میری سمجھ میں نہیں آیا کہ ایک طرف تو آپ یہ فرمارہیں ہے کہ”فضائل اعمال“ (سابقہ نام ”تبلیغی نصاب“ جو بوجوہ تبدیل کردیا گیا) ہو، ”بہشتی زیور“ہو، کشف المہجوب ہو یا اسی جیسی کوئی اور تصنیف، یہ اغلاط سے پاک ہرگز نہیں ہیں۔ ان میں قرآن اور صحیح احادیث سے موافق مواد بھی ہیں اور متصادم بھی۔ اور کسی انسانی تصنیف میں اغلاط کا نہ ہونا، یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان خطا کا پتلاہے۔ اصل اور دین ان کتب میں نہیں بلکہ جیسا کہ برادرم محمد یعقوب آسی نے فرمایا، اصل دین قرآن اور صحیح احادیث میں موجود ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب دین اسلام کا مستند اور مکمل منبع قرآن و حدیث موجود ہے تو ہم پھر ہم اس قسم کی ناقص تصانیف کو سینے سے لگانے پر ہی کیوں مصر ہیں۔ پہلے قرآن پڑھئے۔ عربی سیکھ کر پڑھئے۔ اگر ایسا نہیں کرسکتے تو تراجم سے ہی قرآن کا دوچار مرتبہ مکمل مطالعہ کیجئے تاکہ آپ قرآن اور اسلام کی روح کو سمجھ سکیں۔ ساتھ ساتھ صحیح احادیث (جیسے بخاری و مسلم وغیرہ) کا مطالعہ کجیئے۔ جب ایک مسلمان کا قلب اور دماغ قرآن اور احادیث کی روح سے آشنا ہوجائے تو پھر دیگر اسلامی اسکالرز کی کتب ضرور پڑھئے آپ کو خود معلوم ہوتا جائے گا کہ ان کتب میں کیا کچھ قرآن و احادیث کی تشریحات پر مبنی ہیں اور کیا کچھ اس کے برخلاف۔ عموماً لوگ اپنے ”ممدوح دینی اسکالرز“ کی تحریر کو ”حرف ِ آخر“ سمجھ کر ایک طرف تو قرآن و حدیث سے ”بے نیاز“ ہوجاتے ہیں، دوسری طرف اگر کوئی ان کتب کی خامیوں کی طرف توجہ دلائے تو سیخ پا ہوجاتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں۔
- تبلیغی نصاب میں بیشتر مقامات پر قرآن اور احادیث کے کوٹیشنز سمیت دیگر ”واقعات“ بلا حوالہ بیان کئے گئے ہیں۔ کسی بھی دینی تصنیف کے ”مستند ہونے“ کی سب سے بڑی ”پہچان“ یہ ہوا کرتی ہے کہ اس میں پیش کردہ کوٹیشنز کا حوالہ بھی موجود ہو۔ متعدد مقامات پرقرآنی آیات کا حوالہ ”پارہ نمبر فلاں، رکوع نمبر فلاں“ دیا گیا ہے۔ جبکہ قرآنی آیات کا حوالہ ہمیشہ سورت نمبر اور آیت نمبر کے طور پر دیا جاتا ہے۔
- فضائل اعمال نامی اس کتاب میں بہت سی ”غلط بیانیاں“ موجود ہیں جیسے امام شافعی کا نماز میں ساٹھ قرآن پاک کا پڑھنا ، ایک سید صاحب کا بارہ دن تک ایک ہی وضوع سے نماز پڑھنا ، زین العابدین کا دن میں ہزار رکعات نماز پڈھنا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں شراب پینے کا حکم اور غیر محرم کے پیٹ پر ہاتھ پھیرنے جیسے الزامات شامل ہیں۔
- صاحب کتاب کارکنانِ تبلیغی جماعت کے متعلق فرماتے ہیں: اگر چہ تم کتنے ہی ضعیف ہو ممکن ہے کہ حق تعالیٰ تم سے وہ کام لیں جو بڑے بڑوں سے نہ ہوسکے اور اگر حق تعالیٰ کسی کام کو لینا نہیں چاہتے تو انبیاء بھی کتنی کوشش کریں تب بھی وہ ذرہ نہیں ہل سکتا اور اگر کرنا چاہے تو تم جیسے ضعیف سے بھی وہ کام لے لیں جو انبیاء سے بھی نہ ہوسکے غرض جب کہ ہمارے پاس تمہارے جیسے ضعیف ہیں تو حق تعالیٰ تم سے سب کام لے لیں گے ( مکاتیب الیاس ص ۲۱)
- نظام الٰہی میں بھول (نعوذباللہ) ۔۔۔ ام کلثوم کے خاوند عبدالرحمٰن تھے اور ایک دفعہ ایسی سکتہ کی حالت ہوگئی کہ سب نے انتقال ہونا تجویز کرلیا ام کلثوم اٹھیں اور نماز کی نیت باندھ لی ۔ نماز سے فارغ ہوئیں تو عبدالرحمٰن کو بھی افاقہ ہوا ۔ لوگوں سے پوچھا کہ کیا میری حالت موت کی سی ہوگئی تھی ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ جی ہاں ، فرمایا کہ،، دو فرشتے میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا چلو احکم الحاکمین کی بارگاہ میں تمہارا فیصلہ ہونا ہے ۔ وہ مجھے لے جانے لگے کہ ایک تیسرے فرشتہ آیا اور ان دونوں سے کہا کہ تم چلے جاؤ یہ ان لوگوں میں سے ہے جن کی قسمت میں سعادت( نیکی ) اس وقت لکھ دی گئی تھی جب یہ ماں کے پیٹ میں تھے اور ابھی انکی اولاد کوان سے فوائد حاصل کرنے ہیں ۔ اس کے بعد ایک مہینے تک عبدالرحمٰن زندہ رہے پھر انتقال ہوا ( فضائل اعمال باب فضائل نماز صفحہ ۱۰ ) ۔۔۔ جبکہ قرآن میں فرشتوں کے بارے میں ہے (و یفعلون ما یو مرون، سورہ تحریم ۶ ) ترجمہ: وہ تو وہی کرتے ہے جن کا انہیں حکم دیا گیا ہوتا ہے ۔
