7 سلطانہ ڈاکو
ہندوستان جیسے بڑے ملک کا بڑا حصہ جنگلات سے بھرا ہے اور ذرائع نقل و حمل کم ہیں اور آبادی کا بہت بڑا حصہ خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرتا ہے اور یہ اچنبھے کی بات نہیں کہ لوگ جرائم کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور حکومت کو ان کی سرکوبی میں مشکل پیش آتی ہے۔
عام جرائم پیشہ افراد ہر ملک میں پائے جاتے ہیں مگر ہندوستان میں باقاعدہ قبائل بھی ہیں جو مختلف جرائم میں مہارت رکھتے ہیں۔ حکومت ان قبائل کو عام آبادیوں سے الگ رکھتی ہے اور ان کے جرائم کی نوعیت کے مطابق سختی بھی روا رکھتی ہے۔ پچھلی جنگ کے اختتام کے دوران میں فلاحی کاموں میں مصروف تھا تو ایسی کئی آبادیوں میں جانے کا موقع ملتا رہا۔ ان لوگوں کو نظربند نہیں رکھا جاتا اور ان لوگوں اور ان کی نگرانی کرنے والے حکومت نمائندے کے ساتھ میری اچھی بحثیں ہوتی رہیں۔ ان لوگوں کی جرائم پیشہ عادات چھڑانے کے لیے حکومت نے دریائے جمنا کے بائیں کنارے پر ضلع میروت میں زرخیز زمین مفت دی ہوئی ہے۔ اس زمین پر گنے، گندم، جو اور دیگر غلہ جات کی بہترین فصلیں اگتی تھیں مگر جرائم بھی موجود تھے۔ حکومتی نمائندے نے اس کی ذمہ داری مقامی لڑکیوں پر عائد کی کہ وہ محض ماہر مجرموں سے ہی شادی کرنے کو تیار ہوتی ہیں۔ یہ قبیلہ ڈاکہ زنی کا ماہر تھا اور اس میں بڑے بوڑھے نئے جوانوں کی تربیت کرتے تھے اور ان کی کمائی سے حصہ وصول کرتے تھے۔
اس آبادی سے مردوں کو مخصوص مدت کے پروانے دے کر باہر جانے کی اجازت دی جاتی تھی مگر عورتیں نہیں جا سکتی تھیں۔ اس قبیلے کے بزرگ تین اصولوں پر سختی سے عمل کرتے تھے: پہلا، تمام لوٹ مار اکیلا بندہ کرے گا، دوسرا یہ کہ جائے واردات ان کی رہائش گاہ سے جتنی دور ہو، اتنا بہتر سمجھا جاتا تھا اور تیسرا یہ کہ کسی بھی حالت میں تشدد نہیں کیا جائے گا۔ ان کے جرائم کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ نوجوان تربیت مکمل کر کے کلکتہ، بمبئی یا کسی دوسرے بڑے اور دور دراز کے شہر میں کسی امیر بندے کے ہاں ملازمت کر لیتے تھے اور جب بھی موقع ملتا، ان کا قیمتی سامان مثلاً سونا، زیورات یا قیمتی جواہرات چرا کر بھاگ جاتے۔ ایک بار میں اس قبیلے کے کئی نوجوانوں کے ساتھ کالے تیتر کا شکار کھیل رہا تھا۔ دن کے اختتام پر میں نے انہیں مزدوری دی۔ ایک نوجوان کو میں نے دن کی مزدوری آٹھ آنے اور ایک زخمی تیتر کو تلاش کرنے پر الگ سے دو آنے دیے۔ بعد میں مجھے حکومتی نمائندے نے بتایا کہ یہ نوجوان ایک سال غائب رہنے کے بعد چند روز قبل لوٹا ہے اور اس کے پاس چرایا ہوا کم از کم تیس ہزار روپے مالیت کا ہیرا بھی تھا۔
قبیلے کے بڑے بوڑھوں نے ہیرے کو اچھی طرح پرکھا اور پھر اسے چھپا دیا۔ قبیلے کی سب سے خوبصورت لڑکی نے اعلان کیا کہ وہ سب سے ماہر چور سے شادی کے موسم میں شادی کرے گی۔ ایک نوجوان جو ہمارے ساتھ شکار میں تو شامل نہیں تھا، مگر ساتھ ہی کھڑا تھا، کے بارے پتہ چلا کہ اس نے منصوبہ بنایا ہوا ہے کہ وہ کلکتہ سے چوری کی ہوئی بالکل نئی کار کو انتہائی خراب پگڈنڈی پر چلا کر اس آبادی تک لائے گا تاکہ اس لڑکی سے شادی کر سکے۔ اس مقصد کے لیے پہلے اسے ڈرائیونگ سیکھنی پڑے گی۔
بعض جرائم پیشہ قبائل کے لوگون پر زیادہ پابندی نہیں ہوتی اور یہ لوگ گھروں میں چوکیدار کی ملازمت اختیار کر لیتے ہیں۔ مجھے اس بات کا علم ہے کہ بہت سی جگہوں پر چوکیدار کے جوتے سیڑھیوں پر رکھ دیے جائیں تو چوری سے بچاؤ کے لیے کافی رہتے ہیں۔ عموماً چوکیدار کی ماہانہ تنخواہ تین سے پانچ روپے ہوتی ہے سو چوکیدار رات کو جوتے رکھ جاتے ہیں اور صبح آ کر اٹھا لے جاتے ہیں۔
صوبجات متحدہ میں بھنٹو قبیلہ پرتشدد جرائم کے لیے مشہور ہے اور ان کی سخت نگرانی کی جاتی ہے۔ سلطانہ ڈاکو جو تین سال تک حکومت کے ہاتھ نہ آیا، اسی قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ داستان سلطانہ ڈاکو کے بارے ہے۔ نیا گاؤں کو میں تب سے جانتا ہوں جب وہ ترائی اور بھابھر کا سب سے خوشحال گاؤں تھا۔ ترائی اور بھابھر دراصل ہمالیہ کے دامن میں موجود زمینی پٹی کو کہا جاتا ہے۔ گھنے جنگل سے نکالی گئی انتہائی زرخیز زمین کے چپے چپے پر کاشتکاری ہوتی ہے اور سو سے زائد رہائشی خوشحال، مطمئن اور خوش باش تھے۔ سر ہنری ریمزے، کماؤں کے بادشاہ ان لوگوں کو پہاڑوں سے نیچے لائے تھے اور اپنی محنت کے بل بوتے پر ایک ہی نسل میں یہ لوگ خوشحال ہو گئے۔
اس دور میں ملیریا کو بھابھر بخار کہا جاتا تھا اور اس وسیع علاقے میں ڈاکٹر اکا دکا ہی تھے اور لوگ اس بیماری کا مقابلہ نہ کر سکتے تھے۔ جنگل کے عین وسط میں واقع نیا گاؤں اس بیماری کے ہاتھوں اجڑنے والا پہلا دیہات تھا۔ کاشتکاروں کے مرنے پر یکے بعد دیگر کھیت اجڑتے گئے اور بہت کم آبادی بچی۔ جب ان بچے کچھے لوگوں کو ہمارے گاؤں میں پناہ اور زمین دی گئی تو یہ گاؤں اجڑ کر پھر سے جنگل کا حصہ بن گیا۔
کئی برس بعد پنجاب کے ایک ڈاکٹر نے ان زمینوں کو آباد کرنے کا سوچا مگر پہلے اس کی بیٹی، پھر بیوی اور پھر وہ خود ملیریا سے ہلاک ہوئے اور نیا گاؤں ایک بار پھر سے جنگل بن گیا۔ انتہائی محنت سے صاف کی گئی زمین پر جہاں گنے، گندم، سرسوں اور چاول وغیرہ کی کاشت ہوتی تھی، اب وہاں لہلہاتی گھاس اگ آئی۔ اس گھاس کو دیکھتے ہوئے تین میل دور ہمارے گاؤں سے مویشی یہاں چرانے کو بھیجے جانے لگے۔ جب مویشی جنگل سے گھرے قطوں میں طویل عرصے تک چرتے رہیں تو درندوں کا متوجہ ہونا فطری بات ہے۔ ایک سال جب ہم نینی تال میں اپنے گرمائی گھر سے اتر کر نیچے کالاڈھنگی آئے تو پتہ چلا کہ ایک تیندوے نے پاس موجود جنگل میں رہائش اختیار کر لی ہے اور ہمارے مویشیوں سے بھاری خراج وصول کر رہا ہے۔ چونکہ گھاس کے میدان میں کوئی درخت نہیں تھا، اس لیے تیندوے کے شکار کردہ جانور پر مچان باندھنا ممکن نہ تھا۔ واحد طریقہ یہ تھا کہ صبح سویرے جب تیندوا پیٹ بھرنے کے بعد دن کو گھنی جھاڑیوں میں آرام کرنے جا رہا ہو یا پھر جب شام کو وہ تازہ شکار کی تلاش میں نکلا ہو۔ مگر دونوں طریقوں کے لیے یہ جاننا ضروری تھا کہ تیندوا اردگرد کے جنگلوں میں کس جگہ رہتا ہے۔ اس لیے علی الصبح میں اور روبن یہ جاننے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔
اگرچہ کاشتکاری متروک ہو چکی ہے مگر نیا گاؤں کا نام ابھی تک مستعمل ہے۔ اس کے شمال سے گزرنے والی سڑک کو کندی سڑک کہتے ہیں اور مشرق میں پرانی جی ٹی روڈ گزرتی ہے جو ریلوے لائن تعمیر ہونے سے قبل کماؤں کے اندرونی علاقوں کو میدانی علاقوں سے ملاتی تھی۔
نیا گاؤں جنوب اور مغرب کی سمت میں گھنے جنگل سے گھرا ہے۔ کندی سڑک اور ٹرنک روڈ اُن دنوں کم ہی استعمال ہوتی تھیں۔ اس لیے میں نے جنوب اور مغرب کی بجائے اس آسان جانب کو پہلے دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ دونوں سڑکوں کے سنگم پر کہ جہاں کچھ عرصہ قبل ڈکیتوں سے بچاؤ کے لیے پولیس گارد ہوتی تھی، روبن اور میں نے مادہ تیندوے کے پگ دیکھے۔ روبن اور میں ان پگوں کو بخوبی پہچانتے تھے کہ یہ مادہ تیندوا کئی برس سے ہمارے گاؤں کے زیریں جانب لانتانا کی جھاڑیوں میں رہتی تھی۔ اس نے ہمارے مویشیوں کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا تھا اور سوروں اور بندروں کو کھا کر وہ ہماری فصلیں بھی بچاتی رہی تھی۔ اس لیے ہم نے اس کے پگوں کو نظرانداز کیا اور ٹرنک روڈ پر گروپو کی طرف چل دیے۔ چونکہ پچھلی شام سے یہاں سے کوئی انسان نہیں گزرا تھا، اس لیے تب سے گزرنے والے تمام جانوروں کے پگ محفوظ تھے۔
روبن بہت عقلمند کتا تھا اور میرے ہاتھوں میں رائفل دیکھ کر اسے علم ہو گیا تھا کہ ہم پرندوں کے شکار پر نہیں نکلے اور اس نے راستے پر موجود موروں اور آس پاس چگتے جنگلی مرغوں کو نظر انداز کرتے ہوئے چلنا شروع کیا۔ راستے میں اس کی توجہ ایک شیرنی اور اس کے دو بچوں کے پگوں کو مبذول ہوئی جو ہم سے ایک گھنٹہ قبل یہاں سے گزرے تھے۔ اس چوڑی سڑک پر کئی جگہ چھوٹی مگر گھنی گھاس اگی ہوئی تھی۔ شبنم سے بھری ہوئی اس گھاس میں شیرنی کے بچوں نے لوٹنیاں لگائی تھیں اور یہاں رک کر روبن نے ان کی بو کو اچھی طرح سونگھا۔ ایک میل تک سڑک پر چلنے کے بعد شیرنی اپنے بچوں سمیت جانوروں کی ایک گزرگاہ کو مڑ گئی۔ سنگم سے تین میل اور گروپو سے دو میل اوپر جانوروں کی ایک گزرگاہ جو نیا گاؤں سے آ رہی تھی، نے سڑک کو کاٹا۔ اس گزرگاہ پر ہمیں ایک بڑے نر تیندوے کے پگ دکھائی دیے۔ یہ تیندوا پوری طرح جوان گائے ہلاک کرنے پر قادر تھا اور اس علاقے میں ایک ہی جسامت کے دو تیندوے ہونا لگ بھگ ناممکن ہی تھا۔ روبن ان نشانات کا پیچھا کرنا چاہتا تھا مگر تیندوے کا رخ گھنے اور جھاڑیوں سے بھرے جنگل کی جانب تھا، جہاں کئی برس پہلے کنور سنگھ اور ہار سنگھ کے ساتھ اوپر بیان کیا گیا حادثہ پیش آیا تھا۔ یہ جنگل تیندوے جیسے ہوشیار جانور کا پیچھا کرنے کے لیے مناسب نہیں تھا۔ اس کے علاوہ میرے پاس زیادہ آسان حل موجود تھا، سو ہم ناشتہ کرنے گھر کو روانہ ہو گئے۔
دوپہر کا کھانا کھا کر میگی اور روبن کے ساتھ میں اس جگہ لوٹا۔ اگرچہ گزشتہ روز تیندوے نے کوئی مویشی نہیں شکار کیا تھا مگر ہو سکتا ہے کہ اس نے کوئی چیتل مارا ہوتا جو مویشیوں والی جگہ پر ہی چرتے تھے کہ جس کو کھانے لوٹتا، پھر بھی اس کی واپسی کے اچھے امکانات تھے۔ میگی اور میں راستے کے ساتھ جھاڑی کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گئے اور روبن ہمارے درمیان لیٹا ہوا تھا۔ تیندوا صبح جس گزرگاہ سے گیا تھا، وہ یہاں سے سو گز دور تھی۔ ہم ایک گھنٹہ بیٹھے پرندوں کی آوازیں سنتے رہے کہ ایک مور ہمارے سامنے اپنے خوبصورت پروں کی نمائش کرتا ہوا گزرا۔
میرے اندازے کے مطابق تیندوا جنگل میں جس مقام پر تھا، کچھ دیر بعد اس سمت سے دس بارہ چیتلوں کی آواز آئی جو جنگل والوں کو تیندوے کی موجودگی کا بتا رہے تھے۔ دس منٹ بعد ہمارے قریب سے ایک چیتل نے خطرے کی آواز نکالی۔ تیندوا چلتا ہوا ہماری جانب آ رہا تھا اور چونکہ اس کی آمد خفیہ نہیں تھی، شاید وہ اپنے شکار کردہ کسی جانور کو لوٹ رہا ہوگا۔ روبن ہمارے درمیان آرام سے لیٹا ہوا آوازیں سنتا رہا تھا کہ میں نے اپنی ایک ٹانگ کھڑی کر کے گھٹنے پر رائفل رکھی تو اس کا جسم کانپنے لگا۔ تیندوے سے زیادہ روبن کو کسی چیز سے ڈر نہیں لگتا تھا۔ اسے علم تھا کہ تیندوا سڑک پر آنے سے قبل جھاڑیوں سے سر نکال کر جائزہ لے گا اور پھر باہر نکلے گا اور چاہے گولی لگتے ہی ہلاک ہو جائے یا کچھ دیر تڑپ کر مرے، روبن ذرا سا بھی نہیں ہلتا۔ یہ ایک ایسا کھیل تھا کہ جس کے ہر پہلو سے روبن بخوبی واقف تھا اور اس سے جتنا لطف اندوز ہوتا، اتنا ہی خوفزدہ بھی ہوتا۔
گزرگاہ پر کچھ دیر چلنے کے بعد مور آلوبخارے کے درخت پر چڑھا اور پکے ہوئے آلوبخارے کھانے لگا۔ اچانک شور مچاتے ہوئے اس نے اڑان بھری اور ایک مردہ درخت پر جا کر بیٹھ گیا اور چیخنے لگا۔ چند منٹ، شاید پانچ منٹ بعد، کہ تیندوے بہت آہستہ اور محتاط ہو کر سڑک کو عبور کرتے ہیں، میں نے گوشہ چشم سے سڑک پر ایک حرکت دیکھی۔ ایک بندہ سڑک پر دوڑتا آ رہا تھا اور بار بار پیچھے کو مڑ کر دیکھتا۔
غروبِ آفتاب کے وقت اس سڑک پر کسی آدمی کو دیکھنا غیر معمولی بات تھی اور اس کا اکیلا ہونا بھی عجیب لگا۔ اس آدمی کے اٹھائے ہوئے ہر قدم پر تیندوے کے شکار کا امکان کم سے کم ہوتا گیا۔ تاہم اس بندے کے انداز سے ظاہر تھا کہ وہ کسی مصیبت میں ہے، شاید اسے مدد درکار ہو۔ ابھی وہ کچھ فاصلے پر تھا کہ میں نے اسے پہچان لیا۔ وہ ہمارے ہمسائیہ گاؤں کا کسان تھا اور سردیوں میں گروپو میں مویشی چراتا تھا۔
