لکھے موسی پڑھے خدا

شمشاد

لائبریرین
اصل محاور "لکھے مُو سا پڑھے خود آ" ہے۔

مُو بال کو کہتے ہیں یعنی کہ بال جیسا باریک لکھے اور پڑھنے کے لیے بھی خود ہی آنا پڑے۔
 

یوسف-2

محفلین
شمشاد بھائی نے بالکل درست لکھا ہے۔
لیکن غلط العوام میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ۔۔۔ ”لکھے عیسیٰ ، پڑھے موسیٰ “ یعنی ایسی لکھائی میں لکھا ہے کہ لکھنے اور پڑھنے والے دونوں کا عالم فاضل ہونا ضروری ہے۔ عام آدمی کے بس کی بات نہیں کہ ایسی تحریر کو پڑھ اور سمجھ سکے۔۔۔
 

یوسف-2

محفلین
شمشاد بھائی خود ایک لغت ہیں، کیا آپ کو ان کے لکھے پر شک ہے ؟
ایک مرتبہ شمشاد بھائی بچوں کو پڑھا رہے تھے اور ایسا ہی کوئی مشکل لفظ جملہ بنانے کے لئے دیا۔ بچوں نے اُس لفظ کے معنی لغت میں ڈھونڈنے کی کوشش کی تو وہ لفظ ہی اُنہیں لغت میں نہیں ملا۔ جب انہوں نے کہا کہ یہ لفظ تو لغت میں ہی نہیں ہے۔ شمشاد بھائی نے بے نیازی سے کہا کہ نہیں ہے تو لکھ دو :applause:
 

فرخ منظور

لائبریرین
سیدھی سی بات ہے کہ حضرت موسیٰ کو کلیم اللہ کہا جاتا ہے یعنی انہیں خدا سے کلام کا شرف حاصل ہوا ہے۔ اس لحاظ سے اگر اس محاورے کو دیکھیں تو یہ بات صاف کھل جاتی ہے کہ ایسی تحریر جسے صرف حضرت موسیٰ لکھ سکتے تھے اور صرف خدا تعالیٰ ہی اسے سمجھ سکتے تھے۔ عمومی طور پر ایسی تحریر کے لئے بولا جاتا ہے جو مبہم ہو، مہمل ہویا انتہائی خراب خط کے لئے بھی یہ محاورہ بولا جاتا ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
سیدھی سی بات ہے کہ حضرت موسیٰ کو کلیم اللہ کہا جاتا ہے یعنی انہیں خدا سے کلام کا شرف حاصل ہوا ہے۔ اس لحاظ سے اگر اس محاورے کو دیکھیں تو یہ بات صاف کھل جاتی ہے کہ ایسی تحریر جسے صرف حضرت موسیٰ لکھ سکتے تھے اور صرف خدا تعالیٰ ہی اسے سمجھ سکتے تھے۔ عمومی طور پر ایسی تحریر کے لئے بولا جاتا ہے جو مبہم ہو، مہمل ہویا انتہائی خراب خط کے لئے بھی یہ محاورہ بولا جاتا ہے۔
محاورے کے پس منظر پر تحفظات رکھنے کے باوجود ۔۔۔ اس کی خط کشیدہ تشریح سے صد فیصد متفق ہوں۔ میرے خیال میں اصل محاورہ اور اس کے لغوی معنیٰ وہی ہیں، جسے شمشاد بھائی نے بیان کیا ہے۔ لیکن یہ محاورہ بولا اسی مفہوم میں جاتا ہے، جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
شائد ایسی ہی کسی سچویشن میں کسی نے ایک بزرگ سے خط لکھ کر دینے کی درخواست کی تو انہوں نے جواباً یہ کہہ کر خط لکھنے سے معذرت کی کہ "میرے پیروں میں درد ہے ۔ "
پوچھا گیا "حضور! خط سے پیر کا کیا تعلق؟"
کہنے لگے "جا کر سنائے گا کون؟" :cool:
 

سید زبیر

محفلین
میرا خیال ہے اگر کوئی یوں لکھے "لکھے موسی پڑھے خدا " جیسا کہ مہدی نقوی حجاز صاحب نے اپنے استفسار میں وضاحت طلب کی ہے تو فرخ منظور صاحب کا فرمان مستند ہے اور اگر اس طرح لکھا جائے "لکھے مُو سا پڑھے خود آ " تو سند شمشاد صاحب کی ہوئی اور اگر زبانی کلام ہو تو استفسار کر لیا جائے :applause:
 

شمشاد

لائبریرین
اصل محاورہ وہی ہے جو میں نے لکھا ہے (لکھے مُو سا، پڑھے خود آ)، تغیرات زمانہ سے اسے "لکھے موسیٰ پڑھے خدا" کر دیا ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
اصل محاورہ وہی ہے جو میں نے لکھا ہے (لکھے مُو سا، پڑھے خود آ)، تغیرات زمانہ سے اسے "لکھے موسیٰ پڑھے خدا" کر دیا ہے۔

شمشاد بھائی۔ ہمارے اور آپ کے کہنے سے کچھ نہیں ہوتا ۔ تمام لغات میں یہ محاورہ درج ہے۔ "لکھے موسیٰ پڑھے خدا" اور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ محاورہ غلط ہے تو کسی لغت سے اس کی سند لا کر ضرور دکھائیے۔ میں کوشش کر رہا ہوں کہ کسی آن لائن لغت کا ربط تلاش کر کے یہاں پر اس کا لنک دے سکوں۔
 

فاتح

لائبریرین
ہم نے بھی بچپن میں ایک دوست کی زبانی ایسا ہی کچھ سنا تھا کہ اصل محاورہ "لکھے منہ سا پڑھے خود آ" ہے یعنی لکھائی اپنی شکل جیسے بُری ہے جسے کوئی اور نہیں پڑھ سکتا اور اسے خود آ کر پڑھنا پڑتا ہے۔
لیکن چونکہ اس گپ کا کوئی ماخذ نہیں تھا لہٰذا اسے سوائے بے پر کی سمجھنے کے کوئی چارہ نہ تھا۔
 

یوسف-2

محفلین
فرخ منظور بھائی!
وضاحت کا بہت بہت شکریہ۔ فرہنگِ آصفیہ میں واقعی "لکھے موسیٰ پڑھے خدا" ہی کو درست محاورہ بتلایا گیا ہے۔ لیکن فرہنگ کا یہ وضاحت کرنا کہ "لکھے مُو سا پڑھے خود آ" غلط املا ہے، اس طرف بھی اشارہ کر رہا ہے کہ شایدکبھی ایسا بھی لکھا جاتا رہاہو، جو غلط ہے۔ بہت بہت شکریہ
 

محمد وارث

لائبریرین
فرہنگِ آصفیہ کی عبارت بغور پڑھنے سے تو یہ واضح ہو رہا ہے کہ مولوی صاحب کہنا چاہ رہے ہیں کہ انہوں نے اپنی لغت میں لکھے موسیٰ پڑھے خدا اس وجہ سے املا کیا ہے کیونکہ اس کی املا اسی طرح رواج ہے اور زیادہ اسی طرح تلمیح کرتے ہیں پس اس وجہ سے یہی املا لکھا گیا ورنہ اس طرح لکنا غلط تھا۔ اور جو رباعی سند کے طور پر درج کی ہے اس میں بھی تلمیح ہے۔ یعنی مولوی سید احمد دہلوی اس کو اس لیے اس طرح لکھ رہے ہیں کہ رواج یہی ہے ورنہ ان کی نظر میں بھی غلط ہے۔
 

عدیل منا

محفلین
شمشاد بھائی۔ اس لنک پر فرہنگِ آصفیہ کا صفحہ نمبر 197 دیکھیے۔ اس میں یہ محاورہ ایسے ہی درج ہے ۔ "لکھے موسیٰ پڑھے خدا"
http://archive.org/stream/farhangiafiyah04amaduoft#page/199/mode/2up
اب آپ نے مستند حوالہ دے دیا ہے تو اپنے خیال پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔:) لیکن اگر ایسا ہے تو پھر ہم اس محاورے کے حق میں نہیں ہیں۔
 
Top