاتمہ،سیکولر نظام تعلیم کا فروغ، خواتین کے مساوی حقوق، وغیرہ تو یہ سب ثانوی معاملات ہیں اور انہیں امریکی حکومتیں پس پشت ڈالتی رہتی ہیں۔ ایسے معاملات کی بنیاد پر ہی پاکستان میں قائم حکومتوں کے ساتھ امریکا کے تعلقات بگڑتے یا بہتر ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں عمران خان نے امریکا کے بیشتر مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہو گا اور یہی وجہ ہے کہ ان کی حکومت کو گرانے کے حوالے سے کسی حد تک معاونت فراہم کی گئی ہو گی تاہم باقاعدہ سازش امریکا میں تیار کی گئی ہو گی، اس کو میں اس لیے درست نہیں سمجھتا ہوں کہ ہماری ناکام حکومتیں اس طرح اپنی کمزوری اور ناکامی کا جواز تلاش کر لیتی ہیں۔ مجھے کوئی شبہ نہیں کہ عمران حکومت گرنے میں بڑا کردار اس حکومت کے نا اہل وزیروں، مشیروں کا ہے اور خان صاحب کا حکومت میں آ کر بھی کنٹینر کی سیاست کو اپنائے رکھنا اس کی بہت بڑی وجہ ہے۔ جب وہ اقتدار میں آ گئے تھے تو انہیں احتسابی عمل کی شفافیت کو یقینی بنانا چاہیے تھا۔ یہ کام نیب اور تفتیشی اداروں کے حوالے کرتے اور عوامی مسائل کے حل کو اپنی ترجیح قرار دیتے تو آج شاید انہیں یہ نہ کہنا پڑتا کہ مجھے امریکا نے اقتدار سے باہر کر دیا۔ وہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جاتے، ان ممالک سے قرض اور امداد نہ لیتے، اور پھر یہ دعویٰ کرتے تو ان کی بات میں وزن پیدا ہو جاتا۔ کشکول تھام کر آزادی کے نعرے لگانا اور غلامی کی زنجیریں توڑنے کے اعلانات کرنا محض سیاسی دکان چمکانے کے مترادف ہے۔ دیکھا جائے تو گزشتہ حکومت اس حوالے سے کسی صورت دیگر حکومتوں سے مختلف نہ تھی۔ اقتدار سے باہر آ کر یا اقتدار سے محرومی کے آثار دیکھ کر بیانیہ بدل لینا کمال کی بات نہیں، اصل کمال یہ ہے کہ اقتدار میں آ کر عوام کی حالتِ زار کو تبدیل کرنے کا اہتمام کیا جاتا۔ مجھے تو بس یہ فرق لگتا ہے کہ عمران خان سر اٹھا کر جو کام کرتے رہے، وہی کام شہباز شریف سر جھکا کر کرنے میں مصروف ہیں، یعنی کہ ملک چلانے کے لیے قرض اور امداد لینا۔ میرے خیال میں ہمیں خود کو معاشی طور پر مضبوط کرنا ہو گا اور اس کے بعد ہی ہم حقیقی معنوں میں دیگر اقوام کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر پائیں گے۔ اس وقت پاکستان میں جو امریکا مخالف جذبات پائے جاتے ہیں، اس کا اظہار صرف جلسوں میں ہوتا ہے اور ووٹ لینے کے لیے یہ چال چلی جاتی ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے اور کشکول کا سائز مزید بڑا کر دیا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
آخری بات یہ کہ پاکستانی آج بھی اس گمان میں ہیں کہ پاکستان انتہائی اہم ملک ہے اور دنیا کے تمام بڑے ممالک اس کے آ آگے پیچھے پھرتے ہیں۔ وقت بدل چکا ہے۔ اب پاکستان کو کوئی توجہ نہیں دیتا۔ واحد اہمیت پاکستان کے پاس ایٹم بم ہونا ہے۔ پاکستان کی معیشت کی یہ حالت ہے کہ میری ایک کروڑ آبادی کی چھوٹی سی ریاست جارجیا کا جی ڈی پی پاکستان کے جی ڈی پی سے کئی گنا ہے۔ سرد جنگ اور افغانستان جنگ کے خاتمے کے بعد جنگی حیثیت سے بھی پاکستان کسی قابل نہیں۔ پاکستان کے لئے پالیسی کا یہ فرق سالوں سے شروع ہے۔ اب تک پاکستانیوں کو اس کا اندازہ کر لینا چاہیئے تھا۔
قبلہ ہم تو بہت جان چھڑاتے ہیں لیکن دنیا کا خود ساختہ"تھانیدار" ہی ہماری جان نہیں چھوڑتا!
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
زبر دست زیک بھائی ۔۔۔۔ مجھے لگا کہ یہ کافی کلیدی پوائنٹ ہے اس پورے قصے میں اور اس کی روشنی میں متعلقہ سفارتکار ایک واحد شہادت ہے جسے پاکستان بلا کر فی الفور عدالت میں پیش کیا جانا چاہیئے اور معاملے کے مضمرات کی اہمیت کو طے کیا جانا چاہیئے ۔
میری رائے ۔
سفیر نے نیشنل سیکورٹی کمیٹی کو بریف کیا
 
Top