ہماری جھلک دیکھتے ہی وہ ٹھٹھکا مگر جب اس نے پہچانا تو پھر ہمارے پاس آ کر ہیجان بھرے انداز میں بولا: ‘صاحب، بھاگو۔ سلطانہ کے آدمی میرا پیچھا کر رہے ہیں۔‘ اس کی ہوا بگڑی ہوئی تھی اور مصیبت میں لگ رہا تھا۔ میں نے اسے بیٹھنے کا کہا تو اس نے انکار کیا اور اپنی ٹانگ موڑ کر مجھے دکھائی اور بولا: ‘دیکھیں انہوں نے کیا کیا ہے۔ اگر وہ مجھے پا لیں تو یقیناً مار ڈالیں گے اور آپ بھی اگر نہ بھاگے تو مفت میں مارے جائیں گے۔‘ اس کی ٹانگ کا عقبی حصہ ایڑی سے گھٹنے تک کھل گیا تھا اور خون بہہ رہا تھا۔ میں نے اس بندے کو کہا کہ اگر وہ بیٹھ نہیں سکتا تو کم از کم اسے دوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پھر میں نے جھاڑیوں سے نکل کر سڑک کا جائزہ لیا اور وہ وہ بندہ لنگڑاتا ہوا گاؤں کو چل دیا۔
نہ تیندوا اور نہ ہی سلطانہ کے آدمی دکھائی دیے اور جب شکار کے لیے روشنی ختم ہو گئی تو میگی اور روبن کے ساتھ میں کالا ڈھنگی گھر کو لوٹا۔ اگلی صبح مجھے اس بندے کی کہانی پتہ چلی۔ وہ گروپو کے پاس مویشی چرا رہا تھا اس نے بندوق چلنے کی آواز سنی۔ اس گاؤں کے نمبردار کا بھتیجا چیتل کے چور شکار کی نیت سے آیا ہوا تھا۔ یہ بندہ آواز سن کر درخت کے نیچے بیٹھ کر سوچ رہا تھا کہ آیا چیتل شکار ہوا ہوگا یا نہیں اور یہ بھی کہ کیا مویشیوں کے باڑے میں اس کے لیے شام کو کچھ گوشت باقی بچا ہوگا کہ اس نے اپنے پیچھے ہلکی سی آواز سنی۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو پانچ آدمی کھڑے تھے۔ انہوں نے حکم دیا کہ اس جگہ تک لے جائے جہاں بندوق کی آواز آئی تھی۔ اس بندے نے عذر پیش کیا کہ میں سو رہا تھا، ابھی جاگا ہوں۔ مجھے بندوق کے بارے کوئی علم نہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ باڑے کو چلو کہ شاید بندوق بردار وہاں آیا ہو۔ ان کے پاس کوئی آتشیں اسلحہ نہیں تھا مگر ان کے سردار کے پاس ایک تلوار تھی اور اس نے دھمکی دی کہ اگر شور مچایا یا بھاگنے کی کوشش کی تو وہ اس کا سر قلم کر دے گا۔
جب وہ باڑے کو جا رہے تھے تو ان بندوں نے بتایا کہ وہ سلطانہ کے ساتھی ہیں اور سلطانہ یہیں قریب ہی مقیم ہے۔ جب سلطانہ نے بندوق کی آواز سنی تو اس نے بندوق بردار کو لانے کا حکم دیا۔ اگر کسی نے باڑے میں مزاحمت کی تو وہ باڑے کو جلا کر اس رہنما کو قتل کر دیں گے۔ اس بات سے یہ بندہ جھجھک گیا۔ اسے علم تھا کہ باڑے میں رہنے والے افراد نڈر اور طاقتور ہیں، اگر انہوں نے مزاحمت کی تو یہ بندہ تو مارا ہی جائے گا۔ اگر انہوں نے مزاحمت نہ بھی کی تو بھی اسے تاحیات اس بات پر کبھی معاف نہیں کیا جائے گا کہ وہ سلطانہ کے بندوں کو وہاں تک لے گیا تھا۔ ابھی وہ یہ سوچتا جا رہا تھا کہ ایک چیتل اور اس کے پیچھے لگے جنگلی کتے چند گز کے فاصلے سے گزرے۔ اس کے اغواکار یہ منظر دیکھنے لگے تو اس بندے نے لمبی گھاس میں جست لگائی اور اس بندے کی تلوار سے لگنے والے زخم کے باوجود اس نے تعاقب والوں کو جھٹک دیا اور ٹرنک روڈ پہنچ کر دوڑتا ہوا وہ ہم تک پہنچا تھا جہاں ہم تیندوے کے منتظر تھے۔
سلطانہ بھنٹو قبیلے سے تعلق رکھتا تھا جو جرائم پیشہ مشہور ہے۔ مجھے اسے بات سے غرض نہیں ہے کہ کسی پورے قبیلے کو کیوں جرائم پیشہ کہا جاتا ہے یا پھر انہیں نجیب آباد کے قلعے میں کیوں رکھا جاتا ہے۔ سلطانہ کو اس کی نوجوان بیوی اور شیرخوار بیٹے کے ہمراہ قلعے میں سالویشن آرمی کی نگرانی میں رکھا گیا تھا۔ قید سے تنگ آ کر ایک روز اس نے قلعے کی مٹی سے بنی دیوار میں سوراخ کیا اور نکل گیا۔ اب سلطانہ کو فرار ہوئے ایک سال ہو گیا تھا اور اس دوران اس نے ایک سو سے زیادہ بندے جمع کر لیے تھے جن کے پاس بندوقیں بھی تھیں۔ ان کا مقصد ڈکیتیاں تھا اور یہ لوگ ترائی اور بھابھر کے جنگلات میں زندگی بسر کرتے تھے اور ان کی سرگرمیاں گونڈا سے سہارنپور تک پھیلی ہوئی تھیں جو کئی سو میل بنتا ہے اور بعض اوقات وہ پاس والے صوبے پنجاب میں بھی واردات کرتے تھے۔
سرکاری دفاتر میں سلطانہ کی سرگرمیوں سے متعلق کئی موٹی فائلیں موجود ہیں۔ مجھے ان فائلوں تک رسائی نہیں اور اگر میری کہانی کسی بھی طور سرکاری تفصیلات سے فرق ہو تو میں اس پر افسوس کا اظہار تو کر سکتا ہوں، مگر اپنے ایک حرف سے بھی لاتعلقی اختیار نہیں کروں گا۔
سلطانہ کے متعلق پہلی بار تب سنا جب وہ گروپو جنگلوں میں ہمارے کالا ڈھنگی والے گھر سے چند میل دور مقیم تھا۔ اس وقت کماؤں کے کمشنر پرسی ونڈہم تھے۔ چونکہ سلطانہ کی سرگرمیاں ترائی اور بھابھر سے متعلق تھیں جو ان کے ماتحت علاقہ تھا، اس لیے پرسی نے فریڈی ینگ کی خدمات حاصل کرنے کے لیے حکومت سے درخواست کی۔ فریڈی ینگ کئی برس سے صوبجات متحدہ میں کام کر رہا تھا۔ حکومت نے یہ درخواست قبول کرتے ہوئے ڈکیتیوں کے خلاف باقاعدہ تین سو منتخب افراد کو فریڈی کے حوالے کر دیا۔ اس بارے فریڈی کو آزادی تھی کہ وہ کون سے تین سو افراد چنتا ہے۔ چونکہ فریڈی نے آس پاس کے محکمہ پولیس سے بہترین افراد چنے، اس لیے ہم پیشہ افراد اسے زیادہ پسند نہیں کرتے تھے۔ چونکہ سلطانہ کی گرفتاری پر بھاری انعام مقرر تھا، اس لیے تمام متعلقہ افراد اس کے پیچھے لگے ہوئے تھے اور اب فریڈی ان سے ان کے بہترین ماتحت لے گیا۔
جب فریڈی ماتحت منتخب کر رہا تھا تو اس وقت سلطانہ ترائی اور بھابھر کے چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں لوٹ مار میں مصروف تھا۔ فریڈی نے سلطانہ کو پکڑنے کی پہلی کوشش رام نگر کے مغرب کے جنگلات میں کی۔ انہی دنوں محکمہ جنگلات نے ان جنگلات کی کٹائی شروع کرائی تھی اور ایک ٹھیکیدار کو کہا گیا کہ وہ سلطانہ کو مدعو کرے جو ان دنوں قریب ہی کہیں مقیم تھا۔ دعوت میں پہلے ناچ گانا اور پھر کھانا تھا۔ سلطانہ اور اس کے ساتھیوں نے بخوشی یہ دعوت قبول کر لی اور دعوت شروع ہونے سے ذرا قبل اس نے میزبان کو کہا کہ وہ پہلے کھانا کھائیں گے تاکہ پھر ناچ گانے سے اچھی طرح لطف اندوز ہو سکیں۔
یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ مشرق میں مہمانوں کو ناچ پر بلانے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ مہمان بھی ناچیں گے۔ ناچنے کا کام پیشہ ور خواتین کرتی ہیں اور ان کے ساتھ مرد سازندے ہوتے ہیں۔ مخبری پر انعام دونوں جانب سے دیا جاتا تھا اور اس بارے دونوں کے اپنے اپنے خفیہ مخبر تھے۔ سلطانہ کو فائدہ یہ تھا کہ وہ نہ صرف مخبری پر انعام دیتا بلکہ اطلاع چھپانے پر یا غلط مخبری پر سزا بھی دیتا تھا جبکہ فریڈی کے پاس صرف انعام دینے کا اختیار تھا۔ جب سلطانہ کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کی خبریں پھیلینے لگیں، لوگ مخبری کرنے سے کترانے لگے۔
نجیب آباد کے قلعے میں رہتے ہوئے سلطانہ کو بخوبی علم تھا کہ غربت کیا ہوتی ہے اور اسے غریبوں سے دلی ہمدردی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ سلطانہ نے کبھی کسی غریب سے ایک آنہ بھی نہیں چھینا، کبھی مدد کی درخواست رد نہیں کی اور چھوٹے دوکانداروں سے خریدی گئی ہر چیز کی دوگنی قیمت ادا کی۔ ظاہر ہے کہ اس کے مخبروں کی تعداد سینکڑوں میں تھی اور اسے بخوبی علم تھا کہ ناچ اور کھانے کی دعوت کے پیچھے فریڈی ہے۔
دعوت کے انتظامات جاری تھے۔ ٹھیکیدار امیر بندہ تھا، سو اس نے اپنے دوستوں کو رام نگر اور کاشی پور سے بلوا بھیجا اور ناچ کے لیے بہترین خواتین اور سازندے منگوائے۔ کھانے پینے کا سامان اور شراب کو بیل گاڑیوں پر لاد کر جنگل پہنچایا گیا۔
رات کو مطلوبہ وقت پر ٹھیکیدار کے مہمان جمع ہوئے اور دعوت شروع ہوئی۔ ٹھیکیدار کے مہمانوں سے سلطانہ اور اس کے آدمیوں کو چھپایا جانا مشکل نہیں تھا کہ ہندوستان میں مختلف ذاتوں کے الگ الگ بیٹھنے کی جگہیں تھیں اور الاؤ اور چند لالٹینوں کی روشنی قطعی ناکافی تھی۔ سلطانہ اور اس کے ساتھیوں نے کھانے پینے اور شراب کے استعمال میں عقلمندی دکھائی اور طعام اختتام پزیر ہو رہا تھا تو سلطانہ نے اپنے میزبان کو ایک طرف لے جا کر اس کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ انہیں طویل سفر درپیش ہے اور وہ اب رخصت چاہیں گے۔ اس نے درخواست کی کہ باقی ساری دعوت حسبِ معمول چلتی رہے۔ سلطانہ کی درخواست کوئی رد نہیں کر سکتا تھا۔
ناچ کے دوران سب سے زیادہ آواز ڈھول کی ہوتی ہے اور فریڈی کے لیے یہی اشارہ مقرر تھا کہ وہ اپنی کمین گاہ سے نکل کر دعوت کے مقام کا گھیراؤ کر لے۔ اس کی سپاہ کا ایک حصہ ایک مقامی فارسٹ گارڈ کے ذمے تھا جو تاریک رات میں راستہ بھول گیا۔ اس حصے کا کام سلطانہ کے فرار کا راستہ روکنا تھا مگر ان کی ساری رات راستہ تلاش کرتے ہوئے گزری۔ یہ فارسٹ گارڈ سلطانہ کی طرح اسی جنگل میں رہتا تھا اور اسے راستہ بھولنے کی ضرورت نہیں تھی کہ اس کی مخبری پر ہی سلطانہ نے اپنے پروگرام میں معمولی سی تبدیلی کر کے اپنا بچاؤ کر لیا تھا۔ سو جب یہ سب انتہائی دشوار جنگلات سے راستہ بناتے جب مطلوبہ مقام پر پہنچے تو وہاں محض متحیر تماشائی اور گھبرائی ہوئی لڑکیاں اور ان کے سازندے ہی ملے۔
رام نگر کے جنگلات سے فرار ہو پنجاب چلا گیا جہاں اس کے چھپنے کے لیے کوئی جنگلات نہیں ہیں۔ اس لیے وہاں مختصر قیام کے بعد جب سلطانہ صوبجاتِ متحدہ کے گھنے جنگلات کو لوٹا تو اس کے پاس ایک لاکھ روپے سے زیادہ مالیت کے طلائی زیورات تھے۔ پنجاب سے واپسی پر اسے دریائے گنگا عبور کرنا تھا اور تمام ایسے پُلوں پر پہرہ تھا جہاں سے اس کے گزرنے کے امکانات تھے۔ یہ پُل چار چار میل کے فاصلے پر بنے تھے۔
اپنے مخبروں کی مدد سے ان پلوں سے بچ کر سلطانہ نے ایسی جگہ سے عبور کیا جہاں چوکی پہرہ نہیں تھا اور عبور کرتے ہوئے وہ ایک بڑے دیہات کے قریب سے گزرا جہاں سے موسیقی سنائی دے رہی تھی۔ جب سلطانہ کو علم ہوا کہ ایک امیر آدمی کے بیٹے کی شادی ہے، سو اس نے وہاں کا رُخ کیا۔
شادی کی تقریب گاؤں کے وسط میں میدان میں ہو رہی تھی اور ہزاروں مہمان جمع تھے۔ جب سلطانہ تیز روشنی کے دائرے میں داخل ہوا تو اس وضع قطع سے لوگ گھبرا گئے۔ مگر سلطانہ نے انہیں بیٹھے رہنے کا کہا اور بولا کہ اگر اس کے مطالبات تسلیم کر لیے گئے تو کسی کو کوئی خطرہ نہیں۔ پھر اس نے گاؤں کے نمبردار اور دلہے کے باپ کو بلا کر بولا کہ یہ خوشحالی کا وقت ہے اور تحفے دینے اور لینے کا بھی۔ اس لیے وہ نمبردار کی حالیہ خرید کی گئی بندوق اپنے لیے اور اپنے آدمیوں کے لیے دس ہزار روپے چاہتا ہے۔ فوراً سے بیشتر بندوق اور دس ہزار روپے پیش کیے گئے اور مجمعے کو شب بخیر کہتے ہوئے سلطانہ اور اس کے آدمی چلے گئے۔ اگلی صبح جا کر سلطانہ کو علم ہوا کہ اس کے نائب پیلوان نے دلہن اغوا کر لی تھی۔ سلطانہ کسی قیمت پر خواتین کی بے حرمتی برداشت نہیں کرتا تھا اور اس نے پیلوان کو سخت سزا دی دلہن کو اس تکلیف کے بدلے مناسب تحائف کے ساتھ واپس بھیج دیا۔
چرواہے کی ٹانگ زخمی کرنے کے واقعے کے بعد سلطانہ کچھ عرصہ اس مقام پر رہا۔ اس کی قیام گاہ اکثر بدلتی رہتی تھی اور کئی بار شکار کے دوران میں نے اس کی چھوڑی ہوئی قیام گاہیں دیکھی تھیں۔ ایک بار ایسے موقع پر دلچسپ تجربہ ہوا۔
ایک بار میں نے فائر ٹریک پر گھر سے پانچ میل دوری پر خوبصورت تیندوا مارا اور چونکہ گھر جا کر ملازمین کو لانے کا وقت نہیں تھا، اس لیے میں نے وہیں اس کی کھال اتاری اور گھر روانہ ہو گیا۔ گھر پہنچ کر معلوم ہوا کہ میرا پسندیدہ شکاری چاقو وہیں رہ گیا ہے۔
اگلی صبح میں بہت جلدی چاقو لانے روانہ ہوا اور جب اس جگہ پہنچا تو مجھے جنگل کے ایک قطعے سے روشنی جھلملاتی دکھائی دی جو اس مقام سے کچھ دور تھی۔ سلطانہ کی موجودگی کے بارے کئی دن سے اطلاعات مل رہی تھیں اور نجانے کس خیال کے تحت میں نے جا کر دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ شبنم کی وجہ سے پتہ نرم ہو چکے تھے اور انتہائی خاموشی سے میں ان کے قریب جا پہنچا۔ وہاں ایک چھوٹے سے نشیب میں بیس پچیس افراد دائرے کی صورت میں آگ کے گرد بیٹھے تھے۔ ان کے ساتھ ایک درخت کے ساتھ بندوقیں کھڑی کی ہوئی تھیں اور ان کی نالیاں آگ کی روشنی منعکس کر رہی تھیں۔ سلطانہ موجود نہیں تھا۔ مجھے سلطانہ کا حلیہ معلوم تھا کہ وہ دبلا پتلا اور پھرتیلا جوان ہے اور اس نے ہمیشہ خاکی کپڑے پہنے ہوتے ہیں۔