- امام شافعی کا معمول تھا کی رمضان میں ساٹھ قرآن شریف نماز میں پڑھا کرتے تھے ، نماز واحد صیغہ ہے معلوم ہوا کہ ایک نمازمیں ساٹھ قرآن پڑھا تو امام صاحب نہ ہوا کوئی کمپیوٹر ہوا ۔
- ایک سید صاحب کا قصہ لکھا ہے بارہ دن تک ایک ہی وضوع سے ساری نماز یں پڑھیں اور پندرہ برس مسلسل لیٹنے کی نوبت نہ آئی کئی دن ایسے گزر جاتے کہ کوئی چیز چکھنے کی نوبت نہ آتی تھی ( فضائل نماز صفحہ ۶۵) عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ان آبد و زاہد صحابہ میں سے تھے کی روزانہ ایک قرآن مجید ختم کرتے اور رات بھر عبادت میں مشغول رہتے تھے اور دن کو ہمیشہ روزہ دار رہتے ( حکایت صحابہ صفحہ ۱۶۰ ) ۔۔۔ جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ پوری پوری رات عبادت کرنے اور ہمیشہ روزہ رکھنے کو منع فرمایا دیکھئے (بخاری شریف کتاب رمضان )
- (۱) شیخ ابو ایوب سنوسی۔ (۲) ابوالحسین مالکی ،(۳) ابو اعلی کے متعلق زکریا صاحب نے لکھا ہے کہ ان تینوں بزرگوں نے مرنے سے پہلے ہی مرنے کا وقت بتایا چناچہ ایسا ہی ہوا ۔
- حسن بن حی کہتے ہے کہ میرے بھائی علی کا جس رات انتقال ہوا ، کہنے لگے جبرائیل ابھی پانی لائے تھے وہ مجھے پلا گئے اور فرما گئے کہ توں اور تیرا بھائی ان لوگوں میں سے ہے جن پر حق تعالیٰ شانہ نے انعام فرما رکھا ہے ( باب فضائل صدقات صفحہ ۴۷۸ تا ۴۸۱ ) مذکورہ واقعہ کے برعکس پڑھے ۔ حدیث::: قد کان فیما قبلکم من المم محدثون و ان کان فی امتی ھذہ فانه عمر بن الخطاب ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گزرے ہوئے زمانے کی تم سے پہلی امتوں میں محدث، کشف الہام والے ہوا کرتے تھے میری امت میں اگر کوئی ہوتا تو وہ عمر بن الخطاب ہوتے ( بخاری شریف کتاب مناقب عمر )
- شیخ علی متقی نقل کرتے تھے کہ ایک فقیر نے فقراء مغرب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ اس کو شراب پینے کے لئے فرماتے ہیں ۔
- حافظ ابو نعیم سفیان ثوری نے ایک شخص سے پوچھا اس نے کہا ایک آدمی نے ہاتھ میری ماں کے منھ پر پھیرا جس سے وہ بالکل روشن ہوگئی اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا تو ورم بالکل جاتا رہا ۔ مین نے اس عرض کیا کہ آپ کون ہیں کی میری اور میری ماں کی مصیبت کو آپ نے دور کیا انہونے فرمایا کہ میں تیرا نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہوں ۔ جبکہ آئشہؓ فرماتی ہے کہ اللہ کی قسم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے کسی غیرمحرم عورت کا ہاتھ سے نہیں چھوا بلکہ اس کو صرف بات چیت سے بیعت فرمایا ( مسلم ج ۲ صفحہ ۱۳۱ )
- پس نوشت: فضائل اعمال کا نسخہ اس وقت میرے سامنے موجود ہے۔ اور اسے میں بارہا پڑھ چکا ہوں
" کسی انسانی تصنیف میں اغلاط کا نہ ہونا، یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان خطا کا پتلاہے۔ اصل اور دین ان کتب میں نہیں "
اور پھر خود ہی امام بخاری اور امام مسلم کی لکھی ہوئی تصانیف کے حوالے بھی دے رہیں تو امام بخاری اور امام مسلم کو آپ خطاء سے مبراء مانتے ہیں ان کی تصانیف میں اغلاط نہیں ہوسکتی ؟؟؟؟