المامن سے رخصت ہو کر موسٰے نے پہاڑی کا رُخ کیا۔ جو بروج الحمرا کی بلندی کے مقابل میں سرفراز تھی۔ اور جس کی چوٹی پر اور جس کے پہلوؤں میں شہر کی عشرت پسند آبادی بستی تھی، موسٰے نے وہ راستہ اختیار کیا۔ جس پر نسبتاً خاموشی زیادہ اور آمد و رفت کم تھی۔ پہاڑی کی نصف بلندی طے کرنے کے بعد وہ ایک نیچی اور وسیع دیوار کے مقابل میں پہنچ گیا۔ جو کسی رئیس شہر کے باغ کی فصیل کا کام دیتی تھی۔ وہ دیر تک مشتاق نگاہوں سے ادھر اُدھر دیکھتا رہا۔ چاروں طرف ہو کا عالم تھا اور اس مسلسل سکون و سکوت میں یا تو ہوا کے وہ جھونکے رخنہ انداز ہوتے تھے۔ جو کوہ سیر انوادا کی برفانی چوٹیوں سے آ آ کر انار اور نارنگی کے خوشبو دار پتوں سے اٹکھیلیاں کر رہے تھے۔ یا فواروں کی نقرئی آب افشانی تھی۔ جو دماغ میں ایک مدھم اور مسلسل موسیقی پیدا کر رہی تھی۔ موسےٰ کا دل زور سے دھک دھک کر رہا تھا۔ چشم زدن میں وہ دیوار پر چڑھ گیا۔ اور دوسری طرف اس سبزے کے نرم اور خوب صورت فرش پر کود پڑا۔ جس پر انواع و اقسام کے تیز رنگ پُھول مسب خواب تھے۔ اور جس پر درختوں کے سبز پتے اور سُنہری پھل، اپنا سایہ ڈالے ہوئے تھے۔
تھوڑی دیر بعد وہ ایک مکان کے قریب جا پہنچا۔ جس کی طرز تعمیر سے معلوم ہوتا تھا۔ یہ وہ مسلمانوں کے زمانے سے پہلے کا بنا ہوا ہے۔ یہ عمارت بھاری بھاری اور
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 25
پرانے ستونوں کی محراب دار چھتوں پر قائم تھی۔ گلاب کے پھولوں اور گنجان بیلوں نے اس عمارت کا بہت سا حصہ اپنے آغوش عاطفت میں چھپا رکھا تھا۔ محرابوں کے اوپر جھلملیاں تھیں۔ جن کے روبرو وہ ضوفشاں جھروکے تھے۔ جو زمانہ مابعد میں موری مذاق کے مطابق ایزاد کر دئے گئے تھے۔ صرف ایک جھروکے میں ایک چراغ روشن تھا۔ باقی تمام عمارت پر گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا رہا تھا۔ اور ایسا معلوم ہوتا تھا۔ کہ اس حُجرے کے سوا عمارت کے بقیہ ساکنین پر فرشتۂ خواب حکمراں ہے۔ موسےٰ چزچیدہ قدموں سے اس جھروکے کی طرف بڑھا۔ اور ایک لمحہ ٹھہر کر یہ گیت دھیمی آواز سے گالے لگا۔ جو بادنے تغیر کسی عربی شاعر کی فکر لطیف اور خیال نازک کا نتیجہ ہے۔
گیت (1)
اے جاں کی روشنی اب جلدی سے ہو خراماں
ہمجولیوں کو اپنی گردوں پہ کر پریشاں
وہ پیاری پیاری انکھیاں، مشتاق ان کی ہے جاں
شب بھی بغیر ان کے ہے غمزدہ و حیراں
ہے آیتِ مقدس خنجر پہ میرے کندا
صفحہ پہ دل کے لیکن ہے نام تیرا لکھا
ہیں نور و دین ایماں، دونوں کے لفظ یکساں
دونوں کا سچ برابر دونوں ہیں پاک یکساں
ہیں دونوں گو کہ یکساں، گو پاک ہوں برابر
سچا ہے دل زیادہ تلوار سے بھی بڑھ کر
اے جاں کی روشنی آ، ہو مجھ پہ جلوہ فرما
شب کے ستارے تجھ پر کرتے ہیں رشک کیا کیا
وہ شوخ چشم شہلا، ہے جان جس پہ شیدا
انجم کو تاب کیا ہے، ہوں اس سے ہم اشارا
-------------------------------------------------------------------------------
(1) از جسٹس سید محمود مرحوم
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 26
جب اس کا گیت ختم ہو گیا۔ تو آہستہ سے جھلملی کُھلی اور جھروکے میں ایک نازنین دکھائی دی۔
موسےٰ نے کہا، "آہ لیلےٰ! میں تجھے دیکھتا ہوں۔ تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجھ پر خدا کی رحمت برس رہی ہے۔"
لیلےٰ نے جواب دیا، "خاموش! آہستہ بولو۔ اور یہاں زیادہ مت ٹھہرو۔ مجھے ڈر معلوم ہوتا ہے کہ ہماری ان خُفیہ ملاقاتوں کا راز طشت از بام ہونے والا ہے۔" ساتھ ہی رقت بھری آواز سے کہا، "شاید یہ ملاقات ہماری آخری ملاقات ہو۔"
موسےٰ نے بیقراری سے کہا، "یا اللہ! میں کیا سُن رہا ہوں۔ آخر یہ راز کب تک پردۂ اخفا میں رکھا جائے گا۔" تو مجھے اپنے حسب و نسب، اپنی اصل و نسل پر کیوں مطلع نہیں کرتی؟ عزیز لیلےٰ! کیا تو خیال کر سکتی ہے۔ کہ غرناطہ میں خوئی ایسا عالی شان دودمان بھی ہے جو موسےٰ ابن ابی غاز ان کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے انکار کرے۔" اس کی آواز کا مغرورانہ لہجہ محبت کے نازک ترین رنگ میں ڈوب گیا اور اس نے کہا، "اگر تو مجھے حقیر و ذلیل نہیں سمجھتی۔ تو ہماری محبت و مناکحت میں کون مخل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ تیری ہستی کے پھول کا رنگ و بو، خواہ کسی کُہسار کی پیدائش ہو۔ یا کسی سبزہ زار کی۔ میرے دل کے لیے یکساں باعث زیب و زینت ہے۔"
لیلےٰ کے آنسو نکل پڑے اور وہ بولی، "آہ جس راز کے انکشاف کے لیے تو مجھ سے شاکی ہے۔ وہ جتنا تیرے لیے تاریک ہے، اتنا ہی میرے لیے مُبہم ہے۔ میں بارہا تجھ سے کہہ چکی ہوں۔ کہ مجھے اپنی پیدائش یا بچپن کا حال صرف اتنا یاد ہے کہ وہاں کے بیابانوں اور ریگستانوں میں سدا بہار دیودار پیدا ہوتا ہے۔ اور جو ننھی ننھی روئیدگی آتشیں آب و ہوا سے مُرجھا کر سوکھ جاتی ہے۔ اُسے اونٹ چرتے پھرتے تھے۔ مجھے کچھ اپنی ماں بھی یاد ہے۔ جس کی پُراشتیاق نگاہیں مجھ پر پڑا کرتی تھیں۔ اور جس کے شیریں نغمے مجھے لوری دے دے کر سلا دیا کرتے تھے۔"
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 27
مُور نے محبت سے کہا، " اب تیری ماں کی روح اُلفت میرے جسم میں آ بسی ہے۔"
لیلےٰ نے سلسلۂ گفتگو جاری رکھا، "میں یہاں لائی گئی۔ اور اسی چاردیواری میں بچپن سے شباب کو پہنچی۔ میری ذرا ذرا سی خواہشات کی تکمیل کے لیے ہر وقت کنیزیں حاضر رہتی ہیں۔ مجھے تو علم نہیں، لیکن جنہیں افلاس و افراط دونوں کا تجربہ ہے، مجھ سے کہتے ہیں۔ کہ مجھ پر اس قدر زر و جواہر لٹایا جاتا ہے، جس پر تاجداروں کو رشک آئے۔ لیکن اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی نسبت مجھے بہت ہی کم علم ہے۔میرے والد کم سخن اور تُند مزاج ہیں۔ اور میرے پاس بہت کم بلکہ بعض اوقات مہینوں بعد آتے ہیں۔ لیکن میں انتا جانتی ہوں کہ وہ مجھے بے حد چاہتے ہیں۔ اور پیارے موسےٰ! جب تک میں نے تجھے نہ دیکھا تھا، میری روشن تریں ساعتیں وہ تھیں۔ جب میرے کان اس کے قدموں کی آہٹ پر لگے رہتے تھے۔ اور میں دوڑ کر اپنے اسی ایک شفیق سے بغل گیر ہو جایا کرتی تھی۔"
"کیا تجھے اس کا نام معلوم نہیں؟"
"نہیں۔ مجھے کیا کسی خانہ زاد کو بھی اس کا نام معلوم نہیں۔ ہاں ایک غلاموں کا ضعیف و نحیف سردار شمین جس کی نگاہوں سے مجھ پر دہشت اور سکتے کا عالم طاری ہو جایا کرتا ہے، شاید والد کے نام سے واقف ہے۔"
مُور نے کچھ سوچ کر کہا، "تعجب ہے۔ اور پھر تو یہ کیسے سمجھتی ہے کہ ہماری محبت کا راز ظاہر ہو گیا ہے۔ یا اس میں کوئی رخنہ انداز ہو گا؟"
"دیکھو آہستہ بات کرو۔ شمین آج میرے پاس آیا۔ اور کہنے لگا کہ بانو! باغ میں کسی مرد کے قدموں کے نشان پائے گئے ہیں۔ اگر تمہارے والد کو اس کا علم ہو گیا تو غرناطہ پر تمہاری یہ نظر نگاہِ واپسیں ہو گی۔ مجھے کانپتے دیکھ کر اس نے ملائمت کے لہجے میں کہا۔ کہ یہ بات ذہن نشین کر لیجیے۔ آپ کو ایک خونخوار شیر سے شادی کرنے کی اجازت بآسانی مل سکتی ہے۔ لیکن آپ کسی موری امیر سے خواہ وہ کیسا ہی عالی خاندان کیوں نہ ہو، شادی نہیں کر سکتیں۔ اس نے یہ کہا اور
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 28
مجھے تنہا چھوڑ کر چلا گیا۔"
اس پر لیلےٰ نے بے چینی سے ہاتھ مل کر کہا، "ہائے موسےٰ! میرا دل بیٹھا جاتا ہے۔ یہ بہت ہی بُرا شگون ہے۔ جس کا تاریک انجام میری آنکھوں کے سامنے ہے۔"
"مجھے اپنے والد کے سر کی قسم۔ یہ رکاوٹیں میری آتش شوق پر تیل کا کام کرتی ہیں۔ بام محبت پر چڑھنے میں مجھے خواہ سیکڑوں دشمنوں کی نعشوں کا پشتہ ہی قائم کرنا پڑے۔ مگر میں ضرور جد و جہد کروں گا۔ اور تیری محبت کی منزل راحت پر پہنچنے بغیر نہ رہوں گا۔
پُر جوش اور بلند حوصلہ مُور نے بمشکل اپنی جوشیلی تقریر ختم کی تھی کہ درختوں کے جھنڈ میں سے کسی مخفی ہاتھ کا پھینکا ہوا ایک تیر زن سے اس کے پاس سے گزرا۔ اور جب تک وہ ہوا جو تیر کی وجہ سے متحرک تھی تیزی سے اس کے رُخسار کے ساتھ ٹکراتی، تیر کا اڑتا ہوا پر اس کے پیچھے کسی درخت کے تنہ میں جا گڑا۔
لیلےٰ چلائی، "بھاگو، بھاگو۔ موسےٰ! اپنی جان بچا کر بھاگ جاؤ۔ الٰہی تو اس کا حامی و مددگار ہونا۔" یہ کہہ کر وہ فوراً حجرے کے اندر غائب ہو گئی۔
مُور نے مہلک نشانہ کی پروا نہ کی۔ لیکن اپنی تیز و غضب ناک طبیعت کے اقتضا سے مجبور ہر کر وہ دشمن کیجانب پلٹ پڑا۔ تلوار سونت لی۔ غضب کے جذبہ میں دبی ہوئی آواز سے اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ وہ اس سمت میں کود کر بڑھا، جدھر سے تیر آیا تھا۔ مُوری جنگ و جدال میں کمیں گاہوں سے دشمن کو ڈھونڈ نکالنے کی عادی آنکھیں نہایت جنگی اشتیاق سے تاریک اور خاموش پتوں میں میں سے اس کی جستجو کرنے لگینَ لیکن اس کی نگاہیں کسی زندہ ہستی کا سُراغ نہ لگا سکیں۔ اور آخرکار وہ مایوس و مجبور واپس آیا۔ اور اس مقام سے رخصت ہوا۔ لیکن جوں ہی وہ دیوار پھاند کر دوسری طرف گیا۔ اسے ایک مدھم لیکن صاف اور تیز آواز نے کہا۔
"تجھے زندہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ لیکن یاد رکھ تیری انجام اس سے بھی زیادہ مصیبت ناک ہو گا۔"
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 29
فصل چہارم
باپ اور بیٹی
جس حجرے میں لیلےٰ اضطراب کی حالت میں واپس آئی۔ وہ ایسی مخصوص وضع کا تھا، جس کا اندازہ اس کی طرز معاشرت کو دیکھ کر لگایا جا سکتا تھا۔ اس کی آرائش و زیبائش غرناطہ کے مُوروں سے مختلف تھی۔ یہ حجرہ زیادہ وسیع تھا۔ اور اس کی زیب و زینت سے مصری شان ٹپکتی تھی۔ دیواریں مشرقی سامان آرائش سے پیراستہ تھیں۔ اور ارغوانی زمین پر طلائی کام کے نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ خانہ دار کگروں اور بھاری چھت پر جسے چورس ستون سہارے ہوئے تھے۔ کسی زبان کے عجیب و غریب حروف کندہ تھے اور ستوں کے گرد سونے اور ملمع کے سانپ لپٹے ہوئے تھے۔ ان کی آنکھوں میں بڑے بڑے زمرد جڑے ہوئے تھے۔ جن میں سے سبز رنگ کی روشنی اور زندگی کی سی چمک عیاں تھی۔ سنگ مرمر کی میزوں پر مختلف قسم کے لکھے ہوئے اوراق اور کئی قسم کے باجے بکھرے پڑے تھے۔ اور ایک اکیلا چاندی کا مجلی چراغ کمرے میں مدھم سی روشنی پھیلا رہا تھا۔ گو یہ تمام زیب و زینت نہایت شان دار تھی۔ لیکن بحثیت مجموعہ اس کا اثر طبیعت میں افسردگ، پژمردگی اور گھبراہٹ پیدا کرتا تھا۔ حالانکہ غرناطہ کے عیش پسند مشرقی باشندوں کے خوشنما ایوانوں اور اس ملک کے
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 30
صاف آسمانوں کے نظارہ سے ایسا اثر پڑنا مناسب نہ تھا۔ بلکہ ایسا اثر تو ان غار نما عمارات کے لیے زیادہ موزوں معلوم ہوتا تھا۔ جوثیبہ اور ممفس کے باشندوں کو زمانۂ قدم میں آفتاب افریقہ کی جھلس دینے والی تمازت سے محفوظ رکھتی تھیں۔
لیلےٰ اس کمرے میں کھڑی تھی۔ اس کا رنگ فق اور سانس تیز چل رہا تھا۔ اس کے ہونٹ کھل گئے تھے۔ اس نے دونوں ہاتھ ملا رکھے تھے۔ اور اس کی تمام روح اس کے کانوں میں موجود تھی۔ اگر کسی ایسی نازنین اور ماہ وش پری کا تصور کرناہو۔ جو کسی سنگ دل اور بے رحم جن کے طلسمی محل میں مقید ہو۔ تو لیلےٰ کی اس حالت سے بہتر تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا بدن چھریرا اور نازک تھا۔ اور نسائی حُسن کے تناسب اور گداز سے معمور تھا۔ اس میں ایک اس قسم کی لچک اور شان نزاکت تھی۔ جسے ایک سنگ تراش اپنے تخیل میں اس وقت پیدا کرتا ہے۔ جب اسے دنیا سے اعلےٰ و ارفع کسی آسمانی ہستی کا بُت تیار کرنا ہو۔ اس کے گیسو گھنے اور سیاہ تھے۔ لیکن ان میں جو چمک اور سنہری جھل تھی وہ ان ایشیائی زلفوں سے مختلف تھی۔ جو شب دیجور کی طرح سیاہہوتی ہیں۔ اور گو اس کے چہرے کی رنگت قدرتاً زرد تھی۔ لیکن ایسی صاف اور آب و تاب سے اس قدر روشن تھی۔ کہ ممالک شمالی میں بھی وہ حسین ہی سمجھی جاتی اس کے خط و خال نازک تھے۔ اور معلوم ہوتا تھا کہ کسی نادر سانچہ میں ڈھالے گئے ہیں۔ لب ہائے میگوں میں مخموریاں تھیں۔ اور ان کے اندر موتیوں کو شرمندہ کرنے والے دانت چمک رہے تھے، لیکن اس کے بے مثل حسین چہرے کا سب سے بڑا طلسم یہ تھا کہ اس پر ایک پاکیزگی اور نزاکت برستی تھی۔ عشق کے حسیات لطیفہ نے جو اس قسم کے حسن میں شاذ و نادر پائے جاتے ہیں۔ اور جن سے موری دوشیزہ لڑکیوں کا مست اور ہوس انگیز شباب قطعاً ناآشنا ہوتا ہے۔ اس کے چہرے کی دلربائی کو دوبالا کر رکھا تھا۔ لیلےٰ تعلیم یافتہ تھی۔ گویا اس مرمریں بُت میں ایک رُوح بیدار تھی۔
چند لمحوں کی سخت فکر و تردد کے بعد وہ پھر جالی دار غرفہ کے پاس گئی۔ آہستہ سے اُسے کھولا اور باہر جھانکنے لگی۔ بہت دور درختوں کے درمیانی فاصلہ میں اسے
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 31
اک لمحہ بھر کو اپنے عاشق کا رشک شمشاد اور شاہانہ قامت دکھائی دیا۔ جس کا سایہ سبزہ پر پھیلی ہوئی چاندنی کو تاریک کر رہا تھا۔ اس نے اب اپنی تلاش بےسود کے بعد ایک پُر اشتیاق نظر اپنی محبوبہ کے دریچہ پر ڈالی۔ ورگنجان پتوں اور شاخوں کی چلمن نے اسے لیلےٰ کی نگاہوں سے اوجھل کر دیا۔ لیکن پھر بھی لیلےٰ نے اسے دیکھ لیا تھا۔ وہ اندر چلی گئی۔ اور اس کے رخساروں پر تشکر کے گرم آنسو اُبل آئے۔ وہ کمرے میں پڑے ہوئے گدیلوں کے انبار پر دو زانو ہو گئی اور بولی، "اے میرے آبا و اجداد کے خدا میں تیرا شکر بجا لاتی ہوں کہ وہ سلامت ہے۔"
ایک درد انگیز خیال اس کے دل میں گزرا اور وہ بولی، " میں اس کے لیے کیسے دعا کروں؟ ہماری جبینِ نیاز ایک خدا کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوتی۔ اور مجھے تعلیم دی گئی ہے کہ میں اس کے مذہب اور قوم سے حقارت و نفرت اور ان کے نام سے وحشت کا اظہار کروں۔ میرے اللہ۔ اس کا کیا انجام ہو گا۔ منحوس تھی وہ ساعت جب اس نے سامنے کے باغ میں مجھے پہلی مرتبہ دیکھا۔ اور اس سے زیادہ منحوس تھا وہ لمحہ جب وہ دیوار پھاند کر اندر آیا۔ اور لیلےٰ سے کہنے لگا کہ تجھ پر وہ شخص فدا ہے۔ جس کی قوتِ بازو غرناطہ کی پُشت پناہ ہے۔ اور جس کے نام پر غرناطہ رحمت بھیجتا ہے۔ آہ میں کیا کروں۔ ہائے مجھے کیا ہو گیا۔"
دوشیزہ نے اپنے ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانک لیا۔ اور جذبات انگیز تصورات میں مستغرق ہو گئی۔ جن کے سکون میں صرف اس کی سسکیاں خلل انداز ہوتی تھیں۔ کچھ دیر تک وہ اسی طرح مسلسل رنج و الم میں ڈوبی پڑی رہی۔ یکایک پردے آہستہ سے ہلے اور ایک شخص جس کی پوشاک اور وضع عجیب و غریب تھی۔ آہستہ آہستہ کمرے میں داخل ہوا۔ لیلےٰ کو ایسی افسردہ حالت میں دیکھ کر رکا۔ اور ایک ایسی نگاہ سے اسے دیکھنے لگا۔ جس میں رحم اور نرمی اس کی جبلی سختی و درشتی سے کشمکش کر رہی تھی۔
آنے والے نے کہا، "لیلےٰ!"
لیلےٰ چونک اٹھی۔ اور اس کے چہرے پر حجاب کی تمتماہٹ جھلک آئی۔ اس نے
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 32
آنکھوں سے آنسو پونچھ ڈالے۔ اور مسکرانے کی ایک ناکام کوشش کرتی ہوئی آگے بڑھی۔
"میرے ابا تشریف لائیے۔"
نووارد گدیلوں پر بیٹھ گیا۔ اور لیلے کو اپنے قریب بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ؔؔپھر نہایت متانت سے کہنے لگا، "یہ آنسو ابھی تیرے رخساروں پر تازہ ہیں۔ یہ تیری قوم کے مصائب کے گواہ ہیں۔ ہماری بیٹیاں آنسو بہانے اور ہمارے بیٹے درد سے کراہنے کو پیدا ہوئے ہیں۔ عالی شان ہستیوں کے سروں پر خاک اُڑ رہی ہے۔ اور حسینوں کے چشموں میں زہر ہلاہل گُھلا ہوا ہے۔ اے کاش ہم صرف کشمکش کر سکتے۔ کاش ہم میں حوصلہ ہوتا۔ کاش ہم اپنے سر اُٹھا سکتے۔ اور شیطان کی غلامی سے مخلصی حاصل کرنے کے لیے متفق ہو سکتے۔ ممکن ہے یہ نہ ہو سکے۔ لیکن ایک تنہا شخص تمام قوم کا انتقام لے گا۔
لیلےٰ کے باپ کا سانولہ چہرہ جو جوشیلے جذبات کے اظہار کے لیے بہت موزوں تھا۔ جوش غضب میں بے حد خوفناک ہو گیا۔ اس کی پیشانی پر شکنیں پڑ گئیں۔ اور ہونٹ کانپنے لگے۔ لیکن جوش کا دورہ مختصر تھا اور ابھی لیلےٰ اس کی تُندی و غضناکی کی پر پوری طرح کانپنے بھی نہ پائی تھی۔ کہ وہ اک سکون میں تبدیلہو گیا۔
"ان خیالات کے اظہار کی ضرورت نہیں۔ تو عورت ہے اور ابھی بچی ہے۔ اس لئے ان حالات کے دیکھنے کے لئے نہیں بنی۔ لیلےٰ تو ناز و نعم میں پلی ہے اور بہت احتیاط سے تجھے تربیت دی گئی ہے۔، شاید میں تجھے تُند خو اور سنگدل معلوم ہوتا ہوں۔ لیکن تیرے ایام طفلی کو رنج و غم کی پھانس سے بچانے کے لیے میں اپنے خون دل کے بہترین قطرے گرانے کو تیار تھا۔ دیکھ خاموشی سے سُن۔ اس کے لیے تیار ہو جا کہ تو ایک روز اپنی نسل کی مایۂ ناز بنے۔ تیرے وقت فضول لہو و لعب اور نکمے مشاغل میں نہ گزرنے پائے۔ تجھے وہ سبق دیئے گئے ہیں۔ جن سے بالعموم تیری صنف محروم رہتی ہے۔ موری لڑکیوں کے ناپاک و نجس خیالات تیرے لیے نہیں۔ ان کے شاہد ان بازاری کے سے گیت، ان کے تباہ کُن رقص، تیرے لیے نہیں بنے۔ تیرے نازک اعضا کو وہ انداز اختیار کرنا سکھایا گیا ہے۔ جسے فطرت ایک خدا کی عبادت کے لیے مخصوص کرتی ہے، تیری آواز موسیقی
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 33
تیری اس درماندہ قوم کے گیتوں سے ہم آہنگ کی گئی ہے۔ جو اپنے گناہوں کی یاد سے افسردہ اپنے بہادروں کے کارناموں سے پُرجوش اور دعاؤں کی خشوع و خضوع سے مقدس ہے۔ ان صحیفوں اور ہمارے فرزانوں کی پند و موعظت نے تجھے ہمارے ایسے علوم اور ایسے واقعات تاریخی سکھانے ہیں جو تیرے دل و دماغ کو امید کامرانی سے معمور کر دیں۔ اور جن سے تیرے دل میں ایک مقدس فرض کا احساس ہو۔ لیلےٰ تو سُن رہی ہے؟"
لیلےٰ پریشان اور متعجب تھی۔ کیونکہ اس سے پہلے اس کے باپ نے کبھی اس جوش سے گفتگو نہ کی تھی۔ دوشیزہ نے سادگی اور راستی سے اس طرح جواب دیا کہ مستفسر کی گونہ تسلی ہوئی۔ اور وہ لہجہ بدل کر ایک سنجیدہ اور متین آواز میں کہنے لگا۔
تو ستانے والوں پر لعنت بھیج۔ اے عظیم الشان قوم یہود کی دکٹر! اٹھ اور طالم و جابر مُور پادشاہ پر لعنت بھیج۔"
یہ کہتے کہتے لعنت بھیجنے والا خود اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کا داھنا ہاتھ بلند تھا۔ اور بایاں دوشیزہ کے شانہ پر رکھا تھا۔ لیکن لڑکی ایک لمحہ کے لیے وحشت آمیز حیرت سے اس کے چہرے کو دیکھ کر ڈرتی ہوئی، اس کے گھٹنوں سے لپٹ گئی اور عاجزانہ طور پر انہیں دبا کر ٹوٹی پھوٹی آواز میں کہنے لگی۔
"میرے اوپر رحم کیجیے۔ رحم۔"
یہودی نے غضب و حقارت کی نگاہ سے اس کو اپنے قدموں سے لپٹتے ہوئے دیکھا۔ اس کا ہاتھ از خود خنجر پر جا پڑا۔ آدھا خنجر باہر نکال لیا۔ مگر ایک لعنت کہنے کے بعد اسے پھر نیام کے اندر داخل کر دیا۔ لیکن پھر اسے باہر کھینچ کر لڑکی کے قریب زمین پر پھینگ دیا اور ایک ایسی آواز سے جس میں سکون کی ناکام کوشش بھی شامل تھی۔ کہا، "او ذلیل و خوار لڑکی! اگر تو نے اپنے دل میں کسی ناپاک مور کی نسبت کسی ناجائز خیال کو جگہ دی ہے، تو اس کو نکال دے۔ بلکہ ضرورت ہو تو اس خنجر کی امداد لے۔ خواہ موت کے ذریعہ سے مخلصی حاصل کر۔ لیکن اس ہاتھ کو ایک ناروا فرض کے ادا کرنے سے بچا لے۔" ضعیف شخص نے جلدی سے اپنے آپکو لیلےٰ کی گرفت سے چھڑا لیا۔ اور بدقسمت لڑکی کو تنہا اور بے ہوش چھوڑ کر چل دیا۔
لیکن تیرے وحشیانہ پن نے تجھے متعصب بنا دیا ہے۔ اسرائیلوں میں تیرا نام ایک ناپاک لعنت ہے۔ اور پھر بھی تو ہماری مصیبت زدہ نظروں سے گری ہوئی قوم کی لڑکی کا خواستگار ہے۔ اگر تیرے عشق کی نامرادی تیرے لئے سم قاتل ہو سکتی ہے۔ تو میں سمجھوں گا کہ میں نے انتقام لے لیا۔ ہاں۔ جا۔ خرام شاہانہ اور سرفرازی حاکمانہ سے جا۔ تیرے قدم زنجیر و سلاسل کی طرف اٹھ رہے ہیں۔ یا شاید تجھے موت اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔"
المامن زہر اُگل رہا تھا۔ موسےٰ کی سفید خلعت کی چمک اس کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔ وہ ایک لمحہ کو ٹھہرا۔ پھر دفعتاً مُڑا اور نیم بلند آواز سے کہا، "انتقام صرف ایک فرد کی ذات سے نہیں۔ بلکہ ایک قوم کی قوم سے۔ اب نصرانیوں کی باری ہے۔"
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 47
یہ صفحۃ خالی ہے۔
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 48
باب دوم
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 49
فصل اول
شاہ ہسپانیہ کا خیمہ۔ پادشاہ اور پادری۔ ملاقاتی اور یرغمال
اب ہم عیسائی افواج اور شاہ ہشپانیہ کے خیمہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ جہاں بادشاہ نے رات کے وقت اپنے معتمدین فوجہ افسروں اور مشیروں کی ایک مجلس منعقد کی ہے۔ فرڈی نینڈ (1) اس شان و شکوہ کے ساتھ میدان میں اُترا۔ گویا جنگ آزمائی کے بجائے کھیل تماشوں کی غرض سےآیا ہے۔ خیمہ شاہی افغوانی اور سُنہری پردوں سے جگمگا رہا تھا۔
بادشاہ ایک میز کے صدر میں بیٹھا تھا۔ جس پر نقشے اور کاغذات منتشر تھے۔ شکل و شباہت اور وضع قطع سے وہ نامور اور مدبر بادشاہ اپنے ان جواں مرد افسروں کی سرداری کے ناقابل نہ معلوم ہوتا تھا۔ جن کے درمیان وہ اس وقت رونق افروز تھا۔ اس کے خوشبو میں بسے ہوئے سیاہ بال اس کی بلند شاہانہ پیشانی کے دونوں طرف لمبی لمبی زلفیں بن کر لٹک رہے تھے۔ اور اس کی پیشانی اگرچہ جُھریوں سے ناآشنا تھی۔ لیکن اس پر اس قدر سکون برستا تھا۔ کہ شاید کوئی بڑے سے بڑا قیافہ شناس بھی اس کے شاہانہ راز معلوم کرنے میں ہرگز کامیاب نہ ہو سکتا تھا۔
------------------------------------------------------------------------------------------------
(1) Ferdinand
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 50
اس کے موزوں خط و خال سے شہنشاہیت ٹپکتی تھی۔ اس کا لبادہ جس کا تکمہ صرف ایک بیش بہا اور روشن ہیرے کا بنا تھا۔ اور جس کے سینہ پر ایک نقرئی صلیب کاڑھی ہوئی تھی۔ اس کے مضبوط اور مردانہ قد و قامت پر لہراتا تھا۔ لیکن اس کا رعب و داب دربار کے شہسواروں اور بہادروں کی طرح بلند بالا قد اور مضبوط اعضاء کا ممنون احسان نہ تھا بلکہ اس کا شاہانہ وقار اور تمکنت آمیز حرکات و سکنات ہی تھے۔ جن کے سامنے سر جھک جایا کرتے تھے۔ اس کے دائیں جانب شہزادہ جوآن (1) بیٹھا تھا۔ جس کے غنچہء حیات پر نسیم شباب سے ایک مسکراہت بکھر رہی تھی۔ بائیں طرف شہرہ آفاق روڈریگو ُونس (2) بیٹھا تھا۔ جولیوں کا باشندہ اور کیڈز کا مارکویئس (3) تھا۔ میز کے گرد سب اپنے اپنے فوجہ درجہ اور رُتبہ کی ترتیب سے بیٹھے تھے۔ حاضرین میں سے نواب میڈینا صوڈینیا (4) جو اپنی شکل و صورت اور حسب و نسب دونوں میں یکساں ممتاز تھا۔ سن رسیدہ و متفکر صورت مارکویئس ولینا (5)، افسردہ جبیں بہادر ایلونزڈی اگویلر (6) اور تنو مند بشاش اور چمکیلی آنکھوں والا ہرننڈوپلگار (7) مرد میدان موجود تھے۔
بادشاہ ایک تقریر کر رہا تھا جسے اس کے سب عہدہ دار احترام و انہماک سے سُنتے معلوم ہوتے تھے، "عالی مرتبت حضرات۔ آپ کو علم ہے کہ ہم شہر کو مقدس اسلحہ کی بہ نسبت مُوروں کے باہمی نفاق سے بہت جلد زیر کر سکتے ہیں۔ شہر پناہ مستحکم اور اندرونی آبادی ہنوز بہت زیادہ ہے۔ اور اس امر کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ موسےٰ
-----------------------------------------------------------------------------------------
(1) Juan
(2) Rodrigo Ponce de Leon
(3) Marquess of Cadiz
(4) Mddina Sidonia
(5) Marquess de Villena
(6) Alonzo de Augilar
(7) Hernando del Pulgar
جس آفتاب نے فاران کی پرنور چوٹیوں سے طلوع ہو کر ظلمات مغرب کو منور کر دیا تھا۔ یہ کتاب اس آفتاب کے غروب کی ایک دردناک تاریخ ہے۔ سرزمینِ اندلس میں اولوالعزمانِ عرب نے اپنے جاہ و جلال اور فضل و کمال کا جو علم بلند کیا تھا۔ یہ کتاب اس علم کے سرنگوں ہونے کی ایک اندوہ انگیز داستان ہے۔ تاریخ اسلام کے اس اہم دور کے واقعات ہماری زبان میں جس شخصیت کے طفیل منتقل ہوئے۔ اس کے حضور میں یہ ناچیز ترجمہ پیش کرتا ہوں۔ کیا میرے محترم بزرگ مولانا خلیل الرحمٰن صاحب مترجم اخبار الاندلس و نفح الطیب وغیرہ اس ناچیز کو شرف قبول عطا فرمائیں گے؟
میری قسمت سے الہی پائیں یہ رنگ قبول
پھول کچھ میں نے چنے ہیں ان کے دامن کے لئے
سید امتیاز علی تاجؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 3
دیباچہ
چند سال ہوئے مولوی خلیل الرحمٰن صاحب قبلہ نے جن کے نام نامی سے یہ ناچیز ترجمہ منسوب ہے، مجھے اس تاریخی ناول کو اردو میں منتقل کرنے کی طرف توجہ دلائی تھی۔
1311ھ میں جسٹس محمود مرحوم نے تہذیب الاخلاق میں ایک مختصر سی تمہید لکھ کر اس کتاب کا ترجمہ بالاقساط شائع کرنا شروع کیا تھا۔ لیکن نہ معلوم کیوں ان کی یہ کوشش تین فصلوں کے ترجمے سے تجاوز نہ کر سکی۔
اس کے بعد بعض دوسرے اخبارات و رسائل میں اس کا ترجمہ ہونا شروع ہوا۔ لیکن کہیں بھی ترجمہ ابتداء کی دو تین فصلوں سے آگے نہ بڑھا، اب گزشتہ دنوں لاہور کے ایک پرانے روزانہ اخبار نے غالباً ترجمہ کی دقتوں سے عاجز آ کر اس کا ایک خلاصہ نہایت غیر فصیح اور ناموزوں زبان میں شائع کر دیا ہے۔ اس کی وجہ سے گو اردو خوان حضرات نفسِ قصہ سے واقف ہو چکے ہیں۔ لیکن اس قطع برید نے ناول کی تمام خوبیوں کو برباد کر دیا ہے۔ اس لئے میں اس کا مکمل ترجمہ شائع کرنے کی ضرورت اب بھی سمجھتا ہوں۔
اب اس کتاب کا مکمل ترجمہ آپ کے پیش نظر ہے۔ مصنف کے انداز تحریر کی خصوصیت کو قائم رکھ کر کتاب کا تقریباً لفظی مگر مانوس و مطلب خیز اردو میں ترجمہ کرنا بے حد دشوار کام تھا۔ اور مجھے معلوم نہیں کہ میں اس کوشش میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں۔ بعض تراکیب اور اسلوب بیان شاید اردو میں کسی قدر اجنبی معلوم ہوں۔ لیکن میں نے قصداً اس خیال سے ان کو جائز رکھا کہ میں توسیع اردو کے خیال سے اپنی زبان میں ان کا مروج ہو جانا پسند کرتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 4
اردو میں ان کی گنجائش ہے یا نہیں۔ اس کا فیصلہ میں اہلی دہلی و لکھنؤ کی رائے سے زیادہ اردو کے ان ادیبان سحر نگار کی تحریروں پر چھوڑتا ہوں جن کی ادبی تصانیف میں بصورت قبول وہ آئندہ جگہ پائیں گے، اور بصورت ناپسندیدگی نظر نہ آئیں گے۔
کتابت کے بعض معجزوں اور سنگساز کی اکثر بےنیازیوں کا آپ سے زیادہ مجھ کو قلق ہے۔ لیکن کیا کیجے لیتھو پریس میں کسی طرح ان سے امان نہیں۔ عذر گناہ بد تر از گناہ نہ ہو، تو شاید آخر کتاب میں فہرست اغلاط کو دیکھ کر مطالعہ سے پہلے کتاب میں اصلاح کر لینا سہولت کا باعث ہو گا۔
میں آخر میں جناب ابو رشید عبدالمجید خاں سالکؔ بٹالوی سابق ایڈیٹر زمیندار اور پروفیسر سید احمد شاہ بخاری ایم اے، دونوں عزیز اور برادر محترم دوستوں کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے تمام ترجمے کا اصل انگریزی سے مقابلہ کرنے کی زحمت برداشت کی اور اپنے مفید مشوروں اور مناسب ترمیموں سے ترجمے کو زیادہ صحیح اور دل فریب بنا دیا۔
امتیاز علی تاجؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 5
فہرس
باب اول
فصل اول ۔۔۔ ساحر اور سپہ گر ۔۔۔ 3
فصل دوم ۔۔۔ قصر سلطانی ۔۔۔ 8
فصل سوم ۔۔۔ عاشق و معشوق ۔۔۔ 21
فصل چہارم ۔۔۔ باپ اور بیٹی ۔۔۔ 26
فصل پنجم ۔۔۔ یہودی ۔۔۔ 31
فصل ششم ۔۔۔ شیر جال میں ۔۔۔ 40
باب دوم
فصل اول ۔۔۔ شاہ ہسپانیہ کا خیمہ۔ بادشاہ اور پادری۔ ملاقاتی اور یرغمالی ۔۔۔ 47
فصل دوم ۔۔۔ کمیں گاہ۔ جنگ اور گرفتاری ۔۔۔ 62
فصل سوم ۔۔۔ بہادر وہمی کے قبضے میں ۔۔۔ 77
فصل چہارم ۔۔۔ ابو عبداللہ کی فطرت کی تفصیل۔ موسیٰ اپنی محبوبہ کے چمن میں ۔۔۔ 89
فصل پنجم ۔۔۔ ابو عبداللہ کی اپنی رعیت سے مصالحت ۔۔۔ 95
فصل ششم ۔۔۔ لیلےٰ اس کا نیا چاہنے والا۔ ہسپانیہ کے محکمۂ احتساب و محنہ کے پہلے مقتدا کا مرقع ۔۔۔ 98
فصل ہفتم ۔۔۔ مسند عدالت اور معجزہ ۔۔۔ 109
باب سوم
فصل اول ۔۔۔ ازابیلا اور یہودی دوشیزہ ۔۔۔ 119
فصل دوم ۔۔۔ یہودن کا اغوا جس میں تاریخ بیرونی حالات کو چھوڑ کر اندرونی معاملات کی خبر لاتی ہے ۔۔۔ 125
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 6
فصل سوم ۔۔۔ ساعت مقررہ اور مرد میدان ۔۔۔ 135
باب چہارم
فصل اول ۔۔۔ لیلےٰ قلعہ میں۔ محاصرہ ۔۔۔ 143
فصل دوم ۔۔۔ المامن کی مجوزہ مہم۔ تین اسرائیلی۔ صورت حالات ہر شخص پر مختلف اثر کرتی ہے ۔۔۔ 151
فصل سوم ۔۔۔ مفرور اور اتفاقی ملاقات ۔۔۔ 156
فصل چہارم ۔۔۔ المامن سنتا ہے۔ اور دیکھتا ہے۔ مگر یقین نہیں کرتا۔ کیونکہ تفکرات کی کثرت بے انتہا فہیم دماغ کو بھی کند کر دیتی ہے ۔۔۔ 163
فصل پنجم ۔۔۔ طوفانِ حوادث میں عروجِ خاشاک ۔۔۔ 171
فصل ششم ۔۔۔ ابوعبداللہ کی واپسی۔ فرڈی نینڈ پھر غرناطہ کے سامنے نمودار ہوتا ہے ۔۔۔ 179
فصل ہفتم ۔۔۔ آتش زدگی۔ ہزاروں دشمنوں کے درمیان ایک جذبہ کا جلال ۔۔۔ 182
باب پنجم
فصل اول ۔۔۔ معرکہ عظیم ۔۔۔ 191
فصل دوم ۔۔۔ مبتدیہ ۔۔۔ 207
فصل سوم ۔۔۔ شکست اور اطاعت کے درمیان وقفہ ۔۔۔ 218
فصل چہارم ۔۔۔ تنہا شہ سوار کی سرگزشت ۔۔۔ 229
فصل پنجم ۔۔۔ قربانی ۔۔۔ 237
فصل ششم ۔۔۔ واپسی۔ بلوہ۔ دغا اور موت ۔۔۔ 243
فصل ہفتم ۔۔۔ اختتام ۔۔۔ 255
عرصہ تک غرناطہ کے نامور مشیروں کے ہمراہ قبول اطاعت کا تحریری عہد نامہ اور شہر کی کُنجیاں مجھے لا کر دے۔ تو یہ کام کر۔ اور گو میں دُنیائے عیسائیت کا تنہا بادشاہ ہوں جو اس خطرے میں پڑنے کی جرأت کر رہا ہوں۔ تاہم میں تمام اُندلس میں اسرائیلیوں کے لیے یکساں قانون نافذ کروں گا۔ انہیں باشندگان ہسپانیہ کے سے حقوق دوں گا۔ اس کے علاوہ تجھے ایسے بلند رتبہ پر پہنچاؤں گا۔ جو تیری آرزوؤں اور حوصلوں کو پورے طور پر مطمئن کرنے کے لیے کافی ہو گا۔"
یہودی نے ادب سے سر جھکایا۔ اور اپنے لبادے کی جیب میں سے ایک طویل دستاویز نکال کر بادشاہ کے روبرو میز پر کھول دی۔
"فرڈی نینڈ اعظم! اس تحریر میں وہ شرائط درج ہیں جو ہم میں قرار پا گئی ہیں۔"
"کیون کمینے! کیا تجھ سے حیثیت کا شخص اس معاہدہ پر ہمارے شاہی دستخط کرا کر چاہتا ہے کہ جب چاہے عوام کو دکھائے۔ بادشاہ کے الفاظ ہپی اس کا عہد نامہ ہیں۔"
یہودی نے ہچکچائے بغیر کاغذ اُٹھا لیا۔ اور کہا، "حضور میری لڑکی کو واپس بلا دیں۔ کہ ہم رخصت ہوں۔"
بادشاہ نے دل میں کہا، "کنواری مریم کی قسم۔ یہ گدائے متکبر بہت ہی ہٹ دھرم ہے۔ اور پھر بآواز بلند کہا، "کاغذ مجھے دے۔میں دیکھوں۔"
اس کاغذ کے الفاظ پر سُرعت سے نظر ڈال کر فرڈی نینڈ کچھ جھجکا۔ قلم دوات لے کر عہد نامہ پر دستخط کئے۔ اور یہودی کو واپس دے دیا۔
اسرائیلی نے مشرقی آداب کے مطابق اسے تین بار چوما۔ اور پھر اپنے لبادے میں رکھ لیا۔
فرڈی نینڈ نے اسے متعجب اور متفحص نگاہوں سے دیکھا۔ گو وہ فطرت انسانی کا عالم تبحر تھا۔ لیکن اپنے اس مہمان کی پراسرار فطرت نے اسے سخت پریشان کر رکھا تھا۔ اور اُلجھن میں ڈال دیا تھا۔
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 61
اس نے متانت سے کہا۔ "میں ایسے شخص پر کس طرح اعتبار کر سکتا ہوں۔ جو ایک بادشاہ کی بات پر تو یقین نہیں کرتا۔ اور دوسرے بادشاہ کو بیچ ڈالنے پر آمادہ ہے۔"
المامن جو اپنے زمانۂ شباب سے فرڈی نینڈ سے بھی زیادہ زبردست اور مطلق العنان اور ذی الاقتدار حکم رانوں سے گفتگو کرنے اور ان پر دباؤ رکھنے کا عادی تھا۔ بولا، "اے بادشاہ اگر تو یہ یقین رکھتا ہے کہ اس معاہدہ میں ذاتی اور خودغرضانہ اغراض میرے محرک ہوئے ہیں۔ تو تو مجھے لالچ دے کر اور بھی زیادہ خدمات لے سکتا ہے۔ اور فطرت انسانی کا علم تجھے بتا دے گا۔ کہ تجھے ایک مستعد اور فرماں بردار غلام مل گیا۔ لیکن اگر تو یہ خیال کرتا ہے کہ میں نے ذلیل اور کمینہ جذبات کا اظہار کیا ہے۔ اور محض ذلیل قوت حاصل کرنے والوں سے کچھ بہتر خصوصیات پیدا کی ہیں۔ تو کیا تجھے مسرور نہ ہونا چاہیے۔ کہ حُسنِ اتفاق سے اس وقت تیرے پاس ایک ایسا شخص موجود ہے۔ جس کی ذہانت و قابلیت کو تو اپنا آلہ بنا سکتا ہے۔ اگر میں دوسرے شخص سے دغابازی کر رہا ہوں تو وہ میرا جانی دشمن ہے۔ کیا تو جو اپنی افواج کا مالک ہے۔ دشمن کو دغا نہیں دیتا؟ مُور تجھ سے زیادہ میرے دشمن ہیں۔ تو کیا محض اس لیے کہ میں دشمن کو دھوکا دیتا ہوں۔ دوست کی خدمت کے بھی قابل نہیں؟ اگر میں مُوروں میں تن تنہا اور اجنبی ہونے کے باوجود محلوں کے اندرونی رازوں سے واقف ہوں۔ اور مسلح آدمیوں کی تدبیروں اور کوششوں کو خاک میں ملا سکتا ہوں۔ تو کیا میں نے اس سے اس بات کا ثبوت نہیں دیا۔ کہ میں ایک ایسا شخص بھی ہوں۔ جسے ایک دُور اندیش اور دانا بادشاہ اپنا نہایت وفادار غلام بنا سکتا ہے۔"
فرڈی نینڈ نے لطافت سے مسکرا کر کہا، "میرے دوست! تو بہت ہوشیار منطقی ہے۔ فی الحال ہماری ملاقات ختم ہے۔ فی امان اللہ۔ پیریز!"
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 62
اردلی حاضرہوا۔
"لڑکی کو ملکہ کے پاس چھوڑ آیا؟"
"جہاں پناہ کے حکم کی تعمیل کر دی گئی۔"
"اس شخص کو پہرہ داروں کے اس دستہ کے پاس لے جا۔ جو اسے کیمپ میں لایا تھا۔ یہ ہمارے ظل عاطفت میں ہم سے رخصت ہو رہا ہے۔ خدا حافظ۔ ہاں ذرا ٹھہر۔ کیا تجھے یقین ہے کہ موسےٰ بن ابی غازان بادشاہ کے قید خانہ میں ہے؟"
"ہاں"
"مریم پاک پر خدا کی رحمت ہو۔"
جب یہودی رخصت ہو گیا۔ تو بادشاہ نے کسی قدر اضطراب سے کہا۔ "پادری ٹومس (1) کیا آپ نے ہماری گفتگو سُی ہے؟"
"ہاں بیٹا میں نے سب کچھ سن لیا۔"
"کیا آپ کی رگوں میں خون ہول سے جم نہیں گیا؟"
"ہاں مگر صرف اس وقت جب آپ نے کاغذ پر دستخط کئے۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میں ورغلانے والے شیطان کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں۔"
"خاموش! وہ اگر شیطان ہی تھا۔ تو اسے زیادہ دور اندیش ہونا چاہیے تھا۔ وہ ایسے معاہدہ پر یقین نہ کرتا۔ جسے اگر کلیسا ناجائز قرار دے دے۔ تو کوئی سیاہی یا قرطاس اسے جائز نہیں بنا سکتا۔ کیا آپ میرا مطلب سمجھ گئے؟"
"ہاں مجھے آپ کی معاملہ فہمی اور راست روہی پر اعتماد ہے۔"
"ہاں مجھے آپ کی معاملہ فہمی اور راست روی پر اعتماد ہے۔ؔ
بادشاہ نے کچھسوچ کر سلسلۂ گفتگو پھر شروع کیا، "تو نے مجھ سے سچ کہا تھا۔ کہ یہ کمینے یہودی اپنے مال و زر کی وجہ سے بہت زور پکڑتے جاتے ہیں۔ اب یہ برابر کے حقوق بھی لیں گے! ناہنجاز کافر؟"
پادری نے سنجیدگی سے قسمیں کھا کر کہا، "بیٹا! وہ جس نے تیری تدابیر
-----------------------------------------------------------------------------------------------------
(1) Tomas De Torquemada
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 63
اور زوربازو کو کامیاب کیا ہے۔ تیرے ہاتھوں سے اس قوت کا مواخذہ بھی کرے گا۔ جو اس نے تجھے سونپی ہے۔ کیا اس کے دوستوں اور دشمنوں اس کے پیروؤں اور اس کے صلیب دینے والوں میں کوئی امتیاز نہ ہو گا؟"
بادشاہ نے پادری کے شانہ پر ہاتھ رکھا۔ اور اپنے چہرہ پر ایک افسردہ تبسم پیدا کر کے کہنے لگا، "پادری صاحب۔ اس معاملہ میں اگر مذہب خاموش بھی ہوتا۔ جب بھی مصلحت کا اقتضاء بہت زبردست شئے ہے۔ یہودی مساوی حقوق طلب کرتے ہیں۔ جب لوگ اپنے فرماں رواؤں کے برابر حقوق طلب کیا کرتے ہیں۔ تو اس کمی تہ میں غداری مصروف کار ہوتی ہے۔ اور انصاف اپنی تلوار بے نیام کرتا ہے۔ مساوات! اور یہ متمول سودخوار، توبہ، توبہ۔ یوں تو وہ بہت جلد ہماری اقلیموں کو خرید لیں گے۔"
پادری نے تیز نگاہوں سے بادشاہ کو دیکھا۔ اور دھیمی آواز میں کہا، "بیٹا! مجھ تجھ پر اعتماد رکھتا ہوں۔" اس کے بعد آہشتہ سے خیمہ کے باہر چلا گیا۔
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 64
فصل دوم
کمیں گاہ، جنگ اور گرفتاری
غرناطہ کی وسیع وادی پر سپیدۂ سحر پھیل رہا تھا۔ کہ المامن پیچیدہ اور خاموش راستہ سے شہر کی جانب واپس پھرا۔ اب وہ ایک تاریک اور گُنجان نشیب میں تھا۔ جس پر درختوں کے جُھنڈ اور جھاڑیاں چھا رہی تھیں۔ اس کے درمیان تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر لمبے لمبے درخت صبح کی ساکن ہوا میں غمزدہ اور بیجاں کھڑے تھے۔ جوں ہی وہ اس جنگل سے (اگر اسے جنگل کہا جا سکے) باہر نکلا۔ اور غرناطہ کے سیاروں کی رفعت نے اس کے مطمع نظر پر اپنا سایہ ڈالا۔ تو درختوں کی تاریکی میں سے دو سیاہ آنکھیں اس کی آنکھوں میں گڑی ہوئی تھیں۔
المامن چونکا۔ دفعتاً رکھ گیا۔ اور اپنے خنجر کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ نووارد نے ہلکی سی مگر تیز سیٹی بجائی۔ جس کا جواب چاروں طرف سے دیا گیا۔ اور چشم زدن میں مُوروں کے ایک گروہ نے جو دہقانوں کے بھیس میں تھا، المامن کو گھیر لیا۔
جب وہ جنگلی اور وحشی شکلیں جو اسے گھور رہی تھیں۔ المامن کےمقابل آئیں۔ تو المامن نے اطمینان سے کہا، "کیوں صاحبو۔ کیا تمہارے خیال میں ایک تنہائی پسند درویش سے بھی خوف کھانے کی کوئی وجہ ہو سکتی ہے؟"
1491ء میں گرمیوں کا موسم تھا اور شاہِ فرڈی نینڈ اور ملکہ ازابیلا کی افواج نے شہر غرناطہ کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ رات زیادہ نہ گذری تھی۔ اور چاندنی اندلس کی شفاف فضا میں سے چھن چھن کر ہسپانی غنیم کے اس عظیم الشان خیمہ و خرگاہ پر جو شور و غوغا سے لبریز تھا، چپ چاپ برس رہی تھی۔ چاند کی دھندلی روشنی کوہِ سیرا نواد کی ان چوٹیوں کو جو برف کا نقرئی تاج پہنے کھڑی تھیں، جھک جھک کر چوم رہی تھی۔ اور اس کے دامن میں پھیلے ہوئے میدان کے پرفضا سبزے کی طراوت و تازگی نے جس پر انسان کی بربادی اپنا اثر نہ ڈال سکی تھی۔ اس عالی شان کہسار کے مقابل میں ایک شان تضاد پیدا کر رکھی تھی۔
غرناطہ کے بازاروں میں ابھی تک کہیں کہیں بے فکروں کی ٹولیاں نظر آتی تھیں۔ امیں سے بعض تو ایسے تھے جو شہر کے محاصرے اور آنے والی لڑائی سے غافل ہو کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 9
نہایت اطمینان و آسودگی سے موری بربط کے تار ہائے مرتعش سے سامعہ نوازی کر رہے تھے۔ یا کسی داستان گو کی شیوا بیانی کو ہمہ تن گوش ہو کر سن رہے تھے اور بعض ایسی انہماک آمیز حرکات اور پرجوش اشارات سے گفتگو کر رہے تھے، جنہیں مشرقی متانت و سنجیدگی ہر موقع و محل پر روا نہیں رکھتی۔ جو مقامات ایسے خوش فکروں کے جمگھٹوں کے لئے مخصوص تھے، وہاں تو یہ رونق تھی۔ باقی شہر پر بھیانک ویرانی اور سنسانی برس رہی تھی۔
اس وقت ایک شخص بازار میں تنِ تنہا جا رہا تھا۔ اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ اس نے دونوں ہاتھ اپنے قدم بوس چغہ میں دال رکھے تھے۔ اس کا استغراق کا یہ عالم تھا کہ گرد و پیش کے تمام مناظر و واقعات اس کے لئے کالعدم تھے۔ لیکن جو لوگ ادھر ادھر بیٹھے ہوئے تھے وہ ایسے منہمک نہ تھے کہ کوئی شخص پاس سے گزر جائے اور وہ بے خبر رہیں۔
چنانچہ انہیں میں سے ایک شخص نے اس کو دیکھ کر کہا "اللہ اکبر! یہ تو المامن ساحر ہے۔"
دوسرے نے اپنی ڈاڑھی پر ہاتھ پھیر کر کہا "اسی نے ابوعبداللہ کی دلیری اور جواں مردی کو اپنے سحر و افسوں سے ناکارہ کر دیا ہے۔ اگر میرا بس چلے تو اسے خوب ہی ذلیل کروں۔"
تیسرا جھجک کر کہنے لگا "لیکن کہتے ہیں کہ اس نے دعوےٰ کیا کہ انسان جب لڑ لڑ کر عاجز آ جائیں گے تو جنات کی فوجیں غرناطہ کی امداد کے لئے آئیں گی۔"
چوتھا نہایت متانت کے ساتھ دانشمندانہ انداز سے اس طرح بولا گویا اسے غیب کا علم ہے۔ "اللہ اکبر! تقدیر کا لکھا اٹل ہے۔"
المامن کی نسبت لوگوں کے خیالات کچھ ہی ہوں۔ اس سے مرعوب ہوں یا متنفر، اس سے سہمے رہتے ہوں یا اس سے امیدیں لگائے بیٹھے ہوں، بہر حال اس میں کچھ شبہ نہیں کہ جدھر سے وہ گزرتا تھا، لوگ اس کے لئے راستہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 10
چھوڑ دیتے تھے۔ اور دیکھنے والوں پر ایک سکوت کا عالم طاری ہو جاتا تھا۔ سُوق الزکاتین سے جو بڑے بازار کو قطع کرتا تھا۔ گزرتا ہوا یہ مشہور ساحر اس فصیل کے سامنے پہنچ گیا جو محل شاہی اور حصار الحمرا کے گرد کھنچی ہوئی تھی۔
محل کے دروازے پر پہرہ دار نے جھک کر اسے سلام کیا۔ المامن بےباکانہ محل کے اندر داخل ہوا۔ اور لمحہ بھر کے بعد خاموش اور گنجان درختوں نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔ درختوں کے درمیان جابجا عربی فواروں میں سے پانی چھلک رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان میں سے پارے کی دھاریں چاندنی میں سے اچھل اچھل کر نیچے گر رہی ہیں۔ درختوں کے اوپر عظیم الشان قلعہ کی بلندیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ داہنی طرف وہ شجر فی بُرج کھڑے تھے جن کی اصل و اساس کے سربستہ راز کے انکشاف میں قدیم تاریخ کے اوراق قاصر ہیں۔
المامن تھم گیا۔ اس تماشائے رنگ و بو پر نظر ڈال کر کہنے لگا۔ "کیا باغِ ارم اس سے زیادہ دلآویز ہو گا؟ کیا ایسے لطیف مقام کو نصرانیوں کے ناپاک قدم پامال کریں گے؟ کیا مضائقہ ہے کہ ایک مذہب دوسرے مذہب کا دشمن ہوا کرتا ہے۔ ایک قوم دوسری قوم سے الجھتی چلی آتی ہے۔ لیکن اب وہ زمانہ آ رہا ہے۔ کہ تاریخ اپنے آپ کو پھر دوہرائے گی۔ مذہب دیرینہ اور قوم پارینہ پھر اقبال مند ہو گی۔ اور ہماری طاقت کا قرنا پھر پھونکا جائے گا۔"
ان خیالات نے ساحر کو خاموشی کے ناپید کنار سمندر میں ڈبو دیا۔ اور وہ دیر تک ان ستاروں کو غور سے دیکھتا رہا۔ جن کی محفل کی رونق تاریکیٔ شب کے ہر قدم کے ساتھ بڑھ رہی تھی۔ جن کا نور ہنستے ہوئے پانی کے ساتھ اٹکھیلیاں کر رہا تھا، اور چپ چاپ پتوں کے کناروں پر کھڑا مسکرا رہا تھا۔ وہ آسمان کی طرف یوں ٹکتکی لگائے ہوئے تھا اور اس کے استغراق کا یہ عالم تھا کہ ایک موری قوم کا نوجوان اس کے پاس پہنچ گیا اور اسے خبر بھی نہ ہوئی۔
نوجوان کے اسلحہ چمک رہے تھے اور اس کے سفید برف سے عمامہ پر ٹکے ہوئے بیش بہا زمرد جگمگا رہے تھے۔ یہ نوجوان اپنے پست قامت اور دبلے پتلے ہم قوموں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 11
دراز قامت تھا اور گو اپنی قوم میں قوی ہیکل شمار کیا جاتا ہو، مگر ایسا نہ تھا کہ بلادِ ہسپانیہ کے نامور سپاہیوں کی برابری کر سکتا ہو۔ اس کی شخصیت میں ایک ایسی صولت اور تمکنت مضمر تھی کہ بڑے بڑے مغرور مسیحی شہسواروں کے مجمع پر بھی اس کا رعب چھا جاتا تھا۔ چلتے وقت اس کے قدم اس شان بے نیازی سے اٹھتے تھے گویا زمین کی تحقیر کر رہا ہے۔ اس کے بلند سر اور ہرن کی سی گردن سے وہ مافوق البیان شان و شوکت عیاں تھی کہ عالی نسبی، شرافت اور حاکمانہ فطرت کا مجسمہ اس سے بہتر تصور نہیں ہو سکتا۔ نوجوان المامن کے قریب آ کر اس سے چند قدم کے فاصلے پر دفعتاً رک گیا۔ کچھ دیر تک اسے خاموش کھڑا دیکھتا رہا۔ اور آخر کار جب زبان کھولی تو نہایت سردمہری سے طنز کے لہجے میں کہنے لگا۔
"تاریک اسرار کے باطل دعوے دار! کیا تو اقوام و افراد کی تقدیر کو جسے رسول خداؐ نے سپہ سالاروں کے دماغ اور سپہ گروں کی قوت سے منسوب کیا تھا، تاروں میں دیکھ رہا ہے؟"
المامن نے آہستہ سے مڑ کر اس شخص کو دیکھا جس نے اس کے سلسۂ خیال کو یوں توڑ دیا تھا اور اسے پہچان کر جواب دیا "شہزادے! میں غور کر رہا تھا کہ اس عالمِ کون و فساد میں کتنے ہی انقلابات ایسے رونما ہوئے جو کرۂ زمین کو اس کے مرکز تک ہلا گئے۔ لیکن ان تاروں کی نگاہیں اب تک خاموشی کے ساتھ سب کو گھورتی رہیں۔ نہ کچھ ہمدردی کی اور نہ کچھ تبدیلی ہی کر سکیں۔"
مُور نے المامن کے الفاظ کو دہرا کر کہا "نہ کچھ ہمدردی کی اور نہ کچھ تبدیلی ہی کر سکیں۔ اور پھر بھی تیرا عقیدہ ہے کہ زمین پر ان کے مخلتف اثرات پڑتے ہیں؟"
المامن نے مسکرا کر کہا "یہ فرمانا تو مجھ پر بہتان لگانا ہے۔ آپ اپنے نیاز مند کو نجومیوں کے برخود غلط طبقے میں کیوں داخل کئے دیتے ہیں؟"
میں نجوم کو ہاروت ماروت 1 دو فرشتوں کے علم کا ایک شعبہ سمجھتا ہوں۔
۔۔۔۔۔
1۔ علمِ سحر۔ جو فرشتے یہ علم سکھاتے تھے، ان کا نام قرآن میں آیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس علم کی تلقین کی بنا پر وہ فرشتے اب تک بابل قدیم میں اسیر ہیں۔ گو وہ شاذ ہی وہاں پر دکھائی دیتے ہیں۔ مگر ان سے اب بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ جلال الدین یحیٰ ترجمہ قرآن از سیل (مصنف)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 12
"ممکن ہے یہ درست ہو اور اگرچہ میں بابل قدیم کی فصیل کے نیچے آدھی آدھی رات تک بھٹکتا پھرا ہوں۔ تاہم اس علم سے قطعی نا آشنا ہوں۔"
مور نے متعجب ہو کر جواب دیا "تو تیری شہرت نے ہمیں دھوکا ہی دیا؟"
المامن نے نہایت سکون کے ساتھ چلتے ہوئے کہا "شہرت کبھی صداقت کی دعوے دار نہیں ہوتی۔ اچھا شہزادہ۔ خدا حافظ۔ میں سلطان کے پاس جا رہا ہوں۔"
"ٹھہر میں ابھی اس کے حضور سے آ رہا ہوں اور اس کے دل میں ان خیالات کو برانگیختہ کر آیا ہوں جو سلطانِ غرناطہ کے شایان شان ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ تجھ سا آدمی جو تیغ و تبر سے قطعاً بے گانہ ہے، ان حیات افروز خیالات میں جا کر مخل ہو۔"
المامن نے جواب دیا۔ "عالی نسب موسےٰ۔ یہ اندیشہ نہ کر کہ تو جو روح ابوعبداللہ کے سینے میں پھونک آیا ہے، اس کا اثر میری گفتگو سے زائل ہو جائے گا۔ افسوس اگر میرے مشورے پر کان دھرے جاتے تو آج دلاورانِ غرناطہ میں موسےٰ کا اتنا تذکرہ نہ ہوتا، جتنے سلطان کے گیت گائے جاتے۔ لیکن تقدیر نے یا خدا ن ے ایک زوال پذیر خاندان کے تخت پر ایک ایسے شخص کو بٹھا دیا ہے جو بہادر ہے مگر بے دست و پا ہے۔ دانشمند ہے لیکن تخیل پرست۔ جب آپ اس کی سرشت سے بخوبی واقف ہی، پھر مجھ پر بدگمانی کرنا بے انصافی ہے۔"
موسےٰ دیر تک المامن کے چہرے کو غور کی نظروں سے دیکھتا رہا اور پھر اپنا ہاتھ آہستہ سے ساحر کے بازو پر رکھ کر کہنے لگا "اے اجنبی! اگر تو نے ہمیں دھوکا دیا تو یہ سمجھ رکھنا کہ یہ قوی بازو جو بے شمار دشمنوں کے خود پارہ پارہ کر چکا ہے، ایک غدار کی دستار کو سلامت نہ چھوڑے گا۔"
المامن نے بے باکی کے ساتھ جواب دیا "مغرور شہزادے! تو بھی یہ سمجھ رکھ کہ میں اپنی نیت کے معاملے میں صرف خدائے پاک کے حضور میں جواب دہ ہوں۔ اور انسان کے مقابلے میں اپنے افعال کی حمایت کر سکتا ہوں۔"
یہ کہہ کر ساحر نے اپنی لمبی اور لٹکتی ہو عبا کو اپنے گرد لپیٹا اور سر سبز جھاڑیوں میں غائب ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتاب کا صفحہ 8، 9 موجود نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 13
سمجھنا چاہیے۔ گویا دانشمندی اسی کا نام ہے۔ لیکن اگر میں ان اصولوں پر عمل کروں۔ تو کیا مجھے بھی لوگ دانشمند کہیں گے؟ آہ۔ نہیں۔ تمام دنیا مجھے مجنون اور دیوانہ کہے گی۔ ہمیشہ سے یوں ہی ہوتا آیا ہے کہ عقل و فراست جن خیالات کو معقول سمجھ کر دل کو ان سے لبریز کر دیتی ہے۔ عمل ان کے رنگ میں رنگے جانے سے متنفر ہوتا ہے۔ آہ۔ اے رسولِ پاکؐ۔ اگر انسانوں کی عیاری ، ان کی حماقت پر سبقت نہ لے گئی ہوتی تو انسان کی بےوقوفی کی کیا حد ہوتی!"