صاف لگ رہا تھا کہ یہ لوگ اس کے گروہ کا حصہ ہیں، مگر ان کا کیا کیا جائے؟ کالاڈھنگی میں بوڑھا ہیڈ کانسٹیبل اور اس کے دو سپاہی بیکار تھے۔ نزدیکی چوکی پھر پندرہ میل دور ہلدوانی میں تھی۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک بندے نے کہا کہ چلنا چاہیے۔ اب اگر میں چھپنے کی کوشش کرتا تو پکڑا جاتا اور مشکلات بڑھ جاتیں۔ میں نے تیز تیز چند قدم اٹھائے اور سیدھا ان بندوں اور ان کی بندوقوں کے درمیان پہنچ گیا۔ مجھے دیکھتے ہی ان کے چہروں پر حیرت کے آثار نظر آنے لگے کہ میں تھوڑا بلندی پر تھا۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ وہ یہاں کیا کر رہے ہیں تو انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور آخرکار ایک بولا: ‘کچھ بھی نہیں۔‘مزید سوال جواب کرنے پر پتہ چلا کہ یہ لوگ بریلی سے آئے ہیں اورلکڑی جلا کر کوئلہ پیدا کرنا ان کا پیشہ ہے۔ راستہ بھول کر یہاں پہنچ گئے ہیں۔ پھر میں نے مڑ کر ان کی بندوقوں کی جانب دیکھا تو وہ ان کی کلہا ڑیاں تھیں جن کے مسلسل استعمال سے چمکتے ہوئے دستے مجھے پہلی نظر میں بندوقوں کی نالیاں محسوس ہوئی تھیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میرے پیر ٹھنڈے اور بھیگے ہیں سو میں پیر سینکنے ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ جب میرے دیے ہوئے سگریٹ پینے اور گپ شپ سے فراغت ہوئی تو میں نے انہیں ان کی منزل کا راستہ سمجھا دیا۔ پھر میں نے اپنا چاقو تلاش کیا اور گھر لوٹ آیا۔ جب سنسنی خیز صورتحال ہو تو انسانی تصورعجب تماشا دکھاتا ہے۔ ایک بار شیر کے شکار کردہ سانبھر کے قریب میں زمین پر چھپ کر بیٹھا تھا اور شیر کو آتے سنا جو مسلسل آئے جا رہا تھا مگر کسی طور بھی فاصلہ کم نہیں ہو رہا تھا۔ جب تجسس ناقابلِ برداشت ہو گیا تو میں نے اِدھر اُدھر دیکھا تو پتہ چلا کہ ایک چھوٹا سا کیڑا میرے سر کے قریب ایک خشک پتے کو کتر رہا تھا۔ ایک باراور بھی جب شیر اپنےشکار کردہ جانور کو لوٹنے والا تھا تو میں نے گوشہ چشم سے ایک بڑے جانور کو آتے دیکھا۔ جب میں رائفل کو تان کرگولی چلانے کو تیار ہو رہا تھا کہ میں نے غور کیا کہ میرے سر کے پاس موجود ایک خشک ٹہنی پر چیونٹی چل رہی تھی۔ سلطانہ کے بارے سوچتے ہوئے جب میں نے کلہاڑیوں کے چمکدار دستے چمکتے دیکھے تو انہیں بندوقوں کی نال سمجھا اور ان کی طرف دوبارہ تب دیکھا جب ان افراد نے بتایا کہ وہ کوئلہ جلانےو الے ہیں۔
منظم ہونےکے علاوہ بہتر ذرائع نقل و حمل کی وجہ سے فریڈی کا دباؤ سلطانہ پر پڑنے لگا اور اس سے بچنے کے لیے سلطانہ نے اپنے ہمراہیوں کے ساتھ ضلع کے مشرقی کنارے پر پیلی بھیت کا رخ کیا۔ اُس وقت تک سلطانہ کے کافی ساتھی یا تو اس کا ساتھ چھوڑ گئے تھے یا گرفتار ہو گئے۔ پیلی بھیت میں چند ماہ قیام کے دوران سلطانہ پیلی بھیت گورکھا پور تک وارداتیں کرتا اور سونا جمع کرتا رہا۔
ہمارے علاقے کے جنگلات کو واپسی کے بعد اسے پتہ چلا کہ ریاست رام پور کی ایک بہت امیر ناچنے والی لڑکی لام چور گاؤں کے نمبردار کے پاس رہنے آ گئی ۔ یہ گاؤں ہمارے گھر سے سات میل دور تھا۔ متوقع حملے کے پیشِ نظر نمبردار نے تیس مزارعوں کو چوکیداری پر لگا دیا۔ چوکیداروں کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا اور جب سلطانہ پہنچا تو جتنی دیر وہ اس گھر کا محاصرہ کرتے، وہ لڑکی اپنے زیورات کے ساتھ پچھلے دروازے سے فرار ہو گئی۔ جب نمبردار اور اس کے ملازمین نے لڑکی کے وجود سے لاعلمی ظاہر کی تو سلطانہ نے حکم دیا کہ ان سب کو باندھ کر تشدد کیا جائے۔ اس پر مزارعین نے اعتراض کیا کہ وہ ملازمین کے ساتھ جو چاہے کرے، مگر نمبردار کی اس طرح بے عزتی نہیں کر سکتا۔ سلطانہ نے اس بندے کو بکواس بند کرنے کو کہا۔ ایک ڈاکو رسی لے کر نمبردار کی طرف بڑھا تو اس مزارع نے دیوار سے ٹکا باس اٹھا کر اس پر حملہ کیا۔ اسی اثنا میں ایک اور ڈاکو نے اس پر گولی چلا دی جو مزارع کی چھاتی میں لگا۔ سلطانہ کو یہ ڈر لگا کہ کہیں گاؤں والے گولی کی آواز سے خبردار ہو کر حملہ نہ کر دیں، یہ لوگ فرار ہو گئے۔ مگر فرار ہوتے ہوئے نمبردار کے نئے گھوڑے کو ساتھ لیتے گئے۔ اگلی صبح مجھے اس بہادر مزارع کے قتل کا پتہ چلا۔ میں نے اس کے خاندان کے بارے معلومات لینے ایک بندہ بھیجا اور آس پاس کے تمام دیہاتوں کے نمبرداروں کو کھلا خط بھیجا کہ وہ متوفی کے خاندان کے لیے چندہ جمع کرنا چاہیں تو کریں۔ میرے خط کا جواب بہت فراغدلانہ تھا کہ ہندوستان کے غریب ہمیشہ سخی ہوتے ہیں۔ مگر یہ چندہ جمع کرنے کی نوبت نہیں آئی کہ اپنے مالک کے لیے جان دینے والا یہ بہادر آدمی 20 برس قبل نیپال سے آیا تھا اور اس کے دوستوں اور نیپال سے میرے استفسار پر اس کے بیوی بچوں کے بارے کوئی پتہ نہ چل سکا۔
اس واقعے کے بعد میں نے فریڈی کی درخواست قبول کر لی کہ سلطانہ کے خلاف اس کی مدد کروں۔ ایک ماہ بعد میں ہردوار اس کے صدر دفتر پہنچا۔ مرزا پور میں اپنی تعیناتی کے اٹھارہ برس کے دوران ونڈہم نے دس کول اور دس بھونیوں کو شیروں کے شکار کے لیے بھرتی کیا تھا۔ یہ لوگ مرزا پور کے جنگلات میں رہتے تھے۔ ان میں چار بہترین لوگ جو میرے دوست بھی تھے، کو ونڈہم نے فریڈی کے حوالے کیے تھے اور وہ لوگ ہردوار میرے منتظر تھے۔
فریڈی کا منصوبہ یہ تھا کہ میں اور یہ چار افراد مل کر سلطانہ کو تلاش کریں اور جب اس کا اتہ پتہ مل جائے تو ہم فریڈی کے مسلح ساتھیوں کو مناسب مقام تک لے جائیں جہاں سے حملہ کیا جا سکے۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا تھا، یہ دونوں کام رات کے وقت ہونے تھے۔ سلطانہ مسلسل حرکت میں رہتا تھا۔ شاید وہ پریشان تھا یا پھر اسے فریڈی کے منصوبوں کے بارے قبل از وقت علم ہو جاتا تھا، اس نے ایک روز سے زیادہ وقت کہیں نہیں گزارا اور رات کو ہمیشہ طویل سفر پر نکل جاتا تھا۔
