اسکین دستیاب لیلے یا محاصرہ غرناطہ

اوشو

لائبریرین
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 217

فصل سوم

شکست اور اطاعت کے درمیان وقفہ

بدنصیب ابوعبداللہ الحمرا کی عزلت میں ایک بار پھر چھپ گیا۔ اپنی ہزیمت سے وہ کس قدر بےتاب تھا، اس کی یاس کا کیا عالم تھا۔ ان جذبات کو دیکھنے یا ان میں حصہ لینے کی کسی کو اجازت نہ تھی۔ اس کی ماں نے باریابی کا مطالبہ کیا، امینہ نے منت سے التجا کی، موسےٰ نے اصرار کیا۔ لیکن ان کی ملاقات سے اس نے بہ خصوصیت انکار کر دیا۔ یہ لوگ اسے سب سے زیادہ محبوب تھے۔ اس کے دل میں ان کی سب سے زیادہ عزت تھی۔ ان ہی سے وہ سب سے زیادہ احتراز کرتا تھا۔
المامن کی پھر کوئی خبر نہ ملی۔ خیال تھا کہ وہ لڑائی میں مارا گیا۔ لیکن وہ اس قسم کے لوگوں میں سے تھا جو اگر موجود ہوں تو ان کی شخصیت اثر انداز ہوتی ہے، موجود نہ ہوں تو بھلا دئیے جاتے ہیں۔ اس اثناء میں چونکہ ویگا بالکل تاراج ہو گیا تھا۔ رسد پہنچنی بند ہو چکی تھی۔ قحط کی مصیبت روز بروز شدید اور خوفناک صورت اختیار کرتی جاتی تھی۔ عاجز اور پست مؤروں کی توجہ شہر کے اندیشے سے ہٹ کر انفرادی تکالیف و مصائب کی طرف مبذول ہو گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ ۔۔۔ 218

مصیبت زدہ یہودیوں پر نت نئی آفتیں نازل ہوئیں۔ چونکہ انہوں نے جنگ میں کچھ حصہ نہ لیا تھا (اور ان سے توقع بھی یہی تھی۔ وہ جس سرزمین میں بستے تھے۔ اس کے ساتھ ان کی کوئی ذاتی اغراض وابستہ نہ تھیں۔ اور ان کے جن بھائیوں نے مداخلت کی نامعقول حرکت کی تھی، ان کو نہایت تلخ تجربہ ہوا تھا) اس لیے اس عام مصیبت کے عالم میں بھی باہمی ہمدردی کا کوئی جذبہ نفرت و حقارت کے ان خیالات کو کم نہ کر سکا جو ان کے متعلق مدت سے دلوں میں جاگزیں تھے۔ اہل شہر فاقوں اور مصیبتوں کے نرغے میں بےانتہا خوفناک بن گئے تھے۔ اور یہودی منافع کی حرص میں اشیاءِ خوردنی بےاندازہ قیمت پر فروخت کر رہے تھے۔ جمہور کا جوشِ غضب جو شہر کی ناگفتہ بہ حالت کے باعث تمام قوانین اور بندشوں سے آزاد ہو چکا تھا۔ ان کے برخلاف بھڑک اٹھا اور ان پر نہایت وحشیانہ مظالم کی بوچھاڑ پڑنے لگی۔ جمہور نے اسرائیلیوں کے گھروں پر حملہ کر دیا۔ ان کو لوٹا، مسمار کیا اور مکانات کے مالکوں کی اس وجہ سے سخت اذیتیں دے دے کر مار ڈالہ کہ ان پر جس مال و دولت کے چھپا رکھنے کا شبہ تھا، وہ اس کا پتہ نہ دیتے تھے۔ جو چیز طلب کی جاتی، اس کا فروخت نہ کرنا جرم تھا۔ اس فروخت کرنا بھی جرم تھا۔ یہ مصیبت زدہ آوارہ وطن گھروں کے خفیہ تہ خانوں اور شہر کے قریب پوشیدہ پہاڑی غاروں کی طرف بھاگے چلے جا رہے تھے۔ اپنے مقسوم پر لعنت بھیجتے تھے اور متعصب عیسائیوں تک کی حکومت کا جؤا اٹھانے کے آرزو مند تھے۔
اسی طرح کئی روز گزر گئے۔ شہر کی حفاظت کو صرف ویران فصیلیں اور عالی شان دروازے تھے۔ درخشاں سورج افق سے بلند ہوتا تو تمام دکانیں بند اور شہر کے گلی کوچے اجڑے ہوئے نظر آتے۔ البتہ کہیں کہیں فاقہ زدہ غریب جو ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گئے تھے اور سائے سے معلوم ہوتے تھے، یاس و انتقام کے فوری جذبوں سے بےقرار ہو کر مکروہ یہودیوں کے مکانوں کے برباد اور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ ۔۔۔ 219

سلگتے ہوئے کھنڈروں کے گرد جمع دکھائی دے جاتے۔
آخر کار ابوعبداللہ خلوت و تنہائی کے خوابِ پریشان سے خود ہی چونک اتھا۔ اور جب موسےٰ کو اطلاع ملی کہ بادشاہ نے اس کو اپنے حضور طلب کیا ہے تو وہ حیران رہ گیا۔ وہ آیا تو اس نے دیکھا کہ بادشاہ اپنے عظیم الشان محل کے سب سے عالی شان ایوان میں موجود ہے۔
برج کماریز میں ایک نہایت وسیع ایوان ہے جو اب تک دارالسفرا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ابوعبداللہ نے اس وقت اسی جگہ اپنا دربار منعقد کیا تھا۔ خوش نما دیواروں پر مغلوب دشمنوں سے چھینے ہوئے اسلحہ اور علم آویزاں تھے۔ کہیں کہیں کسی عربی مصورت کی بنائی ہوئی دراز ریش بادشاہوں کی تصویریں لٹک رہی تھیں۔ ایوان کے ان جھروکوں کے قریب جہاں سے ڈارو کے کناروں کا بےانتہا دل فریب منظر دکھائی دیتا تھا، عام مجمع سے کسی قدر ہٹ کر درویش، علماء اور فقیہہ موجود تھے۔ نیم وا پردوں کے درمیان سے البرکہ کا وسیع صحن دکھائی دیتا تھا۔ اس کے کنارے کنارے پھولوں سے لدے ہوئے ستون تھے اور وسط میں وہ عظیم الشان حوض تھا جس کے باعث یہ صحن اس نام سے نامزد ہوا۔ اس پر سورج کی ترچھی کرنیں پڑ رہی تھیں۔ اور اوپر جو گلاب کے پھول پھیلے ہوئے تھے، ان کے درمیان سے لہریں چمک چمک کر آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھیں۔
دیوان عام میں ابوعبداللہ شاہی مسند کے گدیلوں پر نیم دراز تھا۔ مسند پر ایک شامیانہ تھا جس پر شاہانِ غرناطہ کا مخصوص نشان بھی اپنی درخشانی دکھا رہا تھا۔ اس شامیانہ کے دونوں طرف خاصہ کے سپاہی، حبشی غلام، خواجہ سرا، درباری اور فوجی سردار لمبی لمبی قطاروں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ نقلی اور پرتصنع شان و شوکت مُوروں کے چراغِ سحری کی آخری جھلملاہٹ تھی۔ جب موسےٰ سلطان کے قریب آیا تو اس کے چہرے کے تغیر کو دیکھ کر چونک پڑا۔ نوجوان اور حسین ابوعبداللہ کا شبابِ ارغوانی یک لخت کہولتِ زعفرانی میں تبدیل ہو گیا تھا۔ اس کی آنکھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ ۔۔۔ 220

اندر کو دھنس گئی تھیں۔ اس کے چہرہ پر جھریاں نمودار ہو گئی تھیں۔ اور اس کے عزیز کو اس کی آواز روکھی پھیکی اور شکستہ معلوم ہوتی تھی۔
وہ بولا "موسےٰ یہاں میرے قریب بیٹھو۔ اور جو اطلاعات ہم ابھی سننے کو ہیں، ان کو پوری توجہ سے سنتے رہو۔"
جب موسےٰ بادشاہ سے ذرا نیچے ایک گدیلے پر بیٹھ گیا تو ابوعبداللہ نے حاضرین میں سے ایک شخص کی طرف اشارہ کیا۔
اس نے کہا "حمید تو نے عیسائی خیمہ گاہ کا معائنہ کیا ہے۔ کیا خبر لایا؟"
مُور نے جواب دیا "ضیاء المسلمین۔ وہ اب خیمہ گاہ نہیں رہا بلکہ کبھی کا شہر بن چکا ہے۔ اس کے آباد کرنے کا کام ہسپانیہ کے نو شہروں کے سپرد ہوا تھا۔ کپڑے کی جگہ پتھر نے لے لی ہے۔ مینار اور بازاروں کی تعمیر انسانوں سے بالاتر ہستیوں کی صنعت معلوم ہوتی ہے۔ اور باطل پرست بادشاہ نے عہد کیا ہے کہ جب تک غرناطہ کی دیواروں پر پرچم ہسپانیہ لہراتا نظر نہ آئے گا، وہ اس شہر سے رخصت نہ ہو گا۔"
ابوعبداللہ نے کسی قسم کی بےتابی ظاہر کئے بغیر کہا "کہے جا۔"
"تاجروں اور سوداگروں کا جمِ غفیر وہاں روزانہ جمع ہوتا ہے۔ اچھی خاصی منڈی بن گئی ہے۔ ہمارا فاقہ زدہ ملک جن چیزوں کے لئے ترستا ہے، ان کے بازاروں میں بافراط آتی ہیں۔"
ابوعبداللہ نے مُور کر رخصت کا اشارہ کیا۔ ایک فقیہہ نے بڑھ کر اس کی جگہ لے لی۔
وہ بزرگ شخص بولا "خلیفۂ رسول اور جانِ عالم ! غرناطہ کے فقیہہ اور منّجم منت و زاری سے اپنی معروضات کی شنوائی کی التجا کرتے ہیں۔ انہوں نے فال ناموں کو دیکھا ہے اور ان کی التجائیں رسول خدا سے اشارہ پا چکی ہیں۔ انہیں معلوم ہوا ہے کہ تیری قوم اور تیری حکومت کا جلال تمام ہو چکا۔ غرناطہ کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ ۔۔۔ 221

قسمت میں شکست ہے۔ اللہ اکبر؟"
ابوعبداللہ بولا "آپ لوگوں کو بہت جلد میرا جواب مل جائے گا۔ عبداملک آگے بڑھو۔"
مجمع میں سے ایک معمّر اور سفید ریش شخص آگے برھا۔ یہ شہر کا حاکم تھا۔
بادشاہ نے کہا "ضعیف شخس۔ اب تو کہہ؟"
عبدالملک بھرّائی ہوئی آواز میں بولا۔ آنسو اس کے رخساروں پر بہہ رہے تھے۔ "آہ ابوعبداللہ۔ بادشاہوں اور سرفروشوں کی قوم کے جانشین۔ کاش آج تیرے خادم کی نعش تیرے دروازے پر پڑی ہوتی کہ ایک غیور مُور کی زبان ان الفاظ سے ناپاک نہ ہوتی جو میں کہنے کو ہوں۔ ہمارے لئے کوئی امید نہیں۔ ہمارے غلے کے کھّتے صحرا کی سرزمین کی مانند ہیں۔ ان میں حیوان اور انسان کی زندگی کے لئے سہار نہیں۔ جس جنگی رہوار کی پیٹھ کو مردِ میدان زینت بخشتا تھا وہ بھوک کے مارے گھل چکا۔ تمام رعایا یک زبان ہو کر چلا رہی ہے۔ غلامی منظور مگر روٹی۔ بس میں کہہ چکا؟"
عبدالملک ہٹ گیا تو ابوعبداللہ بولا "سفیر مصر کو حاضر کرو۔" کچھ توقف ہوا۔ ایوان کے ایک سرے کے پردے کھینچے گئے اور سلطانِ مصر کے سیاہ فام سفرا کی جماعت اپنی قوم اور سرزمین کے مخصوص انداز میں آہستہ آہستہ اور موقر قدم اٹھاتی ہوئی داخل ہوئی۔ جماعت کے چھ آدمی جواہرات اور اسلحہ کے بیش قیمت تحائف اٹھائے ہوئے تھے اور آخری چار کنیزیں تھیں جن کی رعنائی قدیم وادیٔ نیل کے لئے سرمایۂ ناز تھی۔
صدر سفارت نے کہا "آفتابِ غرناطہ اور مومنوں کے ستارۂ سحر! ہمارے خدا وند راحتِ عالم اور وردۃ الشرق سلطان مصر ابوعبداللہ کے خط کا یہ جواب دیتے ہیں۔ انہیں صدمہ ہے کہ تو نے جس کمک کا مطالبہ کیا ہے وہ اس کے بھیجنے سے قاصر ہیں اور تیری مملکت کی حالت سے باخبر ہو کر ان کا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ ۔۔۔ 222

خیال ہے کہ غرناطہ کا کسی بندرگاہ سے تعلق قائم نہیں رہا جس سے ان کی فوجیں (اگر وہ انہیں بھیج سکتے) اندلس کی سرزمین میں داخل ہو سکیں۔ ان کی التجا ہے کہ تو خداوند تعالےٰ کی ذات پر بھروسہ رکھ۔ جو اپنے برگزیدہ بندوں کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتا۔ حضور اپنے خلوص و محبت کے اظہار میں یہ تحفے خداوند نعمت کے قدموں میں بطور نذر پیش کرتے ہیں۔"
ابوعبداللہ نے ہونٹ چبا کر کہا "یہ تحائف بہت پسندیدہ اور برمحل ہیں۔ ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔" سفرا دیوانِ عام سے رخصت ہوئے تو بہت دیر تک سناٹا چھایا رہا۔ یکایک ابوعبداللہ نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھایا اور شاہانہ نظروں سے ایوان کا جائزہ لیا۔ "فرڈی نینڈ ہسپانیہ کے نقیبوں کو اجازت ہے۔"
موسےٰ کے ہونٹوں سے ایک بےبس آہ دلدوز نکل گئی۔ چاروں جو شجاع فوجی سردار کھڑے تھے یہ آہ ان میں یاس و اکراہ کا زیر لب شکرہ بن کر گونجی لیکن اس مختصر سی بےتابی کے بعد سکوت مزار طاری ہو گیا۔ یہاں تک کہ شاہی نشست کے سامنے کے پردوں میں سے ہسپانی سُورماؤں کی درخشاں و فروزاں زرہیں دکھائی دینے لگیں۔ یہ متکبر ملاقاتی جن کے جوتوں کی آہنی ایڑیاں مرمریں فرش پر شور پیدا کر رہی تھیں، ایک معزز اور وجیہہ شخص کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔ وہ خود کے سوا تمام اسلحہ سے مسلّح تھا۔ اس نے ازرقی رنگ کا ایک لبادہ پہن رکھا تھا اور اس پر نقرئی تاروں سے ایک صلیب کڑھی ہوئی تھی، جو صلیبی لڑائیوں کا لوائے امتیاز تھی۔
اس کے وجیہہ چہرے پر نامناسب تمکنت یا غیر معمولی مسرت کا کوئی نشان نہ تھا بلکہ ایک فیاضانہ رحم نے اس کی حاکمانہ نظروں کی چمک کو مدھم اور جنگی وضع کی کرختگی کو کم کر دیا تھا۔ یہ جذبۂ رحم وہی تھا جو بہادر لوگ اپنے مفتوح دشمنوں کے لئے محسوس کیا کرتے ہیں۔
وہ اور اس کے ہمراہی نہایت ادب سے تعظم و تکریم بجالاتے ہوئے بادشاہ کے پاس تک پہنچے اور پھر پیچھے ہٹ کر نقیب کو اشارہ کیا جو ان کے ہمراہ تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ ۔۔۔ 223

اور جس کے لباس سے سینہ اور پشت پر ہسپانیہ کا شاہی نشان بنا ہوا تھا۔
نقیب ایسی بلند آواز سے بولا کہ دیوانِ عام گونج اٹھا اور گم سم حاضرین کے دل میں مختلف جذبات سے ایک سنسنی پیدا ہو گئی۔ اراگون کا فرڈی نینڈ اور قشطالہ کی ازابیلا سلطان ابوعبداللہ کو اپنا شاہانہ سلام کہتے ہیں۔ انہوں نے فرمان دیا ہے کہ میں ان کی طرف سے یہ امید ظاہر کروں کہ جنگ بالآخر تمام ہو گئی اور وہ شاہِ غرناطہ کو اطاعت کی ایسی شرائط پیش کرتے ہیں جنہیں ایک تاجدار ذلت و اہانت کے بغیر قبول کر سکتا ہے۔
"آں حضور عیسائی بادشاہ اور ملکہ اس شہر کو اپنے قلمرو میں شامل کرنا چاہتے ہیں اور ان کی آرزو بجا اور مناسب ہے۔ لیکن اے بادشاہ اس کے عوض میں وہ کوہستان الفجارہ کا اعلےٰ علاقہ آپ کے زیر نگیں کرنا چاہتے ہیں۔ بشرطیکہ آپ شاہ ہسپانیہ کی عقیدت کا حلف اٹھائیں ملک معظم اور ملکہ معظمہ غرناطہ کے باشندوں سے وعدہ فرماتے ہیں کہ ان کے اپنے حکام اور قوانین کے ماتحت اہلِ غرناطہ کی جان، ان کا مال، ان کا مذہب پوری طرح محفوظ رہے گا۔ تین سال تک ان کے محاصل معاف ہوں گے اور اس کے بعد مروجہ شرح محصول کے لحاظ سے ان پر محصول مقرر ہو گا جو مُور ان شرائط کو ناپسند کر کے غرناطہ سے ہجرت کرنا چاہیں گے۔ انہیں سفر خرچ دے کر مال و اسباب سمیت جانے کی اجازت دی جائے گی۔ ان مراحم خسروانہ کے عوض جہاں پناہ (اگر کمک نہ پہنچےتو ) ستر دن کے اندر اندر غرناطہ کی اطاعت کا مطالبہ کرتے ہیں۔
"اور یہ شرائط باضابطہ طور پر عالی نژاد اور قرطبہ کے شہرۂ آفاق سُورما گنسالوو کے سامنے جو شاہ فرڈی نینڈ اور ملکہ معظمہ کی طرف سے ان کے نئے شہر سامتافی سے بھیجے گئے ہیں۔ معرض تحریر میں آئی ہیں۔ اور ان ہی کی معرفت بھیجی جاتی ہیں۔"
جب نقیب اپنی تقریر ختم کر چکا تو ابوعبداللہ نے اپنے عظیم الشان دربار کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ ۔۔۔ 224

ہجوم پر نظر ڈالی۔ کوئی نظر اس کی مانند شعلہ بار نہ تھی۔ خاموش ہجوم میں صرف تسلیم و رضا کے آثار تھے۔ شرائط محصورین کی امیدوں سے بڑھ کر تھیں۔
ابوعبداللہ نے ایک گہری آہ بھر کر کہا "اور اگر ہم ان شرائط کو مسترد کر دیں؟"
گنسالود نے دل سوزی سے کہا "عالی نژاد سلطان۔ ہمیں مجبور نہ کر کہ صورتِ انکار میں اپنا طرزِ عمل بیان کر کے تیری سماعت کو صدمہ پہنچائیں۔ اطمینان اور تامل سے ہمارے شرائط پر غور کر اور اگر تیرے دل میں ذرا سا شبہ بھی ہو تو اپنے الحمرا کے برجوں پر چڑھ کر اپنی دیواروں کے نیچے ہمارے عساکر کو صف بستہ دیکھ اور پھر ان شجاع لوگوں پر نظر ڈال، جنہیں انسانی بہادری نے نہیں بلکہ قحط اور خدا کی بعید الفہم قدرت نے مغلوب کر دیا ہے۔"
"شریف نصرانیو! غالباً رات پڑنے سے پہلے پہلے تمہارے بادشاہ کو ہمارا جواب مل جائے گا اور تو اے بہادر سُورما جو ایک ایسے پیغام کا حامل ہے جسے کوئی بادشاہ خون کے گھونٹ پئے بغیر نہیں سک سکتا۔ اپنے شریفانہ طرزِ عمل کے لئے جس نے اس سفارت کی تلخی کو بہت کم کر دیا ہے، کم از کم ہمارا شکریہ قبول کر۔ تمہاری فرود گاہ میں ہمارا وزیر وہ تحائف یادگار پہنچا دے گا جنہیں بخشنے کی شاہ غرناطہ ابھی توفیق رکھتا ہے۔
جب ہسپانی بارگاہ سے رخصت ہو گئے تو بادشاہ نے پھر سلسلۂ گفتگو شروع کیا اور کہا "موسےٰ تو نے سب کچھ سن لیا۔ اب تو اپنے بادشاہ کو آخری مشورہ کیا دیتا ہے؟"
آتش مزاج مُور ان جذبات کے اظہار کے لئے جنہیں صرف موت ہی اس ناقابلِ تسخیر دل سے مٹا سکتی تھی، بہت بےچینی سے بادشاہ کی اجازت کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ اتھا۔ مسند پر سے نیچے اتر آیا اور شاہی نشست سے کسی قدر نیچے کھڑا ہو کر اور غرناطہ کے بقیہ داناؤں اور سُورماؤں کے ہفت رنگ مجمع کو مخاطب کر کے یوں بولا:۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ ۔۔۔ 225

