مائنڈ سائنس ، توجہ اور فیضِ نظر

گوہر

محفلین
اگر اتنی سکت نہیں کہ اپنا تزکیہ خود کر سکیں تو پھر جائیں اور راہ لیں
کسی “صاحب ِ نظر ” کی چوکھٹ کی جسکے درو دیوار بھی “لذتِ سکوں” میں غرق ہیں
تحریر و تحقیق:محمدالطاف گوہر
کوانٹم فزکس اور ذہنی قوت کے مربوط روابط انکے آپس میں لازم و ملزوم ہونے کے راز کو آشکار کر رہے ہیں، جسکے مطابق تمام مادی اشیا کے اجزائے ترکیبی بنیادی طور پر وہ ذرات ہیں جو انہیں ٹھوس شکل اختیار رکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ کوانٹم فزکس اس اصول پر بنیاد کرتی ہے کہ مادہ کا کمترین ذرہ ، الیکٹران دوہری خاصیت کا حامل ہے یعنی کبھی ذرات کی شکل اور کبھی لہر کی شکل میں اپنے وجود کا اظہار کرتا ہے ، جبکہ سائنسی تجربات سے ثابت ہو چکا ہے کہ مادہ کے کمترین ذرات کبھی ذرے کی شکل میں اور کبھی لہر کے طور پر اپنا اظہار کرتے ہیں مگر ایک ہی وقت میں دونوں خصوصیات کا اظہار اکٹھا نہیں کرتے جبکہ انکے اس رویے کا انحصار مشاہدہ کرنے والے پر ہوتا ہے۔
بلاشبہ مادی اشیا ایک انتہائی کمترین ذرہ ، الیکڑان سے مرکب ہیں لہذا اس دنیا کی اساس یہی ذرات اس سارے جہاں میں بکھرے ہوئے ہر طرف موجود ہیں اور یہی اشیا کو مادی شکل دینے کیلئے بنیادی ٹکڑوں کا کردار ادا کر رہے ہیں، یہی انسانی جسمانی ساخت کی بنیاد ہیں اور یہی ذمہ دار ہیں ان گھروں کے جن میں ہم رہتے ہیں اور انہی کی بدولت ہمیں وہ گاڑیاں میسر ہیں کہ جن میں ہم گھومتے پھرتے ہیں اور اس دولت کے بھی جو بینکوں میں جمع ہے، حتیٰ کہ ہماری تمام حقیقتیں ان کمترین ذرات سے اٹی پڑی ہیں جبکہ یہ ذرات اپنا ردعمل اسی طرح سے کرتے ہیں جیسا ہم انکے بارے میں مشاہدہ، دھیان رکھتے ہیں۔
ہم اس مادہ کی ان عالمگیر لہروں سے اسی طرح لفظ بالفاظ متاثر ہوتے ہیں ، جیسا ہم اسکے بارے میں مشاہدہ کرتے ہیں، با الفاظ دیگر کسی بھی شے کی اصلیت و حقیقت کا مشاہدہ دراصل ہمارے لیے حقیقت بنتا ہے۔ یہ ایسا ہی عمل ہے جیسے کسی جنگل میں کوئی درخت گرتا ہے اور اگر اسکے پاس اگر کوئی سننے والا کوئی نہ ہو تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسکے گرنے کی آواز پیدا ہوئی تھی؟یہاں سائنسی تجربات یہ ثابت کرتے ہیں کہ یقیناً آواز پیدا نہیں ہوئی ، کیونکہ درخت صرف اسی صورت میں آواز پیدا کر سکتا کہ اگر اسکا مشاہدہ ، دھیان کیا جائے ورنہ اگر اسکی طرف توجہ نہ دی جائے تو یہ کسطرح سے ممکن ہے کہ وہ آواز پیدا کرتا ؟ لہذا مشاہدہ ، دھیان، خبرداری ، بیداری یعنی توجہ دینے کا عمل مشاہدہ کہلاتا ہے بالفاظ دیگر سے آپ بیدار رہنے کا عمل بھی کہ سکتے ہیں۔
ہمارا دھیا ن اور بیداری اسی طرف ممکن ہے جس طرف ہم متوجہ ہوتے ہیں اور سائنسی تجربات ، ڈبل سلٹ ایکسپیریمنٹ،سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہماری توجہ مادہ کے کمترین ذرہ کے رویہ کو متاثر کرتی ہے لہذا یہ بات واضع طور پر سامنے آتی ہے کہ تمام مادی اشیا کا چال چلن ہماری توجہ،دھیان،سے متاثر ہوتا ہے جبکہ یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ ہماری توجہ کا ہی کمال ہے جو کچھ ہم اس دنیا میں اپنی ملکیت میں رکھے ہوئے ہیں اور ہماری توجہ ہی ہمارے لیے ہماری مادی دنیا کا وجود تشکیل دیتی ہے ،ہر شے جو ہمارے دھیان اور توجہ میں ہے ہمارے خیالات ،تخیل کے باعث وجود پاتی ہے ، جانتے بوجتے ہوئے یا انجانے میں، شناسائی میں یا پھر نا