موسم انتہائی گرم تھا اور بیکار بیٹھے رہنے کی وجہ سے ہم تھک گئے تھے۔ اس لیے اُس رات کھانے کے بعد میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ کر کے فریڈی سے بات کی۔ فریڈی برآمدے میں ایسی جگہ بیٹھا جہاں سے کوئی ہماری گفتگو نہ سن سکتا، میں نے اس کے سامنے یہ منصوبہ پیش کیا۔ فریڈی یہ بات پھیلاتا کہ ان چار افراد اور مجھے ونڈہم نے شیر کے شکار پر بلایا ہے اور ہمارے لیے ہلدوانی کے لیے ٹکٹ خریدے جائیں اور ہم رات کی ٹرین پر روانہ ہو جاتے۔ تاہم اگلے سٹیشن پر اتر کر میں اپنی رائفل اور میرے ساتھی فریڈی کی دی ہوئی بندوقوں کے ہمراہ ٹرین سے اتر جاتے۔ اس کے بعد ہمیں کھلی اجازت ہوتی کہ زندہ یا مردہ، جیسا بھی ہو، ہم سلطانہ کو لے آتے۔
میری تجویز سن کر فریڈی نے کافی دیر تک آنکھیں بند کر کے سوچ بچار کیا۔ اس کا وزن بیس سٹون اور چار پاؤنڈ (127 کلو) تھا اور ظاہر ہے کہ کھانے کے بعد غنودگی طاری ہو گئی ہوگی۔ مگر وہ پوری طرح ہوشیار تھا کہ اچانک سیدھے ہوتے ہوئے اس نے کہا: ‘نہیں۔ میں آپ لوگوں کی زندگیوں کا ذمہ دار ہوں اور اس پاگل پن کی اجازت نہیں دوں گا۔‘
چونکہ اس کے ساتھ بحث کا کوئی فائدہ نہیں تھا، سو اگلی صبح ہم پانچوں افراد بذریعہ ٹرین واپس گھروں کو لوٹ گئے۔ میری تجویز غلط تھی اور فریڈی نے اسے رد کر کے بالکل ٹھیک کیا تھا۔ ہماری کوئی سرکاری حیثیت نہیں تھی اور سلطانہ کو پکڑنے یا ہلاک کرنے کی کوششوں کی صورت میں ہمیں کوئی سرکاری تحفظ نہ ملتا۔ اس کے علاوہ یہ بھی طے تھا کہ سلطانہ کو زندہ گرفتا ر کرنا ہے۔ چونکہ سلطانہ کی جان یا ہمیں کوئی خطرہ نہیں تھا، اس لیے فوری کوئی مجبوری نہیں تھی۔
تین ماہ بعد جب برسات پورے عروج پر تھی، فریڈی نے محکمہ جنگلات کے ہربرٹ سے کو ترائی اور بھابھر کے سپرنٹنڈنٹ فریڈ اینڈرسن کو مانگا اور مجھے بھی ہردوار بلا بھیجا۔ وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ فریڈی نے سلطانہ کی مستقل قیام گاہ کا پتہ چلا لیا ہے جو نجیب آباد کے جنگلات میں تھی اور ہمیں اپنی مدد کو بلوایا تھا تاکہ ہم جنگل میں اس کا گھیراؤ کر کے فرار کا راستہ مسدود کرسکیں۔
ہربرٹ پولو کا مشہور کھلاڑی تھا اور اسے پچاس مسلح گھڑ سواروں کے ساتھ سلطانہ کے فرار کا راستہ مسدود کرنا تھا جبکہ اینڈرسن اور میں فریڈی کے ساتھ رہتے اور گھیراؤ میں مدد کرتے۔ اب فریڈی کو سلطانہ کے مخبروں کے بارے کوئی شبہ نہیں رہ گیا تھا اور فریڈی کے دو نائبین اور ہم تین کے علاوہ کسی کو اس حملے کے بارے علم نہیں تھا۔ ہر روز شام کو پولیس کے مسلح دستے طویل گشت پر بھیجے جاتے اور ہم بھی الگ سے گشت پر نکلتے اور اندھیرا چھانے پر ہم ڈیم بنگلے کو لوٹ جاتے جہاں ہمارا قیام تھا۔ مطلوبہ رات کو بجائے گشت پر جانے کے، ہم نے انہیں ہردوار کے گودام کی طرف بھیجا جہاں کئی بوگیاں کھلے دروازوں کے ساتھ کھڑی تھیں۔ یہ دروازے دفتری عمارات کی مخالف سمت تھے۔ انجن اور دیگر لوازمات بھی موجود تھے۔ جب ہم پہنچے تو پورا دستہ سوار ہو چکا تھا اور دروازے بند ہو رہے تھے۔ ہم لوگ گارڈ کی بوگی میں سوار ہوئے اور بغیر کسی سیٹی کے ٹرین چل پڑی۔ کسی قسم کے شک سے بچنے کے لیے ہم نے ہر کام معمول کے مطابق کیا تھا، چاہے وہ جوانوں کے کھانے کا معمول ہو یا پھر ہمارا۔
ہم نے تاریکی چھانے کے ایک گھنٹے بعد سفر شروع کیا۔ نو بجے ٹرین جنگل کے وسط میں موجود دو سٹیشنوں کے درمیان رک گئی۔ ہم نے پیغام بھجوایا کہ تمام افراد اتر جائیں اور پھر ٹرین آگے روانہ ہو گئی۔
فریڈی کے دستے کی تعداد 300 مسلح جوان تھی اور ان میں سے پچاس ہربرٹ کے زیرِ کمان تھے۔ ہربرٹ پہلی جنگِ عظیم میں ہندوستانی گھڑ سوار دستے کے ساتھ فرانس میں جنگ لڑ چکا تھا۔ ان لوگوں کو ایک رات قبل ہی طویل چکر کاٹ کر ان کے گھوڑوں کی جانب بھیج دیا گیا تھا۔ اب باقی کے اڑھائی سو جوان اور ہم لوگ بیس میل کے سفر پر روانہ ہو گئے۔ فریڈی سب سے آگے اور میں سب سے پیچھے تھا۔ سارا دن بادل جمع ہوتے رہے تھے اور جب ہم روانہ ہوئے تو موسلادھار بارش شروع ہو گئی۔
ہم نے شمال کی جانب ایک میل، پھر دو میل مشرق، پھر دو میل مغرب اور پھر باقی کا سفر شمال کو طے کرنا تھا۔ مجھے علم تھا کہ سمتوں کی تبدیلی کی وجہ ان دیہاتوں سے بچ کر گزرنا تھی جہاں سلطانہ کے مخبر موجود تھے۔ اس سفر کو جتنی مہارت سے طے کیا گیا، اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ ایک بار بھی کوئی مقامی کتے، جو کہ دنیا کے بہترین چوکیدار کتے ہیں، نہیں بھونکے۔ گھنٹوں پر گھنٹے گزرتے گئے اور ہمارا مارچ جاری رہا۔ میرے سامنے زمین دلدل بنی ہوئی تھی جہاں ہر دوسرا قدم گھٹنے تک کیچڑ میں دھنس جاتا کہ اس کیچڑ پر اڑھائی سو افراد مجھ سے قبل چل کر گئے تھے۔ کئی میل کا سفر ایلیفنٹ گھاس میں ہو کر گزرا جو میرے قد سے زیادہ اونچی تھی اور وہاں ایک ہاتھ سے اپنی آنکھیں بچائے اور بمشکل توازن برقرار رکھے جا رہا تھا۔ اس روز مجھے فریڈی کی ہمت پر حیرت ہوئی کہ اگرچہ اس کے سامنے کیچڑ زیادہ نہیں تھا مگر اس کا وزن مجھ سے لگ بھگ نو سٹون یعنی 45 کلو زیادہ تھا۔ سارا سفر ہم نے رکے بنا طے کیا۔
ہم لوگ نو بجے روانہ ہوئے تھے اور دو بجے میں نے فریڈی کو زبانی پیغام بھجوایا کہ کیا ہم درست سمت جا رہے ہیں؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک گھنٹہ قبل ہم نے شمال کی بجائے مشرق کو رخ کر لیا تھا۔ طویل وقفے کے بعد جواب آیا کہ کپتان صاحب نے کہا ہے کہ سب ٹھیک ہے۔ مزید دو گھنٹے ہم گھنے جنگلات اور گھاس کے میدانوں سے گزرے اور پھر میں نے دوسرا پیغام بھجوایا کہ سب رک جائیں، میں اس سے بات کرنے آ رہا ہوں۔ روانگی کے وقت سے ہم خاموش تھے اور میں خاموش اور تھکے ہوئے جوانوں کے پاس سے گزرتا ہوا آگے گیا جن میں سے کچھ گیلی زمین پر بیٹھے تھے تو کچھ نے درختوں سے ٹیک لگائی ہوئی تھی۔