"ہم کیوں اطاعت قبول کریں؟ ابھی تک شہر پناہ میں دو لاکھ نفوس موجود ہیں۔ ان میں سے کم از کم بیس ہزار مُور ایسے ہیں جو قوی بازو اور صاحب السیف ہیں۔ پھر ہم کیوں اطاعت قبول کریں؟ صحیح ہے کہ قحط نے ہم کو پریشان کر رکھا ہے، لیکن بھوک جو شیر کو زیادہ تند بنا دیتی ہے، کیا ہم کو اور ذلیل بنا جائے گی؟ کیا تم مایوس ہو گئے ہو؟ ہو جاؤ کیونکہ یاس سُورماؤں میں ناقابل مزاحمت قوت پیدا کر سکتی ہے۔ یاس نے بزدلوں کو دلیر بنا دیا ہے۔ کیا یہ بہادروں کو ذلیل تر بنا جائے گی؟ اب تک ہم خواص پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ کرتے رہے ہیں۔ آؤ اب ہم عوام کو برانگیختہ کریں۔ آؤ۔ کہ ہم اپنی تمام قوت فراہم کریں اور اس حالت میں کہ ہسپانیہ کے سپاہی اپنی معماری کے جدید پیشے میں مصروف ہیں، اس نئے شہر پر حملہ آور ہوں۔ اے مسلمانوں کے خدا اور رسول۔ اس کی سن۔ جس نے کبھی جھوٹا حلف نہیں اٹھایا۔ غرناطہ کے مُورو۔ اگر تم نے میرے مشورہ پر عمل کیا تو میں تم سے فتح کا وعدہ نہیں کرتا، لیکن میں وعدہ کرتا ہوں، اس کے بغیر تم زندہ نہ رہو گے۔ میں کم از کم تم سے تمہاری آزادی کا وعدہ کرتا ہوں۔ کیونکہ شہید پابند سلاسل نہیں۔ اگر ہم زندہ نہیں رہ سکتے، تو آؤ، ہم اس طرح مریں کہ دور دراز نسلوں کے لئے ایک عظمت کی یادگار باقی رہ جائے۔ سلطنتوں اور حکومتوں سے زیادہ مستقل، سلطان غرناطہ۔ موسےٰ ابن ابی غازان کا مشورہ یہ ہے۔"
شہزادہ چپ ہو گیا۔ جس شخص کا معمولی سے معمولی لفظ کبھی نامردوں تک کے سینے میں شعلے بھڑکا دیا کرتا تھا، آج اس کا جوشِ تقریر ایک بےجان اور سرد مجمع پر اکارت گیا۔ کسی نے جواب نہ دیا۔ کسی میں حرکت پیدا نہ ہوئی۔ صرف ابوعبداللہ امید کا چھوٹا ہوا دامن پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ آخر کار وہ سامعین کی طرف متوجہ ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ ۔۔۔ 226

اور بولا "بہادرو اور مدبّرو۔ موسےٰ کا مشورہ تمہارے بادشاہ کی عین خواہش ہے۔ اس کی تائید کرو۔ اور اس سے پیشتر کہ شیشۂ ساعت ریت کا آخر ذرہ صرف کرے، دیوار مبلا ہمارے قرنا سے گونج رہا ہو گا۔"
فقیہوں کے سرگروہ نے جواب دیا "اے بادشاہ تقدیر کے خلاف جنگ نہ کر۔ اللہ اکبر؟"
عبدالملک نے کہا "افسوس۔ اگر تمہاری اور موسےٰ کی تقریر ہم لوگوں کو متاثر نہیں کر سکتی تو تم فاقہ زدہ اور مایوس لوگوں کو کس طرح برانگیختہ کر سکتے ہو؟"
ابوعبداللہ نے کہا "تو پھر یہی ہے تم سب کا خیال۔ تم سب کی مرضی؟"
دبی زبان سے سب نے کہا "ہاں۔"
سوختہ اختر بادشاہ نے سلسلۂ گفتگو جاری رکھا "عبدالملک جاؤ۔ ان ہسپانیوں کے ساتھ عیسائی خیمہ گاہ کو جاؤ اور جو بہترین شرائط حاسل کر سکتے ہو۔ لے کر آؤ۔ تاج الزغیبی کے سر سے اتر گیا۔ بدبختی نے اپنی مہر میری پیشانی پر ثبت کر دی۔ بدقسمت تھا میری سلطنت کا آغاز۔ بدقسمت ہوا اس کا انجام۔ دربار برخاست۔"
ابو عبداللہ کے ان الفاظ نے مجمع کو جو اس کی شریف النفسی، علمیت، تدبر اور فطری شجاعت سے کبھی یوں آگاہ نہ ہوا تھا، بے انتہا متاثر کیا۔ بہت سے لوگ آنسو بہاتے اور سسکیاں لیتے ہوئے اس کے قدموں میں گر پڑے اور ایک جمِ غفیر اس کی قبا کا دامن چھونے کے لئے اس کے گرد جمع ہو گیا۔
موسےٰ نے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر باندھ رکھے تھے۔ سانس اس کے سینے میں بےقرار تھا۔ وہ حقارت سے ان کو دیکھ رہا تھا۔
اس کے منہ سے بےساختہ نکلا "مرد نہیں، تم عورتیں ہو۔ آنسو بہاتے ہو۔ گویا تم میں لہو نہیں رہا جو بہاؤ۔ اپنی آزادی کو کھو کر شاکر ہو۔ کیونکہ تم سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ ۔۔۔ 227

کہا جاتا ہے۔ تمہیں اور کچھ نقصان نہ پہنچے گا۔ سادہ لوح بےوقوفو۔ تمہاری نسبت جس بلندی پر میں موجود ہوں، وہاں سے میں اس تاریک اور نحس مستقبل کو دیکھ رہا ہوں، جس کی طرف تم گھٹنوں کے بل رینگتے ہوئے جا رہے ہو۔ سن لو اور یاد رکھو۔ اشتداد اور غلامی کا دور ہو گا۔ طمع حرص و آز قانون کی قیود سے آزاد ہو گی۔ مخالف مذہب کی عقوبتیں ہوں گی۔ تمہارے مال و متاع کی جبراً ضبطی ہو گی۔ اور اس سرزمین سے تمہاری قوم ہستی کی تباہی۔
"ابوعبداللہ الوداع۔ میں تم پر ترس نہیں کھاتا۔ کیوں کہ تمہارے باغوں میں اب تک زہریلی بوٹیاں موجود ہیں۔ اور تمہارے اسلحہ خانے ایک تلوار سے محروم نہیں۔ غرناطہ کے رئیسو اور بزرگو۔ الوداع۔ میں وطن سے اس کی آزادی کی حالت میں رخصت ہوتا ہوں۔"
تقریر بمشکل تمام ہوئی تھی کہ وہ ایوان سے غائب ہو چکا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا غرناطہ کی روح اسے الوداع کہہ گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اوشو

لائبریرین
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 236

قربانی

آفتاب آہستہ آہستہ ارغوانی بادلوں کے اس بےپایاں ہجوم میں ڈوب رہا تھا جو سرزمین آئیبیریا کے آسمان کا حصہ ہیں۔ دونوں راہرؤں نے جنگل سے نکل کر ایک چھوٹا سا مگر دل فریب میدان اپنے سامنے دیکھا، جس کی کاشت باغ کی مانند بہت احتیاط سے کی گئی تھی۔ نارنگی اور ترنج کے پودوں کی قطاروں کے پیچھے انگور کی بیلوں کے سیاہی مائل سبز پتے نظر آ رہے تھے۔ ان کی پشت پر شاہ بلوط اور صنوبر کے شوخ رنگ درختوں نے گھیرا ڈال کر ایک دیوار قائم کر دی تھی۔ اور بہت پرے افق پر دور دراز سلسۂ کوہ کا ہلکا ہلکا خاکا نظر آ رہا تھا، جسے آسمان کے لطیف رنگوں میں سے امتیاز کرنا دشوار تھا۔ دل فریب سبزہ زار کے درمیان ایک پتلی جھلملاتی ہوئی ندی رواں تھی۔ اس کا پانی ایک دائرہ نما حوض میں جمع ہو جاتا تھا، جس پر گلاب اور نارنگی کی رنگارنگ کلیاں جھکی پڑتی تھیں۔ اس سبزہ زار یا میدان کی نسبت کسی قدر بلندی پر ایک خانقاہ کے مینار دکھائی دے رہے تھے۔ اور گو ابھی تک دن کی صاف روشنی موجود تھی، لیکن لمبے اور مخروط وضع کے دریچوں میں سے اندر کے چراغوں کی روشنی نظر آ رہی تھی۔ جب سواروں نے اس عمارت پر نظر ڈالی تو اس کے اندر سے مجمع کے نغمۂ حمد کی آواز صاف اور معطر ہوا میں سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ ۔۔۔ 237

گزر گزر کر آ رہی تھی۔ دور سے آنے والی ہلکی ہلکی آواز، دونوں وقت ملنے کی خاموشی، اس مقام کی دلفریب تنہائی اور گرداگرد کے مناظر سے بیگانگی، جو خانقاہ کی ساکن و خاموش زندگی کے مناسبِ حال تھی۔ نغمے میں طرّہ ترنم و تقدس ایزاد کر رہی تھی۔
لیکن معلوم ہوتا تھا یہ منظر اور آواز جو ایسے سکون بخش اور خیالات کو ہم آہنگ کرنے والے معلوم ہوتے تھے، المامن کو بےانتہا بےتاب اور درد و کرب میں مبتلا کر رہے تھے۔ اس نے اپنی بند مٹھیوں سے اپنے سینہ پیٹ لیا۔ اور بولا۔ تو معلوم ہوتا تھا گویا چیخ کر فرید کر رہا ہے۔ "میرے اجداد کے خدا! کیا میں دیر میں پہنچا ہوں؟" یہ کہہ کر اس نے اپنے مہمیز کے خار بےدم گھوڑے کے پہلوؤں میں گھونپ دئیے۔ سبزہ زار اور معطر جھاڑیوں میں سے، پایاب اور سنگریزوں سے بھری ہوئی ندی میں سے گزرتا ہوا، اسرائیلی تیزی سے اس بلندی پر چڑھا جا رہا تھا جس کے اوپر خانقاہ بنی ہوئی تھی۔ موسےٰ اس کی اس حرکت پر بادلِ ناخواستہ اس کے پیچھے پیچھے کسی قدر فاصلے پر جا رہا تھا۔ حمد گانے والے طائفے کی آواز قریب اور واضح ہوتی جاتی تھی۔ گاتھ وضع کے دریچوں کی روشنی صاف اور تیز نظر آتی جا رہی تھی۔ خانقاہ کے گرجے کا صدر دروازہ آ گیا۔ یہودی گھوڑے پر سے کودا۔ چند دیہاتی جن کی گذر اوقات کی کفیل خانقاہ تھی، احترام سے ادھر ادھر ٹہل رہے تھے۔ا ن کو ہٹاتا ہوا جیسے کوئی دیوانہ ہو، المامن گرجے میں جا گھسا اور غائب ہو گیا۔
ایک لمحہ گزرا تھا کہ موسےٰ بھی دروازے پر موجود تھا۔ لیکن اس نے گھوڑے پر سے اترنے میں کچھ تامل و توقف کیا اور دیہاتیوں سے پوچھا "اندر کیا تقریب ہے؟"
ایک نے جواب دیا "ایک لڑکی ترک دنیا کا حلف اٹھانے والی ہے۔"
اسی وقت گرجے میں خوف و خطر اور غصے کی آوازیں سنائی دیں۔ اب موسےٰ نے ذرا بھی توقف نہ کیا۔ اس نے گھوڑا ایک شخص کے سپرد کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ ۔۔۔ 238

جو قریب کھڑا تھا۔ بھاری پردے جنہوں نے دروازہ چھپا رکھا تھا، ہٹائے اور اندر جا موجود ہوا۔
قربان گاہ کے پاس راہب عورتوں کا ایک گروہ اپنے سردار کے ساتھ بےانتہا پریشانی اور بدنظمی کی حالت میں جمع تھا۔ متبرک کٹہرے کے گرد مبہوت و دم بخود تماشائی جمع تھے۔ سب سے اوپر منبر پر المامن نمایاں نظر آ رہا تھا۔ اس کے دائیں ہاتھ میں برہنہ خنجر تھا اور اس نے بائیں ہاتھ سے ایک لڑکی کو تھام رکھا تھا۔ چونکہ لڑکی کو ابھی تک سرج کا لباس نہ پہنایا گیا تھا۔ یہ تخصیص اس امر کی شاہد تھی کہ وہ نقابِ رہبانیت پہننے کے لئے لائی گئی ہے۔ اور اس لڑکی کے دوسری طرف ایک ہاتھ اس کے کندھے پر رکھے اور دوسرے ہاتھ سے بلند اور مقدس صلیب کو تھامے ایک درشت صورت رعب و داب کا آدمی راہبوں کی سفید عبا پہنے کھڑا تھا۔ یہ تومس ٹارکویمیڈا تھا۔
موسےٰ گرجے کے بغلی راستے کے درمیان میں کھڑا تھا۔ اس پر کسی کی نظر نہ پڑی تھی۔ پہلے الفاظ جو اس کے کان میں پہنچے، یہ تھے "چھوڑ دے! چلا جا! تیرے سحر اور ہنر یہاں تیرے کام نہیں آ سکتے۔ خدا کی اس عقیدت مند پرستارہ سے دست بردار ہو جا۔"
"یہ میری بیٹی ہے۔ میری بیٹی ہے۔ میں انسانوں کے اس عظیم و جلیل آسمانی باپ کا واسطہ دے کر باپ ہونے کی حیثیت سے میں تجھ سے اس کا مطالبہ کرتا ہوں!"
المامن نے ایک گردش میں منتشر اور دہشت زدہ گروہ کے درمیان سے اپنے لئے راستہ صاف کر لیا۔ اور اپنی بیٹی کو گود میں لے کر مقدس چبوترے کی پہلی سیڑھی پر جا کر کھڑا ہو گیا۔ محتسب چلایا "پکڑ لو۔ اس ساحر کو پکڑ لو!"
کوئی قدم نہ سرکا۔ کوئی ہاتھ نہ بڑھا۔ دست انداز کو جس لفظ سے مخاطب کیا گیا تھا اس کے باعث حاضرین پر ایک مافوق الفطرت خوف طاری تھا۔ اس خوفناک اجنبی کی نسبت جس کا برہنہ خنجر بلند تھا اور چہرے پر وحشت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ ۔۔۔ 239

برس رہی تھی، شیر کے بھٹ میں گھس کر اس پر حملہ کرنا انہیں نسبتاً آسان نظر آتا تھا۔
اور پھر ایک دھیمی سی آواز آئی۔ جسے سن کر موسےٰ چونک پڑا۔ اور اسے ایسا معلوم ہوا گویا قبر میں سے آ رہی ھے۔ "میرے باپ! خدا کے فیصلے کے خلاف جد و جہد نہ کر۔ تیری بیٹی کو اس مذہبی انتخاب پر کسی نے مجبور نہیں کیا۔ اور جس انکسار مگر دلی عقیدت کے ساتھ اس نے عیسائی مذہب قبول کیا ہے، اس کے باعث اس دنیا میں اس کی صرف یہ خواہش ہے کہ اس مقدس اور دوامی عہد کو راسخ کرے۔"
یہودی نے یک لخت لڑکی کو چھوڑ دیا اور لڑکی گھٹنوں کے بل اس کے سامنے گر پڑی۔ یہودی کے منہ سے آہِ دلدوز نکلی اور وہ بولا "تو میں نے جس بدترین انجام کو سوچا تھا اور جو مجھے بتایا گیا تھا وہ صحیح ہے؟ پردہ پارہ پارہ ہو چکا۔ روح معبد جسم سے پرواز کر چکی۔ تیرا حسن ناپاک ہو چکا۔ تیرا جسم بھی صرف کثیف مٹی ہے۔" وہ مڑا اور محتسب کے ساکن چہرے کو گھور گھور کر اور زیادہ جوش سے بولنے لگا۔ "کتے! یہ تیرا کام ہے۔ لیکن تو فتح یاب نہ ہو گا۔ یہاں تیری اپنی قربان گاہ کے قریب۔ جس طرح پہلے تیری انسانیت سوز عدالت میں عذابوں کے درمیان تیری توہین کر چکا ہوں۔ اب بھی تیری توہین کرتا ہوں۔ اور تجھ پر تھوکتا ہوں۔ یوں۔ یوں۔ یوں المامن یہودی اپنی نسل کی آخری یادگار کو گلیلیوں کی لعنت سے بچائے گا۔"
ایک گرجتی ہوئی آواز سنائی دی "قاتل۔ رک جا!" اور ایک مسلح شخص مجمع کو چیرتا پھاڑتا ہوا چبوترے پر جا کھڑا ہوا۔ لیکن وہ بعد از وقت پہنچا۔ یہودی کی چھری تین مرتبہ سینے کے آرپار ہو کر تینوں مرتبہ اس پاک اور عفیف خون سے سرخ ہو چکی تھی۔ لیلےٰ اپنے چاہنے والے کے بازوؤں میں گر پڑی۔ اس کی نظریں اس کے چہرے پر جو اٹھے ہوئے خود کے نیچے درخشاں تھا، جمی ہوئی تھیں۔ ایک خفیف سا لطیف سا تبسم اس کے ہونٹوں پر کھیل رہا تھا۔۔۔۔۔۔ لیلےٰ تمام ہو چکی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ ۔۔۔ 240

المامن نے اپنے کشتے پر ایک چھچھلتی ہوئی نظر ڈالی۔ اور پھر ایک وحشیانہ قہقہے کے ساتھ جو تمام غلام گردشوں میں گونج اٹھا، وہ اپنی جگہ سے اچھلا، سرخ خنجر کو اپنے سر پر گھماتا ہوا، مرعوب مجمع کو چیرتا پھاڑتا گزر گیا، اور ابھی مبہوت مقتدائے اعظم کے حلق سے آواز بھی نہ نکل سکی تھی کہ خاموشی میں اس کے سرپٹ گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز سنائی دی۔ اور ایک لمحہ میں سکوتِ مزار طاری ہو گیا۔
لیکن مُور مقتول لڑکی پر جھکا ہوا تھا۔ اسے ابھی تک اس کی موت کے متعلق شبہ تھا۔ لڑکی کا سر جس پر سے سنہری زلفیں ابھی تک تراشی نہ گئی تھیں، اس کی گود میں رکھا تھا۔ ٹھنڈے یخ ہاتھ اس کے ہاتھوں میں تھے۔ اور لڑکی کا خون اچھل اچھل کر اس کی زرہ کو رنگین بنا رہا تھا۔ کوئی مخل نہ ہوا۔ کیونکہ دنیائے عیسائیت کے شہسواروں کے لباس میں کسی کو اس کے اعتقاد پر کچھ شبہ نہ تھا۔ اور اس کی مصیبت پر سب کے دل میں یہاں تک کہ پادری کے دل میں ہمدردی کی لرزش دوڑ گئی تھی۔ وہ یہاں کیوں آیا تھا۔ اس کا کیا مقصد تھا۔ اس کے دل میں کیا کیا امیدیں تھی۔ کسی کا خیال وفور ہمدردی میں قیاس نہ کر سکتا تھا۔ وہ چپ چاپ اور بےحس و حرکت سر جھکائے وہاں بیٹھا رہا۔ یہاں تک کہ ایک راہب نے برھ کر نبض دیکھی، کہ معلوم کرے زندگی کی تمام امیدیں تو منقطع نہیں ہو چکیں۔
پہلے موسےٰ نے رعونت سے ہاتھ ہلا کر اسے روکنا چاہا، لیکن جب اس نے راہب کا منشاء سمجھ لیا تو درد بھری خاموشی سے اسے اپنی محبوبہ کا ہاتھ تھام لینے دیا۔ اس کی سیاہ ملتجی آنکھیں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ لیکن جب راہب نے ہاتھ چھوڑ دیا اور آہستہ آہستہ سے سر ہلا کر واپس چلا گیا تو صرف ایک گہرا نعرۂ درد تھا، جو حاضرین کو اس دل سے نکلتا ہوا دکھائی دیا جس میں تقدیر کا آخری خنجر دو سار ہو چکا تھا۔ اس نے اس ملکوتی چہرے کے ابروؤں، رخساروں اور ہونٹوں کو جوش سے چوما اور اس جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ ۔۔۔ 241

ٹومن سے قریب آ رک کہا "تو یہاں کیسے آیا۔ اور اس خدا اور انسان کے دشمن کے متعلق تجھے کیا علم ہے؟" موسےٰ نے کچھ جواب نہ دیا اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا گرجے سے باہر نکل گیا۔ حاضرین کے آنسو نکل پڑے اور ان سب نے تقریباً متفقہ طور پر کہا "چپ ہو جا۔ اس میں تجھ کو جواب دینے کی تاب نہیں ہے۔"
اس طرح کے روح فرسا صدمہ اور عیسائی مجمع کی ہمدردی کے درمیان وہ نامعلوم مسلم دروازے تک پہنچ گیا۔ اپنے گھوڑے پر سوار ہوا۔ اور جب ایک مرتبہ اس نے سر پھرایا کہ اس نحس عمارت کو دیکھے تو گرد کھڑے لوگوں نے دیکھا کہ اس کے گندمی رخساروں پر موٹے موٹے آنسو بہہ رہے ہیں۔
آہستہ آہستہ سیاہ رنگ گھوڑا بلندی کے گرد پھر پھر کر اترا۔ خاموش و دل فریب باغ میں سے گزرا۔ اور جنگل میں غائب ہو گیا۔ اور پھر کبھی مُوروں یا عیسائیوں کو غرناطہ کے مردِ میدان کا کچھ حال معلوم نہ ہو سکا، آیا وہ اپنے آبا و اجداد کے وطن افریقیہ کے ساحلوں پر صحیح سلامت پہنچ گیا اور اس نے نئی شہرت اور نیا نام پیدا کیا، یا علالت و مجادلہ نے اس کے مختصر ترین مگر شان دار کارناموں کی زندگی کو گمنامی میں تمام کر دیا۔ یہ ایک راز ہے جو ان ہزاروں مطربوں کے تخیلات و افکار سے بھی نہیں سلجھ سکتا، جنہوں نے اس کے کارناموں کو حیات جاوداں بخشی۔ موسےٰ ابن ابی غازان کا مقسوم اسی لمحے سے ایک دائمی تاریکی اور ایک پُراسرار ظلمت میں پوشیدہ ہے جب غروب ہوتا ہوا آفتاب اپنی وداعی شعاعیں اس کے قامت شاہانہ اور شبدیز سیاہ فام پر ڈال رہا تھا، اور وہ بیابان کی سنسان تاریکی میں غائب ہو رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 228

