کاشفی
محفلین
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
لگتا تو یوں ہے جیسے سمجھتا نہیں ہے وہ
معصوم جتنا لگتا ہے اتنا نہیں ہے وہ
مجھ میں بسا ہوا بھی ہے وہ سر سے پیر تک
اور کہہ رہا ہے یہ بھی کہ میرا نہیں ہے وہ
کر دونگا موم باتوں میں سوز و گداز سے
جذبات کی تپش سے مبرا نہیں ہے وہ
واضح یہ کر چکا ہے یقیں دل کے وہم پر
میرا ہے صرف اور کسی کا نہیں ہے وہ
رہتا ہے اس کے ساتھ ہمیشہ مرا خیال
تنہایوں میں رہ کے بھی تنہا نہیں ہے وہ
ہوگا غلط بیان میں مجبوریوں کا ہاتھ
حق بات ورنہ یہ ہے کہ جھوٹا نہیں ہے وہ
ٹھہرا وہ پھول، بوسے لبوں کے ملے اسے
پتوں کی طرح پیروں میں آیا نہیں ہے وہ
مرنے کے بعد آیا ہے کرنے مرا علاج
مانا کہ چارہ گر ہے. مسیحا نہیں ہے وہ
جاوید رات دن ہے ترا انتظار اسے
کہنے کو تیرے پیار کا بھوکا نہیں ہے وہ
از ڈاکٹر جاوید جمیل
لگتا تو یوں ہے جیسے سمجھتا نہیں ہے وہ
معصوم جتنا لگتا ہے اتنا نہیں ہے وہ
مجھ میں بسا ہوا بھی ہے وہ سر سے پیر تک
اور کہہ رہا ہے یہ بھی کہ میرا نہیں ہے وہ
کر دونگا موم باتوں میں سوز و گداز سے
جذبات کی تپش سے مبرا نہیں ہے وہ
واضح یہ کر چکا ہے یقیں دل کے وہم پر
میرا ہے صرف اور کسی کا نہیں ہے وہ
رہتا ہے اس کے ساتھ ہمیشہ مرا خیال
تنہایوں میں رہ کے بھی تنہا نہیں ہے وہ
ہوگا غلط بیان میں مجبوریوں کا ہاتھ
حق بات ورنہ یہ ہے کہ جھوٹا نہیں ہے وہ
ٹھہرا وہ پھول، بوسے لبوں کے ملے اسے
پتوں کی طرح پیروں میں آیا نہیں ہے وہ
مرنے کے بعد آیا ہے کرنے مرا علاج
مانا کہ چارہ گر ہے. مسیحا نہیں ہے وہ
جاوید رات دن ہے ترا انتظار اسے
کہنے کو تیرے پیار کا بھوکا نہیں ہے وہ