فریڈی اور اینڈرسن چار رہنماؤں کے ساتھ کھڑے تھے۔ جب فریڈی نےپوچھا کہ کیا بات ہے تو میں نے بتایا کہ جوان تو سب ٹھیک ہیں مگر باقی سب غلط ہے کہ ہم دائروں میں گھوم رہے تھے۔ جنگلات میں ساری زندگی رہنے کی وجہ سے مجھے سمتوں کا تعین کرنے کی عادت ہو گئی تھی اور یہ صلاحیت دن اور رات، ہر وقت بخوبی کام کرتی تھی۔ سفر کے شروع میں سمت کی تبدیلی اتنی ہی واضح تھی جتنی کہ دو گھنٹے قبل شمال سے مشرق کی سمت تبدیلی۔ اس کے علاوہ ایک گھنٹہ قبل جب میں نے رکنے کا پیغام بھجوایا تھا تو میں سیمل کے درخت کے نیچے تھا جس پر گدھ کا گھونسلہ بنا ہوا تھا اور پہلا پیغام بھجواتے وقت بھی میں اسی درخت کے نیچے تھا۔
ہمارے چار رہنماؤں میں سے دو بھنٹو تھے جو سلطانہ کے ساتھ رہ چکے تھے اور انہیں چند روز قبل ہردوار کے بازار سے گرفتار کیا گیا تھا اور انہی کی معلومات پر اس حملے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہ لوگ دو سال سے وقتاً فوقتاً سلطانہ کے ساتھ کام کر چکے تھے اور آج رات کی کامیابی پر ان کو چھوڑ دینے کا وعدہ تھا۔ دیگر دو افراد مقامی چرواہے تھے جو ساری عمر انہی جنگلوں میں مویشی چراتے رہے تھے اور سلطانہ کو روزانہ دودھ بھجواتے تھے۔ چاروں سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے سختی سے راستہ بھولنے سے انکار کیا۔ تاہم جب سختی کی گئی تو جھجھک کر بولے کہ اگر انہیں پہاڑ دکھائی دیں تو وہ راستہ بہتر جان سکیں گے۔ اندھیری رات میں تیس میل دور پہاڑ کسی طور بھی دکھائی نہیں دے سکتے تھے کہ دھند اترنا شروع ہو گئی تھی۔ اس طرح فریڈی کا شب خون کا سارا منصوبہ خطرے میں پڑ گیا۔ یہ بات ہمارے رہنما واضح کر چکے تھے کہ دن کےو قت اس سمت سے پیش قدمی ممکن نہیں تھی کہ اونچے درخت پر بنی مچان پر سلطانہ کے دو آدمی مستقل نگرانی کرتے تھے۔
ہمارے رہنما بھٹکنے کے بارے بتا چکے تھے اور اب ہمارے پاس ایک گھنٹہ بچا تھا کہ پھر روشنی ہونے لگ جاتی اور ابھی ہمیں یہ بھی علم نہیں تھا کہ ہم مطلوبہ مقام سے کتنی دور ہیں۔ ہر گزرتا لمحہ ہماری ناکامی کے امکانات بڑھاتا جا رہا تھا۔ پھر مجھے ایک خیال آیا۔ میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ کیا مطلوبہ سمت میں کوئی پگڈنڈی یا کوئی ایسی بڑی علامت ہے کہ جہاں سے وہ راستہ پہچان سکیں۔ انہوں نےبتایا کہ سلطانہ کے کیمپ سے ایک میل جنوب میں بیل گاڑیوں کا راستہ گزرتا ہے۔ فریڈی کی اجازت سے میں نے رہبری سنبھالی اور سارے جوان میرے پیچھے چل پڑے۔ میں نے رفتار تیز رکھی اور میرے علاوہ شاید سبھی یہ سوچ رہے تھے کہ ہمارا رخ واپسی کی جانب ہے۔ بارش رک گئی تھی اور تازہ ہوا کی وجہ سے بادل چھٹ گئے تھے اور مشرق میں روشنی نمودار ہونے لگی تھی میں بیل گاڑی والے راستے پر پہنچا۔ اسی راستے کے بارے ہمارے رہنماؤں نے کہا تھا۔ راستے کو دیکھتے ہی ان کی خوشی سے اندازہ ہو گیا کہ وہ سچ بول رہے ہیں اور وہ جان بوجھ کر راستہ نہیں بھولے۔ یہاں سے انہوں نے رہنمائی کا فریضہ سنبھال لیا اور ایک میل دور جا کر انہوں نے جنگلی جانوروں کی ایک پگڈنڈی سنبھالی۔ نصف میل آگے جا کر تیس فٹ چوڑی ندی آئی اور مجھے یہ دیکھ کر انتہائی خوشی ہوئی کہ ہمیں یہ ندی عبور نہیں کرنی ہوگی۔ ترائی کی ندیوں سے مجھے ہمیشہ خوف آتا ہے کہ ان کے کناروں اور بہاؤ میں بڑے اژدہے دیکھے ہیں۔ ہمارا راستہ اس ندی کے دائیں کنارے کو مڑا جہاں ہمارے کندھوں تک گھاس آ رہی تھی۔ چند سو گز آگے جا کر ہمارے رہنما آہستہ ہوگئے اور مسلسل بائیں جانب دیکھنے لگے۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ ہم قریب پہنچ رہے ہیں۔ اب روشنی ہو چکی تھی اور سورج درختوں سے بلند ہو گیا تھا۔ اب مچان سے دیکھ لیے جانے کا پورا امکان تھا۔ اچانک اگلا بندہ زمین پر بیٹھ گیا اور اس کا ساتھی بھی بیٹھ گیا۔ پھر اس نے مڑ کر ہمیں بلایا۔
سب کو رکنے کا اشارہ کر کے فریڈی، اینڈرسن اور میں احتیاط سے آگے پہنچے۔ ان کے پاس لیٹ کر ہم نے گھاس سے جھانکا تو دیکھا کہ ایک بڑے درخت کی بالائی شاخوں پر زمین سے تیس یا چالیس فٹ بلندی پر مچان بنی ہوئی تھی۔ مچان پر دو آدمی تھے جن میں ایک کا دائیاں شانہ ہماری جانب تھا اور وہ حقہ پی رہا تھا جبکہ دوسرا بندہ پشت کے بل لیٹا ہوا تھا۔ یہ درخت عین اس جگہ تھا جہاں گھاس کا میدان اور جنگل ملتے تھے۔ رہنماؤں کے بقول سلطانہ کا کیمپ مزید تین سو گز جنگل کے اندر تھا۔
پہلا خیال تو یہ تھا کہ ہم جہاں لیٹے تھے، وہاں بیس گز چوڑی اونچی گھاس کی پٹی تھی جو سیدھا نہر تک جاتی تھی۔ ہم لوگ تھوڑا پیچھے جا کر ندی عبور کرتے اور مخالف سمت سے سلطانہ کے کیمپ کو پیش قدمی کرتے مگر رہنماؤں نے بتایا کہ ایسا ممکن نہیں۔ ندی بہت گہری تھی اور دوسرے کنارے پر دلدل بھی تھی۔ واحد امکان یہی تھا کہ ہم پورے دستے کو اس گھاس سے گزارتے مگر نگران کسی وقت بھی ہماری جانب دیکھ سکتے تھے۔
فریڈی کے پاس سروس ریوالور تھا اور اینڈرسن غیر مسلح۔ پورے دستے میں میں واحد بندہ تھا جس کے پاس رائفل تھی۔ پولیس والوں کے پاس بارہ بور کی بندوقیں اور بک شاٹ یعنی گراپ والے کارتوس تھے جو ساٹھ سے اسی گز تک موثر ہوتے ہیں۔ سو ان دو چوکیداروں سے مجھے ہی نپٹنا تھا۔ رائفل کی آواز سلطانہ کے کیمپ تک جاتی تو سہی مگر ہمارے رہنماؤں کا خیال تھا کہ جب رائفل کی آواز سننے کے بعد چوکیدار کیمپ نہ پہنچے تو پھر کیمپ سے صورتحال جاننے کے لیے بندے بھیجے جائیں گے۔ ان کے خیال میں یہ وقفہ ہمیں محاصرے کے لیے درکار وقت دے سکتا تھا۔