فصل چہارم

تنہا شہ سوار کی سرگذشت

چلچلاتی دھوپ پڑ رہی تھی۔ اور غرناطہ سے میلوں دور ایک چھوٹی سی وادی میں جس کے دونوں طرف بلند و سنگلاخ پہاڑیاں تھیں، ایک مسلح سوار تنہا اپنی مسافت طے کر رہا تھا۔ اس کی زرہ سیاہ رنگ اور آرائش سے معرا تھی۔ اس کے خود پر کوئی طرہ نہ لہرا رہا تھا۔ کوئی ملازم ہمرکاب نہ تھا۔ ساز و سامان بھی زینت و درخشانی سے عاری تھا، لیکن اس کے انداز و اطوار اور شبدیز سیاہ رنگ کے نادر حُسن میں کوئی ایسی بات تھی کہ ان تمام باتوں کے باوجود سرسری نظر سے دیکھنے والوں پر اس سوار کے علو مرتبت کا کافی رعب و داب پڑتا تھا۔ سوار بہت آہستہ آہستہ جا رہا تھا، جہاں کہیں ذرا سی گھاس یا کسی جھکے ہوئے درخت کی ہری بھری شاخ کو دیکھ کر گھوڑے کے مُنہ میں پانی بھر آتا۔ تو وہ تپتے وہئے راستہ میں اس منظور نظر کی طرح اڑ کر کھڑا ہو جاتا۔ جسے کسی محسن کی مہربانیوں نے ضدی اور گُستاخ بنا دیا ہو۔ آخر ایک جگہ جب وہ اسی طرح اڑا کھڑا ہوا تھا۔ گنجان درختوں کے اس جُھنڈ میں سے جو ڈھلوان پہاڑ کے راستہ کی پردہ پوشی کرتا تھا۔ شور و غل کی آواز سُنائی دی۔ گھوڑا بدک کر پیچھے ہٹا اور سوار اپنی محویت سے دفعتاً چونک پڑا۔ اس نے بے ساختہ نظر اٹھائی، تو دیکھا۔

لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 229

کہ ایک شخص تیز اور بے قاعدہ قدم اٹھاتا ہوا درختوں کے درمیان پھلانگتا چلا آ رہا ہے۔ اس کی ہیئت کذائی اس مقام کی خاموشی اور سُنسانی کے مناسب حال تھی۔ اور خیال کیا جا سکتا تھا۔ کہ وہ ان دُرشت خو گوشہ نشینوں کی طرح جو حروب صلیبیہ کے زمانۂ آغاز میں فلسطین کے غاروں اور رتیلے ٹیلوں کے درمیان عُزلت گزیں تھے۔ سپاہی بھی ہے اور انداز درویشانہ بھی رکھتا ہے۔ اجنبی نے سنبھل کر چلنے کےلیے ایک لمبا عصا پکڑ رکھا تھا۔ اس کی داڑھی اور سر کے بال لمبے لمبے تھے۔ اور اس کے فراخ شانوں پر الجھے ہوئے پڑے تھے۔ زنگ آلود زرہ جو کبھی قیمتی نقش و نگار سے شان دار معلوم ہوتی ہو گی۔ اس کے سینے کی محافظ تھی۔ لیکن اونی کپڑے کی ڈھیلی ڈھالی عبا جو زرہ بکتر سے بھی نیچے لٹک رہی تھی۔ نہایت کُہنہ و پارینہ ہو رہی تھی۔ پاؤں ننگے تھے اور کمر کے پٹکہ میں ایک چھوٹا سا خمدار خنجر۔ ایک پیش قبض۔ اور ایک چرمی قرطاس تھا۔ جو آہنی پتروں کے درمیان بخوبی محفوظ تھا۔

جب سوار نے اس شخص کو غور سے دیکھا۔ جس نے اس کی تنہائی کو یک لخت درہم برہم کر دیا تھا۔ تو اس کا تمام جسم شدت جذبات سے کانپنے لگا۔ اور اس نے تن کر اور اکٹر کر بلند آواز میں کہا، "شیطان یا درویش تو جو کچھ بھی ہے، تیری مشوروں نے بادشاہ کو گمراہ کیا۔ تیری باطل پیشن گوئیوں اور تیرے نامسعود افسوں نے شہر دشمن کے حوالے کرا دیا۔ اب تو اس شہر اور شہریار سے اتنی دور ان ویران مقامات میں کیا تلاش کر رہا ہے؟"

یہ المامن یہودی تھا۔ اس نے چیخ کر کہا، "ہا۔ اپنے سیاہ گھوڑے اور پُر رعونت آواز سے تو غرناطہ کے مرد میدان معلوم ہوتا ہے۔ موسےٰ ابن ابھی غازان تو تو بتا۔ کہ تُو مُوروں کی سلطنت کے آخری مقام پناہ سے کیوں غیر حاضر ہے؟"

"تو مستقبل کے علم کا تو دعوے کرتا ہے۔ اور حال سے بے بہرہ ہے؟ غرناطہ نے اپنے آپ کو ہسپانیہ کے حوالے کر دیا۔ اس غلاموں کی سرزمین سے صرف

لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 230

میں نے ہجرت کی۔ اور اب اپنے آبائی وطن افریقیہ میں کوئی ایسا مقام ڈھونڈوں گا جسے کفار کے قدموں نے پامال نہ کیا ہو۔"

المامن نے اداس ہو کر کہا، "ایک تعصب کی قسمت کا تو فیصلہ ہو چکا۔ لیکن آہ! کہ اس کی جگہ جو دوسرا تعصب مسلط ہو گیا۔ وہ پہلے سے بھی تاریک تر ہے۔"

موسےٰ نے اپنا نیزہ سنبھال کر کہا، "کُتے! تو کون ہے۔ جو یوں کفر بکتا ہے؟"

المامن نے اپنا خنجر نکال لیا۔ اور گرج کر کہا، "یہودی! نفرت کا عادی اور نفرت کا شکار یہودی! اور سُنے گا؟ تاجداروں کی نسل سے ہوں۔ جب تک میں نے نصرانیوں کو مُوروں سے بدتر نہ پایا۔ مُوروں کا بدترین دشمن تھا۔ اور اس وقت خود موسےٰ بھی مجھے سے بڑھ کر ان کی پُشت پناہ نہ تھا۔ اگر تو چاہتا ہے تو آ۔ مردوں میں مجادلہ ہو جائے۔ میں تجھے دعوت مبازرہ دیتا ہوں۔"

موسےٰ نے نیزہ جُھکا لیا۔ اور آہستہ سے کہنے لگا، "نہیں۔ تیری زرہ ہسپانی خون سے زنگ آلود ہے۔ اور یہ باز و عیسائیوں کے قاتل پر وار نہیں کر سکتا۔ ہم صلح و آشتی سے جُدا ہوتے ہیں۔"

المامن نے ذرا متغیر انداز میں کہا، "شہزادے ٹھہ! صرف تیرا ملک ہی تجھ کو محبوب ہے؟ عورت کا تبسم کبھی تیری زرہ سے نیچے نہیں اترنے پایا۔ تیرا دل کبھی ایسی مواصلت کی آرزو سے نہیں دھڑکا۔ جو مجادلۂ حریف سے زیادہ لطیف ہو؟"

موسےٰ نے جواب دیا، "کیا میں انسان نہیں ہوں۔ کیا میری رگوں میں مُوروں کا خون نہیں دوڑتا؟ پہلے ہی پہل تو نے علم غیب سے درست حال معلوم کر لیا۔ اور اگر تیرا سحر ان آنکھوں کو صرف ایک مرتبہ اس کا جمال دکھا دے جو دُنیا میں میری آخری تمنا رہ گئی ہے۔ تو میں ابو عبد اللہ کی طرح تیرے سحر کا قائل ہو جاؤں گا۔"

"تو کیا ابھی تک تو اسی کو چاہتا ہے؟ اس لیلےٰ کو؟"

لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 231

پُراسرار ساحر۔ تو نے میرا راز کس طرح معلوم کر لیا؟ اور تو میری محبوبہ کا نام بھی جانتا ہے؟ اے عالم غیب! دنیا کے اس مقام کا حال مجھ پر منکشف کر۔ جہاں میری روح مسرت موجود ہے۔" مُور نے اپنا خود چہرہ سے اٹھا کر زیادہ جوش اور جذبے سے کہا، "ہاں خدا مجھےمعاف کرے۔ جب غرناطہ میں سب کچھ جاتا رہا۔ تو اپنے بدنصیف وطن کے آغوش سے جدا ہوتے وقت مجھے صرف ایک اطمینان تھا۔مجھے لیلےٰ کی تلاش کے لیے آزادی کامل مل گئی تھی۔ مجھے امید تھی کہ دور دراز سر زمینوں کی بادیہ پیمائی میں وہ بھی میرے ہمراہ ہو گی۔ جس کی ایک نگاہ غلط انداز کے سامنے حوران فردوس کی آنکھیں بھی منفعل ہو جاتی ہیں۔میں بے فائدہ بول رہا ہوں۔ مجھے بتا۔ لیلےٰ کہاں ہے؟ مجھے اس کے قدموں تک پہنچا دے!"

المامن نے شہزادہ کو گھور کر دیکھا۔ اس کی کالی کالی آنکھوں میں عجیب و غریب اور دہشت انگیز سرور نمایاں تھا۔ وہ کہنے لگا، "مسلم۔ میں تجھے اس تک پہنچا دوں گا۔ میرے پیچھے پیچھے آ۔ کل رات ہی مجھے علم ہوا ہے۔ کہ وہ کن دیواروں کے اندر مقید ہے۔ بس اس وقت سے اب تک میں نے نہ کھانا کھایا، نہ آرام کیا۔ اور برابر پہاڑوں اور صحراؤں میں مسلسل سفر کرتا ہوا آ رہا ہوں۔"

موسےٰ نے کچھ بدگمان ہو کر پوچھا، "لیکن تیرا اس سے کیا تعلق ہے؟"

"بہت جلد تجھے سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔ اب چلنا چاہیے۔"

یہ کہہ کر المامن آگے لپکا۔ اور بہت جوش سے دوڑنے لگا۔ اس کا دماغی ہیجان اس کے تھکے ہوئے جسم کو قوت بخش رہا تھا۔ موسےٰ نے حیرانی کے عالم میں گھوڑے کو ایڑ لگائی۔ اور اپنے پُراسرار راہ نُما کو گفتگو میں مصروف کرنے کی کوشش کی۔ لیکن المامن اس سے قطعی بے نیاز تھا۔ اگر کسی وقت وہ اپنی ملال آمیز خاموشی کو توڑتا، جب بھی اس کے منہ سے مختصر اور بے تعلق فقرے زیادہ تر ایسی زبان میں نکلتے جو اس کے رفیق سفر کے کونوں کے لیے بالکل اجنبی تھے۔ اس دلاور مُور کی قوم جن توہمات اور اعتقادات ضعیف میں مبتلا تھی۔

لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 232

انہیں یہ بہادر شخص فلسفیانہ و حکیمانہ نظر سےنہیں، بلکہ ایک شجاع و پُر حوصلہ انسان کی طرح نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ لیکن جب ہیبت ناک پہاڑوں اور سُنسان وادیوں پر سے نگاہ اٹھا کر وہ شہرۂ آفاق ساحر کی فوق العادت ہیئت اور چمکتی آنکھوں پر نظر ڈالتا۔ تو رُعب سے اس کے بدن میں لرزہ پیدا ہو جاتا۔ ایک سے زیادہ مرتبہ اس نے زیر لب قرآن کی وہ آیات پڑھیں۔ جو اس کے اہل وطن کے نزدیک سر شیاطین کے رو میں نہایت مؤثر تھیں۔

انہیں اس طرح اکٹھے چلتے چلتے ایک گھنٹہ گذرا ہو گا۔ کہ المامن یک لخت تھم گیا۔ دھیمی آواز میں بولا، "میں تھک گیا ہوں۔ اگرچہ تقاضائے ضرورت یہی ہے۔ کہ نہ ٹھہروں۔ لیکن مجھے اندیشہ ہے۔ میری قوت مجھے جواب دے دے گی۔"

موسےٰ نے تامل کے بعد جا لازمی تھا۔ کہا، "پھر میرے پیچھے سوار ہو جا۔ گو تو یہودی ہے۔مگر لیلےٰ کی خاطر میں اس آلودگی کو گوارا کر لوں گا۔"

یہودی نے وحشیانہ انداز میں کہا، "مُور۔ آلودہ میں ہوں گا۔ تیرا رسول اور تیرا مذہب کل کی باتیں ہیں۔ تو کیا جانتا ہے۔ کہ عہد عتیق کے ایک شیدائی کے دل میں تجھ سے اور تیرے مذہب سے کس قدر ناقابل بیان کراہت جاگزیں ہے۔"

موسےٰ کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔ وہ بولو، "کعبۃ اللہ کی قسم۔ اگر اب تو نے ایک اور ایسا لفظ بھی مُنہ سے نکالا۔ تو میرے گھوڑے کے سُم تیرے جسم میں سے اس کفر بکنے والی روح کو نکال ڈالیں گے۔"

المامن نے بے پروائی سے کہا، "میں مرتے دم تک تیری توہین کرتا۔ لیکن میں موروں میں سے سب سے بہادر کر ایک ایسا کارنامہ دکھانے کا آرزومند ہوں۔ جو آل یافث کے شایانِ شان ہے۔ لیکن چُپ مجھے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سُنائی دے رہی ہے۔"

موسےٰ سُننے لگا۔ اس کے حساس کانوں کو سخت اور پتھریلی زمین پر گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سُنائی دی، اس نے مُڑ کر دیکھا۔ تو المامن

لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 233

گھنے جنگل میں گُھستا چلا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ درختوں کی ٹہنیوں نے اسے نظر سے اوجھل کر دیا۔ اس وقت راستے کے موڑ پر ایک ہسپانی سوار دکھائی دیا۔ جو ایک اُندلسی گھوڑے پر چڑھا ہوا نہایت مسرت کے عالم میں اس زمانہ ایک مقبول عام گیت گا رہا تھا۔ اور چونکہ میں پر مُوروں کے مقابلے میں ہسپانیوں کے شاندار کارناموں کا ذکر تھا۔ موسےٰ کا متکبر لہو کھولنے لگا۔ اس کی مونچھیں ہونٹوں پر کانپنے لگیں۔ اس نے زیر لب کہا، "ابھی گیت بدلتا ہے۔" اس خیال کے آنے پر اس نے نیزہ سنبھالا ہی تھا۔ کہ دیکھا۔ ہسپانی زین پر دفعتاً چکرایا۔ اور اوندھے مُنہ زمین پر آ پڑا۔ اُسی وقت المامن اپنی کمین گاہ سے لپکا۔ اس نے ہسپانی کا گھوڑا پکڑ لیا۔ اس پر چڑھ بیٹھا۔ اور موسےٰ ابھی حیران ہی ہو رہا تھا کہ وہ اس کے پہلو میں آ پہنچا۔

موسےٰ نے گھوڑے کی باگیں کھینچ کر کیا، "تو نے ہسپانی کو کس طرح مار ڈالا، حالانکہ ظاہر ہے کہ تو کوئی وار نہیں کیا؟"

المامن نے بے پروائی سے کہا، "جیسے داؤد نبی نے جالوت کو غلیل سے مار ڈالا تھا۔ اب اگر تو لیلےٰ کو دیکھنے کا آرزو مند ہے۔ تو گھوڑے کو ایڑ لگا۔"

دونوں سوار ہسپانی کے بے ہوش اور ساکن جسم کو روندتے ہوئے ہوا ہو گئے۔ درخت اور پہاڑ گذرتے چلے جا رہے تھے۔ رفتہ رفتہ وادی تمام ہو گئی۔ اور اب سامنے ایک گھنا جنگل ان کے راستے پر چھایا ہوا تھا۔ گو اُلجھی ہوئی شاخیں اور ناہموار راستہ مزاحم تھا۔ مگر وہ بڑہتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ جب آفتاب ڈھلنے لگا۔ تو وہ ایک کُشادہ اور گول قطعے میں پہنچ گئے۔ جس کے چاروں طرف کُہنہ سال درخت اپنی گھنی اور ساکت ٹہنیاں پھیلائے کھڑے تھے۔ اس سبزہ زار کے وسط میں ایک قدیم زمانہ کا بے ڈول پتھر دھرا تھا۔ جو کسی معدوم وحشی قوم کے پرستاروں کی قربان گاہ سے مشابہ تھا۔ یہاں المامن دفعتاً رک گیا اور آپ ہی آپ زیر لب کچھ بولنے لگا۔ اس کے الفاظ سُنائی نہ دیتے تھے۔

لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 234

موسےٰ نے کہا، "اے پُراسرار اجنبی! یہ کیا ماجرا ہے! تو کیا بول رہا ہے۔ اور خلد میں کیا دیکھتا ہے؟"

المامن نے اس کے سوال کا کچھ جواب نہ دیا۔ لیکن گھوڑے سے اُتر پڑا اور گھوڑے کی باگ ناق کے ایک جھلسے ہوئے اور برباد درخت کی شاخ میں اٹکا کر تنہا اس قطعے کے وسط کی طرف بڑھا۔ اونچی آواز میں کہنے لگا، "اے میری خوفناک اور عالم غیب قوت! کیا پھر یہی وہ مقام ہے۔ جس کے بعلق تو نے خوب و خیال میں مجھے بتایا ہے۔ کہ وہاں اپنا وہ عہد مکمل و راسخ کروں۔ جو گوشت پوست کی آخری کمزوری کو روح سے جدا کر دے۔ راتوں کے بعد راتیں آئیں اور چلی گئیں۔ اور تو تاریکی اور نیند میں اسی متبرک خلوت کو میری نظروں کے سامنے لاتی رہی ہے۔ پھر یوں ہی سہی میں بھی تیار ہوں۔"

یہ کہہ کر وہ چند لمحوں کے لیے جنگل کے اندر گھس گیا۔ سوکھے پتے اور مُرجھائی ٹہنیاں جن سے ویران زمین ڈھنپی ہوئی تھی۔ اٹھا کر لایا۔ اور انہیں قربان گاہ پر دھر دیا۔ پھر مشرق کی طرف مُڑ کر اور ہاتھ اونچے اٹھا کر کہنے لگا، "دیکھ۔ اب اس قربان گاہ پر جہاں غالباً کبھی بُت پرست وحشی عبادت کرتے تھے۔ اے بیان اور تعریف سے برتر! تیری گری ہوئی اور منتشر نسل کا آخری دلاور فرد وہ قربانی لے کر آیا ہے۔ جو تو نے ازمنۂ قدیمہ میں اسی نسل کے ایک بزرگ سے طلب کی تھی۔ اسے قبول کر۔"


یہودی اپنا افسوں ختم کر چکا۔ تو اس نے اپنے کپڑوں میں سے ایک چھوٹی سے شیشی نکالی۔ اور چند قطرے سے سوکھے ایندھن پر چھڑک دیئے۔ ایک ہلکا ہلکا نیلا شعلہ یک لخت بھڑک اٹھا۔ اور اس سے اسرائیلی کے مصیبت زدہ مگر جوشیلے چہرے پر روشنی پڑی۔ موسےٰ کو ایسا معلوم ہوا کہ اس کا مُوری خون رگوں میں جم گیا ہے۔ وہ کانپ اٹھا۔ لیکن اسے معلوم نہ ہو سکا۔ کیوں۔ المامن نے اپنے خنجر سے اپنی لمبی لمبی لٹوں میں سے ایک لٹ تراش لی اور اسے آگ میں

لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 235

ڈال دیا۔ وہ اس کی طرف دیکھتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ جل کر راکھ ہو گئی۔ پھر اس کے مُنہ سے ایک دبی ہوئی چیخ نکل گئی۔ اور وہ غش کھا کر گر پڑا۔ موسےٰ اسے اٹھانے کو جلدی سے بڑھا۔ اس کے ہاتھ اور کنپٹیاں ملیں۔ اس کی صدری کے بوتام کھول دیئے۔ اس کے جوش کا درد و کرب دیکھ کر موسےٰ کو اس پر اس قدر ترس آیا تھا۔ کہ وہ بھول گیا تھا۔ یہ یہودی ہے اور ساحر۔

کئی لمحے گذرنے کے بعد المامن ایک گہری آہ بھر کر ہوش میں آیا۔ دبی زبان سے کہنے لگا، "آہ۔ اے میری جان۔ میرے دل کی راحت۔ کیا تو نے ہمارے شباب کی محبت کی یادگار اسی دن کے لیے میرے سپرد کی تھی؟ مجھے بخش دے۔ میں اسے اس دنیا کو واپس کرتا ہوں۔ جو مشرکین سے آلودہ نہیں ہے۔" اس نے پھر آنکھیں بند کر لیں۔ اور کسی اندرونی پیچ و تاب سے اس کا تمام جسم کانپنے لگا۔ یہ کیفیت گذر گئی۔ اور پھر وہ یوں اٹھ کھڑا ہوا۔ جیسے کوئی ہولناک خواب دیکھ کر جاگ اٹھے۔ اسے تسکین سی ہو گئی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ درد و کرب کی جو حالت اس پر گذری تھی، اسے تازہ دم کر گئی تھی۔ اس قدیم قربان گاہ پر بھیانک روشنی کے شعلے ٹمٹما رہے تھے۔ اور دھیمی ہوا درختوں میں سائیں سائیں کر رہی تھی۔

المامن نے قربان گاہ پر سے نظریں اتھا کر آہستہ سے کہا، "شہزادے سوار ہو۔ اب ہم کہیں توقف نہ کریں گے۔"

موسےٰ نے پوچھا، "تو اپنے اس عمل کا مطلب بنان نہ کرے گا۔میری عقل تو یہی کہتی ہے۔ کہ یہ ایک شعبدہ باز کا کھیل تھا؟"

المامن نے ایک متغیر لہجہ اور غمگین آواز میں کہا، "افسوس! آہ افسوس! تجھے سب کچھ بہت جلد معلوم ہو جائے گا۔"
 

رومی

لائبریرین
ریختہ صفحہ 256


اس نے جواب کا انتظار نہ کیا۔ بلکہ جلدی سے چل دیا۔ صحن میں اُترا گھوڑے پر سوار ہوا۔ اور ایک مختصر وملول جماعت کے ساتھ اس دروازے میں سے گزرا۔ جس کے باقیات میں سے آج تک ایک منہدم اور سیاہ پڑا ہوا بُرج موجود ہی اور جس پر انگور اور عشق پیچاں کی بیلیں چڑھی ہوئی ہیں۔ وہاں سے غمگین و ملول آن باغوں میں سے الگ تھلگ گزرا۔ جو اب وکٹر عقیدے کی خانقاہ سے متعلق ہیں۔ جب اس نے اس پہاڑی کا جو اُن باغات کے اوپر سے نظر آتی تھی۔ نصف حصہ طے کر لیا۔ تو اسے ہسپانی اسلحہ کی چمک نظر پڑی۔ جو فوج قلعے پر قبضہ کرنے کے لئے بھیجی گئی تھی۔ پہاڑ کی چوٹی پر سے معقول انضباط اور گہری خاموشی کے ساتھ گزر رہی تھی۔

ہروال کا افسر اسففا ویلا ایک برف سے سفید گھوڑے پر جا رہا تھا۔ اور اس کے پیچھے برہنہ پا راہبوں کی ایک لمبی قطار تھی۔ ابو عبداللہ قریب آیا تو وہ تھم گئے ۔ اور ثقہ صورت پادری نے ایک ایسے انداز میں اس کو سلام کیا۔ جیسے وہ کوئی ملجد اور کمتر درجے کا شخص ہی۔ خود داری کے اس احساس سے جو عالی مرتبہ اشخاص میں عمومٙٙا اور افتادہ لوگوں میں خصوصٙٙا بہت تیز ہوتا ہے۔ابوعبداللہ متاثر ہوا ۔ مگر اسقف کے کبر و غرور پر اپنی ناخوشی ظاہر نہ ہونے دی۔ اس نے آہستہ سے کہا۔" اے عیسائی جا ! الحمرا کے دروازے کُھلے ہیں۔ اور اللہ نے محل اور شہر تمہارے بادشاہ کو بخشے ہیں۔ شاید اس کے اوصاف ابو عبداللہ کی کوتاہیوں کی تلافی کریں۔" یہ کہہ کر اور جواب کا انتظار کئے یا دائیں بائیں دیکھے بغیر بادشاہ آگے بڑھ گیا۔ ہسپانی بھی اپنے راستے پر چل کھڑے ہوئے۔آفتاب پہاڑوں پر بخوبی طلوع ہو چکا تھا۔ کہ ابو عبداللہ اور اُس کے ہمراہیوں نے بلندی سے ہسپانیہ کے تمام لشکر گاہ کو دیکھا ۔ اور اُسی وقت گھوڑوں کی ٹاپوں اور ہتھیاروں کی جھنکاروں سے زیادہ بلند عقیدت مندی کا گیت "ٹی ڈے ام ،، سنائی دیا۔ جو شان دار و درخشاں جھنڈوں کے کھولنے سے

ریختہ صفحہ 257


پہلے گایا جارہا تھا۔ خود ابو عبداللہ اب تک گم سُم تھا۔ مگر اس نے اپنے ہمراہیوں کی سِسکیاں اور نعرہ ہائے درد سُنے۔ وہ ان کی تشفّی کرنے یا انھیں ملامت کرنے کو ان کی طرف متوجہ ہوا۔ تو دیکھا کہ اس کے اپنے مینار دیدبان پرجس کی شفاف و فروزاں سطح پر آفتاب اپنے پورے جلال سے چمک رہا تھا۔ہسپانیہ کی نقرئی صلیب نصب ہی۔اس کے الحمرا پر دُشمن قابض ہوچکے تھے۔ اور جنگ مقدس کے نشان کے علاوہ اس پر سینٹ یاگوکا (جوہسپانی شجاعت کا مسلمہ مربی تھا) شوخ و خوش رنگ عٙلّم بھی لہرا رہا تھا۔

یہ منظر دیکھ کر بادشاہ کی آواز اندر ہی دب کر رہ گئی۔ اس نے گھوڑے کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دیں۔کیونکہ وہ منحُوس رسوم کو حتی الامکان جلد ادا کرنا چاہتا تھا۔ اور اُس نے اُس وقت تک رفتار کم نہ کی کہ وہ فوج کی اگلی صفوں سے صرف تیرکی زد پر رہ گیا۔ عیسائی جنگوں نے کبھی اس سے زیادہ پُرشوکت و مئوثر نظارہ پیش نہ کیاتھا۔ جہاں تک نظر کام کرتی تھی۔ عظیم الشان فوج کی تاباں و فروزاں صفیں۔جن کی برچھیاں سورج کی روشنی میں چمکتی تھیں۔ اور عٙلم آراستہ پیراستہ کھے۔نظر آتی تھیں۔اور پہلو میں ناچتی ہوئی۔ بہکتی ہوئی اور دمکتی ہوئی نقرئی زینل کا خنداں پانی رواں تھا۔ اور اس امر سے بےنیاز تھا۔کہ کون سا مالک اپنے مختصر زمانہء اقتدار کے لئے اس کی مستقل روش کے شگفتہ ساحلوں پر قابض ہوتا ہی۔ غنیم کی فوج کا بہترین حصہ ایک چھوٹی سی مسجد کے قریب ٹھہر گیا۔ سلسلہء رہیبانیت کے مجہندین عظاّم اوراس دربار کے امرا اور شہزادوں کےجُھرمٹ میں جو شارلے مین کے سُورماوں کے لئے باعثِ رشک تھے۔شاہ فرڈی نینڈ بہ نفس نفیس موجود تھا۔ اور اُس کے دائیں طرف ملکہ ازابیلا اور ہسپانیہ کہ عالی نژاد خواتین تھیں۔ جن کے خوش رنگ ملبوسات اور درخشاں جواہرات طرّہ دار خوووں اور مجلّٰے زرہوں کی درشت و کرخت شوکت کے مقابلے میں شان تضا و پیدا کر رہے تھے۔

ریختہ صفحہ 258


شاہی زمرے سے اتنے فاصلے پر ابو عبداللہ رُک گیا۔ کہ نظر آسکتا تھا۔ اپنے چہرے کو ایسا بنا لیا۔ کہ اسکے دلی جذبات آشکار نہ ہونے پائیں۔ اور اپنے مغرور فاتح سے ملنے کے لئے اپنی مختصر جماعت رفقا سے کچھ آگے بڑھا۔ عبداللہ کا فرزند اپنی شان و شکوہ اوراندز میں کبھی یوں بادشاہ نہ معلوم ہوا تھا۔

اس کی شاہانہ صورت سُنہری بال اور بارُعب دل فریب حُسن دیکھ کر جسے عالم شباب اور بھی اثر انگیز بنا رہا تھا۔ اس بہادروں اور حسینوں کے مجمع میں ایک دٙرد مند توصیف و ثنا کی لہر دوڑ گئی۔ فرڈی نینڈ اور ازابیلا آہستہ آہستہ بڑھے کہ اپنے پُرانے رقیب اور نئے مطیع سے ملیں۔ ابو عبداللہ گھوڑے سے اُتر جاتا۔ لیکن شاہ ہسپانیہ نے اپنا ہاتھ اس کے شانے پر رکھ دیا۔ اور کہا۔بادشاہ اور بھائی! اپنے رنج و غم کو بُھلا دے۔ اور خدا کرے کہ ہمارے دوستانہ تعلّقات ان انقلابات کا نعم البدل ہوں۔ جن کے مقابلہ میں تو نے ایک جواں مرد اور حکمراں کی طرح جدو جہد کی۔ انسانی مساعی کا مزاحم ہوتا رہا۔ لیکن بالآخر راضی برضائے الہی ہو گیا"۔

ابو عبداللہ اس تلخ مگر بلا ارادہ تحسین جگر خراش کا جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔ اس نے سٙر جھکا دیا۔ اور ایک لمحہ چُپ رہا۔ پھر اپنے ہمراہیوں کو اشارہ کیا۔ اس کے چار افسر آگے بڑھے۔ اور فرڈی نینڈ کے قریب دو زانو ہو کر ایک نقرئی ڈھال پر شہر کی کنجیاں پیش کیں۔

پھر ابو عبداللہ نے کہا۔" اے بادشاہ ! اس آخری قلعے کی کنجیاں قبول کرنا جو افواج ہسپانیہ کی مزاحمت کرتا رہا ہی۔مسلمانوں کی سلطنت مٹ گئی۔

غرناطہ کا شہر اور اس کے باشندے اب تیرے ہیں تیری شجاعت کے سامنے سر جھکا کر وہ تجھ سے رحم کے متوقع ہیں۔"

فرڈی نینڈ بولا۔" ان کا رویّہ درست ہی۔ہم اپنے وعدوں کی خلاف ورذی نہ کریں گے۔لیکن چونکہ ہم مُور جواں مردوں کی تکلف پسندی سے واقف ہیں۔


ریختہ صفحہ 259


اس لئے غرناطہ کی کنجیاں بجائے ہمارے نازک ہاتھوں کے حوالے کی جائیں گی۔"

یہ کہہ کر گر فرڈی نینڈ نے کنجیاں ازابیلا کو دے دیں۔ وہ چند تسلّی آمیز الفاظ سے ابو عبداللہ کی دلداری کرتی۔ لیکن ملکہ اور بہادر عورت ہونے کے باوجود اس وقت کے جذباتِ اضطراب اس کی برداشت سے باہر تھے۔چنانچہ جب اس نے مفتوح حکمراں کے زٙرد و ساکن چہرے پر نظر ڈالی تو اس کے آنسو نکل پڑے۔

اور اس کی آواز مُنہ ہی مُنہ میں رہ گئی۔ ابو عبداللہ کے چہرے پر ہلکی سی سُرخی دوڑگئی۔ اور ذرا اوپر کو ایک سراسیمہ سکوت چھا گیا۔جسے آخرمُور ہی نے توڑا۔

اس نے ملول و موثر شاہانہ انداز سے کہا۔" حسین ملکہ ! تو اس دل کو نہیں دیکھ سکتی۔ جسے تیری فیاضانہ ہمدردی متاثر و مطیع کر رہی ہی۔ یہ تیری آخری مگر کچھ کم شان دار فتح نہیں ہی۔ لیکن میں تم سب کے لئے باعثِ تاخیر ہو رہا ہوں۔ تمہارا سرور فتحمندی میری موجودگی سےمکدّر نہیں ہونا چاہئے ۔مجھے رخصت کی اجازت دی جائے۔

نیک ملکہ نے آنسووں کے درمیان آہستہ سے اپنے شوہر بادشاہ سے کہا۔

"ہم تبدیل مذہب کے مبارک امکان کا اشارہ نہ کریں؟"

بادشاہ جو خود اس ملال انگیز ملاقات کو تمام کرنے کا خواہش مند تھا۔ اسی طرح آہستہ سے کہا۔" ابھی نہیں! سینٹ جاگو کا واسطہ اس وقت نہیں ۔"

پھر بلند آواز میں بولا ۔" میرے بھائی جا۔ خوش بختی تیرے ہمرکاب ہوگا۔"

ابو عبداللہ کے چہرے پر ایک تلخ تبسمّ نمودار ہوا۔ اس نے چپ چاپ تکلّف سے ملکہ اور بادشاہ کو نہایت مودبانہ سلام کیا۔ اور آہستہ آہستہ آگے بڑھ گیا۔ سپاہ کو نیچے چھوڑ کر وہ اس راستے پر چڑھنے لگا۔ جو اس کے نئے علاقہء حکومت الفجارہ کی طرف جاتا تھا۔ جب مور سواروں کا گروہ درختوں کی آڑ میں چھپ گیا۔ تو فرڈی نینڈ نے سپاہ کو بڑھنے کا حکم دیا۔ اُسی وقت قرنا و جلاجل کی آواز مسلمانوں کے کانوں میں پُنچی۔

ابو عبداللہ گھوڑے کو مہمیز کرکے ہوا ہوگیا۔ اور آخر اُس کا بے دم گھوڑا

ریختہ صفحہ 260


اس گاؤں پر جا کر ٹھہر گیا۔ جہاں اس کی ماں اس کء غلام اور اس کی باوفا امینہ ( جنھیں پہلے ہی روانہ کر دیا گیا تھا) اس کی منتظر تھی۔ انھیں ساتھ لے کراس نے بلا توقف اپنا حسرت انگیز سفر شروع کر دیا۔

وہ اس بلندی پر چڑھے۔ جہاں سے الفجارہ کو جانے کا دٙرہ پڑتا ہی۔ تو اس کی چوٹی پر سے غرناطہ کی وادی ۔ دریا اور مینار اپنے پُورے شکوہ و جلال کے ساتھ انھیں نظر آئے۔ سب کے سب یک بخت خود بخود تھم گئے۔ اور ہر آنکھ اس محبوب ترین منظر کی طرف متوجہ ہو گئی۔ مجبور و معذور جنگجوؤں کی پُرتمکنت غیرت مندی پر۔ اس وطن کے لطیف و نازک تصوّرات پر جو سر زمین اجداد اور گہوارہ طفلی تھا۔ ہر ایک کا دل بھر آیا۔ اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ دفتعاٙٙ دور بالا حصار پر سے توپوں کی سلامی کی آواز اُٹھی۔ اور شفاف دریا۔ اور سُورج سے روشن وادی پر پھیل گئی۔تمام آوارہء وطن پُھوٹ پُھوٹ کر رونے لگے۔ سوختہ اختر بادشاہ کے دل پر چوٹ لگی۔ اس کا دل مشرقی رعونت اور فلسفہء جبریہ سے تسلی حاصل کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ بےقابُو ہوگیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسُو بھر آئے۔اور اس نے اپنا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ لیا۔

اس وقت اس کی ماں نے اسے نفرت و حقارت کی نظروں سے گھُور کر دیکھا۔ اور اُن ناواجب اور مشہور الفاظ میں ملامت کی۔ جو تاریخ میں محفوظ ہیں۔

"ہاں جس چیز کو مردوں کی طرح بچا نہ سکا۔ اُس پر عوت کی طرح آنسُو بہا۔"

ابو عبداللہ نے شاہانہ طیش سے سر اُٹھایا۔ لیکن اُسی وقت اسے ایسا مجسوس ہوا۔ کہ کسی نے اس کا ہاتھ محبت سے دبا لیا ہی۔ اور اس نے پھر دیکھا۔ تو امینہ کو اپنے پہلو میں پایا۔

کنیز بولی۔" ابو عبداللہ کچھ پروا نہ کر۔ اس کے کہنے کا کچھ خیال نہ کر۔ اس مصیبت میں تو مجھ کو جتنا عالی نظر آرہا ہے۔ پہلے کبھی معلوم نہ ہُوا تھا۔ تو اپنے تخت پر ایک بہادر بادشاہ تھا۔ لیکن اے میری آنکھوں کی روشنی! اب بھی
 

اوشو

لائبریرین
ریختہ صفحہ ۔۔۔ 242

فصل ششم

واپسی ۔ بلوہ ۔ دغا اور موت

غرناطہ کو حوالے کرنے سے ایک روز پہلے شام کا ذکر ہے کہ المامن کے مکان کے تہ خانوں میں جن کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے، تین بوڑھے یہودی جمع ہوئے۔ ان میں ایک متمول اور سود خوار سوداگر تھا، اس کی مرطوب آنکھٰں بہت جلد جلد جھپکتی تھیں اور اس کی چکنی چپڑی صورت بھی اس فریب اور چالبازی کو چھپانے کے لئے ناکافی تھی جو اس کی تنگ پیشانی اور خمدار ہونٹوں سے ظاہر تھی۔ وہ بولا "عزیز اور وفادار دوست شمین۔ تو نے اپنے مبتلائے محن بھائیوں کو اس خفیہ جائے پناہ میں پوشیدہ کر کے ہم پر احسان عظیم کیا ہے۔ بےشک یہ جگہ ایسی ہے کہ یہاں بےدینوں کی جستجو بالکل ناکام رہ سکتی ہے! لیکن بھوک سے میرے پیٹ میں آگ لگ رہی ہے۔ تیرا خادم بھوکا بھی ہے اور پیاسا بھی۔"
"اسحٰق کھا۔ خوب کھا۔ وہاں سامنے تیرے لئے تمام خوراک تیار ہے۔ کھا جا اور کچھ نہ چھوڑ۔ اور تم ۔۔۔ الیاس، تم دستر خوان پر نہ آؤ گے۔ شراب پرانی اور قیمتی ہے۔ تمہیں تر و تازہ کر دے گی۔"
الیاس نے جل بھن کر کہا "میری خوراک خاک اور زُوفا ہے۔ انہوں نے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ ۔۔۔ 243

میرا گھر مسمار کر دیا۔ انہوں نے میرے خرمنوں کو نذر آتش کر دیا۔ انہوں نے میرا سونا پگھلا لیا۔ میں برباد ہو گیا ہوں۔"
شمین نے کینہ توز آنکھوں سے اس کو دیکھا۔ (کیونکہ آلام اور کُہنہ سالی نے اس ایک جذبۂ ہمدردی کو بھی جو اس میں موجود تھا، بغض سے اس طرح ممزوج کر دیا تھا کہ وہ جن فلاکت زدوں کو امداد دیتا اور جن معذوروں کی حفاظت کرتا، دل ہی دل میں ان پر ہنسے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔) وہ بولا "نہیں نہیں الیاس۔ ابھی تو بندرگاہوں میں تمہاری اس قدر دولت باقی ہے کہ اس سے نصف غرناطہ بآسانی خریدا جا سکتا ہے۔"
الیاس بسورتا ہوا بولا "اسے نصارےٰ چھین لیں گے۔ مجھے ابھی سے وہ ان کے قبضے میں نظر آ رہی ہے۔"
شمین چونکا۔ ذاتی نقصان کے فکر نے اسے خلوص سے پوچھنے پر مجبور کر دیا "کیوں یہ خیال کرتے ہو؟ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟"
"میری سن! التواءِ جنگ سے فائدہ اٹھا کر کل رات میں عیسائیوں کی فرووگاہ میں گیا اور عیسائی بادشاہ سے ملا تھا۔ جب اسے میرا نام اور مذہب معلوم ہوا تو فرطِ غیظ سے اس کی ڈاڑھی کے بال بھی ہلنے لگے۔ وہ گرج کر بولا "شیطان کے کتے! کیا تیرا مردار ہم مذہب المامن ساحر شاہ ہسپانیہ کو فریب دے کر اس کی کافی توہین نہیں کر چکا؟ اس کے باعث تمہارے لئے بھی امان نہیں۔ اگر ایک لحظہ یہاں اور ٹھہرا تو تیری نعش ہوا میں جھولتی ہوئی نظر آئے گی۔ جا اور اپنی بےایمانی سے جمع کی ہوئی دولت کا حساب کر۔ اس میں سے مناسب حصہ لیا جائے اور اگر تو نے ہمارے مقدس مطالبے میں ایک پیسہ کی بےایمانی بھی کی تو یاد رکھ تجھے غرقاب کر دیا جائے گا۔ اس کام کو میں گیا تھا اور یہ جواب لایا۔ واپس آیا تو گھر کو راکھ کا ڈھیر پایا۔ میں لٹ گیا۔"
اسحٰق جو دستر خوان پر تنہا مگر بےکار نہ بیٹھا تھا۔ بولا "اور ہماری اس بربادی کا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ ۔۔۔ 244

