راحت زیب
محفلین
بلاول بھٹو نےگزشتہ روز تھرکے پہلے ہوائی اڈے ’مائی بختاورائرپورٹ‘ کاافتتاح کیا توخوشی ہوئی کہ تھری جو کیکڑا نماٹرکوں میں سفر کرتے تھے اب ہوائی جہازوں میںلمبی اُڑانیں بھریں گے۔ساتھ ہی یہ بھی خیال آیاکہ وفاقی حکومت نے تو اسلام آباد کے نئے ائرپورٹ کو بے نظیر بھٹوکے نام سے منسوب نہیں کیا۔سندھ حکومت ہی تھرمیں بننے والے ائرپورٹ کو بختاور کے بجائے بے نظیر کے نام کر دیتی۔
پھر خیال آیا، یہ توبے نظیر بھٹو کی صاحبزادی کا نام نہیں ہے۔جس طرح بے نظیر نے اپنی صاحبزادی کا نام بختاور رکھا اسی طرح اگرآج وہ خود بھی زندہ ہوتیں توتھر میں بننے والے ائرپورٹ کا نام مائی بختاورسے ہی منسوب کرتیں۔مائی بختاور میں ایسی کیا بات تھی کہ بے نظیر بھٹو بھی ان کے کردار سے اتنی متاثر تھیں کہ اپنی بیٹی کانام بختاوررکھا۔
کہنے کو تو وہ ایک غریب ہاری خاندان میں پیدا ہونے والی عام سی لڑکی تھی لیکن بڑھتی عمر کے ساتھ جیسے جیسے شعور کی سیڑھیاں چڑھتی گئی صوفی شاہ عنایت کا ’جوبوئے، وہ کھائے‘کا نعرہ اُس کے ایمان کا حصہ بنتا چلا گیا۔
ٹنڈوباگوکے قریب گوٹھ دودوخان میں غریب ہاری مرادخان لاشاری کے گھر پیدا ہونے والی مائی بختاورکھیتوں میں کام کرتے کرتے جوانی کی دہلیز تک پہنچی تو ایک اور ہاری ولی محمد لاشاری سے بیاہ دی گئی۔ ولی محمد عمر کوٹ میںچوہدری سعد اللہ کی جاگیر میں ہاری کے طور پر کام کرتاتھا ۔یہ جاگیر انگریزوں نےچوہدری کے بڑوں کو ان کی وفاداری کے صلے میں دی تھی۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب سندھ میں کامریڈحیدربخش جتوئی کی سرکردگی میں سندھ ہاری کمیٹی سرگرمِ عمل تھی۔مائی بختاورکا شوہربھی اس کمیٹی کا رُکن تھا۔سندھ ہاری کمیٹی نے یہ تحریک شروع کر رکھی تھی کہ’’ آدھی فصل ہاری کی جو فصل کاشت کرے، آدھی فصل زمین کے مالک کی‘‘۔ یہ تحریک نواب شاہ سے شروع ہوئی تھی اور بڑی تیزی سے سندھ بھر میں پھیل گئی تھی۔
جون 1947ء میں چوہدری سعداللہ اور ہاریوں کے درمیان ادھ بٹائی حصے کے لیے تنازعہ چل رہا تھا۔ جاگیردار کسی صورت بھی ہاریوں کا ادھ بٹائی کا مطالبہ تسلیم کرنے کو تیار نہتھا۔ فصل تیار تھی اور کھیتوں میں پڑی تھی کہ 22 جون 1947ء کو تمام ہاری مردمائی بختاورکے شوہر ولی محمد لاشاری سمیت اپنے گوٹھ سے جھڈو ضلع میرپورخاص میں سندھ ہاری کمیٹی کی کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے ہوئے تھے۔
تیار فصل کی حفاظت اب خواتین کے ذمے تھی اور فصل کی حفاظت پر مامور خواتین کی قیادت مائی بختاور کر رہی تھی۔ جاگیردار نے موقع غنیمت جانااور مسلح افراد کے ہمراہ فصل اُٹھانے پہنچ گیا۔لیکن خواتین کی جانب سے اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔مائی بختاورنے اپنے دوپٹے کو کمر سے باندھ لیا اور کلہاڑی اٹھا کر ایک چٹان کی طرح اناج کے سامنے کھڑی ہوگئی۔اس دوران دیگر خواتین نے چوہدری کے ساتھیوں سے ہتھیار چھین لیے اور ان کی پٹائی شروع کر دی۔
مائی بختاور نے چوہدری سعداللہ کی بندوق بھی چھین لی تھی۔اس سے پہلے کہ وہ چوہدری پر حملہ آورہوتی ،ایک کارندے نے مائی بختاور پر کلہاڑی کا وار کردیا۔مائی بختاور نے زخمی حالت میں بھی مزاحمت جاری رکھی ۔چوہدری سعداللہ کے منیجر چوہدری خالق نے اپنے مالک کی جان کو خطرے میں دیکھ کر گولی چلادی جس کے نتیجے میں مائی بختاور ہاری تحریک کی پہلی شہید بن کر ،مزاحمت کی ایک نئی تاریخ رقم کر گئی۔
سسئی، سوہنی،مارئی ،مومل ،نوری ،لیلا اور سورٹھ جیسے مزاحمتی کردار تو لطیف سرکار کے سُروں میں آج زندہ ہیں لیکن مائی بختاورکے خون سے سرخ ہونے والے اناج کے دانےبھی شاہ عنایت کے ’جوبوئے، وہ کھائے‘ کے نعرے کو دوام بخش گئے ہیں۔تھرمیں قائم ہونے والے ہوائی اڈے کو مائی بختاورکے نام منسوب کرنا یقینی طور پر احسن اقدام ہے لیکن مائی بختاور کی روح حقیقی معنوں میں اسی وقت خوش ہوگی جب اس دھرتی پر جوبوئے گا، وہی کھائے گا۔
قومی خبریں - مائی بختاور کون تھی؟ - Latest News | Daily Jang
آخری تدوین: