مہدی نقوی حجاز
محفلین
کوئی صاحب نظر اس محاورے کا پس منظر بتا دے تو اسے ہم بھی مان جائیں۔
لکھے موسی پڑھے خدا
لکھے موسی پڑھے خدا
کس لغت میں ہے ؟اصل محاور "لکھے مُو سا پڑھے خود آ" ہے۔
مُو بال کو کہتے ہیں یعنی کہ بال جیسا باریک لکھے اور پڑھنے کے لیے بھی خود ہی آنا پڑے۔
شمشاد بھائی خود ایک لغت ہیں، کیا آپ کو ان کے لکھے پر شک ہے ؟کس لغت میں ہے ؟
محاورے کے پس منظر پر تحفظات رکھنے کے باوجود ۔۔۔ اس کی خط کشیدہ تشریح سے صد فیصد متفق ہوں۔ میرے خیال میں اصل محاورہ اور اس کے لغوی معنیٰ وہی ہیں، جسے شمشاد بھائی نے بیان کیا ہے۔ لیکن یہ محاورہ بولا اسی مفہوم میں جاتا ہے، جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے۔سیدھی سی بات ہے کہ حضرت موسیٰ کو کلیم اللہ کہا جاتا ہے یعنی انہیں خدا سے کلام کا شرف حاصل ہوا ہے۔ اس لحاظ سے اگر اس محاورے کو دیکھیں تو یہ بات صاف کھل جاتی ہے کہ ایسی تحریر جسے صرف حضرت موسیٰ لکھ سکتے تھے اور صرف خدا تعالیٰ ہی اسے سمجھ سکتے تھے۔ عمومی طور پر ایسی تحریر کے لئے بولا جاتا ہے جو مبہم ہو، مہمل ہویا انتہائی خراب خط کے لئے بھی یہ محاورہ بولا جاتا ہے۔
اصل محاورہ وہی ہے جو میں نے لکھا ہے (لکھے مُو سا، پڑھے خود آ)، تغیرات زمانہ سے اسے "لکھے موسیٰ پڑھے خدا" کر دیا ہے۔
میں نے بھی کچھ ایسا ہی سنا ہے۔ آپ بجا فرما رہے ہیں۔اصل محاورہ وہی ہے جو میں نے لکھا ہے (لکھے مُو سا، پڑھے خود آ)، تغیرات زمانہ سے اسے "لکھے موسیٰ پڑھے خدا" کر دیا ہے۔
اب آپ نے مستند حوالہ دے دیا ہے تو اپنے خیال پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔ لیکن اگر ایسا ہے تو پھر ہم اس محاورے کے حق میں نہیں ہیں۔شمشاد بھائی۔ اس لنک پر فرہنگِ آصفیہ کا صفحہ نمبر 197 دیکھیے۔ اس میں یہ محاورہ ایسے ہی درج ہے ۔ "لکھے موسیٰ پڑھے خدا"
http://archive.org/stream/farhangiafiyah04amaduoft#page/199/mode/2up