باعث وہ نام نہاد یہودی المامن ہے!"
الیاس نے اپنی پتلی اور لمبی انگلیوں میں خنجر پکڑ کر کہا "کاش یہ خنجر اس دروغ گو کی گردن پر ہوتا!"
شمین آہستہ سے بولا "اس کا موقع نہ ملے گا۔ اب وہ غرناطہ کو واپس نہ آئے گا۔ گِدھ اور کیڑے اس کی نعش آپس میں تقسیم کر چکے ہوں گے۔ اور (خوفناک تبسم کے ساتھ دل ہی دل میں کہا) اس کے سیم و زر کا مالک ضعیف و بےاولاد شمین ہے۔"
اسحٰق نے ویگا کی گرم شراب کا ایک بڑا سا جام چڑھاتے ہوئے کہا "یہ تہ خانہ عجیب و غریب اور بہت دہشت ناک ہے۔ یہاں تو انڈور کی ساحرہ مردوں کو بیدار کر سکتی ہے۔ وہ سامنے کا دروازہ کدھر کو جاتا ہے؟"
شمین نے جواب دیا "جہاں تک میں جانتا ہوں۔ ان راستوں پر میرے مالک کے سوا اور کوئی کبھی نہیں گیا۔ میں نے سنا ہے یہ راستے الحمرا تک میں جا نکلتے ہیں۔ آؤ! اچھے الیاس۔ سردی کے مارے تمہارا جسم کانپ رہا ہے۔ یہ شراب پیو۔"
الیاس نے کانپ کر کہا "چپ! ہمارے دشمنوں نے ہمیں آ لیا۔ مجھے قدموں کی آہٹ سنائی دے رہی ہے۔"
وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ وہ دروازہ جس کی طرف اسحٰق نے اشارہ کیا تھا آہستہ سے کھلا اور المامن تہ خانے میں داخل ہوا۔
اگر انڈور کی کوئی نئی ساحرہ اپنے افسوں سے مردوں کو بلا لیتی تو ان کے ظہور پر بھی یہ تینوں اتنے خائف و متعجب نہ ہوتے جیسے المامن کو دیکھ کر ہوئے۔ الیاس اپنا خنجر سنبھال کر تہ خانہ کے پرلے گوشے کی طرف چلا گیا۔ اسحٰق شراب کا جو جام چڑھانے کو تھا، وہ اس کے ہاتھوں سے گر پڑا۔ اور وہ گھٹنوں کے بل کھڑا ہو گیا۔ صرف شمین جو ایک بھیانک سا سایہ معلوم ہوتا تھا،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ ۔۔۔ 245

کسی قدر حواس برقرار رکھ سکا۔ اور منہ ہی منہ میں بڑبڑانے لگا "یہ زندہ ہے! اس کا مال میرا نہیں! اس پر خدا کی مار ہو!"
المامن اپنی خلوت گاہ میں ان عجیب و غریب مہمانوں کی موجودگی سے بظاہر بےخبر معلوم ہوتا تھا۔ وہ یوں چلا آ رہا تھا جیسے کوئی نیند میں پھر رہا ہو۔ شمین اٹھا۔ اس دروازے کو آہستہ سے کھول دیا جس سے اوپر کے کمروں کو راستہ جاتا تھا اور اپنے دوستوں کو اشارہ کیا کہ وہ اس راستے سے نکل جائیں۔ لیکن اسحٰق نے اشارہ سمجھ کر پیش قدمی کی ہی تھی کہ المامن نے اپنی ہولناک نظریں اس پر گاڑ دیں۔ اور جیسے یک لخت ہوش میں آ گیا ہو۔ زور سے بولا "مردود شمین۔ یہ تو نے کس کو قپنے آقا کے خفیہ تہ خانوں میں آنے دیا ہے۔ دروازہ بند کر۔ ان لوگوں کا مرنا ضروری ہے۔"
شمین نے سکون سے کہا "خداوندِ نعمت۔ اگر تیرے غلام نے تیری موت کی اطلاع کو باور کر لیا تو کیا وہ ملزم ہے؟ یہ لوگ ہمارے پاک مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور میں انہیں خرد باختہ اور دیوانہ ہجوم کے ہاتھ سے بچا کر لایا ہوں۔ یہاں کے سوا کوئی جگہ عوام کے غیظ و غضب سے محفوظ رکھنے کے قابل معلوم نہ ہوتی تھی۔"
المامن نے کہا "تم یہودی ہو؟ ہاں میں تمہیں جان گیا۔ بازار اور منڈیوں کے لوگ ہو۔ ہاں تم بےشک یہودی ہو۔ جاؤ۔ جاؤ! میرے پاس سے چلے جاؤ۔"
کسی مزید اجازت کا انتظار کئے بغیر تینوں غائب ہو گئے۔ لیکن تہ خانے سے نکلنے سے پیشتر ہی الیاس چیں برابر المامن کی طرف پھرا (جو اب پھر کسی گہرے خیال میں غرق تھا) اور کینہ ور نظروں سے اس کو دیکھا۔ المامن تنہا تھا۔
شاید ایک ساعت کا چوتھا حصہ گذرا ہو گا کہ شمین مالک کو دیکھنے آیا۔ لیکن تہ خانہ خالی تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ ۔۔۔ 246

غرناطہ کے بازاروں میں آدھی رات کا سماں تھا لیکن سکون و خاموشی کا نام نہ تھا۔ جمہور کے جذبات اس خیال سے کہ آئندہ روز صبح کو وہ عیسائی دشمن کی رعایا بننے والے تھے، غم و غصے کے جنون میں مشتعل ہو گئے تھے اور بیس ہزار کے قریب آدمی گھروں سے نکل نکل کر کوچہ و بازار میں جمع ہو گئے۔ خوفناک اور طوفانی رات تھی۔ اور ہوا کے ان تیز و تند جھونکوں نے جو یک لخت سردی ہو جانے پر سیرانواد کے برفانی علاقے سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، جھومتے ہوئے درختوں اور پیچیدہ گلیوں میں شورِ قیامت برپا کر رکھا تھا۔ طوفان گویا عناصر کی موانست کے باعث عوام کے جوش و خروش کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ فاقوں کے مارے ہوئے مُور مشعلیں اور اسلحہ گھماتے ہوئے انسان تو نہیں البتہ سائے یا غول بیابانی معلوم ہو رہے تھے۔ بظاہر ان کا کوئی خاص مقصد معلوم نہ ہوتا تھا۔ وہ فقط اپنے ہیجان کو ظاہر اور کرۂ ارض کی تمام اندیشناک طاقتوں کو بیدار کرنے کے لئے ویران شہر میں گھوم رہے تھے۔
دیوار مبلا کے وسیع صحن میں یہ جم غفیر تھم گیا۔ دوسرے تمام امور کے متعلق تو وہ مذبذب تھے، مگر کم از کم اس ایک امر کے متعلق سب کا عزم مصمم تھا کہ غرناطہ کے لئے کچھ نہ کچھ ابھی ہونا چاہیے۔ وہ زیادہ تر مُوری انداز سے مسلح تھے لیکن ان کا سردار کوئی نہ تھا۔ کوئی امیر قاضی یا سردار خواب میں بھی یہ نہ سوچ سکتا تھا کہ فرڈی نینڈ سے عارضی صلح کر کے جو مہلت ملی تھی اس میں کسی فضول معرکے سے خلل انداز ہو۔ گو یہ محض عوام کی شورش یا جمہور کا جنون تھا، لیکن کچھ کم ہیبت ناک نہ تھا۔ کیونکہ یہ مشرقی لوگوں کا ہجوم تھا۔ تلواروں اور نیزوں سے مسلح، ڈھال اور زرہ سے محفوظ وہ ہجوم جس نے مشرقی سلطنتوں کو بنایا اور بگاڑا ہے۔ اس وسیع میدان میں جو کبھی عربی اور افریقی شجاعت کے کھیلوں اور مقابلوں کا شاہد رہ چکا تھا۔ اور جہاں چند روز بادشاہ جاں نثار اور فاتح فوجوں کا معائنہ کیا کرتے تھے، یہ مایوسی سے بپھرے ہوئے لوگ جمع ہو گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ ۔۔۔ 247

پرشور ہوا کے جھونکے ان کی مشعلوں کو جو اندھیری رات کی تاریکی سے برسرِ پیکار تھیں۔ وقفِ اضطراب کر رہے تھے۔
ہجوم میں سے ایک شخص نے کہا "آؤ۔ چلو الحمرا پر دھاوا کر دیں۔ ابوعبداللہ کو پکڑ کر اپنے درمیان کھینچ لائیں اور پھر عیسائیوں پر حملہ کر دیں جو اس وقت نہایت تمکنت سے آرام کر رہے ہیں۔"
ہجوم نے نعرے لگانے شروع کئے "لا الہ الااللہ کلید و ہلال!"
شور تمام ہوا تو یک لخت میدان ایک کنارے سے آواز آئی، جس سے کان کبھی آشنا تھے اور جو کبھی دلوں کو لرزا دیا کرتی تھی۔
جن مُوروں نے اس آواز کو سنا وہ مرعوب و متحیر ہو کر پھرے تو اس بلند پتھر پر جس پر سے نقیب و مؤذن شاہی فرمان سنایا کرتے تھے، درویش المامن کی شکل نظر پڑی، جسے تمام مردہ سمجھے بیٹھے تھے۔
اس نے بہت متین مگر دل خراش آواز سے کہا "غرناطہ کے باشندہ اور مُورو۔ میں ابھی تک تمہارے ساتھ ہوں۔ تمہارے فرماں روا اور بطل تمہیں چھوڑ گئے۔ لیکن میں آخری دم تک تمہارے ساتھ ہوں۔ الحمرا کو نہ جاؤ۔ قلعہ ناقابلِ تسخیر ہے اور محافظ سپاہی وفادار۔ رات ضائع ہو جائے گی اور دن عیسائی فوج کو تم پر لئے آ رہا ہے۔ دروازوں کی طرف بڑھو۔ وِیگا میں اترو۔ اور یک لخت دشمن پر جا پڑو۔"
یہ کہا اور اپنی تلوار سونت لی۔ جو مشعلوں کی روشنی میں جگمگا اٹھی۔ مُوروں نے جوش کی حالت میں احترام سے سر جھکا دئیے۔ درویش پتھر سے نیچے اترا۔ اور ہجوم کے مرکز میں چلا گیا۔
ایک مرتبہ پھر نعرہ ہائے مسرت بلند ہوئے۔ جمہور کو اپنے جوش و خروش کے منشاء کے مطابق ایک رہنما مل گیا تھا۔ وہ جلدی سے صف آراء ہوئے اور تنگ گلیوں میں سے سیلاب کی طرح گزرنے لگے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ ۔۔۔ 248

راستے میں بہت سے غارت گروں (شہر کے بدمعاشوں اور ذلیل لوگوں) کی شرکت سے ان کی تعداد میں معتدبہ اضافہ ہو گیا۔ اور بےدین (مسلمانوں سے مراد ہے شاید!) افواج قلعہ کے اس دروازے سے جس سے نکل کر وہ دشمن پر حملہ آور ہوا کرتی تھیں۔ صرف چند فرسنگ دور رہ گئی اور اگر مُور دروازوں سے گزر کر عیسائی خیمہ گاہ تک پہنچ جاتے۔ جو نیند اور بےفکری کی حالت میں مست تھا تو شاید یہ بیس ہزار بپھرے ہوئے نا امید لوگ غرناطہ کو بچا لیتے اور ہسپانیہ آج تک اس واحد متمدن سلطنت کا جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، کے پیروؤں نے قائم کی تھی، مالک ہوتا۔
لیکن ابوعبداللہ کا ستارہ گردش میں تھا۔ اہلِ شہر کے تمّرد کی خبر اس کے کانوں تک پہنچ گئی۔ شہر کے حصۂ زیریں سے دو ضعیف شخص الحمرا میں گئے۔ مطالبہ کر کے باریابی حاصل کی۔ ابوعبداللہ پر ان کی ملاقات کا ناگہانی اثر ہوا۔ اس نے خیال کیا کہ عوام کی بغاوت فرڈی نینڈ کے لئے التوائے جنگ کے شرائط کی خلاف ورزی ہے۔ شہر کے انہدام اور باشندوں کی بیخ کنی کا معقول عذر بن سکتی ہے۔ اپنی رعایا کے متعلق جذبۂ رحم سے متاثر ہو کر نیز اس خیال کی تحریک سے کہ اس کا شاہی ناموس التوائے جنگ کے متعلق عہد پر قائم رہنے کا مقتضی ہے، وہ ایک مرتبہ پھر اپنے نقرے گھوڑے پر سوار ہوا۔ دونوں ضعیف شخص جو اس کے ہمرکاب تھے، اور خاصہ کا دستہ بھی اس کے ساتھ ساتھ الحمرا سے روانہ ہوا۔ قرنا کا شور، گھوڑوں کی ٹاپوں کا غل اور نقیبوں کی صدائیں یکے بعد دیگرے ہجوم تک پہنچیں اور ابھی انہیں اپنے راہِ عمل کے متعلق کوئی تصفیہ کرنے کی مہلت بھی نہ ملی تھی کہ بادشاہ ان کے درمیان جا پہنچا۔
ابوعبداللہ گھوڑے کو مہمیز کر کے ہجوم میں گھس گیا اور کہنے لگا "میری رعایا! یہ کیسا جنون ہے۔ تم کہاں جا رہے ہو؟"
ہزاروں زبانوں سے یہی جواب ملا "عیسائیوں کے مقابلے کو! گاتھ کے لوگوں کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ ۔۔۔ 249

مقابلے کو! ہمارا رہنما بن کر ہمیں لے چل۔ درویش مردوں میں سے جی اٹھا ہے۔ اور تیرے دائیں پہلو پر رہے گا۔"
بادشاہ نے سلسلۂ کلام جاری رکھا اور کہا "افسوس تم عیسائی بادشاہ پر حملہ کر رہے ہو! یاد رکھو۔ ہمارے یرغمال اس کے ہاتھوں میں ہیں۔ یاد رکھو غرناطہ کو تو وہ خاک بنا دینے کے لئے، اور تم کو اور تمہاری اولاد کو تہِ تیغ کرنے کے لئے اسے اس سے اچھا حیلہ نہ ملے گا۔ ہم نے جو صلح نامہ مرتب کیا ہے اس کی شرائط ایسی ہیں کہ کبھی دو دشمنوں کے درمیان قرار نہیں پائیں۔ تمہاری جانیں، تمہاری شریعت اور تمہارا مال و متاع سب کچھ بچ گیا۔ ابوعبداللہ کے تاج کے سوا اور کچھ نہیں گیا۔ صرف مجھے نقصان ہوا ہے۔ ہونے دو۔ میرا طالع نحس تم پر بھی بربادی لایا۔ میرے بعد تم پھر سرسبز ہو جاؤ گے۔ شاید پھر ایک بڑی قوم بن جاؤ گے۔ آج مقسوم کے سامنے سرِتسلیم خم کر دو تاکہ کل اس کی مایۂ ناز عنایات حاسل کر سکو۔ مطیع ہونا مسخر ہونا نہیں ہے۔ لیکن عیسائیوں کے مقابلے میں گئے اور ایک جنگ میں فتح یاب بھی ہوئے تو پھر اس سے زیادہ ہولناک جنگ کا سامنا ہو گا۔ شکست کھائی تو باعزت متابعت نہیں بلکہ استیصال یقین ہے۔ جس کی طرف تم دوڑے چلے جا رہے ہو۔ مان جاؤ اور ایک مرتبہ پھر اپنے بادشاہ کا مشورہ سن لو۔
ہجوم پر اثر ہوا۔ لوگ نرم پڑ گئے اور نیم قائم ہو گئے۔ انہوں نے خاموشی سے درویش کی طرف دیکھا، لیکن اس درخواست پر المامن ٹس سے مس نہ ہوا تھا۔ بلکہ بادشاہ کے روبرو کھڑا تھا۔
بلند آواز سے بولا "شاہِ غرناطہ! اپنے دوست کی طرف دیکھ! اپنے پیشین گو کی طرف دیکھ! میں تجھے فتح کا یقین دلاتا ہوں۔"
ابوعبداللہ نے بات کاٹ دی "خاموش! تو بہت عرصہ مجھے فریب اور دغا دے چکا! مُورو! تم اس جعلی درویش کو جانتے ہو؟ یہ مذہب اسلام سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ ۔۔۔ 250

کچھ تعلق نہیں رکھتا۔ یہ اسرائیلی کتا ہے۔ تمہارے انفس و اموال کو نیلام کر رہا ہے۔ تمہیں سب سے بڑی بولی دینے والے کے ہاتھ فروخت کر دے گا۔"
المامن نے چلا کر کہا "ہا! اور مجھ پر الزام لگانے والا کون ہے؟"
"دیکھ تیرا نوکر!" ان لفظوں پر خاصہ کے سپاہیوں نے اپنی مشعلیں اونچی کیں اور ان کی سرخ روشنی میں شمین کے مردنی چائے ہوئے خال و خط پر پڑنے لگی۔
دغا باز بولا "اے دنیا کے نور۔ اور یہودی بھی اس کو جانتے ہیں۔"
بادشاہ نے بلند آواز سے کہا "اے رسول کی امت! تم ایک یہودی کو اپنا رہنما بنانے کی ذلت گوارا کر لو گے؟"
ہجوم پریشانی اور تحیر کے عالم میں کھڑا تھا۔ المامن سمجھ گیا کہ اس کا وقت آخر آ پہنچا۔ وہ چپ چاپ کھڑا رہا۔ ہاتھ سینے پر باندھ رکھے تھے اور سر اونچا تھا۔
ابوعبداللہ نے موقع سے فائدہ اٹھانے کو کہا۔ "کیا اس ہجوم میں موسےٰ کی قوم کے کچھ لوگ ہیں؟ ہیں، تو انہیں یہاں آنے دو۔ کہ جو کچھ انہیں معلوم ہے، اس کی بنا پر تصدیق کریں۔" ایک شخص آگے بڑھا۔ ہجوم میں سے نہیں۔ بلکہ شاہی سواروں کے زمرے میں سے۔ وہ ایک مشہور یہودی تھا۔
الیاس نے زمین دوز سلام کر کے کہا "اس خونی اور دغاباز شخص کو ہم اپنے زمرے سے خارج کرتے ہیں، لیکن یہ ہمارے مذہب سے تھا۔"
بادشاہ نے بلند آواز سے کہا "جعلی درویش بول! کیا تو گونگا ہے؟"
المامن نے تندی سے کہا "غبی، احمق، تجھ پر لعنت نازل ہو! تجھے اس شخص کی ذات سے کیا غرض جو تجھے تیرے تخت پر بحال کر دیتا؟ ہاں! میں جس نے تیری مجالس و آرا پر حکومت کی ہے، تیری افواج کی رہنمائی کی ہے، میں آلِ یوشع و اسمٰعیل سے ہوں ۔۔۔۔ اور رب الافواج المامن کا خدا ہے!"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ ۔۔۔ 251

اس انبوہ کثر میں ایک لرزش دوڑ گئی۔ لیکن اس شخص کی نظروں، اس کے انداز اور اس کی آواز نے سب کو مرعوب کر دیا تھا۔ اس پر کسی شخص کا ہاتھ نہ اٹھا۔ وہ اس وقت بھی بلاخوف تعرض ہجوم میں سے گزر سکتا تھا۔ وہ اپنے پرجوش جذبات اور عذاب آمیز آلام کو ساتھ لے کر دوسرے ممالک کو جا سکتا تھا۔ لیکن زندہ رہنے کی آرزو اس میں باقی نہ رہی تھی۔ وہ صرف اپنے سادہ لوح شکاروں پر لعنتیں بھیجنے اور مر جانے کا آرزو مند تھا۔ اس نے توقف کیا، چاروں طرف دیکھا اور پھر ایک تلخ اور رعونت آمیز قہقہہ لگایا۔ ایسا قہقہہ دنیا کے مبتلائے ترغیبات افراد کو تحت الثرےٰ کے تاریک ایوانوں سے ابلیس کے منہ سے نکلتا ہوا سنائی دیا کرتا ہے۔
وہ بولا "ہاں۔ میں ایسا ہی ہوں۔ میں تمہارا صنم اور خداوند تھا۔ مجھے مار ڈالو۔ مگر مر میں تم پر فتح مند ہوں گا۔ عیسائی اور مسلمان یکساں میرے دشمن تھے۔ میں دونوں کو روند کر ان پر سے گزرتا، لیکن عیسائی تم سے زیادہ ہوشیار تھا۔ اس نے مجھ سے خوش گوار باتیں کیں۔ میں تمہیں اس کی قوت کے ہاتھ فروخت کر ڈالتا۔ لیکن وہ تم سے زیادہ بدمعاش تھا۔ اس نے مجھے دغا دی۔ میں اسے کچل ڈالتا تاکہ دوبارہ ان بےجان پتلیوں کو جنہیں تم اپنا سردار کہتے ہو، فریب دوں اور ان پر حکومت کروں۔ لیکن جن لوگوں کی خاطر میں نے جاں فشانیاں کیں۔ جد و جہد کی۔ گناہ کئے۔ جن پر میں نے آرام و آسائش نثار کیا۔ ہاں اور ایک بیٹی، ایک بیٹی کا لہو بھی قربان کیا۔ ان ہی نے مجھے دغا بازی سے تمہارے ہاتھ میں گرفتار کرا دیا۔ زمانۂ قدیم کی لعنت مدام ان پر باقی رہے۔ راز فاش ہو گیا۔ المامن درویش اسخر یہودی کا فرزند ہے۔"
اور بھی بولتا، لیکن لوگوں پر سے سحر ٹوٹ گیا تھا۔ ہجوم کی زندہ موجیں دہشت ناک نعرے لگا کر اس درشت خو مذہبی مجنوں پر ٹوٹ پڑیں۔ چھ خنجر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ ۔۔۔ 252