نوجوان سلطان یہ کہہ کر بے چینی سے تکیہ پر گڑ پڑا۔ یہ الفاظ ایسے بادشاہ کے لئے جس کا تاج اس کے سر پر ڈگمگا رہا ہو، ضرورت سے زیادہ فلسفیانہ تھے۔
چند لمحے متفکر رہ کر وہ اور بھی بے قرار ہو گیا۔ گھبرا کر چاروں طرف دیکھنے لگا اور بولا۔ "میری روح موسیقی کے سمندر میں ڈوب جانا چاہتی ہے۔ وہ عالم خیال کے راستوں پر سفر کرتے کرتے تھک گئی ہے اور اب صرف نغمہ و زمزمہ کا آبِ شیریں تھکے ماندے مسافر کو فرحت و اطمینان بخش سکتا ہے۔
سلطان نے تالی بجائی۔ معاً بارہ دری سے ایک لڑکا نکل کر سامنے آ گیا اور سلطان کے ایک نہایت ہلکے سے اشارے پر جسے کوئی بمشکل دیکھ سکتا تھا وہ نگاہوں سے غائب ہو گیا۔ تھوری دیر بعد اس پرستان کے ستونوں کے درمیان اور چھلکتے جھرنوں کے پاس نازنینانِ عرب کے ننھے ننھے پاؤں رقص کرتے آ رہے تھے۔ وہ زرق برق پشوازیں پہنے ہوئے تھیں، جن کی دلآویزی ان کے بازؤں کی عریانی سے اور بھی دوبالا ہو رہی تھی۔ وہ نہایت خاموشی سے اس خنک، فرحت بخش اور ارمان انگیز عشرت گاہ میں جگمگاتی ہوئی داخل ہوئیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ مشرقی سحر و افسوں کے زور سے چند پریاں آسمان سے اتر آئی ہیں۔ کہ ایک نوجوان سلیمان کی خلوت کی گھڑیوں کو اپنے زمزمۂ ترنم سے لبریز کر دیں۔ ان کے ہمراہ ایک نازنین تھی جس کا قد اگرچہ اوروں سے کچھ چھوٹا تھا مگر حسن بے مثال تھا۔ وہ اپنے ہاتھوں میں ایک ہلکا سا موری بربط تھامے ہوئے آئی۔
اس کے خوشنما اندازِ قامت اور دل فریب ایشیائی خط و خال پر نگاہ پڑتے ہی ابو عبداللہ کے حسین و جمیل چہرے پر ایک خفیف دلآویز تبسم نمودار ہوا۔ وہ تنہا سلطان کے قریب آئی اور ادب و حیا سے اس کے ہاتھوں پر بوسہ دیا اور پھر اپنے ساتھیوں میں شامل ہو کر یہ گیت گانا شروع کیا جس کے ہر سُر اور ہر لفظ پر رقاصہ لڑکیوں کے پاؤں تال دیتے تھے۔ اور جب الاپ کے وقت وہ سب باہم مل کر گاتیت ھیں اور اپنے اپنے باجے کے نقرئی گھنگور ہلاتی تھیں، تو کمرہ موسیقی سے معمور ہو جاتا تھا۔
امینہ کا گیت 1
اے نغمۂ نرم و خوش ادا چل
اے نقرئی موج جاں فزا چل
اے باد صبا تو اپنے ہمراہ
گلبرگِ سرود و نغمہ بے جا
یہ کشتیٔ نازک و معطر
لے جا تو اسے بجانِ دلبر
لے جا تو اسے نسیم لے جا
ہم پر ہے کھلی بہارِ الحاں
جوں شاخو درخت باغ رضواں
جن پر کہ ہیں گھنگرو لٹکتے
اور ہلکے ہوا سے ہیں وہ بجتے 2
ہم پھرتی ہیں جبکہ رقص کرتی
نغمہ کی ہیں ہم سے کلیاں جھڑتی
جنت ہے وہیں ہے جانا
۔۔۔
1۔ از جسٹس سید محمد (مرحوم)
2۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ بہشت کے درختوں پر نہایت عمدہ موسیقی پیدا کرنے والی گھنٹیاں لٹک رہی ہیں اور عرش سے جو ہوا چلتی ہے اس سے ہلتی ہیں۔ (مصنف)
اے میٹھی صدا جسے ہوں سنتی
اے کام کہ تجھ سے میں بھی ہوتی
اور تیری طرح میں اس کو بھاتی
تو دل ہی میں اس کے بیٹھ جاتی
جب ہوتے خیال تازہ اس کے
میں دل ہی میں رہتی اس کے بس میں
اس طرح اخیر ہوں تو بہتر
گانا بجانا موقوف ہو گیا۔ رقاصہ لڑکیاں ایک خوش آئند ادا کے ساتھ بے حس و حرکت اور خاموش کھڑی ہو گئیں۔ گویا کہ کسی کے سحر سے وہ وسب سنگِ مرمر کے بت بن گئی تھیں۔ مگر وہ نو عمر مغنیہ سلطان کے قدموں میں ایک گدیلے پر آ کر خاموش بیٹھ گئی۔ اور اشتیاق میں ڈوبی ہوئی نگاہیں شاہنشاہ کی افسردہ آنکھوں میں دالی۔ اسی وقت ایک شخص ہجرے میں کھڑا ہوا دکھائی دیا۔ جس کی آمد کا علم کسی کو نہ ہوا تھا۔
یہ شخص میانہ قامت تھا اور گو دبلا تھا مگر اس کے قوٰے مضبوط معلوم ہوتے تھے۔ اس نے سیاہ رنگ کی ایک ڈھیلی ڈھالی عبا پہن رکھی تھی جس کی وضع بالکل ارمنی چغے کی سی معلوم ہوتی تھی۔ عبا کے نیچے وہ ایک شوخ ارغوانی رنگ کی صدری پہنے ہوئے تھا۔ کمر میں ایک چوری پیٹی بندھی ہوئی تھی جس میں ایک طلائی کلید لٹک رہی تھی اور بائیں پہلو میں ایک خمدار خنچر کا مرصع قبضہ دکھائی دے رہا تھا۔ اس شخص کے خط و خال اندلس کے موروں سے کچھ واضح مگر شاندار تھے۔ پیشانی کشادہ اور بلند تھی۔ آنکھیں سیاہ اور غیر معمولی طور پر بڑی اور روشن تھیں۔ اس کی ڈاڑھی کے بال چھوتے، سیاہ، چمکیلے اور کی طرف بل کھائے ہوئے تھے اور موٹے موٹے ہونٹوں کے سوا جن پر مستقل مزاجی اور بلند ہمتی برستی تھی، چہرے کے باقی نچلے حصے کی رازداری کر رہے تھے۔ اس کی ناک اونچی، خوبصورت، اور خمدار تھی۔
اس کا سر جو اس کے قد و قامت کے تناسب سے کچھ بڑا معلوم ہوتا تھا، عالی ہمتی اور قوی مزاج کا پتا دیتا تھا۔ بادی النظر میں یہ شخص بمشکل اڈھیر عمر معلوم ہوتا تھا لیکن بغور دیکھنے پر اس کی پیشانی کے اوپر اور آنکھوں کے گرد گہری گہری جھریاں پڑی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔ جن سے اس کی سِن رسیدگی کے آثار نمایا تھے۔ ھبادشاہ کے حضور میں وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھے خاموش اس بات کا منتظر تھا کہ بادشاہ کی نظر اس پر پڑ جائے۔
اسے زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا۔ جو نازنین بادشاہ کے قدموں میں بیٹھی تھی اس کی آنکھوں اور اس کے حرکات نے ابوعبداللہ کی نگاہوں کو اس اجنبی کی جانب متوجہ کر دیا۔ اور جب بادشاہ کی نگاہیں اس پر پڑیں تو خوشی سے اس کا چہرہ چمک اٹھا۔
ابو عبداللہ نے خوش ہر کر اسے بلایا۔ اور رقاصہ لڑکیوں کو چلے جانے کا اشارہ کیا۔
وہ مغنیہ جو سلطان کے قدموں میں بیٹھی تھی۔ کہنے لگ "اے دل و جان کے مالک! کیا میں بھی نہ ٹھہروں؟ تیری بلبل تو اپنے آشیانے ہی میں مسرور ہے۔"
بادشاہ نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور اس کی لہراتی ہوئی کاکُلِ پیچاں پر محبت سے ہاتھ پھیر کر کہا "جان سے پیاری، امینہ! تجھے صرف میری عیش و عشرت کی ساعتوں کی رفیق حال بننا چاہیے۔ ملک داری کی دماغ سوزیوں سے تجھ کو کیا واسطہ؟ عندلیب ابھی ابھی اپنا آخری نغمہ حضور ماہتاب میں پیش نہ کر چکی ہو گی کہ میں تیرے پاس آ جاؤں گا۔" امینہ آہ بھر کر اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنی ہمجولیوں کے ہمراہ چلی گئی۔
جب بادشاہ اور المامن اکیلے رہ گئے تو بادشاہ نے کہا "میرے رفیق! تیری خوشگوار نصیحتیں اکثر میرے دل کی بےتابی و بےقراری کو سکون و اطمینان سے بدل دیا کرتی ہیں۔ لیکن موجودہ وقت میں سکون و سکوت نہایت سنگین جرم ہے۔ میں کیا تدبیر کرو؟ کیسے مقابلہ کروں؟ کیونکہ جد و جہد کروں؟ ابو عبداللہ کی پیدائش کے وقت لوگوں نے اس کے نام کے ساتھ الزغیبی1 کا لقب ٹھیک موزوں کیا تھا۔ قبل اس کے کہ میں بدنصیبی سے رہائی پانے کے لئے کوئی مؤثر دعا مانگ سکوں
۔۔۔۔
1۔ بد بخت (مصنف)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 17
سیاہ بختی نے میری پیشانی پر اپنی مہر لگا دی۔ میرے تند مزاج باپ کو جس کی غضب آلود پیشانی ملک الموت کی درشتی سے کچھ کم نہ تھی۔ مجھ سے اس وقت بھی نفرت تھی۔ جب میں معصومیتِ طفلی کے گہوارے میں تھا۔ جوانی میں باغیوں نے میرے منشاء کے خلاف میرے نام سے بغاوت کی۔ میرے باپ نے مجھے زندانی کر دیا۔ ہر وقت میری نگاہوں کے سامنے یہی ہولناک تصور رہتا تھا کہ میرا خوفناک انجام زہر ہلاہل کے ایک جام یا خنچرِ خونخوار کے ایک وار پر ہو گا۔ میری مخلصی صرف میری مادرِ مہربان کی عقل و فراست کی ممنون احسان ہے۔ جب ضعف و ادبار سے پادشاہ کا فولادی عصائے سلطنت ٹوٹ گیا تو میرے چچا الزغل نے مجھے تخت و تاج سے محروم کر کے میرا وہ حق سلب کر لیا جو دستِ فطرت نے میرے نام لکھا تھا۔ میں نے علانیہ جنگ اور خفیہ غداری کی حالت میں حصول تاج و تخت کی خاطر کشمکش کی اور آج کہ میں کل غرناطہ کا بادشاہ ہوں۔ مجھے کس قدر توقع تھی کہ لوگوں کے دلوں سے میرے چچا کی قدر و وقعت مٹ جائے گی کیونکہ وہ عیسائیوں سے مل گیا اور ان کفار کے زیرِ اقتدار ایک چھوٹی سی ریاست پر قانع ہو گیا ہے۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ میری ناشاد رعایا نے الزغل کا جرم بھی مجھ سے منسوب کر دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر میں کاہلی اور غیر مستعدی سے کام نہ لیتا تو میرا چچا کبھی عیسائیوں کی اطاعت قبول نہ کرتا۔ جب میں نے حریف کے ہاتھوں سے مخلصی پائی تو میری رعایا مجھ پر لعنت بھیجتی ہے۔ اور مجھ کو اس الحمرا کے قلعے میں نظر بند کر رکھا ہے۔ مجھ میں اتنی جرأت نہیں کہ اپنی افواج کا سپہ سالار بن کر اپنی رعایا کا مقابلہ کروں۔ میری قوت و ہمت تو خود مجھ سے چھین لی اور اب مجھے بزدل اور متلوّن مزاج کہتے ہیں۔ جس طرح اس سامنے چٹان سے پانی بہا چلا جا رہا ہے۔ اور چٹان میں اس کو روکنے کی قوت نہیں، اسی طرح میں دیکھتا ہوں کہ سلطنت کے طوفان کا روکنا بھی میرے بس کا نہیں رہا۔"
جب نوجوان سلطان یہ کہہ رہا تھا تو اس کی آواز سے درد آمیز جوش ابل رہا تھا۔ اور وہ اپنی قلبی پریشانی کی وجہ سے حجرے میں نہایت سرعت اور بےچنی سے ٹہلتا جاتا تھا۔
المامن نے اس کی اس حالت کو سرد مہری کے ساتھ دیکھا۔ اس کی آنکھیں ساکن تھیں اور لبوں پر سکوت۔
جب ابو عبداللہ اپنی تقریر ختم کر چکا تو المامن بولا "ضیاء المسلمین کاتبِ تقدیر نے انسان کی قسمت میں نہ دائمی رنج لکھا ہے نہ دوامی خوشی۔ ہمارے مطلع قسمت کے لئے تاریک بادل اور درخشاں آفتاب دونوں یکساں طور پر ناگزیر ہیں۔ اگر تو بچپن میں صعوبتیں جھیل چکا ہے، تو سمجھ لے کہ تیری بدبختی کی رات گزر چکی۔ اب تیرے شباب کا آفتاب شان و شوکت کے رنگ میں طلوع ہو گا اور تیری پیری عیش و وقار کا پیام لائے گی۔"
ابو عبداللہ نے بےتاب ہو کر کہا "تم تو ایسی باتیں کرتے ہو جیسے فرڈی نینڈ کی افواج میری فصیلوں کے نیچے موجود ہی نہیں؟"
المامن نے جواب دیا "سنخرب کی افواج بھی کثیر التعداد اور طاقتور تھیں۔ پھر ان کا کیا انجام ہوا؟"
بادشاہ نے متانت سے اور کچھ طنزیہ طور پر کہا "اے دانشمند! ہم مسلمانانِ اندلس مشرق کے رہنے والوں کی طرح اندھا دھند مذہبی دیوانگی میں گرفتار نہیں ہیں۔ ہم پر علوم و فلسفہ کی شعاعیں چمک چکی ہیں اگر ہماری قوم کے عقیل و فہیم لوگ عوام الناس کے من گھڑت افسانے اور دور از قیاس قصے بظاہر مان لیتے ہیں تو یہ محض ان کی دانشمندانہ مصلحت ہے۔ ضعف اعتقاد کا اس میں ذرا دخل نہیں۔ اس لئے میرے سامنے مذاہب قدیمہ اور اقوام پارینہ کی تمثیلات کا ذکر نہ کر۔ عہد حاضر کی دنیا کے لیے کارکنانِ قضا و قدر صرف انسان ہیں۔ ملائک نہیں۔ اور اگر میں اس وقت کا منتظر رہوں کہ فرڈی نینڈ کا حشر بھی سنخرب کی مانند ہو تو گویا میں اس بات کا انتظار کروں گا کہ صلیبی علم میرے بروجِ شنجرفی پر لہرائیں۔"
المامن نے کہا "اگر جہاں پناہ دین کے مجنونانہ جوش کو تسلیم نہیں فرماتے تو کیا ظلم و استبداد کی دیوانگی کو بھی نہیں مانتے؟ گو آپ عبرانیوں کے عقائد پر ایمان نہیں رکھتے۔ لیکن آپ عرب کی اس قدیم اور قریب النسل قوم یعنی عبرانیوں کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 19
خاک میں ملائے دیتے ہیں۔ آپ کے قاضی ان پر فتوے لگاتے ہیں۔ آپ کے جاسوس، آپ کے سپاہی اور آپ کی تمام رعایا انہیں ایذا پہنچاتی اور ان پر جور و ستم روا رکھتی ہے۔"
ابو عبداللہ نے بلند آواز سے کہا "وہ زرپرست یہودی اسی انجام کے مستحق ہیں۔ سونا ان کا خدا ہے، اور بازار ان کا وطنِ مالوف۔ اس وقت جب کہ قومیں رو رہی ہیں اور ملک چیخ رہے ہیں، انہیں صرف یہی فکر دامن گیر ہے کہ تجارت کے عروج و زوال پر کیا اثر پڑے گا۔ وہ زمانے بھر کے چور ہیں۔ جب ان کا ہاتھ ہر شخص کی جیب کے درپے ہے تو پھر وہ لوگوں کے ہاتھوں کو اپنی جان کے درپے دیکھ کر کیوں متعجب ہوتے ہیں؟ وہ تو قبیلہ حنیف سے بھی بد تر ہیں جو قحط کے زمانے میں اپنے معبود کو کھا جاتے ہیں۔ یہ موسےٰ کی امت ایسی بے حیا ہے کہ ایک کھجور کی گھٹلی کے عوض میں سات آسمان بیچنے کو تیار رہیں۔"
المان نے جواب دیا "تمہارے قوانین ہی ایسے ہیں کہ ان لوگوں میں ہوسِ زر کے سوا اور کسی چیز کی امنگ پیدا نہیں ہو سکتی۔ اور جس طرح ایک پودا ٹیڑھا بینکا ہو کر اور اپنے تنے کو ہر قسم کی روک سے بچار کر اپنا سر آفتاب کی جانب بلند کرتا ہے، اسی طرح دماغِ انساں بھی اپنے لئے راستہ نکالتا ہے۔ اور جب عالی ہمتی کی سیدھی اور جائز راہ اس پر بند کر دی جاتی ہے تو وہ اپنے عناصر اصلی سے جا ملتا ہے۔ خواہ وہ طوفان حکومت ہو یا شعاعِ عزت۔ یہ یہودی جب اپنی پاک مادرِ وطن کے آغوش میں تھے تو تاجر نہ تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب انہوں نے تمہارے ہی آبا و اجداد کی عربی افواج کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا اور قحط کے عالم میں اپنی ہڈیوں سے گوشت الگ کر لیا تھا۔ لیکن یہ گوارا نہ کیا کہ اپنا کوئی ایسا شہر جو غرناطہ سے زیادہ غیر محفوظ ہو ان فوجوں کے حوالے کر دیں جو ہسپانیہ کے سیلانی سرداروں سے بھی بہت زیادہ طاقت رکھتی تھیں۔ مگر خیر یہ وقت ان قصوں کا نہیں ہے۔ اگر حضور فرشتوں کی اعانت سے منکر ہیں تو کیا فانی انسان کی عقل پر اب تک اعتقاد رکھتے ہیں؟"
ابو عبداللہ نے جواب دیا "بےشک اس لئے کہ فرشتوں کی نسبت مجھے کچھ علم نہیں۔ لیکن انسانوں کی تدابیر کو خوب جانتا ہوں۔ اے المامن! میرا آتش مزاج عزیز موسےٰ آج شام کو میرے پاس آیا تھا۔ اس نے مجھے اس بات پر اکسایا کہ میں اپنی رعایا کا خوف دل سے نکال دوں، جس کی وجہ سے میری بیتاب شجاع روح ان دیواورں کے اندر مقید ہے۔ اس نے مجھے اس امر پر آمادہ کیا ہے کہ وہ سامنے جو تلوار اور ڈھال لٹک رہی ہے اسے باندھ کر سردارانِ غرناطہ کا افسر بنوں اور دیویرمبلا کے میدان میں جا پہنچوں۔ ان خیالات سے میرا دل سینے میں اچھلنے لگتا ہے۔ بہر حال اگر میں زندہ نہیں رہ سکتا تو ایک بادشاہ کی طرح مر تو سکتا ہوں۔
المامن نے بجھے ہوئے دل سے کہا "یہ باتیں تو نہایت عالی ہمتی کی ہیں۔"
"تو تم میرے ارادے کی تائید کرتے ہو؟"
"بادشاہ کے ہوا خواہ اس کے مرنے کے ارادے کو پسند نہیں کر سکتے۔"
ابو عبداللہ نے آواز بدل کر رکہا "اوہو تو کیا سمجھتا ہے کہ اس جد و جہد اور اس کشاکش میں میری قسمت میں موت ہی لکھی ہے؟"
"یہ تو ساعت کی سعادت و نحوست پر منحصر ہے کہ آپ کو فتح ہو یا شکست۔"
"اور وہ ساعت؟"
"ابھی نہیں آئی۔"
"کیا تو ستاروں سے ساعت معلوم کر لیتا ہے؟"
"ایسی بےہودہ سادہ دلی مُوری نجومیوں کو مبارک رہے۔ آپ کا خادم تو ان ستاروں میں وہ جہان دیکھتا ہے جو اس کرۂ ارض سے کہیں بڑے ہیں۔ جن کی روشنی نہ کبھی معدوم ہو سکتی ہے نہ مدھم۔ خواہ کرۂ ارض کائنات کی فضائے بے پایاں سے بالکل معدوم ہو جائے۔"
ابو عبداللہ نے کہا "اے پراسرار شخص! یہ قدرت تو نے کہاں سے پائی۔
اور تجھ کو یہ آئندہ کا حال معلوم کرنے کا علم کہاں سے حاصل ہوا؟"
المامن بادشاہ کی طرف بڑھا جو اب کھلے جھروکے میں کھڑا تھا اور ڈارو کی ندی کی طرف اشارہ کر کے بادشاہ سے کہنے لگا۔
"دیکھ اس ندی میں وہ عنصر بہہ رہا ہے جس میں انسان نہ زندہ رہ سکتا ہے اور نہ سانس لے سکتا ہے۔ اور اوپر دیکھ۔ اس لطیف اور بے پایاں ہوا میں ہمارے قدم جم نہیں سکتے۔ تمام عالم کی افواجِ قاہرہ بھی ان پر اپنا تسلط قائم نہیں کر سکتیں۔ لیکن علم کی ایک ذرا سی کوشش سے مچھلیاں اور پرند فضا اور سمندر میں رہنے والی ہستیاں، زندگی کی ایک ادنےٰ سی ادنےٰ مسرت کے سرانجام دینے میں کام آتی ہیں۔ یہی حال سحر کے صحیح علم کا بھی ہے۔ کیا تو سمجھتا ہے کہ زمین کی سطح تو اس قدر زندہ ہستیوں سے بھری پڑی ہے اور زمین کے کشادہ مرکز میں اور اس وسیع فضا میں کوئی جاندار نہیں بستا؟ جس طرح ماہی گیر مچھلیوں کو جال میں پھنسا لیتا ہے، جس طرح شکاری پرندوں کو اسیرِ دام کر لیتا ہے اسی طرح ہم اپنے انسانی فن اور خدا داد ذہانت سے ان ہستیوں کو اپنا مطیع و منقا بنا سکتے ہیں جن کے عالم و عناصر میں اس مادی جسم کے ساتھ داخل نہیں ہو سکتے اور جس کو ہمارے حواس کثیف محسوس نہیں کر سکتے۔ بس یہی میرا فن ہے۔ دوسرے کسی عالم کا حال مجھے معلوم نہیں لیکن اس دنیا کی چیزوں کے متعلق خواہ اوہ انسان ہوں اور خواہ تمہاری روایات کے مطابق جنات ہوں، میں نے کچھ علم حاصل کیا ہے۔ آئندہ کی نسبت میں خود بے خبر ہوں۔ مجھے علم غیب حاسل نہیں۔ لیکن میں اپنے عمل فسوں گری سے ایسی ہستیوں کو بیدار کر سکتا ہوں جن کی نظیریں زیادہ عمیق اور جن کی فطرت میں خداد داد ودیعتیں زیادہ رکھی گئی ہیں۔"
ابو عبداللہ کے دل پر ان باتوں کا اتنا اثر نہیں پڑا تھا جتنا اس کی خوفناک طرزِ گفتگو اور پر رعب چہرے نے ڈالا تھا۔ وہ کہنے لگا "تو مجھے اپنے دعوے کا ثبوت دے"
المامن نے جواب دیا "سلطان کا حکم میرے لئے بمنزلۂ قانون ہے۔ میں حکم کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 22
تعمیل پر آمادہ ہوں۔ کل رات میں آپ کا انتظار کروں گا۔"
"کہاں؟"
المامن نے ایک لمحہ تامل کیا اور پھر کوئی فقرہ آہستہ سے بادشاہ کے کان میں کہا جسے سن کر ابو عبداللہ چونک اٹھا۔ اور اس کا رنگ فق ہو گیا۔
"وہ تو بہت ہولناک مقام ہے۔"
"مگر اے سلطان! جب تک فرڈی نینڈ قلعہ کی دیواروں کے باہر اور موسےٰ شہر کے اندر ہے، یہی حالت الحمرا کی بھی ہے۔"
"موسےٰ! کیا تو میرے سب سے بہادر جنگجو پر شبہ کرنے کی جرأت کرتا ہے؟"
"کسی عقلمند پادشاہ نے کبھی ایسے شخص پر اعتماد کیا ہے، جو تمام فوج کا معبود بنا ہوا ہو؟ اگر ابو عبداللہ کل سوء اتفاق سے ایک تیر کھا کر میدان جنگ میں مر جائے تو عمائدِ سلطنت اور بہادرانِ عساکر کسے تختِ سلطنت پر بٹھائیں گے؟ کیا اس بات کا جواب دینے کے لئے بھی اس امر کی ضرورت ہے کہ کوئی ساحر چپکے سے تیرے کان میں آ کر کہے کہ وہ موسےٰ ہی ہے جس کی طرف تمام سلطنت کی نظریں اٹھ رہی ہیں۔"
ابو عبداللہ بےتابی اور ناامیدی کے عالم میں چیخ اتھا "آہ کمبخت سلطنت! مصیبت زدہ بادشاہ! مجھے شفقت پدری کبھی نصیب نہ ہوئی۔ اب میری کوئی رعایا نہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ یہ ملک بھی اپنا نہ رہے گا۔ ہائے کیا مجھے کبھی کوئی مخلص دوست نصیب نہ ہوگا؟"
المامن نے بےپروائی سے جواب دیا "دوست! کسی بادشاہ کو کبھی کوئی دوست نصیب نہیں ہوا۔"
ابو عبداللہ کی آنکھوں سے میں سے ایسی آگ کی چنگاریاں برسنے لگیں جو اس کی نسل اور اس کے مرتبۂ عالی کی سرشت میں شامل تھی اور وہ بےتاب ہو کر بولا۔ دور ہو جا! میری آنکھوں کے سامنے سے دور ہو جا! تیری سرد اور بے درد دانشمندی میری شجاعت کے خون کو رگوں میں منجمد کئے دیتی ہے۔ تیری باتیں کامرانی، اعتماد، انسانی ہمدردی اور تمام حسیات کو میرے دل سے مفقود کئے دیتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 23
میرے پاس سے چلا جا! میں تنہائی چاہتا ہوں۔"
المامن نے نہایت بےپروائی سے اور روکھی سی آواز میں کہا "ابو عبداللہ! کل آدھی رات کے وقت پھر ملاقات ہو گی۔ خدا بادشاہ کو ہمیشہ سلامت رکھے۔"
بادشاہ نے منہ پھیر لیا۔ لیکن اس کا ناصح اس سے پہلے ہی غائب ہو چکا تھا۔ جس طرح وہ آیا تھا۔ اسی طرح خاموشی سے اور روح کی مانند دفعتاً غائب ہو گیا۔
کل صبح ہی اعتراف گناہ کیا ہے۔ اس خیال نے اس کی اصل قوت کو بحال کیا۔ اور وہ گھوڑے کو مہمیز کر کے آگے بڑھا کہ مُوری خنجر کے وار کا مقابلہ کرے۔
اس کے اچانک حملہ سے موسےٰ مبہوت سا ہو گیا۔ اس کے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی۔ کیونکہ عرصہ کارزار نعشوں سے پٹا پڑا تھا۔ اور ہر قدم خونی زمین پر لغزش کھاتا تھا۔ اس کا بلند خنجر اس سے زیادہ کچھ نہ کر سکا۔ کہ ڈی سوزان کے تنومند بازو کے بھرپور وار کی قوت کو کم کر دے۔ لیکن شہسوار کی بھاری تلوار خنجر کو دبا کر مسلم کی دستار پر اُتری۔ اور اس کی ۔۔۔۔۔۔۔ کو درمیان سے چیرتی ہوئی چلی گئی۔ صرف فولادی زنجیریں جو دستار کی حفاظت کرتی تھی۔ سد راہ ہوئیں اس صدمہ سے مُور زمین پر گر پڑا۔ اور اپنے حریف کے گھوڑے کے نیچے لوٹنے لگا۔
شہسوار چلایا، "فتح سینٹ یاگوگی۔ موسےٰ ۔۔۔۔۔۔"
لیکن یہ فقرہ ہمیشہ کے لیے ناتمام رہ گیا۔ گرتے ہوئے مُور کا خنجر اس سے پیشتر ہی ڈی سوزان کے گھوڑے کے جسم میں گھونپ دیا گیا تھا۔ گھوڑا اور سوار دونوں گرے۔ ایک لمحہ کے بعد یہ دو بہادر خاک پر ایک دوسرے سے دست و گریبان تھے۔ اور دوسرے لمحہ میں مُور کا چھوٹا سا خنجر جو وہ کمر میں لگائے ہوئے تھا۔ عیسائی کے خود کو چیر کر دماغ میں جا اُترا۔
گھوڑا قریب ہی بے حس و حرکت گھمسان کے ہنگاموں میں دوبارہ ظاہر ہونے کو کھڑا تھا۔ جس پُھرتی سے موسےٰ نے بدقسمت ڈی سوزان کو قتل کیا تھا، اسی پھرتی سے وہ از سر نو اس گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ لیکن موروں کی قسمت کا آفتاب جو اس دن فتح و نصرت کے پھریری اُڑاتا ہوا برآمد ہوا تھا۔ اب کچھ دھندلا ہونے لگا۔
عیسائیوں کی کمک میں جگمگاتے ہوئے سوار میدان میں سرپٹ آتے دکھائی دے رہے تھے۔ اور اس سے بھی بہت دور فاصلہ پر ہسپانیہ کا پرچم شاہی جو گرد و غبار کی کالی گھٹا میں سے نہایت دُھندلا دکھائی دیتا تھا۔ صاف ظاہر کر رہا تھا کہ فرڈی نینڈ خود اپنے سواروں کی امداد کو کمک لئے ہوئے بڑھا آ رہا ہے۔
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 76
خود موروں کی مدد کو بھی بہت پراسرار فوجیں دفعتاً اور غیر متوقع طور پر جنگلوں پہاڑوں غاروں اور آس پاس کے علاقہ میں سے نکل پڑی تھیں۔ اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی سحر و فسوں کے زور سے زمین کے سینہ میں سے اُبھر آئی ہیں۔ لہذا وہ بھی نئے دشمن کے مقابلہ کے لیے ہر طرح تیار اور مستعد تھے۔ جنگ آزمودہ موسےٰ کے حکم سے وہ پیچھے ہٹے۔ اپنی صفیں مرتب کیں۔ اور اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر اس کارآمد مقام پر قبضہ کر لیا جہا کی ناہموار زمین اور گنجان درخت ان کے تیروں اور پُھرتیلے گھوڑوں کی اچھی طرح پردہ داری کر سکتے تھے۔ انہوں نے ایک ایسی مستحکم صف قائم کر لی۔ جس پر پانس ڈی لیون (1) نے بھی جو اب خود آن موجود ہوا تھا، حملہ نہ کرنا ہی زیادہ مناسب سمجھا۔ جس وقت ولینا غصہ سے کانپتی ہوئی آواز میں مارکوئیس کیڈر کر بڑھنے کے لئے کہہ رہا تھا۔ اس وقت فرڈی نینڈ اپنے دربار کے بہترین مصاحبوں میں گھرا ہوا فوجوں کی پُشت پر آن پہونچا۔ اور پانس ڈی لیون نے چند باتیں کر کے اسے واپس ہٹنے کا اشارہ کیا۔
مب مُوروں نے بہادران ہسپانیہ کو دیکھا کہ پسپا ہو کر اپنے خیموں کی طرف جا رہے ہیں۔ تو موسےٰ بھی ان کے جوش کو نہ روک سکا۔ وہ بڑھ کر حملہ آور ہوئے اور عیسائیوں کو ہراساں کر کے چھوٹی چھوٹی لڑائیوں سے جنگ کو طول دینے لگے۔
یہ موقعہ تھا جب ہرننڈوڈل پلگار نے جوپانس ڈی لیون کے ہمراہ آیا تھا۔ اپنی اندھا دُھند قوت سے ایسے کارہائے نمایاں کئے جو اب تک ہسپانیہ کے گیتوں میں گائے جاتے ہیں۔ وہ ایک شہ زور گھوڑے پر سوار تھا۔ خود بہت بڑی طاقت کا آدمی تھا۔ تنہا حملہ آوروں پر ٹوٹ پڑتا تھا۔ اور اپنی شمشیر دودم کی لپیٹ سے دشمن کے بے شمار سپاہیوں کو خاک میں ملا جاتا تھا۔ اس نے بلند آواز میں موسےٰ کو اپنے مقابلہ کے لئے پکارا۔ لیکن مُور نے کہ قتل و خون سے تھک گیا تھا، اور بمشکل ڈی سوزن کے مقابلہ کے صدمہ سے سنبھلا تھا، ایسے مضبوط دشمن کو کسی آئندہ وقت کے مقابلہ کے لیے اٹھا رکھا۔
اس موقع پر کہ میدان بہت سے چھوٹی چھوٹی لڑائیوں سے بھرا ہوا تھا۔
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 77
ہسپانیوں کی ایک چھوٹی سی جماعت اپنے ہم وطنوں کی اصل جمیعت سے ملنے کے لئے درختوں کے ایک ایسے جھنڈ میں سے گزری۔ جو دشمن کے قبضہ میں تھا۔ وہیں مُوروں کی ایک مساوی التعداد جماعت کے ساتھ ان کی مڈبھیڑ ہو گئی۔ اور دست بدست لڑائی کا ایک پرجوش معرکہ شروع ہو گیا۔ کفار کے درمیان ایک شخص تھا جو اس کشت و خون میں کچھ حصہ نہ لے رہا تھا۔ اور کچھ فاصلہ پر کھڑا ایک تلخ تبسم اور پراطمینان مسرت سے چند لمحوں تک عیسائیوں اور مُوروں کے اس خوفناک اور بے دردانہ قتل و خون کو دیکھتا رہا۔ اور پھر عام پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اور یہ سمجھ کر کہ اس وقت اسے کوئی نہیں دیکھے گا، اس منظر سے رخصت ہو گیا۔ لیکن اس کے مقدر میں اس قدر خاموشی سے بچ نکلنا نہیں لکھا تھا۔ ایک ہسپانی نے اسے دیکھ لیا۔ اور اس کے عجیب اور غیر معمولی لباس کی وجہ سے اسے ایک موری افسر سمجھا۔ اور جلد ہی المامن نے (یہ وہی تھا) اپنے روبرو ایک ایسے دشمن کی تلوار بلند ہوتی دیکھی۔ جو نہ امان دینے والا تھا نہ عذر سننے والا۔ اگرچہ اسرائیلی بہادر تھا۔ اور بعض وجوہ کی بناء پر وہ اس ہسپانی سپاہی سے ذاتی طور پر لڑنا نہ چاہتا تھا۔ مگر جب اس نے دیکھا کہ تفصیلی حالات بیان کرنے کا کوئی موقع نہیں۔ تو اس نے گھوڑے کو زور سے ایڑ لگائی۔ اور میدان میں سرپٹ دوڑا۔ ہسپانی نے اس کا پیچھا کر کے اسے جا لیا۔ اور آخرکار المامن اپنی مغرور فطرت سے مجبور ہو کر تنگ آمد بجنگ آمد بڑھا۔
خنجر پر ہاتھ ڈالا اور مقابلہ کو تیار ہو کر دانت پیس کر کہنے لگا، "احمق لے آ۔ تجھے بھی ارمان نہ رہے۔" مقابلہ طولانی اور سخت تھا۔ کیونکہ ہسپانی بھی بڑا مشتاق تھا اور یہودی نے چونکہ کوئی زرہ بھی نہیں پہن رکھی تھی۔ اور اس کے پاس ایک تیز خنجر کے سوا کوئی زیادہ مضبوط ہتھیار بھی نہ تھا۔ اس لئے اپنے بچاؤ کے لئے نہایت ہوشیاری اور پھرتی برتنے پر مجبور تھا۔ آخرکار دونوں حریف گُتھ گئے۔ اور ایک موقع وار سے المامن کا چھوٹا سا خنجر دشمن کے گلے میں گھس گیا۔ اور وہ اوندھا ہو کر زمین پر گر پڑا۔
جب المامن گھوڑے کے طرف پھرا تو اس نے سوچا کہ اب میں محفوظ ہوں۔ مگر دیکھتا ہے
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 78
کہ ہسپانی جو پیچھے ہٹ گئے تھے۔ اپنے دشمنوں کے شکست دے کر اس پر جھپٹ پڑے ہیں۔
فوج کا افسر للکارا، "اطاعت یا موت!"
المامن نے چاروں طرف دیکھا۔ کوئی امداد قریب نہ تھی۔ اس نے اپنے ہتھیار ڈال دیئے۔ اور ترش روئی سے کہا، "میں تمہارا دشمن نہیں ہوں۔ مجھے اپنے خیمہ کو لے چلو۔"
ایک سپاہی نے اس کی باگ پکڑ لی اور اسے ہمراہ لے کر جلد پسپا فوج تک آن پہنچے۔
اس اثناء میں شام کا اندھیرا زیادہ ہو گیا۔ چیخ پکار اور درد و کرب کے صدائیں رفتہ رفتہ مدہم پڑتی گئیں۔ لڑائی ختم ہو چکی تھی۔ منتشر آدمی اپنی مختلف جماعتوں میں آن ملے۔ اور پہلے تارے کی روشنی میں مُوری فوج اپنے زخمی بھائیوں کو لے کر اور اپنی کامیابی پر خوشی سے پھولتی ہوئی پھر غرناطہ کے دروازوں میں داخل ہوئی اور روز جنگ کے مرد میدان موسےٰ کا سیاہ رنگ راہوار سواروں کے عقب میں سے ہو کر افسردہ و تاریک محرابوں میں غائب ہو گیا۔
ابو عبد اللہ کی فطرت کی تفصیل – موسےٰ اپنی محبوبہ کے چمن میں
موسےٰ ابن ابی غازان ابو عبد اللہ سے ملاقات کر کے متفکر و افسردہ واپس آیا۔ اس کے دلائل اس امر میں ناکام رہے تھے۔ کہ بادشاہ کو اس طلسمی چکر کے حکم سے جو اب تک اسے حملہ آوروں کے مقابلہ میں مسلح ہونے سے مانع آتا تھا، متنفر کر دیں۔ اور اگرچہ مراحم خُسروانہ کا سایہ ابھی اس پر سے نہ اُٹھا تھا۔ لیکن موسےٰ محسوس کرتا تھا۔ کہ جب تک بادشاہ اوہام یا مکر و فریب کا غلا ہے، اس وقت تک مراحم نہایت موہوم اور غیر مستقل ہیں۔ لیکن وہ شریف جنگ جُو جس کی طبیعت کو اس کے ملک کےمصائب نے حد درجہ بلند و پاکیزہ بنا دیا تھا، جب اپنی طبعی غضبناکی میں ترقی کر رہا تھا، جب بھی ان آفات و مصائب کے مقابلے میں جو بادشاہ کی مسلسل غیر مستقل مزاجی سے غرناطہ پر نازل ہونے والے تھے، اپنے متعلق کچھ نہ سوچتا تھا۔
اس نے سوچا، "اتنا بہادر اور ایسا کمزور۔ ایسا کمزور۔ لیکن اتنا ہٹ دھرم عقلمند، فلسفی، لیکن سریع الاعتقاد اور سادہ لوح، بد قسمت ابو عبد اللہ حقیقت میں ستارے تیرے مقابلے میں مصروف پیکار معلوم ہوتے ہیں۔ اور ان کے اثرات نے تیرے تمام صفات و محاسن پر پانی پھیر کر تجھے مذبذب اور غلط کار بنا دیا ہے۔"
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 92
غرناطہ کی تمام رعایا میں شاید موسےٰ ہی ایک شخص تھا، جو اپنے بادشاہ کی حقیقی فطرت کو سمجھتا تھا۔ لیکن وہ بھی اس کے پُر پیچ اور پُراسرار دل کی تہ تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ ابو عبد اللہ کوئی معمولی شخص نہ تھا۔ اس کا سینہ مہر و وفا کی سرگرمی اور فیاضی سے معمور تھا۔ مزاج کے لحاظ سے نہایت سلیم الطبع اور نیک نہاد تھا۔ اور گو پیش از وقت حکومت ہاتھ میں لینے اور باغی رعیت اور ناشکرے درباریوں کے تلخ تجربوں نے اس کی فطرت کو طبعاً مغلوب الغضب اور بدگمان بنا دیا تھا۔ لیکن ابتداءً اس کی طبیعت ان عیوب سے بالکل پاک تھی۔ اور اب بھی اسے مراحم اور معدلت خُسروانہ کی طرف آسانی سے مائل کیا جا سکتا تھا۔ وہ اگر غیظ و غضب میں آگ تھا۔ تو عفو و تقصیر میں بھی عالی حوصلہ تھا۔ اپنی قوم اور زمانہ کے جملہ علوم متداولہ میں وہ یدطُولےٰ رکھتا تھا۔ اور کم از کم مطالعہ کتب کے اعتبار سے فلسفی تھا۔ اور حقیقت میں مسائل ادق کے مطالعہ کا شوق بھی منجملہ ان اسباب کے تھا۔ جنہوں نے اسے منصب شاہی اور لشکر آرارئی کے ناقابل بنا رکھا تھا۔ لیکن اس کی پیدائش اور عہد طفلی کے حالات زمانہ ایسے تھے جنہوں نےا س کی زیرک ذہانت کو متصوفانہ خیالات کا دلدادہ بنا دیا تھا۔ اور فلسفہ ما بعد الطبیعات کو عالم مافوق العادت میں پہنچا دینے سے انسان میں جو شبہات اور خوف اور غیر مستقل مزاجی پیدا ہو جایا کرتی ہے، وہ سب اس میں پیدا ہو گئی تھی۔ تاریک و منحوس پشین گوئیوں سے اس کے سر پر بے شمار بدشگونیاں منڈلا رہی تھیں۔ سب لوگوں کا اس امر پر اتفاق تھا۔ کہ وہ مصیبت ناک انجام کے لئے پیدا ہوا ہے۔ جب کبھی اس نے ناموافق حالات سے مدافعت کرنی چاہی۔ بظاہر کسی اتفاقیہ امر نے جس کا سان گمان بھی نہ تھا۔ بجلی کی طرح ناگہاں گر کا اس جوان ہمت کی مساعی جمیلہ اور پختہ کار دانشمندیوں کے خرمن کو جلا کر خاک سیاہ کر دیا۔ اس طرح رفتہ رفتہ ایک تاریک و یاس انگیز بادل اس کے دل پر گھرتا گیا۔ ہر چند عقائد اسلامیہ کی نسبت وہ نہایت ضعیف الاعتقاد تھا۔ لیکن عالی حوصلگی و غیور طبعی اس امر کی بھی اجازت نہ دیتی تھی۔ کہ چُپ چاپ جابر نوشت تقدیر کے آگے سر تسلیم خم کر دے۔ اس لئے وہ مخالفِ جنات اور نجس ستاروں سے
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 93
مقابلہ کرنا چاہتا تھا۔ مگر انسانی وسائل کے ذریعہ نہیں بلکہ روحانی طاقت سے۔ اس نے اپنے اردگرد بہت سے مشرقی اوہام پرست ساحر اور منجم جمع کر رکھے تھے۔ اور ایک دوسرے ہی عالم کے تصورات میں زندگی بسر کرتا تھا۔ اور دغا بازوں اور تخیل پسند لوگوں کے وعدوں سے پھول کر اور اپنے دماغ کی تیز فہمی اور غور و خوض سے فریب خوردہ۔ سحر و عملیات کی مدد سے اس عظیم الشان راز پر سے نقاب اُلٹنا چاہتا تھا۔ جو اس کو اپنی بدقسمتی کے غیر طبعی دشمنوں کے جال سے آزاد کر دیتا۔ اور اس کے لئے باقی انسانوں کی سی آزادی مہیا کر دیتا۔ جس سے وہ مصائب اور خطرات کے مقابل میں میدان مساوات میں زور آزمائی کر سکتا۔ چنانچہ اس طریق سے المامن نے اس کے دماغ پر تسلط حاصل کر لیا۔ گو تمام دُنیاوی معاملات اور معقول علمی مباحث پر ابو عبد اللہ بہترین دانشمندوں کو قائل کر سکتا تھا۔ لیکن اوہام کے مقابلہ میں ایک بچہ بھی اسے بے وقوف بنا سکتا تھا۔ اس حالت میں وہ ایک قسم کا ہملٹ (1) تھا۔ جو اقبال مندی اور پُرسکون نصیبہ کے سایہ میں پروان چڑھا تھا۔ کہ دُنیا کو فیض پہنچائے۔ اور شہرت کے آسمان پر چاند بن کر چمکے۔ لیکن اس پر ایک دوسرے تالم کا ٹھٹھرا دینے والا سایہ پڑ چکا تھا۔ اس کی روح اندر ہی اندر منجمد ہو گئی تھی۔ اس کی زندگی دیگر انسانوں کی زندگی سے علٰحدہ بن گئی تھی۔ وہم و تحیر کی غیر مرئی زنجیریں اسے پیچھے کی طرف کھینچتی تھیں۔ اور حالات اسے آگے کر ڈھکیلتے تھے۔ اسے ایک فوق العادت انجام ایک ایسے عجیب و غریب فلسفہ میں گھیرے ہوئے تھا۔ جو انسانی اثرات و اسباب میں سے نہ تھا۔ اور وہ تمام ایسی خوبیوں کی موجودگی میں جو انسان اور دنیائے فوق الادراک کے اسرار سربستہ دریافت کرنے کی کوشش کا انجام یہی ہوتا ہے۔ اس کے ضمیر کی تیرگی کا اثر پوشیدہ انفعال ندامت سے اور بھی عمیق ہو گیا تھا۔ اپنی زندگی محفوظ رکھنے کے لئے جو اس کے پیش رو کے ہاتھوں ہمیشہ معرض خطر میں رہتی تھی۔ وہ اوائل عمر ہی میں اپنے باپ کے خلاف بغاوت کرنے میں مصروف ہو گیا تھا۔
--------------------------------------------------------------------------------------------------
(1) سیکسپیر کے اسی نام کے ڈرامے کا ہیرو۔
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 94
ابو عبد اللہ کے شریک بغاوت چچا الزغل نے اس خوفناک بادشاہ کو صعف علالت اور نابینائی کی حالت میں سلوبرنیا میں قید کیا۔ اور اس کی فوری موت کی وجہ سے الزغل پر اس کے مار ڈالنے کا شبہ کیا گیا۔ اگرچہ ابو عبد اللہ کا دامن اس قسم کے گناہ سے پاک تھا۔ لیکن وہ اپنے آپ کو ان اسباب کا ذمہ دار تصور کرتا تھا۔ جو اس واقعہ کے باعث ہوئے۔ اور ایک سیاہ تصور جو اس کے ضمیر کو تاریک بنائے رکھتا تھا۔ اس کی اوہام پرستی کو مضبوط اور اس کے ارادہ کو کمزور بنائے دیتا تھا۔ کیونکہ انسان کو آشفتہ خیال کرنے کے لئے اس سے زیادہ مؤثر چیز کوئی نہیں۔ کہ اس کے فکر مند دل میں ندامت نشتر چبھوتی رہے۔
ٖغرناطہ کا بہادر نوجوان اپنے بادشاہ کی فطرت پر غور و خوض کرتا ہوا اور اپنے وطن کی تباہی کو مستقبل میں دیکھتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ اس کے قدم گویا نادانستہ اس کو لیلٰے کے مکان کی طرف لے چلے۔ وہ حسب معمول دیوار پھلانگ کر مکان کے نزدیک آیا۔ ہر طرف خاموشی اور ویرانی چھائی تھی۔ اس کے مقررہ اشارہ کا جواب نہ ملا۔ وہ دھیمی آواز میں گاتا رہا۔ لیکن کھڑکی نہ کھلی۔ کسی پری پیکر کے قدموں کی آہٹ جھروکے میں نہ سُنائی دی۔ وہ اس جگہ سے مایوس اور افسردہ دل واپس پھرا۔ اور گھر آ کر ایک مسند پر گر پڑا۔ لیکن دن بھر کی تھکن اور بے قراری بھی اس کے محروم خواب آنکھوں کو بند نہ کر سکی۔ اس کی دل و جان کی ملکہ اسرار کی تاریکی میں چھپی ہوئی تھی۔ ملاقات کہیں شاذ و نادر نصیب ہوتی تھی۔ عشق کی آشفتہ سری اور شاعرانہ وارفتگی ہسپانی مُوروں کی شجاعت کی جان تھی۔ ان تمام چیزوں نے یک جا ہو کر موسےٰ کے عشق میں ایسی گہرائیاں پیدا کر دی تھیں۔ جن سے آج کل کی حوصلہ پست کر دینے والی اور اُمنگوں کو مٹا دینے والی آب و ہوا کے مسلمان بالکل نا آشنا ہیں۔ اس کی سرگرم سے سرگرم جستجو لیلےٰ کی اصل نسل اور حسب نسب کے نقاب کو ہٹا نہ سکی تھی۔ ہمسائیوں کو اس سنسان اور محفوظ گھر کے ساکنین کی نسبت بہت کم علم حاصل تھا۔ اس کی دیواروں کے باہر اگر کوئی انسان کبھی دکھائی دیتا تھا تھا۔ تو وہ ایک ضعیف یہودی تھا۔ جو اغلبا غیر ملکی غلاموں کا داروغہ تھا (کیونکہ کوئی مسلمان غلام کسی یہودی کی اطاعت کی توہین نہ برداشت کر سکتا تھا۔)
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 95
اور اگرچہ اس محل سرائے کی بے شمار دولت اور سامان عیش کے متعلق عجیب و غریب افواہیں مشہور تھیں، لیکن غالب گمان یہ تھا کہ کسی ایسے مُوری امیر کی جائے سکونت ہے جو خود یہاں نہیں رہتا ہے۔ مگر ان دونوں میں لوگوں کے خیالات اس سے زیادہ اہم معاملات میں مصروف تھے۔ جب متواتر دو دن تک موسےٰ ہر روز ناکام پلٹتا رہا، تو اس کی بیتابی اور پریشانی ضبط سے فزوں تھی۔ اس نے قصد کیا۔ کہ دن رات مکان کے صدر دروازہ میں بیٹھا دیکھتا رہے۔ یہاں تک کہ اسے گھر کا کوئی ہی شخص ملے۔ جس سے وہ اپنی محبوبہ کے متعلق استفسار کر سکے۔ اور کوئی لالچ دے کر اپنا کام نکال لے۔ چنانچہ جب وہ اس ارادہ سے مکان کے گرد منڈلاتا پھر رہا تھا، تو کیا دیکھتا ہے کہ مکان کے نیچے سے ایک خمیدہ قامت پیر فرتوت چُپکے سے باہر نکل رہا ہے۔ وہ بڈھا عصا ٹیکے ہوئے آیا۔ اور باغ میں گھس کر حوض کے کنارے جھکا۔ کہ چاندنی میں پھولوں اور بُوٹیوں کو چُنے۔ اس وقت موسےٰ اس کی صورت کو جو کسی قبرستان کے غول بیابانی سے بہت کچھ ملتی جُلتی تھی، دیکھ کر چونک سا پڑا۔ آخر اپنے خوف پر خود ہی مسکرا دیا اور خاموشی کے ساتھ تیز قدم اٹھاتا ہوا۔ درختوں میں سے نکل کر اس جگہ پہنچا، جہاں وہ ضعیف شخص جھکا ہوا تھا۔ اور اس سے پیشتر کہ اس کی موجودگی کا علم ہو، اس نے اپنا ہاتھ بڈھے کے کندھے پر رکھ دیا۔
یہ شخص شمین تھا۔ اس نے اشتیاق سے مڑ کر دیکھا۔ اور اس کے لبوں سے خوف کے مارے چیخ نکل گئی۔
مُور بولا، "خاموش۔ مجھ سے خوف نہ کھا۔ میں تیرا خیر خواہ ہوں۔ تو بدھا ہے۔ اور بڑہاپا حریص ہوتا ہے۔" یہ کہتے ہی اس نے بہت سی اشرفیاں یہودی کی جیب میں ڈال دیں۔ بڈھے کے بھیانک خط و خال کو تبسم نے اور زیادہ بھیانک بنا دیا۔ اس نے موسےٰ کا عطیہ قبول کر کے پوپلے مُنہ سے کہا،
"سخی نوجوان۔ فیاض، رحم دل، اچھے نوجوان۔"
موسےٰ بولا، "اب مجھے یہ بتاؤ، تم اس گھر میں رہتے ہو۔ اس میں جو نوعمر لڑکی لیلےٰ ہے
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 96
مجھے اس کا حال بتاؤ۔ وہ خیریت سے تو ہے؟"
یہودی نے جواب دیا، "حضور مجھے یقین تو نہیں ہے کہ وہ خیریت سے ہے۔"
"یقین تو نہیں ہے؟ کیا تجھے اس کی حالت کا علم نہیں؟"
شمین نے جواب دیا، "جی نہیں۔ میں نے کئی روز سے اسے نہیں دیکھا۔ وہ غرناطہ سے چلی گئی ہے۔ آپ یہاں اوس میں کھڑے اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ اور اپنی صحت خراب کر رہے ہیں۔ اوس کا اثر بہت مُضر ہوتا ہے۔ خصوصاً نئے چاند کے وقت یہ بہت ہی مُضر ہوتی ہے۔"
مُور نے وحشت سے کہا، "چلی گئی؟ غرناطہ چھوڑ گئی؟ آہ میری قسمت۔ آخر وہ کدھر گئی؟ یہ لے اور اشرفیاں لے لے۔ اور مجھے بتا وہ کہاں گئی ہے؟"
"افسوس اے عالی حوصلہ نوجوان، مجھے اس کا علم نہیں ہے۔ میں صرف ایک غلام کی حیثیت رکھتا ہوں۔ مجھے کچھ معلوم نہیں۔"
"وہ کب واپس آئے گی؟"
"میں نہیں بتا سکتا۔"
"تیرا آقا کون ہے، اور یہ محل سرائے کس کی ہے؟"
شمین کا رنگ اڑ گیا۔ پریشان اور خوف زدہ اس نے چاروں طرف دیکھا اور کچھ توقف کے بعد جواب دیا، "حضور وہ ایک افریقی مُور ہے۔ لیکن وہ بھی چلا گیا ہے۔ وہ شاذ و نادر ہی یہاں آتا ہے۔ غرناطہ میں اب امن و اماں کہاں؟ اگر مجھ سے ہو سکے تو میں بھی چلا جاؤں۔"
موسےٰ نے شمین کو چھوڑ دیا۔ شمین نوجوان کے پریشان چہرے کو ایک پرعناد تبسم سے دیکھ رہا تھا۔ کیونکہ اسے انسان کی صورت سے نفرت تھی۔
"نو عمر بہادر۔ تو نے مجھ پر احسان کیا ہے۔ خدا تجھے اس ہلال کے سایہ میں خواب راحت نصیب کرے۔ خدا حافظ۔ ایک بوڑھے مفلس کو تو نے خیرات دی ہے۔ تجھ پر خدا برکت نازل فرمائے۔"
موسےٰ نے اس کی کوئی بات نہ سُنی۔ چند لمحوں تک بے حس و حرکت کھڑا رہا۔ اور پھر گویا اس نے ایک تلخ کشمکش کے بعد اپنے اوپر قابو حاصل کر لیا۔ لمبی اور سرد آہ بھری۔ اور دھیمی آواز میں کہا، "لیلےٰ تیرا خدا حافظ۔ میں صرف غرناطہ کو چاہوں گا۔"
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 97
فصل پنجم
ابو عبد اللہ کی اپنی رعیت سے مصالحت
کئی روز سے مُوروں اور عیسائیوں کے درمیان کوئی معرکہ نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ فرڈی نینڈ کی سرد مہر اور گہری حکمت عملی اس زیان سے متنبہ ہو گئی تھی۔ جو اس نے موسےٰ سے مقابلہ کرنے میں اٹھایا تھا۔ اور اب اس کا قصد تھا کہ اپنے اٹش مزاج ماتحتوں کو بہت ضبط سے روک رکھے۔ اس نے تمام چھوٹی چھوٹی مصافوں کو روک رکھا تھا۔ کیونکہ ان میں فی الحقیقت موروں کا پلہ بھاری رہتا تھا۔ وہ صرف ان دروں ہی پر قبضہ کرنے پر قانع تھا۔ جن کے ذریعے محصور شہر میں رسد آ سکتی تھی۔ اس نے اپنے خیمے کے گرد مضبوط قلعہ بندی شروع کر دی۔ اور موروں کے مقابلے میں جارحانہ کاروائی بند کر کے ان کی جُراٌت و طاقت کو آزمانے کا ارادہ کیا۔ المامن ابھی تک غرناطہ واپس نہ آیا تھا۔ اس کے متعلق بادشاہ کو خبر نہ پہنچی۔ اور اس کی طولانی غیر حاضری نے ابو عبد اللہ کی خاموش اور مُردہ قوتوں میں حیات تازہ پیدا کر دی۔ موسےٰ کی مصاحبت ملکہ کی نصیحت اور معشوقہ امینہ کی جوش انگیز ترغیب نے جس کے مقابلے میں سحر و طلسم اثر انداز نہ تھے۔ سوئے ہوئے شیر کی فطرت کو گُدگُدایا۔ لیکن ابھی تک اس کی افواج اور اس کی رعایا اس کے خلاف تھی۔ اور ممکن تھا کہ اگر وہ
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 98
دیعار مبلاء میں ظاہر ہوتا، تو بغاوت برپا ہو جاتی۔ اس موقع پر خوبی قسمت سے دفعتاً اس کے حق میں رعایا کی اُلفت اور اعتماد دوبارہ عود کر آیا۔ اس کا تُند مزاج چچا الزغل جو کبھی تخت و تاج کےلئے اس کا رقیب تھا اور جس کی دلیرانہ قوت، تجربہ کاری اور فوجی حکمت عملی نے شہر میں ایک طاقتور جماعت کو اپنا حمایتی بنا لیا تھا۔ چند ماہ پیشتر فردی نینڈ سے مغلوب ہو چکا تھا۔ اور اپنی مقبوضہ مملکت کی حوالگی کے معاوضے میں اسے ایک بنجر اور پھوڑ علاقہ بخشا گیا تھا۔ اس کی شکست سے تمام مور اپنے بادشاہ کے خلاف برانگیختہ ہو گئے تھے۔ کیونکہ وہ سب تقریباً یک زبان ہو کر کہتے تھے کہ ابو عبد اللہ مناسب طریق پر اس کی امداد کرتا تو بہادر الزغل کبھی اطاعت قبول نہ کرتا۔ اور الزغل کی شکست پر جو بے اطمینانی اور غیظ و غضب کے جذبات پھیلے رہنے کی وجہ سے ابو عبد اللہ کو الحمرا کے مضبوط قلعے میں پناہ لینے کا معقول عذر ہاتھ آ گیا تھا۔ اب یوں ہوا کہ الزغل نے جس کو اپنے بھتیجے سے سخت نفرت تھی۔ اور جس کی خوف ناک فطرت اس اسیری میں بے چین اور مضطرب تھی۔ اس پیرانہ سالی میں اپنے ملک سے ایک نمایاں غداری کر کے اپنی تمام گزشتہ شہرت پر پانی پھیرنے کی ٹھہرائی۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کا بھتیجا بھی اس کی طرح تباہ ہو جائے۔ چنانچہ انتقام کے سوا اور سب باتوں کو بُھلا کر اس نے اپنی رعایا کو مسلح کیا۔ ملک میں سے گزرا۔ اور ایک بہادر فوج کو ساتھ لئے ہسپانی خیمے میں ٖٖغرناطہ کے خلاف فرڈی نینڈ کا حلیف بن کر جا موجود ہوا۔ جب موروں نے یہ سُنا تو ان کے غیظ و غضب کی حالت کا تصور کرنا ناممکن ہے۔ الزغل کے اس جُرم نے لوگوں کو یکایک ابو عبد اللہ کی جانب مائل کر دیا۔ ایک گروہ عظیم نے الحمرا کو گھیر لیا۔ رو رو کر بہت منت سماجت کر کر کے بادشاہ سے معافی چاہی۔ اس واقعہ سے ابو عبد اللہ نے اپنے غیر مستقل ارادے پر مکمل فتح پائی۔ اس نے فوج کو دیوار مسلا کے وسیع میدان میں جمع ہونے کا حکم دیا۔ سپیدۂ سحر کے نمودار ہونے پر وہ اپنے پورے اسلحہ سے مسلح ہو کر میدان میں ظاہر ہوا۔ موسےٰ اس کے دائیں پہلو میں تھا۔ وہ خود بھی گلزار حسن و شباب کا شگفتہ پھول تھا۔ اور ایک بار پھر اپنے آپ کو شجاع
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 99
جنگ جو۔ اور بادشاہ محسوس کرنے پر نازاں تھا۔ لوگوں کی خوشی کا کچھ ٹھکانا نہ تھا۔
ابو عبد اللہ زندہ باد کے نعروں سے ہوا کا دامن چاک چاک ہو رہا تھا۔ ابو عبد اللہ کی ساری روح حیات اس کی پیشانی پر چمک رہی تھی۔ اس نے مُڑ کر موسےٰ کی طرف دیکھا اور کہا، "ساعت مقررہ آ گئی۔ اب میں الزغیبی نہیں رہا۔"
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 100
فصل ششم
لیلےٰ – اس کا نیا چاہنے والا، ہسپانیہ کے محکمہ احتساب و محنہ کے پہلے مقتدا کا مرقع
غرناطہ کا یہ حال تھا۔ اب ہم اپنی داستان کی اس فصل کو عیسائی خیمہ گاہ سے شروع کرتے ہیں۔ ملکہ ازابیلا کے خیمۂ شاہی کے گرد خیموں کا ایک شہر آباد ہے۔ ان میں ملکہ کی کنیزیں رہتی ہیں۔ ایک خیمے میں ایک نوجوان عورت تنہا بیٹھی ہے۔ چونکہ شام کا دھندلکا بالکل تاریک ہو چکا ہے۔ اس لڑکی کے جسم کا صرف خاکہ نظر آتا ہے۔ اس کا غمزدہ انداز، جھکا ہوا سر، گھٹنوں پر رکھے ہوئے ہاتھ ظاہر کر رہے ہیں۔ کہ وہ غم و اندوہ کے سمندر میں غرق ہے۔
اس نے سوچا۔ آہ میں کس آفت میں پڑ گئی۔ اے کاش میرے ابا میرے موسےٰ کو خواب ہی میں اس جور و تشدد کا حال معلوم ہو جائے، جو ان کی غریب لیلےٰ پر کیا جا رہا ہے۔
موٹے موٹے آنسو اس کی آنکھوں سے اُبل پڑے۔ اور رُخساروں پر ڈھلک آئے۔ اس وقت ایک گھڑیان کی آواز سُنائی دی۔ جس سے سر عشکروں کو عبادت کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔ کیونکہ فرڈی نینڈ اپنی تمام دنیاوی تجاویز کو مذہبی بھیس میں پوشیدہ رکھتا تھا۔ اور اپنی سیاسی جنگ کو مذہبی صلیبی جنگ کا رنگ دے رہا تھا۔
لڑکی گھٹنوں کے بل جُھک گئی۔ اور سوچنے لگی۔ یہ آواز نصرانیوں کو اپنے
بنی ابی غازان کے ماتحت افواج ایسی شاطرانہ چالیں کھیل رہی ہیں۔ کہ فتح حاصل ہونے تک ایک خوفناک عرصہ صرف ہو جائے گا۔ جم کر لڑنے کے خطرات سے بچنے کے لئے بے دینوں کی فوج کے سوار ہمارے کمپ پر ہمیشہ چھاپے مارتے رہتے ہیں۔ اور پہاڑی گھاٹیوں میں ہمارے دستے کامیابی سے نہیں لڑ سکتے کیونکہ ان لوگوں کے گھوڑے حد درجہ کے سُبک رفتار اور ان کی کمیں گاہیں از حد نظر فریب ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ کچھ ہی عرصہ بعد دیگا بالکل برباد ہو جائے گا۔ اور بندرگاہوں سے رسد کا داخلہ بند کر کے ہم فاقہ زدہ اہل شہر کو اطاعت پر مجبور کر لیں گے۔ لیکن افسوس ہمارے حریفوں کے گروہ بے شمار اور منتشر ہیں اور غرناطہ کے علاوہ اور بھی مقامات ہیں جن پر ہسپانیہ کا قومی جھنڈا لہرانا چاہیئے۔ ایسی حالت میں شیر کو لومڑی سے خدمت لینے میں تامل نہیں کرنا چاہیے۔ اور خوش قسمتی سے غرناطہ میں ہمیں ایک معاون مل گیا ہے جو ہمارے لیے مصروفِ پیکار ہے۔ الحمرا میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ اس سے میں بخوبی آگاہ ہوں۔ بادشاہ ابھی تک اپنے محل میں غافل پڑا ہوا شش و پنج میں مبتلا ہے۔ اور مجھے اعتماد ہے کہ ایک سازش کے ذریعہ سے پادشاہ موسٰے سے بدظن ہو جائے گا۔ اور اس کا انجام ہو گا کہ وہ لائقِ سردار قتل کر دیا جائے گا۔ ملک میں علانیہ بغاوت اور خانہ جنگی پھیلے گی۔ اور غرناطہ کی اندرونی بدنظمی سے ہمیں اس بات کا موقعہ ملے گا کہ ہم نہایت آسانی سے اس شہر کو اپنے حیطۂ اقتدار میں لے آئیں۔
پونس ڈی لیون نے کہا "جہاں پناہ! آپ کی حکمتِ عملی اور دانشمندی سے مجھے اس امر میں ذرا شبہ نہیں کہ ہمارے جھنڈے کا شنجر فی برجوں پر لہرانا ایسا ہی یقینی ہے جیسے آفتاب کا ان سامنے کی پہاڑیوں سے طلوع ہونا۔ اس کی چنداں پروا نہیں کہ ہم حکمتِ عملی سے یا زورِ بازو سے شہر کو تسخیر کریں گے۔ لیکن مجھے بارگاہِ عالی میں یہ گزارش کرنے کی بھی شاید ضرورت نہیں ہے کہ اس معاملہ میں احتیاط سے کام لینا مناسب ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم دشمن کی چالوں میں محو ہو جائیں۔
Page 52
اہل سازش پر بھروسہ کر لیں۔ اور وہ ہماری شمشیروں کو کند اور ہمارے حوصلوں کر پست کر جائے۔
ہرننڑوڈل پلگا نے جوش سے کہا "دانشمند لیون۔ تم نے خوب کہا اور ان کافروں کے مقابل میں جن کی معاون شیطان کی عیّاری ہے۔ میرے نزدیک اس سے بہتر طریق یہ ہے کہ ہم انہیں اپنی تلواروں سے زیر کریں ۔ ہم تو اپنی پرانی قشطالہ کی مثل کہتے ہیں کہ صدقِ دل سے ان پر لعنت بھیجو اور ان کی ہست و بود کو محو کر دو۔"
بادشاہ اپنی فوج کے منظورِ نظر افسر کے جوش پر کچھ مسکرایا لیکن چاروں طرف دیکھنے لگا کہ شاید کوئی اور صائب رائے پیش کرے۔
ولینا نے کہا "جہاں پناہ۔ ہمارا یہ منشاء ہرگز نہیں ہے کہ ان وجوہ و اسباب کی اصلیت معلوم کی جائے جن کی بدولت حضورِ انور مُوروں کے درمیان نفاق اور افتراق کی امیدیں استوار کر رہے ہیں۔ لیکن بہ ظاہر ہے کہ اس دانشمندی پر جو کبھی فریب نہیں کھا سکتی اعتماد رکھتے ہوئے ہمیں حتیٰ الامکان کوئی کسر اٹھا بھی نہ رکھنی چاہیئے۔ بلکہ دورانِ جنگ میں سازشیں کی مرتب کریں۔ اور حصولِ فتح کی کوششوں کے ساتھ ساتھ دشمنوں میں تفرقہ ڈالنے سے بھی اغماض و تغافل نہ کریں۔"
فرڈی نینڈ نے کچھ سوچ کر کہا: "صاحب آپ کا خیال معقول ہے اور ویگا کو زیر کرنے کے لئے کل آپ ہی ایک مضبوط دستہ کے سالار بنئے گا۔ آپ اس وقت سے دو گھنٹے بعد میرے پاس آئیے۔ فی الحال مجلس برخاست۔"
شہسوار اُٹھ کھڑے ہوئے اور نہایت سنجیدگی و متانت کے ساتھ آداب شاہانہ بجا لا کر کے چلے گئے۔ ان آداب کا فرڈی نینڈ کو بہت خیال رہتا تھا۔ اور وہ اپنے درباریوں کو ان کے بجا لانے پر ہمیشہ تاکید کرتا رہتا تھا۔ نوجوان شہزادہ بیٹھا رہا۔ اس خلوت و تنہائی میں فرڈی نینڈ نے کہا۔ "شہزادہ! اس ہسپانیہ کے بچوں کو ملک داری و حکمران کے علم و ہنر میں بہت جلد اور اوقاتِ مناسب میں تربیت دینی چاہیئے۔ یہ شرفا تاج کے درخشاں جواہر ہیں تاہم یہ ضروری ہے کہ یہ تاج ہی میں اور تاج ہی کے وسیلہ سے چمکیں۔ چنانچہ تو دیکھتا ہے کہ سردارانِ ہسپانیہ کس قدر سرگرم، خوفناک
Page 53
اور جنگ جو ہیں۔ ہمارے دشمنوں کے مقابلے میں یہ اوصاف قابلِ قدر ہیں لیکن اگر ہمارا کوئی دشمن نہ ہوتا تو یہی خواص ہمارے بے انتہا مصائب کا باعث ہو جاتے۔ سینٹ یاگو کی قسم۔ میں نے ایک زبردست سلطنت کی بنیادیں استوار کی ہیں۔ بتا کہ وہ کیونکر قائم رہ سکتی ہے؟ حکمت سے۔ میرے بیٹے حکمت سے۔ اور حکمتِ عملی وحشیانہ قوّت سے اسی قدر مختلف ہے جس قدر یہ تلوار ایک فولاد کے ٹکڑے سے۔ میرے فرزند تو متحیر و متعجب معلوم ہوتا ہے۔ تو سن چکا ہے کہ میں مُوروں میں نفاق ڈال کر غرناطہ کو تسخیر کرنا چاہتا ہوں۔ اور جب غرناطہ فتح ہو جائے گا تو یاد رکھ کہ شرفا خود غرناطہ میں موجود ہیں۔ مقدس مریم پر خدا کی رحمت ہو۔ جو شاہوں کے دلوں کی نگہبان ہے۔"
فرڈی نینڈ نے صدقِ دل سے صلیب کا نشان بنایا اور پھر اُٹھ کر خیمہ کے پردوں کو ہٹا کر دھیمی آواز سے پیریز کا نام پکارا۔ ایک ثقہ صورت سپاہی جس کی عمر ادھیڑ سے متجاوز تھی نمودار ہوا۔
بادشاہ نے دوبارہ بیٹھتے بیٹھتے کہا "پیریز! غرناظہ سے جس شخص کے آنے کے ہم متوقع تھے وہ آ گیا ہے یا نہیں؟"
"جہاں پناہ! وہ آ گیا ہے۔ اور اس کے ہمراہ ایک لڑکی بھی ہے۔"
"وہ اپنے وعدے پر قائم رہا۔ دونوں کو آنے کی اجازت دو۔۔۔۔ آ مقدس باپ آ۔ کہ تیرا آنا دل کے لیے مرہم کا کام کرتا ہے۔"
"میرے فرزند! خُدا تُجھے سلامت رکھے۔" یہ الفاظ ایک ایسے شخص نے کہے جو ایک تارک الدّنیا پادری کا لباس پہنے تھا۔ وہ خیمہ کے ایک دوسرے حصہ سے بغیر آدابِ شاہی بجا لائے بغیر دفعتاً گھس آیا تھا۔ اور اب بادشاہ سے کچھ فاصلے پر اپنا چہرہ محرومِ تبسّم بنا کر بیٹھ گیا۔
چند لمحوں تک موت کی سی خاموشی طاری رہی۔ پیریز ابھی تک خیمہ میں توقّف کر رہا تھا۔ گویا شک میں تھا کہ پادری کا آنا حکمِ شاہی کی تکمیل میں تاخير یا امتناع کا باعث
Page 54
تو نہ ہو گا۔ خود فرڈی نینڈ کے چہرہ پر اضطراب و اضطرار کا سایہ پڑ رہا تھا کہ اتنے میں پادری نے کہا:۔
"میرے بیٹے! مجھے یقین ہے کہ میری موجودگی تمہاری اس ملاقات میں مخل نہ ہو گی جو ابھی بے دینوں سے ہونے والی ہے۔ کیونکہ تمہارے نزدیک مصلحتِ وقت اسی کی مقضی ہے کہ تم بلیال کے آدمیوں سے راہ و رسم رکھو۔"
بادشاہ نے جلدی سے کہا "ہرگز نہیں قطعاً نہیں۔" اور پھر دل میں کہنے لگا۔ "یہ مقدس شخص کیسے حیرت انگیز طریق سے ہمارے ارادوں اور چالوں سے واقف ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اس نے اونچی آواز سے کہا "قاصد کو اندر آنے دو۔"
پیریز آداب بجا لایا اور رخصت ہو گیا ہے۔
اس دوران میں نوجوان شہزادہ خاموش اور بے فکر اپنی جگہ پر بیٹھا رہا۔ اس کے نازک خط و خال سے ماندگی عیاں تھی جو اس بات پر وال تھی کہ جس مشکل کام کے لئے اس کا باپ اس کے دماغ کی تربیت کرنا چاہتا تھا وہ اس کام کے قطعی ناقابل تھا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس کاہن اور اس کی طبیعر عیش و عشرت کی طرف مائل تھی۔ خیمہ گاہ جنگ کا شور و غوغا اس کے لیے ایّامِ نشاط کا تماشا، فوجوں کا کوچ ایک منظرِ مسرّت، دربارِ شاہی ایک ایوانِ ضیافت اور تخت اس ایوان میں گویا نشستِ صدر تھی۔ ولی عہد کی زندگی میں اور بادشاہ کی زندگی میں وہی فرق ہے جو برسوں اُمیدا و کسل آور سیری میں ہے۔
پادری اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے بادشاہ اور ولی عہد دونوں پر تیز نگاہیں ڈالتا رہا۔ اور پھر اس کی نظریں انکسار سے ان بیش قیمت قالینوں پر جم گئیں جو فرش پر بچھے ہوئے تھے۔ اس نے اپنی نظریں اس وقت اٹھائیں جب پریرا اسرائیلی المامن کو ساتھ لیے ہوئے اندر آیا۔ اس کے ہمراہ ایک عورت بھی تھی جس کا طویل برقعہ گو سر سے پیر تک لٹک رہا تھا مگر نہ اس کے تناسبِ اعضا کی پردہ داری کر سکتا تھا۔ اور نہ اس کے اختلاجِ قلب و روح کو چھپا سکتا تھا۔
Page 55
المامن نے کہا "عالی جاہ! جب پچھلی دفعہ مجھے شرفِ بازیابی حاصل ہوا تھا تو حضور نے اپنے غلام کے خلوص و صدق کے متعلق استفسار کیا تھا۔ اور میرے صدقِ دل کے ثبوت میں ضمانت مانگی تھی۔ حضور نے ایک یرغمال طلب کیا تھا کہ جب تک کوئی کفالت مہیا نہ کی جائے آپ کچھ بھی کہنے سننے کے لیے تیّار نہیں۔ لیجیے میں اپنی اکلوتی لڑکی کو جس کے سوا ہمارے خاندان بھر میں اور کوئی لڑکا لڑکی نہیں، اپنی خلوصِ نیّت کے ثبوت میں شاہی سایہ عاطفت کے سپرد کرتا ہوں۔ میں ایک ایسی جان حضور کے ہاتھوں میں دے رہا ہوں جو مجھے اپنی زندگی سے کہیں بڑھ کر عزیز ہے۔"
بادشاہ نے نرم اور شیریں آواز میں جو اس کی عیّاری اور غیر متزلزل ارادہ کی بخوبی پردہ پوشی کرتی تھی، کہا۔ "اے اجنبی! تو نے اپنا وعدہ پورا کیا اور یہ دوشیزہ جو تو نے ہماری حفاظت میں سونپ دی ہے شاہی بیگمات کے ہم مرتبہ سمجھی جائے گی۔"
المامن نے رقت انگیز جوش سے کہا "جہاں پناہ۔ اپنے ہم وطنوں اور اپنے ہم مذہبوں کے سوا جس ہستی کے لئے میرا دل کوئی دعائے خیر مانگ سکتا ہے ہا جس کسی کے متعلق امید قائم کر سکتا ہے اور اس کی موت و حیات پر اب حضور قادر ہیں۔ میرے اور حضور کے درمیان جو موثق عہد ہوا تھا۔ میں اسے بلا خوف و بلا تامل پورا کرتا ہوں۔ میں حضور کو ایک یرغمال سونپتا ہوں اور حضور سے صرف ایک وعدہ لیتا ہوں۔"
بادشاہ نے ایک ایسی شان سے جب میں رعب کی نسبت ملائمت زیادہ تھی کہا۔ :لیکن یہ وعدہ ایک شاہنشاہ کا، ایک عیسائی کا، ایک مرد کا وعدہ ہے۔ بادشاہوں کی طرف سے اس سے زیادہ قابلِ احترام ضمانت اور کیا ہو سکتی ہے۔ خیر ان باتوں کو جانے دو۔ باغی شہر کی صورت معاملات کیا ہے۔"
المامن نے کہا "اس سے پیشتر کہ میں اپنے خداوندِ نعمت کو جواب دوں آپ اجازت دیں کہ اس لڑکی کو یہاں سے ہٹا دیا جائے۔"
Page56
نوجوان شہزادہ جلدی سے اُٹھ کھڑا ہوا اور فرڈی نینڈ سے آہستہ سے کہنے لگا "کیا میں اس امانت کو اپنی والدہ کے پاس لے جاؤں؟"
بادشاہ نے مسکراتے ہوئے ہلکی آواز میں کہا "مقدس پادری زیادہ موزوں رہنما ہوتے۔"
اگرچہ پادری نے یہ الفاظ سُنے لیکن اسی طرح ساکن و جامد حالت میں بیٹھا رہا۔
فرڈی نینڈ نے کی پادری کی طرف دیکھنے کے بعد سر پھرا کر جوآن کو ایسی نظر سے دیکھا جو کہہ رہی تھی۔ محتاط رہنا۔ اس کے بعد کہنے لگا: "اچھا نوجوان یوں ہی سہی۔ پیریز تمہارے ہمراہ ملکہ کے پاس جائے گا۔ یہ کام کرنے کے بعد فوراً واپس آ جاؤ۔ ہمیں تمہاری موجودگی کی ضرورت ہے۔"
ادھر تو باپ بیٹوں میں گفتگو ہو رہی تھی ۔ادھر اس دوشیزہ سے یہودی اپنی مقدس زبان میں تسلّی و تشفی روشنی کے الفاظ کہہ رہا تھا۔ لیکن معلوم ہوتا تھا کہ ان الفاظ کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔ لڑکی دفعتاً اس کے سینے سے چمٹ گئی اور اپنے بازو اس یہودی کی گردن میں ڈال دیے جس کے سینے میں زبردست جذبات موجزن تھے ۔ اور کہا۔ "ہائے میرے ابا۔ میں نے تمہارا کیا قصور کیا؟ مجھے کیوں جدا کرتے ہو؟ اپنی بچی کو کیوں اجنبیوں کو سونپتے ہو۔ مجھے بچا لو۔"
یہودی نے متین مگر ملائم لہجہ میں کہا "میری نورِ نظر جیسے ابراہیم نے اپنے فرزند کی نذر پیش کی تھی۔ ویسے ہی میں تجھے اپنے مذہب کی قربان گاہ پر چڑھانے کے لیے لایا ہوں۔ لیکن لیلےٰ جسے ایزدی نے ابرہیم کی قربان کو روک دیا تھا ویسے ہی تیرا شباب بھی قائم رہے گا اور تیری زندگی کا جلال ان نسلوں پر درخشندہ ہو گا جو ابھی کتمِ عدم میں ہیں۔"
اس نے دفعتاً دل سوز لہجہ میں ہسپانوی زبان میں کہا "ہسپانیہ کے بادشاہ تیرے بھی اولاد ہے۔ میری اس پدرانہ کمزوری کو معاف کر اور اسے جلد مجھ سے جدا کر دے۔"
Page 57
جوآن آگے بڑھا اور مؤدبانہ تہذیب سے لیلےٰ کا ہاتھ پکڑنا چاہا۔ یہودی نے پیشانی پر ایک پیچ در پیچ تیوری ڈال کر کہا: "تم؟ اے شاہنشاہ۔ شہزادہ عالی وقار نو عمر ہے۔"
بادشاہ نے جواب دیا "شرافت کے ہوئے ہوئے چھوٹے بڑے سب برابر ہیں۔ پیریز اس دوشیزہ اور شہزادہ کے ہم رکاب ملکہ کی بارگاہ کو جاؤ۔"
اردلی کے بڑھاپے اور اس کی ثقاہت نے یہودی کو مطمئن کر دیا۔ اس نے جوشِ محبت سے لیلےٰ کو گلے لگایا۔ اور اس کا نقاب اٹھائے بغیر اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ اور اسے پیریز کے حوالے کر کے خیمہ کے اس کنارے پر چلا گیا۔ اور اپنا چہرہ ہاتھوں سے چھپا لیا۔ بادشاہ کا دل متاثر معلوم ہوتا تھا۔ لیکن پادری اس تمام منظر کو غصہ کی ترش روئی سے بھویں چڑھاتے دیکھ رہا تھا۔ لیلےٰ اب بھی ایک لمحہ کو ٹھہری۔ اور پھر جیسے اپنی طبیعت پر اس نے دوبارہ قابو پا لیا ہو۔ بلند اور صاف الفاظ میں بولی "انسان مجھے چھوڑ رہا ہے۔ لیکن مجھے یاد ہے کہ خدا سب کا مالک و محافظ ہے۔" پھر اس نے ہسپانی کے ہاتھ کو ہٹا کر کہا۔ "تو آگے چل میں تیرے ہیچھے ہوں۔" اس کے بعد ایک استقلال کے ساتھ ایک اندازِ شاہانہ سے قدم اُٹھاتی ہوئی خیمہ سے چلی گئی۔
جب بادشاہ کے پاس پادری اور المامن ہی رہ گئے تو بادشاہ نے کہا "اب کہو ہماری امیدوں کی کیا صورت ہے۔"
اسرائیلی نے جواب دیا "ابو عبد اللہ اپنی فوج اور فوج کے سردار موسےٰ کے خلاف برانگیختہ ہو رہا ہے۔ بادشاہ الحمراء سے باہر نہ نکلے گا۔ اور آج صبح میرے شہر سے نکلنے سے پیشتر خود موسےٰ محل کے زنداں میں مقید تھا۔"
بادشاہ اپنی نشست پر سے اُچھل کر چلا اٹھا "یہ کیونکر؟"
یہودی نے کسی قدر تفاخر آمیز سکون سے کہا "یہ میرا کام ہے۔ یہی وہ ہاتھ ہیں جو ہسپانیہ کے فرڈی نینڈ کے لئے غرناطہ کی کنجیاں ڈھال رہے ہیں۔"
Page 58
ہسپانی بادشاہ نے کہا "اور اس کا انعام بھی شاہانہ فیاضی سے دیا جائے گا۔ بالفعل، ما بدوقت کی قدر دانی کی یہ نشانی قبول کرو۔"
یہ کہتے ہی بادشاہ نے سونے کی ایک بھاری زنجیر جس کے حلقے مین نہایت صنعت سے ہیرے جڑے ہوئے تھے اپنے سینے پر سے اُتاری اور یہودی کی طرف بڑھائی۔ المامن نے ذرا حرکت نہ کی ۔ اس کے چہرے پر ایک تاریکی سی چھا گئی۔ جس نے اس کے ان جذبات کو جسے وہ بمشکل روکے ہوئے تھا قوتِ گویائی دے دی۔
وہ ایک زہر خند کے ساتھ کہنے لگا۔ "عالی جاہ۔ میں اپنے دشمنوں کو روپیہ کے عوض فروخت نہیں کیا کرتا۔ میں دشمنوں کو اس لئے فروخت کرتا ہوں کہ اپنے دوستوں کی آزادی خریدوں۔"
فرڈی نینڈ نے آشفتہ ہو کر کہا "ناہنجار! کہو کہو۔"
اگر میں دو ہفتہ کا عرصہ گزرنے سے پیشتر غرناطہ تیری قوتِ بازو کے سپرد کر دوں تو میرا کیا معاوضہ ہو گا؟"
"پچھلی دفعہ جب تجھ سے میری ملاقات ہوئی تھی تو نے کہا تھا کہ یہودیوں کو خاص حقوق و مراعات دیے جائیں۔"
جب وہ یہ کہہ رہا تھا تو خاموش پادری نے بادشاہ کی طرف دیکھا صلیب کا نشان بنایا اور پھر عاجزی اور فروتنی کی صورت بنا کر بیٹھ رہا۔
یہودی نے جواب دو "میں بنی اسرائیل کے لئے بلا روک ٹوک تجارت کرنے اور شہر میں رہنے کی اجازت طلب کرتا ہوں۔ وہ جو کام کرنا چاہیں آزادی سے کریں۔ ان سے کس قسم کا تعرض نہ کیا جائے۔ ان سے عیسائی رعایا کے برابر جزیہ لیا جائے۔ اور وہ ایک ہی قانون کے ماتحت رہیں۔"
"ایک ہی قانون اور یکساں جزیہ۔ اس رعایت کے عطا کرنے میں تو بڑی مشکلات ہیں۔ اچھا اگر ہم اس سے انکار کریں؟"
Page 59
تو ہمارے عہد و پیمان تمام ہوئے۔ لڑکی مجھے واپس دے دی جائے۔ جس یرغمال کا آپ نے مطالبہ کیا تھا اس کی آئندہ کوئی ضرورت نہ ہو گئی۔ میں واپس شہر میں جاتا ہوں۔ اور آئندہ اس قسم کی ملاقات کی کوئی حاجت نہیں۔"
گو فرڈی نینڈ اعظم کی طبیعت سرد مہر اور سیاسی چالوں میں ڈوبی ہوئی تھی لیکن چونکہ ایک اقبال مند اور عالی مرتبت خاندان سے تھا۔ اس لئے اس کی فطرت میں اب تک خاص شکوہ و تمکنت باقی تھی۔ چنانچہ عالی حوصلہ اجنبی کے بے باکانہ اور جابرانہ طرزِ گفتگو سے وہ سخت برافروختہ ہوا۔ اور اپنے ہونٹ کاٹ کاٹ کر کہنے لگا۔
"تو نے جس صفائی سے گفتگو کی ہے، اب میں بھی ایسے ہی غیر مہذبانہ الفاظ استعمال کرتا ہوں۔ خبردار۔ تو میرے قبضۂ قدرت میں ہے اور میری اجازت کے بغیر یہاں سے واپس نہیں جا سکتا۔"
المامن نے جواب دیا "جہاں پناہ کا فرمان مجھے بلا روک ٹوک آنے اور بلا تعرض جانے کی اجازت عطا کر چکا ہے۔ اب اگر اس وعدے کی خلاف ورزی ہوئی تو آپ دیکھ لیں گے کہ غرناطہ مُوروں ہی کے ہاتھوں میں رہے گا۔ یہاں تک کہ ان کے بہادروں کے خون سے ڈاروکی ندی سرخ ہو جائے گی۔ اور اس کے باشندے خزاں زدہ بتوں کی طرح وادی کو اپنی نعشوں سے پاٹ دیں گے۔"
بادشاہ نے کہا "تو کیا تو خود بھی مذہب یہود سے ہے؟ اگر نہیں تو یہ ذلیل و بے خانماں قوم تجھے کیوں عزیز ہے؟"
"شاہ فرڈی نینڈ ، میرے آباء و اجداد اسی مذہب کے پیرو تھے۔ اور آگر میں خود اس مذہب کو چھوڑ بیٹھا ہوں تو بھی میں نے اس کے مقاصد سے منہ نہیں موڑا۔ اب کہیے آپ کو میرے شرائط منظور ہیں یا آپ انہیں حقارت سے مسترد کرتے ہیں؟"
"میں انہیں منظور کرتا ہوں۔ لیکن اس صورت میں کہ سب سے اول تو موسےٰ کو جلا وطن یا قتل کرا دے۔ دوسرے آج کی تاریخ سے دو
تاریک رات کی خاموشی۔ لشکر گاہ پر نیند کا سناٹا چھایا تھا۔ کہ اتنے میں چار سپاہی جو مقدس حلقہ کے اراکین تھے۔ اپنے ہمراہ ایک اور شخص کو پابجولاں لیے ہوئے خاموشی سے بادشاہ فرودگاہ کے قریب ایک بہت بڑے خیمے میں داخل ہوئے۔ خیمے کے ارد گرد ایک عمیق خندق اور مضبوط پشتہ تھا۔ اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پہرہ دار موجود تھے۔ اس سے کیمپ کے اس حصہ کی اہمیت ظاہر تھی۔ جس خیمے کی طرف سپاہی بڑھے، وہ وسعت میں شاہی خیمے سے بھی بڑا تھا۔ یہ کپڑے کا ایک چھوٹا سا محل تھا جس کے چاروں طرف پتھر کی سنگلاخ دیوار تھی اور کلس پر تاروں بھری رات میں ایک چھوٹا سا سیاہ پھریرا جس پر لمبی چوڑی سفید صلیب بنی ہوئی تھی، ہوا میں لہراتا نظر آتا تھا۔ سپاہی دروازے پر جا کر رک گئے۔ قیدی کو دو بلند قامت پہرہ داروں کے سپرد کیا اور ان کے کان میں آہستہ سے کچھ کہا۔ اور جب وہ قیدی کو لے کر اندر چلے گئے تو خود چپ چاپ اور بے حس و حرکت مقررہ مقام پر پہرہ دینے کھڑے ہو گئے۔ کیونکہ تشدد آمیز خاموشیاور اہل سپارٹا کا سا
انتظام اس فرقہ (سینٹ ہرمنداد) کا دستورالعمل تھا۔
قیدی جب اس خیمے کے قریب پہنچا تو ایک لمحہ کو ٹھٹک گیا اور ادھر ادھر غور سے دیکھنے لگا۔ گویا وہ اس جگہ کو ذہن نشین کرنا چاہتا ہے۔ پھر ایک خاص انداز سے بےقراری کا اظہار کر کے اپنے محافظوں کے پیچھے ہو لیا۔ پہلے وہ خیموں کے دو حصوں میں سے گذرا جہاں مدھم سی روشنی اور خاموشی طاری تھی۔ ایک آدمی سیاہ ڈھیلا لباس پہنے جس کے سینے پر سفید صلیب کا نشان بنا ہوا تھا، نمودار ہوا۔ ان سپاہیوں اور اس سیاہ پوش نے گونگوں کی طرح اشاروں سے کچھ باتیں کیں۔ اس کے لمحہ بھر بعد المامن نے اپنے آپ کو ایک وسیع کمرے میں پایا۔ جس کے پردے سیاہ بھاری کپڑے کے تھے۔ اس کمرے کے بالائی حصے میں ایک قسم کا چبوترہ تھا اور اس پر ایک لمبی میز رکھی تھی جس کے گرد آدمی بیٹھے تھے اور ان کے وسط میں پادری ٹارکومیڈا ٹومس کی خاموش و درشت صورت نظر آتی تھی۔ دو شخص خیمے کے دروازے کے محافظ تھے، جن کے لباس وضع و قطع میں اسی شخص کی پوشاک سے ملتے جلتے تھے جس نے المامن کو ٹومس کے حضور میں حاضر کیا تھا۔ وہ سب لمبے لمبے بھالے اور دو دھاری تلواریں اٹھائے تھے۔ اس یاس انگیز و منحوس کمرے میں صرف یہی لوگ موجود تھے۔
یہودی نے کمرہ کے چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ اس کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا مگر آنکھوں سے نخوت اور حقارت ٹپکی پڑتی تھی۔ اور جب اس کی آنکھیں مذہبی پیشوا ٹومس سے دوچار ہوئیں تو معلوم ہوتا تھا کہ دونوں جو طبیعت کی تندی اور جذبات کی سختی کے سبب سے عوام سے بالاتر تھے۔ نگاہوں کے زور سے ایک دوسرے کو مرعوب کرنے کے درپے ہیں لیکن حقیقت میں دونوں میں سے کوئی بھی ایک دوسرے سے انصاف کے ساتھ پیش نہ آ رہا تھا اور پادری کی سردمہری سے ملی ہوئی نفرت نے المامن کی رعونت کو بیدار کر دیا تھا۔
ٹومس نے نظر اٹھانے میں سبقت کی اور کہا "قیدی! تیری موجودہ حالت کے لئے
مناسب یہ تھا کہ تیری نخوت کسی قدر کم ہوتی اور تیرے چہرے پر ضد اور سرکشی کے آثار نہ ہوتے۔ مگر اس کا کچھ مضائقہ نہیں۔ ہماری کلیسا حلیم اور منکسر ہے۔ ہم نے تجھے یہاں نیک اور برادرانہ مقصد سے طلب کیا ہے۔ کیونکہ اگرچہ جاسوسی اور غداری کے باعث تو گردن زدنی ہے، مگر توبہ کرنے پر ہم بخوشی تیرے قصور بخش دیں گے۔ امید کو ہاتھ سے نہ دے کیونکہ ہم سب کی فطرت کمزور ہے۔ اور زندگی کی مقتضی ہے۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہوتا ہے۔
یہودی نے جواب دیا "پادری! اگر تو پادری کہلانے کا مستحق ہے تو سن پیشتر ہی جب میں گرفتار ہو کر اس لشکر گاہ میں پہنچا تھا تو میں نے افواجِ مور میں اپنے روکے جانے کی وجہ بیان کر دی تھی۔ یہ شاہ ہسپانیہ کا جوشِ خدمت تھا جس نے مجھے اس بلا میں گرفتار کر دیا۔ اس آفت سے آزاد ہونے پر جس میں میں اس کی خاطر اسیر ہوا تھا۔ کیا شاہ ہسپانیہ ہی میرا دشمن اور مدعی ہو جائے گا؟ اگر اس بےبہا خدمت کا صلہ میری جان کا خاوہاں ہونا ہی ہے تو میں سر تسلیم خم کرتا ہوں۔ جو برے سے برا سلوک تو مجھ سے کرنا چاہے، تجھے اجازت ہے۔ اور اپنے آقائے نعمت سے یہ کہہ دینا کہ جتنی فتح وہ تیز ہزار جنگ جوؤں کی امداد سے حاصل کر سکتا ہے اس سے زیادہ نقصان اسے میری موت سے پہنچا ہے۔
ٹومس نے حقارت سے کہا "اس بے سود بیہودہ گوئی کو بند کر اور اب یہ نہ سمجھ کہ فرڈی نینڈ والیِ ہسپانیہ کی اعلیٰ ذہانت تیری باتوں کی شیرینی کے فریب میں آ جائے گی۔ اب تجھے جہاں پناہ (جن کی خدمت کا تو دعوےٰ کرتا ہے) کے ساتھ دغا کرنے کے الزام سے بھی بڑھ کر سنگین جرم کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔ جس کے مقابل میں تجھے اپنے آپ کو بچانا ہے۔ ہاں چونکہ تو بے دین ہے۔ یہ تیری مرضی ہے کہ تو معبودِ برحق کے حق میں کفر بکنے کی بجائے جواب دہی کر۔ اس حقیقت کا اقبال کر کہ تو بنی اسرائیل کی قوم و مذہب سے ہے۔
یہودی کا چہرہ مکدر ہو گیا مگر اس نے متانت سے کہا "انسان انسان کے
افعال کا منصف ہے، نہ کہ اس کے خیالات کا۔ میں تیرے سوال کا جواب نہ دوں گا۔"
"صبر کر۔ ہمارے پاس ایسے ذرائع ہیں جن کے مقابلے میں بڑے بڑے شیر مرد اور سنگ دل بھی عاجز آ چکے ہیں۔ سوچ سمجھ لے اور اقبال کر۔"
یہودی نے کہا "تیری دھمکیاں مجھے مرعوب نہیں کر سکتیں۔ لیکن میں انسان ہوں۔ چونکہ تو حقیقت سے واقف ہونے کا خواہاں ہے تو مجھے عذاب دئیے بغیر ہی اس کا علم حاصل کر سکتا ہے۔ میں اسی نسل سے ہوں جس سے تیرے کلیسا کے رسول تھے۔ میں یہودی ہوں۔"
"یہ اقبال کرتا ہے۔ یہ الفاظ لکھ لو۔ قیدی تو نے بہت دور اندیشانہ جواب دیا ہے۔ اور ہم خدا وند سے دعا کرتے ہیں کہ تو اسی طرزِ عمل کے باعث موت اور اذیت دونوں سے بچ نکلے اور کیا تیری لڑکی نے بھی اسی عقیدے کی تعلیم پائی ہے۔ جواب دے؟"
"میری لڑکی! اس پر تو کوئی الزام نہیں ہے۔ سینا اور ہوریب کے خدا کی قسم۔ تم اس معصوم کے سر کا ایک بال بھی بینکا کرنے کے مجاز نہیں ہو۔"
ٹومس نے سرد مہری سے اپنا سوال دہرایا "جواب دے۔"
"میں جواب دیتا ہوں کہ وہ اپنے باپ کے عقائد کے خلاف پروان نہیں چڑھی۔"
پادری بولا "اس اقرار کو لکھ لو۔" اور پھر کسی قدر تامل کے بعد گفتگو شروع کی۔ "صرف چند اور سوال باقی ہیں۔ ان کا صحیح جواب دے تو تیری جاں بخشی کر دی جائےگی۔ اندلس کے یہودیوں کو اقبال مند اور بااثر بنانے کے متعلق تو نے سازش کی تھی اور تو نے عیاری سے ہمارے خداوند کے مقلدین کے برابر انہیں حقوق دلانے کا مطالبہ کیا تھا۔ مجھے اس بات کی کچھ جستجو نہیں کہ کن ناپاک طریقوں سے تو نے ہسپانیہ کے ولی عہد کو اپنی بیٹی کے شہوت پرست عشق میں پھنسانے کی سازشی کی ۔۔۔ دیکھ چپکا کھڑا رہ۔ کیا اندلس کے بعض یہودیوں نے تجھ شہ دی۔ تیری معاونت کی یا تجھے اکسایا تھا؟"
المامن نے تندی سے چلا کر کہا "پادری زبان سنبھال۔ تو نے میری
نورِ نظر کا نام لیا۔ کیا میں یہ صحیح سن رہا ہوں کہ ایک بادشاہ اور کلیسا کا مقتدا کی مقدس حفاظت میں (میں تیری منت کرتا ہوں مجھے جواب دے) شاہی نسب کے کسی فرد کے عیاشانہ خطابات سے اس کی توہین کی گئی ہے۔ جلد جواب دے میں یہودی ہوں۔ لیکن انسان ہوں اور ایک بیٹی کا باپ۔"
پادری جو زندگی کے تمام رشتوں سے آزاد تھا۔ ان جذبات کی حدت و حرارت نہ جانتا تھا۔ اس نے جواب دیا۔
"تیرا یہ جھوٹا جوش و غضب ہمیں دھوکا نہیں دے سکتا۔ میں نے تجھ سے جو سوال کیا ہے اس کا جواب دے۔ اپنے معاونین کے نام بتا؟"
"میں نے تجھے سب کچھ بتا دیا ہے۔ تو نے میری بات کا جواب دینے سے انکار کیا۔ میں تجھ سے نفرت کرتا ہوں اور تجھے ذلیل سمجھتا ہوں۔ بس سمجھ لےکہ اب میرے ہونٹ سل گئے۔"
مذہبی عدالت کے پیشوا ٹومس نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا اور ہاتھ بلند کیا۔ اس کے نائبوں نے ایک دوسرے سے سرگوشیاں کیں۔ ان میں سے ایک اٹھا اور خیمے کی پشت پر پردے کے پیچھے غائب ہو گیا۔ فوراً پردے سرکے اور قیدی کو ایک اندرونی کمرہ دکھائی دیا۔ جس میں کئی قسم کے آلات پڑے تھے۔ جن کی ساخت ہی ان کی ماہیت کے اظہار میں دھوکا دیتی تھی۔ اور کمرے کے وسط میں ایک شکنجے کے قریب ایک بلند قامت ڈراؤنا آدمی کھڑا تھا جس کے بازو برہنہ تھا۔ اور آنکھیں قیدی کی چہرے پر گڑی ہوئی تھیں۔
المامن نے ان خوفناک اوزاروں اور تیاریوں کو بڑے استقلال سے دیکھا۔ خیمے کے دروازے کا پہرے دار آگے بڑھا۔ قیدی کے ہاتھوں اور بازوؤں سے بیڑیاں اتار ڈالیں اور اسے تعذیب کی مقررہ جگہ پر لے گئے۔
یہودی دفعتاً ٹھہر گیا۔
اس نے ایسے عاجزانہ لہجے میں جو اس نے تمام گفتگو میں اختیار نہ کیا تھا۔ کہا۔
"پادری تو نے میرے اجڑے گھر کی اکلوتی بیٹی کے متعلق جو بات کہی تھی۔ اس نے مجھے تھوری دیر کو محبتِ پدری کے باعث بےتاب اور پریشان کر دیا تھا۔ مجھے صرف ایک لمحے کو ہوش سنبھالنے کی مہلت دے اور پھر تو جو کچھ پوچھے گا میں بلا جبر و کراہ اس کا جواب دوں گا۔ تو اپنے سوال کو ایک دفعہ دہرا دے؟"
پادری خود خوف سے نا آشنا اور تمام تکالیف سے بےپروا تھا۔ اور اس وجہ سے اسے اوروں پر ظلم کرنا معقول معلوم ہوتا تھا۔ وہ قیدی کی کمزور اور ظاہری تلون پر نفرت سے مسکرایا۔ لیکن چونکہ وہ تعذیب میں صرف تعذیب ہی کے خیال سے مسرت حاصل نہ کرتا تھا، اس لئے اس نے محافظوں کو حکم دیا کہ اسرائیلی کو چھوڑ دیں اور موقع کے اثر کا خیال کر کے ایسی آواز میں جو فطرتاً نرمی اور رحم دلی کی آواز تھی۔ بولا۔
"قیدی! اگر ہم اپنے جسم پر اذیت برداشت کر کے تجھے عذاب سے بچا سکتے تو خدا گواہ ہے، ہم نہایت خوشی سے وہ تکالیف برداشت کرتے جو ہم نے نہایت رحم اور رنج کے ساتھ تیرے لئے روا رکھی ہیں۔ ٹھہر جا۔ ذرا دم لے۔ اپنے پریشان خیالات کو مجتمع کر۔ ہمارے سوال کرنے سے پہلے تین منٹ تک غور کر۔کہ تجھے کون سا رویہ اختیار کرنا ہے۔ مگر یاد رکھ۔ ہماری مہربانی کو حقیر نہ سمجھ لینا۔"
المامن کی آواز میں شکر گزاری کا رنگ تھا۔ اس نے کہا "بس یہ کافی ہے۔ میں تیرا ممنون ہوں۔" یہ کہتے ہی اس کا سر نیچے سینے پر جھک گیا جسے اس نے اپنی لمبی عبا کے دامن میں چھپا لیا۔ گویا کسی گہرے خیال میں ہے۔ اس کے وقت مہلت کا نصف حصہ بھی بمشکل گزارنے پایا ہو گا کہ اس نے پھر سر اوپر اٹھا اور اٹھاتے اٹھاتے ہی اپنا قبا پیچھے ہٹا دی۔ پادری کے لبوں سے ایک بلند چیخ نکل گئی۔ اور سپاہی خوف سے سہم گئے۔ ان کے شکار میں ایک حیرت انگیز تبدیلی ہو گئی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کے درمیان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 117
وہ آگ کے شعلوں میں لپٹا ہوا کھڑا ہے۔ اس کے منہ سے شعلے نکل رہے تھے۔ شعلے اس کی لمبی لمبی زلفوں سے کھیل رہے تھے اور اس کے بازوؤں پر آتشیں سانپوں کی طرح بل کھائے ہوئے تھے۔ اس کا سینہ اور ہاتھ پاؤں اس کی مغرور گردن اور پھیلے ہوئے بازو خون میں رنگے معلوم ہوتے تھے۔ اور جب ایک لمحے کو اس کی نگاہیں اپنے گرفتار کرنے والوں کی کانپتی ہوئی نظروں سے دوچار ہوئیں تو اس کی حالت اس زمانے کے تمام توہمات کی مصداق معلوم ہوتی تھی۔ وہ لرزاں قیدی نہ تھا بلکہ ایک بہت بڑا دیو یا ایک خوف ناک ساحر تھا۔
سب سے پہلا شخص جس کے ہوش و حواس بجا ہوئے۔ پادری تھا۔ اس نے چلا کر کہا "اس جادوگر کو پکڑ لو۔" مگر کسی شخص نے حرکت نہ کی۔ اور ابھی اس کا پورا حکم منہ سے نکل بھی نہ چکا تھا کہ المامن نے اپنے لبادے میں سے ایک شیشی نکالی اور اسے فرش پر زور سے دے مارا۔ اس کی سیکڑوں کرچیں پھیل گئیں۔ کمرے میں کہر بلند ہوئی اور اچانک رات کا سا اندھیرا چھا گیا۔ وہ اندھیرا کثیف ہوتا گیا۔ اس قدر کثیف کہ چراغوں کی روشنی بھی اس میں بے سود تھی۔ المامن کا خوں فشاں جسم دھندلا اور ماند پڑتا گیا۔ یہاں تک کہ وہ سائے میں غائب ہو گیا۔ سب کی آنکھوں پر نابینائی کا پردہ سا چھایا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ چاروں طرف موت کا سناٹا تھا۔ جس کو صرف ایک چیخ اور کراہنے کی آواز توڑ رہی تھی۔ اور جب چند لمحوں کے بعد رفتہ رفتہ کمرے کی تاریکی چھٹی تو المامن جا چکا تھا۔ پہرہداروں میں سے ایک خون میں نہایا ہوا زمین پر پڑا تھا اوروں نے اسے اٹھایا۔ اس سپاہی نے قیدی کو پکڑنے کی کوشش کی تھی۔ مگر اسے کاری زخم پہنچا تھا۔ وہ اپنا حال لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے کہنا چاہتا تھا مگر اسی اثناء میں مر گیا۔ اس وقت گھبراہٹ اور پریشانی میں کسی نے کہ دیکھا مگر بعد میں معلوم ہوا
قیدی مقتول کا لمبا فرغل اتار کر لے گیا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ اس قسم کے زبردست جادو کے باوجود بھی دنیاوی چال بازی کے بغیر لشکرگاہ سے بچ نکلنا اس کے لئے محال تھا۔
ٹومس نے دو زانو ہو کر سنجیدگی سے کہا "شیطان ہمارے درمیان آ گھسا تھا۔ آؤ دعا کریں۔"
اسی حجرے میں اور تقریباً اسی ساعت پر جس میں ہم پہلے ابوعبداللہ سے ناظرین کا تعارف کرا چکے ہیں، ہمیں پھر اس بدقسمت تاج دار کی خدمت میں بازیابی حاصل ہوتی ہے۔ وہ تنہا نہ تھا۔ اس کی منظور نظر کنیز امینہ قالینوں پر عیش پسندانہ انداز میں لیٹی تھی۔ ابوعبداللہ غرفہ کے ساتھ کی جگمگاتی دیوار سے تکیہ لگائے نیچے کے منظر کو تفکر و محویت کے عالم میں دیکھ رہا تھا۔ اور امینہ عاشقانہ تردد سے اس کے متفکر چہرے کو تک رہی تھی۔
موسےٰ کی واپسی پر اسے دور سے لوگوں کے نعرہ ہائے مسرت سنائی دئیے۔ اور توپوں کی دنادن سے ان خبروں کی مزید تصدیق ہوئی۔ جو پیشتر ہی اس کے کانوں تک پہنچ چکی تھیں۔
امین نے ڈرتے ڈرتے کہا "جہاں پناہ سلامت رہیں۔ حضور کی افواج فتح پانے کے لئے گئی تھیں۔"
ابوعبداللہ نے تلخ لہجہ میں کہا "لیکن اپنے بادشاہ کے بغیر اور ایک غدار اور دشمن کی سرداری میں۔ آہ میں گردشِ تقدیر کے چکر میں گرفتار ہوں۔"
کنیز ہاتھ جوڑ کر مسند سے اتھی اور ایک اضطراری جوش سے بولی "خدا وند کاش
میرے عاجز لب کلمات محبت کے سوا کچھ اور الفاظ عرض کرنے کی بھی جرأت رکھتے۔"
ابوعبداللہ نے ایک خفیف تبسم سے دریافت کیا "تب وہ کون سی دانشمندانہ تدبیر مجھے بتا سکتے۔ خیر کہو کیا کہتی ہو؟"
امینہ نے اونچی آواز میں کہا "خواہ یہ حضور کے ملال کا باعث ہو، مگر میں حضور کے حکم کی تعمیل کروں گی۔" یہ کہہ کر وہ اتھی۔ اس کے رخسار دہک رہے تھے۔ آنکھیں چمک رہی تھیں اور جسم کچھ پھیلا ہوا سا معلوم ہوتا تھا۔ وہ کہنے لگی "میں غرناطہ کی دختر ہوں۔ میں ایک بادشاہ کی منظور نظر ہوں۔ اپنے حسب و نسب اور اپنی خوش نصیبی سے وفا کروں گی۔ ابوعبداللہ! اے بہادروں کے خاندان کی آخری یادگار! ان یاس انگیز خیالات کو دل سے نکال پھینک۔ ان شکوک و توہمات کو دل سے دور کر دے جو ایک عظیم الشان فطرت اور شاہانہ روح کی آگ بجھائے دیتے ہیں۔ جاگ۔ اتھ۔ غرناطہ سے اس کا موسےٰ چھین لے۔ تو خود ان کا موسےٰ بن۔ اگر تو سحر و طلسم پر یقین رکھتا ہے تو انہیں اپنی ڈھال پر منقوش کر لے۔ انہیں اپنی تلوار پر لکھ لے۔ لیکن الحمرا میں محو خواب نہ رہ۔ اپنی قوم کا محسن بن!"
ابوعبداللہ منہ پھیر کر سامنے کھڑی ہوئی حسن کی جوشیلی مورت کو تعجب اور غیرت سے دیکھنے لگا۔ اور بولا "عورت کی زبان سے بھی میرے لئے لعنت و ملامت ہی نکلتی ہے۔ خیر یوں ہی سہی۔"
کنیز نے عاجزی سے گھٹنوں کے بل گر کر کہا "مجھے معاف کر مجھے معاف کر۔ لیکن مجھ پر الزام نہ لگا۔ اگر میں تجھے تیری شان کے شایاں بنانا چاہوں۔ اگر اپنی فوجوں کی سردار میں تیرا اپنا خنجر دشمنوں کو ذبح کرتا اور بہادر بادشاہ کی دہشت، شعلہ خیزیوں اور خوں ریزیوں کے ساتھ پہاڑوں سے سمندروں تک پ ھیل جاتی، تو کیا تو زیادہ خوش نہ ہوتا؟ تو کیا تیرا دل زیادہ سبک اور تیری امید زیادہ قوی نہ ہوتی؟ ابوعبداللہ! جس قدر تو مجھے اب محبوب ہے، اگر تو ڈارو کی ندی کا ایک غریب ماہی گیر بھی ہوتا تو اسی قدر محبوب ہوتا۔ لیکن چونکہ تو بادشاہ ہے۔ اس لئے
میں تجھے ایک بادشاہ کی موت مرتے دیکھنا چاہتی ہوں۔ خواہ میرا اپنا دل اس وقت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے۔ جب میں پہلی لڑائی کے لئے اپنے ہاتھوں سے تیرے ہتھیار سجاؤں۔
ابوعبداللہ نے کہا "امینہ تو جو کچھ کہہ رہی ہے، اسے سمجھتی نہیں۔ تو یہ بھی نہیں بتا سکتی کہ کون سی روحیں ہیں جو دنیا سے تعلق نہیں رکھتیں۔ اور اقوام کے حکمرانوں کے افعال کی راہ نمائی اور قسمتوں کی محافظت کرتی ہیں۔ اگر میں التواء کرتا ہوں، اگر میں لیت و لعل کرتا ہوں۔ تو اس کی وجہ خوب نہیں مصلحت ہے۔ برق و رعد کی چمک اور کڑک پیدا ہونے سے پیشتر سیاہ اور سست خرام بادلوں کا جمع ہونا ضروری ہے۔"
ایک سکون پذیر اور درشت آواز نے کہا "تو بادلوں کو خود اپنے گھر پر جمع ہونے کا موقع دے رہا ہے۔ اس لئے تیرے گھر پر عنقریب بجلی گرے گی۔"
ابوعبداللہ چونک پڑا۔ کمرے میں ایک اور نسوانی ہستی کھڑی تھی۔ جس کی عمر ادھیڑ سے متجاوز تھی۔ اور قد و قامت حاکمانہ۔ اس کے نیچے تک لٹکتے ہوئے سرخ لباس پر کارچوبی کا کام بنا ہوا تھا۔ اور جواہر شاہوار جڑے ہوئے تھے۔ اس کے سیاہ گیسو جس میں سفیدی کی ہلکی سی جھلک تھی۔ اس کی پرشکوہ پیشانی کے دونوں طرف لہرا رہے تھے اور ڈپٹہ کی تہوں پر ایک چھوٹا سا تاج جگمگا رہا تھا۔
ابوعبداللہ نے کسی قدر پرنخوت لہجہ میں کہا "اماں جان آپ کی موجودگی غیر متوقع ہے۔"
عائشہ نے (یہ حقیقت میں وہی نامور پر تمکنت اور پرجوش ملکہ تھی) کہا۔ "درست ہے میں تمہارے سب خیر اندیشوں کی طرح ناخواندہ مہمان ہوں۔ لیکن تمہاری ماں کی موجودگی اس زمانہ میں تو ایسی ناگوار نہ تھی جب اس کی تدابیر اور لیاقت نے تمہیں اس تہہ خانہ سے رہائی دی تھی، جس میں تمہارا درشت مزاج باپ تمہارے شباب کو ڈھال رہا تھا اور خنجر یا زہر کا پیالہ وہی وہ کنجیاں تھیں جو قید خانہ کے دروازہ کو کھول سکتی تھیں۔"
"اور بہتر ہوتا اگر تو اپنے بدبخت بیٹے کو جسے تو نے جنا، اسی حال میں رہنے دیتیکہ جوانی میں عزت کی موت مرتا۔ لوگ اس کی جوان مرگی پر آنسو بہاتے۔ اور اس سن کہولت کو نہ پہنچتا۔ جبکہ اسے منحوس اختر قسمت اور ظالم تقدیر سے کشمکش کرنی پڑی ہے۔"
ملکہ نے کسی قدر بارعب اور حقارت آمیز رحم سے اس کی طرف دیکھ کر کہا "بیٹا۔ انسان کا اپنا اہتمام و انتظام اپنی تقدیر کو خود ڈھال لیتا ہے۔ اور بدبخت نہ کبھی دانا ہوا ہے نہ ہی دلاور۔"
ابوعبداللہ کا چہرہ جوش سے تمتما اٹھا۔ بولا "اماں جان میں ابھی تک ایک بادشاہ ہوں۔ میں یہ مقابلہ کے جواب برداشت نہیں کر سکتا۔ آپ چلی جائیں۔"
اس سے پیشتر کہ ملکہ جواب دیتی۔ ایک خواجہ سرا داخل ہوا اور اس نے ابوعبداللہ کے کان میں کچھ کہا۔
ابوعبداللہ نے فرحت و انبساط سے زمین پر پاؤں مار کر کہا "اخاہ۔ تو کیا وہ شیر کا مقابلہ کرنے کے لئے اس کے بھٹ میں آ رہا ہے۔ اس باغی کو یہ تو سوچنا چاہیے تھا۔ کیا وہ تنہا ہے؟"
"عالی جاہ۔ وہ تنہا ہے۔"
"پہرہ داروں سے کہہ دو کہ باہر ٹھیریں۔ تاکہ خفیف سا اشارہ انہیں بلانے کو کافی ہو۔۔۔ امینہ رخصت! ۔۔۔ محترمہ ۔۔۔"
عائشہ نے نمایا جوش سے اس کی بات کات کر کہا "کیا میرا قیافہ درست ہے کیا یہ بہادر موسےٰ غرناطہ کی امید اور اس کا پشت و پناہ ہے۔ جسے کل رات تو نا انصافی سے زنجیروں میں جکڑنا چاہتا تھا (زنجیریں! یا رسول اللہ۔ کیا بادشاہ کبھی اپنے بہادروں کی جاں نثاری کا صلہ یوں دیا کرتے ہیں) کیا موسےٰ یہاں آیا ہے۔ اور کیا تو اسے اس کے فیاضانہ اعتماد کا شکار بنانا چاہتا ہے؟"
ابوعبداللہ نے چیں بجبیں ہو کر کہا "محترمہ جائیے۔"
"میں بغیر زبردستی کے یہاں سے نہ ٹلوں گی۔ جب میں نے تجھے تیرے باپ سے بچایا تھا تو ایک تجھ سے بھی زیادہ خونخوار طبیعت کا مقابلہ کیا تھا۔"
"اچھا اگر آپ کی مرضی یہی ہے۔ تو ٹھیریے۔ اور دیکھئے کہ کس طرح بادشاہ دغا باز اور مفسدوں کو سزا دے سکتے ہیں۔ منصور۔ غرناطہ کے سورما کو آنے دو۔"
امینہ غائب ہو گئی تھی۔ ابوعبداللہ گدیلوں پر بیٹھ گیا۔ اس کا چہرہ پریشان نہ تھا۔ مگر رنگ فق تھا۔ کچھ فاصلہ پر ملکہ سیدھی کھڑی تھی۔ اس نے اپنے ہاتھ سینہ پر باندھ رکھے تھے۔ پیشانی پر شکنیں پڑی ہوئی تھیں۔ اور وہ استقلال کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ چند لمحموں کے بعد موسےٰ تنہا داخل ہوا۔ نہایت عاجزے سے مشرقی آداب بجا لا کر بادشاہ کی جانب بڑھا اور اس کے روبرو نظریں نیچی کر کے اس انداز سے کھڑا ہو گیا کہ تعظیم و آداب شاہانہ کے باوجود اس کے طبعی وقار و تمکنت اور جبلی خود داری بدستور نمایاں تھی۔
ابوعبداللہ نے ایک لمحہ کے تامل کے بعد کہا "شہزادے۔ کل صبح جب میں نے تجھے طلب کیا تھا تو تو نے میرے احکام کی تعمیل نہیں کی تھی۔ میرے اپنے الحمرا میں تیرے غلاموں نے بغاوت برپا کر دی۔ انہوں نے اس قلعہ کو گھیر لیا جس میں تو میرے احکام کے انتظار میں نظر بند رکھا گیا تھا۔ وہ لوگ خلل انداز ہوئے۔ انہوں نے میرے احکام کی توہین کی۔ میرے محافظوں کو شکست دی اور اس برج پر حملہ آور ہوئے جس کا محافظ تیرے بادشاہ کا علم تھا۔ وہاں کے بزدل اور مفسد حاکم نے تجھے باغی گروہ کے حوالے کر دیا۔ پھر اسی پر اکتفا نہیں کی بلکہ رسولِ خدا کی قسم۔ تو نے جو میرا زندانی تھا، اپنے قید خانہ کو چھوڑ کر میری ہی افواج کی سردار کی اور آج کے دن تو مفسد چھپا دشمن اور ان لوگوں کا راہنما بنا۔ جو اپنے بادشاہ سے مقابلہ کرتے ہیں۔ آج تو بن بلائے میرے پاس چلا آیا ہے۔ اور میرے اپنے محل میں میرے برمحل غصہ سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہے۔ تیری بےباکی نے تجھے اندھا کر دیا اور تیری قسمت نے تجھے دھوکہ دیا ہے۔ موسےٰ تو اس وقت میرے قبضہ میں ہے ۔۔۔ کوئی ہے!"
یہ کہتے کہتے بادشاہ اٹھ کھڑا ہوا۔ کمرے کی پشت کی محراب حبشی محافظوں کی صفوں سے تاریک ہو گئی جن میں سے ہر ایک کی قامت پست قد موروں کے مقابلہ میں
نہایت گراں ڈیل تھی۔ وہ عجیب ہونق اور جذبات انسانی سے معرا آلے تھے، کہ بغیر سوچے سمجھے مطلق العنان بادشاہ کے خونی سے خونی یا خفیف سے خفیف وہمی حکم کی تعمیل کریں۔ وہ کھڑے ہوئے تھے۔ ان کے نقرئی چار آئینے اور لمبی لمبی صرکیاں ان کے سیاہ جسم کے مقابلہ میں نمایا ں معلوم ہوتی تھیں۔ اور وہ اپنے کندھوں پر بڑے بڑے گرز اٹھائے ہوئے تھے۔ جنمیں بےشمار برنجی میخیں گڑی ہوئی تھیں۔
ذرا آگے ان کا افسر کھڑا تھا۔ اس نے پھانسی کا مہلک پھندا بےپرواہی سے اپنے بازو پر لٹکا رکھا تھا اور اس کی آنکھیں متوجہ تھیں۔ اور بادشاہ کے خفیف سے خفیف اشارہ کی منتظر۔
ابوعبداللہ نے اپنے قیدی سے کہا "دیکھ!"
"میں دیکھ رہا ہوں۔ اور پیش بینی کے مطابق بالکل تیار اور آمادہ ہوں۔"
ملکہ کا رنگ فق ہو گیا۔ مگر وہ خاموش رہی۔
موسےٰ نے گفتگو شروع کی۔
کہنے لگا "امیر المومنین کل صبح اگر میں نے کوئی دوسرا طرزِ عمل اختیار کیا ہوتا تو اس کا انجام تیرے تخت اور ہماری نسل کی تباہی ہوتا۔ خونخوار ذغریوں کو شبہ تھا۔ انہیں میری گرفتاری کا علم ہو گیا۔ انہوں نے فوجیں طلب کیں مجھے مخلصی دیہی صحیح ہے۔ لیکن اگر اس وقت میں ان سے بحث شروع کر دیتا تو اس کا وہی اثر ہوتا جو پانی کی چند بوندوں کا بھڑکتی ہوئی آگ پر ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ ٹھان رکھا تھا کہ محل کا محاصر کر لیں اور شاید وہ آپ سے مطالبہ کرتے کہ آپ تخت سے دست بردار ہو جائی۔ میں ان کے تند جوش کو تو قابو میں نہ لا سکتا تھا۔ مگر اسے دوسری طرف منعطف کر سکتا تھا۔ ان کے اس جوش و غضب سے میں نے مناسب فائدہ اٹھایا۔ ان کے غصہ کو بادشاہ اور سلطنت اسلامیہ کی بغاوت سے ہٹا کر دشمنوں کی تباہی کی طرف متوجہ کر دیا۔ ادائے فرض کے بعد عیسائیوں کی تیغ سے بےضرر بچ کر آیا ہوں کہ اپنی گردن میں دوست کی پھانسی کا پھندا ڈلوالوں۔ بغیر کسی شک و شبہ کے، بغیر کسی کے
تعاقب کئے میں تنہا تیرے میں محل میں داخل ہوں، کہ شاہ غرناطہ پر روشن کر دوں کہ اس کے تخت کا محافظ، اس کی حکومت سے باغی نہیں ہے۔ اب محافظوں کو حکم دیجیے۔ مجھے جو کہنا تھا۔ کہہ چکا۔
ابوعبداللہ نے اپنے ایک ہاتھ سے چہرہ کو ڈھانپ کر ملائم آواز میں کہا "موسےٰ! بچپن میں ہم دونوں اکھٹے کھیلتے تھے اور میں ہمیشہ تجھ سے محبت کرتا رہا ہوں۔ اب بھی کہ شاید میری سلطنت میرے ہاتھوں سے نکلی جا رہی ہے۔ تیری وفا نے مریا ساتھ نہ چھوڑا تو میں اس نقصان کو صبر و شکر سے برداشت کر لوں گا۔"
شہزادہ نے تعجب و افسوس کی آواز میں کہا "کیا حقیقت میں تو موسےٰ ابن ابی غازان کی وفاداری پر شبہ کرتا ہے؟ بدنصیب بادشاہ! میں سمجھتا تھا کہ میری نافرمانی نہیں بلکہ میری خدمات ہی مجھے مجرم بنا رہی ہیں۔"
ابوعبداللہ نے پریشان ہو کر کہا "میری رعایا مجھ سے کیوں متنفر ہے؟ میری افواج کیوں سرکشی کرتی ہیں؟ رعایا کا ایک شخص وہ اثر و اقتدار کیوں رکھتا ہے جو ایک بادشاہ حاسل نہیں کر سکتا؟"
موسےٰ نے دلیرانہ کہا "اس لئے کہ بادشاہ نے رعیت کے ایک شخص کو وہ اختیارات سونپ دئیے ہیں جو اسے اپنے لئے محفوظ رکھنے چاہیے تھے۔" اس نے جوش سے کہا "آہ! ابوعبداللہ! میرے بچپن کے دوست قبل اس کے کہ ہم پر منحوس دن اپنا سایہ ڈالیں۔ اگر تیری بازو اور تیرا دماغ غرناطہ کے جنگ جوؤں کے درمیان میری جگہ لے لے تو میں بخوشی اس نیچے بہنے والے دریا کی سیاہ موجوں میں آرام کرنے کے لئے ڈوب مروں گا۔ مگر یہ نہ سمجھ کہ میں نے اپنی زندگی تیرے ہاتھوں اسی استبداد آمیز اور غلامانہ وفاداری کی تقلید میں سونپ دی ہے، جیسے دنیائے عیسائیت کا تقاضا ہے کہ شہسوار اور معززین اپنی زندگیاں ایک شخص واحد کے بیچ دیں لیکن میرے تمام قول و فعل اس اصول کے ماتحت ہیں کہ اپنے آبا و اجداد کا مذہب
اور اپنے مرزبوم کو بچاؤں۔ اسی لئے میں نے اپنی زندگی دشمن کے مقابلہ میں خطے میں ڈالی ہے۔ اسی لئے میں اپنی زندگی اپنے ملک کے حکمران کے حوالہ کرتا ہوں۔ اگر غرناطہ کا بادشاہ اور رعیت دونوں متفق ہو جائیں تو غرناطہ اب بھی سلامت رہ سکتا ہے۔ اگر غرناطہ کے فرزند اس منحوس ساعت میں ایک دوسرے کے خلاف ہو گئے تو غرناطہ ہمیشہ کے لئے جاتا رہے گا۔ اس لئے اے ابوعبداللہ۔ اگر میں تیری اپنی رعایا سے تیرے اتحاد میں درحقیقت سدِ راہ ہوں، تو فوراً مجھے اس سولے کے حوالہ کر اور یقین رکھ کہ میری دعائے موت سلسۂ مور کے آخری فرد اور موری خاندان کے آخری شہنشاہ کے حق میں ہو گی۔"
ملکہ اگرچہ معمولی غم و الم یا نسوانی جذبات سے کبھی متاثر نہ ہوتی تھی۔ لیکن شجاعانہ جذبات پر بہت جلد آبدیدہ ہو جاتی تھی۔ وہ بمشکل اپنے آنسوؤں کو بصد کشمکش روک کر چلائی "میرے بچے۔ میرے بچے۔ کیا آخر کار تو قائل ہو گیا ہے؟"
ابوعبداللہ نے اظہارِ تمکنت کی ناکام و ناپائدار کوشش کر کے اپنا سر اٹھایا۔ نگاہ ماں کے چہرہ سے گزر کر دوست کے چہرہ پر جا ٹھہری۔ اور اس کے جذباتِ عالیہ ایک ناقابل مدافعت قوت سے عود کر آئے۔ اس نے اپنے آپ کو موسےٰ کی آغوش میں ڈال دیا۔
اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کہا "مجھے معاف کر۔ مجے معاف کر۔ میں کس طرح تیرے ساتھ یہ طلم کر سکتا تھا؟" جب وہ اس سینہ سے جدا ہوا جو حسیاتِ عالی سے معمور تھا اور جس نے ایک لمحہ کے لئے بھی کسی بزدلانہ کمزوری کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا تھا تو اس نے پھر کہا "ہاں شہزادہ تیرے اعمال کے نمونہ سے مجھے شرم آتی ہے۔ لیکن اشتعال بھی پیدا ہوتا ہے۔ اب سے غرناطہ کے دو سردار ہوں گے اور اگر میں نےتجھ سے رشک کیا تو اس کی وجہ ایک سعیِٔ سبقت ہو گی۔ جو شاید تیرے نزدیک بھی قابل الزام نہ ہو۔ پہرہ دارو رخصت۔ منصور! او منصور! اعلان کر دے کہ کل پو پھٹتے ہی میں خود دیوار ارمبلاء میں افواج کا معائنہ کروں گا۔" لیکن یہاں اس کی
آواز کانپنے لگی اور پیشانی تاریک سی ہو گئی "لیکن ٹھہر۔ علی الصبح تو خود میرے پاس آنا۔ میں تجھے خود احکام دوں گا۔"
ملکہ نے چلا کر کہا "آہ میرے بچے اب کیوں پس و پیش کرتا ہے؟ کیوں ڈگمگاتا ہے؟ اپنے شاہانہ منصوبے تو خود پورے کر۔ اور۔۔۔"
ابوعبداللہ کے چہرہ پر حسبِ معمول پھر سردمہری برسنے لگی۔ وہ بولا "محترمہ خاموش۔ چونکہ اب تم اپنے بیٹے سے مطمئن ہو گئی ہو۔ اس لئے مجھے موسےٰ کے ہمراہ تنہا چھوڑ دو۔"
ملکہ نے ایک لمبی آہ بھری۔ لیکن ابوعبداللہ کے سکون میں کچھ ایسی بات تھی جس نے اس کے جوش و خروش کے اظہار سے بھی زیادہ ملکہ کو خائف و مرعوب کر دیا۔ اس نے اپنا نقاب اچھی طرح سے پہنا اور آہستہ آہستہ بادلِ ناخواستہ حجرے سے باہر چلی گئی۔
ابوعبداللہ جب شہزادہ کے ساتھ تنہا رہ گیا تو اس نے اپنی بڑی بڑی متفکر آنکھیں اپنے رفیق کی سیاہ آنکھوں میں گاڑ کر کہا "موسےٰ جب اپنے ایام طفلی میں ہم باہم باتیں کیا کرتے تھے تجھے یاد ہے کہ اکثر وہ گفتگو ان متبرک و پراسرار مضامین کی جانب منعطف ہو جاتی تھی جن کے متعلق ہماری آبائی سرزمین کے دانشمندوں نے اپنی عمیق ترین معلومات کا اظہار کیا ہے۔ مثلاً ستاروں کے معمے، تقدیر کا علم، تاریک مستقبل کے متعلق جس میں اقوام و افراد کی قسمتیں مستور ہیں، مجنونانہ جستجو۔ موسےٰ تجھے یاد ہے میری زندگی کے نشیب و فراز اور غموم و الام میرے زمانہ طفلی کے عجیب واقعات جنہوں نے مجھے گہوارہ ہی میں الذوغیبی کا لقب دے دیا۔ میری دنیاوی تقدیر کی آزمائشوں کے متعلق درویشوں اور منجموں کی نامبارک پیشین گوئیاں غرض ان تمام چیزوں نے مجھے قسم کے مضامین کے مطالعہ کی طرف مائل کر دیا تھا تو ان تفکرات یا ہمارئے آبائی علوم کے ذخیروں سے متنفر نہیں۔ اگرچہ میرا میلانِ طبع میری طبیعت کے برعکس غور و فکر میں مصروف رہنے کی بجائے ہمیشہ مصروفِ کار رہنے کی طرف ہے۔ تیرا قعیدہ تیرے ارادوں کو ذرا متاثر نہیں کر سکتا۔ لیکن میری حالت اور ہے۔ زندگی کا ہر واقعہ میرے میلانِ طبع کو تقویت دیتا گیا۔ اور اپنی قسمت کے اس نازک مرحلہ میں میں نے اپنے آپ اور اپنے تخت کو انسانوں کی بجائے ارواح کی حفاظت کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 88
سپرد کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میرا الحمرا میں بےکار لیٹے رہنا۔ اور رعایا کی بغاوت دونوں باتیں میرے قسمت کے موافق پڑ رہی ہیں۔ جب دشمنوں نے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا اور دوستوں نے بےوفائی کی تو میں مسکراتا تھا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ اگر یہ ساعت میری خوش قسمتی کی ہے تو مجھے محافظ ارواح کی برکت اور ایک غیر مرئی مخلوق کی تلواروں کی امداد پر بھروسہ ہے۔ تو متعجب ہے کہ اس کا انجام کیا ہو گا۔ سن۔ آج سے دو رات پیشتر (بادشاہ خوف سے کانپ گیا) میں مردوں کے درمیان تھا۔ میرا باپ میرے سامنے ظاہر ہوا۔ اس صورت میں نہیں جس میں میں نے اسے زندگی میں دیکھا تھا۔ تنومند، دہشت ناک، صحت اور طاقت سے اور سلطنت کی قوت سے معمور اور خوف ناک جذبات کا شخص نہیں۔ بلکہ زرد اور خاموش اور سایہ کی مانند۔ اس نے ان لبوں سے جن پر عزرائیل نے اپنی مہر لگا دی ہے۔ مجھے نصیحت کی کہ میں تجھ سے خبردار رہوں!"
بادشاہ دفعتاً رک گیا اور موسےٰ کے چہرہ پر اپنے الفاظ کا اثر تلاش کرنے لگا۔ لیکن موسےٰ کے پرشکوہ چہرہ پر ضمیر کے تازیانہ کا کوئی نشان عیاں نہ ہوا۔ جذبۂ رحم کی ایک ہلکی سی مسکراہٹ ایک لمحہ کے لئے اس کے ہونٹوں پر کھیل گئی۔ لیکن بادشاہ کو علم ہونے سے پیشتر ہی غائب ہو گئی۔ ابوعبداللہ نے پھر سلسلۂ گفتگو جاری کیا۔
"اس تنبیہہ کے مطابق میں نے تیری گرفتاری کا حکم نافذ کیا۔ خیر اس کا ذکر جانے دے میں اپنی داستان ہی سناتا ہوں۔ میں نے کوشش کی کہ اپنے آپ کو اس سایہ کے قدموں میں ڈال دوں لیکن وہ غیر محسوس طور پر اور بے حس و حرکت میرے قریب سے غائب ہو یا۔ میں نے باپ کی روح سے پوچھا۔ کیا تو نے اپنے بدنصیب بیٹے کا جرم بغاوت معاف کر دیا جس کی اسے دنیا ہی میں کافی سزا مل چکی ہے؟ آواز آئی۔ ماضی کے گناہوں کے کفارے میں اس تاج کو قائم رکھو جو تم نے حاصل کیا ہے۔ میں نے پھر پوچھا کہ کیا کام کرنے کا وقت آ گیا ہے؟ اس سایہ نے جو آہستہ آہستہ ہوا میں تحلیل ہو رہا تھا کہا ابھی نہیں۔ میں نے کہا کہ اس سے پیشتر کہ تو مجھ سے رخصت ہو۔ ایک ایسا نشان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 89
مجھے دے جا۔ جس سے مجھے معلوم ہو کہ میں نے یہ تصور خواب میں نہیں دیکھا۔ اور میں تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ جب میرے منحوس ستارے کا اثر دور ہو جائے تو مجھے اطلاع اور تنبیہہ کرنا کہ میں عالم بالا کی قوتوں کی مزاحمت کے بغیر اپنے تاج و تخت اور شان و شوکت کے لئے کوشش کر سکوں۔ اس روحانی تصویر نے وجاب دیا۔ تجھے نشان بھی دیا جائے گا اور تنبیہہ بھی۔ یہ کہہ کر روح غائب ہو گئی۔ چاروں طرف انتہائی تاریکی چھا گئی۔ اور جب پھر ایک دفعہ ان چراغوں میں روشنی چمکی تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے روبرو ایک ڈھانچا شاہ غرناطہ کے لباس میں خسروانہ کھڑا ہے۔ اس کے مہیب سر پر سلطانی تاج رکھا تھا اور وہ ایک ہاتھ اٹھائے مقابل کی دیوار کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ جس پر مدھم آگے کے ایک کرہ کی طرح ایک وسیع چکر لگا تھا اور اس پر یہ الفاظ کندہ تھے۔ (ہوشیار)۔ (خوف مت کر)۔ (مسلح ہو جا)۔ چکر کی سوئی تیزی سے چاروں طرف پھر رہی تھی۔ وہ لفظ (ہوشیار) پر آ کر ٹھہر گئی۔ بس اس وقت سے اب تک وہ سوئی اس سے آگے نہیں ہلی۔ اب میں چاہتا ہوں کہ تو بھی میرے ساتھ چل کر وہ طلسمی کمرہ دیکھے۔ دیکھیں شاید کام کی ساعت آن پہنچی ہو۔"
موسےٰ نے کہا "امیر المسلمین۔ داستان خوف ناک اور مہیب ہے لیکن مجھے معاف کیجیے گا۔ کیا آپ تنہا تھے یا وہ درویش المامن بھی آپ کے ساتھ تھا؟"
ابوعبداللہ کا رنگ کسی قدر بدل گیا۔ اور اس نے ایک مبہم طریق سے کہا "تو یہ سوال کیوں کرتا ہے؟"
موسےٰ نے جواب دیا۔ "مجھے اندیشہ ہے کہ وہ راست باز نہیں۔ عیسائی بادشاہ قوت کی نسبت فریب سے زیادہ دشمنوں کو فتح کرتے ہیں اور اس کے جاسوس اس کے سپاہیوں سے بھی زیادہ خوف ناک ہیں۔ مجھ سے خبردار رہنے کی آپ کو کیوں تاکید کی گئی ہے؟ مجھے معاف کیجیے۔ یہ صرف آپ کی بے عملی کا نتیجہ ہے۔ اگر میں دغا باز ہوتا تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ فرڈی نینڈ آپ کے تاج و تخت کو اس قدر خطرے میں نہ ڈال سکتا۔ جتنا آپ کی افواج کے سردار کا انتقام آپ کو نقصان پہنچا سکتا۔ آپ کو بے دست و پا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 90
رکھنے کی یہ خواہش کیوں کی گئی؟ بہادر کے لئے ہر ساعت میں مفاد کے مواقع ہیں۔ لیکن ہمارے لئے ہر ساعت ہمارے خطرہ کے ازدیاد کا باعث ہوتی ہے۔ اگر ہم نے موجودہ وقت پر قابو نہ پا لیا تو ہماری رسد کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا اور قحط ایسا دشمن ہے کہ ہماری تمام شجاعت بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یہ درویش کون ہے؟ ایک اجنبی جو ہماری قوم سے نہیں۔ ہمارے خون سے نہیں۔ آج صبح میں نے اسے فصیل کے باہر ہسپانی خیموں کے قریب دیکھا تھا۔"
پادشاہ نے جلدی سے کہا "اخاہ! اور اس نے کیا کہا؟"
"کچھ نہیں۔ اشاروں میں باتیں کیں۔ اور آپ کے ن ام کے زیر سایہ پناہ لینی چاہی۔"
"ہیں! اسے کس طرح میرا نام لینے کی جرأت ہوئی۔ وہ اشارے کیا تھے؟"
موسے نے یہاں المامن کی ملاقات کا تمام ذکر دہرایا۔ اس کا وہاں ٹھہرنا، جنگ میں اس کی غیر جانب داری اور بعد میں ہسپانیوں کے ہاتھوں اس کی گرفتاری سب سنا دی۔ بادشاہ غور سے سنتا رہا اور تھوری دیر بعد پھر مطمئن ہو گیا۔
کچھ تامل کے بعد بولا "وہ ایک عجیب اور خوف ناک شخص ہے۔ نہ پہرہ دار اسے روک سکیں گے نہ سلاسل۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ واپس آ جائے گا۔ لیکن موسےٰ کم از کم تو اب سے زندوں کے شکوک اور مردوں کی تنبیہوں سے آزاد ہے۔" اور ابوعبداللہ نے سرگرمی سے کہا "میرے دوست تجھ جیسے شخص کے دل سے اعتبار کھو دینے سے بہتر ہے کہ ایک تاج کھو دیا جائے۔ بلکہ زندگی تک کھو دی جائے۔ آ۔ ہم طلسمی لوح کو دیکھیں۔ جب میں امید بھرے الفاظ کہتا ہوں کہ شاید ساعت آ پہنچی ہو۔ تو میرا دل اچھل پڑتا ہے!"
جس وقت ٹارکویمیڈا کی مسندِ عدالت میں یہ منظر پیش آیا۔ ملکہ ازابیلا نے لیلےٰ کو اپنے حضور میں طلب کیا۔ لیلےٰ امید و بیم کی ایک ایسی کشمکش میں مبتلا تھی کہ اس کی نازک فطرت اور ناز و نعم کی پرورش اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ یہ عالی حوصلہ اور بااستعداد ملکہ جس کے محاسن اکتسابی اور جس کے معائبِ بشری بہ تقاضائے عمر تھے۔ صحیح تو یہ ہے کہ خود بھی اپنے تاجدار شوہر کی طرح باطل پرستی اور غیر متحمل مزاجی سے خالی نہ تھی۔ لیکن جہاں کہیں اس کا مذہب بھی کسی کی ایذا رسانی کا فتوےٰ دے دیتا اس کا دل ہمیشہ رحم و کرم ہی کی جانب مائل ہوتا تھا۔ اور صرف ملکہ ہی کی آواز تھی جو ٹومس کے مجذوبانہ جوش کا ہمیشہ مقابلہ کیا کرتی اور ان بدنصیبوں کی تکالیف میں تخفیف کرا دیتی تھی جن پر الحاد کا شبہ ہوا کرتا تھا۔ خوش قسمتی سے اس کی طبیعت میں انصاف کا مادہ اور رحم کا احساس بھی وافر تھا۔ اور اکثر اوقات جب وہ کسی ملزم کو بچانے میں ناکام رہتی تو اس امر میں حزم و احتیاط کے کام لیتی کہ اس کے منسوبہ جرم کے نتائج کا خمیازہ اس کے خاندان یا قوم کے معصوم افراد کو نہ بھگتنا پڑے۔
فرڈی نینڈ کے ساتھ گفتگو اور المامن پر جرح کرنے کے دوران میں پادری ملکہ کی بارگاہ میں پہنچا اور نہ صرف المامن کی غداری کو بہت ہی بڑھا چڑھا کر ملکہ سے بیان کیا بلکہ ولی عہد اور لیلےٰ کی محبت کو فسق و فجور کے رنگ میں پیش کر کے اس کے
خوفناک نتائج نمایاں کئے۔ ان دنوں کسی عیسائی سورما اور یہودن کے درمیان کسی قسم کا تعلق ناقابل معافی گناہ سمجھا جاتا تھا۔ ازابیلا نے اپنے بیٹے کے جرم کے تمام خطرات کو اسی نگاہ سے دیکھا جو ایک نیک خصلت ماں اور پرنخوت ملکہ کے لئے مناسب تھا لیکن پادری کی تمام بحث کے باوجود وہ اس بات پر رضامند نہ ہوئی کہ لیلےٰ کو محکمۂ احتساب و محنہ میں پیش کیا جائے اور اس ہیبت ناک عدالت کو بھی جو انہی دنوں وجود میں آئی تھی، یہ جرأت نہ ہوئی کہ ملکہ کی اجازت کے بغیر ایک ایسے شخص کو گرفتار کر لے جو اس کے سایۂ عافطت میں محفوظ ہو۔
ملکہ نے نہایت سکون و استقلال سے کہا "پادری صاحب! آپ فکر نہ کیجئے۔ لڑکی پر جرح قدح کرنے کا کام میں اپنے ذمے لیتی ہوں اور کم از کم اسے اتنی دور پہنچا دوں گی کہ اس بے شرم لڑکے کے ورغلانے یا ورغلائے جانے کا کوئی امکان نہ رہے۔ لیکن یہ لڑکی میری اور جہاں پناہ کی حفاظت میں بطور یرغمال کے سپرد ہوئی ہے۔ ہم نے اس کی نگہداشت کا وعدہ کیا تھا اور ہمارا شاہی ناموس اس کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ جادو کی جڑ شیطان ہے۔ خدا نہ کرے کہ میں سحر کے وجود سے انکار کروں مگر مجھے اندیشہ ہے کہ جُوآن کی اس محبت میں لڑکی کا اتنا گناہ نہیں، جتنا خود اس کا ہو گا۔ اور پھر یقیناً میرا بیٹا اس امر سے بھی ناواقف ہے کہ لڑکی ایک مکروہ مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔ اگر اسے یہ حقیقت معلوم ہو گئی تو وہ اپنی غلطی پر آگاہ ہو کر متنبہ ہو جائے گا۔۔۔۔ پادری صاحب! آپ اپنا سر ہلا رہے ہیں۔ لیکن میں دوبارہ کہتی ہوں کہ اس معاملے کا انصرام میں ایسا کروں گی جو آپ کے اس اعتماد کے شایاں ہو گا جس کی میں متوقع ہوں۔ پادری ٹومس! آپ جائیے۔ ہم نے جو اتنے عرصے تک حکومت کی ہے تو کیا ہم کو اپنی قوت پر اتنا اعتماد بھی نہیں ہے کہ ایک سیدھی سادی لڑکی کا انتظام کر سکیں اور اسے قابو میں لے آئیں۔"
ملکہ نے ایک ایسے تبسم سے جو اس کی تمکنت میں بےحد دل فریب معلوم ہوتا تھا، اپنا ہاتھ مصافحہ کے لئے اس انداز سے پادری کی جانب بڑھایا کہ اس کا پتھر دل موم ہو گیا اور وہ کچھ پس و پیش کے بعد آہ بھر کے اور ملکہ کے ارادوں کی
تکمیل کے لئے دعا مانگ کر رخصت ہو گیا۔
ملکہ نے سوچا۔ آہ بدنصیب لڑکی! تیری نازک کلائیاں اور پھول سا جسم اس قابل نہیں کہ سنگ دل پادری کی نگہبانی میں رہے۔ تیرے ہر انداز نجابت ظاہر ہوتی ہے۔ اور چہرے سے نسوانیت کا تمام انکسار و ملائمت۔ اگر کچھ نرمی کی گئی تو یقیناً وہ اپنے مکروہ دین کو خیر باد کہنے پر رضامند ہو جائے گی۔ اور کسی مقدس خانقاہ کا سایہ اسے میرے لڑکے کی عاشقانہ نگاہوں اور ٹومس کے فولاد صفت جوش سے محفوظ و مامون کر دے گا۔ میں ابھی اسے بلاتی ہوں۔
جب لیلےٰ ملکہ کے خیمے میں داخل ہوئی تو ازابیلا کمرے میں تنہا تھی۔ اس نے لڑکی کے ڈگمگاتے قدموں کو رحم کی نظروں سے دیکھا اور جب ملکہ کے کہنے پر لیلےٰ نے اپنا نقاب الٹ دیا تو اس کے رخساروں کی زردی اور آنسوؤں کے نشان ازابیلا کے دل کے لئے ٹومس کی مقدس اور طعن آمیز باتوں سے بھی زیادہ مؤثر تھے۔
ازابیلا نے حوصلہ افزائی کی شان میں کہا "لڑکی! میرا خیال ہے کہ شاہزادہ کے احمقانہ حرکات سے تجھے بہت رنج پہنچا ہو گا، لیکن اب اس تاسف کو دل سے دور کر دے۔ میں نے تیرے متعلق جو رائے قائم کی ہے اور جس کو میں ظاہر کرتی رہتی ہوں، اگر وہ صحیح ہے تو تجھے چاہیے کہ تو بخوشی ان تمام وسائل کو منظور کر جنہیں میں تیرے روبرو اس غرض سے پیش کرتی ہوں کہ ایسے تمام واقعات کا سلسہ منقطع ہو جائے جن کا انجام تیرے لئے رسوائی اور بدنامی کے سوا اور کچھ نہیں۔"
لیلےٰ ملکہ کے برابر زانو کے بل جھک کر کہنے لگی "آہ ملکہ میں آپ کی نہایت شکر گزار ہوں۔ اور نہایت خوشی سے ایسی جائے پناہ میں جانے کو تیار ہوں جہاں مجھےتنہائی اور راحتِ قلبی نصیب ہو۔"
ملکہ نے پیار سے کہا "میں جس جائے پناہ کی طرف تیری رہنمائی کرنا چاہتی ہوں وہ حقیقت میں ایسی ہے جس کی تنہائی مقدر ہے اور جہاں کا اطمینان جنت کا سکون ہے۔ مگر اس کا ذکر میں بعد میں کروں گی، مجھے پہلے یہ بتا کہ اس سے پیشتر کہ شاہزادہ کو
آگاہی ہو اور وہ تجھے تلاش کرنے کی کوشش کرے۔ کیا تو اس خیمے کو چھوڑنے کے لئے بھی آمادہ ہے؟"
"بیگم! آپ کیا فرماتی ہیں! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کس طرح آپ کا شکریہ ادا کروں"
ملکہ نے دل میں سوچا کہ میں نے اس کے متعلق غلط قیافہ قائم نہیں کیا۔ اس کے بعد ملکہ نے اس سے کہا "تو پھر یوں ہی سہی۔ ہم ایک رات بھی ضائع کرنا نہیں چاہتے۔ تو پچھلے خیمے سے دوسرے خیمے میں چلی جا۔ تھوری دیر میں تجھے پالکی تیار ملے گی۔ اور آدھی رات سے پیشتر تو ہمارے ایک شریف النفس اور بہادر نواب اور سلطنت کی مایہ ناز شریف ترین عورتوں کے درمیان امن و امان سے سو رہی ہو گی۔ میں تجھے ایک نامۂ تعارف لکھ دوں گی جس سے یہ فائدہ ہو گا کہ تیری آئندہ میزبان خاص طور پر تیری نگہداشت کا خیال رکھے گی۔ تو خود دیکھ لے گی تیری میزبان کتنی نیک طبیعت اور رحم دل خاتون ہے۔" اس کے بعد ملکہ نے جوشِ محبت کے ساتھ کہا "اے لڑکی! اس کی باتوں سے جی نہ چرانا۔ اس کے شفقت آمیز نصائح کو گوشِ ہوش سے سننا۔ خدا اور اس کے اکلوتے فرزند کا فضل شامل حال ہو اور اس نیک خاتون کے پند و نصائح ایسے مؤثر ہوں کہ ایک راہ گم کردہ کو غیر فانی و جاودانی مسکن و مامن نصیب ہو۔"
لیلےٰ تعجب سے سب کچھ سنتی رہی۔ اور کچھ جواب نہ دیا۔ خیمے کے اندرونی حصے کے دروازے پر پہنچ کر وہ دفعتاً رک گئی اور کہنے لگی۔
"رحم دل ملکہ! مجھے معاف کرنا۔ میں تجھ سے ایک سوال کرنا چاہتی ہوں۔ وہ میرے متعلق نہیں ہے۔"
"ہاں ہاں خوف کھانے کی ضرورت نہیں۔ جو کچھ مدعا ہے صاف صاف کہہ دے۔"
"کیا میرے باپ کے متعلق کوئی خبر ملی، انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ پانچ روز گزرنے سے پیشتر ہی وہ اپنی بچی سے آ کر ملیں گے۔ افسوس وہ تاریخ گزر گئی اور میں اب تک اجنبیوں میں پڑی ہوں۔"
ملکہ نے اپنے دل میں کہا۔ بدنصیب لڑکی۔ تجھے نہ اس کی غداری کی خبر ہے، نہ اس کے حشر کی۔ مگر تجھے اس کا علم ہی کیوں ہو۔ جو چیز آئندہ تیرے لیے رحمت و برکت کا باعث ہو گی، اس کا علم تجھے نہیں تو تو اس بات سے بھی بے خبر رہ جو یہاں تیرے لیے مصیبت کا باعث بن جائے گی۔ پھر ملکہ نے بلند آواز سے کہا "اس میں کچھ شک نہیں کہ تمہاری ملاقات نہ ہونے کی کافی وجوہ موجود ہیں۔ مگر اغیار کے گھر میں بھی تیرے خیر خواہوں کی کمی نہیں ہے۔"
"آہ شریف ملکہ۔ مجھے معاف کرنا۔ ایک اور گزارش بھی ہے۔ کئی دفعہ ایک بوڑھا آدمی میرے پاس آیا۔ اس کی آواز میری رگوں میں خون کو ٹھنڈا کر دیتی ہے۔ وہ مجھ سے میرے والد کے متعلق استفسار کرتا ہے اور اس کی گفتگو کا لہجہ ایسا مخاصمانہ ہے گویا بیٹی کے ذریعے باپ کو کسی دام میں پھنسانا چاہتا ہے۔ معزز ملکہ! تو اس آدمی کو جانتی ہو گی۔ اسے میرے باپ کو کسی قسم کا ضرر پہنچانے کا اختیار تو نہ ہو گا؟"
"لڑکی! خاموش۔ تو جس آدمی کا ذکر کرتی ہے۔ وہ خدا کا برگزیدہ بندہ ہے۔ اس کے قابلِ احترام مذہبی جوش سے بے گناہوں کو کسی قسم کا گزند پہنچنے کا اندیشہ نہیں۔ اور تیرے متعلق میں پھر کہتی ہوں کہ تو خوش ہو۔ میں تجھے جس گھرانے کو سونپتی ہوں وہاں تو بڈھے کی صورت بھی نہ دیکھے گی۔ میری بچی رو مت۔ حوصلہ بلند رکھ۔ دنیا میں ہر شخص مبتلائے آلام ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ اس دنیا میں سب کچھ صبر و شکر سے برداشت کریں اور اپنی امیدوں کو آئندہ دنیا کے لئے اٹھا رکھیں۔"
ملکہ خود دنیا داری کی ان تکالیف سے بخوبی واقف تھی جن کے سامنے شان و شوکت، اقتدار و تعیش بھی بے بس ہیں۔ اس کی گفتگو ایک روحانی ملال میں ڈوبی ہوئی تھی۔ لیلےٰ کا دل، جس پر ملائم الفاظ اور ملتفت نظروں کا اثر ابھی باقی تھا اور بھی متاثر ہوا اور وہ اپنی اس فطرت کے تقاضے سے جس نے آدابِ شاہانہ کا تکلف کبھی برداشت نہ کیا تھا، دفعتاً آگے بڑھی اور گھٹنے کے بل گر کر اپنی محافظ کا
ہاتھ پکڑ لیا۔ اور چوم چوم اسے اپنے گرم آنسوؤں سے تر کر دیا۔
وہ بولی "کیا تم بھی میری طرح ناشاد ہو؟ میں اپنے خدا سے تمہارے لئے دعا کروں گی۔"
لیلےٰ کی اس حرکت سے ملکہ بہت متعجب اور متاثر ہوئی۔ لیکن اگر وہاں اور کوئی دیکھنے والا بھی ہوتا تو شاید (کیونکہ یہ فطرتِ انسانی کا اقتضا ہے) یہ حرکت اس کے قشطالی تعصبات کو ناگوار گزرتی۔ مگر اس وقت اس نے اپنا ہاتھ لیلےٰ کے شکر گزر ہاتھوں میں رہنے دیا اور دوسرا ہاتھ لڑکی کی پیشانی پر بکھرے ہوئے گھنے گھونگریالے بالوں میں رکھ دیا۔ اور پیار سے کہنے لگی "تیری دعائیں تجھ کو اور مجھے بھی اس وقت فائدہ پہنچائیں گی جب میرا اور تیرا خدا ایک ہو گا۔ لڑکی! خدا تجھے برکت دے میں ماں ہوں، تو بن ماں کی بچی ہے۔ خدا تیرا حامی و حافظ ہو۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 126
فصل دوم
یہودن کا اغوا۔ جس میں تاریخ بیرونی حالات کو چھوڑ کر اندرونی معاملات کی خبر لاتی ہے۔
جس وقت بلکہ تقریباً جس لمحہ المامن اپنی عجیب و غریب ہنر مندی کے باعث مذہبی عدالت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوا تھا۔ عین اسی وقت ایک جلوس جو ازابیلا کے اپنے چند مخصوص محافظوں پر مشتمل تھا، ایک پالکی کے ہمراہ خیمہ گاہ میں سے گزرا اور اس گھاٹی کے ساتھ ساتھ جو ہسپانیہ والوں کے قبضے میں تھی، چکر کاٹتا ہوا ایک اونچی اور دشوار گزار ڈھلوان پر چڑھ گیا۔ اور ایک مستحکم قلعے کے دروازے پر ٹھہرا جو اس جنگ کی تاریخ میں بہت مشہور ہے۔
سنتری کی درشت پکار آہنیں جنگلوں کی سامعہ خراش جھنکار۔ صحن کے ناہموار پتھریلے فرش پر گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز۔ مشعلوں کے چندھیا دینے والے بل کھاتے ہوئے بڑے شعلے، جو بے رحم اور ڈڑھیل چہروں پر اپنی روشنی ڈال رہے تھے اور جن سے فصیل اور دمدموں کی سفید چاندنی میں لالی جھلک رہی تھی۔ اس ہنگامے نے لیلےٰ کو نیند سے بیدار کر دیا۔ نیند سے نہیں بلکہ اس غنودگی سے بیدار کر دیا جس میں دن بھر کی کشمکش اور کلفت کے بعد اس کے قویٰ بے حس ہو کر سو گئے تھے۔
ایک کہن سال داروغہ اسے وسیع اور تاریک ایوانوں میں سے گزارتا ہوا (جو اس کے غرناطہ کے روشن حجروں اور عجیب مکانوں سے کسی قدر مختلف تھے) ایک عالی شان گاتھ نمونہ کے کمرے میں لے گیا۔ جو فلیمنگ قوم کے کاری گروں کی صنعت کاریوں اور مشجر پردوں سے آراستہ تھا۔ لڑکیاں سوتے سے جلد جلد بیدار کی گئی تھیں۔
اور چند لمحوں میں وہ لیلےٰ کے چاروں طرف ایسے ادب سے آ کر جمع ہو گئیں کہ اگر انہیں اس کی نسل و مذہب کا علم ہوتا تو یقیناً کبھی وہ عزت و احترام بجا نہ لاتیں۔
وہ اس کے اجنبی لباس اور غیر معمولی حسن کو حیرت کی نگاہوں سے دیکھنے لگیں اور قلعے کے قلیل التعداد باشندوں میں اس نئے مہمان کو ایک خوش گوار اضافہ خیال کیا۔ اگر صورت حالات کچھ اور ہوتی تو گرد و پیش کے منظر کی اجنبیت اور اس کمرے کی ہیبت ناک تاریکی جس میں وہ رکھی گئی تھی، قطعاً ایک ایسی لڑکی کے خون کو جما دیتی جس کا نصیب یوں دفعتاً عمیق ترین سکون سے تلخ ترین اضطراب میں بدل گیا ہو۔ لیکن لشکر کے شور و غل، شہزادے کی وارستہ مزاجیاں اور پادری کی ڈراؤنی صورت اور منحوس آواز کے مقابلے میں ہر تبدیلی ایک قسم کی مخلصی معلوم ہوتی تھی۔ چنانچہ لیلےٰ ارد گرد اس احساس سے نگاہ دوڑائی کہ ملکہ کا وعدہ پورا ہوا اور وہ جائے پناہ میں پہنچ کی ہے۔ آخر کار بہت عرصے کے بعد آج نیند اس کی آنکھوں میں بازدید کو آئی اور جب وہ بیدار ہوئی تو آفتاب نیمروز کی روشنی کا سیلاب کمرے میں امنڈ رہا تھا۔ اس کے پلنگ کے پاس ایک سن رسیدہ مگر حلیم و متین خاتون بیٹھی تھی۔ جس کے چہرے پر افسردگی و سکون حسن برسا رہے تھے۔ وہ سیاہ پوشاک میں ملبوس تھی۔ لیکن قیمتی ہیروے جو آستینوں اور سینے کے حصے پر ٹکے ہوئے تھے۔ مرصع صلیب جو سونے کی ایک چھوتی سی زنجیر کے ساتھ آویزاں تھی اور ان سب کے علاوہ ایک مخصوص صولت اور رعب کے انداز سے لیلےٰ کی ناتجربہ کار نگاہوں کو بھی اس کا بلند رتبہ محسوس ہو رہا تھا۔
خاتون نے ایک مروت آمیز تبسم سے کہا "بیٹی رات تو دیر سے سوئی تھی۔ خدا کرے نیند نے تیری طبیعت تر و تازہ کر دی ہو۔ مجھے بہت افسوس ہے کہ صبح تک مجھے تیری آمد کی خبر کے متعلق علم نہ تھا۔ ورنہ ملکہ محترمہ کی امانت کے استقبال کو میں خود آتی۔"
ڈونا آئینزڈی کویکزایڈا کے الفاظ سے زیادہ اس کی نگاہوں میں ہمدردی و تسکین کا ایک پیغام تھا جو لیلےٰ کے زخمِ دل پر مرہم کا کام کر رہا تھا۔ حقیقت میں لیلےٰ ہسپانیہ کی
اس بے نظیر عورت کی مہمان بنائی گئی تھی جس کی رگوں میں خالص عیسائی خون موج زن تھا۔ اور لیلےٰ کی قوم سے کسی قسم کی نفرت یا عناد نہ رکھتی تھی۔ ڈونا آئینز خود کسی یہودی کی ممنون احسان تھی۔ جس کا بدلہ وہ ساری قوم پر احسان کر کے اتارنے کی خواہش مند تھی۔
ہماری داستان جس زمانے سے متعلق ہے۔ اس سے بہت مدت پیشتر جب یہ خاتون اور اس کا شوہر نیپلز میں رہتے تھے اور سیاسیات ہسپانیہ میں سلطنت کے ایک اہم مقصد پر مامور تھے، تو اس زمانے میں ان کا ایک اکلوتا بیٹا جو بہت آوارہ اور آشفتہ مزاج نوجوان تھا۔ اسے سیر و سیاحت کا شوق مشرق کی جانب کھینچ لے گیا۔ ان گرم ممالک میں سے کسی ایک ملک میں یہ نوجوان کوئکسیڈا سے متمول سیاح کے کارواں سرائے کی بدولت قزاقوں کے ہاتھوں سے بچا تھا۔ چنانچہ اس نوجوان سے اس سیاح کا ایسا گہرا رابطۂ اتحاد قائم ہو گیا جو بالعموم اس قسم کے جہاں نورد شوقین لوگوں کے درمیان پیدا ہو جایا کرتا ہے۔ اور جس کی وجہ افتاد و بطع کی ہم آہنگی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتی۔ بعد ازاں اس نوجوان کو معلوم ہوا کہ اس کا محسن اور دوست یہودی مذہب سے ہے۔ چنانچہ اپنی اصل اور نسل کے خیال اور زمانے کے عمومی تعصب کے باعث اس نے دوستی کے وہ تمام رشتے توڑ لئے جو پہلے پیدا ہو گئے تھے۔ اور اس کے تمام احسان بھلا کر اپنے دوست سے قطع تعلق کر لیا۔ آخر کار جب وہ صعوبات سفر سے نڈھال وطن کی جانب واپس آ رہا تھا تو وہ یکا یک ایک خطرناک بخار میں مبتلا ہو گیا جس پر وفا کا شبہ تھا۔ فرضی بیماری کی چھوت کے خیال سے سب لوگ بھاگ گئے اور وہ مرنے کے لئے تنہا چھوڑ دیا گیا۔ ایک شخص نے اس کی بیماری کی تشخیص کر لی۔ اس کی نگہداشت و تیمارداری کی۔ اور علم طب میں ماہر ہونے کی وجہ سے اس نوجوان کی صحت و زندگی بحال کرنےمیں کامیاب ہو گیا۔ یہ وہی یہودی تھا جس نے اسے قزاقوں کے چنگل سے بچایا تھا۔ اس دوسرے ناقابلِ اندازہ احسان کے باعث ہسپانی کے تعصبات غائب ہو گئے اور اپنے محسن سے
اسے بہت گہرا انس پیدا ہو گیا۔ کچھ عرصہ دونوں اکٹھے رہے اور آخر کار یہودی بھی کوئکسیڈا کے ساتھ نیپلز روانہ ہو گیا۔ اس کی ماں آئینیز کے دل پر اس واقعہ نے بہت اچھا اثر ڈالا۔ اور یہ اثر نہ صرف یہودی کی اس ذاتی وجاہت اور شان سے جو اس کے زرپرست اور حریص ہم قوموں سے سراسر علیحدہ تھی، بلکہ اپنے بیٹے کی منکوحہ عروس کے حسنِ یکتا اور اطوارِ شستہ سے اور بھی گہرا ہو گیا۔ جس پر اس کا بیٹا عاشق ہو کر اس پاک سرزمین سے بیاہ لایا تھا جو یہودیوں اور عیسائیوں کے لئے یکساں مقدس ہے۔
کوئکسیڈا سیاحت سے واپس آ کر بہت دنوں تک نہ زندہ رہ سکا، کیونکہ طولانی مصائبِ سفر اور خوفناک مرض کے بعد نقاہت سے اس کی صحت بگڑ گئی تھی۔ بسترِ مرگ پر اس نے اپنی ماں کو جسے وہ بے اولاد چھوڑے جاتا تھا اور جس کے کیتھلک تعصبات اس کے باپ کی نسبت کمزور تھے، وصیت کی تھی کہ ایک یہودی نے مجھ پر جو احسان کئے ہیں ان کو کبھی فراموش نہ کرنا۔ اور حتی الامکان ان کا معاوضہ ادا کرنا۔ یہی وہ معاوضہ ہے جو یہودی نے مجھ سے طلب کیا تھا کہ زمانہ کے تعصبات کے باعث اس برباد قوم کو جن مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے زائل کرنے اور انہیں امداد دینےمیں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کروں۔
ڈوناآئینز نے اپنے گھرانے کے آخری نونہال سے جو وعدہ کیا تھا۔ اس پر اب تک نہایت ثابت قدمی سے قائمتھی اور اپنے شوہر کی طاقت اور پانے تعلقات کی وسعت نیز ملکہ سے اپنے دیرینہ ارتباط کی وجہ سے وہ ہسپانیہ میں واپس آنے پر کئی یہودیوں کو مختلف عقوبتوں اور ان جھوٹے مقدموں سے بچا چکی تھی جو مذہب کا بہانہ درمیان میں رکھ کر ان پر اس لیے دائر کیے جاتے تھے کہ ان کی دولت کو ہتیا لیا جائے۔ گو اس میں وہ تمام احساسات موجود تھے جو راسخ الاعتقاد کیتھولک میں ہونے چائیں مگر اس کی دلی تمنا تھی کہ اسے یہودیوں میں جو ہر دل عزیزی حاصل ہو چکی تھی، اس سے فائدہ اٹھا کر وہ اس مقدس ارادے کی تکمیل کی کوشش کرے کہ ان کو
نہ صرف خسر بلکہ خسر الآخرۃ سے بچایا جائے۔ وہ جذبہ انسانیت اور شرافت کے زیرِ اثر یہودیوں کو تبدیلِ مذہب کی ترغیب دیا کرتی تھی۔ کیونکہ جبر و اکراہ سے ایسا کرنا ناممکن تھا۔ چنانچہ بعض موقعوں پر اس کو بے نظیر کامیابی بھی ہوئی تھی۔ اس طرح اس شریف خاتون نے دور و نزدیک اپنے دینی جوش کی شہرت حاصل کر لی تھی اور ملکہ ازابیلا نے بہت ٹھیک سمجھا تھا کہ لیلےٰ کو اور کوئی ایسی محافظ منتخب نہیں ہو سکتی جو اس خاتون کی نسبت زیادہ احتیاط اور محنت سے اس لڑکی کے شباب کو پ ناہ دے سکے یا اس کی نجات کے لئے ایسی دل سوزی سے کام کر سکے۔ درحقیقت لیلےٰ کے لئے اپنے ان عقائد مذہبی پر قائم رہنا نہایت دشوار و خطرناک تھا جن کی حفاظت و ترقی کے لئے اس کے شعلہ مزاج باپ کو اس قدر قربانیاں کرنی پڑی تھیں۔
ڈونا آئینیز جن ذہنی قلعہ میں روحانیت کی فوجیں اتارنا چاہتی تھی، اسے ایک ہی حملے سے اڑا دینا مناسب نہ سمجھتی تھی۔ بلکہ سرنگیں کھود کھود کر آہستہ آہستہ اپنا کام سرانجام دینے کی خواہاں تھی۔ دورانِ گفتگو میں وہ لیلےٰ کے مذہبی اعتقاد کی سادہ اور ارفع نوعیت سے جس سے وہ جنگ کرنے کی خواہش مند تھی، سخت پریشان و متعجب ہو جاتی۔ شاید اس کا باعث یہ تھا کہ المامن جو یہودیوں کے عام رویہ کو (جو ظلم سے پست ہمت اور استحصال بالجبر سے طامع اور زرپرست بن گئے تھے) ایک زبردست مگر پوشیدہ نفرت سے دیکھتا تھا۔ اور لیلےٰ کو حتی الامکان ان یہودیوں سے بچائے رکھتا تھا۔ یا یہ وجہ تھی کہ اس کا فلسفہ یہودی عقائد کے مسلمات کو باقی جماعت کے معنوں میں تعبیر نہ کرتا تھا۔ بہر حال یہودیوں کے جو مذہبی اعتقادات لیلےٰ کے سینے میں نقش تھے وہ ان یہودیوں سے مختلف تھے جن سے آئینز کو اکثر واسطہ پڑا تھا۔ یہ مذہب دہریت اور مادیت سے مبرا تھا۔ اس میں مسائل مابعد الطبیعۃ کی نسبت تصوف کا عنصر بہت زیادہ تھا اور اس مذہب میں اس عظیم ذاتِ واحد کو بہت سی انسانی ہمدردیوں اور اوصاف کا مالک قرار دیا گیا تھا۔ توریت کی کتاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 131
پیدائش کے مطابق اسے عطیم الشان، پر جلال اور کائنات کا باپ ماننے کے ساتھ ہی اس اعتقاد پر بھی زور دیا گیا تھا کہ خداوند تعالےٰ ایک گری ہوئی قوم کا خاص طور پر محافظ ہے۔ سطحی نگاہ سے مطالعہ کرنے والے کو اہلِ یہود کا خدا جو سخت گیر اور بے رحم معلوم ہوتا ہے اور جسے مسیح کے مذہب نے نہایت رحیم اور اپنی شان میں زیادہ دل فریب قرار دیا ہے، اس کی طرف لیلےٰ کی توجہ کم منعطف کرائی گئی تھی اور زیادہ ان آیات کی طرف مائل کی گئی تھی جن میں یہ آیا ہے کہ خداوند کی محبت برگزیدہ افراد کی حفاظت کرتی ہے اور ان کی لغزشوں اور خطاؤں پر عفو سے کام لیتی ہے۔ اس کے ذہن نے اپنا عقیدہ اس پراسرار اور مقدس ذریعے سے حاسل کیا تھا جس سے اس وقت کے تمام دنیا بےشمار دیوتاؤں کی پوجا اور خود ساختہ بتوں کی پرستش میں سرِ تسلیم خم کر رہی تھی۔ دنیا کے ایک مختصر اور گمنام حصے میں اپنے ہمسایوں کی نسبت بہت کم مہذب و فلسفی لوگوں کے درمیان ایک حقیقی و ارفع عقیدہ الوہیت قائم رہا جو زمین و آسمان کی کسی چیز کو خدا کا شریک بنانے سے متنفر تھا۔ لیلےٰ اپنے مذہب کے فروغ اور مخصوص عقائد سے بہت کم واقف تھی۔ وہ کہنے کو یہودی تھی لیکن اعتقاد کے رو سے موحد اور اس کی توحید کی پرستار جس کا درس ایتھنز کی درس گاہوں میں افلاطون کے تخیل پسند شاگردوں کو دیا جاتا تھا۔ صرف اتنی بات تھی کہ عالم عقبےٰ کی امیدوں پر زیادہ تاریک پردہ پڑا ہوا تھا۔ گو المامن صدوقیوں کی طرح قیامت سے قطعی منکر نہ تھا، مگر غالباً یہود کے ابتدائی زمانے کے بعض فرقوں کی مانند اس کے دل میں ایک خاموش سا شبہ تھا جو اب تک ان عقلا کی دانش کے گلے کا ہار ہو رہا ہے، جو الہام کے عقیدے منکر ہیں۔ اور گو وہ لیلےٰ کے دل میں سے مغفرتِ عقبےٰ کی مبہم خواہش کی بیخ کنی کا خواہاں نہ ہوا تھا لیکن اس نے اپنی بیٹی کے خیالات یا خواہشات کو اس زبردست مستقبل کی طرف متوجہ نہ کیا تھا۔ اس کتاب مقدس میں جو اسے مطالعہ کے لئے دی گئی تھی اور جو نہایت شدت سے قادرالمطلق کی وحدت پر زور دیتی تھی۔ حیات بعد ممات
(وہ عالمِ فنا جو ایک جہانِ فراموشی ہے) کے متعلق ایسا صحیح اور واضح یقین نہ دلایا گیا تھا جو اس کے زندہ استاد کی معلومات کی کمی کو پورا کر دیتا۔ ممکن ہے المامن مرد و عورت کی جداگانہ قدر و قیمت کے ان خیالات پر یقین رکھتا ہو جو قدیم الایام سے اس کے پیارے آبائی وطن میں رائج تھے اور ان کی بناء پر اسے بذاتِ خود کچھ امیدیں ہوں۔ لیکن ان امیدوں کی وسعت اس کی بیٹی تک نہ تھی۔ چنانچہ اس طرح وہ روح کی تمام حسین قوتوں کی شگفتہ خوشبوؤں کے ساتھ پروان چڑھی تھی اور ہستی کی اس آخری منزلِ مقصود کے متعلق جس کی جانب دنیا کے افسردہ زائرین بالآخر جانے پر مجبور ہیں۔ اس کا علم محض خیال اور دھندلے سے قیاس سے زیادہ نہ تھا۔ ڈونا آئینز کی فہمِ رسا نے بھانپ لیا کہ لیلےٰ کا عقیدہ اس نکتہ کے متعلق خام ہے۔ اگر ایمان بالغیب ہو تو کون ہے جو آئندہ دنیا پر یقین نہ کر لے۔ لیلےٰ کا شوقِ تجسس بیدار ہو گیا۔ وہ نہایت اہماک سے اپنی نئی رہنما کی باتیں سسنے لگی اور جن نتائج کو وہ دھمکی کے بجائے تحریک کے طور پر لیلےٰ کے دلنشین کرتی تھی وہ بخوشی ان کی جانب متوجہ ہو جاتی۔ وہ سخت گیر علائق سے آزاد، فرقہ بندی کے تعصبات سے نا آشنا اور اپنی قوم کے علما کے حالات اور عجیب و غریب روایات سے محض بےگانہ تھی۔ لہذا اسے اس صحیفے میں ، جو اس کے خیال میں گویا اس کی قدیم مذہبی کتابوں میں ایک کتاب تھی، کوئی رنج دہ بات نہ ملی۔ مسیح کے تکالیف و مصائب، اس کی رفیع الشان پاکیزگی، اس کا انکسار آمیز عفو، اس کے نسوانی دل کو متاثر کر گیا۔ اس کے عقائد نے اس کی عقل کو مسحور کر کے زیادہ بلند کر دیا۔ اور اسے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس ربانی آغوشِ شفقت میں جو اسے مسکینوں اور سرکشوں، ظالم اور مظلوم کے لئے یکساں پھیلی ہوئی دکھائی دیتی تھی اور اس فردوسِ راحت میں جس کے دروازے عورت کی کمزور اور بےبس ہستی کے لئے اسی طرح کھلے نظر آتے تھےجس طرح ایک تاجدار کی پُرصولت شخصیت کے لئے اس ملجا و ماوا میں اس کے مضطرب شکوک و شبہات کے لئے سکون انتظار کر رہا ہے۔
اور مایوسی اور ناُمیدی کا وہ سیاہ نقاب جس نے کچھ دنوں سے زمین کا چہرہ تاریک کر رکھا تھا۔ انوارِ روحانی کے سامنے چاک ہونے کو ہے۔ وہ اپنے گھر سے محروم ہو چکی تھی۔ اس کے شباب کے عمیق و حسین عشق پر بجلی گر چکی تھی۔ اس موقعہ پر ایک ایسے مذہب کی کشش کا مقابلہ نہ کر سکتی تھی جو پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ رنج و غم کی زندگی یک روزہ ہے۔ لیکن راحت و مسرت کا زمانہ ابد تک پھیلا ہوا ہے۔ یہودیت کے جن تلقینی خیالات پر اس کو فخر تھا، ان کو صدمہ پہنچانے کے بجائے ارضِ اسرائیل میں مسیح کی پیدائش ایک ایسا امر تھا جسے وہ اپنے اعلےٰ درجہ کی فتح مندی سمجھتی تھی۔ کیونکہ یہ خداوند یہواہ کے برگزیدہ ہونے کی نشانی تھی۔ وہ اس امر پر رنجیدہ تھی کہ یہودیوں نے نجات دہندہ کو مصلوب کیا، لیکن اسے ان پر فخر بھی تھا جنہوں نے داؤد کی اولاد کے نام اور طریقِ عبادت کو دنیا کے انتہائی گوشوں تک پہنچا دیا تھا۔ کبھی کبھی وہ فاضل آئینز کو یہ کہہ کر پریشان کر دیا کرتی تھی کہ آپ کا عقیدہ ایسا ہی ہے جیسا میرا۔ آپ کے عقیدے میں صرف اتنی بات زیادہ ہے کہ آپ غیر فانی زندگی پر بھی اعتقاد رکھتی ہیں۔ مسیحیت یہودیت کی تعبیر ہے۔
مگر لیلےٰ کے عقائد کو بدلنے والے دانشمند خاتون اپنے مخصوص کیتھولک خیالات کو اپنے سینے میں اس ڈر سے چھپائے رکھتی تھی کہ مبادا ان کی بلند آہنگی سے اس فاختہ کی پرواز کا رخ بدل جائے۔ اس نے مصلحتاً مختلف فرقوں کے عقائد کا فرق بھی بین طور پر ظاہر نہ کیا بلکہ دیدہ و دانستہ ایک کو دوسرے سے مطابقت دینے میں محنت صرف کی۔
لیلےٰ عیسائی بن چکی تھی لیکن وہ اپنے آپ کو یہودی سمجھتی تھی۔ جذباتِ فانی کی دل فریب اور لطیف کمزوریوں میں ایک درد انگیز خیال رہ رہ کر تڑپتا تھا اور رہ رہ کر اس کے اس سکون کو مضطرب کر دیتا تھا جو ہلکے ہلکے اس کی روح پر چھا رہا تھا۔ وہ باپ جس کی درشت مزاجی اور پراسرار قسمت کو تسلی دینے والی صرف وہی تھی۔ اس کے مسیحی ہو جانے کو کس قدر رنج و اندوہ کے ساتھ سنے گا۔ اور موسےٰ اس کے
شباب کا وہ شجیع اور درخشندہ تصور، کیا وہ مُوری قوم کے اس بےنظیر فرد سے اپنی امید پر جدائی کی آخری مہر ثبت نہ کر رہی تھی۔ لیکن افسوس کیا وہ اس سے پیشتر ہی اس سے جدا نہ ہو چکی تھی۔ اور کیا شروع ہی سے ان کے عقائد میں اختلاف نہ تھا؟ یہ خیالات اس کے لئے آہوں اور آنسوؤں کا پیغام لاتے۔ اس کے سامنے صلیب کھڑی تھی جو اس کے کمرہ میں پہنچا دی گئی تھی۔ مسیح کا مصلوب بت، روحانی تسلیم و رضا کی یہ شان دا مثال۔ فنا کردینے والے رنج و الم و کرب کی یہ زندہ تصویر، عقل و فہم و ہوش کو مٹا دینے والی قربانی کی یہ درخشندہ نظیر۔ الفاظ سے مستغنی وہ کون سی خاموش فصاحت ہے جو ہمارے غم و ملال کو تسکین دے سکتی ہے اور جو ہمیں اس سے نصیب نہیں ہوتی۔ آواز سے بے نیاز وہ کون سی پند و موعظت ہے جو ہماری تمناؤں کی نخوت اور ہماری حرص و آز کی سرکشیوں کے لیے تازیانہ بن سکتی ہے۔ اور جو اس مقدس نشان سے ہر لمحہ ہمارے کانوں میں نہیں پڑ رہی۔
جب رفتہ رفتہ لیلےٰ کا نیا ایمان تقویت پکڑ گیا تو حقیقی استغراق سے راحتِ قلبی اور پاکیزگی کی زندگی بسر کرنے کے ان تصورات پر غور کرنے لگی جو آئینز اس کے دائرہِ بصیرت کے سامنے لا کر کھڑے کر دیا کرتی تھی۔ رجعتِ خیالات اور مایوسیِ بہبودِ دنیا کے عالم میں۔ تنہائی اور یکسوئی اس دوشیزہ کے لئے ایک ایسی دلآویز و لطیف فضا تھی جس میں وہ اپنے آپ کو محبت انسانی کے بندھنوں سے آزاد اور مقدس تصورات اور غیر فانی امیدوں کے دروازہ پر سر بسجود دیکھتی تھی۔
اس خود غرضی کے ساتھ ایک فیاضانہ اور شریفانہ جذبہ بھی وابستہ تھا۔ وہ یہ تھا کہ شاید ایک تازہ مذہب بدلنے والے کی دعائیں، اپنے تاریکی میں پڑے ہوئے عزیزوں کے لئے سن لی جائیں اور اس کی خانہ بدوش قوم جس لعنتِ آسمانی کے نیچے خمیدہ قامت ہو رہی ہے، اس کا بوجھ ایک دل درماندہ کی بےقرار
دعاؤں سے ہلکا ہو جائے۔ ہر زمانہ اور ہر مذہب میں یہ خیال چلا آیا ہے کہ تمام قوم کی نجاب کے لئے ایک فردِ واحد کے ایثار کا اثر عظیم الشان ہوتا ہے۔ یہ عقیدہ جو مشرق کے مذاہبِ پارینہ میں موجود تھا۔ مسیحی مذہب میں اور بھی زیادہ مضبوط ہو گیا۔ کیونکہ مسیحیت خود ایک سب سے بڑے مہتمم بالشان تاریخی ایثار پر مبنی ہے۔ اور جس کے بلند اصول اگر درست طور پر سمجھ لئے جائیں تو ہر معتقد کے دل میں ایثارِ نفس کا فرض اور قوتِ دعا کا اثر باقی رہ جاتا ہے۔ خواہ مقصد کتنا ہی بڑا اور ملتجی کتنا ہی ذلیل ہو۔
ان خیالات پر لیلےٰ نے غور کیا۔ یہاں تک کہ خیالات نے جذبات کا جوش اختیار کیا اور آخر یہودن کے مذہب کا تغیر پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا۔
جس روز شاہِ غرناطہ کی اپنی رعایا کے ساتھ مصالحت ہوئی تھی اور اس نے دیوار میلا کے میدان میں اپنی بہادر فوج کا معائنہ کیا تھا، اس کے تیسرے روز وہ اپنے سرداروں اور امیروں کے حلقہ میں رونق افروز ہر کر ایسی تجاویز پر غور کر رہا تھا کہ ایک ہی حملہ کر کے ایک فیصلہ کن لڑائی ہو جائے۔ دفعتاً ایک جاسوس محل کے دروازہ پر بھاگتا ہوا آیا۔ اس کا سانس پھولا ہوا تھا اور وہ مضطرب تھا کہ یہ غیر مترقبہ اور مسرت انگیز خبر سنائے کہ فرڈی نینڈ نے اپنا محاصرہ توڑ دیا اور کوہستان طے کر کے قرطبہ کی طرف کوچ کر گیا۔ درحقیقت بعض ایسی زبردست سازشیں ہو رہی تھیں کہ فرڈی نینڈ کا کسی اور مقام پر موجود ہونا لازمی و لابدی قرار دیا گیا تھا۔ اور جن خفیہ سازشوں کی پخت و پز وہ المامن کے ساتھ کر رہا تھا وہ ملیامیٹ ہو چکی تھیں۔ اس لیے ہسپانی بادشاہ نے یہ ارادہ کیا کہ دیگا کو فتح کرنے کے بعد غرناطہ کا باقاعدہ اور طولانی محاصرہ جس کے بغیر سقوطِ غرناطہ ناممکن تھا، ایسے وقت پر اٹھا رکھے جب اس کے دل و دماغ کو باقی تفکرات سے فراغت نصیب ہو۔ اور جب اس کا خالی خزانہ پھر معمور نظر آئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 137
اس نے تارکویمیڈا کے ساتھ جبر و تشدد کی وہ عظیم الشان تجویز مکمل کر لی تھی جو نہ صرف یہودیوں ہی کے بلکہ ایسے عیسائیوں کے بھی خلاف تھی جن کے آبا و اجداد یہودی الاصل تھے اور جن پر یہودیوں کے مذہبی رسوم کی پابندی کا شبہ تھا۔ اس عظیم الشان تجویز کے دونوں مجوز مختلف مقاصد سے اس کے محرک ہوئے تھے۔ ایک جرائم کی بیخ کنی کا خواہاں تھا اور دوسرا اس کے وسیلہ گناہوں کی مغفرت فروخت کرنا چاہتا تھا۔ تارکویمیڈا شاہ ہسپانیہ کی اس ظالمانہ طمع سے اس لیے اغماض کرنا چاہتا تھا کہ یہی طمع تارکویمیڈا اور جدید محکمۂ احتساب و محنہ کی قوت شاہی اقتدارات سے بھی زیادہ طاقتور بن جائے گی۔ اس کا خیال تھا کہ زمین پر یوں بلائیں اور آفتیں نازل کرنے سے آسمانی مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے۔
جب کمرۂ تعذیب کے سامنے سے المامن عجیب و غریب طور پر غائب ہو گیا تو ضعیف الاعتقاد ہسپانیوں نے اس واقعہ کو نہایب مبالغہ کے ساتھ اور عجیب و غریب شکل دے کر ایک نہایت مہیب قسم کی کرامات مشہور کر دیا۔ اندلس کے متمول یہودیوں اور نیز یہودی النسل ہسپانیوں کے خلاف شہادتوں کا سلسلہ مکمل ہو گیا تھا۔ بادشاہ یہ سمجھے بیٹھا تھا کہ اسے اس طرح سے یہودیوں کی ہدایت کی دولت ہاتھ آئے گی اور پادری اس شعلہ کو بھڑکا رہا تھا جو یہودیوں کے لئے جہنم کے راستہ کو واضح اور روشن کر دے۔
شاہ ہسپانیہ کے محاصرہ سے دست بردار ہونے کی خبر کو پہلے تو ابوعبداللہ اور اس کے سرداروں نے مشکوک سمجھا مگر بعد ازاں یہ شبہ نہایت خوشگوار فاتحانہ مسرتوں میں غائب ہو گیا۔ ابوعبداللہ نے فوراً وہی مستعدی اور تندہی ظاہر کرنی شروع کی جو اگرچہ اب بھی کبھی کبھی دفعتاً اور خاص حالات میں ظاہر ہوا کرتی تھی۔ لیکن جس کے لئے اس کا عہدِ شباب خاص طور پر مشہور تھا۔
ابوعبداللہ نے کہا "اللہ اکبر! اب ہم یہاں اس طرح نہ بیٹھے رہیں گے۔ کہ غنیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 138
پھر عقاب کو اس کے گھونسلے کے اندر بند کرنے کا موقعہ پا لے۔ انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا ہے۔ ہم ان پر ٹوٹ پڑیں گے۔ ہمارے فقہا کو طلب کرو۔ ہم جہاد کا اعلان کریں گے۔ مُوروں کی آخری سلطنت کا بادشاہ میدان میں اترا ہے۔ جس شہر میں ایک بھی مسلمان ہے اس کے پاس ہمارا فرمان جائے گا اور مذہبِ مقدس اسلام کے تمام فرزند جوق جوق علمِ سلطانی کے نیچے جمع ہو جائیں گے۔"
اہلِ مجلس نے یک زبان ہو کر کہا "جہاں پناہ اک سایہ ابدالاباد تک قائم رہے۔"
ابوعبداللہ نے سلسلۂ گفتگو جاری رکھا "ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرو۔ دیوارمبلا کی جانب بڑھو۔ فوجوں کو صف آرا کرو۔ موسےٰ رسالہ کی اور مابدولت پیادوں کی افسری کریں گے۔ سورج کی کرن سامنے کے جنگل میں چمکنے نہ پائے کہ اس سے پیشتر ہماری فوج کوچ کر جائے۔"
جب تمام سردار محل سے رخصت ہو گئے اور ابوعبداللہ تنہا رہ گیا تو حسبِ عادت تذبذب میں پڑ گیا۔ تھوڑی دیر تک تشویش کے عالم میں ٹہلتا رہا۔ لیکن اس کے بعد دفعتاً ایوانِ مجلس سے رخصت ہو گیا اور محل کے ایسے کمروں میں سے ہوتا ہوا جہاں غیروں کی آمد و رفت ممنوع تھی، ایک دروازہ پر جا پہنچا، جس کے ارد گرد آہنیں چادریں لگی ہوئی تھیں۔ لیکن ایک چھوٹی سی کنجی کی مدد سے جو اس کے کمر بند میں لٹک رہی تھی، دروازہ بآسانی کھل گیا۔ اور ابوعبداللہ ایک چھوٹے سے حجرہ میں جا پہنچا جس میں کوئی اور دروازہ یا باہر جانے کا راستہ نظر نہ آتا تھا۔ لیکن احتیاط سے چاروں طرف دیکھنے کے بعد اس نے دیوار میں ایک خفیہ کمانی کو چھوا۔ دیوار سرک گئی اور ایک طاق سا دکھائی دیا جس میں خالص ترین نطفے کا ایک چھوٹا سا چراغ جل رہا تھا اور ایک زرد چمڑا کاغذ کی طرح گول لپٹا ہوا رکھا تھا، جس پر عجیب و غریب تصویری حروف منقوش تھے۔ وہ کاغذ اس نے اپنے سینہ پر کپڑوں میں چھپا لیا اور چراغ ہاتھ میں اٹھا کر طاقچہ کے اندر ایک اور کمانی دبائی۔ دیوار پیچھے سرک گئی اور ایک تنگ اور گول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 139
زینہ نظر آنے لگا۔ بادشاہ دروازہ بند کر کے نیچے اترا۔ زینہ ناہموار اور مرطوب غلام گردشوں میں ختم ہوتا تھا۔ اور پانی بہنے کی ہلکی ہلکی آواز جو سنگین دیواروں کی دوسری طرف سے اس کے کانوں میں آ رہی تھی، یہ ظاہر کرتی تھی کہ زینہ زمین کے نچلے طبقات کو کاٹ کر بنایا گیا ہے۔ وہاں کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں چراغ کی روشنی صاف اور مسلسل تھی۔ اور ابوعبداللہ نے کچھ ایسے مضطربانہ انداز سے قدم اٹھائے کہ وہ فاصلہ جو حقیقت میں زیادہ تھا اس نے بہت جلد طے کر لیا۔ آخر کار وہ ایک وسیع غار میں پہنچا، اس غار کے دروازے بھی متذکرۂ بالا کمرہ کے سے تھے۔ اب وہ شاہانِ غرناطہ کے عالی شان قبرستان کے ایک گنبد میں تھا اور اس کے روبرو وہی ڈھانچہ جس کے متعلق بادشاہ نے دورانِ ملاقات میں موسےٰ سے ذکر کیا تھا۔ شاہی تاج اور خلعت پہنے کھڑا تھا۔ اور اس کے سامنے وہ طلسمی لوح چمک رہی تھی۔
ابوعبداللہ نے غھانچے کے سامنے دوزانو ہو کر کہا "اے مہیب اور دہشت ناک! اے اس کے ہمزاد جو کبھی تدبر میں دانشمند اور جنگ میں خوفناک بادشاہ تھا۔ اگر تیری کھوکھلی ہڈیوں میں پوشیدہ اور غیر محسوس روح باقی ہو تو اپنے تائب بیٹے کی معروض سن! اس کے جوشِ شباب کی سرکشی کو بخش دے کہ ابھی وقت باقی ہے۔ اور اپنی دلاور روح کو اجازت دے کہ اس کی خامیوں اور اوہام میں ایک تازہ جوش پھونک دیں۔ جس نشان کے اظہار کا تو نے وعدہ کیا تھا، میں اس کا انتظار نہ کر کے میدانِ کارزار کو جاتا ہوں۔ اس عجلت شعاری کا الزام جس پر مقدر مجھے مجبور کر رہا ہے، میرے ملک کے بجائے میری ذات سے منسوب کر۔ اور اگر میں میدان میں شہید ہو جاؤں تو میرا بختِ بد بھی ساتھ ہی قبر میں مدفون ہو جائے اور کوئی مجھ سے زیادہ لائق بادشاہ میری غلطیوں کی تلافی کر کے غرناطہ کو بچا لے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 140
جب بادشاہ نے نگاہ اوپر اٹھا کر دیکھا تو بھیانک مردہ جسے تاج اور شاہی لباس نے اور بھی بھیانک بنا دیا تھا اس طرح ساکت و جامد کھڑا تھا کہ بادشاہ کے دل کا جوش اور غم فی الفور پھر برف کی طرح منجمد ہو گیا۔ وہ لرز گیا۔ ایک گہری آہ بھر کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اور جب اس کی نگاہیں بےاختیار ڈھانچے کے بلند ہاتھ کی حرکت پر پھرنے لگیں تو اس نے خوف و مسرت سے طلسمی لوح کی ساکن سوئی کو دیکھا کہ وہ آہستہ آہستہ سرکی اور آخر اس لفظ پر جا ٹھہری جس کا اتنے عرصہ سے اور ایسی بےصبری سے اشتیاق کیا جا رہا تھا۔ بادشاہ چیخ اٹھا "مسلح ہو جاؤ!" کیا میں صحیح پڑھ رہا ہوں؟ کیا میری دعاؤں کی شنوائی ہو گئی؟ ایک مدھم اور گہری آواز جیسے زمین کے نچلے طبقوں میں توبیں گرج رہی ہوں، کمرہ میں گونجی۔ ایک لمحہ میں دیوار ہٹی اور المامن ساحر کی شکل دکھائی دی۔ جس کا بادشاہ مدت سے منتظر تھا۔ اس کے شاہانے جسم پر مشرقی درویشوں کا سا ڈھیلا ڈھالا اور امن کے زمانے کا لباس نہ تھا بلکہ اس کا فراخ سینہ اور قوی ہیکل بازو زرہ بکتر میں چھپے ہوئے تھے۔ صرف اس کا سر برہنہ تھا اور اس کے چہرہ کے نمایاں اور مؤثر نقش و نگار صوفیانہ یا ساحرانہ جوش کے بجائے جنگ جو قوت اور طاقت سے روشن تھے۔ اس کے دائیں ہاتھ میں برہنہ تلوار تھی اور بائیں ہاتھ میں برف سا سفید اور روشن علم تھا۔
المامن کی صورت ایسی دفعتاً ظاہر ہوئی تھی اور بادشاہ جوش سے اس قدر آشفتہ ہو رہا تھا کہ شاید کسی فوق العادت ہستی کا نمودار ہونا بھی اسے اس سے زیادہ مرعوب و متحیر نہ کر سکتا۔
المامن نے کہا "شاہِ غرناطہ! آخر کار ساعت آن پہنچی۔ جا۔ اور غنیم کو فتح کر۔ عیسائی فرماں روا سے اسے عہد و پیمان اور صلح کی کوئی امید نہیں۔ تیرے کہنے پر میں نے اس سے ملاقات کی اور صرف میرے سحر ہی نے تیرے فرستادہ کی
جان سلامت رکھی۔ آج خوش ہو کہ تیری روح پر سے بختِ بد کا سایہ اسی طرح ہوا ہو گیا جیسے آفتاب کی درخشانی کے سامنے بادل اڑ جاتے ہیں۔ مشرق کے جناب نے نیک فال ستاروں کی شعاعوں سے یہ سفید جھنڈا تیار کیا ہے۔ میدانِ کارزار میں یہ تیرے سامنے لہرائے گا اور مسیحی خون کے دریاؤں پر بلند ہو گا۔ جس طرح ماہتاب لہروں کے سینہ پر حکمراں ہے، اسی طرح یہ میدانِ جنگ میں صفوں کی موجوں پر اثر ڈالے گا اور ان پر حکومت کرے گا۔"
"اے پراسرار شخص! تو نے مجھے نئی زندگی دی ہے۔"
المامن نے سلسلۂ کلام جاری رکھا۔ میں تیرے پہلو میں کھڑا ہو کر لڑوں گا۔ اور اراگون اور قشطالہ کی بربادیوں سے تیرے لئے ایک نئے تخت کی شان و شوکت استوار کرنے میں مدد دوں گا۔ مسلح ہو۔ اے شاہِ غرناطہ مسلح ہو۔ میں ہزاروں زرہ پوش بہادروں کے درمیان تیرے گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز سنتا ہوں۔ مسلح ہو۔"
لیلےٰ کے پراطمینان خیالات اور مقدس تفکرات کا سلسلہ آخر کار ایک ایسی خبر سے منقطع ہو گیا جس کی خوف ناک دلچسپی نے سکنین قلعہ کی تمام تر توجہ اپنی جانب منعطف کر لی۔ سلطان ابوعبداللہ ایک عظیم لشکر کے کر میدان میں اتر آیا تھا اس نے نہایت سرعت کے ساتھ قرب و جوار کے علاقہ میں چکر لگایا اور یکے بعد دیگرے ان قریب کے قلعہ بند شہروں پر جا دھمکا جنہیں فرڈی نینڈ مضبوطی سے مسلح کر گیا تھا۔ اس کی کامیابی فوری اور بے نظیر تھی۔ ایک بار پھر اس کی معرکہ آرائیوں کی دہشت دور و نزدیک پھیل گئی۔ ہر روز اس کے لشکر میں نئے رنگروٹوں کی شرکت سے معتدبہ اضافہ ہونے لگا۔ اور سیرانوادا کی برف پوش چوٹیوں سے ایک تند خو کوہستانی قوم کے جتھے کے جتھے اتر آئے۔ سرمائے مدام کے عادی لوگ، اپنے تند چہروں اور بھدے کپڑوں کے باعث غرناطہ کی شائستہ اور جگمگاتی سپاہ کے مقابلہ میں ایک عجیب تضاد پیدا کرتے تھے۔
جن مُوری شہروں نے فرڈی نینڈ کی اطاعت قبول کر لی تھی، انہوں نے اطاعت کا جوا اتار ڈالا اور اپنے جوشیلے جوانوں اور کار آزمودہ بہادروں کو کلید و ہلال کے علم کی نصرت کے لئے بھیجنے لگے۔ اہلِ ہسپانیہ اس بلائے ناگہانی سے ہراساں تو تھے ہی، اس خبر سے اور پریشان ہو گئے کہ مُوروں کی فوج میں ایک طاقتور ساحر اچانک نمودار ہوا ہے جس میں انسانی شجاعت کے بجائے جنات کا جوش و خروش
کام کرتا ہے۔ جس برج یا مستحکم مورچہ سے ابلتا تیل پھینکا جاتا یا محصورین کا مہلک توپ خانہ گولے برساتا اور مُور سپاہی اس کی جانب بڑھنے سے خوف کھاتے۔ یہ ساحر ان کی کمزور صفوں میں جا پہنچتا اور وحشیانہ اشاروں سے ایک سفید علم لہراتا جسے مُور اور عیسائی دونوں فوق الفطرت اعجاز ساحرانہ سمجھتے تھے۔ وہ بڑے بڑے خطرات میں بے خوف کود پڑتا تھا اور ہر حملہ سے صحیح و سلامت نکل آتا اور اشتعال انگیز تقریر، دعا اور اپنی نظیر سے مُوری سپاہیوں میں ایسا جوش و خروش پیدا کر دیتا کہ اسلام کی ابتدائی فتوحات کا نقشہ آنکھوں میں کھنچ جاتا تھا۔ قلعوں کے عظیم الشان کوہ نما سلسلہ میں برجوں پر برج اس ظفر مند پرچم کی چمک اور لہک سے ناپاک ہو چکے تھے۔ البتہ جری نینڈوڈی کوئکسڈ1 جو صرف ڈھائی سو نوجوانوں کے ساتھ قلعہ الہندین پر قابض تھا، ابوعبداللہ کی مسلسل فتوحات سے نڈر اور بے خطر تھا۔ وہ جانتا تھا کہ مُوری افواج کا مہیب طوفان اس کی جانب بڑھ رہا ہے۔ چنانچہ جو اطمینان کے دن اسے فی الحال نصیب تھے وہ اس نے متوقع محاصرہ کے مقابلہ کی تیاریاں مکمل کرنے میں صرف کئے۔ فرڈی نینڈ کے پاس پیغام بر روانہ کئے گئے۔ قلعوں میں نئے استحکامات بڑھائے گئے۔ اشیاء خوردنی کے ذخائر جمع کئے گئے۔ اور اس قلعہ کو ہسپانیوں کے قبضہ اقتدار میں قائم رکھنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا گیا۔ جو غرناطہ کے قریب اور دیگا اور الفجارہ کی وادیوں پر حاوی ہونے کے باعث مُوری قوت کے پہلو میں ایک تیز کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا۔
ایک دن صبح صبح لیلےٰ اپنے بلند عالی شان کمرہ کے دریچہ کے قریب کھڑی تھی۔ اور غرناطہ کے دور افتادہ بروج کو جو سورج کی خاموش روشنی میں محو خواب تھے، طرح طرح کے ملے جلے جذبات سے دیکھ رہی تھی۔ اس وقت اس کا دل اپنے وطن کے خیالات سے بھرا ہوا تھا۔ اور موجودہ خطرات اور کاوشیں بالکل فراموش ہو گئی تھیں۔
بہت دور سے فوجی باجہ کی آواز آئی اور اس کی محویت کا طلسم ٹوٹ گیا۔ وہ چونک اٹھی۔ اور اپنے تیز تنفس کو روک کر اس آواز کو غور سے سننے لگی۔
باجہ کی آواز دم بدم واضح اور صاف ہوتی گئی۔ ڈھالوں اور تلواروں کی جھنکار، افریقی دمامہ کی گرج اور مُوری قَرنا کی وحشت انگیز چیخ اور ہر آواز اب ایک دوسرے سے متمیز کی جا سکتی تھی۔ وہ کھڑی حیرت سے انہیں سن سن کر نظریں دوڑا رہی تھی کہ اتنے میں مسلم ہراول کے پھریرے اور درخشاں نیزے ڈھلوانوں پر دکھائی دینے لگے۔ ایک لمحہ میں تمام قلعہ میں بےچینی اور اضطراب سے ہل چل مچ گئی۔
نینڈو کوئکسڈ فوراً مسلح ہو کر شہر پناہ پر جا پہنچا اور لیلےٰ نے کھڑکی میں سے دیکھا کہ وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اپنی مٹھی بھر فوج کو بہترین موقعوں پر متعیقن کر رہا ہے۔ چند لمحے بعد ڈونا آئینز اور قلعہ کی اور عورتیں بھی لیلےٰ کے پاس آ پہنچیں۔ خوف کے مارے وہ اپنی مخدومہ کے گرد جمع ہو گئی تھیں کہ منجملہ اور باتوں کے دریچہ سے مُوروں کی شان دار فوج کو ایک نظر دیکھ کر اپنے جذبۂ نسائیت کو محظوظ کریں۔
لیلےٰ کے حجرہ کا دریچہ ایسے رخ پر واقع تھا کہ وہاں سے غنیم کے لشکر کی نقل و حرکت بخوبی دکھائی دیتی تھی اور دیکھنے والا محفوظ رہ سکتا تھا۔ لیلےٰ قلعہ کی عورتوں کی آوازوں سے بےخبر ھی۔ اس کا دل دھڑک رہا تھا۔ رخسار تمتما رہے تھے۔ وہ سواروں کے درمیان ایک تیز رفتار اور سفید پوش شخص کو دیکھ رہی تھی۔ اور اسے موسےٰ سمجھ رہی تھی۔
اس کے دل و دماغ کی عجیب کیفیت تھی۔ اب وہ عیسائی تھی۔ کیا وہ بےدینوں کی کامیابی کی تمنا کر سکتی تھی؟ لیکن عورت کیا اپنے عاشق کی شکست کی خواہاں ہو سکتی ہے؟ غور و فکر کے لئے اس کو بہت کم وقت ملا۔ مُوری رسالہ کا ایک دستہ اس شہر کی فصیل کے باہر پہنچ چکا تھا۔ جو قلعہ کے چاروں طرف آباد تھا۔ اور نقیبوں کے قرنا کی بلند چیخیں اہلِ قلعہ کو اطاعت قبول کرنے کا اشارہ کر رہی تھیں۔ کوئکسڈا نے یہ مختصر جواب دیا "جب تک قلعہ کی دیواروں میں ایک اینٹ بھی سلامت ہے، ہم اطاعت قبول نہ کریں گے۔" چنانچہ دس منٹ کے بعد فصیلوں اور برجوں پر توپوں نے حملہ آوروں پر آگ برسانی شروع کر دی۔
اس وقت عورتوں نے محاصرہ کرنے والی فوج کے لیلےٰ کے کمرہ میں سے دیکھا۔ کہ شجاعانِ لشکر اپنی پوری شان و قوت کے ساتھ آہستہ آہستہ چڑھائی کے لئے باقاعدہ تیار ہو رہے ہیں۔ گنجان صفوں کے پرے کے پرے اور دستے کے دستے دشوار گزار ڈھلوانوں پر پھیلتے گئے۔ سمندر کی موجوں کی طرح جب وہ آگے پیچھے ہٹتے بڑھتے تھے تو سورج کی شعاعیں مجلےٰ ہتھیاروں پر چمک کر چکاچوند کا عالم پیدا کر دیتی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد ابوعبداللہ کے چتر پر علم لہراتا ہوا نظر آنے لگا۔ سلطان جو اپنے نقرئی اور جواہرات میں غرق گھوڑے پر سوار تھا۔ پیدل فوج کے درمیان ممتاز نظر آتا تھا۔ اس کا کام حملہ کے وقت پیش قدمی کرنا تھا۔
آئینز نے گھتنے ٹیکتے ہوئے لیلےٰ سے کہا "بیٹا ہمارےساتھ دعا میں شامل ہو۔" مگر آہ لیلےٰ کس بات کی دعا کرتی؟
چاند ان دنوں پورا تھا۔ حملہ آور رات کو بھی خاموش نہ بیٹھتے تھے۔ چنانچہ اس یادگار محاصرہ کو جمے ہوئے چار دن اور چار راتیں مذر گئیں۔ چونکہ محاصرین کی تعداد زیادہ تھی اور غرناطہ قریب۔ اس لیے ان کو مسلسل امداد پہنچنے کا فائدہ حاصل تھا۔ دستہ پر دستہ چلا آتا تھا اور مضمحل و درماندہ محصورین کو ہمیشہ تازہ دم حملہ آوروں کی قوت سے مقابلہ کرنا پڑتا تھا۔
پانچویں روز قلعہ کے قلب گاہ کے سوا (جو بہت وسیع و مستحکم برج تھا) باقی تمام قلعہ پر مُوروں کا قبضہ ہو گیا۔ اور آخر اس آخری جائے پناہ میں مختصر اور درماندہ قلعہ گیر فوج بہادرانہ یاس سے لڑنے کی آخری امید میں آ جمع ہوئی۔
کوئکسڈا خاک و خون میں آلودہ ہو رہا تھا۔ وہ برج کے اس ایوان میں گیا جہاں عورتیں دہشت سے نیم جان تھیں۔ اس کی آنکھوں سے خون برس رہا تھا۔ رخسار پژمردہ اور بےرونق تھے اور اس کے سر کے بال یکایک سفید ہو گئے تھے۔
وہ چلا کر بولا "کھانا لاؤ۔ کھانا اور شراب۔ یہ شاید آخری دستر خوان ہے جس پر ہم اکٹھے کھانا کھا رہے ہیں۔"
اس کی بیوی نے اپنے بازو اس کے گلے میں ڈال دئیے۔ وہ چیخ اٹھا۔
ابھی نہیں۔ ابھی نہیں۔ جدا ہونے سے پیشتر ہم ایک بار ضرور ہم آغوش ہوں گے۔"
گو آئینز کے رخسار زعفرانی ہو رہے تھے مگر اس کی آنکھوں میں استقلال موجود تھا۔ وہ بولی "تو اب کوئی امید باقی نہیں؟"
"اگر کل صبح تک فرڈی نینڈ کی افواج کے نیزے ان کے سامنے کے پہاڑوں پر چمکتے نظر نہ آئے تو کوئی امید نہیں۔ ہم شاید کل صبح تک اور غنیم کی مزاحمت کر سکیں گے۔"
اس نے باتیں کرتے کرتے چند لقمے زہر مار کئے، شراب کا ایک بڑا سا قدح چڑھایا اور دفعتاً کمرے سے رخصت ہو گیا۔
اس وقت عورتوں نے واضح طور پر مُوروں کے نعرے سنے۔ لیلےٰ لوہے کی سلاخوں والے دریچہ کے پاس گئی تو اسے ایسا دکھائی دیا جیسے متحرک دیواریں بڑھتی آ رہی ہیں۔
محاصرین نے لکڑی کے تختوں پر چمڑا منڈھ کر اپنی ہنر مندی سے عجیب و غریب دیواریں بنائی تھیں۔ انہیں اپنے سامنے رکھ کر وہ برج کی جانب بڑھ رہے تھے۔ اور اس کے پیچھے رہ کر اس ابلتے ہوئے تیل کی دھاروں سے نسبتاً محفوظ تھے جو ابھی تک دیواروں پر سے نہایت زور و شور سے برس رہی تھیں۔ وہ مُور جو پیچھے زیادہ فاصلہ پر تھے عقب میں سے تیروں اور گولیوں کی بوچھاڑ برسا رہے تھے جس سے نہ صرف فوجی انجینئروں کی ان اختراعات کی حفاظت ہوتی تھی بلکہ تیر برج کی ہر درز اور شگاف میں گھس رہے تھے۔
اس اثنا میں برج کا بہادر افسر انجینئروں کی تیاریوں کو دیکھ کر نہایت مایوس و ہراساں ہوا۔ جو لکڑی کے تختوں کی پناہ میں ہر قسم کے ہتھیاروں کے حملوں سے محفوظ تھے۔
وہ دانت پیس کر کہنے لگا "روضۂ مقدس کی قسم۔ وہ برج کے نیچے سرنگیں لگا رہے ہیں۔ اب ہم برج کے کھنڈر کے نیچے زندہ درگور ہو جائیں گے۔ گستالووا تجھے اس سامنے کے پہاڑ پر بھالے تو چمکتے ہوئے نظر نہیں آتے؟ دیکھتے دیکھتے میری تو بینائی تاریک ہو گئی ہے۔"
آہ بہادر مینڈو! وہ تو سورج کی شعاعیں ہیں جو برف کی سطح پر سے منعکس ہو رہی ہیں۔ مگر اب بھی امید باقی ہے۔"
سپاہی پورا فقرہ کہہ نہ چکا تھا کہ اس نے دفعتاً درد و کرب سے بےتاب ہو کر چیخ ماری اور تیورا کر کوئکسڈا کے پاس گر پڑا۔ کسی مُوری سپاہی کی گولی سے اس کا دماغ پاش پاش ہو گیا تھا۔
کوئکسڈا بولا "آہ میرے بہادر سردار! تیری روح پر رحمت ہو۔ آہ وہ نڈر بےدین سرنگ لگانے والوں کو عجلت سے کام لینے کی تاکید کر رہا ہے۔ عرشِ معلےٰ کی قسم یہ وہی سفید جھنڈا والا ساحر ہے۔ اس پر گولیاں سر کرو وہ تختوں کی آڑ کے باہر ہے۔"
تھکے ماندے اور بےحوصلہ سپاہیوں کی کمانوں سے بیس تیر چھوٹے لیکن المامن کو کسی قسم کا ضرر پہنچائے بغیر اس کے ارد گرد زمین پر جا گرے اور وہ اپنا پر سحر بلند علم ہلاتا ہوا پھر تختوں کی پناہ میں غائب ہو گیا۔
ہسپانی سپاہیوں کو کچھ ایسا خیال ہوا جیسے انہیں اس کے فاتحانہ قہقہہ کی وہ گونج سنائی دی ہو جس میں ایک دیو کی ہنسی کی ہیبت بھی شامل تھی۔
محاصرہ کا چھٹا دن شروع ہوا اور محاصرین کی تیاریاں تکمیل کو پہنچ گئیں۔ برج کے نیچے سرنگیں بارود سے بھری جا چکی تھیں۔ اس کی بنیادیں صرف لکڑی کے چند پایوں پر کھڑی تھیَ جو ابوعبداللہ کی فطری شرافت کے باعث اس غرض سے وہاں رکھ دی گئی تھیں کہ قلعہ کے رہنے والے برج کے کامل طور پر اڑائے جانے سے پیشتر اگر آخری جائے پناہ سے فرار ہونا چاہیں تو ہو سکیں۔
دوپہر کا وقت تھا کہ تمام مُوری فوج میدان سے بڑھ کر برج کے نیچے کی ڈھلوان پر قابض ہو گئی۔ حکم کے انتظار میں ان فوجوں کا سانس تیز تیز چل رہا تھا۔ سرنگیں بنانے والے دور کھڑے تھے۔ قلعہ گیر سپاہی فصیلوں پر تکان سے نڈھال منہ کے بل پڑے ہوئے تھے۔ اور ان کی حالت ان اہلِ جہاز کی طرح تھی جو سخت طوفان کے مقابلہ میں اپنے بس کی تمام کوششیں کرنے کے بعد راضی برضا ہو کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 149
بےغرضی سے آخری تباہ کن تھپیڑے کے انتظار میں بیٹھ جائیں۔
دفعتاً فوجوں نے ہٹ کر درمیان راستہ بنا دیا۔ اور ابوعبداللہ اپنے دائیں بازو پر موسےٰ اور بائیں پر المامن کو لئے ہوئے برج کی طرف بڑھا۔ حبشی غلام مشعلیں ہاتھ میں لئے ہوئے آہستہ آہستہ اس کے پیچھے چلے آ رہے تھے۔ ان کے درمیان شاہی نقیب تھا جس نے آخری مرتبہ صدائے تنبیہہ بلند کی۔ عظیم الشان سپاہ کا کامل سکوت۔ مشعلوں کی روشنی جو مشعل برداروں کے سیاہ چہروں اور قوی ہیکل جسموں پر پرتو ڈال رہی تھی۔ بادشاہ کا شاہانہ اقدام۔ موسےٰ کی بہادرانہ شکل و صورت۔ المامن کا برہنہ سر درخشاں علم۔ ان تمام چیزوں نے صورتِ معاملات سے مل کر کچھ منظر کو عجیب و غریب طور پر ہیبت ناک بلکہ کسی قدر ممتاز بنا دیا تھا۔
کوئکسڈا نے خاموشی سے اپنے بہادر سپاہیوں کے بھیانک چہروں پر نگاہ ڈالی مگر پھر بھی کچھ اشارہ نہ کیا۔ اس کے ہونٹوں کو کچھ جنبش نہ ہوئی۔ آنکھیں روشن ہو گئیں۔ کہ دفعتاً اسے نیچے سے عورتوں کے رونے کی آواز سنائی دی۔ اسے آئینز کا خیال آیا جو اس کی کی جوانی کے دنوں کی چہیتی اور بڑھاپے کی فریق غمگسار تھی۔ اس نے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے ہسپانیہ کا وہ جھنڈا جو ابھی تک نیچا نہ ہوا تھا۔ سرنگوں کر دیا۔ نیچے جو سپاہ کھڑی تھی کی خاموشی ایک ایسے بلند نعرۂ مسرت میں ٹوٹ پڑی کہ بھانک برج کی ناپائیدار اور عارضی بنیادیں تھرتھرا گئیں۔
کوئکسڈا ایک درد انگیز آہِ سرد بھر کر کہنے لگا "میرے دوستو! اٹھو ہم نے جواں مردوں کی طرح مقابلہ کیا ہے۔ ہمارا ملک ہمارے طرزِ عمل سے نادم نہ ہو گا۔"
وہ گول زینہ سے نیچے اترا۔ اس کے سپاہی ڈگمگاتے قدموں سے اس کے پیچھے پیچھے اتر آئے۔ برج کا دروازہ کھلا اور ان بہادر عیسائیوں نے اپنے آپ کو مُوروں کے حوالے کر دیا۔
کوئکسڈا نے ابوعبداللہ کے گھوڑے کے قدموں میں کنجیاں رکھ دیں اور کہا "ہامرے ساتھ آپ جیسا سلوک چاہیں کیجیے مگر قلعہ میں عورتیں ہیں جو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
ابوعبداللہ نے قطع کلام کر کے کہا "جو قابل احترام اور واجب التعظیم ہیں۔
ہم اسی وقت ان کو آزادی دیتے ہیں۔ اگر وہ کہیں جانا چاہیں تو ان کے سفر کے اخراجات انہیں معاف ہیں۔ بتاؤ وہ کون سے مقام پر پہنچا دی جائیں؟"
کوئکسڈا نے اپنے ہاتھ کی پشت سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا "اے دریا دل بادشاہ تیری فیاضی ہماری حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ جس حوصلہ افزائی سے یہ عنایت کی گئی ہے ہم اس کو شکریہ کے ساتھ تسلیم کرتے ہیں۔ کوہستان کے الغذیر کے میدان کے کنارے پر ایک چھوٹا سا قلعہ میری ملکیت ہے۔ اس کے گرداگرد نہ تو استحکامات ہیں نہ فوج اس کی حفاظت کے واسطے متعین ہے۔ اگر جنگ کا رخ ادھر تبدیل ہو جائے تو مستورات وہاں سے بآسانی اور حفاظت کے ساتھ قرطبہ میں ملکہ کے پاس جا سکتی ہیں۔"
ابوعبداللہ نے کہا "ایسا ہی ہو گا۔" پھر بادشاہ نے ایشیائی تہذیب کے لحاظ سے چند کہن سال افسروں کو منتخب کیا اور انہیں ہدایات دیں کہ وہ برج میں داخل ہوں اور ایک زبردست دستہ ساتھ لے کر کوئکسڈا کے حسب ہدایت مستورات کو بحفاظت تمام منزل مقصود پر پہنچا دیں۔ ہسپانی قیدیوں کو اس نے اپنے ایک دوسرے افسر کے سپرد کیا اور اپنی سپاہ کو اس مقام سے پیچھے ہٹ جانے کا اشارہ کیا۔ صرف چند آدمیوں کی جماعت باقی رکھی کہ برج کی بربادی کو تکمیل تک پہنچا دیں۔
المامن اور چند اعلےٰ افسروں کی ہمراہی میں ابوعبداللہ جلد غرناطہ واپس آ گیا۔ ادھر کوئکسڈا اور اس کے ہمراہی بھی ایک مضبوط دستہ کے زیر حفاظت آہستہ آہستہ دیگا کو عبور کرنے لگے۔ دفعتاً ایک سڑک پر وہ مڑے تو ان کی نظر اس برج پر پڑ گئی جس کے لئے وہ اس بہادری سے لڑے تھے۔ وہ برج ابھی شکستہ عمارات اور افواج کے درمیان ایک شانِ غرور و تمکنت سے ایستادہ تھا۔ نیلے آسمان کے مقابل میں اس کی بلندی تاریک اور ہیبت ناک معلوم ہو رہی تھی۔ ایک لمحہ گذرا ہو گا کہ ایک زور کا دھماکا کانوں میں گونجا۔ اور گرد اور دھوئیں کے بادلوں کے درمیان برج زمین پر گر پڑا۔ اس صدمہ کے باعث کنکر پتھر اڑ کر وہاں تک پہنچے جہاں سے وہ پر حسرت قیدی اپنے اس مایہ ناز برج پر حسرت کی آخری نگاہ ڈال رہےتھے۔ جس پر غرناطہ کے مُور اپنے شہر کی فصیلوں سے قشطالہ اور اراغون کا جھنڈا لہراتا دیکھا کرتے تھے۔ عین اس وقت لیلےٰ جو ایسے عجیب و غریب طریق سے جدا رہی، ڈونا آئینز اور قلعہ کی دیگر مستورات کے ہمراہ کوہستان کے بلند و پست میں اپنا پُر ملال سفر طے کر رہی تھی۔
المامن کی مجوزہ مہم۔ تین اسرائیلی۔ صورتِ حالات ہر شخص پر مختلف اثر کرتی ہے
ابوعبداللہ نے اپنی تازہ فتح کے بعد قریبی قلعوں پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ جن میں سے ہر جگہ کامیابی حاصل ہوئی۔ غرناطہ کی حالت گویا ایک ایسے شہ زور کی سی تھی جو زنجیروں میں جکڑا ہوا ہو۔ اس نے یکے بعد دیگرے ان بندھنوں کو توڑ ڈالا جو اس کی قوت اور آزادی کی مفلوج کر رہے تھے اور آخر کار جب بادشاہ نے ملک کا ایک معقول حصہ دوبارہ فتح کر لیا تو اس نے سلوبرنیا کی بندرگاہ کا محاصرہ کرنے کا ارادہ کیا۔ اگر اس بندرگاہ پر قبضہ ہو جاتا تو ابوعبداللہ غرناطہ اور سمندر کے درمیان سلسہ آمد و رفت قائم کر کے اپنے افریقی اتحادیوں کو رسہ بند کر دینے سے باز رکھ سکتا تھا۔ موسےٰ کی ہمراہی میں مُوری بادشاہ اپنا لوائے فتح لے کر اسی جانب روانہ ہو گیا۔
مگر روانگی سے قبل شام کے وقت المامن بادشاہ کے حضور حاضر ہوا۔ جب سے فرڈی نینڈ رخصت ہوا تھا۔ اس مصنوعی درویش میں بے انتہا تغیر پیدا ہو گیا تھا۔ اس کی وضع قطع میں جو نخوت و شوکت تھی وہ رخصت ہو گئی تھی۔ اس کی آنکھیں دھندلی ہو کر اندر کو دھنس چکی تھیں اور اس کے اطوار میں بہت کچھ بےچینی اور خود فراموشی پیدا ہو گئی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے مزاج میں جو کچھ حلم تھا وہ صرف بیٹی کی محبت کے
باعث تھا۔ مگرہ وہ بیٹی اب اس فرڈی نینڈ کے پاس تھی جس نے باپ کو مذہبی عدالت کی دستبرد کے حوالے کر دیا تھا۔ تو پھر مذہب تبدیل کرانے والوں کے جوش نے بیٹی پر کیا کچھ مصائب روا نہ رکھے ہوں گے۔ اور کیا اس کا نازک بدن اور نازک دل عذاب کے شکنجوں کی بھانک صورت کو برداشت کر سکا ہو گا۔ اس نے سوچا اس مکروہ مذہب کو قبول کرنے سے یہی بہتر ہے کہ وہ عذاب اٹھا اٹھا کر ہلاک ہو جائے۔ وہ ان دو ممکنات کا خیال کر کے بےتابی سے دانت پیسنے لگا۔ اس کے منصوبے اس کی زندگی کے مقاصد اس کے مُوروں سے انتقام لینے کے ارادے اور تمام حوصلے کافور ہو گئے تھے۔ فقط ایک امید اور ایک خیال نے اس کے طوفانی جذبات اور جوشیلی فراست پر قابو پا رکھا تھا۔
اس حالت میں جعلی درویش نے ابوعبداللہ سے مالقات کی۔ عساکر شاہی کی شاندار فتوحات کے سبب سے اس نے پادشاہ کی ن ظروں میں بےحد قدر و منزلت حاصل کر لی تھی۔ اس نے بادشاہ کے حضور میں یہ تجویز پیش کی کہ دور فاصلہ پر فرڈی نینڈ کی افواج پر حملہ کیا جائے اور اس تجویز کے متعلق اس نے اس امر پر اپنی آمادگی ظاہر کی کہ وہ مُروں کی قدیم سلطنت قرطبہ میں جا کر خفیہ خفیہ وہاں کے مُوروں کو بغاوت کے لئے تیار کرے جو ہسپانیہ کی غلامی کا جوا اٹھائے ہوئے ہیں۔ اور جن کا ابوعبداللہ کی تازہ فتوحات سے مشتعل ہو جانا قرین قیاس ہے۔ المامن نے پادشاہ کو یقین دلایا کہ کچھ نہیں تو کم از کم وہ ایسی ہل چل مچا دے گا جس کے باعث پادشاہ کو کافی مہلت مل جائے گی کہ وہ اپنے منصوبوں کو تکمیل تک پہنچا سکے۔ اس کے علاوہ اتحادی طاقتوں کی امداد سے فوج میں کافی بھرتی ہو سکے گی۔
بادشاہ ایسے مقدس مشیر کو اپنے سے جدا کرنے پر رضامند نہ تھا مگر المامن کی تجویز بادشاہ کی نارضامندی پر غالب آئی اور انجام کار یہ تصفیہ ہوا کہ المامن فوراً شہر سے رخصت ہو جائے۔
جب المامن تن تنہا اپنے گھر کی جانب جا رہا تھا تو دفعتاً کسی نے اسے عبرانی
زبان میں مخاطب کیا۔ المامن نے جلدی سے مڑ کر دیکھا تو ایک بڈھا آدمی نظر پڑا۔ جس نے یہودیوں کا لباس پہن رکھا تھا۔ المامن نے پہچان لیا کہ یہ شخص الیاس نامی ہے جو اسرائیلیوں کی قوم میں نہایت دولت مند اور ذی عزت شخص تھا۔
الیاس نے زمین دوز سلام کر کے کہا "اے دانشمند ہم وطن معاف کرنا، میں ایک ایسے آدمی سے اپنا تعلق ظاہر کرنے کی خواہش پر غالب نہ آ سکا جس کے وسیلہ سے اسرائیل کا قرنا فاتحانہ پھونکا جائے گا۔"
المامن نے جلدی سے ادھر ادھر دیکھ کر کہا "خاموش میں تیرا ہم وطن! تیری زبان سے ظاہر ہوتا ہے کہ تو اسرائیلی ہے! کیا میرا قیاس صحیح ہے؟"
یہودی نے جواب دیا "ہاں میں اس قبیلہ سے ہوں جس سے تیرے والد مرحوم تعلق رکھتے تھے۔ ان کی ہڈیوں پر کدا کی رحمت ہو۔ گو جس وقت تو خاک غرناطہ کو الوداع کر گیا تھا، تو ذرا سا بچہ تھا۔ مگر مجھے تو یہ اب تک اس طرح یاد ہے جیسے کل کی بات ہو۔ تیری واپسی پر میں نے تجھے فوراً پہچان لیا۔ لیکن میں نے تیرا راز محفوظ رکھا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ تیری ہمت اور طباعی کے طفیل تیری پست حال قوم بدن پر سے پھٹے پرانے کپڑے اتار کر علانیہ امن و سکون کی ضیافتیں اڑائے گی۔
المامن نے اس ضعیب شخص کے نمایا اور کھڑے کھڑے عربی خط و خال کو آنکھیں پھار پھاڑ کر دیکھا اور آخر کار جواب دیا "بنی اسرائیل کا اقتدار کیونکر عود کر سکتا ہے۔ کیا تو ان کے لئے لڑے گا؟"
"اسخر کے فرزند میرا ضعف پیری اب اسلحہ کا بار برداشت کرنے کے قابل نہیں رہا، لیکن ہمارے قبیلے بہت سے ہیں۔ ہمارے نوجوان قوی ہیں۔ ان کتوں کتوں کی جنگ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
المامن نے قطع کلام کر کے تندی سے کہا "شیر اپنا شکار اڑا سکتا ہے۔ ہمٰں اس امید پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ کیا تو نے اس جور و ستم کی داستان سنی ہے جو حال ہی میں دغا باز شاہ نصارے نے قرطبہ پر ڈھانا شروع کیا ہے۔ اس کی
کیفیت سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اور خون جم جاتا ہے۔"
"ہاں ان دہشت انگیز واقعات سے میں ناواقف نہیں ہوں۔ اور اے میرے عزیز پیارے اور قریبی عزیز۔ ہمارے متمول اور معزز آدمی تمام سرزمین میں منتشر ہیں۔"
المامن نے جوش سے کہا "اور کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ وہ عذاب کے شکنجوں میں مرنے کے بجائے میدا کارزار میں جان دیتے۔ اے میرے بزرگوں کے خدا! اگر تیرے مخصوص بندوں میں غیرت کی ایک چنگاری بھی باقی رہ گئی ہے تو اپنے خادم کو قوت عطا کر کہ وہ اسے شعلہ زن کرے اور وہ چنگاری یوں بھڑکے جیسے آگ جھاڑیوں کو پھونک ڈالتی ہے۔ اس شعلہ کے سامنے سب کچھ جل کر خال سیاہ ہو جائے اور روئے زمین عریاں و برہنہ رہ جائے۔"
الیاس اپنے ہمراہی کے جوش پر مستعل ہونے کی بجائے کچھ رنجیدہ ہو گیا اور بولا "نہیں ابن اسخر عجلت اچھی نہیں۔ فضول اور بےموقع جوش مناسب نہیں۔ اس طرح غالباً حکام کا غصہ بھڑک اٹھے گا اور ہمارا تمام مال و متاع برباد ہو جائے گا۔"
المامن ذرا پیچھے ہٹا۔ آہستہ سے اپنا ہاتھ بڈھے کے کندھے پر رکھ کر اس کے چہرہ کی طرف گھورنے لگا۔ اور پھر آہستہ سے ہنس کر پیچھے مڑ گیا۔
الیاس نےا س کو روکنے کی کوشش نہ کی اور آہستہ سے کہنے لگا "اس کی تجویز غیر ممکن العمل ہے اور نہ صرف غیر ممکن العمل بلکہ خطرناک بھی۔ میرا ہمیشہ سے یہی خیال ہے کہ ہمیں اس شخص سے نقصان پہنچنے کا بہت احتمال ہو سکتا ہے۔ اگر وہ اس قدر طاقت ور اور تند مزاج نہ ہوتا تو میں خود اس کی بائیں پسلی میں اپنا خنجر بھونک دیتا۔ درحقیقت زر بڑی چیز ہے۔ اس وقت چونکہ ضعیف الیاس گھر سے باہر ہے اسلئے گھر میں بدمعاش تیل ضائع کر رہے ہوں گے۔" اس خیال کے آتے ہی اس نے لبادہ اچھی طرح سے اپنے گرد لپیٹ لیا اور جلد جلد قدم اٹھاتا ہوا چل دیا۔
اس اثناء میں المامن ان تاریک اور زمین دوز راستوں میں سے ہوتا ہوا جن کا صرف اسی کو علم تھا، اپنے گھر کو روانہ ہو گیا۔ رات کا بڑا حصہ اس نے
تنہائی میں صرف کیا۔ لیکن ابھی ستارۂ سحر نے پہاڑوں کی چوٹیوں پر طلوع آفتاب کا اعلان نہ کیا تھا کہ وہ اپنے خفیہ حجرہ کے زمین دوز راستہ میں چلنے کو تیار ہو گیا۔ ضعیف شمین اس کے قریب کھڑا تھا۔
المامن نے کہا "شمین! میں ایک مہم پر جاتا ہوں جس کے متعلق مجھے کچھ علم نہیں کہ وہ کیا ہو گی۔ ممکن ہے کہ میں اپنی بیٹی کو تلاش کر سکوں اور اسے نصارےٰ کی ناپاک گرفت سے رہا کرانے میں کامیاب ہو جاؤں اور یہ بھی ممکن ہے کہ دشمنوں کے جال میں گرفتار ہو کر ہلاک ہو جاؤں۔ دونوں صورتوں میں میرے غرناطہ واپس نہ آنے کا مساوی امکان ہے۔ اگر ایسا ہوا تو جو دولت میں یہاں چھوڑے جاتا ہوں، اس کا وارث تو ہو گا۔ اور مجھے یقین ہے کہ جب تیری آنکھین سونے کی چمک دیکھیں گی تو تو اولاد سے محروم ہونے کا رنج بھول جائے گا۔"
شمین نے جھک کر زمین دوز سلام کیا اور منہ ہی منہ میں تکلف اور شکریہ کے فقرے کہہ گیا۔ المامن حجرہ کو دیکھ کر سرد آہیں بھر رہا تھا۔ آخر وہ غم آمیز لہجہ میں بولا "میرے دل میں طرح طرح کے منحوس اندیشے پیدا ہو رہے ہیں۔ اور میری کتابوں میں سے بری پیشین گوئیاں ظاہر ہیں۔" اس نے کنپٹیوں کو انگلیوں سے ٹھونک کر کہا "مگر بدترین خطرہ یہاں ہے۔ رسی تن چکی ہے۔ صرف ایک صدمہ اس کے توڑ ڈالنے کو کافی ہے۔"
یہ کہتے کہتے اس نے دروازہ کھولا اور غلام گردشوں کی اس بھول بھلیوں کے درمیان غائب ہو گیا، جس کے ذریعہ وہ جب چاہتا تھا کسی کو نظر آئے بغیر الحمرا یا شہر کے دروازوں کے باہر والے باغ میں پہنچ جایا کرتا تھا۔
شمین کچھ دیر تک وہیں کھڑا گہرے خیالات میں پڑ گیا اور کہنے لگا "اگر یہ مر جائے تو یہ سب کچھ میرا ہے۔ یا اگر یہ واپس نہ آئے تو ان سب چیزوں کا مالک میں ہوں۔ یہ سب دولت میری ہے۔ یہ کل مال میرا ہے اور میرا کوئی عزیز یا وارث نہیں جو اس کو مجھ سے چھین لے۔" اس نے زمین دوز حجرہ کو قفل لگا دیا اور اوپر کی منزل میں واپس آ گیا۔
دونوں حریف بادشاہ اپنے اپنے مقاصد میں یکساں کامیاب ہوئے۔ سلوبرنیا میں جسے تھوڑا عرصہ پیشتر ہی عیسائیوں نے فتح کیا تھا، جب ابوعبداللہ کا علم دکھائی دیا تو ایک عجیب اضطراب مچ گیا۔ جمہور نے سر اٹھایا۔ اپنے عیسائی محافظوں کو مار کر بھگا دیا۔ اور اپنی قوم کے آخری بادشاہ کے لیے شہر کے دروازے کھول دئیے۔ تمام ہسپانی قلعہ میں واپس جا گھسے اور اب صرف یہ قلعہ تھا جس نے ابوعبداللہ کی افواج کی مزاحمت کی اور چونکہ فصیلیں ناقابلِ تسخیر تھیں اس لیے توقع تھی کہ وہاں ایک زبردست اور خونزریز محاصرہ قائم ہو گا۔
اس اثناء میں فرڈی نینڈ کے قرطبہ میں داخل ہوتے ہی استحصال بالجبر اور مذہبی ایذا رسانی شروع ہو گئی۔ نہ صرف پانچ سو سے زیادہ یہودی مذہبی عدالت کے پیشوا کے چنگل میں پھنس کر ہلاک ہوئے بلکہ سینکڑوں بے انتہا متمول عیسائی خاندان بھی جن کے خون میں یہودی آبا و اجداد کی آلودگی پائی گئی، قید خانوں میں مقید کر دئیے گئے۔ ان میں جو بہت متمول تھے انہوں نے اپنی نصف دولت قربان کر کے اپنی زندگی خرید لی۔ اس موقعہ پر اایبیریا کے علاقہ اسیارٹا میں تباہ حال رعایا نے زبردست بغاوت شروع کر دی۔ عالمگیر یاس نے یہودیوں کو
ذلت کی طویل زندگی سے ایسا ابھارا کہ صرف ایک ہی چنگاری اس کے قدیم جوش کی راکھ پر گری اور فلسطین کے خوفناک جنگجوؤں کی اولاد میں بغاوت کی آگ مشتعل کرنے کو کافی ہو گئی۔ یہودیوں کے ساتھ جن یہودی الاصل عیسائیوں پر ظلم ٹوٹا تھا انہوں نے بھی ان کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں ہر طرح کی امداد دی۔ ان سب باغیوں کا ایک سرغنہ تھا جو دفعتاً ان کے درمیان نمودار ہوا تھا اور جس کی شعلہ انگیز فصاحت اور جنگی جوش نے ان کے درمیان بے حد سرگرمی پیدا کر دی تھی۔ مگر بدقسمتی سے اس عجیب و غریب سرکشی کی تفصیلی کیفیات سے ہم محروم ہیں۔ صرف ہسپانی وقائع نگاروں کے محتاط اشاروں اور محفوظ رمزوں میں ہمیں اس کے وجود اور اس کے خطرات کا ثبوت ملتا ہے۔ یہ صاف ظاہر ہے کہ چونکہ اس واقعہ کی مکمل داستان اوروں کے لئے بھی خطرناک محرک بن سکتی تھی علاوہ ازیں ہسپانی بادشاہ کے غرور سربلند۔ زرپرستی اور کلیسا کے دینی جوش اور عدم مسالمت کے حق میں مہلک تھی، اس وجہ سے اس کی کیفیت صفحۂ تاریخ سے معدوم کر دی گئی۔ اور مذہبی عدالت کے دہشت ناک مظالم نے اس بغاوت کو ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا۔ کیونکہ اس بغاوت کے سرغنے اسی عدالت کے حوالہ کر دئیے گئے تھے جو کیفیت بالواسطہ پہنچی ہےاس سے صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ مفسدوں نے بہت بہادری اور استقلال سے آزادی کے لئے ہاتھ پاؤں مارے۔ مگر آخر کار شاہی افواج ان پر فتح یاب ہوئیں۔ اور فتنہ فساد بالکل فرو ہو گیا۔
ایک روز شام کا وقت تھا۔ سینٹ ہرمنداو کے مقلد ایک مفرور کا تعاقب بےحد سرگرمی سے کر رہے تھے کہ وہ ایک سنسان چٹان کی کھڈ سے برآمد ہوا، جس کے عین مقابل میں ایک مختصر سے قلعہ کا باغ تھا جو استحکامات اور سنتریوں کے نہ ہونے کی وجہ سے بظاہر ویران معلوم ہوتا تھا۔ اس انتہائی سکوت میں جس کے لئے ہسپانیہ کے اوقات شفق خصوصیت رکھتے ہیں، اسے اپنے عقب میں کسی قدر زیادہ فاصلہ پر گھوڑوں کی ٹاپ اور قرنا کی آواز سنائی دی۔ اس کے متعاقب سپاہی کئی دستوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 158
منقسم تھے اور اس کے چاروں طرف یوں منڈلا رہے تھے جیسے ماہی گیر تالاب کے کناروں پر جگہ جگہ اس خیال سے جال کھینچتے ہیں کہ جو شکار ان کے جال کے پھندوں سے بچ نکلتا ہے، آخر کار ان کے ہاتھ سے سلامت نہ رہے گا۔ مفرور تذبذب کی حالت میں رک گیا اور اپنے چاروں طرف دیکھنے لگا۔ وہ بھاگتے بھاگتے تقریباً بےدم ہو گیا تھا۔ اس کی آنکھوں سے خون ٹپک رہا تھا۔ پیشانہ پر پسینہ کے م وٹے موٹے قطرے ڈھلک کر بہہ رہے تھے۔ اس کا تمام جسم اس بارہ سنگھے کی طرح لرز رہا تھا جس کے لئے جان بچا کر بھاگنے کے تمام راستے بند ہوں۔ قلعہ کی دوسری جانب جہاں تک نگاہ کام کرتی تھی، خپیل میدان پھیلا ہوا تھا۔ جہاں اس کے چھپ رہنے کو کوئی جھاری یا غار نہ تھا۔ یہ میدان جو اس کے تعاقب کرنے والون کے مفید مطلب تھا۔ اس میں سے گذر کر فرار ہونے کی کوشش ظاہر ہے کہ فضول تھی۔ اس کے لئے اب اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا کہ جس راستہ سے سوار گذرے تھے۔ اس پر الٹے پاؤں واپس پھر جاتا یا قلعہ کے باغ کی جھاڑیوں کی مختصور اور پرخطر جائے پناہ پر اکتفا کرتا۔ آکر اس نے مؤخرالذکر جائے پناہ کو ترجیح دی۔ املاک کے گرد جو ایک نیچی دیوار کھنچی ہوئی تھی، وہ اس پر چڑھ گیا اور اندر شاہ بلوط اور بن کھوڑ کی شاخوں کے گنجان جھنڈ میں کود پڑا۔
اس باغ میں اس وقت ایک چھوٹے سے فوارہ کے کنارے دو عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک پختہ عمر اور سن رسیدہ تھی اور دوسری دوشیزگی، شباب، پھول لیکن پھول کھلنے سے پہلے مرجھا چکا تھا۔ اس کے حسین چہرہ کی مرمریں سفیدی اور متفکر خاموشی میں وہ شگفتگی اور چمک یا شوخی اور چلبلاہٹ نام کو نہ تھی جو اس کی عمر کے موزوں ہوں۔
ان میں سے سن رسیدہ عورت بولی "میری پیاری زندگی کی ناپائیداری سے ہم کچھ ایسی خاموشی اور تنہائی ہی کی ساعتوں میں متاثر ہو سکتے ہیں۔ میری پیاری ہم مذہب۔ اب تو میں تجھ پر ترس کھانے کی بجائے تجھ پر رشک کرتی ہوں اور مجھے
قطعی یقین ہے کہ مادر کلیسا کے آغوش میں تیری روح پوری راحت حاسل کرے گی۔ مبارک ہیں وہ جو نوجوان مر جاتے ہیں۔ مگر وہ لوگ بہت ہی مبارک ہیں جو نفس کو مارتے ہیں۔ وہ گناہ کی جانب سے مردہ ہیں۔ مگر نیکیوں کی طرف سے نہیں۔ وہ خوف اور تشویش کے لحاظ سے بےجان ہیں۔ مگر امید کے اعتبار سے نہیں۔ انسان کی نظروں میں وہ مر جاتے ہیں۔ مگر خدا کی نگاہوں میں زندہ رہتے ہیں۔"
حسین لڑکی نے افسردگی سے کہا "میری پیاری رہنما! اگر میں اس دنیا میں تنہا ہوتی تو خدا گواہ ہے کہ دلی خواہش اور تسلیم و رضا سے رھبانیت کی مقدس زندگی بسر کرنے کا عہد اٹھا لیتی اور اپنی گذشتہ زندگی کے لئے توبہ کرتی۔ خواہ کتنی ربانی امیدیں اور روحانی تمنائیں دل میں پیدا کر لی جائیں۔ آخر وہ انسانی جذبات سے لبریز رہتا ہے۔ اور بعض اوقات تو چونک اٹھتی ہوں جب مجھے اپنے گھر اور بچپن اور اپنے متلون مزاج مگر پیارے باپ کا خیال آتا ہے، جو ضعیفی کے عالم میں اپنی بچی سے جدا ہو گیا ہے۔"
سن رسیدہ خاتون نے کہا "لیلےٰ ہماری تقدیر میں جو رنج و غم لکھے ہیں۔ تجھے بھی وہی نصیب ہیں۔ اگر موت یا عدم موجودگی ہماری محبت میں تفرقہ ڈالتی ہے تو کیا مضائقہ ہے۔ تو اپنے باپ کی جدائی کا رنج کرتی ہے میں اپنے اس بیٹے کا جو عین حسن و شباب کے عالم میں مر گیا۔ اور اپنے اس شوہر کا جو مُوری زنجیروں میں بےہوش ہے۔ تو اس خیال سے اپنے دل کو تسلی دے کہ رنج و غم انسان کو ترکے میں ملے ہیں۔"
لیلےٰ جواب نہ دینے پائی تھی کہ جن نارنگی کی شاخوں نے ان پر سایہ ڈال رکھا تھا وہ جدا ہوئی اور فوارے اور ان عورتوں کے درمیان وحشت زدہ المامن کھڑا تھا۔ لیلےٰ اٹھی ایک چیخ ماری اور باپ کے سینہ سے چمٹ کر بےہوش ہو گئی۔
المامن نے ایک گہرے درد کی آواز میں کہا "اے بنی اسرائیل کے خدا! کیا آخر کار مجھے اپنی بچی مل گئی؟ کیا میں اسے ہی اپنے سینہ سے لگائے ہوئے ہوں؟
اور کیا یہ صرف اتنے مختصر عرصہ کے لئے مجھے ملی ہے کہ میں ساحلِ اجل پر کھڑا ہوں۔ لیلےٰ میری بچی۔ میری طرف تو دیکھ! اپنے باپ کو دیکھ کر مسکرا تو سہی۔ میری گرم گرم اور جنوں پیما پیشانی اپنی قوم کے آخری فرد کا شیریں تنفس محسوس کرنے کی خواہشمند ہے۔ کہ میں کم از کم ایک روشن اور مقدس تخیل کے ساتھ قبر کی تاریکی میں داخل ہوں۔"
لیلےٰ ہوش میں آ کر پیچھے ہٹ گئی۔ تاکہ اپنے آپ کو زیادہ یقین دلائے کہ یہ وہی چہرہ جس سے وہ اس قدر آشنا تھی۔ وہ کہنے لگی "میرے ابا سچ مچ یہ میرے ابا ہیں۔ اہا یہ تمہیں تو ہو۔ تمہیں تو ہو۔ آہ کیسے حسنِ اتفاق سے ہماری باہم ملاقات ہو گئی۔"
المامن نے رنج سے کہا "یہ اتفاق میرا مقسوم ہے جو مجھے قبر میں دھکیل رہا ہے۔ دیکھ سن۔ کیا تجھے گھوڑوں کے دوڑنے اور ان کے بےقراری سے بولنے کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اب تو وہ سر پر آن پہنچے۔"
"کون؟ تم کس کا ذکر کر رہے ہو؟"
"میرے متعاقب دشمن ہسپانیہ کے سوار۔"
ڈونا آئینز کو اب تک دونوں باپ بیٹیوں نے فراموش کر رکھا تھا لیکن وہ المامن کو تعجب اور شوق کی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ لیلےٰ اب اس کی طرف پھری اور چلا کر بولی۔ "میرے ابا کو بچا لیجیے۔ وہ بھاگ کر کہیں نہیں جا سکتے۔ شاید قلعہ کے تہ خانوں میں وہ محفوظ رہ سکیں۔ جلدی سے ادھر چلیے۔"
ڈونا آئینز لرزتی ہوئی یہودی کی طرف بڑھی اور کہنے لگی "ذرا ٹھہر۔ میری آنکھیں دھوکا تو نہیں کھا رہی ہیں۔ کیا امتدادِ زمانہ اور ابتلاؤں کی تاریک تبدیلیوں کے درمیان میں اس شاہانہ صورت کو دیکھ رہی ہوں جس نے ایک مرتبہ ماں کی غمگین نظروں کو اس کے اکلوتے بیٹے کے مرجھائے اور اترے ہوئے چہرے کا دیدار کرایا تھا؟ کیا تو وہی شخص نہیں جس نے میرے بیٹے کو وبا سے بچایا تھا۔ اور اس کے ساتھ نیپلز کے ساحل تک آ کر اسے ان بازوؤں کے سپرد کر گیا تھا؟ میری طرف دیکھ۔ کیا تجھے اپنے دوست کی ماں یاد نہیں رہی؟"
یہودی نے جواب دیا "ہاں۔ مجھے تیری صورت کچھ ایسی یاد پڑتی ہے جیسے کبھی خواب میں دیکھی ہو۔ اور جب تو گفتگو کرتی ہے تو میرے شباب کے تصورات میری آنکھوں میں پھر جاتے ہیں۔ اور مجھے اس سرزمین کا خیال آتا ہے جہاں لیلےٰ نے پہلی مرتبہ روشن دن کی صورت دیکھی تھی اور اس کی ماں غروب آفتاب کے وقت دریائے فرات کے کنارہ قدیم کھنڈروں کے روبرو مجھے گیت گا کر سنایا کرتی تھی۔ تیرا بیٹا اب مجھے یاد آ گیا۔ اس وقت ایک عیسائی کے ساتھ میری دوستی تھی۔ کیونکہ میں ان دنوں نوجوان اور ناتجربہکار تھا۔"
لیلےٰ ابھی تک بےقراری سے اپنے باپ کے سینہ سے لپٹی ہوئی تھی۔ وہ بولی "پیارے ابا۔ اور اے خاتون اب وقت ضائع نہ کرو۔"
"ہاں تم درست کہتی ہو۔ اور اے ضعیف شخص تم جو میرے فرزند کے دوست ثابت ہوئے تھے۔ میں حتے الامکان تمہیں یوں تباہ و برباد نہ ہونے دوں گی۔"
آئینز قلعہ کے عقب میں ایک چور دروازہ سے اپنے اس عجیب و غریب مہمان کو اندر لے گئی اور کئی کمروں میں سے گذر کر آخر کار اپنے مخصوص کمرہ کے برابر ایک حجرہ میں اسے جگہ دی، جس کا دروازہ مشجر پردوں کے پیچھے پوشیدہ تھا۔ آئینز کا یہ خیال درست تھا کہ یہ خانوں کی نسبت وہ کمرہ چھپنے کے لئے زیادہ موزوں ہے۔ کیونکہ ملکہ ازابیلا سے ڈونا آئینز کی گہری ملاقات اور مشہورِ عام بےتکلفی تمام ایسے شبہات دور کرنے کو کافی تھی کہ وہ کسی مفرور کے فرار میں اس کی معاون ہو سکتی ہے۔ اور وہ اپنے ان نج کے مکانات کو جن میں اس کی امداد کے بغیر یہودی کسی طرح خفیہ پناہ نہ پا سکتا تھا، زیادہ محفوظ رکھ سکتی تھی۔
چند لمحوں کے بعد کئی سوار قلعہ میں آ پہنچے۔ لیکن مالک قلعہ کا نام معلوم ہونے کے بعد انہوں نے صرف باغات اور قلعہ کے بیرونی حصہ ہی میں تلاش کرنے پر اکتفا کی اور ملازموں کو احتیاط سے نگہداشت کرنے کی تاکید کر کے پھر گھوڑوں پر سوار ہو گئے اور اس وسیع میدان میں جس پر اب رات کا سایہ اور ستاروں کی مدھم روشنی کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 162
نزول ہو رہا تھا۔ جستجو کرنے کو روانہ ہو گئے۔
آخر کار جب لیلےٰ دبے پاؤں اس حجرہ میں پہنچی جس میں اس کا باپ چھپا ہوا تھا تو اس نے دیکھا کہ وہ اپنے لبادہ پر لیٹا ہوا گہری نیند سو رہا ہے۔ دن کے وقت وہ اپنے دشمنوں کے آگے بھاگتے بھاگتے بےانتہا تھک گیا تھا۔ اور پھر دفعتاً اپنی بچھڑی ہوئی بیٹی سے ملنے کی جو فوری خوشی ہوئی، اس سے اس کے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے۔ چنانچہ وہ شعلہ مزاج اور بادیہ پیما شخص ایک معصوم بچہ کی سی میٹھی نیند سو گیا۔ اس وقت باپ بیٹی کا تعلق برعکس معلوم ہو رہا تھا۔ بیٹی ایسی شفیق ماں کی طرح تھی جو اپنے نونہال کو محبت آمیز غور و خوض سے دیکھ رہی ہو۔ لیلےٰ آہستہ سے اس کے پاس بیٹھ گئی۔ اس کی آنکھوں میں بار بار آنسو ڈبڈبا آتے تھے اور وہ انہیں بار بار پونچھ ڈالتی تھی۔ نگاہیں باپ پر گری ہوئی تھیں۔ اور وہ اس کے فرسودہ چہرہ کے ان بےحس و حرکت خط و خال کو غور سے دیکھ رہی تھی جو دریچہ میں سے جھللاتی ہوئی خاموش روشنی میں اور بھی ساکن و جامد معلوم ہوتے تھے۔ اس طرح رات کی خاموش ساعتیں گذرتی گئیں۔ باپ اور بیٹی۔ ایک منکسر مزاج نومسیحی۔ اور دوسرا کینہ ور جنونی۔ دونوں ایک ہی چھت کے نیچے موجود تھے۔
المامن سنتا ہے اور دیکھتا ہے۔ مگر یقین نہیں کرتا کیونکہ تفکرات کی کثرت بےانتہا فہیم دماغ کو بھی کند کر دیتی ہے۔
سپیدۂ سحر آہستہ آہستہ نمودار ہوا جس میں المامن سو رہا تھا۔ آج عیسائیوں کا یوم السبت تھا۔ وہ دن جب عیسائیوں کا نجات دہندہ (یسوع مسیح) مردوں میں سے زندہ اٹھا۔ اسی وجہ سے ابتدائی زمانہ کے کلیسا نے اس قدر شد و مد اور بلند آہنگی کے ساتھ اس دن کو روز خداوند کے نام سے موسوم کیا تھا۔ شعاع آفتاب مشرق میں چمکتے ہی مسیح مصلوب کے اس بت پر فخر و ناز اور رونق و جلال سے پڑنے لگی۔ جو اس حجرہ میں ایک گہرے طاقچہ کے اندر رکھا تھا۔ وہ چہرہ جس میں گاتھ قوم کے معمولی سے معمولی بت تراش بھی جاں کنی کی بےقراری اور یزدانی صبر کی پُراسرار دہشت انگیز آمیزش قائم رکھنے میں بہت کم ناکام رہے تھے۔ لیلےٰ کو حیرت انگیز طریق سے نظر آنے لگا۔ وہ چہرہ لیلےٰ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اور گو اس کو دیکھنے سے جسم میں ایک لرزش پیدا ہوتی تھی اور انسان اطاعت پر مجبور ہو جاتا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس میں دل کشی اور حوصلہ افزائی بھی تھی۔ وہ آہستہ سے اپنے باپ کے پاس سے دبے پاؤں اٹھی، طاق کے قریب گئی اور اس متبرک بت کے سامنے دو زانو ہو کر دعا مانگنے لگی۔
"اے نجات بخشنے والے میری مدد کر۔ تو اپنی کنیز کو ہمت بخش۔ اس کے قدموں میں اتنی طاقت دے کہ وہ صراطِ مستقیم پر گام زن ہوں۔ خواہ اس کے باعث سے
دنیا کی عزیز ترین چیزوں سے قطعی طور پر جدا ہونا پڑے اور اگر تیری کنیز نے اس مقدس ارادہ کے انتخاب میں کچھ ایثار سے کام لیا ہے تو اے مصلوب خداوند اسے اس کی سرکش قوم کے جرائم کے ایک ادنےٰ کفارہ کے طور پر قبول کر۔ اور اس کے بعد اگر ایک یہودی لڑکی یہ التجا کرے کہ جو سخت لعنت اس کی قوم پر بجا طور سے پڑی ہے اس میں تخفیف ہو جائے تو اے خداوند اس کی دعاؤں کو رائگاں نہ جانے دے۔"
لیلےٰ کے آنسو بہہ رہے تھے وہ ہلکی ہلکی سسکیاں بھر رہی تھی اور رنج و غم کے بوجھ کے نیچے دبی ہوئی آواز میں آہستہ آہستہ دعا مانگ رہی تھی کہ وہ کراھنے کی ایک بلند آواز سن کر چونک اٹھی۔ اس نے سراسمیگی سے پیچھے پھر کر دیکھا تو المامن بیدار ہو چکا تھا۔ اس نے اپنے بازو پر ٹیک لگا رکھی تھی اور اپنی سیاہ آنکھیں اپنی بیٹی کے چہرہ پر گاڑ رکھی تھیں۔ جن سے ایک بار پھر حسب معمول آگ کے شعلے نکل رہے تھے۔
لیلےٰ نے سہم کر اپنا چہرہ چھپا لیا، وہ بولا "بتا مجھے بتا ورنہ ایک مہیب خیال سے میں پتھر بن جاؤں گا۔ کہیں تو اس بت کے سامنے تو پرستارانہ انداز میں دو زانو نہیں تھی؟ اگر مجھے اس امر کا علم ہوا کہ تیرے شکستہ الفاظ کفر اور شرک کی عبادت کا اظہار کر رہے تھے تو میرے حواس پراگندہ ہو جائیں گے۔ مجھے بتا۔ خدا کے لئے مجھے بتا۔"
لیلےٰ بولی "اہا۔" وہ کچھ اور کہنا چاہتی تھی مگر اس کے لبوں سے اس مؤثر و مقدس نام کے سوا اور کوئی لفظ نہ نکل سکا۔
المامن اٹھ کھڑا ہوا اور لیلےٰ کے ہاتھ اس کے چہرہ سے علیحدہ کر کے کچھ دیر اسے گھورتا رہا گویا اس کی روح کے عمیق ترین حصوں تک پہنچنا چاہتا ہے۔ اس اثنا میں رفتہ رفتہ لیلےٰ کے دل میں بھی کچھ قوت اور دلیری پھر عود کر آئی۔ اس نے بےباکانہ انداز سے اپنے باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ اس کا پاک اور معصوم چہرہ اپنے باپ کی طرف متوجہ تھا۔ اس پیارے چہرہ کی ہر شکن سے گناہ کی بجائے رنج و غم مترشح تھا۔
المامن نے آخر مہر سکوت کو توڑا اور بولا "تو خائف نہیں ہے۔ میں نے تجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 165
جس جرم کا مرتکب سمجھا تھا وہ تو نے نہیں کیا۔ مجھے دھوکا ہوا۔ آ۔ میرے سینے سے لگ جا!"
لیلےٰ ایک طبعی تحریک سے مغلوب ہو کر اس کے فرسودہ سینے سے لپٹ گئی اور کہنے لگی "کم از کم مجھ میں اپنے خدا کی ہستی سے منکسر ہونے کا حوصلہ نہیں۔ ابا! ہماری قوم پر خدا کی لعنت پڑی ہے۔ اس کے سبب سے ہم بےخانماں اور ناتواں ہیں۔ اور تمام ملکوں میں ہماری حالت اجنبیوں اور مردودوں کی سی ہے۔ جو ظلم و ستم اور درد و کرب ہم نے برداشت کیا ہے۔ ان سے تو اپنے اعلےٰ و ارفع دل کو یہ سبق سکھا کہ جس شخص نے اپنے مبارک قدموں سے ہماری زاد بوم کو متبرک بنایا تھا۔ اسے عذاب دینے کی پاداش میں ہم کو واجب سزا مل رہی ہے۔ تاریخ عالم میں سب سے پہلے سنگ دل یہودیوں ہی نے محض اختلاف رائے کے باعث بنی نوع انسان کو ایذا پہنچانے کا گناہ کیا۔ جو بیج ہم نے بویا تھا وہ اب بارور ہوا ہے۔ اور ہم اس کا پھل کھا رہے ہیں۔ اسی کے عوض ہم پر ظلم ہوتے ہیں۔ میں نے امید اور راحتِ قلبی کی التجا کی تھی۔ میں نے اس سامنے والی صلب پر نگاہِ استمداد اٹھائی تھی اور مجھے یہ دونوں نعمتیں حاسل ہو گئیں۔ اپنے دل کو پتھر نہ بنا۔ اپنی بیٹی کی بات کو غور سے سن۔ گو تو دانشمند ہے اور اگرچہ میری طبیعت میں نسوانیت کی تمام کمزوریاں ہیں، مگر میری بات توجہ سے سن۔"
المامن چلا اتھا۔ اس کی دہشت زدہ آواز ایسی بھانک تھی گویا مردہ جسم کی کھوکلی ہڈیوں میں سے گونج کر نکل رہی ہو "چپ رہ۔ گنگ ہو جا۔" وہ چند قدم پیچھے ہٹ گیا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی کنپٹیوں پر رکھ لئے اور کہنے لگا "جنون۔ جنون۔ ہاں ہاں یہ ہذیان اور دیوانگی ہے۔ شیطان مجھے آزما رہا ہے۔" پھر اس کی آواز دفعتاً ناقابل بیان طور پر عجز و رقت سے بھرا گئی اور وہ پھر بولا "میری بچی! میں بےانتہا تھک گیا ہوں۔ میں نے جوش و انتقام کا ایک پھونک ڈالنے والا خواب دیکھا ہے۔ کاش تیرے ہونٹ اور تیرے تسکین دینے والے ہاتھ مجھے اس نیند سے بیدار کریں۔ آ۔ ہم اس قابل نفرت زمین سے بھاگ جائیں اور ان بدبخت کفار کے انجام سے بےگانہ ہو جائیں۔ ان کو اپنی خوں ریزیوں میں مصروف چھوڑ جائیں۔ آ۔ ہم ایک ایسے
خطے کو چل دیں جہاں فوجوں کے آہنی قدم نہیں گونجتے۔ ایک ایسی فضا میں پہنچیں جہاں خاموشی کے عالم میں انسان کی دعا و التجا یہواہ اعظم تک پہنچتی ہے۔ آ کہ ہم جلد جلد اپنے درماندہ قدم بڑھائیں۔ اہلِ قلعہ خواب نوش ہیں۔ کوئی دیکھنے والا نہیں۔ باپ اور بیٹی یہاں سے نکل جائیں گے اور اثناءِ مسافت میں اطمینان سے پیاری پیاری باتیں کریں گے۔" اس نے دفعتاً ہلکی سی آواز میں کہا "اور دیکھ اے لیلےٰ اس سامنے کے بت کا ذکر مجھ سے نہ کر۔ کیونکہ تیرا خدا ایک غیور خدا ہے۔ وہ تراشیدہ بتوں سے بالکل مشابہ نہیں ہے۔"
اگر المامن ایک مدت دراز کی مشقت اور پریشان کن خیالات سے اس قدر تھکا ہوا نہ ہوتا تو اس جیسے تند خو، آدمی کی گفتگو مختلف ہوتی۔ مگر مصائب سخت سے سخت مزاج کو بھی نرم بنا دیتے ہیں۔ ذکاوت طبعی اور نخوت و تکبر کے باوجود بےبسی اور اقتدار، جذبۂ جوش اور تہیہ مقصود کی طوفانی حالتوں میں اتنی انسانیت شاید اور کسی میں نہ ہو جتنی اس عجیب و غریب شخص میں ہوتی تھی جس نے اپنے پراسرار علوم کے مطالعہ اور فرعونی ارادوں کے ذریعے انسان سے بالاتر بننے کی خواہش کو دل میں آباد کر رکھا تھا۔
لیلےٰ کو مسیحیت قبول کئے کچھ زیادہ عرصہ نہ گذرا تھا۔ چنانچہ اس کے لئے درحقیقت یہ ایک نازک وقت تھا۔ باپ کی غیر متوقع نرمی نے اسے بالکل موہ لیا۔ وہ کیتھولک لوگوں کی اس نفس کشی کے جوش سے بھی کافی طور پر بہرہ یاب نہ تھی جس کے زیر اثر انسانی تعلقات اور دنیاوی فرائض زہد و اتقا کی قربان گاہ پر بار ہا بھینٹ چڑھا دئیے گئے ہیں۔ لیلےٰ کی رائے کچھ بھہ ہو، اس کا عقیدہ کوئی ہی ہو، اسے راہبہ بننے کی جو خواہش تھی اس کی تہہ میں یہ عالی مگر باطل اور لاحاصل خیال مضمر تھا کہ اس کی تبدیلیٔ مذہب اور ایثار سے اس عظیم الشان ہستی کی نظر میں قوم یہود کے گناہ معاف ہو جائیں گے، جس کی موت اہلِ دنیا کے گناہوں کا ایک عظیم کفارہ تھا۔ بہرحال وہ کیسے ہی بلند خیالات و احساسات تھے لیکن عزیزوں کے
تعلقات اور فرائص فرزندانہ کے احساس کی ناقابل برداشت تحریک کے سامنے نہ ٹھہر سکے۔ میں اپنے باپ کو چھوڑ دوں؟ کیا یہ علیحدگی مستحسن ہے؟ یہ سوال فوراً اس کے دل نے کیا اور اس کا جواب بھی لے لیا۔ وہ المامن کے قریب گئی اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیا اور سکون و استقلال سے کہنے لگی "ابا! تم جہاں کہیں بھی جاؤ گے میں تمہارے ساتھ چلوں گی۔"
اگر باپ بیٹی کی تجویز کارگر ہوتی تو حالت دگرگوں ہو جاتی۔ مگر آسمان نے ان دونوں کے مقسوم میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔ المامن جواب بھی نہ دینے پایا تھا کہ قلعے کے دروازے پر ایک قرنا کی صاف اور تیز آواز سنائی دی۔
وہ یہ سمجھ کر چونک اٹھا کہ خطرات سر پر آ پہنچے ہیں۔ وہ خنجر کے دستے پر ہاتھ رکھ کر بولا "میرے دشمن۔ میرے قاتل آ پہنچے۔ مگر ان اعضا کا تقدس اس لئے نہیں کہ گرفتاری کے شکنجے سے ناپاک ہو۔"
خطرے کی یہ بدشگون آواز بھی لیلےٰ کے لئے ایک صدائے مخلصی تھی۔ وہ بولی۔ "میں جا کر معلوم کرتی ہوں کہ اس آواز سے کیا مطلب ہے۔ تم یہیں ٹھہرو۔ ہوشیار رہنا۔ میں ابھی واپس آتی ہوں۔"
لیلےٰ کئی منٹ کے بعد واپس آئی۔ لیکن جب آئی تو اس کے ساتھ ڈوناآئینز بھی تھی جس کے چہرے کی زعفرانی رنگت سے ظاہر ہوتا تھا کہ اسے بہت کچھ خوف ہے۔ قلعے کے دروازے پر ایک خاص سوار یہ خبر پہنچانے آیا تھا کہ ملکہ ازابیلا عنقریب آنے والی ہے اور ایک کافی فوج ساتھ لے کر فرڈی نینڈ سے متحد ہونے کو جا رہی ہے۔ فرڈی نینڈ نے حسب معمول سرعت کے ساتھ ایک ایسے مُوری شہر کا محاصرہ کر رکھا تھا جس نے اس سے اتحاد منقطع کر لیا تھا۔ چنانچہ المامن کے لئے بالکل محفوظ رہنا دشوار معلوم ہوتا تھا اور بچ نکلنے کی امید صرف اسی صورت میں تھی کہ وہ فوراً بھیس بدل کر وہاں سے رخصت ہو جائے۔
آئینز کہنے لگی "میرا ایک معتبر اور وفادار ملازم قلعے میں موجود ہے۔ میں نہایت
بےفکری سے آپ کی حفاظت کا کام اس کے سپرد کر سکتی ہوں۔ اگر اثناء مسافت میں کچھ شبہ بھی ہوا تو میرا نام اور میرے ملازم کی ہمراہی تمام مزاحمتوں کو دور کر دے گی۔ کیڈز کا شہر جو باغی ہو کر مُوروں سے مل گیا ہے، یہاں سے کچھ بہت فاصلے پر نہیں۔ جب تک فرڈی نینڈ کی افواج اس کی فصیلوں کا محاصرہ کریں۔ آپ وہاں بحفاظت پناہ میں رہیں گے۔"
کچھ دیر تک المامن ایک مغموم خاموشی میں ڈوبا رہا لیکن آخر کار اس نے تجویز سے اتفاق کیا اور ڈوناآئینز فوراً مجوزہ بدرقہ کو ہدایات دینے کے لئے رخصت ہو گئی۔
المامن جب لیلےٰ کے ساتھ اکیلا رہ گیا تو بولا "لیلےٰ تو یہ نہ سمجھنا کہ میں صرف اپنی جان بچانے کے خیال سے تیرے پاس سے فرار ہونے کو تیار ہو گیا ہوں۔ آہ! نہیں جب میں نے ایک غیر آدمی پر ضرورت سے زیادہ اعتبار کر کے تجھے ہاتھوں سے کھو دیا تھا تو اس سے پہلے مجھ کو کبھی علم نہ ہوا تھا کہ تو اپنی ماں کی تنہا یادگار میرے پاس رہ گئی ہے۔ تو میری نسل کی آخری بیٹی ہے اور مجھے جان سے زیادہ عزیز۔ تو مجھے دوبارہ مل گئی تو دنیا میری آنکھوں میں نئی نئی اور زیادہ حسین دکھائی دینے لگی۔ اور مجھے معلوم ہوتا ہے کہ کسی فوری انقلاب نے دنیا کی زمستانی افسردگی کو بہار کی متبسم رنگینیوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ میں صرف تیری خاطر اپنے دشمنوں سے بچنے کو ان تجاویز پر عمل کرنے کو آمادہ ہو گیا ہوں جن کے وضع کرنے کی صلاحیت دماغ انسانی میں ہے۔ اس اثناء میں میری روح یہیں موجود رہے گی، خواہ مجھے کیسے ہی مصائب کا سامنا کرنا پڑے میں آج سے ایک ہفتہ بعد اسی جگہ واپس آؤں گا اور تجھے اپنا وعدہ ایفا کرنے کو کہوں گا۔ میں اپنے فرار ہونے کے تمام انتظام کر لوں گا۔ اور تجھے سفر میں کوئی تکلیف پیش نہ آئے گی۔ میری بیٹی! اسرائیل کا خدا تیرے ساتھ ہو اور تیرے دل کو تقویت دے۔" زینے میں کسی کے قدموں کی آہٹ سن کر اس نے لیلےٰ کو اپنی آغوش سے جدا کر دیا اور کہنے لگا "گو میں تجھ پر دل و جان قربان کرنے کو تیار ہوں، مگر یہ خیال نہ کرنا کہ میں اس دیوانہ وار الفت پدری میں تیرے اور اپنے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 169
فرائض سے چشم پوشی کر لوں گا۔ یہ نہ سمجھ کہ میری محبت درندوں کی مانند اور ان احمقانہ احساسات پر مشتمل ہے جو کسی مورث کو اپنی اولاد سے ہوتی ہے۔ میں تیری ماں کے سبب تجھ سے محبت کرتا ہوں، خود تیری وجہ سے تجھ سے پیار کرتا ہوں۔ اور سب سے زیادہ بنی اسرائیل کے باعث تجھے عزیز رکھتا ہوں۔ اگر تو نابود ہو جائے یا ہم تجھ سے قطعی محروم ہو جائیں، تو اے خاندان اسخر کی آخری دختر! خدا کے برگزیدہ اور عظیم الشان دودمان کی شمع گل ہو جائے گی۔"
اس موقع پر ڈوناآئینز دروازے پر آ موجود ہوئی۔ مگر المامن کا بےتابانہ اور حاکمانہ اشارہ پا کر پچھلے پاؤں واپس لوت گئی اور یہودی نے اپنی تقریر کے پھر منقطع ہو جانے کا خیال چھوڑ کر سلسلۂ گفتگو شروع کیا۔
"میں تجھ سے اور تیری نسل سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ تو بنی اسرائیل کی اس حیات تازہ کا باعث ہو گی جس کے متعلق میں نے نادانی سے سمجھ لیا تھا کہ میری زندگی ہی میں ظہور پذیر ہو جائے گی۔ خیر اسے جانے دے۔ تو نصارےٰ کے زیر سایہ ہے۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ ہم نے تلوار اور آگ کے سامنے جن عیاریوں کا مقابلہ کیا ہے وہ تجھے ورغلا سکیں۔ لیکن اگر میں غلطی پر ہوں تو سن رکھ کہ تو اس کا سخت دہشت ناک خمیازہ اٹھائے گی۔ اگر کبھی مجھے یہ معلوم ہوا کہ تو نے اپنے آبا و اجداد کا عقیدہ ترک کر دیا ہے تو خواہ تیرے پاس کوئی جنگ جو یا پادری بھی کھڑا ہو، خواہ ہزاروں اور لاکھوں شخص تیری امداد کو موجود ہوں۔ یہ فولاد کا ٹکڑا اسخر کی نسل کو ذلت و رسوائی سے بچائے گا۔ خبردار رہنا۔ تو روتی ہے۔ میری بچی میں تجھے دھمکاتا نہیں۔ بلکہ آگاہ کر رہا ہوں۔ خدا تیرے شامل حال ہو۔"
اس نے جوش سے لیلےٰ کا سرد ہاتھ دبایا۔ دروازے سے نکل گیا اور اس مختصر وقت میں جیسا بھیس بدلا جا سکتا تھا، بدل کر اپنے ہسپانی بدرقہ کے ساتھ رخصت ہو گیا۔ گو ملازم کو کچھ شبہ تھا، لیکن چونکہ وہ اپنی مخدومہ کا خیر خواہ تھا، اس لئے اس نے بلا چون و چرا اس کے احکام کی تعمیل کی۔
ایک تہائی گھنٹہ بھی نہ گذرا ہو گا اور سورج ابھی پہاڑ کی چوٹیوں ہی پر چمک رہا تھا کہ ملکہ ازابیلا کی سواری قلعے میں آ پہنچی۔
وہ یہ بتانے کے لئے آئی تھی کہ قرب و جوار کے مُوری شہروں کی بغاوت کے باعث اس کی سہیلی کا غیر مستحکم قلعہ کچھ محفوظ مقام پر نہ تھا۔ ملکہ نے اپنے اس حکم سے ہسپانی خاتون کی عزت افزائی کی کہ وہ اپنے ساتھ کی تمام مستورات کو لے کر اس کے ساتھ فرڈی نینڈ کے خیمہ گاہ کو رخصت ہو۔
لیلےٰ نے جب یہ خبر سنی تو اس پر بدحواسی کا عالم طاری ہو گیا۔ باپ کے ساتھ اس کی جو گفتگو ہوئی تھی، اس کے باعث اس کے جذبات میں ایک تند اور خوفناک کشمکش ہو رہی تھی۔ اس کے حواس بےانتہا متاثر ہو گئے تھے اور اس کا سر چکرا رہا تھا۔ جب شفق کا ستارہ نمودار ہوا تو وہ ملکہ ازابیلا کے اہلِ جلوس کے زمرے میں موجود تھی۔ اس وقت اس کے متحیر و بدحواس دماغ میں رہ رہ کر صرف یہ احساس پیدا ہو رہا تھا کہ دستِ قدرت نے اسے ایک ایسی آزمائش سے بچا لیا جس کے متعلق عالم الغیب کو علم تھا کہ یہ آزمائش ایک عورت اور پھر بیٹی کی برداشت سے باہر ہے۔
اپنی رخصت کے پانچویں روز بعد جب المامن واپس آیا تو قلعہ ویران پڑا تھا اور اس کی بیٹی وہاں سے رخصت ہو چکی تھی۔
وہ شان دار جذبہ جو ہمارے بیکار ہاتھوں میں ایک زبردست قوت پیدا کر دیتا ہے۔ عورت کی وہ پُرسکون ملائمت جو اُفتاد و آلام کے وقت ہمارے تسکین کا باعث ہوتی ہے، کس طرح فراموش کی جا سکتی ہے۔
فوج کا بڑا حصہ اور ابو عبد اللہ تو شہر میں رہے۔ مگر موسےٰ نے چیدہ چیدہ جواں مردوں کا ایک دستہ لے کر قرب و جوار کے علاقے میں دورہ کیا۔ تاکہ نومقبوضات کا معائنہ کرے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے میں کوکئی دقیقہ نہ چھوڑے۔
لیکن جب فرڈی نینڈ کے لشکر نے دیگا کی وادی میں اُتر کر وہاں کی فصیلوں کو بالکل برباد کر دیا۔ اور پھر باغی شہروں کی پائمالی میں مصروف ہو گیا۔ تو موسےٰ کو اپنی مہم سے واپس لوٹنا پڑا۔ اس دوڑ دھوپ کے بعد امن و سکون کا تھوڑا سا وقفہ آیا۔ جیسے طوفان سے چھ دیر پہلے چاروں طرف سناٹا چھا جاتا ہے۔ التواء معرکہ آرائی سے مستفید ہو کر ہسپانیہ کے ہر حصے سے مستقل مزاج شجاع مُور غرناطہ میں آ آ کر جمع ہونے لگے۔ اور یہ شہر ان تمام شجاع اور عالی حوصلہ غیر اقوام کا مرجع بن گیا۔ جو یورپ میں باقی رہ گئی تھیں۔
آخر کار جب فرڈی نینڈ اپنی فتوحات کو تکمیل تک پہنچا چکا اور اس کے خزانے پھر بھرپور ہو گئے، تو اس نے اپنی مملکت کی تمام فوج فراہم کی جو چالیس ہزار پیادہ سپاہیوں اور دس ہزار سواروں پر مشتمل تھی۔ اور آخری مرتبہ پھر غرناطہ کی فصیل کے سامنے آ نمودار ہوا۔ محاصرین اور محصورین دونوں میں ایک عجیب قسم کا زبردست ارفع جوش پھیلا ہوا تھا۔ دونوں نے سمجھ رکھا تھا کہ اس آخری معرکے میں ان کی قسمتوں کے قطعی فیصلے کا وقت آ پہنچا ہے۔
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 182
فصل ہفتم
آتش زدگی، ہزاروں دشمنوں کے درمیان ایک جذبۂ واحد کا جلال
عیسائی لشکر کے سرداروں نے نہایت حزم و احتیاط سے غرناطہ پر چاروں طرف سے حملہ کرنے کا منصوبہ باندھا۔ رات کا وقت تھا۔ کل حملہ ہونے والا تھا۔ ہسپانی فونوں کی فرودگاہ پر (جو مسیحی دُنیا کا سب سے زیادہ شاندار کیمپ تھا) رفتہ رفتہ خاموشی اور سکون طاری ہو گیا۔ تاریکی اور بھی گہری ہو رہی تھی۔ ستاروں کی روشنی زیادہ تیز اور مستقل تھی۔ نیلگوں آسمان کے نیچے شاہی خیمے پھیلے ہوئے تھے۔ جو طرح طرح کے سامان نمائش سے جگمگا رہے تھے۔ اور زرق برق پرچم ان کے کلسوں کی تاج پوشی کرتے تھے۔ اور جب پہاڑ کی تیز اور سنسناتی ہوئی ہوا ان میں بھر جاتی، تو وہ اپنی سنہری چوبوں پر بہت خوبصورتی سے لہراتے تھے۔ لشکر کے وسط میں ملکہ ازابیلا کا خیمہ کھڑا تھا۔ جو بجائے خود محل معلوم ہوتا تھا۔ نیزے اور بھالے اس کے ستونوں کا کام دے رہے تھے۔ دیواروں کی بجائے زردوزی اور مشجر کے پردے تنے ہوئے تھے۔ اور جو رقبہ اس کے
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 183
مختلف حصو میں گھرا ہوا تھا، ایک معمولی قلعے کے ایوانوں اور استحکامات کے برابر تھا۔ اس لشکر گاہ کے طمطراق میں اہل گاتھ کے نازک تریں تخل ایشیائی شان و شوکت کے ساتھ زندہ موجود تھے۔ ٹاسو (1) کے بلیغ و لطیف تصور کی وضع کردہ شان اسکا نقشہ کھیچ سکتی تھی۔ یابک (2) فرڈ جیسا شوکت پسند فسانہ نگار اسے معرض تحریر میں لا کر زمانے کو حیرت میں ڈال سکتا تھا۔ چاروں طرف سپاہیوں کے خیمے پھیلے ہوئے تھے۔ اور ان میں سے اکثر ایسی شاخوں کو کاٹ کر بنائے گئے تھے۔ جن میں اب تک پتے لگ رہے تھے۔ لیکن ان کے محیط ہونے کے باعث شاہی خیمہ گاہ کی عظمت و شوکت کا اثر کچھ زائل نہ ہوتا تھا۔ بلکہ شاہیوں کی یہ خوبصورت اور سادہ جھونپڑیا دیکھ کر گمان ہوتا تھا کہ جنگل کے رہنے والے وحشیوں نے بھی پرانی روایات سے جوش میں آ کر صلیب اٹھا لی ہے۔ اور ان عیسائیوں کے ہمرا مقلدین ٹرماگونٹ (3) اور مہوند (4) کے سیلاب سے مقابلہ کرنے کو آئے ہیں۔ جب آدھی رات کے قریب سبزہ زار پر خیموں کے کوچہ و بازار کا طویل و تاریک سایہ پڑنے لگا۔ تو عظیم الشان لشکر گاہ راحت کی آغوش میں محو خواب معلوم ہوتا تھا۔ یہ وقت تھا جب ملکہ ازابیلا اپنے خیمے کے کسی خفیہ ترین گوشے میں بیٹھی اپنے شوہر کی سلامتی اور جنگ مقدس میں فتحمند ہونے کے لئے دعا مانگنے میں مصروف تھی۔ اس میدان جنگ کی عبادت گاہ میں قربان گاہ کے سامنے وہ جھکی ہوئی تھی۔ اور ایسی بے خودی اور جش کے عالم میں دعا مانگ رہی تھی۔ کہ اس کی روح شاہی رعونت کو خیرباد کہہ کر خاکسار بن گئی تھی۔ اس اتنے بڑے خیمہ گاہ میں سنتریوں کی سوا صرف نیک ملکہ کی آنکھیں محروم خواب تھیں۔ ہر طرف انتہائی خاموشی و سکون چھایا ہوا تھا۔ اس کے خیمے کے سپاہی اور خدام سب سو گئے تھے۔ اور عظیم الشان خیمہ گاہ کے باہر سے سنتری کے قدموں کی آواز ریشمیں پردوں کی دیواروں میں سے