آشنائی کے عالم میں ، لہذا یہ بہت اہم ہے کہ ہم اسی طرف متوجہ ہو جائیں جسکے بارے میں ہم خیال کر رہے ہیں اور وہی کچھ سوچیں کہ جیسا ہم سوچنا چاہتے ہیں ، ہمارے خیالات ہماری موجودہ حالت اور اصلیت کے ماخذ ہیں اور اگر ہم اپنی موجودہ زندگی اور حالت سے مطمئن نہیں تو آج سے ہی نئے طریقے سے سوچنا شروع کر دیں ، نئی ذہنی تصاویر بنائیں ، نئے تصورات کو جنم دیں کہ یہ طریقہ ہمیں ہستی کے نئے وجود میں لا کھڑا کرے اور اگر اتنی سکت نہیں کہ اپنا تذکیہ کر سکیں تو پھر جائیں اور راہ لیں کسی “صاحب ِ نظر ” کے چوکھٹ کی جسکے درو دیوار بھی “لذتِ سکوں” میں غرق ہیں اور یہ ” فیضِ نظر” کا کمال ہے کہ انسانی زندگی میں انقلاب آ جاتا ہے ، از لوں سے سسکتی ہوئی زندگی کو سکون سے آشنا کرنے والی نظر اگر اپنی موج میں شکستہ حال اور خزاں برد پر پڑتی ہے تو اسے بہار سے ہمکنار کرتی ہے اور اگر جلال میں ہریالی پر پڑتی ہے تو اسے خس و خاشاک کر دیتی ہے ، اور جو منظورِ نظر ہو جائے اسکو مسرتِ لازوال سے ہمکنار کرتی ہے۔
جس طرف نظر دوڑائیں “توجہ” کی جلوہ آرائی اپنے حسن و جمال کا شاندار نظارہ پیش کر رہی ہے ، سمندروں پر پڑتی ہے تو انکا سینہ چیر کر راہیں دریافت کرتی ہے ، اگر دریاوں پر پڑتی ہے تو پل باندھ دیتی ہے ، پہاڑوں پر پڑتی ہے تو ریزہ ریزہ کر دیتی ہے ، میدانوں پر پڑتی ہے تو انہیں محلات میں تبدیل کر دیتی ہے ، آسمانوں پر پڑتی ہے تو فاصلے سمیٹتی ہے اور اگر انسانوں پر پڑ جائے تو زندگیاں بدل دیتی ہے۔
چاند کا فیضِ نظر جب زمیں پر ہوا تو سمندر چاندنی کی تاب نہ لا سکے اور اپنے اندر سے بیش و قیمت موتی و گوہر کناروں کی نظر کر گئے ، سورج کا فیضِ نظر جب زمیں پر ہوا تو زندگی نے انگڑائی لی جبکہ زمیں نے سونا اگلا اور زندگی نے سفر کرنا شروع کیا مگر رات کا فیضِ نظر ہوا تو زندگی نے استراحت فرمائی اور دن کے فیض ِ نظر نے لمحوں کو وقت سے آشکار کیا اور بادلوں کا فیضِ نظر ہے کہ ہریالی نے زمین کو مخملی قالین بنا دیا۔
آج جب تو نے مجھے پوچھا کہ “فیض” کیا ہے اور ” نظر، توجہ” کیا ہے تو ، اے سالک ِ راہ حق ، یہ مجھ پر آشکار ہوا کہ معاملات زندگی پر تو “فیضِ نظر” کی عنایات ہیں ورنہ یہ سلسلہ زندگی کبھی کسی گرداب کی نظر ہوتا اور کبھی گہری کھائی کی۔جب کوئی انسان اپنے آپ سے آگاہی حاصل کرتا ہے تو اسے ” لذتِ آشانی” کا ادراک حاصل ہوتا ہے۔ اور جس کے من کی دنیا میں اگر چشمہ خودی پھوٹ پڑے تو زندگی تپتے صحراوں سے نکل کر سکون کی گھنی چھاوں میں آ جاتی ہے اور اندر کا عکس بدل جاتا ہے اور باہر بھی شاہکارِ قدرت کا نظارہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ باطن میں موجزن آگہی کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہونے سے کشف وجدان کے دھارے اور علم و عرفان کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں اور زندگی خزاں سے موسمِ بہار میں آ جاتی ہے۔ اِس آگہی کی لذت ایک شخص تک محدود نہیں رہتی بلکہ یہ بیرونی دنیا پہ بھی براہِ راست اثر انداز ہوتی ہے کہ آسمانوں سے مینہ برستا ہے اور ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں اور قدرت کی طرف سے شاندار استقبال کیا جاتا ہے اور اِس کائنات کا ذرہ ذرہ اِس لذت سے معمور ہوتا ہے کہ جن کا الفاظ احاطہ نہیں کر سکتے اِسی کے دم سے پھلوں میں رس بھرا جاتا ہے اور پھولوں میں خوشبو۔ بیماروں کو شفا ملتی ہے اور یہ نظر جس طرف اٹھتی ہے بہار ہی بہار آ جاتی ہے اور اِس نظر کی موج میں آنے والا ہر پل اپنے اوپر ناز کرتا ہے اور ہر فنا اپنی بقاءدیکھتی ہے۔