اس کے جسم کے آر پار ہو گئے۔ مگر وہ نہ گرا۔ ساتویں وار پر وہ نعش تھا۔ قدموں میں روندا گیا، ہوا میں اچھالا گیا۔ اس کا عضو عضو جدا کیا گیا۔ اور اس سے پیشتر کہ انسان نو سانس لے سکے، پارہ پارہ اور خاک آلود مضغۂ گوشت مین انسانی شکل و صورت کا نام و نشان بھی نہ تھا۔
ہجوم کا غیظ و غضب فرو کرنے کے لئے ایک شکار کافی تھا۔ پھر وہ ان وحشی درندوں کی طرح جن کی گرسنگی رفع ہو گئی ہو۔ اپنے بادشاہ کے گرد جمع ہو گئے۔ اس نے ان کو فوری انتقام لینے سے باز رکھنے کی بہت کوشش کی تھی۔ مگر ناکام رہا تھا۔ وہ اب بےدم اور زرد رو تھا۔ اور ان شدید جذبات کے اظہار پر لرز رہا تھا جنہیں خود اس نے برانگیختہ کیا تھا۔ اس نے لڑکھڑاتی زبان سے کچھ فہمائش کی اور نصیحت کے چند الفاظ کہے۔ گھوڑے کا منہ موڑا اور محل کا راستہ لیا۔
ہجوم منتشر ہو گیا۔ لیکن لوگ ابھی اپنے گھروں کو نہ گئے۔ المامن کے جرم کا خمیازہ اس کی ساری قوم کو بھگتنا پڑا۔ بعض لوگ یہودیوں کے مقاماتِ بود و باش کی طرف گئے اور ان کو آگ لگا دی۔ بعض المامن کے مکان کی طرف جو سب سے الگ تھلگ تھا، روانہ ہوئے۔
شمین بادشاہ سے رخصت ہو کر ہجوم سے پہلے پہنچ گیا تھا۔ اسےگمان بھی نہ تھا کہ عوام کے غیظ و غضب کا اس قسم کا نتیجہ نکلے گا اور وہ جلدی سے اس گھر کو روانہ ہو گیا تھا جسے بالآخر وہ اب اپنا سمجھنے لگا تھا۔ وہ اپنے مقتول آقا کے خزانے میں پہنچا ہی تھا، درخشاں جواہرات اور سونے کی بڑی بڑی اینٹیں اس کی آنکھوں کو دعوتِ نظارہ دے رہی تھیں اور اس کے حریص دل نے بآوازِ بلند کہا ہی تھا "اور یہ میرے ہیں!" کہ اس نے دیوار کے نیچے شور و غل سنا اور دریچوں میں سے ان کی مشعلوں کی روشنی دیکھی۔ وہ بہتیرا چلاتا رہا "میں نے ہی المامن کا راز فاش کیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ ۔۔۔ 253

لیکن تند ہواؤں میں اس ہجوم پر جس کے کان غم و غصہ سے بہرے ہو رہے تھے۔ اس کے الفاظ رائگاں گئے۔ دھوئیں اور شعلوں کے باعث وہ کمرے سے باہر آیا۔ ہجوم کے سامنے نکل پڑنے سے خائف تھا۔ خسیس نے خزانے کی بیش قیمت اشیاء اپنے اوپر لاد لیں۔ سیڑھیوں سے اترا، اور خفیہ تہ خانے کی طرف چلا کہ یک لخت چھت جسے شعلوں نے چھید ڈالا تھا، گر پڑی اور دھوئیں کے دھندلے کفن میں سے سکرات موت کی چیخ نکلی۔ تو آگ زیادہ تیزی و تندی سے بھڑک اٹھی۔
غرناطہ میں مُوری خاندان کی شبِ آخر کے اہم واقعات یہ تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

La Alma

لائبریرین
‎ریختہ صفحہ 34

‎فصل پنجم
—————————
‎یہودی
—————————

‎کمرے سے نکل کر یہودی ایک کشادہ زینہ پر سے نیچے اترا اور وہاں ایک ضعیف شخص سے دو چار ہوا جس نے ریشم اور سمور کا ڈھیلا ڈھالا لباس پہن رکھا تھا۔ اور بظاہر اس قدر عمر رسیدہ، ناتوان، اور نیم جان معلوم ہوتا تھا کہ اس کے پژمردہ چہرہ کی جھریوں پر زندگی موت کی پیش قدمی سے مغلوب نظر آتی تھی۔
‎اسرائیلی نے کہا، “شمین، میرے عزیز
‎وفادار خادم، میرے پیچھے پیچھے غار کی جانب آ۔” یہ کہہ کر اور شمین کے جواب کا انتظار کیے بغیر وہ تیز قدمی سے صحنوں اور گلیوں میں سے ہوتا ہوا آگے بڑھتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ وہ ایک تنگ و تاریک سیلے ہوئے چور راستہ میں پہنچا۔ جو کسی چٹان میں سے کاٹ کر نکالا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ اس کے دہانے پر لوہے کی سلاخوں کا ایک اس قدر بھاری جنگلا تھا۔ کہ ایک سو آدمیوں کی متفقہ قوت بھی اس کی چول کو نہ ہلا سکتی۔ لیکن جوں ہی یہودی نے ایک کمانی کو دبایا۔ دروازہ کھلا۔ اور وہ اندر داخل ہوا۔ ایک طاق پر سے پیتل کا ایک چراغ اٹھا لیا اور بے صبری سے انتظار کرنے لگا۔ یہاں تک کہ ضعیف شخص ہلکے ہلکے وہاں تک پہنچا۔ پھر اس نے آہنی دروازہ بند کر دیا۔ اور اس کے بعد کافی فاصلہ پر

ریختہ صفحہ 35

‎پچیدہ راستوں میں سے گزرتا چلا گیا۔ حتی کہ یکایک چٹان کے ایک ایسے حصے کے قریب رک گیا۔ جو باقی حصہ سے کسی صورت مختلف نہ معلوم ہوتا، دفعتاً اس نے ایک جگہ ہاتھ لگایا، تو وہیں چٹان میں سے ایک دروازہ سا کھل گیا۔ وہ دروازہ ایسی صنعت اور کاری گری سے بنا ہوا تھا کہ اس کا اس طرح کھل جانا بالکل جادو کا کھیل معلوم ہوتا تھا۔ جب چٹان کھلی تو دائرہ نما ایک غار دکھائی دیا۔ جو پیتل کے چراغوں سے روشن تھا۔ اس میں پوستین کے بھاری پردے لٹک رہے تھے۔ اور فرش پر قالین بچھے ہوئے تھے۔ چٹان کے نا تراشیدہ اور بظاہر قدرتی ستونوں پر مختلف قسم کے پرانے اور عجیب ساخت کے اسلحہ آویزاں تھے۔ بڑے بڑے طاقوں میں پرانی فلمی کتابیں دھری تھیں۔ جو آہنی جلدوں میں بند تھیں۔ علاوہ بریں نرالی قسم کے بھدے بھدے آلات اور کلیں بھی بکثرت پڑی ہوئی تھیں۔ جو آج کل کے سائنس دانوں کی نظر میں ایجادات کیمیائی کے آلات قرار دیے جا سکتے ہیں۔ اور ان سب چیزوں نے اس وحشت کدہ کو جادو گھر اور طلسم گاہ بنا رکھا تھا۔
‎یہودی سمور کی ایک سند پر بیٹھ گیا۔ اور جب ضعیف شخص نے کمرے میں داخل ہو کر دروازہ کو بند کیا۔ تو بولا۔”شیمن! شراب کا ایک پیالہ بھر دے۔ کہ یہی اصلی رفیق و غمگسار ہے۔ اور مجھے اس کی سخت ضرورت ہے۔”
‎شیمن نے غار کے ایک کونے میں سے شیشہ و ساغر نکال کر دیگا کی چمکتی ہوئی انگوری شراب کا ایک پیالہ لبالب بھر کے دیا۔ جس نے ان کے خون میں حیات ِ تازہ کی حرارت اور جوش پیدا کر دیا۔
‎آخری گھونٹ پی چکنے کے بعد اس نے ایک لمبا سانس لے کر کہا۔ “بڈھے، اپنے لیے بھی شراب کا ایک پیالہ بھر۔ اور پیتا جا۔ یہاں تک کے تیری رگوں میں جوانی کا خون موجیں مارنے لگے”۔
‎شمین نے حکم کی تعمیل کی۔ لیکن کچھ یوں ہی سی شراب ہونٹوں کو لگائی۔ اور پیالہ ایک طرف کو رکھ دیا۔

ریختہ صفحہ 36

‎اسرائیلی نے سلسلہء کلام شروع کیا- “شمین! جب سے تو نے اس شہر میں قدم رکھا۔ بتا کہ ہماری قوم کے کتنے افراد موری پادشاہوں کی حرص و طمع کی نذر ہو چکے ہیں۔” تین
‎تین ہزار۔وزیر یوسف کے حکم سے گزشتہ موسم سرما میں یہ تعداد مکمل کر دی گئی تھی۔ اور نصرانی کتون کے ہنکانے کے لیے ان کے زر و مال سے تیر و شمشیر تیار کیے گئے تھے۔ “ک
‎“تین ہزار۔ بس تین ہزار۔ کاش یہ تعداد سہ چند ہوتی۔ کیونکہ اب سود لینے کا وقت آ رہا ہے”۔
‎وہ بوڑھے آدمی نے کہا۔ “میرا بھائی۔ بیٹا۔ اور پوتا بھی، ان ہی شہیدوں میں تھے”۔ یہ کہتے ہوئے بڈھے کے چہرے پر اور بھی مردنی چھا گئی۔
‎“ان کے مقبرے ظالموں کی نعشوں کے ڈھیر سے بنیں گے۔ کم از کم وہ انتقام لینے میں قوم یہود کو بخیل قرار نہ دیں گے”۔
‎“لیکن اے درماندہ قوم کے عالی مرتبہ سردار! مجھے معاف کرنا۔ کیا تیرا یہ خیال ہے کہ عرب کے بے دینوں کی نسبت مغرور و سرکش نصرانی ہماری تباہی میں کمی کریں گے”۔
‎یہودی نے جواب دیا، “ حقیقت میں دونوں ملعون ہیں۔ لیکن ایک کے وعدے دوسرے کی نسبت زیادہ صادق ہیں۔ میں فرڈی نینڈ اور اس کی مغرور ملکہ سے مل چکا ہوں اور انہوں نے ہمیں وہ حقوق خریت دینے کا وعدہ کیا ہے جو اس سے پیشتر ہمیں یورپ میں کبھی نصیب نہیں ہوئے”۔
‎وہ ہماری آمدورفت، ہمارے منافع اور ہمارے زر و جواہر سے کبھی تعرض نہ کریں گے”۔
‎اسرائیلی نے زمین پر پاؤں مار کر کہا۔ تجھ پر خدا کی مار۔ کاش سارے جہان کا سونا جہنم کی کبھی نہ بجھنے والی آگ میں جھونک دیا جائے۔ یہ زر پرستی کا سفیہانہ اور مصیبت ناک جذام ہی ہے۔ جو ہماری قوم کے دل اور روح نہیں بلکہ انسانی صورت تک مسخ کر رہا ہے۔ اکثر اوقات جب میں آل سلیمان و یوشع کے شاہانہ خط و خال کو دیکھتا ہوں(وہ خط و خال

ریختہ صفحہ 37

جو ممالک مشرقی کی نجابت کا نشان بن کر انہیں شاہنشاہی و حکمرانی کی فطرتی حقوق عطا کرتے ہیں) کہ ذلیل دنیاوی تفکرات سے ان پر جھریاں پڑ گئی ہیں۔ اور چہرے مسخ ہو گئے ہیں۔ جب میں ایک تنومند اسرائیلی کو ریشم اور روغنوں کے ایک ادنی سوداگر کے سامنے حشرات الارض کی طرح عجز و انکسار سے رینگتا ہوا دیکھتا ہوں۔ اور جب کبھی ایسی آواز میرے کانوں میں آتی ہے۔ جو میدان کارگزار میں گونجنے کے بجائے بیم و رجا کے باعث مدہم و خاموش پڑ گئی ہو۔ تو میں اپنے دل سے پوچھا کرتا ہوں۔ کہ کیا میں حقیقت میں بنی اسرائیل کی نسل سے ہوں اور خداوند یہواہ کا ہزار ہزار شکر بجا لاتا ہوں۔ کہ اس نے کم از کم مجھے اس مسکینیت سے محفوظ رکھا ہے۔ جس کے باعث میرے برادرانِ قوم پر سود خواری اور غلامی کی بجلی گری ہے۔
شمین نےمصلحتًا اس جوشیلی تقریر کا کوئی جواب نہ دیا۔ کیونکہ نہ تو اسے اس سے تعلق تھا۔ اور نہ وہ اسے سمجھ سکتا تھا۔ چنانچہ اس نے ایک مختصر خاموشی کے بعد گفتگو کا رخ دوسری جانب بدل دیا۔
" تو حضور نے یہ ارادہ کر لیا ہے۔ کہ نصرانیوں کی عہد شکنی سے کچھ اندیشہ نہ کیا جائے اور موروں سے انتقام لیا جائے؟”
“ ہاں انسانی لہو کے بخارات آسمان تک پہنچ گئے ہیں۔ اور گرجنے والے بادلوں کی مانند جمع ہو کر اس فنا ہو جانے والے ناپاک شہر پر گھر آئے ہیں۔ اور شمین؛ اب میرے لیے ان موروں سے نفرت کرنے کا ایک اور باعث پیدا ہو گیا ہے۔ جس پھول کو میں نے حفاظت اور محنت سے پالا۔ گلچیں اسے میرے باغ میں سے توڑ کر لے جانے کی فکر میں ہے۔ شمین؛ تو نے لیلےٰ کی حفاظت اچھی طرح نہیں کی۔ اور اگر تو خود اپنی کینہ توزی اور بد کاری کی وجہ سے میرا منظور نہ ہوتا تو طلوعِ آفتاب سے پہلے تیرا سر دھڑ سے جدا ہو کر ڈارو ندی میں بہتا نظر آتا ہے۔"
شمین نے جواب دیا۔ " میرے مالک، اگر تو خود کہ ہم سب میں سے دانا ہے۔ ایک دوشیزہ کو محبت سے محفوظ نہ رکھ سکا۔ تو تو ایک مصیبت زدہ ضعیف کی دھندلی آنکھوں اور

ریختہ صفحہ 38

مختل حواس کو کیسے مجرم قرار دیتا ہے۔"
اسرائیلی نے کچھ جواب نہ دیا۔ معلوم ہوتا تھا۔ کہ اس نے بڈھے کایہ ملامت آمیز جواب سنا ہی نہیں۔ وہ اپنے خیالات میں مستغرق رہا۔ اور اپنے آپ کو مخاطب کر کے آہستہ آہستہ کہنے لگا۔ " ایسا ہونا ضروری ہے گو قربانی بہت مشکل اور خطرہ عظیم ہے۔ مگر اس موقع پر اور بھی بہت ضروری ہے۔ لیکن یہ ضرور ہوگا(اس کے بعد باآواز بلند کہنا شروع کیا)” شمین! کیا تجھے کامل یقین ہے کہ میرے اپنے ہم وطن اور میرے اپنے ہم قوم بھی مجھے اپنوں میں سے نہیں سمجھتے؟ اگر میری قابل نفریں اصل و نسل اور مذہب کا اعلان کر دیا جائےتو غدار ہونے کی حیثیت سےمیرے ٹکرے ٹکرے کر دیے جائیں۔ اور قبالہ کی تمام چالیں بھی میری جان کو نہ بچا سکیں”۔
“ میرے آقا! تو شک نہ کر۔ تیرے وفادار شمین کے سوا تمام غرناطہ کا کوئی متنفس تیرے راز سے آگاہ نہیں”۔
“ تو مجھے اسی خواب و خیال میں اور انہیں امیدوں میں محو رہنے دے۔ لیکن اب کام کرنا چاہیے۔ کہ یہ دماغ سوزی اور دیدہ ریزی میں صرف ہونی ہے”۔
یہودی نے چند آلات جن کا ذکر ہم کر چکے ہیں۔ اپنے سامنے رکھ لیے۔ اور ہجرے کے طاقوں میں سےکئی قلمی مسودے نکالے۔ بوڑھا اس کے قدموں میں اس کے احکام کی تعمیل کے لیے منتظر بیٹھا تھا۔ بظاہر ایک جسم بے روح کی طرح ساکن و جامد تھا۔ اور اس کے چہرے کی مردنی اور سکڑا ہوا بدن موت کی تصویر پیش نظر کر رہا تھا۔ اس وقت یہ معلوم ہوتا تھا کہ کسی غار کے اندر ایک ساحر اپنے طلسمی شعبدوں میں مشغول ہے۔ اور کسی ضعیف شخص کی نعش اس کی فسوں سازی اور احکام ساحرانہ کی تعمیل کے لیے قبر میں سے نکل آئی ہے۔
متذکرہ بالا تذکرے سے ناظرین پر روشن ہو گیا ہو گا کہ وہ یہودی ( جو ظاہر ہے کہ المامن الحمرا ہے) اپنی قوم کا کوئی معمولی شخص نہ تھا۔ اس کا حسب نسب اس کی پراسرار قوم کی گزشتہ تاریخ میں پوشیدہ تھا۔ جو اپنے زمانہء عروج میں اس قدر متمول تھی
 

شمشاد

لائبریرین
لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 254

فصل ہفتم

غرناطہ پر صبح نمودار ہوئی۔ لوگ گھروں کو جا چکے تھے۔ ان مقامات میں جہاں گزشتہ بلوے میں آگ لگائی گئی تھی۔ ابھی تک چھتوں کے گرنے اور موسم گرما بسر کرنے شہ نشینوں کی ہلکی اور خوشبودار لکڑتڑکنے کی آوازیں آ رہی تھی۔ باقی تمام کوچہ و بازار پر سکوت مزار طاری تھا۔ خوش قسمتی سے غرناطہ کے مکانات اس طرح بنے تھے کہ وسیع باغات ایک مکان کو دوسرے سے جُدا کرتے تھے۔ یہ امر آگ پھیلنے میں مانع ہوا۔ لیکن لوگ خطرات سے ایسے بے پرواہ تھے کہ ایک شخص بھی انجام دیکھنے کو نہ ٹھہرا۔ کبھی کبھی کوکئی مصیبت زدہ شخص یہودیوں کی عبا میں اپنے مکانوں کے کھنڈروں کے قریب جُھکا ہوا ان روحوں کی طرح دکھائی دے جاتا تھا۔ جو بقول فلاطوں قبروں میں اپنے گلتے سڑتے جسموں کو بیٹھی تکا کرتی ہیں۔ دن نکل آیا۔ اور آفتاب سرما کی شعاعوں نے شب گزشتہ کے بادلوں کو تبسم میں اُڑا دیا۔ اور زینل اور ڈارو کی بہکتی ہوئی موجوں سے خوشی خوشی کھیلنے لگیں۔

ایک جھروکے میں جس کے روبرو شاندار منظر تھا۔ مُوری بادشاہوں کا آخری فرد اکیلا کھڑا تھا۔ اس نے فلسفے کے جتنے اسباق پر محنت کی تھی۔ ان کی امداد سے تسکین حاصل کرنا چاہتا تھا۔

لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 255

بادشاہ نے اپنے خیال میں سوچا، "ہم بادشاہ کون ہیں۔ کہ اس عالم کو اپنے آپ سے بھر دیں؟ میرے تخت کے انہدام کے دھماکے سے کُرۂ ارض گُونج رہا ہے۔ یہ آواز زندہ رہ کر اُن نسلوں کے کان تک پہنچے گی۔ جو ابھی پیدا نہیں ہوئی ہیں۔ لیکن میں کیا کھویا؟ کوئی ایسی چیز نہیں۔ جو میری راحت و مسرت کے لئے ضروری تھی۔ اس کے سوا کچھ نہیں جو میری تباہی کی بنیاد تھی جس نے میرے زندگی کو مفلوج بنا دیا تھا۔ کیا اب زمین و آسمان، خیال و عمل، یا انسان کے خواب و خُور کے نسبتاً زیادہ مادی تعیشات، یعنی عوام کی معمولی و ارزاں خواہشات سے میں کم لطف اندوز ہوں گا؟ تو پھر میرے دل بس ہمت کر۔ زندگی کی یکساں روانی میں کوئی تغیر پیدا کنے کے لئے غم و مسرت کے کئی گہرے جذبات ابھی باقی ہیں۔

وہ ذرا رُک گیا۔ اس کی نظر موسےٰ ابن ابی غازان کے اُجڑے ہوئے محل کے اُداس میناروں پر پڑی۔

بادشاہ نے پھر سوچا، "تیرا خیال درست تھا۔ بہادر شخص! تیرا خیال درست تھا۔ ابو عبد اللہ پر ترس نہیں آتا۔ مگر اس لئے نہیں کہ اپنی موت اس کے قبضے میں ہے۔ انسان کی روح اپنے مقسوم سے عالی تر ہے۔ شکوہ و عظمت اسی زندگی میں ہے۔ جو اپنے راستے میں گرنے والے کھنڈروں میں سے سر بلندی کے ساتھ گزر جائے۔ وہ مُڑا تو اس کے چہرے کا رنگ یک لخت اڑ گیا۔ اسے نیچے صحن میں سُموں کی ٹاپ اور تیاریوں کی گھما گھمیوں کا شور شنائی دیا۔ یہ اس کی رخصت کی ساعت تھی۔ اس کا فلسفہ غائب ہو گیا۔ مُنہ سے بلند نعرۂ درد نکل گیا۔ اس کا وزیر اور خاصہ کا افسو اس کی تنہائی میں رخنہ انداز ہوا۔ آخر وہ پھر کمرے میں واپس آ گیا۔

ضعیف وزیر نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ مگر آواز اس کے حلق سے نہ نکل سکی۔

ابو عبد اللہ نے سکون کے ساتھ کہا، "تو رخصت کا وقت آ پہنچا۔ پھر یوں ہی سہی۔ محل اور قلعہ دشمن کے حوالے کر۔ اور اپنے دوست سے جو اب تیرا بادشاہ نہیں رہا۔ اس کے نئے گھر میں ملاقات کر۔"

