لیڈرز کیسے بنتے ہیں ؟ : چین کی ایک مثال

الف نظامی

لائبریرین
چین کی کامیابی کا ایک اہم راز یہ ہے کہ قومی فیصلہ سازوں کی باقاعدہ لیڈرشپ ٹریننگ کے لیے حکمران چینی جماعت کمیونسٹ پارٹی نے بیجنگ میں سنٹرل پارٹی سکول اور چائنہ ایگزیکٹو لیڈر شپ اکیڈمی نامی انتہائی منظم ادارے قائم کر رکھے ہیں۔ چین میں قائدین کی چھپی صلاحیتوں کو اچھی طرح اجاگر کرنے کے لئے انہیں معتدل اور متوازن ماحول میں پروان چڑھایا جاتا ہے۔

سنٹرل پارٹی سکول 1978ء سے آج تک پچاس ہزار اعلی حکومتی اہلکاروں کو بہتر انداز میں پیشہ وارانہ خدمات سرانجام دینے کی تربیت دے چکا ہے۔

چین میں وفاقی ، صوبائی اور نچلی سطح کے موثر فیصلہ سازوں پر لازم ہے کہ وہ اس سکول سے تین ماہ سے تین سال دورانیہ تک کا باقاعدہ کورس مکمل کریں


اس سکول کی پچیس سو بڑی برانچیں بھی ہیں اور اس کو چلانے والے عملے کی مجموعی تعداد ایک لاکھ کے قریب ہے ۔

سابق چینی صدر ہوجن تاو اور موجودہ چینی صدر شی جین پینگ اس سکول کے ہیڈ ماسٹر رہ چکے ہیں۔

یہ سکول سولہ مختلف مضامین میں باقاعدہ ڈگریاں دیتا ہے اور سالانہ پندرہ سو کے قریب اعلی درجے کے حکومتی اہلکار یہاں سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔


اس سکول میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کے مخصوص منتخب پارٹی اراکین کو متعلقہ شعبوں میں وزیر یا مشیر بنانے اور مستقبل کی چینی قیادت کو چیلنجز سے نمٹنے کی تربیت دی جاتی ہے۔

یہ تربیت مکمل کرنے کے بعد اراکین ایک خاص سند حاصل کرتے ہیں اور اسی شخص کو چین میں وزیر یا مشیر بننے کا اہل سمجھا جاتا ہے جس کے پاس یہ سند ہو۔

مضمون : لیڈرز کیسے بنتے ہیں
کتاب : چین سے برطانیہ تک
صفحہ 71
از حنان علی عباسی
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
انتخابی اصلاحات:
الیکشن لڑنے کا خواہش مند کم از کم سولہ سالہ تعلیم رکھتا ہو
وفاقی وزراء کا متعلقہ شعبوں میں پی ایچ ڈی ہونا ضروری ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
سیاسی لیڈر کی چار خوبیاں:
اکنامکس ،لاء ، میڈیسن، انجینئرنگ میں سے کسی ایک کا ماہر ہو اور زراعت ، پانی، صنعت، کمیونٹی ڈویلپمنٹ اور انسانی حقوق کا گہرا علم رکھتا ہو
اخلاقی اور مالیاتی حوالے سے دیانت کے اعلی معیار پر ہو ، پارلیمانی اداروں اور روایات کا انتہائی احترام کرتا ہو ،جمہوری اداروں میں باقاعدگی سے شرکت کرتا ہو، مہذب زبان استعمال کرے
پارلیمنٹ کے رکن کو کسی صورت پارلیمنٹ میں غلط بیانی نہیں کرنی چاہیے
پاکستان اور اس کے اداروں سے وفاداری شک و شبہ سے بالاتر ہو ذاتی اور سیاسی مفاد کو ملکی مفاد پر ترجیح نہ دے

Sartaj Aziz A Living Legend, page 41
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین

الف نظامی

لائبریرین
سیاست دان کسے ہونا چاہیے؟
1- جو اعلی تعلیم یافتہ ہو۔
2- جو سرمایہ دار ہو۔
3- جو تجربہ کار ہو۔

4- جو اعلی تعلیم یافتہ اور تجربہ کار ہو۔
5- جو اعلی تعلیم یافتہ اور سرمایہ دار ہو۔

6- جو اعلی تعلیم یافتہ ، تجربہ کار اور سرمایہ دار ہو۔
 

الف نظامی

لائبریرین
Rich (BB code):
It is very easy to sit back and come up with grand theories about how to change the world. But often our intuitions are wrong. The world is too complex to figure everything out from your armchair. The only way to be sure is to go out and test your ideas and programs, and to realize that you will often be wrong. But that is not a bad thing. It leads to progress. (Esther Duflo)
 

الف نظامی

لائبریرین
انتخابی اصلاحات:
الیکشن لڑنے کا خواہش مند کم از کم سولہ سالہ تعلیم رکھتا ہو
وفاقی وزراء کا متعلقہ شعبوں میں پی ایچ ڈی ہونا ضروری ہے
سینیٹ میں صدر مملکت اور وزیراعظم کی تعلیمی قابلیت سے متعلق بل پیش کردیا گیا۔

آئین کے آرٹیکل 62 میں ترمیم کا بل سینیٹر ثمینہ ممتاز کی جانب سے پیش کیا گیا۔ بل میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت اور وزیر اعظم کی تعلیمی قابلیت کم سے کم گریجویشن ہو۔

بل کے متن کے مطابق گورنر، وزرائے اعلیٰ، چیئرمین اور ڈپٹی چئیرمین سینیٹ، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر گریجویٹ ہوں، وفاقی وزرا، وزرائے مملکت اور صوبائی وزرا بھی گریجویٹ ہوں۔

آئینی ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ ان عہدوں پر منتخب شخص کے پاس بیچلرز یا اس کے برابر کی ڈگری ہو۔
 

سیما علی

لائبریرین
انتخابی اصلاحات:
الیکشن لڑنے کا خواہش مند کم از کم سولہ سالہ تعلیم رکھتا ہو
وفاقی وزراء کا متعلقہ شعبوں میں پی ایچ ڈی ہونا ضروری ہے
سر یہ تو بڑی مشکل کردی آپ نے پی ایچ ڈی کی ڈگری خریدنا بھی مشکل 🥲
گریجویشن کی تو تھوک کے حساب سے کچرے میں پڑیں ہیں ہمارے پے آرڈر پر کسی اورُکوُڈگری ایشو کردی بڑی
تک ودو کے کراچی یونیورسٹی سے حاصل کی
 

الف نظامی

لائبریرین
ایک مثال لیتے ہیں؛ شہباز گل! پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ کابینہ میں بھی رہا۔

آپ کے خیال میں کیسا رہا؟
1- پرفارمنس کا جائزہ لینے کے لیے خیال اہم نہیں بلکہ ڈیٹا اہم ہے۔

2- جنرلائزڈ نتیجہ یا فیصلہ صادر کرنے کے لیے ایک ڈیٹا پوائنٹ کافی نہیں ہوتا۔
مثلا میتھیمیٹیکل انڈکشن کو ہی لیجیے کیا اس کے لیے ایک مثال/ ایک ڈیٹا پوائنٹ کافی ہوتا ہے؟
کیا یہ ایک غلطی نہیں ہے کہ ایک ڈیٹا پوائنٹ/جزو کو لے کرعمومی/جنرلائزڈ حتمی نتیجہ اخذ کر لیا جائے؟

3- اگر مثال ہی دینی ہے تو ایک مثال یہ بھی دیکھیے
 
آخری تدوین:
Top