اِس زمین میں زرخیزی آتی ہے با الفاظِ دیگر اِس خود ی(Self)کا کیا کہنا کہ جو لذت آشنائی سے لبریز ہے اور ہم اِس کا تذکرہ قرآن کریم سے دیکھتے ہیں۔ سورة الکہف (آیت 60 تا 86) جہاں حضرت موسیٰ اور حضرت خضر کے واقعہ میں ، کس شان سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کا تذکرہ کیا ہے جسے اللہ نے اپنا فضل اور علم بخشا ہے۔ (آیت 79 تا 86) دیکھیں کس طرح سے (بندے کی) میں سے ہم اور ہم سے اللہ تعالیٰ کا تعلق بیان کیا گیا ہے (میں نے چاہا، ہم نے چاہا اور تیرے اللہ نے چاہا) حالانکہ اِس واقعہ میں جو بیان کیا گیا ہے سارے کے سارے واقعات ایک بندہ کے ہاتھ سے سرزد ہو رہے ہیں مگر اِن کی توجیہہ میں ”میں“ سے اللہ تک کی رسائی کا پتہ ملتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے تھا۔ اِس واقعہ میں شریعت اور طریقت کا شاندار امتزاج بیان کیا گیا ہے اور ایک بندے کی ”میں“ کا اللہ سے تعلق بیان کیا گیا ہے اور آشنائی کی لذت سے مامور دیے تو ابد تک کیلئے روشنی بن جاتے ہیں اگر ایک طرف یہ روشنی دوسروں کی رہنمائی کا ذریعہ بنتی ہے تو دوسری طرف انکے فیضِ نظر کے باعث زندگی کی راہیں روشن ہوتی ہیں، یہ فیضانِ نظر کا کمال ہے کہ زندگیاں سکون کی دولت سے مالا مال ہوتی ہیں،، جبکہ ہماری زندگیوں میں روشنی اِنہی چراغوں کے دم سے ہے ، ورنہ کائنات کا ردِعمل ہر ظلم و زیادتی اور آہ پہ آندھی، طوفان اور زلزلوں کی شکل میں نمودار ہوتا ہے، کیونکہ کائنات ہر کرب کا اور مظلوم کی آہ کا جواب ضرور دیتی ہے۔
اے زندگی تو احسان مان ان افرادکا ، جنکے فیضِ نظر کے باعث تواذیتوں اور کرب سے نجات پاتی ہے اور اگر کوئی گمراہی کے گھپ اندھیرے میں بھٹک جاتا ہے تو یہ نظر یں اسکی راہیں روشن کرتے ہوئے آگاہی کا پیش خیمہ بنتی ہیں ، اگر آگاہی کے مراحل طے کرنا دشوار ہوتو اسکی منزل آسان کرتی ہیں اور اگر کوئی روشن چراغ بننا چاہے تو اسکی ٹمٹماتی لو کودرخشاں کرتیں ہیں ۔مگر حیرت ہے اس پہ جو چاند کی تڑپ رکھتی ہوئی سمندر کی لہروں سے ، سونا اگلتی زمین کا سورج سے ، شاندار نظارہ پیش کرتی قوس و قزح اور سرسبز ولہلاتے کھیتوں کا بارش سے جو ربط ہے ، اس سے تو واقف ہیں مگراک " صاحب ِ نظر" کے "حال" سے ناواقف ہے ۔
(یہ مضمون میری زیر طبع کتاب " لذتِ آشنائی" جو کہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے، اسکا ایک باب ہے ، آپکی آرا اور تبصرہ کا انتظار رہے گا)
 
صوفیہ کی توجّہ اور ہمّت کے تو ہم بھی قائل ہیں لیکن یہ ایک ایسی چیز ہے جو مشاہدے میں تو با رہا آئی ہے لیکن اسکی سائنس کے اصولوں کے مطابق توجیہہ ابھی تک پیش نہیں کی جاسکی۔ ۔ ۔مذکورہ ڈبل سلٹ اکسپیریمنٹ کے نتائج پر بڑی موشگافیاں کی گئی ہیں اور متوازی کائناتوں کا نظریہ بھی پیش کیا گیا ہے، لیکن بات بنی نہیں۔ اور یہ دور کی کوڑی بھی لائی گئی ہے کہ سب اٹامک پارٹکلز میں کوئی خاص کمیونیکیشن ہوتی ہے کیونکہ جس قسم کا رویہ ایک پارٹکل کا ہوتا ہے حیرت انگیز طور پر دوسرے کا بھی اسی لمحے میں ویسا ہی رویہ ہوتا ہے۔ رویے سے مراد ویو-پارٹکل بیحیوئر ہے۔ لیکن اس سے صوفیہ کی توجہ وغیرہ امور کی توجیہہ پیش کرنا میرے خیال میں محض ایک تکّلف ہی ہے۔ واللہ اعلم بالصّواب
 
Top