لیلےٰ یا مُحاصرہ غرناطہ ریختہ صفحہ 261

تو ایک کنیز کو اپنی رعایا تصور کر۔"

ابو عبد اللہ نے کہا، "اللہ اکبر! اور اللہ اب بھی مجھے تسکین بخش رہا ہے۔ تیری زبان نے زمانۂ اقبال مندی میں کبھی میری خوشامد نہ کی تھی۔ اور اب ایم غم میں میرے لئے ملامت نہیں رکھی۔"

یہ کہا، اور امینہ کو دیکھ کر وہ مسکرایا۔ یہ امینہ کی فتحمندی کی ساعت تھی۔

جماعت آہستہ آہستہ چکر لگا کر سُنسان گھاٹیوں میں اُترنے لگی۔ اور وہ مقام جہاں بادشاہ رو پڑا تھا۔ اور عورت نے تسکین دی تھی، اب تک "مُوروں کی آخری آہ" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ریختہ 41

ظلم و ستم اور جفا کشی نے اسے جنون مذہبی بنا دیا تھا۔ بایں ہمہ وہ اپنی قدیم قوم یہودی کی خصوصیات پر قائم تھا ۔ جو مسیح موعود کو محض جنگجو اور فرماں روا تصور کرنے کی تلقین کرتی تھیں۔ جو انھیں اپنی تمام امیدیں اور منصوبے دنیاوی قوت و فتوحات سے وابستہ کرنا سکھاتی تھیں ۔الامن پابندئ مذہب کے بجائے مادی ترقی کا زیادہ خواہش مند تھا ۔ مذہبی عقائد کی اسے چنداں پرواہ نہ تھی ۔ مذہب کے مسلمات پر کبھی اس نے غور ہی نہیں کیا تھا ۔ بلکہ مذہب کے دنیاوی تسلط کے خیالات میں شب و روز سرگرداں رہتا تھا۔

اس زمانے میں مور ہسپانیہ کے یہودیوں پر عیسائیوں کی بہ نسبت زیادہ ظلم و ستم کیا کرتے تھے ۔ ساحل کے ہسپانی شہروں میں اس تاجر قوم نے عیسائیوں سے خریدو فروخت کے وہ تعلقات پیدا کر لئے تھے جو افراد و اقوام دونوں کے لئے مفید ھے ۔ اور نہ صرف مذہبی معاملات میں ان سے رواداری کا برتاؤ ہوتا تھا ۔ بلکہ جس بازار میں خرید و فروخت ہوتی تھی وہاں ان میں باہمیی مراسم دوستانہ قائم ہو گئے تھے ۔ اور وہ اندھا دھند کور باطن تعصب ابھی تک ظاہر نہ ہوا تھا جس نے بعد میں فرڈی نینڈ اعظم کی شہرت پر داغ لگادئیے۔ اور محکمہ احتساب کے دل دہلا دینے والے وحشیانہ مظالم کا آغاز کیا ۔ اگرکبھی وہ اس کا مرتکب ہوا بھی تھا تو نام کو، لیکن موروں نے اس بدنصیب قوم کی بڑی تعداد پرانتہا درجہ کی وحشت روا رکھی تھی ۔ جب غرناطہ میں ابو عبداللہ کا تند خو باپ جسے شیر دل با دشاه کہتے تھے حکمراں تھا ۔ اس زمانہ میں تویہود درحقیقت انسانیت کے دائرے سے خارج کر دیے گئے تھے ۔ اور حلیم الطبع اور وسمی ابو عبداللہ کے عہد حکومت میں بھی وہ بلا رحم لوٹے جاتے تھے ۔ اور اگر کسی پر زر و جواہر چھپا رکھنے کا شبہ ہوتا تھا ۔ تو بلا تامل اسے قتل کر دیا جاتا تھا ۔ ضروریات سلطنت کی وجہ سے نهایت بے دردی کے ساتھ ان پر جھوٹے الزامات لگائے جاتے تھے ۔ ان کا ناقابل معافی گناہ صرف یہ تھا کہ وہ دولتمند تھے۔

جب سے المامن کے کانوں میں اپنے باپ کے عالم نزع کی چیخیں گونجی تھیں اس کے بعد اول مرتبہ وہ دفعتا ان وحشیانہ مظالم کے درمیان غرناطہ واپس آگیا ۔

ریختہ 42

اس نے اپنے بھائیوں کے درد ناک مصائب کو دیکھا ۔ اپنے عہد انتقام کو یاد کیا ۔ اور اپنے ارادے کو مضبوط کیا چونکہ اس نے اپنانام بدل دیا تھا ۔ اور اس کے عزیز مرچکے تھے ۔ اس لئے اس پختہ عمر کے المامن کو کوئی نہ جانتا تھا کہ یہ وہی اسخر ہیودی خرد سال پختہ ہو ۔ اس نے مصلحت اسی میں دیکھی کہ وہ اپنے مذہب کو چھپائے رکھے چنانچہ وہ افریقہ کے تمام ممالک میں صاحب عظمت متبرک درویش اور دانشمند ساحر کے نام سے مشہورتھا۔ اس شہرت نے سے غرناطہ کی مجلسوں اور درباروں میں معروف کردیا۔ مولائے ابوالحسن کا محرم راز بن کر اس نے ابوعبداللہ اور ملکہ کے ساتھ بادشاہ کے خلاف سازش کی۔ اور اپنے باپ کے قاتل سے انتقام لیا ، ابوعبداللہ سے بھی اس کا کچھ رابطہ نہ تھا لیکن جو لوگ اس کے اپنے مذہب کے دائرے سے باہرتھے ۔ ان کی محبت و الفت کے لئے اس کا دل پتھر تھا۔ بادشاہ کے اعتاد ابلہانہ کو وہ ایک صید ظلوم کی فریب خوردگی سمجھتا تھا۔
گویا ایک زہریلا سانپ تھا ۔ اس بات سے نہ ڈر کہ ڈسنے سے پیشتر اس کو مکرو فریب کی کن غلاظتوں اور مکاری و دغا کی کن مکروہ دلدلوں میں سے بل کھاتے ہوئے رستہ نکالنا پڑے گا ۔ قدرت نے اسے ذہانت عطا فرمائی تھی ۔ اورقوت ، واقعات و حالات کی دلیل مجبوریوں نے اس کے غرور کو توڑ دیا تھا ۔ لیکن ان ہی مجبوریوں نے اسے عجز وانکسار سے مانوس بھی کر دیا ۔ وہ سانپ کی طرح مٹی میں رینگتا تھا ۔ لیکن سانپ کی طرح وہ زہر سے بھرا ہوا تھا ۔ ڈس سکتا تھا ۔ اور ہلاک کرسکتا تھا

ریختہ 43

شیرجال میں

دوسرے دن رات کو پو پھٹنے سے پیشتر شاه غرناطہ نے دفعتا اپنے وزیر یوسف کو طلب کیا ۔ اس ضعیف شخص نے ابوعبداللہ کو بہت پریشان حال اور برافروخت پایا ۔ اور جب اسے یہ حکم ملا کہ موسی بن ابی غازان کو گرفتار کر کے شنجر فی برج کے سب سے سنگین زندان میں ڈال دے ۔ تو وہ سمجھا کہ اس کا بادشاه دیوانہ ہوگیا ہے۔ ابوعبداللہ کی فطرتی نرم دلی کے بھروسے پر وزیر نے عرض معروض کی مجرات کی۔ موسی جیسے ہر دل عزیز سردارکوقید کرنے کے خطرات کا اندیشہ ظاہر کیا ۔ اور دریافت کیا کہ گرفتاری کی وجہ کیا بتائی جائے۔ وزیر کی گفتگو سن کر ابوعبداللہ کی پیشانی کی رگیں پھول کر رسیوں کی طرح تن گئی اور اس سے مختصر و ناطق جواب دیا۔ کیا میں بادشاہ نہیں کہ اپنی رعایا کے ایک شخص سے خوف کھاؤں اور اپنی منشاءکی تکمیل کے لئے کوئی عذر گھڑتا پھروں ۔ میں نے تجھے حکم دے دیا ہے۔ میری مہر اور فرمان موجود ہیں حکم کی تعمیل کر یاخود پھانسی کے پھندے کے لئے تیار ہو جا۔

ریختہ 44

طرز گفتگو اور حرکات وسکنات میں ابوعبداللہ اپنے خوفناک با پ سے کبھی اس قدر مشابہ نہ ہوا تھا ۔ وزیر سر سے پاؤں تک لرز گیا ۔ اور چپ چاپ رخصت ہوا ، ابوعبداللہ اسے جاتا ہوا دیکھتا رہا ۔ اور پھر نہایت جوش سے ہاتھ پر ہاتھ مار کر بولا ” اے مرحوم کی آواز تونے مجھے آگاہ کر دیا ۔ میں اپنی جوانی کے دوست کو تجھ پر بھینٹ چڑھاتا ہوں ابوعبداللہ سے رخصت ہو کر وزیر نے حرم سرائے کے چند غیر ملکی ملازم اپنے ساتھ لیے جو اس چار دیواری کے باہر ملائم جذبات کے نام تک سے نا آشنا تھے ۔ اور اس کے ہمراه انتہائی پریشان اور تعجب کی حالت میں موسے کے محل کا رستہ لیا۔ اس نے اس خطرے میں پڑنے کی جرات نہ کی ۔ کہ اس طرح بے موقع زبر دستی محل میں داخل ہونے کی کوشش کرے ۔ کیونکہ اس حرکت سے تمام علاقہ میں بے چینی پھیل جانے کا احتمال تھا ۔ بلکہ اس نے یہ ارادہ کیا کہ جب تک دن نہ نکل آئے محل کے دروازے ناکھل جائیں اور قصر کے خانہ زاد بیدار نہ ہوجائیں وہ اپنے ہمراہیوں کو ساتھ لیے ہوئے تھوڑے فاصلے پر بیٹھا رہے ۔ چنانچہ اپنے مقدر پر لعنت بھیجتے ہوئے اور اپنی اس مہم کی نوعیت پر تعجب کرتے ہوئے یوسف اور اس کے خاموش و منحوس خدمتگار محل کے قریب ایک ننھی سی جھاڑی میں چھپ بیٹھے۔ آخر سپیدہ سحر نمودار ہوا۔ تمام شہر جاگ اٹھا ۔ تو محل میں داخل ہوا اور اس ایوان میں پہنچایا گیا جہاں وہ مسلم نامور بیدار تھا ۔ اور اپنے چند ذغری کپتانوں سے اس روز حملہ کرنے کی چالوں پر گفتگو کر رہا تھا ۔ یوسف ایسی حالت میں بڑھا کہ اس کے چہرے سے خوف و تامل نمایاں تھا۔ اس کو دیکھ کر جنگجو و تیز فہم ذغریوں کو شبہ ہوگیا کہ وہ کسی برے ارادے سے آیا ہے اورجب حیرت زدہ موسے نے وزیر سے تخلیہ میں گفتگو کرنے کی درخواست منظور کرلی تو موری جنگجوئوں نے ترش روئی کے ساتھ آتش ریز نظروں سے دیکھ کر امرا و شرفاء کے مجوب کو قاصد کے ساتھ تنها چھوڑ دیا۔ ایک ذغری نے ایوان سے رخصت ہوتے ہوئے کہا " روزہ اطہر کی قسم بزدل ابوعبداللہ کو ہمارے ابن ابی غازان پر شبہ ہے ۔ اس کے متعلق میں پہلے بھی سن چکا ہوں۔

ریختہ 45

جماعت میں سے ایک دوسرے شخص نے کہا " خاموش بس دیکھتے جاؤ ۔ اگر بادشاہ نے موسے کے سرکے ایک بال کو بھی چھونے کی جرات کی تو پھر خدا اسے مغفرت کرے۔ اس اثنا میں وزیر نے چپ چاپ موسے کو فرمان دیا ۔ اور مہر دکھائی اورساتھ چلنے کو کہا ۔ لیکن یہ نہ بتایا کہ کہاں - موسے کا رنگ متغیر ہوگیا ۔ لیکن خوف سے نہیں۔ اس نے حزن و ملال کے لہجے میں کہا "افسوس کیا سچ ہے کہ میں اپنے عزیز بادشاہ کے شکوک و شبہات کا شکار ہو گیا ہوں ۔ لیکن کچھ مضائقہ نہیں ۔ اگر غرناطہ کی حفاظت میں داد مردانگی دینے اور شجاعت کانمونہ قائم کرنے کا فخر مجھے حاصل ہے تو میں بادشاہ کے احکام کی تعمیل اور فرماں برداری کی نظیر قائم کرنے کو تیار ہوں ۔ چل میں تیرے پیچھے پیچھے ہوں لیکن ٹھہر تجھے پہرے کی کچھ ضرورت نہ پڑے گی ۔ ہم ایک چور دروازے سے رخصت ہونگے ۔ کیونکہ اگر ذغریوں نے مجھے تم لوگوں کے ہمراہ جاتے دیکھا ۔ جبکہ دیویر مبلا میں افواج کا مجمع میرا منتظر ہے تو انہیں ضرور شبہ ہوگا - آ ۔اس طرف سے چل، موسے اگرچہ تند مزاج تھا ۔ لیکن اس نے اس اطاعت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا ۔ جومشرق کا آئین وفا رعایا کی طرف سے بادشاہ کا حق سمجھتا ہے۔ وہ قصر کے ایک چھوٹے سے دروازے سے جو باع میں کھلتا تھا۔ باہر نکلا ۔ اور سکوت وتفکر کی حالت میں وزیر کے ہمراہ الحمرہ کی جانب روانہ ہوا جب وہ اس جھاڑی کے قریب سے گزرے جہاں وہ رات پیشتر موسی المامن سے ملا تھا ۔ تو مور نے دفعتا سر اٹھا کر دیکھا کہ ساحر درختوں میں سے نمودار ہو رہا ہے اور اس نے اپنی سیاہ آنکھیں اس کے چہرے پر گاڑھ رکھی ہیں۔ مو سے کوگمان ہوا کہ ان آنکھوں سے کینہ کی جھلک معاندانہ مسرت نمایاں ہے ۔ لیکن المامن اسے متانت سے سلام کر کے جھاڑیوں میں سے گزر گیا ۔ شہزادہ نے پیچھے پھر کر دیکھنے کی چنداں پرواہ نہ کی۔ نہیں تو اس کی آنکھیں ان شعلہ نظر آنکھوں سے پھر چار ہوجاتی۔ المامن نے دل میں کہا " مغرور کا فر تیرے باپ نے یہود کو ایذا دے دے کر ان کے زر و جواہر سے اپنے خزانوں کو معمور کیا ۔ تیری نخوت نے تجھے بخل سے دور رکھا۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
صفحہ نمبر 65


ایک شخص نے اپنے ساتھی سے کہا۔ " یہ ساحر ہے۔ اسے گزر جانے دو" اُس نے جواب دیا۔ "نہیں اسے اپنے افسر کے روبرو لے چلو۔ ہمیں یہ احکام ملے ہیں کہ جس کسی کو بھی پائیں گرفتار کر لیں" سب نے مان لیا

المامن غصّہ کے مارے دانت پیس رہا تھا دہقان اسے جنگل کے گنجان ترین حصّہ میں سے گزارتے ہوئے لے گئے۔ آخرکار یہ گروہ ایک چمن میں جا کر ٹھہر گیا۔ جس میں مویشی خاموشی سے چر رہے تھے۔ اور دہقانوں کی ایک اس سے بھی بڑی جماعت چاروں طرف گھاس پر لیٹی ہوئی آرام کر رہی تھی۔

ایک آواز سنائی دی۔ جس المامن کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔ ایک با رعب مُور اپنے بھائیوں میں سے اُٹھ کر بولا۔ "تم کس کو یہاں لائے ہو۔ رسول اللہؐ کی ریشِ مبارک کی قسم۔ یہ تو وہی مکّار درویش ہے۔ تو اتنے سویرے غرناطہ سے باہر کیا کر رہا ہے؟

المامن اگرچہ حقیقت میں اس امر سے حیرت زدہ تھا۔ کہ جسے وہ اپنی تدابیر کا شکار تصّور کر رہا تھا۔ وہی اس وقت ایک حاکم کی حیثیت میں سامنے کھڑا ہے۔ لیکن کم از کم اس نے بُشرے پر اطمینان رکھ کر جواب دیا۔ "نجیب موسیٰ! میں اس کا جواب صرف اپنے آقا بادشاہ کو دوں گا۔ میں صرف اُسی کے احکام کی تعمیل کرتا ہوں"

موسیٰ نے چیں بہ جبیں ہو کر کہا۔ "تجھے علم ہے کہ بغیر داد و فریاد کے تیری جان لی جا سکتی ہے۔ طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب کے درمیان غرناطہ کا جو باشندہ بھی فصیلِ شہر کے باہر پایا جائے۔ وہ ایک غدار اور مفرور کی موت مارا جاتا ہے۔

اسرائیلی نے بہت اطمینان سے کہا۔ "لیکن غلامانِ الحمرا مستثنیٰ ہیں"

یکایک کسی تکلیف دہ خیال نے موسیٰ کو بے چین کر دیا۔ اور اس نے دل میں کہا۔ "آہ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ یہ افواہ جو شہر میں پھیلی ہوئی ہے۔ صحیح ہی ہو۔ کہ شاہ غرناطہ غنیم سے خفیہ عہد و پیماں کر رہا ہے۔ وہ کچھ دیر سوچتا رہا۔ اور پھر موروں کو ہٹ جانے کا اشارہ کر کے بآوازِ بلند بولا۔ "المامن۔ مجھے


صفحہ نمبر 66


سچ سچ بتا کیا تو کوئی شاہی پیغام لے کر عیسائی کیمپ کو گیا تھا؟"

"نہیں"

"کیا تو کسی شاہی کام کے لیے فصیل سے باہر نکلا ہے"

"فرض کیا۔ میں کسی ایسے ہی کام پر نکلا ہوں۔ لیکن اگر میں اسے ظاہر کر دوں تو کیا شاہی غدار نہ قرار پاؤں گا؟"

موسیٰ نے تھوڑی دیر بعد کہا۔"درویش! مجھے تجھ پر بہت شبہ ہے۔ میں تجھے اپنا دشمن جانتا ہوں۔ اور مجھے یہ یقین ہے کہ تو نے میرے خلاف، رعایا کے خلاف اور بادشاہ کے اپنے فرائض کے خلاف پادشاہ کے کان بھرے ہیں۔ لیکن کچھ مضائقہ نہیں۔ کچھ عرصہ کے لیے تیری جان بخشی کرتا ہوں۔ فی الحال تو ہمارے ساتھ رہے گا۔ اور پھر ہمارے ہمراہ بادشاہ کے حضور میں جائے گا"

"لیکن عالی نسب موسیٰ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مجھے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا۔ سپاہیو! اس دروی کو زیرِحراست رکھو۔ ہمارے گھوڑوں میں سے ایک پر اسے سوار کر لو۔ کمیں گاہ میں یہ ہمارے ساتھ رہے گا"

المامن اپنی گرفتاری پر بے سود لال پیلا ہو رہا تھا۔ تمام عیسائی کیمپ پر ابھی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ آخرکار جب آفتاب پہاڑی پر سے بلند ہوا، تو پہلے ایک دھیمے سے شور اور پھر ایک بلند شغب و غوغا سے معلوم ہوا کہ فوجی تیاریاں ہونے لگی ہیں۔ جری اور تجربہ کار افسروں کے ماتحت سواروں کے کئی گروہ مختلف حصوں میں تقسیم ہوئے۔ اور رسد کی فراہمی اور دشمن کے بھولے بھٹکے دستوں سے نبرد آزمائی کرنے کے لیے مختلف اطراف کو روانہ ہو گئے۔ ان مین سب سے زیادہ مسلح مارکوئس ڈی ولینا۔ اور اُس کے جری بھائی


صفحہ نمبر 67


ڈان الونزڈی پاچیکو کے دستے تھے اور اسی فوج میں ایسے سوار بھی تھے جن کی رگوں میں ہسپانیہ کا بہترین خون موجزن تھا۔ کیونکہ اس جری فوج کے افسر آپس میں اس امر کے متعلق مقابلہ کیا کرتے تھے۔ کہ دیکھیں کون اپنی ذاتی جواں مردی سے دوسرے سپاہیوں کو نبرد آزمائیوں کو مات کرتا ہے۔ اور ولینا کی سہرت کے سبب سے بہت سے ایسے من چلے جواں مرد اُس کی فوج میں شامل ہو گئے تھے۔ جو فرڈی نینڈ کی سیاسی مہمّات میں فوج کے بے کار ہونے سے سخت پریشان تھے۔

آفتاب آسمان پر بلند تھا۔ اور جب وہ لوگ کیمپ کو پیچھے چھوڑ ایک زرخیز و سایہ دار علاقہ میں داخل ہوئے۔ جو ویگا کی پہاڑی چوجی کے چاروں طرف پھیلا ہوا تھا تو آفتاب کی شعاعیں ولینا کی جماعت کے اعلیٰ اسلحہ اور سرفراز پرچموں پر چمک رہی تھیں۔ دن کی درخشانی۔ منظر کی لطافت اور جدال و قتالی امید اور جوش نے تمام جماعت کے حوصلے بڑھا رہے رکھے تھے۔ ایسی مہموں میں ضبط و آئین کی پابندی اس خیال سے نظرانداز کر دی جاتی تھی کہ ضرورت پر اسے پھر قائم کیا جا سکتا تھا۔ سپاہیوں کی جماعت میں دلچسپ اور بلند آواز میں گفتگو ہو رہی تھی۔ جس کے درمیان مختلف اوقات پر کبھی کبھی گیتوں کی تانیں بھی سنائی دیتی تھیں۔ اور شرفا کی جماعت میں بھی جو ولینا کے ہمراہ جا رہی تھی۔ اہلِ ہسپانیہ کی مخصوص مسلمہ متانے اس وقت بہت کم نظر آتی تھی۔