-----------------------------------------------------------------------------
(1) Tasso
(2) Beckford
(3) Termagaunt
(4) Mahound
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 184
اند نہ آتی تھی۔
ازابیلا قربان گاہ کے سامنے دو زانو ہو کر دعا مانگ رہی تھی۔ تو اسے ایسا معلوم ہوا جیسے وہ مضبوط ہاتھوں نے اس کے بازوؤں کو جکڑ لیا ہے۔ ملکہ کے ہونٹوں سے ایک دھیمی سی چیخ نکل گئی۔ پلٹ کر دیکھا تو کسی مشرقی جنگجو کا خنجر خمدار اس کی آنکھوں کے سامنے کوند رہا ہے۔
"خبردار خاموش۔ اگرچہ تو ملکہ ہے اور ہزاروں بہادروں کے درمیان موجود ہے۔لیکن اگر تو نے آواز نکالی۔ یا دم بھی مارا تو میں تجھے کئے بغیر نہ رہوں گا۔"
یہ الفاظ ایک ایسے شخص نے قشطالی ملکہ سے کہے۔ جو گو غضبناک اور حاکمانہ طبیعت کا آدمی معلوم ہوتا تھا۔مگر اس کا چہرہ پژمردہ اور مصیبت زدہ تھا۔
ملکہ جو شاید اب زندگی میں پہلی مرتبہ کسی انسانی ہستی کے سامنے کانپ رہی تھی۔ بولی، "آخر تیرا منشاء کیا ہے۔ کیا تو مجھے جان سےمارنا چاہتا ہے؟"
"اگر تو مجھے ٹالنے یا دھوکہ دینے کی کوشش نہ کرے گی۔ تو تجھے کسی قسم کا ضرر نہ پہنچے گا۔ وقت بہت تنگ ہے۔ میرے سوال کا جواب دے۔ میں المامن یہودی ہوں۔ جو یرغمال تیرے سپرد کی گئی تھی۔ وہ اب کہاں ہے۔ میں اپنی بیٹی مانگ رہا ہوں۔ مجھے علم ہے کہ وہ تیرے ساتھ ہے۔ بتا کہ وہ لشکر گاہ کے کس کونے میں ہے؟"
ازابیلا کچھ سنبھلی اور ہمت کر کے بولی، "اے بدتہذیب اجنبی! تیری بیٹی ہمیشہ کے لئے تیری ناپاک گرفت سے دور کر دی گئی ہے۔ وہ اس خیمے میں نہیں ہے۔"
المامن نے خنجر سنبھال کر کہا، "قشطائی ملکہ جھوٹ مت بول۔ دونوں اور ہفتوں سے میں تیرے نقش قدم پر چلا آ رہا ہوں۔ جہاں تو گئی۔ میں برابر تیرے پیچھے لگا رہا۔ زرہ پوش پہرہ دار چاروں طرف کھڑے تھے۔مگر میں تیرے خواب گاہوں کے اردگرد ہی منڈلاتا رہا ہوں۔ اور میں یہ جانتا ہوں۔ کہ میری لڑکی تیرے ساتھ ہے۔ یہ مت سمجھ کہ دہشت ناک اور سفاک ارادوں کے بغیر
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 185
میں نے آپنے آپ کو یوں جان جھوکھوں میں ڈال دیا ہے۔ بتا۔ بتا میری بیٹی کہاں ہے؟"
ملکہ گو اپنے آپ کو حوصلہ مند ظاہر کرنا چاہتی تھی۔ مگر خوف زدہ ہو کر بولی، "کئی روز ہوئے تیری بیٹی اپنی رضا مندی سے خیمہ گاہ سے رخصت ہو گئی۔ اور اس مقام پر چلی گئی ہے، جس کی حفاظت خود خدا کرتا ہے۔ نجات دہندہ نے اسے اپنے برگزیدوں میں قبول کر لیا ہے۔"
اگر ایک ہزار نیزے المامن کا دل چھید ڈالتے۔ تو بھی اس کی قوت و ہمت یکایک اس قدر پست نہ ہو جاتی۔ اس کے چہرے کے تنے ہوئے اعصاب فوراً ڈھیلے پڑ گئے۔ اس کے استقلال و انتقام کا جذبہ دفعتاً ایک ناقابل بیان دہشت و اضطراب اور یا س میں بدل گیا۔ وہ پیچ و تاب کھاتا ہوا چند قدم پیچھے ہٹ گیا۔ اس کے گُھٹنے تھرتھرا رہے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا۔ گویا کسی صدمۂ جاں کاہ سے وہ نیم جاں سا ہو گیا ہے۔ ازابیلا نے جو عورتوں میں سب سے دلیر اور عالی حوصلہ تھی۔ اس موقع سے فائدہ اٹھایا۔ وہ آگے کو لپکی اور پردے چیر کر ان حصوں میں جا نکلی جہاں اس کے ملازم سو رہے تھے۔ اس کی امداد کے شور و غل سے خیمہ گونج اٹھا۔ پہرے دار جاگ اٹھے۔ اور ملازم اپنے اپنے بستروں سے اٹھ کر بھاگے۔ انہوں نے کان لگا کر سُنا۔ شور کا باعث معلوم کیا۔ اور فوراً موقع پر پہنچے۔ لیکن ابھی وہ ریشمی کپڑے کی دیواروں تک نہ پہنچے تھے۔ کہ انہیں ایک تیز اور خوفناک شعلہ اوپر کو اٹھتا ہوا دکھائی دیا۔ خیمے میں آگ لگ رہی تھی۔ خیمے کا سامان ایسا تھا کہ طرفۃ العین میں آگ چاروں طرف پھیل گئی۔ گویا کسی سحر کا اثر تھا جو پھونک رہا تھا۔ بعض سپاہیوں میں اب بھی اتنی جرأت باقی تھی۔ کہ وہ شعلوں میں گھس پڑے مگر دھوئیں اور تپش کے باعث پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔ ان کی آنکھیں دھوئیں سے اندھی ہو گئیں۔ اور وہ بدحواس سے ہو گئے۔ آگ ایسی سُرعت سے پھیلی تھی۔ کہ ازابیلا کو خود بمشکل اپنی جان بچانے وقت ملا تھا۔ ملکہ کو اپنے شوہر کا خطرہ ہوا۔ تو وہ اس کے خیمے کی طرف دوڑی۔ مگر وہ شور و غل سُن کر پہلے ہی بیدار ہو چکا تھا۔
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 186
اور برہنہ تلوار لئے خیمے سے باہر نکل رہا تھا۔ جو ہوا چند لمحہ پیشتر فتح و ظفر کے پرچم لہرا رہی تھی۔ اب تباہ کن شعلوں کو چاروں طرف پھیلانے میں سرگرمی سے مصروف تھی۔ آگ ایک خیمے سے دوسرے خیمے میں ایسی سُرعت سے پہنچنے لگی۔ جیسے بجلی چشم زدن میں تمام بادلوں میں کوند جاتی ہے۔ ابھی کسی کو آگ بجھانے کا خیال بھی نہ آیا تھا۔ کہ تمام لشکر گاہ ایک سرے سے دوسرے تک شعلوں کی لپیٹ میں آ گیا۔
فرڈی نینڈ نے اپنی بیگم کی داستان بھی پوری نہ سُنی۔ اور یہ کہہ کر کہ یہ مُوروں کی شرارت ہے۔ تھوڑی دیر میں وہ ہم پر آ پڑیں گے۔ بگل اور دمامہ بجانے کا حکم دیا۔ اور صرف لبادہ پہلے ہوئے خود اپنے سرداروں کو خبردار کرنے کے لئے دوڑا گیا۔ یہ تربیت یافتہ اور کار آزمودہ سپاہ جو ہر ہر لمحہ غنیم کے شب خون سے خوف زدہ رہتی تھی۔ صف آرا ہونے کی کوشش میں مصروف تھی۔ شعلے پھیلتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ دور دور تک آسمان روشن ہو گیا۔ اس کی روشنی میں سپاہیوں کے خود اور زرہیں یوں چمک اٹھیں، جیسے آتش دان میں لوہا دہل رہا ہو۔ اور زرہ پوش بہادر انسانوں کی بجائے مدھم اور تاباں اور فروزاں شہاب ثاقب معلوم ہونے لگے۔ اس تیز روشنی کے باعث شہر غرناطہ قریب تر معلوم ہوتا تھا۔اور جب رسالہ کا ایک دستہ گھوڑوں کو سرپٹ دوڑائے مُوروں کے متوقع شب خون کی مزاحمت کو لشکر گاہ سے نکلا۔ تو سواروں نے دیکھا کہ غرناطہ کے مکانوں کی چھتوں اور دیواروں پر مسلمان فراہم ہیں۔ اور ان کی برچھیاں چمک رہی ہیں۔ عیسائیوں کی طرح مُور بھی متحیر و متعجب تھے۔ اور انہیں بھی عیسائیوں کے مکر و فریب کا اتنا ہی خیال تھا۔ جتنا مُوروں کو عیسائیوں کا۔ چنانچہ وہ اپنے قلعے کی فصیلوں سے باہر نہ نکلے۔ ادھر جس سُرعت سے آگ بھڑکی تھی، ویسے ہی فوراً بجھ بھی گئی۔ رفتہ رفتہ مدھم اور افسردہ ہوتی گئی اور اس ریشمی شہر کے ویرانے پر رات کی افسردہ و غمناک تاریکی چھا گئی۔
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 187
فرڈی نینڈ نے اپنے سرداروں کو طلب کیا۔ اب اسے معلوم ہو گیا تھا کہ یہ مُوروں کی حرکت نہیں۔ آخرکار اس نے ازابیلا کا بیان سُنا۔ اور سمجھا کہ المامن کسی عجیب اور معجزانہ طریق سے پہرہ داروں کی آنکھوں میں خاک جھونک کر ملکہ کے خیمے میں جا پہنچا تھا۔ اس سے گو اس کے دُنیاوی تفکرات دور ہو گئے، لیکن اگر اسے یہ علم نہ ہوتا، کہ مشرقی ملکوں کے بہادر اور ڈاکو تک کسی فوق الفطرت قوت سے کام نہیں لیتے۔ مگر فریب اور عیاری میں فرو ہوتے ہیں۔ اور خواہ کیسی ہی سخت پیش بندیاں کی گئی ہوں۔ اور کیسے ہی ہوشیار پہرہ دار ہوں، وہ ان سے صاف بچ کر نکل جاتے ہیں۔ تو غالباً اس کے وہ تمام اوہام بیدار ہو جاتے جو قوم گاتھ سے متعلق ہونے کے باعث اس کی فطرت میں موجود تھے۔ چنانچہ اس کے لئے اب یہ امر اظہر من الشمس تھا کہ فوجوں کے خیمہ گاہ میں جو آگ بھڑک رہی تھی، وہ یا تو ذاقی پرخاش اور انتقام کی وجہ سے لگائی گئی تھی یا اس کا مقصد یہ تھا کہ المامن خیمہ گاہ سے صحیح و سلامت فرار ہو جائے۔ ساحر کے ہاتھوں سے یہ عظیم نقصان اٹھا کر پادشاہ کے دل میں ضعیف الاعتقادی اور اوہام پرستی سے جو دہشت پیدا ہو گئی تھی، اس نے آخر اپنی شاہانہ ہمت سے دور کر دی۔ اور یہ اراد کیا کہ اس مصیبت سے بھی مستفیذ ہونے کی کوشش کی جائے۔ فوجوں میں جو غصہ اور جوش اس وقت پیدا ہو گیا تھا، وہ فرڈی نینڈ کے اس منصوبے کی تکمیل کے لئے بہت کارآمد تھا۔
جب سردار اور سُورما اس کے گرد جمع ہو گئے، تو فرڈی نینڈ نے ان سے کہا، "اس آتش زدگی کے وسیلے سےخدا نے شہسواران صلیب کو متنبہ کر دیا ہے کہ اب غرناطہ کے محل ان کے خیمہ گاہ بنیں گے۔ کل صبح کے آفتاب کے ساتھہی مسلمانوں کو تباہ کر دیا جائے گا۔"
ہتھیاروں کی جھنکار بلند ہوئی۔ تلواریں میانوں سے نکل پڑیں۔
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 188
اور عیسائی شہسواروںنے یک زبان ہو کر بلند آواز میں کہا، "مسلمانوں کو تباہ و کر دیا جائے گا۔"
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 189
باب پنجم
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 190
فصل اول
معرکۂ عظیم
آخر اس مہیب رات کی تاریکی رفتہ رفتہ روشنی میں تحلیل ہو گئی۔ مُوروں نے جو ابھی تک غرناطہ کی فصیلوں پر بیٹھے تھے، دیکھا کہ فرڈی نینڈ کا تمام لشکر ان پر حملہ کرنے کے لئے بڑھا چلا آ رہا ہے۔ اس کے پیچھے کچھ فاصلے پر خیمہ گاہ کے جلے ہوئے آثار اور سُلگتی ہوئی خاکستر کے ڈھیر پڑے ہیں۔ اور سامنے زرق برق اور درخشاں پھریرے لہرا رہے ہیں۔ باجے بج رہے تھے۔ اور عیسائی لشکر ایک سیلاب کی طرح درانہ چلا آ رہا تھا۔ یہ کیفیت دیکھ کر مُوروں کو اسقدر حیرت ہوئی کہ انہیں اپنے حواس خمسہ پر سے اعتماد اُٹھ گیا۔ عیسائیوں کی اتنی سخت تباہی کے بعد وہ نہایت شوق سے ان کی پسپائی کے متوقع تھے۔ لیکن انہیں ایسی شان اور کروفر کے ساتھ پیش قدمی کرتے دیکھ کر سخت ہراساں اور حواس باختہ ہو گئے۔
عین اُسی وقت کہ وہ غنیم کی پیش قدمی سے متحیر و مرعوب ہو رہے تھے، انہیں اپنے پسِ پشت ابو عبد اللہ کا بگل سُنائی دیا۔ اور انہوںنے دیکھا کہ مُور بادشاہ
اپنے چیدہ دستے کا سردار بنا ہوا ان گھاٹیوں کی طرف جا رہا ہے جو دروازے کی طرف واقع ہیں۔ اس منظر سے مُور رعایا کی پستی ہمت دور ہو گئی اور ان کے دلوں میں ایک تازہ حوصلہ پیدا ہو گیا۔ اور جب ابوعبداللہ دروازے کے سامنے فراخ چوک میں ٹھہر گیا تو بیس ہزار جنگوؤں نے ایک مہیب اور خوفناک نعرہ بلند کیا۔ جو عیسائی حملہ آوروں کے کانوں میں فالِ بد کی طرح پہنچا۔
جب اس پرہیبت جنگی نعرے کے بعد قطعی سکون اور سناٹا چھا گیا تو ابوعبداللہ بولا "غرناطہ کے جواں مردو! غنیم کی اس پیش قدمی کا انجام تباہی اور بربادی ہے۔ شب گزشتہ کی آتش زدگی کے ذریعے سے اللہ تعالےٰ نے ان کی بدبختی کے فیصلے پر مہر کر دی ہے۔ آؤ ہم سب بڑھیں اور ان کا مقابلہ کریں۔ ہم اپنے گھروں کو غیر محفوظ چھوڑے جاتے ہیں۔ ہمارے دل ان کی فسیل کا کام دیں گے۔ یہ صحیح ہے کہ فاقہ مستی اور خوں ریزی کے باعث ہماری تعداد میں کمی واقعہ ہو گئی ہے، لیکن ابھی غرناطہ کو غنیم کی دست برد سے بچانے کے لئے ہماری کافی تعداد موجود ہے۔ جو مر گئے ہیں وہ ہم سے رخصت نہیں ہوئے۔ مُردے ہماری طرف سے نبردآزما ہوں گے۔ ان کی روحیں ہماری روحوں کو حرکت دیں گی۔ وہ شخص جس کا ایک بھائی مر گیا ہو، میدانِ جنگ میں دو کے برابر ہے۔ ہماری یہ جنگ فیصلہ کن ہے۔ آج تاجِ آزادی ہے یا زنجیرِ غلامی۔ حکومت ہے یا جلاوطنی، فتح یا موت۔ ہاں بڑھو۔"
تقریر ختم کر کے اس نے گھوڑے کو مہمیز کیا۔ گھوڑا آگے اچھلا اور پھاند کر تاریک محرابوں سے صاف نکل گیا۔ سلطان ابوعبداللہ پہلا مُور تھا جو اس آخری میدانِ جنگ کے ہنگامہ زار میں شامل ہونے کو سب سے پہلے غرناطہ کے شہر سے برآمد ہوا۔ اور پھر جیسےکوئی دریا غاروں سے نکل کر آفتاب عالم تاب کی روشنی میں امنڈتا چلا آتا ہے۔ مُوری سواروں کی درخشاں و تاباں صفوں کی صفیں برآمد ہوئیں۔ سب سے آخر میں تمام فوج کے اختتام پر موسےٰ تھا۔ اس کے سانولے اور بارعب چہرے سے وہ جذبات نمایا نہ تھا جن سے جوشیلے بادشاہ کا بشرہ درخشاں ہو رہا تھا۔
بلکہ اس کے برعکس اس سے درشتی مترشح تھی اور تکدر برس رہا تھا۔ گزشتہ بھیانک ایام کے تفکرات و ترددات نے اس کے رخسار مرجھا دئیے تھے اور اس کے استوار لب اور فولادی جبڑے جن سے اس کی فطرت کا نقابل تسخیر استقلال و ثبات ظاہر تھا، گہری جھریوں سے تاریک ہو رہے تھے۔
جب موسےٰ گھوڑے کو مہمیز کر کے آگے بڑھا اور مڑتی ہوئی صفوں کے برابر آ کر ان کو مناسب ترتیب دینے لگا تو عورتوں نے ایک پرجوش نعرہ بلند کیا۔ اور جب بہادر آواز سن کر پیچھے مڑے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کی عورتیں، بیبیاں، بیٹیاں، مائیں، نازنینیں (جنہیں ایک مصلحت کے ماتحت جس سے اس فیصلہ کن موقع کی اہمیت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ چاردیواری سے باہر آ جانے کی اجازت دے دی گئی تھی) برجوں اور فصیلوں پر سے بازو پھیلائے ہوئے ان کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ مُوروں کو معلوم تھا کہ اب انہیں ان ہستیوں کی نظروں کے سامنے اپنے مذہب اور ناموس کے لئے جنگ کرنا ہے، جو ان کی ناکامی کی صورت میں کنیزیں اور کسبیاں بنائی جائیں گی۔ ہر مسلمان کو ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ اس کا دل اپنے خنجر کی دھار کی طرح سخت ہو گیا ہے۔
جس اثناء میں مُوری سواروں کا رسالہ چھوٹے چھوٹے باقاعدہ دستوں میں مرتب ہو رہا تھا اور غنیم کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز لمحہ بہ لمحہ قریب تر ہوتی جا رہی تھی۔ مُوری پیدل فوج سرگرمی سے اور مستعدانہ مگر بےترتیب اور متفرق بےقاعدہ جماعتوں میں منقسم ہو کر میدان میں پھیل گئی اور بہت نیچے شہر پناہ تک پھیلتی گئی۔ اور پھر دکھائی دیا کہ ابوعبداللہ نہایت سرعت سے ان کے درمیان گھوڑا دوڑا رہا ہے۔ اور کبھی مختصر مگر واضح احکام سے اور کبھی اپنی شعلہ صفت تقریروں سے ان کے حرکات کو منضبط کر رہا ہے اور ان کی سیماب وار شجاعت کو ٹھیک راستے پر لگا رہا ہے۔
اس اثناء میں عیسائی سپاہ بھی دفعتاً رک گئی تھی۔ فرڈی نینڈ نے اپنی دور اندیشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 193
اور تدبر کے ماتحت ارادہ کیا کہ مُوروں کی تمام جمیعت چونکہ اس وقت جوش و خروش اور سرفروشانہ استقلال کی حالت میں ڈٹی کھڑی ہے اس لئے اسے آغاز ہی میں حملہ آور ہونے کا موقع نہ دیا جائے۔ اس نے ہرننڈو پلگار کو اپنے قریب بلایا اور اسے حکم دیا کہ زیادہ دل چلے اور کارآزمودہ سواروں کا ایک دستہ لے کر مُوروں کے رسالے کی طرف پیش قدمی کرو اور موسےٰ کی شعلہ ریز شجاعت کو قلب لشکر سے ہٹا کر اپنی طرف مائل کر لو۔ اس کے بعد فرڈی نینڈ نے اپنے لشکر کو مختلف دستوں میں تقسیم کر دیا۔ اور سب دستوں کو بہادر سرداروں کے سپرد کر کے انہیں مختلف مقامات کو روانہ کیا۔ بعض کو برابر کے برجوں پر حملہ کرنے کا حکم دیا اور بعض کو یہ ہدایت کی کہ شہر پناہ کے گرداگرد کے خیابانوں اور خیموں پر آتش باری کریں۔ اس کا منشا یہ تھا کہ معرکہ کسی ایک مقام پر محدود ہونے کے بجائے مختلف مقامات میں منتشر ہو تاکہ مُروں کی وہ متفقہ قوت و طاقت بکھر جائے جس کے باعث موجودہ حالت میں ان کی طاقت نہایت مستحکم و مضبوط تھی۔
چنانچہ جس وقت مسلمان غنیم کے حملے کے منتظر تھے، انہوں نے کیا دیکھا کہ مسیحی شپاہ کا قلب دفعتاً منتشر ہو رہا ہے۔ ابھی وہ حیران و ششدر ہی ہو رہے تھے کہ ان کے تر و تازہ و شاداب باغوں میں سے آگ کے شعلے اٹھتے ہوئے دکھائی دئیےجو دیواروں کے دائیں بائیں پھیلتے جاتے تھے اور کہیں کہیں شہر کی حفاظت کے لئے جو مورچے تیار کئے گئے تھے ان پرعیسائیوں کی توپوں کے گولے برس رہے تھے۔
موسےٰ ہراول میں اپنی جائے معین پر موجود تھا اور عیسائی سورماؤں نے جو بھاری بھاری اسلحہ سے مسلح تھے، مُوری شہزادے کے دستے کے قلب پر حملہ کر دیا۔
دیوقامت پلگار کی کلغی اپنے قوی ہیکل رفقا سے کئی انچ بلند تر اپنی شان
سرفرازی میں جھوم رہی تھی۔ اس کا لمبا نیزہ جدھر جھکتا، مُوروں کا صفایا کرتا چلا جاتا تھا اور جب وہ اپنے آہنی خود کے اندر سے بولتا تھا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا کسی قبر کے اندر سے آواز آ رہی ہے کہ "بےدینوں کو تہِ تیغ کرو۔"
مگر غرناطہ کے چابک دست اور سبک گام سوار اس زبردست حملے سے کچھ بھی ہراساں نہ ہوئے۔ بلکہ غیر معمولی مستعدی سے کام لے کر اپنے دستے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور حملہ آوروں کو مقابلتاً بلاضرر اپنے مرکز سے نکل جانے کا راستہ دے دیا اور پھر ایک طویل و مسلح صف باندھ کر ان کے پسپا ہونے کا راستہ مسدود کر دیا۔ مگر عیسائی بہادروں نے پہلو بچایا اور اپنے دشمنوں پر دھاوا بول دیا۔
"او مسلم کتے۔ تو جو اپنے آپ کو شیر بتاتا ہے۔ کہاں ہے؟ اے موسےٰ ابن ابی غازان تو کہاں چھپ رہا ہے؟"
مُوروں کی خود پوش جماعت میں ایک دستار چمکتی نظر آئی اور ایک بلند اور درشت آواز سنائی دی "او عیسائی! میں تیرے مقابل میں ہوں۔"
ہرننڈو نے اپنے گھوڑے کو روکا۔ اپنے حریف کو ایک نظر دیکھا اور پھر پیچھے ہٹ گیا تاکہ زیادہ قوت سے حملہ آور ہو۔ چشم زدن میں دونوں فوجوں کے مشہور ترین سورما ایک دوسرے کے ساتھ نیزوں سے نبرد آزما ہونے لگے۔
عیسائی سورما کے وار کو بہادر مُور نے اپنی مدوّر ڈھال پر روکا اور اس کا اپنا بھالا اس دیو صفت انسان کی چھاتی پر جا کر پڑا لیکن اسے کچھ ضرر نہ پہنچا۔ اس نے اپنی تلوار سونت لی اور اسے مخالف کے سر پر تیزی سے گھماتا رہا۔ یہ ہیبت ناک شمشیر زن ایسی حیرت انگیز پھرتی سے ایک دوسرے پر وار کرتے اور روکتے تھے کہ طرفین کے جواں مردوں کو ان کے اسلحہ بمشکل نظر آتے تھے۔
آخر کار پلگار نے اپنی اعلےٰقوت سے کام لینے کے ارادے سے گھوڑا موسےٰ کی طرف بڑھایا اور اپنی شمشیر ایک تسمے سے اپنی کلائی میں لٹکا کر موسےٰ کی ڈھال اپنی مضبوط گرفت میں لے لی اور اس زور سے اسے مُور کے ہاتھوں سے چھینا
کہ وہ باوجود کوشش کے عہدہ برآ نہ ہو سکا۔ چنانچہ موسےٰ نے دفعتاً ڈھال کو چھوڑ دیا۔ ہسپانیاپنی انتہائی قوت کو استعمال کر کے کامیابی کی حالت میں توازن کھو چکا تھا۔ اور ابھی پوری طرح سنبھلا بھی نہ تھا کہ موسےٰ نے اپنے اسپِ مشکیں کو ڈپٹا کر اس پر ریل دیا اور اپنے فتراک سے ایک چھوٹا مگر وزنی گرز نکال کر اس زور سے ہرننڈوں کے خود پر ضرب لگائی کہ وہ دیو بےہوش و بےخبر ہو کر دھڑام سے زمین پر گر پڑا۔
ایک لمحہ کے اندر موسےٰ گھوڑے پر سے اترا۔ ڈھال کو دوبارہ اٹھا لیا۔ خنجر کو سنبھالا اور اپنے افتادہ دشمن کے سینے پر ایک زانو بیٹھ گیا۔ ڈان ہرننڈو پلگار اسی وقت راہیِ ملکِ عدم ہو گیا ہوتا۔ نہ اسے کسی طبیب کا منت کش ہونا پڑتا، نہ پادری کے سامنے اعترافِ گناہ کی تکلیف اٹھانا پڑتی۔ لیکن دفعتاً کیا ہوا کہ بیس سوار گھوڑوں کو ایڑ لگاتے ہوئے اپنے بہادر سردار کی امداد و اعانت کے لئے آن پہنچے اور چشمِ زدن میں بیس نیزوں کی انیاں شیرِ غرناطہ پر جھک گئیں تاکہ اسے اپنے شکار کے ذبح کرنے سے باز رکھیں۔ مُور بہادر بھی اتنی ہی تیزی سے موقع پر آ موجود ہوئے اور بےہوش عیسائی سردار کے گرد نہایت شدید اور مہیب جنگ شروع ہو گئی۔ موسےٰ کو اتنی مہلت بھی نہ ملی کہ ہرننڈو کے خود کو کھول سکتا۔ جس کے بعد اس کے خنجر کی دھار کو کوئی فنا پذیر مقام مل سکتا، بلکہ چاروں طرف سے عیسائیوں کے گھوڑوں اور برچھیوں میں گھرے ہونے کے باعث عیسائی بہاددر کی نسبت موسےٰ کی حالت زیادہ مخدوش تھی۔ اسی اثنا میں ہرننڈو کے ہوش و حواس بھی عود کر آئے۔ وہ اپنی اندیشہ ناک حالت کو فوراً بھانپ گیا، لیکن چپ چاپ مناسب موقع کے انتظار میں لیٹا رہا۔ چند لمحوں کے بعد اس نے دفعتاً مُور کا گھٹنا اپنے اوپر سے ہٹا دیا۔ ایک بار پھر ہمہت کر کے اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا اور دونوں شہسوار دوبارہ ایک دوسرے کے مقابل آ کھڑے ہوئے۔ مگر اب ان میں سے کوئی بھی مقابلہ شروع کرنے کا کچھ زیادہ خواہشمند معلوم نہ ہوتا تھا۔ گو موسےٰ بہت دلیر اور جلدباز تھا۔ لیکن اس نے بھانپ لیا کہ زمین پر ہرننڈو جیسے طاقتور اور روئیں تن سپاہی سے مقابلہ کرنے میں
اس کو نقصان پہنچنے کا بہت ہی احتمال ہے۔ وہ پیچھے ہٹا اپنے گھوڑے کو سیٹی دی۔ گھوڑا سواروں کی صفوں کو چیرتا ہوا فوراً اس کے برابر آ موجود ہوا۔ وہ کود کر اس کی پیٹح پر چڑھ بیٹھا اور بھاری بھرکم ہسپانی کو اس کے غائب ہونے کا علم بھی نہ ہوا تھا کہ وہ دشمنوں کے درمیان جا گھسا۔
لیکن ہرننڈو کو اپنے دشمن سے مخلصی حاصل نہ ہوئی۔ موسےٰ نے تین ہسپانی سورماؤں کو اپنے خنجر سے کاری زخم لگا کر نیچے گرا دیا اور اپنے گرد کچھ جگہ خالی کر کےک اپنے بازوؤں پر سے ایک چھوٹی سی عربی کمان نکال لی اور پیادہ پا ہرننڈو پر تیروں کی بوچھاڑ ایسی حیرت انگیز عجلت سے برسنی شروع ہوئی کہ وہ اپنے بھاری زرہ بکتر اور اسلحہ کے باعث نہ تو وہاں سے بھاگ سکتا تھا نہ اپنے کو تیروں سے محفوظ کرنے کی کوئی تدبیر کر سکتا تھا۔ اس وقت اسے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ اگر ان تیروں میں سے کوئی ایک بھی خود اور زرہ کے مقامِ اتصال پر آ لگا، یا زرہ کو چھید گیا تو موت ناگزیر ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ حسنِ اتفاق سے موت واقع نہ ہو یا مقدس مریم کی نوازش شاملِ حال ہو جائے۔
ہرننڈو حیران و برانگیختہ ہو کر بولا "اے مادرِ مہربان (مریم) تو اپنے غلام کو اس بزدلانہ جنگ آرائی میں ہرن کی موت نہ مارنا۔ اور اگر میرا وقت آ پہنچا ہے تو میں اپنے دشمن سے دست بدست لڑتا ہوا جان دوں۔" وہ منہ ہی منہ میں یہ مختصر دعا مانگ رہا تھا کہ قریب ہی ہسپانیہ والوں کا نعرۂ جنگ سنائی دیا اور ولینا کا بہادر دستہ میدان کی دوسری طرف سے ادھر بڑھتا ہوا دکھائی دیا کہ آ کر اپنے ہمراہیوں کی امداد کرے۔ موسےٰ نے انفرادی مخاصمتوں کا خیال اس وقت چھوڑ دیا، اپنا پہلو بدل کر اپنے سواروں کو دوبارہ فراہم کیا اور صفیں مرتب کر کے حملہ آور دستہ کو راستہ ہی میں جا لیا۔
جب میدانِ جنگ کے ایک حصہ میں مقابلہ کی یہ صورت تھی تو فرڈی نینڈ کی تجویز اس حد تک کامیاب ہو گئی تھی کہ جنگ مختلف دستوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔
دور نزدیک، میدان اور جنگل، باغ اور مینار ہر مقام بجائے خود خاک و خون کا ہنگامہ زار بن رہا تھا۔ ابوعبداللہ کے ساتھ اس کے بالا بلند حبشی تھے اور ایک چیدہ دستہ تھا جس کے افراد کو غرناطہ کے شرفا کا خلاصہ سمجھنا چاہیے اور جو موسےٰ کی قوم کی عالی نسبی اور ناموری پر رشک و حسد کرتے تھے۔ ابوعبداللہ ایسے معزز لوگوں کا رہنما اور سردار بن کر ہر قسم کے خطرے میں جا پڑتا تھا اور ایک ایسے شخص کی طرح بےجگری سے بہادری دکھا رہا تھا جو یہ محسوس کرے کہ میدانِ جنگ میں اس کی اپنی قسمت پر بازی لگ رہی ہے۔
چونکہ پیدل فوج پر سب سے کم اعتماد تھا اس لیے وہ زیادہ تر بّران ہی کے درمیان رہتا اور جہاں کہیں نمودار ہو جاتا، اتنی دیر کے لئے لڑائی کا پانسہ پلٹ دیتا تھا۔
آفتاب نصف النہار پر چمک رہا تھا کہ پونس ڈی لیون ہسپانیہ کے بہترین اور کار آزمودہ جواں مردوں کا دستہ ہمراہ لے کر غنیم کی پیدل سپاہ کے سب سے بڑے دستہ پر حملہ کرنے کو بڑھا۔
اس سے پیشتر اس نے ایک مورچہ فتح کر لیا تھا، جہاں اس کا توپ خانہ بری کامیابی سے گولہ باری کر رہا تھا۔ اور جو فوج اس کے زیر کمان تھی، اس میں کچھ تو وہ بلند حوسلہ سپاہی تھے جو تازہ ترین فتح سے سرخرو ہو کر آئے تھے اور کچھ بالکل تازہ دم جوان تھے جو اس وقت پہلی مرتبہ میدان میں اترے تھے۔ انہوں نے پیش قدمی کرتے وقت ایک جنگل میں آگ لگا دی تھی۔ اس کے شعلوں کی روشنی میں اس عیسائی دستہ کا نظارہ جمیل و ہوش ربا تھا۔
جب وہ استقلال اور ضابط کے ساتھ سیلاب کی طرح اس میدان میں بڑھے، جہاں پیدل سپاہ ہتھیاروں کو جھنجھناتی ہوئی کبھی آگے اور کبھی پیچھے بڑھتی تھی تو ان کے تمام اسلحہ سرخ روشنی میں دہک رہے تھے۔ اپنے مخبروں کی ذریعہ سے ابوعبداللہ کو اس نئے خطرے کی اطلاع ہو گئی تھی۔ چنانچہ وہ جلدی سے اس بُرج سے دست بردار ہو گیا جہاں سے اس نے کچھ حملہ آوروں کو پسپا کیا تھا۔
اور اس دستہ میں جا شامل ہوا جسے تجربہ کار لیون زک دینے کی تجویز کر رہا تھا۔
دوسرے لمحہ میں مُوروں کو اپنے سامنے المامن کی خوفناک اور محرم اسرار شخصیت سایہ فگن نظر آئی۔ وہ پراقتدار شخصیت جو عرصہ تک ان کی نظروں سے اوجھل رہی تھی، وہ خلافِ امید دفعتاً اس مقام پر آ نکلا۔ کسی کو خبر نہ تھی کہ وہ کدھر سے آیا۔ اس کے بائیں ہاتھ میں اس کا مقدس و مبارک جھنڈا تھا اور دائیں میں خون آلودہ تلوار۔ چہرہ کھلا ہوا تھا اور خط و خال نہایت جوش افروز تھے۔ معلوم ہوتا تھا کہ کسی غیبی قوت نے اپنی روح ان میں پھونک رکھی ہے۔
اس کی فوری آمد نے مُوروں کے اندر ایک نئی زندگی پیدا کر دی۔ المامن نے زور سے چلا کر کہا "وہ آ رہے ہیں۔ وہ چلے آتے ہیں۔ خدائے مشرق نے گاتھ لوگوں کو تمہارے چنگل میں دے دیا ہے۔"
درویش ایک دستہ سے دوسرے دستہ میں اور ایک صف سے دوسری صف میں بجلی کی طرح پھر گیا۔ اور جب سپاہیوں کے سامنے اس کا علم چمکتا تھا تو ہر مُور آنکھیں بند کر کے اس کی دعاؤں پر آمین کہتا تھا۔
اب ہسپانیہ کے نعرۂ جنگ "ہسپانیہ اور سینٹ ایاگو" کے ساتھ ہی عیسائیوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں کا شور بلند ہوا اور وہ شدت سے حملہ کر کے آگے برھے۔ کچھ عرصہ پہلے لیون نے جس مورچہ پر قبضہ کر لیا تھا، عین اس وقت وہاں سے مُوروں پر گولے برسنے لگے۔ جس سے بےانتہا اضطراب و ہراس پیدا ہوا۔ مُور سپاہیوں کے قدم ڈگمگا گئے لیکن اتنے میں انہیں اپنی آنکھوں کے سامنے المامن کا سفید جھنڈا لہراتا ہوا نظر آیا۔ اور انہوں نے دیکھا کہ وہ تنہا اور پیادہ غنیم کی قطاروں کے درمیان گھسا جا رہا ہے۔ چونکہ انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ لڑائی کا سارا مدار اس طلسمی جھنڈے کی سلامتی پر ہے اس لیے جب انہوں نے اس کو زور اور جوش سے آگے بڑھتے دیکھا تو انہیں بہت فکر اور خجالت ہوئی۔ وہ پھر جمع ہوئے اور استقلال سے آگے بڑھے۔ ابوعبداللہ خود شمشیر بکف
خوفناک نعرے لگاتا ہوا اپنے چیدہ سپاہیوں اور زنگیوں کو ساتھ لے کر ان میں جا گھسا۔ معرکہ بےانتہا زبردست اور خوفناک ہو گیا۔ تین مرتبہ طلسمی علم صفوں کے درمیان گم ہو گیا اور پھر ہر بار مُوری طاقت کا یہ رہنما اور مشعل ہدایت ہوں بلند ہوتا رہا جیسے چاند بادلوں میں سے نکل آتا ہے۔
دن ڈھل گیا۔ تمازت زدہ درختوں پر پہاڑیوں کا طویل سایہ پڑنے لگا۔ ڈارو کی خاموش و ساکن ندی کا پانی خلیج میں جہاں بھی ذرا رکتا تھا، خون سے سرخ ہوتا تھا۔ اس وقت فرڈی نینڈ اپنی بقیہ تازہ دم جمعیت فراہم کر کے بلندی سے اترا۔ اس کے ہمراہ تین ہزار پیدل اور ایک ہزار سوار تھے۔ جو تمام کے تمام تازہ دم تھے اور اس عظیم الشان جنگ میں شریک ہونے کے لئے بےتاب ہو رہے تھے۔ گو فرڈی نینڈ طبعاً بڑا نڈر اور بہادر تھا، مگر اقتضائے مصلحت سے مخصوص موقعوں کے سوا اپنی جان کو خطرہ میں بہت کم ڈالتا تھا۔ چنانچہ اس وقت اس نے ابوعبداللہ سے کسی طرح کم رہنا پسند نہ کیا۔ وہ سر سے پاؤں تک زرہ بکتر میں ڈوبا ہوا تھا۔ اور اس کے جوشن پرسنہری کام کچھ ایسی خوبی سے کیا گیا تھا کہ ساری کی ساری زرہ طلائی معلوم ہوتی تھی۔ اس کے بلند خود پر ایک چھوتا سا تاج تھا جس پر برف سے سفید پر لہرا رہے تھے۔ ان شان دار اسلحہ میں وہ بہادروں کی سرداری کے لئے ہر طرح موزوں معلوم ہوتا تھا۔ اس کے پیچھے ہسپانیہ کا عظیم جھنڈا لہرا رہا تھا اور باجوں اور نرسنگھوں کا خروش اس کی آمد کا اعلان کر رہا تھا۔ کونٹ ڈی تنڈلا اس کے پہلو میں گھوڑے پر سوار تھا۔
فرڈی نینڈ نے کہا "صاحب بےدین بڑی جواں مردی سے لڑتے ہیں، مگر وہ جال میں پھنس گئے ہیں۔ اور بس اب تو ہم نے ان کو چاروں طرف سے گھیر ہی لیا۔ مگر یہ کس کا جلوس چلا آ رہا ہے؟"
جس گروہ نے پادشاہ کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا وہ صرف چھ بہادروں پر مشتمل تھا جو ایک ڈھالوں کی بنی ہوئی فوجی ڈولی میں گراں ڈیل ہرننڈو پلگار کو
لئے جا رہے تھے۔
جب پادشاہ نے اپنی فوج کے منظور نظر کا زرد چہرہ دیکھا تو چلا کر بول اٹھا "آہ کتو۔ تم نے دنیائے مسیحیت کے سب سے بڑے بہادر کو ہلاک کر دیا۔"
اس مردِ میدان نے دھیمی آواز سے کہا "نہیں حضور۔ مرا تو نہیں، لیکن ضرب نہایت شدید ہے۔"
پادشاہ بولا "جس نے تجھے ضرب لگا کر گرا دیا، وہ ضرور کوئی انسان سے بالاتر ہستی ہو گی۔"
ایک سورما نے کہا "جہاں پناہ۔ آپ موسےٰ ابن ابی غازان کے گُرز سے گھائل ہوئے ہیں۔ لیکن وہ ہمارے شہسوار پر بےخبری کے عالم میں اور ایسی حالت میں حملہ آور ہوا، جب وہ زک پا کر پیچھے ہٹ گیا تھا۔"
فرڈی نینڈ نے غصہ سے دانت پیس کر کہا "ہم تیرے دشمن سے خاطر خواہ طور پر انتقام لیں گے۔ ہمارے خاص جراح تیرے زخموں کی تیمارداری کریں گے۔ دلاور سوماؤ۔ آگے بڑھو۔ "سینٹ ایاگو اور ہسپانیہ" کا نعرہ بلند کرتو۔"
اس وقت جنگ ایک بےانتہا نازک مرحلہ پر پہنچ گئی تھی۔ موسےٰ اور اس کا رسالہ ابوعبداللہ کے خاص دستہ اور پیدل سپاہ سے آ کر مل گیا تھا۔ ادھرمیدانِ کارزار کے مختلف حصوں سے وہ دستے جنہوں نے مُوروں جو جابجا زیر کر لیا تھا۔ ولینا کے ساتھ آ شامل ہوئے۔ گو مُور انچ انچ زمین پر جم کر لڑے، مگر اب وہ پسپا ہوتے ہوئے فصیل شہر کے سامنے وسیع میدان میں پہنچ گئے تھے۔ فصیل پر سے ضعیف مردوں اور عورتوں کے زرد اور متفکر چہرے اس ہولناک گھمسان کو دیکھ رہے تھے۔ جب توپوں کی گرج ختم ہو جاتی تو وہ آوازیں جو "وطن آبائی" کے نعرے لگا رہی تھیں۔ سنسان ہوا میں سے ہوتی ہوئی مُور سپاہیوں کے کانوں میں پہنچتیں۔ جب فرڈی نینڈ اپنی سپاہ سے آ ملا تو عیسائی سپاہیوں نے نہایت زور کے نعرے بلند کئے جو ابوعبداللہ کی آخری امید کے لئے پیامِ موت بن کر آئے۔
مگر اس کی رگوں میں اس کے ہیبت ناک اور شعلہ مزاج اجداد کا خون کھول رہا تھا۔ اور نڈر المامن کی حوصلہ افزا آواز اس میں ایک قسم کے سحر کی سی تندی پھونک رہی تھی۔
مُوری بادشاہ نے چلا کر کہا "بادشاہ کے مقابل میں بادشاہ آئے، خیر یوں ہی سہی۔ اللہ ہمارا فیصلہ کرے گا۔ میرے اس زخم پر پٹی باندھو۔ اب یہ بہتر ہے۔ درویش کے لئے ایک گھوڑا لاؤ۔ میرے رہنما اور میرے دوست! اپنے پادشاہ کے پہلو بہ پہلو گھوڑے پر سوار ہو کر چل۔ تاکہ ہم مریں تو اکٹھے ہی مریں۔ اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔"
مُوروں کا بادشاہ اپنی خوب صورت ڈاڑھی اور جواہر نگار زرہ میں ممتاز معلوم ہوتا تھا۔ جب عیسائی بہادروں نے دیکھا کہ وہ خاصہ کے چند باقی ماندہ سپاہیوں کو ساتھ لے کر ایک دفعہ پھر ان کی گنجان ترین صفوں میں آ رہا ہے تو ان میں بادل ناخواستہ تحسین و آفرین کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ ادھر موسےٰ اور اس کے ذغریوں نے خوفناک حملہ کیا۔ اور پیدل سپاہ بھی اپنے سرداروں کی حوصلہ افزا نظیر سے متاث رہو کر مردانہ وار لڑنے کو آگے بڑھی۔ عیسائی فوج مقابلہ کی تاب نہ لا سکی اور پسپا ہوئی۔ فرڈی نینڈ گھوڑے کو ایڑ لگا کر سپاہیوں کے آگے جا نکلا اور ابھی دونوں فریقوں میں سے کسی کو درست طور پر معلوم بھی نہ ہوا تھا کہ دونوں تاجدار رن میں آمنے سامنے کھڑے تھے۔ تھوڑی دیر کے لئے طرفین ضابطۂ حرب اور ترتیب فوجی سب بھول گئے اور سپہ سالار اور بادشاہ عام سپاہیوں کی طرح دست بدست ایک دوسرے سے مصروف پیکار ہو گئے۔ اس وقت جب شاہ ہسپانیہ اپنے بھالے سے نعیم رضواں کو جس کے کارنامے موسےٰ کے بعد غرناطہ کے گیتوں میں مذکور تھے، زیر کر چکا تو اس نے دیکھا کہ اس کے سامنے ایک عجیب و غریب صورت اس کے مّدِمقابل ہے، جو عیسائی بادشاہ کو انسان کے بجائے شیطان معلوم ہوتی تھی۔ اس کے کالے کالے بال
اور خون میں بھیگی ہوئی ڈاڑھی ایسی نظر آ رہی تھی جیسے اس کے چہرہ کے گرد سانپ لتک رہے ہوں۔ اور اس کے بشرے کے نقش و نگار جو جذبات قبیحہ کے اظہار کے لئے فطرتاً بہت موزوں معلوم ہوتے تھے یاس اور غصہ کے جنون سے بالکل مسخ ہو گئے تھے۔ اس کے بدن پر کئی زخم آئے تھے جن سے خون نکل نکل کر زرہ سے باہر آ گیا تھا اور اس کے اوپر اس لوائے طلسمی کا پھریرا لہرا رہا تھا جس پر پُراسرار حروف منقوش تھے اور جس کی نسبت فرڈی نینڈ کو یہ کہا گیا تھا کہ وہ شیاطین کی صنعت کاریوں کا نتیجہ ہے۔
اس قوی ہیکل مردِ میدان نے پکار کر کہا "نصارےٰ کے دروغ باف بادشاہ! آخر کار آج ہم ایک دوسرے کے مقابل موجود ہیں۔ مہمان اور میزبان، شہنشاہ اور درویش کی حیثیت سے نہیں، بلکہ بہادروں کی طرح۔ میں المامن ہوں۔ تیرے لئے موت کا پیغام۔"
یہ کہہ کر اس نے زور سے فرڈی نینڈ کے خوشبوؤں میں بسے ہوئے سر پر تلوار کا وار کیا۔ کہ فرڈی نینڈ زین تک جھک گیا۔ لیکن فوراً ہی سنبھل کر بیٹھ گیا۔ اور بہت مردانگی کے ساتھ حملہ کا مقابلہ کرنے لگا۔ یہ مجادلہ ایسا تھا جس سے ہسپانیہ کے بہادر ترین سورما کا بھی عہد برآ ہونا مشکل تھا۔ اس قسم کے جذبات المامن کو اشتعال دلا کر اس کے بازوؤں میں ایک غیر معمولی قوت پیدا کر رہے تھے جن کی نوعیت، کثرت اور شدت سے طرفین کی جماعتوں میں سے کوئی آشنا نہ تھا۔ اس کے وار پادشاہ کی زرہ پر بارش کی بوچھار کی طرح برس رہے تھے۔ جب بادشاہ نے حریف کی دہکتی ہوئی آنکھیں دیکھیں۔ جب اسے اس پُراسرار ساحر کا درخشاں علم دکھائیدیا جو پادشاہ کے محکمۂ احتساب کے عذاب سے بچ نکلا تھا۔ اس کی ساری فوج سے بےضرر گزر گیا تھا اور ایک مکمل فوج کے خیمہ و خرگاہ جو جلا کر خاک کر گیا تھا تو بادشاہ کے دل میں یہ خیال جاگزیں ہو گیا کہ اس کا مقابلہ انسان نہیں بلکہ کسی فوق الانسان ہستی سے آ پڑا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 203
مگر شاید یہ ہسپانیہ اور فرڈی نینڈ کی خوش قسمتی تھی کہ مقابلہ نے طول نہ کھینچا۔ بیس سوار گھوڑے مہمیز کرتے ہوئے سرتاج ہسپانیہ کی امداد کو رن میں جا گھسے۔ ٹنڈلا سب سے پہلے پہنچا اور اپنی شمشیر و ودم کا ایک ایسا بھرپور ہاتھ مارا کہ المامن کا علم دستہ پر سے کٹ کر زمین پر گر پڑتا۔ یہ کیفیت دیکھ کر ارد گرد کے مُوروں نے عالم یاس میں ایک خوفناک چیخ ماری اور بھاگ نکلے۔ یہ چیخ ایک صف سے دوسری صف میں، سواروں سے پیدلوں میں پہنچی۔ مُوروں کی سپاہ جو ہر طرف سے بہت بری طرح دب رہی تھی۔ اس تباہی کی خبر پاتے ہی پلٹ کر بھاگ نکلی۔ پسپائی جیسی اچانک تھی، ویسی ہی مہلک بھی ثابت ہوئی۔ عیسائیوں کا تازہ دم دستہ جو اسی وقت میدان میں پہنچا تھا، فوراً ان کے تعاقب میں مصروف ہو گیا۔ ابوعبداللہ اس انہماک سے جنگ میں مصروف تھا کہ اسے المامن کے مقدس علم کے گرنے کی خبر بہت دیر میں پہنچی۔ اور اس نے دیکھا تو دفعتاً اپنے آپ کو چند بقیہ حبشیوں اور مٹھی بھر سواروں کے جھرمٹ میں اکیلا پایا۔
ٹنڈلا نے اس کے پیچھے سے پکار کر کہا "ابوعبداللہ اطاعت قبول کر۔ ورنہ زندہ نہ بچے گا۔"
بادشاہ نے کہا "رسول اللہ کی قسم۔ ایسا کبھی نہ ہوگا۔" اس نے اپنا گھوڑا سرپٹ دوڑایا اور عقب میں عیسائی فوج کے نیزوں کی دیوار سے جا بھڑا۔ اور فقط بیس تیس محافظوں کی امداد سے ان صفوں میں سے گزر گیا جو غالباً ایسے بہادر دشمن کے بچ نکلنے کے کچھ کم خواہاں نہ تھے۔ ہسپانی صفوں میں سے نکل کر بدقسمت پادشاہ نے گھوڑا روکا اور میدان کارزار کی طرف نگاہ دوڑائی۔ دیکھا۔ کہ اس کی سپاہ ہر سمت بھاگ رہی ہے۔ صرف وہ دستہ برابر لڑ رہا ہے جس کے درمیان موسےٰ ابن ابی غازان کی دستار چمکتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ابوعبداللہ میدانِ کارزار کو دیکھ رہا تھا کہ اسے اپنے پیچھے گھوڑوں کے ہانپنے کی آواز آئی۔ اس نے منہ پھیرا تو دیکھا کہ ایک جماعت جسے فرڈی نینڈ نے یہ احکام دے کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 204
روانہ کیا تھا کہ ابوعبداللہ کو زندہ یا مردہ کسی حالت میں لے آئے۔ اپنے نیزوں کی انیاں اس کی طرف جھکا رکھی ہیں۔ بادشاہ نے گھوڑے کی گردن پر لگام ڈھیلی چھوڑ دی اور ایٹر لگا کر ہوا کی طرح شہر کو اڑ گیا۔ جوں ہی بادشاہ شہر کے دروازہ کی تاریکی میں غائب ہوا۔ متعاقب دشمنوں کے تین نیزے دروازے سے ٹکرا کر رہ گئے، لیکن جب تک موسےٰ میدانِ جنگ میں موجود تھا، مُوروں کی فتح کی تمام امیدیں منقطع نہ ہوئی تھیں۔ اس نے پیدل فوج کو اور بادشاہ کو بھاگتے دیکھا تھا۔ چنانچہ وہ اپنے ہمراہیوں کو ساتھ لے کر میدان میں سرپٹ اڑا۔ عین وقت پر پہنچ کر ابوعبداللہ کے تعاقب کرنے والوں سے جا مقابل ہوا اور انہیں تہِ تیغ کیا۔ اس کے بعد بھاگتے ہوئے مُوروں کے سامنے جا کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا "کیا تم اپنی بیویوں اور بیٹیوں کے روبرو دشمن کو پیٹھ دکھاتے ہو۔ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ ان کی نظروں کے سامنے تم مر جاؤ۔"
ہزاروں سپاہیوں نے جواب دیا "طلسمی علم کافروں کے ہاتھ میں ہے۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔" وہ اس کی برابر سے جلدی سے گزر گئے۔ اور جب تک دروازہ پر نہ پہنچ گئے۔ دم نہ لیا۔
اب بھی مُوری سواروں کا ایک مختصر اور سرفروش دستہ شکست کو اور بھی شاندار بنانے کے لئے باقی رہ گیا تھا۔ موسےٰ ان کی روحِ رواں تھا۔ جس کے ہمراہ وہ چپہ چپہ زمین کے لئے لڑے مرے۔ جنگ کا وقائع نگار کہتا ہے "یسا معلوم ہوتا تھا کہ زمین ان کے مضبوط بازوؤں کی گرفت میں تھی۔ دو مرتبہ انہوں نے عیسائیوں کے قلب لشکر پر حملہ کیا اور دونوں مرتبہ اپنے سے دو چند دشمن تہِ تیغ کر ڈالے۔ مگر عیسائی فوج جمع ہو ہو کر بڑھ رہی تھی۔ دستہ پہ دستہ چلا آتا تھا۔ مُور گھِر گئے تھے، تھک گئے تھے۔ چنانچہ اس طرح پیچھے ہٹا دئیے گئے جیسے ایک طوفانی سمندر کی موجوں نے انہیں دھکیل دیا ہے۔ جیسے وحشی درندے پسپا ہوتے ہوتے اپنے بھٹ تک پہنچ جائیں، وہ اس طرح واپس ہوئے کہ ان کے چہرے غنیم کی طرف تھے۔ اور جب میدانِ کارزار کا آخری سپاہی موسےٰ اندر داخل ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 205
تو تلوار کا دستہ اس کے ہاتھ میں کانپ رہا تھا۔ اس نے بمشکل دروازہ بند کرنے اور آہنیں جنگلہ گرانے کا حکم دیا ہی تھا کہ دفعتاً موت کی سی بےہوشی میں اپنے گھوڑے پر سے گر پڑا۔ اس کی بےہوشی کا باعث تکان یا کمزوری نہ تھی۔ بلکہ اس کو غم و غصہ اور شکست کی رسوائی نے بےجان کر رہا تھا۔ اس طرح وہ جنگ اختتام پذیر ہوئی جس میں بہادروں نے حکومتِ غرناطہ کا فیصلہ کرنے کے لئے آخری مرتبہ جانیں لڑائی تھیں۔
ایک خانقاہ کی چار دیواری کے اندر جہاں کے مکینوں کا زہد و اتقا اور جہاں کے قوانین کی خوش اسلوب سخت گیری شہرۂ آفاق تھی۔ ایک نوجوان مبتدیہ ایک حجرہ میں اکیلی بیٹھی تھی۔
