محسن وقار علی
محفلین
جاناں یہ مری آنکھ کا دھوکہ ہے کہ تم ہو
دیکھوں میں جب آئینے کو لگتا ہے کہ تم ہو
دامن نے تڑپ کر جسے سینے سے لگایا
آنسو یہ مری آنکھ سے چھلکا ہے کہ تم ہو
ہر وقت کڑی دھوپ میں رہتا ہے مرے ساتھ
آنچل ہے، تری زلف کا سایہ ہے کہ تم ہو
رہتا ہے مرے دل میں کوئی درد کی صورت
حسرت ہے، یہ بے تاب تمنا ہے کہ تم ہو
عصمت ہے، محبت ہے، عقیدت ہے، وفا ہے
شاعر کے تصور کی یہ دنیا ہے کہ تم ہو
خوابوں میں خیالوں میں تصور میں تمہیں ہو
ہر سانس میں، ہر نس میں یہ لگتا ہے کہ تم ہو
ساحل پہ جو لکھتا ہے، مٹاتا ہے کوئی نام
راجا ہے وہ قسمت سے جو الجھا ہے کہ تم ہو
آپ کی سنجیدہ شاعری بھی بہت اچھی ہے راجا بھائی
یہ شعر بہت پسند آئے
جبکہ مطلع اور مقطع نے تو پوری "محفل" ہی لوٹ لی