ڈان اسٹیوان نے کہا۔ "مارکوئیس آج ہمارے درمیان اس بات کی کچھ شرط رہے کہ کس کا نیزہ مُوری حسن کے پرستاروں کی سب سے زیادہ تعداد پر ڈاکہ ڈالتا ہے"

ڈان ایلونز نے شرط منظور کی۔ "تمہارے بھالے کے مقابلہ میں میری تلوار رہی"


صفحہ نمبر 68


"منظور۔ ہاں برسبیلِ تذکرۂِ حسن۔ مارکوئیس گزشتہ شب تم ملکہ کی فرودگاہ میں تھے؟ ایک نووارد حسینہ جس کے اچانک حیرت انگیز طریقہ سے آ جانے کی وجہ کسی کو بھی نہیں معلوم۔ فرودگاہ کی رونق کو دوبالا کر رہی تھی۔ اُس کی آنکھوں کے مقابل کیوا کی قاتل نگاہیں بھی ہیچ ہیں۔ اور اگر میں راڈریگو ہوتا۔ تو صرف اس کے دل فریب تبسم پر اپنا تاج نثار کر دیتا"

ولینا نے کہا۔ "ہاں میں نے اُس حسینہ کے متعلق کچھ سُنا تو تھا۔ کوئی غدّار مور جس سے جہاں پناہ (اُن پر بزرگوں کی رحمت ہو) شہر غرناطہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسے بطور یرغمال چھوڑ گیا ہے۔ میں نے سُنا ہے کہ اس حسینہ کی جانب شہزادہ کی زیادہ توجہ دیکھ کر ملکہ برا فروختہ ہو گئی تھی۔ اور اُس نے شہزادہ کو معقول سرزنش کی ہے"

"اور آج صبح میں نے اُس خوفناک پادری ٹومس کو شہزادہ کے خیمہ میں چُپ چاپ گھستے ہوئے دیکھا تھا۔ کاش ڈان جُوآن اس کے وعظ کو دل سے سُنے۔ پادری کی نصیحت العروبہ کی مانند ہے۔ جسے خُشک ہونے کے لیے رکھ دیا جائے تو ضرور مفید پڑتا ہے۔ لیکن اگر تازہ استعمال کی جائے۔ تو تلخ و بد مزہ ہوتا ہے"

عین اُس وقت ایک ماتحت افسر گھوڑا دوڑتا ہوا مارکوئیس کے پاس آیا۔ اور اُس کے کان میں کچھ کہنے لگا۔

ولینا نے کہا۔ "عدراے مقدس کا شکر ہے۔ بہادر شہسوار و شکار قریب ہے۔ چُپ چاپ صفیں باندھ لو"

یہ کہہ کر مارکوئیس ایک چھوٹے سے ٹیلے پر چڑھ گیا۔ اور اپنی آنکھوں پر ہاتھوں کا سایہ کر کے وادی کا معائنہ کیا۔ اُس نے دیکھا کہ تھوڑے سے فاصلہ پر مور دہقان


صفحہ نمبر 69


اپنے مویشی کے چند گلے ایک جنگل کی طرف ہانکے لیے جا رہے ہیں۔ جلدی سے حکم دیا گیا۔ فوجیں آگے بڑھیں۔ ہر آواز خاموشی میں ڈوب گئی۔ اس روشن نظارے کی پُر لطف خاموشی میں صرف ہتھیاروں کی جھنکار اور سموں کی ٹاپ رخنہ انداز ہوتی تھی۔ وہ اُن جھاڑیوں تک نہ پہنچے تھے۔ کہ مور اُس میں غائب ہو گئے۔ مارکوئیس نے اپنے آدمیوں کو درختوں کے گرد نصف دائرے کی شکل میں ترتیب دیا۔ اور ایک چھوٹا دستہ اُس کے عقب میں بھیجا۔ تاکہ جنگل سے کوئی شخص باہر نہ نکلنے پائے۔ اس انتظام کے بعد فوج اندر پِل پڑی۔ چند گز کے فاصلہ تک تو زمین توقع سے زیادہ فراخ تھی لیکن آگے چل کر ناہموار سنگلاخ اور کچھ کچھ ڈھلوان ہونے لگی۔ پھر راستہ میں درخت بھی تھے۔ زمین کی ناہمواری اور درختوں کی مزاحمت سے گھوڑوں کی تیز چال دھیمی پڑ گئی۔ ڈان الونزو ایک ایسے راہوار پر سوا تھا جس کا چُست و چالاک و اصیل بدن ہر قسم کی معرکہ آرائیوں کے لیے سِدھا ہوا تھا۔ اور چونکہ وہ خود بھی چھریرے بدن کا بے نظیر شہسوار تھا۔ اس لیے باقی سواروں سے آگے بڑھتا چلا گیا۔ وہ درختوں میں غائب ہو گیا۔ اور ایک لمحہ کے بعد دفعتہً ایک وحشیانہ چیخ کی آواز آئی۔ اس کے ہسپانی کی تنہا آواز سُنائی دی "سینٹ یاگو المدد۔ ہسپانیو بڑھو"

ہر سوار ایڑ لگا کر آگے بڑھا کہ دفعتہً نیزوں اور برچھوں کی ایک بوچھاڑ اس کے زرہ بکتر سے آ کر ٹکرائی اور جھاڑیوں، سرکنڈوں اور چٹان کے شگافوں سے مُوروں کی ایک کثیر تعداد نکل آئی اور وحشیانہ نعرے لگاتی ہوئی سیلاب کی طرح ہسپانیوں کے گرد پھیل گئی۔

ولینا چلایا "جانیں بچا کر پیچھے بھاگو، ہم نرغہ میں آ گئے، ہموار زمین پر چلو" وہ پھرا، ایڑ لگا کر گنجان حصہ میں سے نکلا۔ اور دیکھا کہ پینم دشمن کے آدمی اور گھوڑے قطار در قطار ایک غار سے برآمد ہو رہے ہیں۔ ہر مور اپنے چھوٹے چھوٹے


صفحہ نمبر 70


اور شعلہ صفت گھوڑوں کو باگ سے پکڑے ہوئے لانا ہے۔ اور جنگل سے نکل کر میدان میں آتے ہی اُس پر اُچھل کر چڑح جاتا ہے، ولینا اپنے فوجی اسلحہ میں غرق تھا۔ خود کا اگلا حصہ مُنہ پر آیا ہوا تھا۔ اور نیزہ رکاب میں گڑا تھا، اُس نے اپنے ایسے شہسواروں کی ہمراہی میں جو اپنے آپ کو مُوری پیدل سپاہیوں کے نرغہ میں سے نکالنا چاہتے تھے، دشمن پر حملہ کر دیا، کشت و خون ہونے لگا، کئی مور عیسائی بھالوں سے چھدے ہوئے زمین پر پڑے تھے۔ دشن کی دوسری جانب ولینا کی آواز سنائی دی "سینٹ یاگو، المدد" لیکن بہادر مارکوئیس تنہا کھڑا تھا۔ صرف اُس کا وفادار خادم سولیر اُس کے ساتھ تھا۔ اس کے کئی شہسوار گھوڑوں پر سے گر پڑے۔ موروں کو گروہ کے گروہ اپنے خنجر اُٹھائے اُس کے گرد جمع تھے۔ اور اسی فکر میں کہ کہیں زرہ کا کوئی جوڑ دکھائی دے جائے تو ایک جاں ستاں وار کریں، رفتہ رفتہ ایک ایک کر کے ولینا کے کئی ہمراہی اہنے سردار سے آ ملے۔ اور درختوں کے باہر ڈان الونزو کا سبز لبادہ لہراتا دکھائی دیا۔ ولینا اپنے بھائی کو زندہ پا کر خوشی کے مارے پھولے نہ سمایا۔ عین اُس وقت ایک موری سوار ایڑ لگا کر صف سے آگے بڑھا اور ڈان الونزو سے جو گھوڑا سر پٹ اُڑائے چلا آ رہا تھا۔ آن بھڑا، مُورپینم کے شرفا کی مانند عیسائیوں کے وزنی اسلحہ سے مسلّح نہ تھا۔ بلکہ قدیم بہادرانِ عرب و مراکش کی طرح ایک سبک لچک دار زرہ بکتر اس کے بدن پر آراستہ تھی۔ اس کا عمامہ سفید براق تھا۔ اور جوہردار فولاد کی زنجیریں جو اس کے ہاتھوں میں لپٹ رہی تھیں۔ سر کی حفاظت کرتی تھیں، اس کا مختصر سا چغہ اور لبادہ بھی سفید ہی تھا۔ اس کے بائیں بازو پر ایک چھوٹی سی مدّور ڈھال آویزاں تھی۔ دائیں ہاتھ میں ایک لمبا اور سبک نیزہ سنبھال رکھا تھا۔ وہ مور ایسے مُشکی گھوڑے پر سوار تھا۔ جس کے سیاہ رنگ میں ایک سفید بال بھی نظر نہ آتا تھا۔ آخر وہ ڈان الونزو کے مقابلہ میں بڑھا۔ عیسائی اور مور


صفحہ نمبر 71


دونوں دم بخود اور ساکت رہ گئے۔ دونوں مشہور قومیں ایسے مشہور بہادروں کو لڑائی سے روکنا احکام مذہبی کی خلاف ورزی سمجھتی تھیں۔

ولینا سے متفکرانہ انداز میں آہستہ سے کہا "خدایا۔ میرے بھائی کو بچائیو" چاروں طرف سے آمین کی آواز آئی۔ کیونکہ وہ سب جنھوں نے اس جنگ اعلیٰ ترین شجاعت کے کارنامے دیکھے تھے۔ موسیٰ بن ابی غازان کے خیرہ کر دینے والے لباس اور مُشکی راہوار کو دیکھ کر کانپ اُٹھے تھے۔ لیکن اُس بے دین کے مقابلہ کے لیے بھی کوئی معمولی دشمن نہ تھا "فخرِ سپہ گری اور ہیبتِ میدانِ کارزار" وہ دل پسند خطاب تھا۔ جو شہسواروں اور قشطالہ کی خاتونوں نے ڈان الونزوڈی پاچیکو کو عطا کر رکھا تھا۔

جب ہسپانی نے دہشت انگیز مور کو اپنی جانب بڑھتے دیکھا۔ تو وہ دفعتہً ایک لمحہ کے لیے ٹھٹک گیا۔ اور پھر گھوڑے کو موڑ کر ایک وسیع چکر کاٹا۔ تاکہ اپنے حملہ کو مزید قوت دے، مور بھی اس کا عندیہ بھانپ کر رک گیا۔ اور اس کے حملہ کی ساعت کا انتظار کرنے لگا۔ مگر پھر ایک بار وہ آگے بڑھا۔ اور دونوں حریف اس خوبی سے ملے کہ خود عیسائیوں کے منہ سے بے ساختہ واہ واہ نکل گئی۔ موسیٰ نے الونزو کے وزنی بھالے کو اپنی ڈھال کی مختصر سطح پر روکا۔ اور اپنے سبک نیزے سے عیسائی کے خود پر ضرب لگائی۔ وار شدید نہ تھا۔ لیکن چونکہ عین نشانہ پر بیٹھا تھا اس لیے الونزو لڑکھڑا کر زمین پر گر پڑا۔

نیزے ایک طرف پھینک دئیے گئے۔ عیسائی کی لمبی چوڑی خم دار تلوار اور مور کا دمشقی خنجر ہوا میں چمکنے لگے۔ دونوں نے اپنے گھوڑے نہایت متانت و استغراق کی خاموشی سے ایک دوسرے کے مقابل روک لئے۔

آخر خونخوار مُور نے کہا "بہادر شہسوار! اطاعت قبول کر۔ کہ میری تلوار پر جو اسماء منقوش ہیں۔ وہ اعلان کرتے ہیں کہ اگر تو اس کے وار کے مقابل آیا تو تیری زندگی کے دنوں کا شمار پورا ہو جائے گا۔ مومن کی شمشیر جنت اور جہنم کی کلید ہے"


صفحہ نمبر 72


الونزو نے ایسی آواز میں جو اُس کے خود میں گونج اُٹھی کہا "اے دروغ گو پینم! ایک عیسائی شہسوار موروں کی ایک پوری فوج کے برابر ہے"

موسیٰ نے کچھ جواب نہ دیا۔ بلکہ باگ گھوڑی کی گردن پر ڈھیلی چھوڑ دی۔ اصیل جانور اشارہ سمجھ گیا۔ اور بے تابانہ ہنہنا کر پوری رفتار سے آگے جھپٹا الونزو نے تلوار بلند کر کے اور اپنے تمام جسم کو ڈھال سے چھپا کر مور کے ہلّہ کا مقابلہ کیا مور جھک گیا، ہسپانیوں نے نعرہِ مسرت بلند کیا، معلوم ہوتا تھا کہ موسیٰ گھوڑے گرا چاہتا ہے۔ لیکن وزنی تلوار کے وار نے اسے چھوا بھی نہ تھا۔ اور بظاہر بغیر کسی کوشش کے اس کے اپنے خنجر کا خمدار پھل دشمن کے گلے کے نیچے اُس مقام تک اُتر گیا۔ جہاں خود زرہ بکتر سے ملا ہوا تھا۔ اور بلا مزاحمت جوڑوں میں اُترتا چلا گیا، الونزو چیخ مارے بغیر اپنے گھوڑے سے نیچے گرا۔ بظاہر اس کی زرہ بکتر صحیح سالم معلوم ہوتی تھی۔ لیکن ایک خوفناک زخم سے خون کی تللیّاں بہنے لگیں۔

موسیٰ جب اپنے دوستوں کے زمرہ میں آ کر ملا تو اُنہوں نے الّا اللہ کا شان والا نعرہ آسمان کی طرف بلند کیا۔ بے شمار مُوری زبانوں کی فلک شگاف تکبیروں سے گنبد گردوں گونج اُٹھا۔ اور پیشتر اس کے کہ اس صدمہ کے بعد عیسائیوں کے ہوش و حواس ذرا بجا ہوں۔ وہ اپنے خونخوار دشمنوں کے ٹڈی دل لشکر سے دست بدست لڑائی میں مصروف ہو گئے۔ حقیقت میں دونوں فوجوں کی تعداد میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اور ہسپانی انگشت بدنداں تھے۔ کہ مُور اس قدر مختصر جگہ میں قیام کرنے اور چھپنے کا انتظام کیونکر کر سکے۔ سوار اور پیدل فوج دونوں نے ولینا کے دستہ کو جو دم بدم گھٹتا جاتا تھا۔ گھیر لیا۔ اور جب پیادہ فوج جوش اور وحشیانہ خونخواری سے گھوڑوں کے سُموں اور سواروں کے مُہلک نیزوں کا مقابلہ کرتی ہوئی گھوڑوں کے نیچے پِل پڑی۔ کہ انہیں اپنے تیز موری خنجروں سے مجروح کرنے کا موقعہ مل سکے۔ تو سواروں نے ہسپانیوں کی خوفناک دست بدست لڑائی سے احتراز کر کے انہیں نیزوں سے ہراساں کرنا شروع کر دیا۔ کبھی بڑھتے تھے اور کبھی ہٹتے تھے اور حیرت انگیز چالاکی کے ساتھ مشرقی جنگ جوئی کے خصوصیات کو نظارہ افروز کرتے تھے۔


صفحہ نمبر 73


لیکن اپنی جماعت کا رُوح رُواں بہادر موسیٰ تھا۔ وہ ایک ایسے جوش بے پروا سے اپنے مبارک اسپ شبرنگ کو اُن صفوں کے درمیان مہمیز کرتا تھا۔ جنہیں ولینا اپنے گرد قائم کرنا چاہتا تھا کہ اوہام پرست ہسپانی سمجھتے تھے۔ کوئی ساحر ہے۔ موسیٰ اپنے ایک حملہ سے اُن صفوں کو درہم برہم کر دیتا تھا۔ اور اپنے خاموش اور سریع الحرکت اور مہلک خنجر سے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد فوج کے کسی نہ کسی نامور افسر کو خاک و خون میں آلودہ کر دیتا تھا۔

ولینا نے جو زندگی اور ناموری دونوں سے مایوس ہو چکا تھا۔ اور اپنے بھائی کے قتل پر غم و غصہ سے دانت پیس رہا تھا۔ آخرکار ارادہ کیا۔ کہ جنگ کی آخری اُمید تنہا اپنے ساتھ وابستہ کرے۔ چنانچہ اُس نے پسپائی کا حکم دے دیا۔ اور اپنی افواج کو بچانے کے لیے خود لوہے کے بت کی طرح بے حس و حرکت تنہا کھڑا رہا۔ اگرچہ وہ قد و قامت میں ممتاز نہ تھا۔ لیکن ہرننڈوڈل پلگار اور گنسالووڈی قرطبہ کے بعد تمام فوج میں بہترین تیغ آزما کا رتبہ رکھتا تھا۔ وہ مسیحیوں کے طرز جنگ کی پُرزور یورش اور موری جنگ و جدال کے سریع حرکات دونوں میں یکساں ماہر تھا۔ اس خوفناک گرد و پیش میں وہ یوں تنہا کھڑا تھا۔ جیسے کوئی شیر مجبور ہو کر شکاری کے مقابلہ میں دانت کال لیتا ہے۔ اس کی افواج آہستہ آہستہ نیچے دیگا میں پیچھے ہٹ رہی تھیں۔ اور اپنی نفیریوں سے آفت و مصیبت کی فریاد اور استمداد کے پُرزور نالے بلند کر رہی تھیں۔ ولینا کی زرہ موری نیزوں کی تضحیک کر رہی تھی۔ وہ یکے بعد دیگرے اپنے خنجر گھماتے اور اچانک حملہ کرتے ہوئے اُس کی جانب بڑھتے تھے۔ اور اپنے سے زیادہ زود فہم نگاہوں اور زیادہ مضبوط اسلحہ کے سامنے سرنگوں ہوئے بغیر نہ ہٹتے تھے۔ دفعتہً گرد و غبار کا ایک بادل سیلاب کی طرح اس کی جانب بڑھا۔ اور موسیٰ جواب سے ایک لمحہ پہلے میدان کے دوسرے سرے پر تھا۔ اس بادل میں سے برق کی طرح چمکتا ہوا


صفحہ نمبر 74


نمودار ہوا۔ اس کا سفید چغہ لہرا رہا تھا۔ اور اس کا دایاں بازو برہنہ تھا۔ ولینا نے اسے پہچان لیا۔ دانت پیسے۔ اور گھوڑے مہمیز کر کے اس کے ہلّہ کا مقابلہ کیا۔ بھاری تلوار موسیٰ کے سر پر چمکی۔ مگر وہ ایک پہلو کی طرف ہٹ گیا۔ اور پلٹ کر اپنے خنجر سے ایک ایسی ضرب لگائی۔ جوران کے جوڑ پر زرہ کو چیرتی ہوئی جسم میں گھس گئی۔ اور خنجر کے پھل کے ساتھ ہی خون کی دہارا نکلی۔ جب بہادر سواروں نے اپنے افسر کو خطرے میں دیکھا۔ تو اُن میں سے تین آدمی تیر کی طرح بڑھے اور موقع پر پہنچ کر حریفوں کو جدا کر دیا۔

موسیٰ نئی کمک کا مقابلہ کرنے کے لیے نہ ٹھہرا۔ بلکہ میدان میں سرپٹ گھوڑا دوڑا کر تھوڑی دیر بعد اپنے منتشر سواروں کو فراہم کر کے ہسپانیوں کی باقی ماندہ فوج کو پھر نشیب کی طرف ہٹاتا ہوا دکھائی دیا۔

شہسوار ولینا نے نہایت تلخ اور مایوسانہ انداز سے کہا "ہمارا آخری وقت آن پہنچا۔ میرے دوستو اب ہمارے لیے اس کے سوا کچھ چارہ نہیں۔ کہ اپنی جانیں قربان کر دیں۔ اور ایک نظیر قائم کریں۔ کہ ہسپانی جنگ جوؤں کو کیونکر زندہ رہنا اور کیونکر مرنا چاہیے۔ خدا اور مادرِ مقدس ہمارے گناہوں کو معاف کرے اور عذابِ قبر کو مختصر"

جوں ہی وہ اس طرح للکارا۔ کچھ فاصلہ سے ایک بوق کی صدا سنائی دی۔ شہسواروں کے حوصلے تازہ ہو گئے۔ اور گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں آنے لگیں۔

السٹیون ڈی سوزان نے رکابوں میں کھڑے ہو کر کہا "اب ہم بچ گئے" اُس نے یہ کہا ہی تھا کہ موری سوار ایک اُمڈے ہوئے دریا کی طرح اس مختصر گروہ پر آ پڑے۔ السٹیون نے دیکھا۔ کہ موسیٰ بن ابی غازان کی سیاہ چمکیلی آنکھیں اور کانپتے ہوئے ہونٹ اس کی جانب متوجہ ہیں۔ اس عالی نسب شہسوار کو شاید اس سے پیشتر کبھی محسوس نہ ہوا تھا کہ خوف کیا ہوتا ہے۔ لیکن اب کہ وہ اس زبردست دشمن کے مقابلہ میں کھڑا ہوا تھا اسے احساس ہوا کہ اس کے دل نے دھڑکنا بند کر دیا ہے۔

ڈی سوزان نے سوچا۔ ملک الموت اس کی تلوار کا رفیق معلوم ہوتا ہے۔ لیکن میں نے بھی
 
Top