مچان پر بیٹھے دونوں بندے عادی مجرم اور قاتل تھے اور اپنی رائفل سے میں چاہتا تو ایک کے ہاتھ سے حقہ اور دوسرے کے جوتے کی ایڑی اڑا دیتا اور انہیں کوئی گزند نہ پہنچتا مگر کسی انسان کو قتل کرنا میرے بس سے باہر تھا۔ اس لیے میں نے متبادل تجویز پیش کی: فریڈی کی اجازت سے میں چھپتا چھپاتا ان کی طرف جاتا ہوں جو کہ میرے آسان کام تھا کیونکہ جنگل کی اونچی گھاس اس درخت تک پھیلی ہوئی تھی اور شبنم نچڑ رہی تھی۔ وہاں پہنچ کر میں مچان پر قبضہ کر لیتا اور فریڈی کے ساتھی محاصرے کا کام کر لیتے۔ پہلے پہل فریڈی نے ہچکچاہٹ دکھائی کہ مچان پر دو بندوقیں بھی تھیں، پھر اس نے اجازت دے دی۔ میں فوراً روانہ ہو گیا کہ رہنماؤں نے بتایا کہ چوکیداروں کی تبدیلی کا وقت ہو چکا تھا۔
ایک تہائی راستہ طے ہو چکا تو میں نے اپنے پیچھے آہٹ سنی اور مڑ کر دیکھا کہ اینڈرسن بعجلت چلا آ رہا تھا۔ اینڈرسن اور فریڈی کے درمیان کیا بات چیت ہوئی تھی، اس بارے کچھ کہنا ممکن نہیں کہ دونوں بہترین دوست تھے۔ خیر، اینڈرسن میرے ساتھ رہنے پر مصر تھا۔ اس نے اعتراف کیا کہ وہ جنگل میں خاموشی سے نہیں گزر سکتا سو اس بات کا کافی امکان تھا کہ مچان والے بندے آہٹ سن کر ہمیں دیکھ لیتے یا نئے آنے والے چوکیدار ہمیں دیکھ لیتے یا یہ بھی ممکن تھا کہ درخت کے پاس چاروں چوکیدار ایک ساتھ کھڑے ملتے۔ نہتا ہونے کی وجہ سے اینڈرسن اپنا دفاع کرنے کے قابل نہ ہوتا مگر پھر بھی میری خاطر وہ آن پہنچا۔ اینڈرسن سے زیادہ ضدی کوئی نہیں۔
مایوسی کی حالت میں میں نے واپسی کا سفر اختیار کیا تاکہ فریڈی کی مدد لے سکوں۔ فریڈی اس دوران مجھے اجازت دینے کے فیصلے پر نظر ثانی کر چکا تھا (بعد میں مجھے پتہ چلا کہ بھنٹو رہنماؤں نے بتایا تھا کہ مچان والے چوکیداروں کا نشانہ بہت عمدہ ہے) اور جب اس نے ہمیں واپس آتے دیکھا تو اس نے حملے کا حکم دے دیا۔
پچاس یا اس سے زیادہ افراد کھلا میدان عبور کر چکے تھے اور سب سے آگے والے کیمپ سے 200 گز دور تھے کہ ایک پرجوش جوان کانسٹیبل نے مچان کو دیکھتے ہی اس پر اپنی بندوق سے گولی چلا دی۔ مچان پر موجود چوکیدار ایک لمحے میں زمین پر پہنچ گئے اور وہاں بندھے گھوڑوں کو کھول کر ہوا ہو گئے۔ اب چونکہ خاموشی کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اس لیے فریڈی نے اپنی بلند آواز میں حملے کا حکم دے دیا۔ ایک سیدھی قوس کی شکل میں ہم سب کیمپ جا پہنچے۔
کیمپ چھوٹے سے قطعے پر بنا تھا اور میں تین خیمے اور ایک گھاس پھونس سے بنا جھونپڑا تھا جو باورچی خانے کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ ایک خیمے میں آٹا، چاول، دال اور چینی کی بوریوں کے علاوہ گھی کے ڈبے، دو بڑے ڈبوں میں بارہ بور کے کئی ہزار کارتوس بھی تھے اور گیارہ بندوقیں ڈبوں میں بند تھیں۔ دیگر دو خیمے بطور خوابگاہ استعمال ہوتے تھے جہاں کپڑے اور کمبل وغیرہ بکھرے ہوئے تھے۔
باورچی خانے کے پاس ہی ایک درخت سے تین کھال اتری بکریاں ٹنگی ہوئی تھیں۔ عین ممکن تھا کہ چوکیداروں کی آمد پر گھبرا کر کچھ لوگ نیند سے بیدار ہوتے ہی بھاگ کر کیمپ کے پاس موجود گھاس میں چھپ گئے ہوں، سو ایک لمبی قطار کی کل میں جوانوں کو جنگل کی تلاشی کا حکم دیا گیا۔ یہ تلاشی ہربرٹ اور اس کے جوانوں کے مقام تک جانی تھی۔ جب تک قطار بنتی، میں نے اس کیمپ کے گرد چکر لگا کر قدموں کے نشانات تلاش کیے۔ دس بارہ افراد ننگے پیر بھاگتے ہوئے پاس موجود نالے میں گھسے تھے۔میں نے فریڈی سے کہا کہ چل کر دیکھتے ہیں کہ یہ نشان کہاں جاتے ہیں۔ نالہ پندرہ فٹ چوڑا اور پانچ فٹ گہرا تھا اور فریڈی اور اینڈرسن کے ہمراہ میں اس کے کنارے کنارے چل پڑا۔ دو سو گز آگے جا کر پتھریلی سطح آئی جہاں نشانات گم ہو گئے۔ اس جگہ سے آگے نالہ پھیل جاتا تھا اور جہاں ہم کھڑے تھے، اس کے مقابل دوسرے کنارے پر برگد کا ایک بہت گھنا درخت تھا جس کے کئی تنے تھے اور شاخیں زمین پر لٹک رہی تھیں۔ مجھے یہ جگہ چھپنے کے لیے انتہائی مناسب نظر آئی۔ کنارے پر پہنچ کر دیکھا تو وہ میری تھوڑی تک آتا تھا۔ میں نے چڑھنے کی کوشش کی۔ کنارے پر گرفت کے لیے کوئی چیز نہیں تھی اور کنارے میں قدم جمانے کی گنجائش نہیں تھی کہ مٹی بہت بھربھری تھی۔ میں ابھی یہ سوچ رہا تھا کہ تھوڑا آگے جا کر کنارے پر چڑھوں اور پھر لوٹ کر اس جگہ کو دیکھوں کہ اچانک کیمپ کی سمت سے کئی بندوقوں کی آواز آئی۔ ہم نے بھاگم بھاگ کیمپ کا رخ کیا تو دیکھا کہ ایک حوالدار کو سینے میں بندوق کے چھرے لگے ہیں اور اس کے پاس ہی ایک ڈاکو پڑا تھا جس کی دونوں ٹانگوں پر بندوق کے چھرے لگے تھے۔ حوالدار درخت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا اور اس کی چھاتی پر بائیں جانب خون کا بڑا نشان تھا۔ فریڈی نے اپنی چھوٹی بوتل کھول کر حوالدار کے منہ سے لگائی مگر حوالدار نے اپنا منہ موڑ کر کہا: ‘صاحب، یہ شراب ہے، میں نہیں پی سکتا۔‘ جب ہم نے اصرار کیا تو وہ بولا: ‘ساری عمر میں نے شراب نہیں چکھی۔ اب میں اپنے ہونٹوں پر شراب لے کر خالقِ حقیقی سے کیسے ملوں؟ مجھے پیاس لگی ہے، تھوڑا سا پانی پلا دیں۔‘ اس کا بھائی ساتھ ہی کھڑا تھا کسی نے اپنا ہیٹ اتار کر اسے دیا جو وہ بھاگ کر ندی کے گدلے پانی سے بھر لایا۔ یہی ندی پہلے ہمارے لیے مشکلات کا سبب دکھائی دیتی تھی۔ اس کے زخم کا سبب ایک گراپ بنا تھا اور جب میں نے اسے کھال کے نیچے ٹٹولنے کی کوشش کی تو نہیں ملا۔ میں نے کہا: ‘حوالدار صاحب، حوصلہ رکھو۔ نجیب آباد کا ڈاکٹر تمہیں ٹھیک کر دے گا۔‘ مسکراتے ہوئے وہ بولا: ‘صاحب، میں حوصلہ رکھے ہوئے ہوں۔ مگر کوئی ڈاکٹر میرا علاج نہیں کر سکتا۔‘
ڈاکو کو شراب کی کوئی ممانعت نہیں تھی سو اس نے فوراً ہی بوتل خالی کر دی۔ شاید اسے اس کی ضرورت بھی تھی کہ بارہ بور کے گراپ بہت قریب سے لگے تھے۔
سلطانہ کے کیمپ سے سامان لے کر دو سٹریچر بنائے گئے اور پولیس کے جوانوں نے ذات پات کو بھلا کر اس نچلی ذات والے ڈاکو اور حوالدار کو اٹھایا اور ان کے ساتھ اضافی بندے بھی تھے۔ یہ جماعت جنگلوں سے ہوتی ہوئی بارہ میل دور نجیب آباد کے ہسپتال کو روانہ ہو گئی۔ ڈاکو تو راستے میں ہی صدمے اور جریانِ خون سے مر گیا اور حوالدار ہسپتال میں داخلے کے چند منٹ بعد فوت ہوا۔