اس حجرہ کی ٹھنڈی کُہنہ رنگ دیوار میں ایک لمبا سا دریچہ تھا۔ مگر اس قدر بلندی پر کہ بیرونی دُنیا کا نظارہ اگر افسردگی کے لمحوںمیں کوئی تسکین یا مقدس خیالات کے تسلسل میں کوئی تنوع پیدا کر سکتا تھا، تو اس حجرہ کا رہنے والا اس سے بہرو ناب نہ ہو سکتا۔ اس میں کچھ شک نہیں۔ کہ اس عمارت کے گرد و نواح کا منظر بلا کا دل کش تھا۔ لیکن اس دوشیزہ کی حسین و غمناک آنکھیں اس لطف اندوزی سے محروم رکھی گئی تھیں۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ قدرت کے حُسن رنگیں کا نظارہ ایسے دل کو جو تمام خوش گوار انسانی تعلقات کو منقطع کرنے کا سبق سیکھ رہا ہو۔ اس جادۂ ایثار سے منحرف کر دے۔ کھڑکی میں سے سورج کی ناکام روشنی کچھ کچھ اندر آ رہی تھی۔ اور کمرہ اور کمرہ کی اشیاء کی ہیبت اور افسردگی اور بھی بڑھ رہی تھی۔ نوجوان مبتدیہ کے بشرہ سے ظاہر ہوتا تھا۔ کہ اس کے دل کے جذبات و خواہشات کی وہ کشاکش ہو رہی ہے۔ جس کے بغیر نیکی و پارسائی کے ارادوں میں فتح حاصل کرنا ناممکن ہے۔ کبھی وہ زار زار روتی لیکن ضبط غم کے عالم میں جس سے نالہ و فغاں کے بجائے
---------------------------------------------------------------------------------------------
(1) Novice
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 207
یاس و ناُمیدی مترشح تھی۔ کبھی وہ اپنا جھکا ہوا سر اوپر اٹھاتی اور مسیح مصلوب کے بُت کو جو قریب ہی میز پر رکھا تھا، دیکھ کر مسکرا دیتی۔ فنائے ظاہری اور بقائے دوام کے اس نشان سے اس کے دل کو دوگونہ تسلی ہوتی تھی۔
وہ انہیں خیالات میں محو تھی کہ دروازہ کے باہر سے ہلکی سی دستک سُنائی دی۔ اور معاً خانقاہ کی راہبہ معظمہ اندر آ گئی۔
وہ کہنے لگی، "بیٹی، میں تیرے دل کی تسکین کے لیے ایک محبوب شخص کو لائی ہوں۔ ملکہ ہسپانیہ نے جو اپنے مقدس حسیات کے باعث تیرے مکمل تسلی کے لئے ماورانہ تشویش سے متاثر رہی ہے، ایک متقی پادری کو یہاں بھیجا ہے۔ جس کی صحبت ان کے خیال میں ہمارے بھائی ٹومس کی نسبت زیادہ اطمینان بخش ہو گی۔ کیونکہ ٹومس کا ایمان دار دل جن لوگوں کو صراط مستقیم پرلگانا اور نور ایمان سے روشن کرنا چاہتا ہے، وہ اس کے مذہبی جوش سے ڈر جاتے ہیں۔ میں اس شخص کو تیرے پاس چھوڑے جاتی ہوں۔ ہمارے اولیا اس کی تلقین کو مؤثر بنائیں۔ یہ کہہ کر راہبہ دروازہ سے باہر نکل گئی۔ اور اس کی جگہ ایک شخص اندر آ کھڑا ہوا۔ جس نے پادریوں کا سا لباس پہن رکھا تھا۔ اور اپنا ڈھیلا ڈھالا ٹوپ اپنے چہرہ پر کھینچ رکھا تھا۔ پادری نے فروتنی سے سر جھکا رکھا تھا۔ اندر آ کر اس نے دروازہ بند کر دیا۔ اور ایک چھوٹی سے نشست پر بیٹھ گیا۔ جسے چٹائی کے علاوہ اس حجرہ کا باقی سامان سمجھنا چاہیے۔
پادری نے کچھ توقف کے بعد کہا، "بیٹی جو شخص ایثار کے لئے پورے طور پر تیار اور آمادہ نہ ہو، اس کے لئے دنیا کے انواع و اقسام کے عیش و آرام کے سامان کا ترک کرنا اور انسانی جذبات کو مارنا بہت دشوار اور دقت طلب ہے۔ میری بچی، مجھ سے اپنا راز دل کھول کر بیان کر دے۔ میں مذہبی عدالت کا کوئی سنگ دل رکن نہیں۔ کہ تیری باتوں پر حاشیہ آرائی کر کے تیری ہی اذیت کا موجب بن جاؤں۔ نہ میں کوئی ایسا سنگ دل اور تُند خو زاہد ہی ہوں جو انسانیت سے سراسر بیگانہ ہو۔ اس عبا کے اندر اب بھی ایک ایسا دل دھڑک رہا ہے، جو
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 208
انسانی رنج و غم کے ساتھ پوری ہمدردی کر سکتا ہے۔ بلا تردد مجھے اپنا راز دل بتا دے۔ تجھے جس امر پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ کیا اس کے انجام سے تجھے ڈر نہیں لگتا؟ تو اس سے پہلو تہی نہیں کرنا چاہتی؟ کیا تو آزادی حاصل کرنے کی خواہاں نہیں ہے؟"
بیچاری لڑکی نے جواب دیا، "نہیں۔" لیکن حرف انکار اس کے ہونٹوں سے نہایت ہلکی آواز میں اور تامل کے ساتھ نکلا۔
پادری نہایت سرگرمی سے بولا، "ٹھہر، ٹھہر ذرا سوچ لے۔ ابھی بہت وقت ہے۔"
لڑکی نے کسی قدر حیران ہو کر پادری کو دیکھا، اور بولی، "نہیں، میرا ارادہ کمزور بھی ہو تو گریز ناممکن ہے۔ ایسا کون سا مشکل کُشا ہاتھ ہے جو خانقاہ کے دروازوں کو مجھ پر کھول دے؟"
پادری نے جوش سے کہا، "میرا۔ ہاں صرف مجھ میں یہ قوت ہے۔ تمام ہسپانیہ میں ایک شخص ہے، جو تجھے بچا سکتا ہے اور وہ میں ہوں۔"
لڑکی نے اس عجیب ملاقاتی کو تعجب اور خوف کی نظروں سے دیکھا اور رک رک کر کہا، "تم، تم کون ہو، جو اس ٹومس ڈی ٹارکیمیڈا کے فرمان کا مقابلہ کرنے کو تیار ہو، جس کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کے سامنے قشطالہ اور اراگون کے تاجداروں کے سر جھک جاتے ہیں۔"
یہ سوال سن کر پادری بے قراری اور کسی قدر رعونت سے بھڑک کر اٹھ کھڑا ہوا۔ پھر دوبارہ بیٹھ کر ایک گہری اور دھیمی آواز میں کہنے لگا، "بیٹھی میری بات سُن۔ یہ صحیح ہے کہ ملکہ ازابیلا کو (اس پر مادر مہربان کی برکت نازل ہو، کیونکہ وہ سب سے ہمدردی رکھتی ہے، خواہ مصلحتاً اس کا ظاہری رویہ کچھ ہی ہو) اسی بات کا اندیشہ ہوا کہ تیرے لیے نجات آسمانی کا راستہ کہیں بہت دشوار گزار نہ بنا دیا جائے (یہ کہتے وقت پادری کی آواز میں کسی قدر طنز تھا) چنانچہ اس نے ایک رطب اللسان اور با اخلاق پادری کو تجھ سے ملاقات کرنے کے لئے روانہ کیا۔ اس خانقاہ کی راہبہ کے نام اس کو خطوط دیئے گئے۔ گو یہ زاہد بہت رحم دل اور سائستہ تھا لیکن
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 209
مکار تھا۔ گھبرا نہیں۔ میری تمام بات سن لے۔ یہ شخص عروج و اقتدار کا پرستار تھا۔ کیونکہ کلیسا اس دنیا کی بلند ترین عزتیں بخشنے پر قادر ہے۔ اور یہ شخص ایک معمولی راہت کی سی زندگی بسر کرنے کا خواہاں نہ تھا۔ بیٹی، عیسائی کیمپ میں ایک شخص تیرے فراق میں بھٹک رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ہر وقت تیری تصویر پھرتی تھی۔ تیری سردمہری کے باوجود وہ تجھ سے اس قسم کی محبت کرتا تھا۔ جس سے وہ کبھی پہلے آشنا نہ تھا۔لیکن آخر تو اس کی نظروں سے چھپا دی گئی۔ بیٹی، تو کانپتی کیوں ہے۔ ابھی داستان باقی ہے۔ یہ زاہد تیرے اس عالی نسب شیدائی کے پاس گیا۔ اپنا مفوضہ فرض اس کے ہاتھ فروخت کر ڈالا۔ اس زاہد نے ملکہ کے سُنانے کو یہ فرضی داستان بنائی کہ پہاڑوں کے درمیان مسلح رہزنوں نے اس پر حملہ کیا۔ اور راہب کے تمام خطوط چھین کر بھاگ گئے۔ تیرے دل دادہ نے اس زاہد کا لباس پہن لیا۔ اور خط لے لئے اور سرعت سے ادھر بھاگ آیا۔ لیلی پیاری لیلےٰ، دیکھ تیرا عاشق تیرے قدموں میں موجود ہے۔"
راہب نے اپنا ٹوپ اتار دیا۔ اور لیلےٰ کے برابر گھٹنوں کے بل جھک گیا۔ لیلےٰ نے سر پھیر کر دیکھا تو اس کی آنکھوں کے سامنے ہسپانیہ کا شہزادہ ڈان جُوآن موجود تھا۔
اس نے لیلےٰ کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔لیلےٰ نے اپنا منہ پھیر لیا۔ اور اس کی گرفت سے اپنا ہاتھ چھڑانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا، "تم! یہ ظلم نہیں تو کیا ہے۔ تم ہی میرے مصائب کی وجہ، میری بدنامی اور رسوائی کا باعث ہو۔"
ڈان جُوآن نے جوش سے کہا، "میں اس سب کی تلافی کر دوں گا۔ میں دوبارہ کہتا ہوں۔ مجھے اور صرف مجھے تمہیں آزاد کرنے کی قدرت حاصل ہے۔ اب تم یہودی نہیں ہو۔ بلکہ ہماری ہم مذہب ہو۔ ہماری محبت میں اب کوئی مزاحمت نہیں۔ گو میرا باپ بہت عالی وقار ہے، اور گو وہ ایسا ہی دہشت ناک اور پُراسرار شخص ہے، جیسی یہ نئی طاقت ہے۔ جس کی بنیادیں وہ ناعاقبت اندیشی سے اپنی
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 210
حکومت کے اندر استوار کر رہا ہے۔ لیکن وہ سلطنتوں کے وارث کا اپنا ذاتی رسوخ اور اس کے رفقا کی امداد اتنی بے دست و پا بھی نہیں۔ کہ وہ اپنی محبوبہ کو ایک جابر حکمراں اور عدالت مذہبی کے سرگروہ کی گیرودار سے محفوظ نہ رکھ سکے۔ میرے ساتھ بھاگ چل۔ اس سے پیشتر کہ اس بھیانک قبر کا مُنہ بالکل بند کر دیا جائے۔ اس سے باہر نکل آ۔ گھوڑے تیار ہیں۔ حفاظت کے لئے میرے پاس بدرقہ موجود ہے۔ آج رات ہی سب باتوں کا انتظام ہو سکتا ہے۔ اے کاش تو آج رات ہی آغوش عشیق کا آرام اور بیرونی دنیا کا لطف حاصل کر سکے۔"
اس خطاب کے دوران میں لیلےٰ نے اپنے آپ کو شہزادہ کی گرفت سے چھڑا لیا تھا۔ اور اس سے کچھ فاصلہ پر اک ادائے غرور سے سروقد کھڑی تھی۔ وہ بولی، "شہزادہ تم مجھے للچانے کی لاحاصل کوشش کر رہے ہو۔ میں قطعی فیصلہ کر چکی ہوں۔میں اس پر قائم رہوں گی۔"
شہزادہ اس طرح بولو کہ اس لے لہجہ میں ایک حقیقی درد اور منت و التجا کا رنگ جھلک رہا تھا، "آہ۔ سوچ لے۔ اس انکار کے نتائج کو اچھی طرح سوچ لے۔ ابھی تجھے اس کا علم نہیں۔ تیرے جوش مذہبی نے تجھے اندھا بنا رکھا ہے۔ لیکن جب اس قید کے ہیبت ناک تسلسل میں ساعت پر ساعت دن پر دن اور سال پر گزرتا جائے گا۔ جب تو اپنے محروم محبت شباب اور محروم عزت عمر کو مُرجھاتے ہوئے دیکھے گی۔ جب ان سامنے والے بارود منجمند انسان نما آسیسوں کے ماتحت تیرے سینہ میں دل پتھر بن کر رہ جائے گا۔ جب بربارد زندگی کی بے رنگ یکسانی میں ایک طویل تر روزے یا شدید تر ریاضت کے سوا اور کوئی شئے تنوع پیدا نہ کر سکے گی۔ تو اس وقت اس یاس انگیز اور ندامت خیز خیال سے تیرا رنج و غم دوچند ہو جائے گا۔ کہ تیرے اپنے ہیہونٹوں نے تیری تقدیر کے فیصلہ پر مُہر لگائی تھی۔" یہ کہتے کہتے جوآن فرط شوق سے بولا، "تو اگر خیال کرے۔ کہ شروع شروع میں میری محبت کا مقصد بھی دل لگی اور تیری آبروریزی تھا۔ تو یہ صحیح ہے۔مجھے اعتراف ہے۔ میری جوانی اسی طرح گذر رہی ہے۔ کہ میں محبتکو محض
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 211
ایک دل لگی۔ اور نازنین لڑکیوں کو محض ایک رات کا سرمایۂ عشرت سمجھتا رہا ہوں۔لیکن اب مجھے زندگی میں پہلی بار احساس ہو رہا ہے کہ میں کسی کو چاہتا ہوں۔ تیری سیاہ آنکھیں، تیرا حُسن، یہاں تک کہ تیرا حقارت آمیز سلوک جو تیری نسوانیت کا تقاضا ہے۔ میرے دل کو گرویدہ کر گیا ہے۔ میں جو محبت کر کے کبھی مایوس نہیں ہوا۔ آج محسوس کرتا ہوں۔ کہ عورت کا دل تسخیر کرنا ایک عظیم الشان فتح ہے۔ آہ لیلےٰ! مجھے مایوس نہ کرنا۔ مجھے دُھتکار نہ دینا۔ تجھے نہیںمعلوم۔ کہ تو کتنی بڑی اور کیسی بے نظیر محبت کو ٹھکرا رہی ہے۔
لڑکی کے دل پر گہرا اثر ہوا۔ ڈان جُوآن کے یہ الفاظ گذشتہ تقریروں سے بے انتہا مختلف تھے۔ اس کے سچے عشق نے جو اس کی آواز کے سوز و درد سے ظاہر تھا، جو اس کی آنکھوں کی حسرت میں موجود تھا۔ لیلےٰ کے دل کی دبی ہوئی آگ کو کُرید دیا۔ اس کو گم گشتہ موسےٰ سے اپنا شوریدگی آمیز اور ناقابل تسخیر عشق یاد آ گیا۔ اور وہ متاثر ہو گئی۔ یہاں تک کہ اس کی آنکھوںمیں آنسو بھر آئے۔ لیکن اس کا عزم ابھی تک غیر متزلزل تھا۔
شہزادہ کو لیلےٰ کے جذبات سمجھنےمیں غلطیہوئی۔ اس نے اپنی تقریر کو مفید سمجھ کر مزید اثر کےلئے سلسلۂ گفتگو جاری رکھا، "آہ لیلےٰ، سامنے اس سورج کی کرن عیش و راحت کی دنیا کی قاصد نہیں؟ کیا یہ میری وکالت نہیں کرتی؟ کیا یہ تیرے کان میں لہلہاتے کھیتوں، شگفتہ تاکستانوں اور دل فریب دنیا کی ان تمام گوناگوں نعمتوں کا ذکر نہیں کرتی۔ جنہیں تو ہمیشہ کے لئے ترک کرنے کو تیار ہے۔ کیا تجھے میری محبت سے خوف معلوم ہوتا ہے؟ کیا یہ مُردوں کی سی زاہدانہ صورتیں جو تیرے گرد جمع ہیں، تیری نظروں میں مجھ سے زیادہ حسین ہیں؟ کیا تجھے شبہ ہے کہ میں تجھے بچانے کی قوت نہیں رکھتا۔ یقین کر لے کہ اگر تیری حفاظت کے لئے شمشیر کی ضرورت ہوئی، تو ہسپانیہ کے اعلےٰ ترین اُمرا میرے جھنڈے کے نیچے فراہم ہوں گے۔ بس تو اتنا کہہ دے کہ میں تیری ہوں۔ کہ میں
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 212
تجھے یہاں سے لے کر کسی ملک کو بھاگ جاؤں۔ جہاں کلیسا کی مہلک جڑیں ابھی نہیں پھیلی ہیں۔ وہاں تاج و تخت اور ملک داری کے تفکرات سے آزاد ہو کر میں تنہائی میں تیرے ساتھ زندگی بسر کروں گا۔ لیلےٰ بول، آہ صرف اتنا کہہ دے۔"
لیلےٰ نے بمشکل اپنے دل کو کڑا کر کے کہا، "میرے حضور، آپمجھ پر جو التفات فرماتے ہیں۔ اور جس الفت کا اظہار کرتے ہیں، اس کا میں تہ دل سے اور خلوص کے ساتھ شکریہ ادا کرتی ہوں۔ لیکن آپ کو غلط فہمی ہوئی۔ میں نے جو فیصلہ کی اہے، اس کے ہر پہلو پر خوب غور کر چکی ہوں۔ اس سے روگردانی تو درکنار، اپنے فیصلے پر نہ پشیمان ہوں نہ متاسف۔ جس دنیا کا آپ ذکر کرتے ہیں۔ وہ اوروں کے لئے راحت و آسائش سے لبریز ہے۔مگر میرے واسطے اس میں نہ کوئی تعلقات کی زنجیریں ہیں، نہ کوئی دل لبھانے والی ترغیبیں۔ میں صرف سکون و اطمینان اور قبل از وقت موت کی خواہش مند ہوں۔"
شہزادے کا چہرہ زرد ہو گیا۔ وہ بولا، " تمہارے دل میں کسی اور کی محبت تو موجزن نہیں؟ اس صورت میں اور صرف اسی صورت میں میرا اظہار الفت بیکار ہو سکتا ہے۔"
یہ سُن کرلڑکی کے رخسار شرم و حجاب سے تمتما اُٹھے۔ لیکن یہ گلابی طوفان جلد اُتر گیا۔ اس نے دل میں سوچا۔ اس کے اقبال میں حجات کیسا؟ بلند آواز سے بولی، "شہزادے مجھے یقین ہے کہ میں دنیا سے سیر ہو چکی۔ اب آپمجھے اس کی آسائشوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ تو میرے دل میں درد کی ٹیسیں اُٹھتی ہیں۔ اگر آپ کے دل میں میری صاف بیانی کی قدر ہو، تو میں کہے دیتی ہوں۔ کہ ایک وقت ضرور ایسا تھا جب میرا دل عشق سے ناآشنا نہ تھا۔ اور یہ ایک خیال میری الفت و محبت کے تمام فنا شدہ جذبات کا بے روح افسانہ ہے۔ وہ شخص ایک دوسرے مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ شاید ہماری پھر کبھی ملاقات نہ ہو۔ مگر یہ دعا میرے لئے تسلی کا باعث ہے۔ کہ خدا کرے آسمان پر ہمیں ایک دوسرے کا
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 213
دیدار نصیب ہو۔ یہ تسکین اور اس خانقاہ کی چاردیواری مجھے اس دنیا کی تمام شان و شوکت اور اس جہان کے تمام عیش و آرام سے بڑھ کر پیاری ہے۔"
شہزادے کا سر جھک گیا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا۔ اس نے کچھ جواب نہ دیا۔
لیکن لڑکی نے کہا، "ہشپانوی تاج و تخت کے وارث، شریف النفس ازابیلا کے لخت جگر جا۔ لیلےٰ ملکہ کی توجہ اور مہربانی کی غیر مستحق نہیں ہے۔ جا اور دنیا میں اس عالی شان مقسوم کو حاصل کر جو تیرا انتظار کر رہا ہے۔ اور اگر تو نے اس بدبخت یہودی لڑکی کو معاف کر دیا ہے، اگر اس کا کچھ بھی خیال تیرے دل میں باقی ہے، تو اس کی اس سوختہ اختر قوم پر جسے چھوڑ کر اس نے تیرا مذہب قبول کیا ہے، جو مصیبت اور تباہی نازل ہونے والی ہے، اس میں تخفیف اور رعایت کرا۔"
شہزادے نے نہایت رنج سے کہا، "آہ۔ افسوس۔ میں تیری تمام قوم میں سے صرف تجھی کو اس تعصب سے بچا سکتا ہوں۔ جو اس شجاعت اور بہادری کی سرزمین میں ایک بڑھتے ہوئے طوفان کی مانند پھیلتا جا رہا ہے۔ اور تُو مجھے رد کر رہی ہے۔ تو کم از کم اطمینان سے سوچنے کی مہلت لے۔ اور کل پھر مجھے ملاقات کرنے کی اجازت دے۔"
"نہیں۔ شہزادے نہیں۔ پھر مجھ سے ملاقات نہ کرنا۔ اگر تو دوبارہ نہ آیا تو میں تیرے یہاں آنے کا ذکر کسی سے نہ کروں گی۔ اگر تو پھر اس محبت کا اظہار کرے گا، جسے میں گناہ اور اپنے لئے باعث ذلت سمجھتی ہوں، تو میری آبرو۔۔۔۔۔"
شہزادے کے چہرے سے ایک پُرتمکنت بے قراری مترشح تھی۔ اس نے بات کاٹ کر کہا، "خاموش! اب میں تجھے نہ ستاؤں گا۔ دق نہ کروں گا۔ میں اپنی محبت کے تقاضوں سے تجھے آزاد کرتا ہوں۔ میں شاید پیشتر ہی اپنے آپ کو بہت ذلیل کر چکا ہوں۔" اس نے ٹوپ اپنے چہرے پر کھینچ لیا۔ اور
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 214
افسردگی سے قدم بڑھاتا ہوا دروازے کی طرف بڑھا۔ لیکن پھر مُڑا کہ آخری مرتبہ اس صورت کو دیکھ لے۔ جس نے ایک دل کو جو جذبات عالی کا خزینہ دار تھا، اس عجیب طریقے سے شیفتہ و فریفتہ بنا لیا تھا۔ لڑکی کے عاجزانہ اور مایوسانہ انداز اس کی نزاکت اس کے شباب اور اس کی تاریک زندگی کے خیال نے شہزادے کے عارضی غرور اور برافروختگی کو ملائمت سے بدل دیا۔ اس نے ایسی آواز میں جو جذبات کی کشمکش کے باعث اس کے گلے میں پھنس رہی تھی، کہا، "بدقسمت لڑکی، خدا تجھے برکت دے۔ اور صبر جمیل عطا فرمائے۔" اس کے بعد فوراً باہر نکل کر دروازہ بند کر دیا۔
لیلےٰ اپنے خیالات میں محو ہو گئی تھی۔معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنی روح سے ہمکلا ہے۔ دفعتاً وہ چونکی اور ہلکی سے آواز میں بولی، "خداوند۔ تیرا شکر ہے۔ کہ یہ موسےٰ نہ تھا۔ ورنہ میں اس کی محبت کا مقابلہ نہ کر سکتی۔" اس خیال کے آتے ہی وہ اپنے آپ کو لعن طعن کرنے کےلئے ایک عاجز و تائب کی طرح دو زانو ہو گئی۔ اور قوت اور ہمت کے لئے دعا مانگنے لگی۔
وہ اپنی دعا سے فارغ ہو کر اُٹھنے بھی نہ پائی تھی کہ اس مرتبہ پادری ٹارکویمیڈا اس کی خلوت میں مخل ہوا۔
گو یہ عجیب و غریب شخص ایسے ایسے مظالم کا بانی تھا، جن کے بیان سے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں، لیکن اس کے مزاج میں کبھی کبھی محبت اور شرافت یوں نمایاں ہو جاتی تھی۔ جیسےسخت سے سخت سنگ مرمر میں کہیں کہیں کوئی رنگین رگ نظر آ جاتی ہے۔ جب اس کو لڑکی کے خلوص اور جوش مذہب کا پورا یقین ہو گیا۔ تو اس کی وہ پہلی سختی اور درشتی ہلکی ہو گئی۔ اسے اس بات کی بڑی خواہش تھی کہ اپنی تمام فصاحت و بلاغت لیلےٰ کی روح کو اعلیٰ و ارفع بنانے اور اس کے شکوک و شبہات رفع کرنے میں صرف کر دے۔ وہ خلوص دل کے ساتھ آنسو بہا بہا کر اس لڑکی کے لئے دعائیں مانگتا۔ اور اس کے پہلو بہ پہلو کھڑا ہو کر خداوند کے حضور میں
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 215
اپنا ناصیۂ نیاز جھکا دیتا۔
وہ دیر تک اس کے پاس بیٹھا رہا۔ اور جب رخصت ہو گیا تو لیلےٰ اگر شادماں نہیں تو مطمئن ضرور تھی۔
اب لیلےٰ کے دل میں سب سے بڑی تمنا یہ تھی کہ اس کی آزمائش کا یہ زمانہ جسے ارکان کلیسا نے پہلے ہی اس کے حسب منشا گھٹا کر برائے نام رہنے دیا تھا، جلد ختم ہو جائے۔ اس کی آرزو تھی کہ ارادے کو بدل ڈالنے کی قوت اس کے بس ہی میں نہ رہے۔ اور وہ فوراً امتحان کے دروازے سے نکل کر جادۂ اطاعت پر گامزن ہو۔
اس کی شرافت و رحم دلی نے خانقاہ کی تمام راہبہ عورتوں کے دل متاثر کر دیئے تھے۔ وہ سب اس کی گرویدہ تھیں۔ اور اس کا مذہب تبدیل کرنا ایک ایسا واقعہ تھا۔ جس نے ان کی بند اور بے رنگ زندگی میں ایک چھوٹی سی ہل چل پیدا کر دی تھی۔ سب اس لڑکی کے متعلق باتوں کو بہت دلچسپی سے سُنتی تھیں۔ اور اسے رحم اور ہمدردی کا مستحق سمجھتی تھیں۔ لیلےٰ کو اپنے زمانۂ شیر خوارہی سے لے کر اب تک اپنی صنف کے افراد کو دیکھنے کا بہت کم اتفاق ہوا تھا۔ چنانچہ ان کی ہمدردی اور اُلفت نے اس کے دل و دماغ کو بہت آرام و تسکین دی۔ لیکن اکثر رات کو خواب میں اسے اپنےکا خوفناک اور تشنۂ انتقام چہرہ دکھائی دیتا۔ بعض اوقات معلوم ہوتا کہ باپ نے اسے فردوس بریں کے دروازے میں سے پیچھے کھینچ لیا۔ اور اسے ساتھ لے کر سمندر کی گہرائیوں میں غرق ہو گیا ہے۔ بعض اوقات وہ دیکھتی کہ وہ میسح مصلوب کے بُت کے آگے دو زانو ہے۔ اور باپ قربان گاہ کے برابر کھڑا ہے۔ اور بہ منت اس سے کہہ رہا ہے۔ کہ نجات دہندہ کا دامن چھوڑ دے۔ اکثر اوقات موسےٰ کی تصویر بھی اس کے عالم خواب و خیال میں اس کی آنکھوں کے سامنے آ جاتی لیکن اس میں المامن کی سی دہشت اور مصیبت نہ ہوتی۔ لیلےٰ کو نظر آتا کہ اس کی ساکن اور غمناک آنکھیں اس پر گڑی ہوئی ہیں۔ اور اس کی آواز
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 216
پوچھ رہی ہے، "کیا تو ایک ایسا عہد کرنے کے لیے تیار ہے، جس کی رُو سےمیری یاد تیرے لئے گناہ ہے؟"
اس طرح رات کی پُرسکون گھڑیاں جو بالعموم ملول و غمزدہ لوگوں کے لئے تسکین و خودفراموشی کا پیغام لاتی ہیں۔ لیلےٰ کے لئے دن سے بھی زیادہ دہشت ناک بن گئیں۔ روزبروز اس کی صحت خراب ہوتی گئی۔ مگر اس کا دل اب تک مضبوط تھا۔ اگر زمانہ اور حالات زیادہ خوشگوار ہوتے، تو اس بدقسمت لڑکی کے اوصاف حمیدہ شہرت و نیک نامی حاصل کرتے۔ مگر وہ ان بے شمار مصیبت زدوں میں سے تھی جن سے دنیا محض بے خبر ہوتی ہے۔ جن کی خوبیاں ان کے نیک ارادوں میں مضمر ہوتی ہیں۔ جو روح کی کشمکش کو تنہا برداشت کرتے ہیں۔
شہزادہ نہ اسے پھر ملنے آیا، نہ اس کی کوئی خبر ہی ملی۔ بعض اوقات اسے ٹومس کے خفیف اور پیچیدہ اشاروں سے خیال ہوتا تھا کہ اسے شہزادے کھ بھیس بدلنے اور ملاقات کرنے کا علم ہے۔ لیکن اگر یہ گمان درست تھا، تو معلوم ہوتا تھا کہ اس راز کے انکشاف سے ٹارکویمیڈ کے دل میں لیلےٰ کی شرافت اور اس کے احترام کا خیال فزوں تر ہو گیا ہے۔ بہرحال کچھ بھی ہو، لیکن اس دن کے بعد پادری کا طرز تخاطب زیادہ ہمدردانہ معلوم ہوتا تھا۔ اور وہ شخص جس کا شغل بازپُرس اور انتقام کے سوا اور کچھ نہ تھا، اکثر اوقات رحم و ستائش کے جذبات کا اظہار کرتا۔
اس طرح دن میں اسے ہمدردی و حوصلہ افزائی نصیب ہوتی۔ اور خوفناک راتیں اس کے لیے پریشان خوابوں کے ہیبت ناک تصورات لاتیں۔لیکن لیلےٰ جو عزم کر چکی تھی۔ اس پر متاسف نہ ہوئی۔ وقت گزرتا گیا۔ یہاں تک کہ وہ اہم اور عظیم دن آ پہنچا۔ اس دن اس کی زبان ایک ایسی اٹل قسم کھانے والی تھی۔ اور ترک دنیا کا ایسا حلف اٹھانے والی تھی۔ جو دنیا کی تمام عشرتوں کا سنگ مزار ہے۔ اس دوسران میں کہ اس گمنام و تاریک خانقاہ کی چاردیواری کے اندر ایک عورت اپنی زندگی کے دن گزار رہی ہے۔ ہم پھر ایک زوال پذیر دودمان شاہی کے زوال سے سرمایۂ عبرت فراہم کرنےکے لیے غرناطہ کا رُخ کرتے ہیں۔
خدا کے حضور میں بلا رہی ہے مجھ غریب قیدی کو بتا رہی ہے کہ بے کسوں کا حامی خدا ہر لمحہ ہمارے قریب ہے۔ آہ اے پروردگار۔ تو نے ایّامِ قدیم میں روت پر شفقت کی نگاہ ڈالی تھی۔ جب وہ اناج کے کھیتوں میں کھڑی تھی۔ تو نے لق و دق میدان اور اغیار کی سرزمین میں اپنی برگزیرہ اُمّت کی حفاظت کی تھی۔ مجھے امداد دے۔ اور میری حفاظت کر۔
لیلےٰ اپنی خاموش اور رقت انگیز دعاؤں میں دیر تک اسی خشوع و خضوع سے مستغرق رہی۔ گھڑیال خاموش ہو گیا تھا۔ فضا میں بالکل سکون و سکوت تھا۔ خیمے کے دروازے کا پردہ اُٹھا۔ اور ایک نوجوان ہسپانوی جو سر سے پاؤں تک ایک لمبے فرغل میں لپٹا ہوا تھا۔ سامنے آ کھڑا ہوا۔ وہ گھٹنوں کے بل جھُکی ہوئی دوشیزہ کو خاموشی سے دیکھتا رہا۔ اور جب تک وہ اٹھ کر کھڑی نہ ہو گئی۔ اس نوجوان نے یہ ظاہر نہ ہونے دیا کہ وہ وہاں موجود ہے۔
پھر اس نے اس کے ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا "اے حسینہ! تو میرے خطوں کا جواب نہیں دیتی۔ تو مجھے دو زانو ہونا سکھاتی ہے۔ لے مجھے اپنے قدموں میں گِرا ہوا دیکھ لے۔"
لیلےٰ گھبرا گئی۔ اس کے چہرے سے انتہائی خوف ظاہر تھا۔ وہ بولی۔ "شہزادے تو کیوں مجھے اس طرح ستاتا ہے۔ اور میری آبرو ریزی کے در پے ہوا ہے۔ کیا میں ایک یرغمال اور امانت ہونے کی حیثیت سے قابلِ احترام نہیں، اور کیا تو نے اس محبت کے بہانے سے جس میں تیری ذلّت اور رسوائی ہے مجھے اس نیک نامی و عصمت اور سکونِ قلب اور ان سب باتوں سے جو عورتوں کو عزیز ترین رکھنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ محروم کرنے کی کوشش نہیں کی؟"
ڈان جوآن نے ایک خفیف تبسّم سے کہا "پیاری جو کچھ سُننے میں آیا ہے وہ اگر غلط نہیں تو تو نے اُس چار دیواری کے اندر وہ اخلاق سیکھے ہیں جن سے مُوروں کی لڑکیاں محض نا آشنا ہیں۔ مجھے اجازت دے کہ میں تجھے
Page 102
اس سے آسان تر اخلاق اور معقول تر منطق بتاؤں۔ تجھ جیسی حسینہ کی پرستش کرنا کسی عیسائی شہزادے کے لیے باعثِ توہین نہیں ہے۔ اور نہ ایک حسین یرغمال کے لئے ہی باعثِ ننگ ہے۔ اگر ہسپانیہ کا شہزادہ اس پر دل و جان سے قربان ہو لیکن یہ تو محض تضیع اوقات ہے۔ جاسوس متجسس نگاہیں اور حاسدوں کی بد زبانیں ہمیں گھیرے ہوئے ہیں۔ اور جیسے آج میں ان سب کی آنکھوں میں خاک جھونک کر آیا ہوں، اسی طرح ہر روز آنا دشوار ہے۔ حسینہ میری گزارش سُن ُاس مرتبہ وہ لیلےٰ کا ہاتھ پکڑنے میں کامیاب ہو گیا جو اس کے پنجے سے چھوٹنے کے لئے لاحاصل کشمکش کر رہا تھا) یہ حجاب کیا ہے۔ ایک عورت کا دل کونسی ایسی خواہش کر سکتا ہے جسے میری محبت تجھ پر نچھاور نہیں کر سکتی؟ اے ساحرہ بول۔ صرف ہاں کہہ۔ اور میں تجھے ان مناظر سے جو تیری پیاری آنکھوں کو مرعوب نہیں ہیں۔ دور لے جاؤں گا۔ تو شہزادوں کی فرودگاہوں میں عیش کرے گی۔ نارنگی اور گلاب کے چمن میں اپنے دل داوہ کی داستانِ عشق سنے گی۔ اور یقیناً اس آغوش میں آ کر تو غیر مہذب وطن، ایک سوختہ اختر شہر کے لئے بے قرار نہ ہو گی۔ میری پیاری! اگر تیرا غرور تجھے فطرت کی آواز کی طرف سے بے بہرہ کر دے تو سن کہ ہسپانیہ کی مغرور ترین لڑکیاں اپنے آئندہ بادشاہ کی معشوقہ کے سامنے حسد آمیز احترام سے سر تسلیم خم کریں گی۔ آج رات کو تو صرف میری بات سن۔ دیکھ سُن۔ آج رات میں تجھے یہاں سے اُٹھا لے جاؤں گا۔ تو صرف میری ہو جا۔ اور کچھ پروا نہیں۔ اگر تو بے دین اور کافر ہے۔ خواہ پادری تجھے کچھ ہی قرار دیں۔ لیکن بادشاہ اور کلیسا بھی تجھے میرے آغوش سے نہیں چھین سکتے۔
ایک بھاری آواز سُنائی دی۔ "دین دار مسیحی بادشاہ کے فرزند! یہ اچھی کہی۔" جوآن نے دیکھا تو یادری ٹومس ٹارکومیڈا شہزادے کے سامنے کھڑا تھا۔
جوآن نے اپنا ہاتھ یوں لیلےٰ سے علیحدہ کیا گویا اس پر آسمان سے بجلی گر پڑی۔ لڑکھڑا کر چند قدم پیچھے ہٹا اور پادری کی نگاہوں کے رو برو جو اس کو بڑھتی ہوئی تاریکی میں سے گھور رہی تھیں نہایت خفیف و نادم و عاجز معلوم ہونے لگا۔
Page 103
ایک وقفے کے بعد پادری بولا۔ "شہزاد نے ہمارا مقدس کلیسا اس جرم کو تجھ سے منسوب نہ کرے گا۔ تو ایک سحر کے اثر سے بہک گیا ہے۔ جا!"
گو ہسپانیہ کے محکمہ احتساب کے متقدائے اعظم۔ اس خوفناک انسان پادری ٹومس کا رعب غالب تھا لیکن شہزادے نے جذبۂ آزادی کے ساتھ بے ساختہ اور کسی قدر مذاقیہ طور پر کہا: "اے بزرگ پادری! ایسی ساحر آنکھوں نے فرڈی نینڈ آف آراگون سے بھی زیادہ دین دار باپ کے دانشمند بیٹے کو مسحور کر دیا تھا۔"
پادری نے آہستہ سے کہا "تو بکتا ہے شہزادے۔ ہوش میں آ۔ تجھے علم نہیں کہ تو کیا کہہ رہا ہے۔"
شہزادہ پہلے تو رُکا۔ پھر گویا یہ سمجھ کر کہ اطاعت کے بغیر چارہ نہیں اپنا لبادہ اچھی طرح لپیٹ کر جواب دیے بغیر لیلےٰ کے خیمے سے نکل گیا۔
لیلےٰ زرد رُو اور لرزاں پادری کے سامنے کھڑی رہی۔ اگرچہ جن تفکرات سے اس نے ابھی مخلصی پائی تھی ان کی نسبت اس کے موجود افکار زیادہ مبہم اور دور از قیاس تھے۔ مگر اس کا خوف کچھ کم نہ ہوا تھا ۔
پادری ٹارکویمیڈا نے کہا "بے ایمان کی دختر! بیٹھ ہم تم سے کچھ گفتگو کریں گے۔ اگر تو اس کی قدر کرتی ہے۔ میں تیری روح کا ذکر نہیں کرتا کیونکہ افسوس تجھے اس بیش قیمت گنجینہ کی خبر نہیں ہے۔ مگر اے عورت سُن۔ اگر تو اس نازک جسم، اس حُسنِ دل فریب کو محفوظ رکھنا چاہتی ہے تو میرے استفسارات کا صحیح صحیح جواب دے۔ جو شخص تجھے یہاں لا کر چھوڑ گیا ہے کیا وہ حقیقت میں تمہارا باپ ہے؟"
لیلےٰ نے اس بد تہذیبی اور تہدید آمیز خطاب سے سہم کر کہا "ہاں وہ میرا باپ ہے۔"
"اور اس کا عقیدہ مذہب؟"
"میں نے اسے کبھی عبادت کرتے نہیں دیکھا۔"
"ہوں۔ وہ کبھی دعا نہیں کرتا۔ قابلِ غور بات ہے۔ مگر اپنے آپ کو وہ
Page 104
کس مذہب و ملّت کا کہتا ہے؟"
"میں تجھے اس کا جواب نہیں دے سکتی۔"
"نہیں۔ اسے طریقے بھی موجود ہیں جو تیری زبان سے جواب نکلوا لیں گے۔ لڑکی ضد نہ کر۔ بول۔ کیا تیری دانست میں مسلمانوں کی مسجد میں نماز پڑھتا ہے؟"
غریب لیلےٰ نے نہایت شوق سے یہ سمجھ کر کہ کم از کم اس معاملے میں اس کا جواب قابلِ تسلیم ہو گا۔ جواب دیا۔ "نہیں نہیں وہ مؤروں کے عقائد پر لعنت بھیجتا ہے۔ ان سے متنفّر ہے۔ بلکہ سختی سے ان کی تحقیر کرتا ہے۔"
"لیکن تو ایسی سختی سے مسلمانوں کے دین کو برا نہیں کہتی، اچھا! تو کیا پھر وہ در پردہ عیسائی عقائد کا پابند ہے؟"
لیلےٰ نے سر جھکا لیا اور کچھ نہ بولی۔
"میں تیری خاموشی کا مطلب سمجھتا ہوں۔ یہ بتا تجھ کو اس کے مکان کی چار دیواری میں کن عقائد کی تعلیم دی گئی ہے؟"
لیلےٰ نے استقلال سے جواب دیا۔ "مجھے کچھ علم نہیں کہ لوگوں میں وہ عقیدہ کس نام سے مشہور ہے۔ مگر وہ اس خدائے واحد پر ایمان ہے جو اپنے برگزیدہ بندوں کی حفاظت کرتا ہو۔ ظالموں سے انتقام لیتا ہے، زمین و آسمان کا خالق ہے۔ اور جس نے ہر زمانے میں ایک تنہا رہنے والی قوم کے وسیلے سے جو فلسطین کے میدانوں اور حبرون کے پانی کے پاس بستی تھی بُت پرست اور گمراہ دنیا کو اپنی ذات اور اپنی مقدس شریعت کا علم بخشا۔"
پادری نے متانت سے کہا "اچھا تیرے باپ نے تجھ کو اس عقیدے کی تعلیم دی ہے؟ باب میرا اطمینان ہو گیا۔ اب تو آرام کر۔ عنقریب پھت ملیں گے۔"
آخری فقرہ ایک لطیف و سکون ریز تبسّم کے ساتھ کہا گیا تھا۔ اور یہ وہ تبسم تھا جس میں محکمۂ احتساب کے مظلوموں کی پتھرائی ہوئی آنکھوں اور درد و کرب سے بیتاب دلوں کو اکثر اور تشدّد کے آثار دکھائی دیتے تھے۔
Page 105
پادری ٹومس بد نصیب اور افسروہ لیلےٰ کے خیمے سے نکل کر فرڈی نینڈ کے شاہی خیمے کی طرف گیا۔ لیکن وہاں پہنچنے سے پیشتر اسے کچھ نیا خیال سوجھا۔ اور اس نے اپنا ارادہ بدل کر ایک ایسے چھوٹے سے گرجا کی راہ لی جو کیتھولک ممالک میں عموماً پائے جاتے ہیں۔ یہ گرجا ایک چھوٹے سے جنگل کے وسط میں ندی کے قریب درخت کاٹ کر عحلت سے بنایا گیا تھا اور شاہی خمیے کی پُشت کی جانب واقع تھا۔ جنگل کے راستے میں صرف ایک اکیلا سنتری اس مقدس مقام کی حفاظت کے لیے کھڑا تھا۔ اور لشکر گاہ کے شور و غوغا کے مقابلے میں اس مقام کا حد سے زیادہ سکوت و سکون بہت دل فریب معلوم ہو رہا تھا۔
پادری گرجا کے اندر داخل ہوا۔ اور جانتے ہی مقدس مریم کے ایک بھدّے مگر مزیّن بُت کے سامنے دو زانو ہو گیا۔ اور یوں دعا مانگنے لگا "اے مقدس مادرِ مہربان! تو اس شکل مرحلے میں جس پر میں مامور ہوں۔ میری امداد کر تو جانتی ہے کہ میں صرف تیرے اکلوتے بیٹے کے جلال کے لئے جیتا ہوں۔ یہی میری زندگی کا مقصد و حیلہ ہے۔ مگر کبھی کبھی جسم کی کمزوری روح کو مغلوب کر لیتی ہے۔ اے رحم و فضل کی ماں! مجھے تقویت دے جب بڈھوں اور ضعیفوں، نو عمروں اور حسینوں کے سامنے تیرا مقدس جلال ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ تو میرا دل اندر ہی اندر ڈوبنے لگتا ہے۔ مگر حُسن و شباب، ضعفِ پیری اور ڈگمگاتے قدم خالق کی نگاہ میں کیا حقیقت رکھتے ہیں؟ ہم سب کے سب ادنےٰ کیڑے ہیں۔ اور خدا کی نظر میں ایمان دار کے دل کے سوا اور کوئی چیز مقبولیت کے قابل نہیں ہے۔ وہ شباب محرومِ ایمان، کہولت محرومِ دین، پاکیزگی محروم شان اور عصمت محرومِ تقدّس اپنی ظاہری خوبی کے سبب سے اور بھی زیادہ مکروہ اور قابلِ نفرت معلوم ہوتے ہیں۔ یہ ایک سفید رنگی ہوئی قبر اور جگمگاتا ہوا ملمع ہے۔ میں اسے سمجھتا ہوں۔ میں اسے خوب جانتا ہوں مگر میرے اندر بشریّت کی کمزوریاں بہت ہیں۔ مجھے طاقت دے۔ کہ میں انہیں نوچ کر پھینک دوں۔ تا کہ بشریّت کی کمزوری سے مقابلہ اور کشاکش کرتے ہوئے
Page 106
تیرا خادم محض ایک آلہ رہ جائے جس سے بے ایمانوں کو سزا ملے اور کلیسیا کا اقبال بڑھے۔"
یہ کہنے کے بعد سسکیوں اور آنسوؤں سے پادری کا گلا خشک ہو گیا۔ وہ خاک میں لوٹنے لگا۔ سر کے بال نوچنے لگا۔ اور زور زور سے چلّانے لگا۔ اس کے جوشِ دعا کا اثر خوفناک تھا۔ آخر اس نے اپنے لبادے میں سے ایک کوڑا نکالا جس میں چمڑے کے کئی تسمے تھے اور ہر تسمے میں تیز اُنہیں خار لگے ہوئے تھے۔ اس نے اپنا لبادہ پھینک دیا اور اونی کرتہ نوچ نوچ کر اتار پھینکا۔ اور اپنی برہنہ پیٹھ پر یوں دیوانہ وار کوڑے برسانے لگا کہ خون کے لوتھڑوں نے نیچے گر کر زمین کے سبزے کو ڈھانک دیا۔ اس خوف ناک نفس کُشی کے بعد جو ناتوانی پیدا ہوئی۔ اس سے درشت مزاج مجذوب کے حواس بجا ہوئے۔ اس کے اس چہرے پر تبسّم نمودار ہوا۔ جسے جسمانی تکلیف نے ذہنی اور خیالی کشمکش سے مخلصی دلائی تھی۔ اور جب اس نے اٹھ کر لہو لہان اور تھرتھراتے جسم کو اُونی کرتے سے ڈھانکا تو بولا "اے مادرِ مہربان! اب تو مجھے تسلّی دینے اور مجھ پر فضل کرنے کی جانب متوجہ ہوئی ہے۔ جب مصیبت ذدہ جسم پر اس قسم کی سخت ریاضتیں کرنے سے روح کو تسلّی و تسکین شامل ہوتی ہے۔ تو اسی طرح یہ نمونہ بھی دکھا۔ اور آثار و قرائن ظاہر کر کہ انسانوں کے جسم ان لوگوں کے ہاتھوں سے نہ بچ سکیں گے۔ جو دوسروں کی روحوں کی نجات اور اقوامِ عالم کو تیرے حلقۂ اقتدار میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس خیال سے پادری کے چہرے پر پہلی سی متانت اور سرد مہری ظاہر ہونے لگی۔ اور آخر اُس نے خون آلود کوڑے کو اپنے لبادے میں چھپا کر شاہی فروگاہ کا راستہ لیا۔
پادری پہنچا تو دیکھا کہ فرڈی نینڈ فوجی تیّاریوں کے بے انتہا مصارف کی جانچ پڑتال میں مصروف ہے۔ جس کے متعلق اس نے اُسی وقت خزانچی سے کاغذات
Page 107
حاصل کیے تھے۔ اور کفایت شعار مگر نمود و نمائش کے شوقین شہنشاہ کی پیشانی اس تنقیح حسابات سے بہت تاریک نظر آ رہی تھی۔
بادشاہ نے بہت سنجیدگی سے کہا "اس جنگ مقدس میں سپاہ کی نجات میں نے حیرت انگیز گراں قیمت پر خریدی ہے۔ اگر بے دین عرصے تک اسی طرح اڑے رہے۔ تو پھر ہمیں اپنے آباؤ اجداد کا سرمایہ بھی فروخت کرنا پڑے گا۔"
پادری نے جواب دیا "بیٹا فکر مت کر۔ جیسے اعلےٰ تیرے ارادے ہیں۔ ان کی تکمیل کے لئے قدرت خود دُنیاوی ذرائع پیدا کرے گی۔ تجھے شبہات کیوں ہیں۔ کیا وسائل تک میری رسائی نہیں؟ انصاف یہ ہے کہ تجھے تنہا ان لڑائیوں کا بار برداشت نہیں کرنا چاہیے۔ جن پر تمام عالمِ عیسائیت کو فخر ہو گا۔ کیا اور مسیحی بادشاہ نہیں ہیں؟"
فرڈی نینڈ نے جلدی سے قطع کلام کیا۔ "محترم پادری۔ تو جو کچھ کہے گا۔ مجھے اس کا علم ہے۔ تو یہ چاہتا ہے۔ کہ اور تاج دار روپیہ اور سپاہ سے میری اعانت کریں۔ یہ خیال بہت مناسب ہے۔ مگر ٹومس وہ حریص اور حاسد ہیں۔ اور دولت کی دیوی نے ان کے دلوں کو مسحور کر رکھتا ہے۔"
"نہیں میرا اشارہ بادشاہوں کی جانب نہیں تھا۔"
بادشاہ نے بے صبری سے کہا "تو تیرا مطلب یہ ہے کہ میرے اپنے امرائے سلطنت اور سردارانِ دربار اپنے خزانے دے ڈالیں اور اپنے مقبوضات فروخت کر دیں۔ بے شک انہیں ایس ہی کرنا واجب ہے۔ لیکن وہ پیشتر ہی جتنا کچھ ہماری ضروریات کے لئے دے چکے ہیں۔ اس کے متعلق شکایت کرتے ہیں۔"
پادری نے فوراً کہا "حقیقت میں ان عالی نژاد رئیسوں کو اس شوکت و عظمت سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔ جو کلیسا کے بہادر طرفداروں کو حاصل ہونی لازم ہے۔ نہیں بیٹا! میری بات سن۔ میں ایک ایسا ذریوہ بتاتا ہوں۔ جس سے بجائے دوستوں کے کیتھولک کلیسا کے دُشمن مُوروں کی بربادی کا سامان مہیّا کریں
Page 108
تیری سلطنت میں خصوصاً اندلس کے تمام نو مفتوح علاقے میں اور قرطبہ کی سلطنت میں بڑے بڑے دولت مند لوگ موجود ہیں۔ احشائے زمین ان ناپاک دفینوں سے بھرے پڑے ہیں۔ جو انہوں نے عیسائیوں کے ہاتھوں سے لوٹ لوٹ کر جمع کئے ہیں۔ اور جنہیں وہ عیش و عشرت اور نفس پروری کے سامانوں میں صرف کرتے ہیں۔ میری مراد اس نسل سے ہے جس نے خداوند کو صلیب پر چڑھایا تھا۔"
"یہودی؟ ہوں۔ مگر بہانہ۔۔۔۔؟"
"بہانہ تو موجود ہے۔ یہی ملک فروش جس سے تو ملاقات کیا کرتا ہے۔ جس نے غرناطہ تیرے سپرد کرنے کا عہد کیا۔ اور دوسرے ہی روز موروں کے ساتھ مل کر ہمارے آدمیوں سے لڑتا ہوا پایا گیا۔ اور جس کے ہاتھ ایک ہسپانی شہید کے خون سے آلودہ تھے۔ کیا اُس نے اقرار نہیں کیا تھا کہ اس کے بزرگ اسی ذلیل قوم سے تھے۔ کیا اُس نے اپنی قوم کے افراد کو عیسائیوں کے مساوی حقوق دئیے جانے کا تجھ سے مطالبہ نہیں کیا تھا۔ اور کیا جھوٹے بہانے سے وہ اپنی ایک ہم مذہب فاحشہ کو تیرے پاس امانت نہیں چھوڑ گیا۔ جس نے سحر اور شیطان کی امداد سے۔ متّقی اور دین دار عیسائی بادشاہ کے ولی عہد کے دل کو اپنے خمِ گیسو میں گرفتار کر لیا ہے۔"
بادشاہ نے برافروختہ ہو کر کہا "آہ یہ عیّاش لڑکا ہمیشہ ہمیں بدنام کرتا ہے۔"
پادری نے بادشاہ کے دخل در معقولات کا خیال نہ کر کے سلسلۂ گفتگو جاری رکھا۔ ہاں تو یہ حیلہ اس امر کے لئے کافی نہیں ہے۔ کہ اس تمام قوم سے ان کی زندگی کی قیمت حاصل کر لی جائے؟ اس جہنّمی سازش کا بین ثبوت ملاحظہ ہو۔ دنیا کی اس مردود قوم نے ایک نہایت عیّار اور چالاک آدمی کو اس مقصد سے یہاں بھیجا کہ وہ حضور سے مساوی حقوق کا مطالبہ کرے۔ پھر اُس نے اُس فریب سے ولی عہد کو پھنسانے کی کوشش کی۔ جس کا شکار خود سلمان ہوا تھا ان کا مقصد یہ ہے کہ اجنبی
Page 109
عورت کا حسن ولی عہد کے دل و دماغ پر قابو پا جائے۔ تا کہ ہسپانیہ کی آئندہ حکومت میں یہودی لوگ عیّاری سے اقتدار حاصل کر کے سلطنت میں دخیل ہو جائیں۔"
جب پادری نے دیکھا کہ فرڈی نینڈ نہایت توجہ سے اس کی بات سُن رہا ہے۔ تو اس نے کہا "تجھے کیا علم ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد یہودیوں کا دوسرا کام تجھے قتل کرا دینا ہو۔ تا کہ جلیل قدر اور ناقابلِ تسخیر فرڈی نینڈ کی جگہ مسحور یہودن کا غلام حکمران ہو جائے۔
بادشاہ نے متفکّر انداز سے کہا "ہاں یہ تو کافی بہانہ دکھائی دے رہا ہے۔ کہ ان زر پرستوں سے معقول رقم لی جائے۔۔۔۔۔"
پادری نے کہا "گو بظاہر ہمیں یہ سوجھا ہے کہ یہ چھپا ہوا یہودی اپنے غرناطہ اور اندلس میں رہنے والے عزیزوں کی شہ کے بغیر اتنے بڑے منصوبہ کا بار نہ اٹھا سکتا تھا۔ کیا مناسب نہ ہو گا کہ اس سے اور اس لڑکی سے بھی جو خیمے میں ہے اقبال کرایا جائے تا کہ ہمارا طرزِ عمل پختہ شہادت پر مبنی ہو۔ اور نہ صرف بے دینوں کو کسی نکتہ چینی کی جرأت نہ ہو۔ بلکہ متّقی اور منصف مزاجوں کو بھی پس و پیش نہ ہو۔ ملکۂ عالم کا دل بھی (مقدّس فرشتے ان کی حفاظت کریں) ان کافروں کے حق میں ضرورت سے زیادہ نرم ہے۔ اور۔۔۔۔۔۔۔۔"
بادشاہ نے قلع کلام کر کے کہا "صحیح ہے۔ ہماری کاروائیوں کو حق بجانب قرار دینے کے لیے ملکہ ازبیلا کو ضرور قائل کرنا چاہیے۔"
یہ بھی ثابت کرنا چاہیے کہ شاہی تخت اور بادشاہ کی جان خطرے میں ہے اور سحر کا عمل اس لئے کیا جا رہا ہے کہ ملکۂ عالم کے لختِ جگر کو ایک یہودن کی محبّت میں پھنسایا جائے۔ ساحری کی بجائے خود ایک ایسا فعل ہے کہ کلیسا جادو کرنے والے کو خارج کر دیتا ہے۔ یقیناً مخالفت کی بجائے ملکہ ہماری تجاویز کی معاون بن جائیں گی۔"
فرڈی نینڈ نے جوش سے کہا۔ "مقدّس دوست! تو ہمیشہ موجود اور آئندہ دُنیا میں تسلّی دینے والا ہے۔ یہ معاملہ ہم تیرے اور نئی طاقتوں کی تحویل میں دیئے دیتے ہیں جو تجھے عطا کی گئی ہیں۔ فوراً اس پر توجہ کر۔ وقت کم ہے۔ غرناطہ بپھرا ہوا ہے۔ اور
Page 110
خزانہ خالی ہوا جاتا ہے۔"
پادری نے آنکھیں بند کر کے اور شکریہ کے چندا الفاظ گنگنا کر کہا۔ "بیٹا! تو نے بہت کچھ کہہ دیا ہے۔ اب اس کام کو سرانجام دینا میرا کام ہے۔"
بادشاہ کا چہرہ کسی قدر متغیّر ہو گیا۔ اور اس نے کہا "مگر ذرا ٹھہر۔ اندر میری عبادت گاہ میں آ۔ میرا دل بھاری ہے۔ میں اقرارِ گناہ کی تسلّی کا خواہشمند ہوں۔"
پادری نے تعمیل کی اور فرڈی نینڈ نے جس کی عجیب و غریب قابلیتیں ضعیف ترین اوہام سے آلودہ تھیں۔ اور جو سیاسی حکمت عملی کے ماتحت سزا دیتا تھا۔ لیکن ساتھ ہی دل میں یقین رکھتا تھا کہ وہ دین داری اور خدا ترسی کی وجہ سے سزا دے رہا ہے۔ اندر جا کر انفعال کے آنسوؤں کے ساتھ اور اوراد و وظائف کے قضا کرنے اور دیگر فروگزاشتوں کا اقرار کیا۔ پادری کبھی اسے سرزنش کرتا۔ کبھی نصیحت اور کبھی تسلّی تھا۔ لیکن بادشاہ اور پادری میں سے کسی کو بھی یہ خیال نہ ہوا۔ کہ اپنے ہم جنسوں کو ایذا دینے یا ساری قوم سے جھوٹے بہانوں سے روپیہ لینے کا اقرار یا اس کی توبہ اور تلافی بجائے خود اقرارِ گناہ کا کفّارہ ادا کرنے کے قابل ہے۔